مہدویت نامہ
 

معرفت نامہ(ماخوز از زیارت امام زمانہ علیہ السلام)حصہ اول

بسم اللہ الرحمن الرحیم “
” من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة “
”جوشخص اس حالت میں مرگیا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کی معرفت حاصل نہ کی تو وہ جاہلیت کے زمانہ کی موت مرا یعنی کفر پر مرا“۔

معرفت نامہ ماخوذاز: زیارت امام زمانہ علیہ السلام(از مفاتیح الجنان)
ترجمہ وتشریح : السید افتخار حسین نقوی النجفی



حضرت ولی العصر امام زمانہ (عج) کے حضور اظہار عقیدت
امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں
اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام سے کیسا رابطہ رکھا جائے اور ان کے بارے کیسا عقیدہ ہونا چاہیے اور یہ کہ میرے لئے پوری کائنات کے لئے ان کا کیافائدہ ہے، ان کی پہچان کیا ہے، آئمہ اطہار علیہ السلام نے زبان وحی ترجمان سے زیارات کے انداز میں ہمارے لئے سب کچھ بیان کردیا ہے ذیل میں ہم حضرت ولی العصر علیہ السلامکے متعلق تفصیلی عقیدت کے اظہار کے حوالے سے آپ کے حرم میں جا کر جو زیارت پڑھی جاتی ہے اس کا انداز بیان قارئین کےلئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اپنی آخری حجت کے وسیلہ سے ہمیں ان تمام بیانات پر پورا اترنے کی توفیق عطا کرے۔

امام زمانہ علیہ السلام کا تعارف
۱۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَا خَلِی فَةَ اللّٰہِ وَخَلِی فَةَ اٰبَآئِہِ ال مَھ دِیِّی نَ۔اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَا وَصِیَّ ال اَو صِیَآئِ ال مَاضِی نَ ۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَا حَافِظَ اِس رَارِ رَبِّ ال عَالَمِی نَ۔
آپ علیہ السلام پر سلام اے اللہ کے خلیفہ (قائم مقام) اور ہدایت یافتہ اپنے آباءکے جانشین (خلیفہ) ۔
٭ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام ہی اس وقت اللہ کی مخلوق میں اللہ کے خلیفہ ہیں، اور تمام انبیاءاور اوصیاءکے آخری خلیفہ ہیں ، آپ خاتم الاوصیاءاور خاتم الخلفاءہیں۔
اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر سب سے پہلا خلیفہ ”انی جاعل فی الارض خلیفہ“ کا بیان جاری فرما کر،حضرت آدمعلیہ السلام کو قرار دیا اور اپنا آخری خلیفہ اپنی زمین پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کو قرار دیا ہے“۔
آپ علیہ السلام پر سلام اے گزرے ہوئے زمانوں میں جو اوصیاءرہے ہیں، ان سب کے وصی علیہ السلام۔
٭اس کا مطلب یہ ہوا کہ گذشتہ انبیاءعلیہ السلام کے جتنے اوصیاءگزرے ہیں ان سب اوصیاءکا آخری سلسلہ امام زمانہ علیہ السلام ہیں اور آپ علیہ السلامسب اوصیاءعلیہ السلام کے وصی ہیں اور آپ خاتم الاوصیاءعلیہ السلام ہیں۔
اے رب العالمین کے اسرار اور رازوں کے نگہبان آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنی کائنات کے پوشیدہ اسرار ہیں جن سے انسان واقف نہیں ہے اور ان تمام اسرار کی حفاظت کرنے والا موجود ہے اور وہ حضرت ولی العصر علیہ السلام ہیں۔
حضرت امام مہدی (عج) کی طہارت وساری مخلوق پر برتری
۲۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَا بَقِیَّةَ اللّٰہِ مِنَ الصَّف وَةِ ال مُن تَجَبِی نَ۔اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَاب نَ ال اَن وَارِ الزَّاھِرَةِ۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَاب نَ ال اَع لاَ مِ ال بَاھِرَةِ۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَاب نَ ال عِت رَةِ الطَّاھِرَةِ اَلسَّلاَ مُ۔عَلَی کَ یَامَع دِنَ ال عُلُو مِ النَّبَوِیَّةِ ۔
اے منتخب شدگان میں سے چنے ہوئے نمائندگان میں اللہ کے بقیہ ۔اے بقیة اللہ....
٭اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے منتخب بندگان کو اس زمین پر حجت بنا کر بھیجا اور پھر ان تمام منتخب افراد میں بھی انتخاب در انتخاب کیا اور سب سے برتر اور بزرگ تر حضرت ختمی مرتبت حضرت محمدمصطفی خاتم النبیین ، رحمت العالمین ہیں اور ان کے بعد ان کے اوصیاءعلیہ السلام ہیں اس بات کی طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ ان سب میں آخری حجت اور اللہ کا ذخیرہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔
٭اے چمکتے دمکتے خوبصورت نورانی ہستیوں کے فرزند ،آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔
٭اے بہت ہی واضح، روشن اور سب پر عیاں پھیلے پرچموں کے فرزند ،آپ علیہ السلام پر سلام۔
٭اے عترت طاہرہ علیہ السلام کے فرزند، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔
٭ان جملوں میں آپ علیہ السلام کے نسب کی برتری کو بیان کیا گیا ہے آپعلیہ السلام کے تمام آباءو اجداد پاک و طاہر ہیں، مقدس ہیں، معروف ہیں، انوار ہیں، آپعلیہ السلام کی خلقت نورانی ہے، آپعلیہ السلام خاکی نہیں ہیں، جو آپعلیہ السلام سے جاہل رہے تو گویا وہ عقل کا اندھا ہے کیونکہ سورج کی روشنی سے اندھا ہی بے بہرہ ہوتا ہے، آپعلیہ السلام ایسا روشن اور واضح موجود ہیں کہ تھوڑا سا تامل کرنے پر آپعلیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا سب کے لئے آسان ہے۔
اے علوم نبویہ کے معدن (کان)، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔
٭اس جملہ سے واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح ایک معدن میں خزانہ جمع ہوتا ہے جس کی انتہاءکو نہیں پہنچا جا سکتا، اور معدن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہ ختم نہیں ہوتا اور وہ سب کے لئے ہوتا ہے لیکن معدن سے وہی فائدہ اٹھاتا ہے جو معدن تک خود کو پہنچاتا ہے اور معدن سے لینے کا ارادہ کرتا ہے ، معدن اپنا فیض دینے کےلئے کسی کے گھر پر نہیں آجاتا، بلکہ معدن کے خزانہ کو لینے کےلئے محنت ، مشقت اور جدوجہد کرنا ہوتی ہے ۔ حضرت ولی العصر علیہ السلام، نبویہ علوم کی معدن ہیں بس جو بھی ان علوم و معارف سے کچھ لینا چاہتا ہے تو اسے اس ذات سے رابطہ کرنا ہوگا۔ ان سے لینے کےلئے اپنے اندر ضروری شرائط پوری کرنا ہوں گی، محنت ومشقت کرنا ہوگی، علوم بغیر حاصل کرنے کے نہیں ملتے، پڑھنا ہوگا،ان ذرائع سے علوم حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کرنا ہوگی جو آئمہ علیہ السلام نے ہمارے لئے تعلیم دیے ہیں۔

امام مہدی (عج) اللہ تک جانے کا وسیلہ
۳۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَا بَابَ اللّٰہِ الَّذِی لاَ یُو تیٰٓ اِلاَّ مِن ہُ۔اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَا سَبِی لَ اللّٰہِ الَّذِی مَن سَلَکَ غَی رَہ ھَلَکَ۔
اے اللہ کا ایسا دروازہ کہ جس پر آئے بغیر خدا تک جانا ممکن نہیں ہے، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔
٭اے اللہ کا وہ راستہ کہ جس پر چلے بغیر خدا کا راستہ نہیں ملتا اور جو بھی اس راستہ کو چھوڑدے دوسرے راستہ سے خدا تک جانے کا ارادہ کرے گا، تو وہ ہلاک ہو گا آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔
ان دو جملوں میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا تک جانے اور توحید پرست بننے کے لئے حضرت ولی العصر علیہ السلام کو وسیلہ بنانا ہوگا جب تک اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام سے وصل نہ ہوں گے اس وقت تک خداوند سے وصل نہیں ہو سکتا، خدا تک جانے کا ذریعہ آپ ہی کی ذات ہے، اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے اور نہ ہی اس راستہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستہ سے خدا تک جانے کا امکان ہے۔

امام مہدی (عج) ہر شئی پر ناظر
۴۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَانَاظِرَ شَجَرَةِ طُو بٰٰی وَسِد رَةِ ال مُن تَھٰی۔
اے شجرہ طوبیٰ اور سدرہ منتہٰی کے ناظر، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔
شجرہ طوبیٰ سے مراد وہ درخت ہے جس کو قرآن مجید میں شجرہ طیبہ کا نام دیا گیا ہے جس کی وصفیں بیان کی گئی ہیں اور سدرة المنتہیٰ اس مرکز کانام ہے جس تک حضرت ختمی مرتبت شب معراج گئے تھے گویا ان دو عناوین کو بیان کرنے سے مقصود آپ کی عظمت وکرامت کو واضح کرنا ہے اور آپ علیہ السلام کی خلقت پر روشنی بھی ڈالنا مقصود ہے کہ آپعلیہ السلام ان انوار میں سب پر نمایاں تھے کیونکہ آپ علیہ السلام ہی اللہ کے نمائندگان میں آخری ہیں لہٰذاآپ علیہ السلام سے پہلے(گذشتگان) سب کے حالات اور ان کے امتیازات اور مراتب پرآپ ناظر ہیںاور ان سے واقف وآگاہ ہیںاور سب پر آپ علیہ السلام کی نظر ہے ان کے حوالے سے کچھ بھی آپ علیہ السلام پرپوشیدہ نہ ہے، آپ علیہ السلام ہی سب کی مراد ہیں اور سب کے مقاصد کو آپ علیہ السلام نے ہی پورا کرنا ہے جو کچھ گذشتگان میں تھا وہ سب کچھ آپ علیہ السلام میں ہے، تب ہی تو آپ علیہ السلام سب کے وارث ہیں، سب کے علوم بھی آپ علیہ السلام کے پاس ہیں، سب کے فضائل اور تمام مراتب آپعلیہ السلام میں موجود ہیں آپ علیہ السلام کے وجود کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نمائندگان کا مظہر کامل بنایا ہے۔

امام مہدی (عج) نور ِ خدا
۵۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَانُو رَ اللّٰہِ الَّذِی لاَ یُط فٰی ۔
اے اللہ کے نور جس نے بجھنا نہیں ہے جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا ،آپ علیہ السلام پر سلام ہو ۔
اللہ کا نور آپعلیہ السلام ہیں، یعنی آپعلیہ السلام اللہ کی پہچان ہیں، اللہ کا دین آپعلیہ السلام ہیں، اللہ کی کلام ناطق آپ علیہ السلام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کونور کہا ہے، اپنی کتاب کو نور کہا ہے، اپنی طرف سے ہدایت کو نور کہا ہے،، علم کو بھی نور کہا گیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اپنے نمائندہ کو اپنا نورقرار دیتا ہے تو اس میں نور کے تمام معانی پوشیدہ ہوتے ہیں اور اس لفظ میں ایک اشارہ دیا جاتا ہے کہ اللہ کا نمائندہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا وہ سب کے لئے ہدایت ہوتا ہے، سب کاراہنما ہوتا ہے، سب کے لئے چراغ کا کام دیتا ہے اور پھر اللہ کا نمائندہ ایک ایسا منبع ہے کہ جسے کوئی نقصان نہیں دے سکتا، وہ اللہ کی رحمت کا مظہر کامل ہوتاہے، اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے کوئی مار سکتا ہے، یہ ساری وصفیں حضرت ولی العصر علیہ السلام میں موجودہیں اس سے آپعلیہ السلام کی زندگی کی طرف بھی اشارہ ہے۔یعنی آپ علیہ السلام اس وقت زندہ موجود ہیں۔آپ کا فیضان موافق ومخالف کیلئے اللہ کے اذان وارادے سے جاری و ساری ہے اور اس میں انقطاع نہیں ہے پوری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے نورانی وجودسے روشن و برقرار رکھا ہوا ہے ۔

امام مہدی(عج) حجت ِ خدا
۶۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَا حُجَّةَ اللّٰہِ الَّتِی لاَ تُخ فٰی۔اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ یَا حُجَّةَ اللّٰہِ عَلٰی مَن فِی ال اَر ضِ وَالسَّمَآئِ۔
٭اے اللہ کے ایسے نمائندہ جو کہ مخفی نہیں رہ سکتے، آپعلیہ السلام پر سلام ہو۔
٭اہل زمین اور اہل آسمان پر اللہ کی حجت، آپعلیہ السلام پر سلام ہو۔
٭ان دوجملوں میں آپعلیہ السلام کو اللہ کی حجت کہا گیا ہے، حجت کا معنی دلیل ، راہنما کے ہوتا ہے اور ایسی شئی پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص اپنی بات منوا سکے اور جو ہستی اللہ کی حجت قرار پاتے ہیں تو گویا وہ ایسی ہستی ہوتے ہیں جن کے وجود سے اللہ کا وجود ثابت ہوتاہے، جن کے بیان سے اللہ کی پہچان ہوتی ہے، وہی اللہ کے نمائندہ ہیں اور اللہ اپنی مخلوق سے ان کے ذریعہ سوال کرے گا کہ میرا نمائندہ، میری پہچان کروانے کےلئے موجود تھا اور تم نے کس وجہ سے میرا انکار کردیا،منکرین لاجواب ہوں گے، اللہ کی حجت کا معنی یہ بھی ہے کہ ان کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے تمام بندگان پر ہی فرض کیا بلکہ زمین وآسمان میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اطاعت کو فرض قرار دیا اور ساری مخلوقات آپ کے فرمان کے تحت چل رہی ہے ، ہرشئی کی افادیت اللہ کے حکم و ارادہ و مشیت سے آپ کے وجود سے وابستہ ہے اور ہر شئی آپ کے سامنے خاضع و خاشع ہے جبکہ بندگان کو حکم ہے کہ وہ بھی آپ کے حضور سر تسلیم خم کریں اور آپ کے سلطانی فرامین کی خلاف ورزی نہ کریں۔

امام مہدی علیہ السلام کی معرفت
۷۔ اَلسَّلاَ مُ عَلَی کَ سَلاَ مَ مَن عَرَفَکَ بِمَا عَرَّفَکَ بِہِ اللّٰہُ وَنَع تَکَ بِبَع ضِ نُعُو تِکَ الَّتِی ٓ اَن تَ اَھ لُھَا وَفَو قَھَا ۔
٭آپ علیہ السلام پر ایسے شخص کی مانند سلام ہو اے میرے مولا :جس نے آپ علیہ السلام کو اس طرح سے پہچان لیا جیسی آپ کی پہچان اللہ تعالیٰ نے اس کے واسطے کرائی ہے اور اس نے آپ علیہ السلام کے اوصاف میں سے کچھ اوصاف کو بیان کیا ہے، ایسے اوصاف جن کے آپ علیہ السلام لائق ہیں بلکہ آپعلیہ السلام تو ان اوصاف سے بھی مافوق ہیںجن کا اظہار بندگان کر سکتے ہیں ۔
اس جملہ میں سلام پیش کرنے والا اپنی عاجزی اور کمزوری کااظہار کررہا ہے اس لئے وہ سلام بھیجنے کی کیفیت کو ایسے شخص کے سلام کی طرف نسبت دے رہا ہے کہ جسے آپ علیہ السلام کی مکمل معرفت ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ آپ علیہ السلام کے جتنے بھی اوصاف بیان کیے جائیں ان کے ذریعہ آپ کا حق ادا نہیں ہوتا آپ علیہ السلام ہر اچھی صفت کے لائق ہیں لیکن حق بات یہ کہ آپ علیہ السلام ان اوصاف میں نہیں سمو پاتے، آپ علیہ السلام تمام اوصاف سے مافوق ہیں، ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ کوئی بھی آپ علیہ السلام کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا ۔
مگر یہ کہ خود خدا آپ کی معرفت کروا دے، یہ بات حضور پاک کی اس حدیث کی طرف اشارہ بھی ہے جس میں آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے علی علیہ السلام! تیری معرفت یا اللہ کو ہے یا مجھے اور میری معرفت یا اللہ کو ہے یا آپ کو، جس طرح اللہ کی معرفت جو ہے وہ یاتو اے علی علیہ السلام آپ کو ہے یا مجھے....آج یہی بات آخری وصی کیلئے پوری طرح صادق ہے ۔
پس آج کے دور میں حضرت ولی العصر علیہ السلام کی معرفت تو ان ہستیوں ہی کو ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا نمائندہ اپنی زمین پر بنایا ہے یعنی آپ کی صحیح معرفت اللہ کوہے، جو آپ کا خالق و مالک ہے اور اللہ کے رسول کو ہے اور اللہ کے رسول کے اوصیاءجو آپ سے پہلے ہوئے، ان کو ہے اور ان ہستیوں نے جن اوصاف کے ساتھ آپ کی پہچان کروائی وہ آپ کے سارے اوصاف نہین ہیں بلکہ بعض اوصاف ہیں بس میں اپنے سلام کو ان سے منسوب کرتا ہوں کہ ان ہستیوں نے جس معرفت سے آپ پر سلام بھیجا ہے ویسا ہی سلام میری طرف سے آپعلیہ السلام پر ہو اگر چہ اس سلام کی کنہ اور حقیقت سے میں واقف نہیں ہوں۔

امام وقت کے بارے عقیدہ کیسا ہو؟
امام زمانہ علیہ السلام سے اظہار عقیدت کا انداز
۸۔ اَش ھَدُ اَنَّکَ ال حُجَّةُ عَلٰی مَن مَّضٰی وَمَن بَقِیَ وَاَنَّ حِز بَکَ ھُمُ ال غٰلِبُو نَ وَاَو لِیَآئَکَ ھُمُ ال فَآئِزُو نَ وَاَع دَآئَکَ ھُمُ ال خَاسِرُو نَ وَاَنَّکَ خَازِنُ کُلِّ عِل مٍ وَّفَاتِقُ کُلِّ رَت قٍ وَّمُحَقِّقُ کُلِّ حَقٍّ وَّمُب طِلُ کُلِّ بَاطِلٍ رَضِی تُکَ یَا مَو لاَیَ اِمَامًا وَّھَادِیًّا وَّوَلِیًّا وَّمُر شِدًا لَّآ اَب تَغِی بِکَ بَدَلاً وَّلَآ اَتَّخِذُ مِن دُو نِکَ وَلِیًّا۔
اے میرے امام علیہ السلام: میں گواہی دیتا ہوں! بے شک آپعلیہ السلام حجت ہیں ان پر جو گذر گئے اور ان پر بھی آپعلیہ السلام حجت ہیں جو باقی ہیں اور یہ کہ آپ کی جماعت نے سب پرغلبہ حاصل کرنا ہے اور جو آپ کے اولیاءہوں گے آپ کے ساتھی ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے اور جو آپ علیہ السلام کے دشمن ہیں وہ خسارہ اٹھانے والے ہوں گے اوریہ کہ آپ ہی ہر علم کے خزانہ دار ہیں اور ہرمشکل و پیچیدہ امر کو سلجھانے والے آپ علیہ السلام ہی ہیں۔
ہر حق کو ثابت کرنے والے اور اس کو وصول کرنے والے آپ علیہ السلام ہی ہیں، ہرباطل کو ختم کرنے والے ، اسے مٹانے والے اور اس کے بطلان اور غلط ہونے کو ثابت کرنے والے بھی آپ علیہ السلام ہیں۔
اے میرے مولا! میں نے آپ کو اپنا امام بنایا ہے، آپعلیہ السلام میرے ہادی ہیں، میرے رہبرہیں، میرے ولی ہیں، میرے سرپرست ہیں، میرے مرشد ہیں۔
میرے مولا! میں آپعلیہ السلام کے بدلے میں کسی بھی چیز کو نہیں چاہتاہوں اور نہ ہی آپ کے سوا کسی کو اپنا ولی مانتا ہوں، آپ ہی میری پسند اور آپ علیہ السلام ہی میرے لئے سب کچھ ہیں۔

امام مہدی (عج) تمام انبیاءپر حجت
اس حصہ میں جو کچھ عقیدت کا اظہار کیا گیا بڑا واضح و روشن ہے تشریح کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا اس جگہ ایک جملہ جو بیان ہوا ہے کہ آپ گذشتگان پر حجت خدا ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سے پہلے جتنے اوصیاء، اللہ کے خلفائ، انبیائعلیہ السلام، رسل، اللہ کے نمائندگان گذرے ہیں، سب پر آپ حجت ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سب آپ علیہ السلام پر ایمان لائے اور سب نے آپ علیہ السلام کا تعارف کروایا اور یہ ان پر لازم تھا، ہر نبی نے آپ کے بارے اپنی امت سے اقرار لیا۔
اللہ کی طرف سے آخری حجت آپ ہی کو قرار دیا گیا آپ کے آباءو اجداد کو آپ پر تقدم کا شرف حاصل ہے جیسے حضورپاک کو آخری نبی ہونے کا شرف حاصل ہے اور اس حوالے سے انہیں آپ علیہ السلام پر برتری بھی ہے، آپ نے اپنے جدامجدد کے لائے ہوئے دین ہی کو نافذ کرنا ہے، اس کےلئے ہی کام کرنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا بقیہ قرار دے کر آپ کےلئے یہ اعزاز دیا ہے کہ آپ وہ کام کریں جو آپ سے پہلے آنے والوں نے نہ کیا اور اسی آرزو میں مر گئے ،شاید یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام، امام محمدباقرعلیہ السلام، امام رضا علیہ السلام آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ،!! میرے ماں باپ آپعلیہ السلام پر قربان جائیں۔ کبھی آپعلیہ السلام کا نام سن کر احترام سے کھڑے ہو جاتے ہیں ،کبھی فرماتے ہیں کہ میں اگر ان کا زمانہ پالوں تو اپنی زندگی کو ان کےلئے بچا کر رکھوںحضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اس فرزند کی خدمت میں رہنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام آپ کے دیدار کےلئے بے تاب نظر آتے ہیں، حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام آپ علیہ السلام کی غیبت کے طولانی ہونے کو یاد کر کے گریہ وزاری کرتے ہیں اور بے تاب ہو جاتے ہیں۔
حضور اکرم اپنے بیانات میں آپ علیہ السلام کا تعارف کرواتے ہیں اور آپعلیہ السلام کی اہمیت اپنی امت کو بتاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی کا ثمر آپ کو قرار دیتے ہیں، یہ سب کچھ پڑھنے سے اس جملہ کا معنی سمجھ میں آجانا چاہیے کہ آپ اپنے سے پہلے آنے والوں پرکیسے حجت ہیں اور جو بعد میں آنے والے ہیں ان پر بھی آپ علیہ السلام حجت ہیں،یہ تو بڑا واضح ہے جب آپ گذشتگان پر حجت ہیں تو بعدوالوں پر تو بطریق اولیٰ حجت قرار پائیں گے ۔

حضرت امام مہدی (عج) کی کامیابی
اسی بیان میں آپ علیہ السلام کی کامیابی کے یقینی ہونے پر، آپ کی جماعت اور ساتھیوں کے غلبہ کے حتمی ہونے کو بھی بیان کیا گیا ۔ شکست آپعلیہ السلام کے دشمنوں کا مقدر ہے، آپعلیہ السلام ہی نے حق کی پہچان کروانا ہے، حق آپ نے غاصبوں سے وصول کرنا ہے ،آپ نے حق کو نافذ کرنا ہے، باطل کا خاتمہ بھی آپ علیہ السلام کے ہاتھوں ہونا ہے اور باطل کی صحیح پہچان بھی آپ علیہ السلام نے کروانا ہے، آپ علیہ السلام سے قبل باطل کی پوری طرح لوگوں کو پہچان بھی نہ ہوئی آپ ہی ”جاءالحق وزہق الباطل وان الباطل کان زھوقا“ کا مکمل مصداق ہیں، مرشد آپ ہیں، آپ کے سواکسی کو مرشد کہنا بھی درست نہیں ہے .... البتہ جو آپ علیہ السلام تک بھٹکے ہوئے بندگان کو پہنچائے تو آپعلیہ السلام تک پہچانے میں وہ شخص مرشد کا عارضی عنوان اور مجازی طور پراپنے لیے اس عنوان کولے سکتا ہے۔ ولایت مطلقہ آپ علیہ السلام کے پاس ہے، اس لئے اعلان کیا گیا کہ آپ علیہ السلام ہی ولی ہیں، سرپرست آپ ہیں، ہادی آپ ہیں، وہ شخص خسارہ میں رہ گیا جو آپعلیہ السلام کو چھوڑ کر کسی اور کا دامن تھام لے۔
مرشد کل آپ علیہ السلامہیں۔ جو علماء، مجتہدین، عرفاءدوسروں کو آپ علیہ السلام کی راہنمائی کرتے ہیں، آپ کے ساتھ گم گشتگان کو وصل کرتے ہیں وہ درحقیقت حقیقی مرشد تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں اور بس!! اس سے زیادہ کچھ نہیں .... سب کچھ آپ علیہ السلام خود ہیں۔باقی سب آپ تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں اور آپ تک پہنچ کر ہی خدا تک پہنچا جاسکتا ہے آپ ہی وہ ذات ہیں جو ہر شئی کو رب العالمین سے وصل کر دیتے ہیں ۔

حضرت ولی العصر علیہ السلام کی کچھ خصوصیات
۹۔ اَش ھَدُ اَنَّکَ ال حَقُّ الثَّابِتُ الَّذِی لاَ عَی بَ فِی ہِ وَاَنَّ وَع دَ اللّٰہِ فِی کَ حَقّ µ لَّآ اَر تَابُ لِطُو لِ ال غَی بَةِ وَبُع دِ ال اَمَدِ وَلَآ اَتَحَیَّرُ مَعَ مَن جَھِلَکَ وَجَھِلَ بِکَ مُن تَظِر µ مُّتَوَقِع µ لِّاَ یَّامِکَ۔
اے میرے مولا!میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ ہی وہ حق ثابت ہیں کہ جس میں کوئی نقص اور عیب نہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے جووعدہ فرمایا ہے وہ برحق ہے....اور اس نے ضرور پورا ہوناہے، میں آپ کی غیبت کے طولانی ہوجانے کی وجہ سے اس بارے شک و شبہ نہیں کرتا ہوں، آپ کی انتہاءکے دور ہوجانے سے بھی میں شک میں نہیں پڑتا ہوں ،اورنہ ہی میں حیران ہوتاہوں، باوجود یکہ ایسے افراد موجود ہیں جو آپعلیہ السلام سے جاہل ہیں اور وہ افراد بھی جو آپ علیہ السلام کی عدم معرفت کی وجہ سے جہالت میں جاپڑے ، تو میں ایسا بھی نہیں ہوں، میں آپ کے آنے کی انتظار میں ہوں اور آپ علیہ السلام کے ایام کی آمد کی پوری توقع رکھتا ہوں۔
ان جملوں میں آپ کو حق ثابت کیا گیا ہے ، اس جملہ کے ذریعہ اس مفہوم کو بیان کیاگیا جسے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا تھا”علی مع الحق والحق مع علی اللھم ادر الحق حیث دار علی “ علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہیں اور حق علی علیہ السلام کیساتھ ہیں اے اللہ حق کو ادھر گھمادے جس طرف علی علیہ السلام جائیں ۔
اس حدیث میں علی علیہ السلام مولا کو ایک ثابت اور نہ بدلنے والا شخص متعارف کروایا گیا اوریہ اعلان کیاگیا ہے کہ علی علیہ السلام جس حال میں جس کیفیت میں جس پوزیشن میں ہونگے تو وہ ہی خود حق ہیں ، اسی بات کو ان جملوں میں خاتم الاوصیاءحضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرزند بقیة اللہ حضرت امام مہدی (عج) کیلئے بیان کیاگیا ہے کہ آپ ہی وہ حق ثابت ہیں جس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں آپ حاضر ہوں تو آپ ہی حق ہیں آپ غائب رہیں تو بھی حق ہیں آپ ظہور فرمائیں تو حق ہیں جنگ کریں تو حق ہیں ۔بہر حال آج کے زمانہ میں حق واقعی آپ ہی کی ذات ہے اور جو شخص جس قدر آپ سے رابطہ میں رہے گا اسی قدر وہ شخص حق پر ہوگا اورجو شخص جس قدر آپ سے دور ہوگا وہ اتنا ہی باطل کے قریب ہوگا اس بیان میں آپ کی غیبت کے طولانی ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے اوریہ کہ مومن وہی ہے جو آپ کی طولانی غیبت سے پریشان ہوکر ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے بلکہ آپ کی انتظار میں رہے اوریہ کہ آپ کی آمد یقینی ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔

امام مہدی (عج) اور ظالموں سے انتقام
۰۱۔ وَاَن تَ الشَّافِعُ الَّذِی لَا تُنَا زَعُ وَال وَلِیُّ الَّذِی لَا تُدَافَعُ ذَخَرَکَ اللّٰہُ لِنُص رَةِ الدِّی نِ وَاِع زَازِ ال مُو مِنِی نَ وَال اِن تِقَامِ مِنَ ال جَاحِدِی نَ ال مَارِقِی نَ۔
اے میرے مولا! آپعلیہ السلام ہی شفاعت کرنے والے ہیں جس میں کوئی جھگڑا نہیں ہے اور آپعلیہ السلام ہی تو وہ ولی ہیں جسے کوئی اپنی جگہ سے ہٹا نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین کے لئے ذخیرہ کیا ہے اور مومنین کی عزت افزائی کے واسطے آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھاہوا ہے۔ منکروں، سرکشوں، منحرفوں سے انتقام لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کوباقی رکھا ہواہے۔
ایک بات تو اس بیان میں یہ واضح کی گئی کہ آپعلیہ السلام حق ثابت ہیں، اس میں کسی قسم کا تزلزل نہیں ہے، کمزوری بھی نہیں، آپ علیہ السلام بے عیب ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ دیا ہے کہ آپعلیہ السلام کے ذریعہ پوری دھرتی پر اللہ کی حکومت قائم ہوگی، اسلام ،دین غالب آپ علیہ السلام کے ذریعہ ہوگا ، آپ علیہ السلام ہی مکمل عدل کا نفاذ کریں گے ، تمام دشمنوں سے ظالموں سے، کافروں سے ، ملحدوں سے آپ ہی انتقام لیں گے، یہ وعدہ برحق ہے، ضرور پورا ہوگا،اس کے خلاف نہ ہوگا، یعنی زمین کا مستقبل تابناک ہے، زمین امن کا گہوارہ ضرور بنے گی، آپعلیہ السلام ہی کے ذریعہ دین کی نصرت ہوگی، مومنوں کو عزت ملے گی، کافر ومنافق ذلیل و خوار ہوں گے، سب ظالموں سے انتقام لیا جائے گا،آپ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا اور نہ ہی آپ علیہ السلام کے مقابلہ میں کوئی اپنا دفاع کر سکے گا، نہ ہی کوئی آپ کو اپنی حیثیت اور مقام سے ہٹا سکے گا آپ علیہ السلام کی کامیابی یقینی ہے اوریہ کامیابی اسی دنیا میں ہونا ہے آخرت کے آنے سے پہلے ہونا ہے۔آپ ہی وہ سفارشی اور شافع ہیں جس میں کوئی جھگڑا کرنے کی گنجائش نہیں ہے ، آپ اللہ کا ذخیرہ ہیں ، آپ کے ذریعہ مومنین کو عزت اورمنافقوں پر ، کافروں پر ، مشرکوں پر غلبہ حاصل ہوگا آپ مومنوں کی عزت ہیں ۔