معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ | |||||
روایات و اعترافات
رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں ایک مہدی بھی ہوگا۔ (ابو سعید الخدری، صحیح ترمذی، ص ۲۷۰)
رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ الله میری عترت میں ایک شخص کو پیدا کرے گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ]عبد الرحمن بن عوف[ (عقد الدرر) رسول اکرم نے فرمایا کہ عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں میرا ایک ہم نام آجائے۔ ]عبد الله بن مسعود[ (ترمذی و سنن ابو داؤد) اس امت کا مہدی عیسیٰ بن مریم کی امامت کرے گا۔ ]ابو سعید الخدری[(عقد الدرر) مہدی برحق ہے، وہ بنی کنانہ، بنی ہاشم اور اولاد ِ فاطمہ سے ہوگا۔ ]قتادہ[ (عقد الدرر) میں تمہیں مہدی کی بشارت دے رہا ہوں جو میری عترت اور قریش سے ہوگا۔ (صواعق محرقہ) ہم سات اولاد عبد المطلب سردارانِ جنت ہیں۔۔۔۔۔ میں، علی، حمزہ، جعفر، حسن، حسین، مہدی۔ (سنن ابن ماجہ، معجم طبرانی، حافظ ابو نعیم اصفہانی۔ عقدد الدرر) مہدی میری عترت میں اولاد ِ فاطمہ میں سے ہوگا۔ ]روایت ِ ام سلمہ[ (ابو داؤد) الله دنیا کے آخری دن کو اس قدر طول دے گا کہ میری عترت اور میرے اہل بیت سے ایک شخص آجائے جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے۔ ]روایت ابو ہریرہ[ (ترمذی) علی میری امت کے امام ہیں اور ان کی اولاد میں قائم منتظر ہوگا جو دنیا کو عدل و انصاف سے معمور کر دے گا۔ ]روایت ابن عباس[ (مناقب خوارزمی) مہدی اولاد ِحسین سے ہوگا۔ ]روایت حذیفہ بن الیمان[ (حافظ ابو نعیم) حسین ! تم سید بن سید اور برادر سید ہو۔ تم امام، ابن امام اور برادر امام ہو۔ تم حجت بن حجت، برادر حجت اور نو حجتوں کے باپ ہو جن کا نواں قائم ہوگا۔ ]سلمان[ (ینابیع المودة) مہدی کا خروج بہرحال ضروری ہے اور یہ اس وقت ہوگا جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی۔ (الشیخ محی الدین در فتوحات مکیہ، الشیخ عبد الوہات شعرانی در الیواقیت و الجواہر) امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں جو بغداد سے ۲۰ فرسخ کے فاصلہ پر ہے۔ (محمد بن طلحہ شافعی در مطالب السئول) امام حسن عسکری نے بادشاہِ وقت کے خوف سے اپنے فرزند کی ولادت کو مخفی رکھا۔ (علی بن محمد بن صباغ مالکی در الفصول المہمہ) امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے اور ان کی ولادت کو مخفی رکھا گیا ہے۔ وہ اپنے والد بزرگوار کی حیات ہی سے غائب ہیں۔ (علامہ جامی در شواہد النبوة) امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ئھ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں لوگوں کی نظر سے غائب ہوگئے۔ (علامہ جمال الدین در روضة الاحباب) امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ئھ میں پیدا ہوئے اور انہیں امام حسن عسکری نے اس خدا کے حوالہ کر دیا جس کی پناہ میں جناب موسیٰ تھے۔ (شیخ عبد الحق محدث دہلوی در مناقب الائمہ) امام مہدی بطن نرجس سے ۱۵ شعبان ۲۵۵ئھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ (عبد الرحمن صوفی در مرأة الاسرار) خلافت رسول حضرت علی کے واسطے سے امام مہدی تک پہنچی ہے اور وہ آخری امام ہیں۔ (علامہ شہاب الدین دولت آبادی در تفسیر بحر مواج) امام مہدی بارہویں امام ہیں۔ (مُلّا علی قاری در شرح مشکوٰة) امام مہدی اولاد ِ فاطمہ سے ہیں۔ وہ بقولے ۲۵۵ئھ میں پیدا ہوکر ایک عرصہ کے بعد غائب ہوگئے۔ (علامہ جواد ساباطی در براہین ساباطیہ) امام مہدی پیدا ہوکر غائب ہوگئے ہیں اور آخری دور میں ظہور کریں گے۔ (شیخ سعد الدین در مسجد اقصٰی) آپ پیدا ہو کر قطب ہو گئے ہیں۔ (علی اکبر بن اسد الله در مکاشفات) محمد بن الحسن کے بارے میں شیعوں کا خیال درست ہے۔ (شاہ ولی الله محدث دہلوی در رسالہ نوادر) امام مہدی تکمیل صفات کے لیے غائب ہوگئے ہیں۔ (ملا ہسین میبذی در شرح دیوان) امام مہدی ۲۵۶ئھ میں پیدا ہو کر غائب ہوگئے ہیں۔ (تاریخ ذہبی) امام مہدی پیدا ہو کر سرداب میں غائب ہوگئے ہیں۔ (ابن حجر مکی در صواعق محرقہ) امام مہدی کی عمر امام حسن عسکری کے انتقال کے وقت پانچ برس کی تھی وہ غائب ہوکر پھر واپس نہیں آئے۔ (وفیات الاعیان) آپ کا لقب القائم، المنتظر، الباقی ہے۔ (تذکرہ خواص الامة سبط بن جوزی) آپ اسی طرح زندہ اور باقی ہیں جس طرح عیسیٰ، خضر اور الیاس وغیرہ ہیں۔ (ارجح المطالب) امام مہدی قائم و منتظر ہیں۔ وہ آفتاب کی طرح ظاہر ہوکر دنیا کی تاریکی کفر کو زائل فرمائیں گے۔ (فاضل ابن روزبہان ابطال الباطل) امام مہدی کے ظہور کے بعد حضرت عیسیٰں نازل ہوں گے۔ (جلال الدین سیوطی در منثور) خصوصیات حکومت ِ امام عصر
۱۔ ابتداءِ ظہور میں آپ کا طریقہٴ کار وہی ہوگا جو ابتداء ِ بعثت میں رسول اکرم کا طریقہٴ کار تھا اس لیے کہ آپ کے دور تک اسلام اس قدر مسخ ہو چکا ہوگا کہ گویا از سر نو اسلام کی تبلیغ کرنا ہوگی اور جدید ترین نظام کے بارے میں شدید ترین مواخذہ نہیں ہو سکتا ہے۔ خود رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ اسلام ابتداء میں بھی غریب تھا اور آخر میں بھی غریب ہو جائے گا، لہٰذا خوشحال ان افراد کے لیے جو غرباء ہوں۔
۲۔ آپ کے فیصلے جناب داؤد کی طرح ذاتی علم کی بنیاد پر ہوں گے اور آپ گواہ اور بتینہ کے محتاج نہ ہوں گے۔ آپ لوگوں کی شکل دیکھ کر ان کے جرائم کے اندازہ کر لیں گے اور اسی اعتبار سے ان کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ ۳۔ آپ کی سواری کے لیے ایک مخصوص ابر ہوگا، جس میں گرج، چمک اور بجلی وغیرہ سب کچھ ہوگی جوبات حضرت ذوالقرنین کو بھی حاصل نہ تھی۔ آپ اس ابر پر سوار ہوکر مختلف اطراف کا دورہ کریں گے اور دین اسلام کی تبلیغ کر کے اس کا نظام قائم کریں گے۔ ۴۔ آپ کے وجود مبارک کی برکت سے زمین اپنے سارے ذخائر کو اُگل دے گی اور پیداوار میں اس قدر اضافہ ہوگا کہ جو شخص جس قدر مطالبہ کرے گا آواز آئے گی ”لے لوخزانہٴ قدرت میں کوئی کمی نہیں ہے۔“ پیداوار کا یہ عالم ہو گا کہ اگر کوئی عورت عراق سے شام تک پیدل سفر کرے تو اس کے علاوہ کسی خشک زمین پر نہ پڑیں گے۔ ۵۔ دنیا میں امن و امان کا وہ دور دورہ ہوگا کہ انسانوں اور جانوروں کے درمیان بھی کوئی وحشت اور نفرت نہ رہ جائے گی۔ بچے سانپ بچھو سے کھیلیں گے اور بھیڑ اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے یہاں تک کہ اگر کوئی عورت عراق سے شام تک سر پر سامان رکھ کر چلی جائے تو کوئی درندہ بھی اذیت نہ کرے گا اور نہ اسے کسی طرح کا خوف ہوگا۔ ۶۔ آپ کے ظہور کی برکت سے مخصوص قسم کے خطرناک امراض کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور صاحبانِ ایمان صحت و سلامتی کی زندگی گزاریں گے۔ ۷۔ آپ پر مرور زمانہ اور تغیّرات دہر کا کوئی اثر نہ ہوگا اور سیکڑوں سال کے بعد بھی ۴۰ سال کے جوان کی شکل میں ظہور فرمائیں گے جیساکہ امام رضاں کی روایت میں وارد ہوا ہے کہ کسی شخص نے پوچھا کہ کیا آپ ہی قائم ہیں؟۔۔۔۔۔ تو فرمایا کہ نہیں، تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس قدر ضعیف و نحیف ہوگیا ہوں اور قائم طویل ترین عمر کے باوجود ۴۰ سالہ جوان کی شکل میں ظہور کرے گا۔ وہ میری اولاد میں میرا چوتھا وارث ہوگا۔ ۸۔ آپ کے پاس تمام انبیاء و اولیاء کی میراث ہوگی۔ لباس ابراہیم ، عصائے موسیٰ ، انگشتری سلیمان ، زرہ پیغمبر اسلام، عمماہ و نعلین و لباس رسول اکرم اور ذوالفقار حیدر کرار ۔ اور جب سید حسنی آپ سے دلالت ِ امامت کا مطالبہ کریں گے تو آپ ان تمام تبرکات کو پیش کر دیں گے۔ ۹۔ آپ زیر آفتاب سفر کریں گے تو بھی جسم اقدس کا کوئی سایہ نہ ہوگا جس طرح کہ رسول اکرم کے جسم قدس کا سایہ نہیں تھا۔ ۱۰۔ آپ کے نورِ مبارک سے زمین اس قدر روشن ہو جائے گی کہ آفتاب و ماہتاب کے بغیر بھی کاروبار ِ حیات چل سکے گا۔ ۱۱۔ آپ کے سامنے تمام دنیا ہتھیلی پر ایک درہم کے مانند ہوگی اور آپ بغیر کسی حائل و حاجب کے تمام دنیا کے حالات کا مشاہدہ کریں گے۔ ۱۲۔ آپ کے دور میں صاحبانِ ایمان کمال علم و عقل و ذہانت و ذکاوت کی منزل پر فائز ہوں گے اور آپ جس کے سر پر دست شفقت پھیر دیں گے اس کی عقل بالکل کامل و اکمل ہو جائے گی یہاں تک کہ آپ مختلف ملکوں میں بھیجے جانے والے نمائندوں کو ہدایت کریں گے کہ اگر کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تو اپنی ہتھیلی کو دیکھ لینا تمام علوم اور مسائل نقش نظر آجائیں گے۔ ۱۳۔ مساجد میں جدید قسم کے مینار، حجرات اور نقوش جو دور مرسل اعظم میں نہیں تھے انہیں محو کر دیا جائے گا اور مساجد کو ان کی اصلی اسلامی سادگی کی طرف واپس کر دیا جائے گا۔ ۱۴۔ مسجد الحرام اور مسجد النبی کی از سر نو اصلاح و ترمیم ہوگی اور جس قدر بھی بے جا تعمیرات ہوئی ہیں ان کی اصلاح کر دی جائے گی اور مقام ابراہیم کو بھی اس کی اصلی منزل تک پلٹا دیا جائے گا۔ ۱۵۔ آپ کا نور مبارک اس قدر نمایاں اور روشن ہوگا کہ ساری دنیا کے لوگ بآسانی آپ کی زیارت کر سکیں گے اور ہر شخص آپ کو اپنے سے قریب تر اور اپنے ہی علاقہ اور محلہ میں محسوس کرے گا۔ ۱۶۔ آپ کا پرچم نصرت رسول اکرم کا پرچم ہوگا جس کا عمود عرش الٰہی کا بنا ہوا ہوگا اور وہ جس ظالم پر سایہ فگن ہو جائے گا اسے تباہ و برباد کر دے گا۔ آپ کی فوج کے افراد لوہے کی چادروں کی طرح سخت اور مستحکم ہوں گے اور ہر موٴمن کے پاس چالیس افراد کی طاقت ہوگی۔ ۱۷۔ موٴمنین کی قبروں میں بھی ظہور کی خوشی کا داخلہ ہو جائے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد دیں گے اور بعض قبروں سے اٹھ کر نصرت ِ امام کے لیے باہر آجائیں گے جیساکہ دعائے عہد میں وارد ہوا ہے کہ ”پروردگار! اگر مجھے ظہور سے پہلے موت بھی آجائے تو وقت ِ ظہور اس عالم میں قبر سے اٹھانا کہ کفن دوش پر ہو، برہنہ تلوار ہاتھ میں ہو، نیزہ چمک رہا ہو، اور زبان پر لبیک لبیک ہو۔ ۱۸۔ آپ اپنے تمام چاہنے والوں کے قرضوں کو ادا فرما دیں گے اور انہیں خیرات و برکات سے مالا مال کر دیں گے۔ بشرطیکہ قرضہ کا تعلق حرام مصارف سے نہ ہو ورنہ اس کا مواخذہ بھی کریں گے۔ ۱۹۔ آپ جملہ بدعتوں کا قلع قمع کر دیں گے اور عالم انسانیت کو شریعت پیغمبر اسلام کی طرف پلٹا کر لے آئیں گے یہاں تک کہ ہزاروں بدعقیدہ لوگ آپ کے واپس جانے کا مطالبہ کر دیں گے اور آپ سب کا خاتمہ کر دیں گے۔ ۲۰۔ آپ کے جملہ روابط اور تعلقات صرف ان افراد سے ہوں گے جو واقعاً موٴمن مخلص ہوں گے اور کسی منافق اور ریاکار کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا۔ دشمنانِ آل محمد بنی امیہ و بنی عباس، قاتلانِ حسین اور نواصب و خوارج سب کا خاتمہ کر دیں گے اور کسی ایسے آدمی کو زندہ نہ چھوڑیں گے جو گزشتہ افراد و اقوام کی بد اعمالیوں اور ان کے مظالم سے راضی ہوگا۔ اللّٰھم عجل فرجہ و سھل مخرجہ و اجعلنا من انصارہ و اعوانہ۔ |