معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ | |||||
مسئلہ طول حیات
امام مہدی کے بارے میں جہاں اور بحثیں کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بحث طول عمر اور بقائے حیات کی بھی ہے اور درحقیقت یہ بحث ان شبہات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے جو مسئلہ مہدی کے گرد عالم اسلام میں اٹھائے گئے ہیں اور ان کا منشاء عالم انسانیت کو ایک ایسے مصلح کی طرف سے غافل بنا دینا ہے جس کا کام بساط ظلم و جور کو الٹ کر نظام عدل و انصاف کا قائم کر دینا ہے اور جو اس عظیم کام کے لیے صبح و شام حکم الٰہی کا انتظار کر رہا ہے۔ ورنہ اس طرح کا سیاسی مقصد کار فرما نہ ہوتا تو ایک مسلمان کے لیے طول عمر اور بقائے حیات جیسی بحث کا اٹھانا خلاف شانِ اسلام و ایمان اور خلاف اعتقاد قرآن و سنت ہے۔
مسلمان اس حقیقت پر بہرحال ایمان رکھتا ہے کہ موت و حیات کا اختیار پروردگار کے ہاتھوں میں ہے اور وہی انسانوں کی عمروں کو طویل یا مختصر بناتا ہے۔ اس کے نظامِ مصلحت میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو شکم مادر ہی میں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں اور ایسے افراد بھی ہیں جو بدترین حوادث میں بھی لقمہٴ اجل نہیں بنتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر باقی رہ جاتے ہیں۔ اس نے انسان کو موت دینا چاہی تو سلیمان جیسا صاحب ِ اقتدار بھی اپنے لشکر کے سامنے دنیا سے رخصت ہوگیا اور باقی رکھنا چاہا تو موسیٰ قصر فرعون ہیں۔ ابراہیمں نارِ نمرود میں، یونسں بطن ماہی میں باقی رہ گئے۔ اس نے چاہا تو اصحاب ِ کہف کی نیند طویل ہوگئی اور اس کی مرضی ہوئی تو عزیر کو مردہ بنا کر پھر زندہ کر دیا۔ ایسے نظامِ ربوبیت پر ایمان رکھنے والا انسان اگر ایک حجت پروردگار اور مہدی دوراں ں کے بارے میں شبہات سے کام لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ قدرت ِپروردگار پر ایمان نہیں رکھتا ہے اور اس کی نظر میں گزشتہ دور کے جملہ واقعات و حوادث صرف اساطیر الاولین کی حیثیت رکھتے ہیں یا اسے وجود مہدی سے کوئی خاص اختلاف ہے جس کی بنا پر اسے کسی نہ کسی شکل میں مشکوک بنا دینا چاہتا ہے۔ تاریخ میں جناب ذوالقرنین، جناب نوحں، جناب سام بن نوح، جناب قینان، جناب مہلائیل، عوج بن عناق، نفیل بن عبد الله، ربیع بن عمر، ارفخشد، درید بن زید، جناب سلمان، کعب بن جمجمہ، نصر بن رحمان، قیس بن ساعدہ، عمر بن ربیعہ، عمر بن دوسی، عمر بن طفیل جیسے افراد کی سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال عمر کا تذکرہ موجو دہے اور اس کا کوئی انکار کرنے والا نہیں پیدا ہوا ہے۔ اسلامی نقطہٴ نگاہ سے جناب ادریس و خضر اور دجال و ابلیس لعین کا وجود بھی مسلمات میں شامل ہے جن کی عمریں ہزاروں سال سے متجاوز ہو چکی ہیں اور جناب عیسیٰں مستقل طور سے آسمان پر زندہ ہیں اور زمین پر اترنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان حالات میں مسئلہٴ طول عمر پر بحث کرنا نہ عقائدی اعتبار سے صحیح ہے اور نہ تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے صحیح ہے۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تاریخ کے بے شمار شواہد کی بنا پر اور مرسل اعظم کی سیکڑوں روایات کی بنا پر جن میں مہدی اور اس کے خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مہدیں میرا بارہواں جانشین، اولاد ِ فاطمہ میں، اولاد حسین میں اور میرے فرزند حسین کا نواں وارث ہوگا۔ اس مہدی کا وجود بہرحال ہو چکا ہے اور ان خصوصیات کا انسان عالم وجود میں آچکا ہے، اور رسول اکرم کی ناقابل تردید روایات کی بنا پر اس کا ظہور بھی بہرحال ہونے والا ہے اور عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو رب کریم اور اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ مہدی ظہور کرے اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے۔ ان دونوں مسلمات کے درمیان دو ہی احتمالات رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ مہدی انتقال کر جائے اور پھر وقت ِ ظہور مردہ سے زندہ ہوکر عالمی انقلاب برپا کرے یا زندہ اور موجود رہے اور طویل عمر کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتا رہے اور اپنے آخری انقلاب کے لیے زمین ہموار کرتا رہے۔ پہلا احتمال مذہبی اعتبار سے بھی غلط ہے اور علمی اعتبار سے بھی۔ مذہبی اعتبار سے یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا حجت ِ خدا سے خالی ہوگئی ہے اور رسول اکرم واضح طور پر فرما چکے ہین کہ اگر دنیا حجت ِ خدا سے خالی ہو جائے تو اس کی بقا محال ہے اور زمین اہل زمین سمت دھنس جائے گی اور علمی اعتبار سے کسی شخص کا مر کر دوبارہ زندہ ہونا اور کسی تیاری اور آمادگی کے بغیر اتنا بڑا انقلاب برپا کر دینا ناقابل تصور عمل ہے اور اگر اس میں قدرت ِ خدا کو شامل کر لیا جائے تو موت و حیات کے تصورات کی ضرورت ہی نہیں ہے جو خدا کسی عظیم مقصد کے لیے ایک مردہ کو زندہ بنا کر اس سے یہ کام لے سکتا ہے تو وہ ہزار دو ہزار برس زندہ رکھ کر بھی یہ کام لے سکتا ہے۔ اس کی قدرت کے لیے کوئی شے امکان سے خارج نہیں ہے۔ بنا بریں اسلام کے تینوں تصورات کو جمع کرنے کے بعد کہ مہدی کو ولادت بہرحال ہو چکی ہے اور اس کا ظہور بہرحال ہونے والا ہے اور زمین حجت خدا سے بہرحال خالی نہیں ہو سکتی ہے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ مہدی زندہ رہے اور حالات کا مسلسل جائزہ لے کر اپنے عالمی انقلاب کی منصوبہ بندی میں مصروف رہے۔ وقت ضرورت اپنے نائبین کی امداد بھی کرتا رہے اور اپنے ظہور کی زمین بھی ہموار کرتا رہے اور وقت ِ ظہور کے لیے حکم الٰہی کا انتظار کرتا رہے اور جیسے ہی حکم پروردگار ہو جائے اپنا اصلاحی عمل شروع کر دے اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے۔ انشاء الله۔ |