معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ
 
خطوط و رسائل
علماءِ اعلام نے جہاں امام عصرں کی زیارت سے مشرف ہونے والے افراد کا تذکرہ کیا ہے وہاں ان خطوط اور رسائل کا بھی تذکرہ کیا ہے جو دور ِ غیبت میں امام عصرں کی طرف سے صادر ہوئے ہیں اور جنہیں توقیعات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان رسائل میں بہت سے مسائل، احکام، دعاؤں اور زیارتوں کا بھی تذکرہ ہے اور بہت سے خصوصی خطوط بھی ہیں جو مختلف اسباب اور مصالح کے تحت ارسال کیے گئے ہیں۔
شخصی خطوط میں جناب شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نام تین خطوط اور پیغامات ہیں۔ ایک میں انہیں ”برادر سدید اور ولی رشید“ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے اور دوسرے میں انہیں ”ناصر حق“ اور ”داعی الی کلمة الصدق“ فرمایا گیا ہے۔ پہلا خط صفر ۴۱۰ئھ کا ہے اور دوسرا ۲۳ ذی الحجہ ۴۱۲ئھ کا ہے۔ اس کے بعد ان کے انتقال پر حضرت نے کچھ اشعار بھی فرمائے ہیں جو شیخ مفید کی قبر پر کندہ ہیں۔
تیسرے خط کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ مفید سے ایک حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے تو اب بچہ کے بارے میں کیا کیا جائے؟ فرمایا کہ مع بچہ کے دفن کر دیا جائے۔ لوگ دفن کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک سوار نے آکر خبر دی کہ بچہ کو نکال لیا جائے اور عورت کو دفن کر دیا جائے۔ بچہ کو نکال لیا گیا اور بعد میں شیخ کو خبر ہوئی تو انہوں نے طے کر لیا کہ اب کسی مسئلہ میں فتویٰ نہیں دیں گے کہ آج اس سوار نے مسئلہ کی اصلاح نہ کر دی ہوتی تو ایک بچہ کا خون ناحق اپنی گردن پر آجاتا۔ یہ طے کرکے گھر میں بیٹھے ہی تھے کہ حضرت کی طرف سے پیغام آیا کہ تم نے بالکل غلط فیصلہ کیا ہے ﴿علیک الفتاء و علینا التسدید﴾ (فتویٰ دینا تمہارا کام ہے اور اصلاح کرنا ہمارا کام ہے)۔
اس واقعہ سے امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی امداد غیبی کے علاوہ اس حقیقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ امام کو اپنے چاہنے والوں سے کس قدر محبت ہے اور وہ انہیں کسی قیمت پر لاوارث نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں بلکہ حضرت کا منشا بھی یہ ہے کہ ہر دور میں ان کے مسائل کے حل کرنے والے علماء رہیں، اور مسائل کو حل کرتے رہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی ایسی غلطی ہوگئی جس کا تعلق حق العباد اور خون ناحق سے ہوگا تو ہم اس کی اصلاح کر دیں گے ورنہ حق الله کے معاملہ کی خطاؤں کا معاف کرنے والا خود پروردگار موجود ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ اگر ایک عام گنہگار بندے کی خطا کو معاف کر سکتا ہے تو اپنی راہ میں قربانی دینے والے اور زحمتیں برداشت کرنے والے اہل علم کی خطا کو کیوں معاف نہیں کرے گا۔
مسائل کے سلسلہ میں علامہ طبرسی نے اس خط کا ذکر کیا ہے جو جناب اسحاق بن یعقوب کے نام لکھا گیا تھا اور جس میں مختلف سوالات کے جوابات درج تھے۔ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر منکر کے بارے میں سوال کیا گیا ہے تو ہمارا منکر ہم میں سے نہیں ہے اور اگر جعفر جیسے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے تو ان کی مثال پسر نوح اور برادرانِ یوسف جیسی ہے۔
(واضح رہے کہ بعض حضرات نے اس جملہ سے یہ استفادہ کیا ہے کہ پسر نوح اپنے باپ کے احکام کے اعتبار سے نالائق تھا اور ان کے راستہ پر نہیں چلا تھا لیکن برادرانِ یوسف نے جب بھائی سے خیانت کی تو انہوں نے آخر میں انہیں معاف کر دیا اور اس طرح ظالم افراد توّاب قرار پا گئے)۔
فقاع یعنی جَو کی شراب بہرحال شراب ہے اور حرام ہے۔۔۔۔۔ خمس کا فریضہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ تمہارا مال حلال ہو جائے اور تمہیں نجات حاصل ہو جائے ورنہ قاعدہ کے اعتبار سے ساری کائنات امام کے لیے ہے اور ان کی مرضی کے بغیر کسی ذرہٴ کائنات میں بھی تصرف جائز نہیں ہے۔
ظہور کا وقت پروردگار کے علم میں ہے اور ہم اس کے حکم کے منتظر ہیں۔ اپنی طرف سے وقت معیّن کرنے والے جھوٹے ہیں اور ان کی تعیّن کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
مستقبل میں پیش آنے والے واقعات میں ہماری احادیث کے بافہم راوی جو روایات کو واقعات پر منطبق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی طرف رجوع کرنا کہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں اور ہم الله کی طرف سے ان پر حجت ہیں اور ان کا رد کرنے والا درحقیقت ہمارے احکام کی تردید کرنے والا ہے۔
محمد بن عثمان میرے معتمد ہیں اور ان کا قول میرا قول، اور ان سے ملنے والا پیغام میرا پیغام ہے۔
محمد بن علی ہنر یار اہوازی کا دل انشاء الله صاف ہو جائے اور انہیں کوئی شبہ نہیں رہ جائے گا۔
گانے والی عورت کی اجرت حرام ہے (حرام عمل کی اجرت بہرحال حرام ہوتی ہے۔ بدبخت وہ لوگ ہیں جن کی جیب سے اس راہ میں پیسہ نکل جاتا ہے۔ گانے والی تو پیسہ لے کر ہی مجرم بنتی ہے، دینے والا تو دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے خسارہ میں ہے)۔
محمد بن شاذان ہمارے شیعوں میں ہیں۔
ابو الخطاب محمد بن اجدب ملعون ہے اور اس کے ماننے والے بھی ملعون ہیں۔ ہم اور ہمارے آباء و اجداد سب اس سے بری اور بیزار ہیں۔
ہمارا مال کھانے والے اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں۔ خمس نہ دینے والوں کی طرف سے جو مال ہمارے شیعوں کو ملے اس میں کا حق خمس ہم نے اپنے شیعوں کے لیے حلال کر دیا ہے۔
زمانہٴ غیبت میں میری مثال زیر ابر آفتاب کی ہے۔ میرا وجود اہل زمین کے لیے ویسے ہی وجہ امان ہے جس طرح آسمان والوں کے لیے ستاروں کا وجود ہوتا ہے۔
غیبت اور ظہور کے بارے میں سوالات بند کر دو اور رب العالمیند سے میرے ظہور کی دعا کرو۔ والسلام علی من اتبع الھدٰی۔
(اعلام الوریٰ، کشف الغمہ)