معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ | |||||
زائرین قائم آل محمد
امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے زائرین کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ بعض افراد وہ ہیں جنہوں نے زمانہٴ غیبت ِصغریٰ میں آپ کی زیارت کی ہے۔ ۲۔ بعض افراد وہ ہیں جنہوں نے غیبت ِ کبریٰ میں یہ شرف حاصل کیا ہے۔ غیبت ِ کبریٰ کے زائرین کا سلسلہ بحمد الله قائم ہے، لہٰذا ان کے اعداد و شمار کا مقرر کرنا ناممکن ہے اور جب تک ملاقاتوں اور زیارتوں کا یہ سلسلہ قائم رہے گا ان کے اعداد و شمار میں اضفاہ ہی ہوتا رہے گا جیساکہ محدث نوری علیہ الرحمہ نے اس قسم کے سو واقعات کا ذکر کیا ہے اور شیخ قمی علیہ الرحمہ نے ان میں سے تقریباً صرف ایک چوتھائی کا ذکر کیا ہے اور باقی علماء و موٴلفین نے اور دوسرے واقعات کا ذکر کیا ہے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے لہٰذا ان میں سے صرف ان واقعات کی طرف اشارہ کیا جائے گا جن میں ملاقات کے علاوہ عمومی افادیت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ غیبت ِ صغریٰ کے چند زائرین کی اجمالی فہرست یہ ہے: ۱۔ نائب اول عثمان بن سعید عمروی ۲۔ نائب دوم محمد بن عثمان بن سعید عمروی ۳۔ نائب سوم حسین بن روح نوبختی ۴۔ نائب چہارم علی بن محمد سمری ۵۔ سفیر عام حاجز، بلال اور عطار بغدادی (غایة المقصود) ۶۔ عاصمی کوفی ۷۔ محمد بن ابراہیم بن فہریار اہوازی ۸۔ محمد بن صالح ہمدانی ۹۔ بسامی و اسدی رازی ۱۰۔ قم بن علاء آذربائجانی ۱۱۔ محمد بن شاذان نیشاپوری ۱۲۔ احمد بن اسحاق قمی ۱۳۔ ابو الادیان (قبل آغازِ غیبت) ۱۴۔ ابو القاسم بن رئیس ۱۵۔ ابو عبد الله بن فروخ ۱۶۔ مسرور طباخ ۱۷۔ احمد و محمد بن الحسن ۱۸۔ اسحاق کاتب نوبختی ۱۹۔ صاحب الغرا ۲۰۔ صاحب الصرة المختومہ ۲۱۔ ابو القاسم بن ابی جلیس ۲۲۔ ابو عبد الله الکندی ۲۳۔ ابو عبد الله الجنیدی ۲۴۔ محمد بن کشمر و جعفر بن حمدان دینوری ۲۵۔ حسن بن ہراون و احمد بن ہراون اصفہانی ۲۶۔ زیدان قمی ۲۷۔ حسن بن نصر، محمد بن محمد، علی بن محمد بن اسحاق، حسن بن یعقوب ازدی ۲۸۔ قسم بن موسیٰ، ابن قسم بن موسیٰ، ابن محمد بن ہارون، علی بن محمد (کلینی) ۲۹۔ ابو جعفر الرقاء (قزوین) ۳۰۔ علی بن احمد (فارس) ۳۱۔ ابن الجمال (قدس) ۳۲۔ مجروح (مرو) ۳۳۔ صاحب الالف دینار (نیشاپور) ۳۴۔ محمد بن شعیب بن صالح (یمن) ۳۵۔ فضل بن زید، حسن بن فضل، جعفری، ابن الاعجمی (مصر) ۳۶۔ صاحب المولودین، صاحب المآل (نصیبین) ۳۷۔ ابو محمد بن الموجنا (اہواز) ۳۸۔ الحصینی ان کے علاوہ نہ جانے کتنے خوش قسمت تھے جن کا تذکرہ کتابوں میں نہیں ہو سکا ہے، کسی دوسرے ذیل میں ہوگیا ہے جیسے کہ جناب حکیمہ کو جو امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی سب سے پہلی زائرہ تھیں لیکن ان کا ذکر زائرین کے ذیل میں نہیں کیا گیا ہے بلکہ خدمات ولادت کے ذیل میں کیا گیا ہے، یا دیگر افراد کہ جن کے سامنے خود امام حسن عسکریں نے اپنے فرزند کو پیش کیا ہے اور انہوں نے حضرت کے جمال مبارک کی زیارت غیبت ِ صغریٰ کے آغاز سے پہلے کی ہے۔ میں نے ان کے اسماءِ گرامی کی طرف اس لیے اشارہ کر دیا ہے کہ اصل مقصد غیبت کے زائرین کی فہرست تیار کرنا نہیں ہے بلکہ ان افراد کی نشان دہی کرنا ہے جنہوں نے حضرت قائمں کی زیارت کی ہے اور جن کی شہادت کے بعد حضرت کے ووجد اور ان ولادت کا انکار کرنا ایک سفطہ اور مکابرہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ غیبت کبریٰ کے جن زائرین کی نشان دہی علامہ شیخ عباس قمی نے کی ہے ان میں سے بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں: ۱۔ اسماعیل ہرقلی: جن کا مرض لاعلاج ہوگیا تھا اور انہوں نے سید ابن طاؤس کے پاس حاضری اور اس کے بعد امام عصرں سے توسل کیا اور انہوں نے دست مبارک پھیر کر مرض کو بالکل ختم کر دیا جس کا نشان بھی باقی نہیں رہ گیا تھا اور پیروں میں ناسور کی جگہ پر باقاعدہ طبیعی جلد نظر آنے لگی تھی۔ ۲۔ سید محمد جبل عالمی : جنہیں حکومت نے جبری فوج میں بھرتی کرنا چاہا تو لبنان سے بھاگ کھڑے ہوئے اور پانچ سال کی دربدری کے بعد نجف اشرف وارد ہوئے۔ حالات سے پریشان ہوکر بہت دعائیں کیں لیکن وسعت ِ رزق کا کوئی راستہ نہ نکلا تو بالآخر عریضہ ڈالنے کا پروگرام بنایا اور نجف سے باہر جا کر روزانہ صبح کو دریا میں عریضہ ڈالتے رہے۔ ۳۹ دن کے بعد راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس کا لباس عراقی تھا اور لہجہ لبنانی۔ اس نے دریافت ِ حال کیا کہ ۳۹ دن سے کیوں عریضہ ڈال رہے ہو کیا امام تمہارے حال سے باخبر نہیں ہے؟ میں نے حیرت زدہ ہوکر مصافحہ کا ارادہ کیا۔ مصافحہ کرنے پر ہاتھ کی لطافت سے محسوس کیا کہ یہ امام عصر ہیں اس لیے کہ ان کے دست مبارک کے بارے میں ایسی ہی روایت سنی ہے۔ اب جو دست بوسی کا ارادہ کیا تو وہ غائب ہو چکے تھے (واضح رہے کہ اس واقعہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عریضہ بیکار ثابت ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عریضہ ہی کے زیر اثر ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ۳۔ سید عطوہ حسنی : صاحب کشف الغمہ نے ان کے فرزندوں سے روایت کی ہے کہ میرے باپ زیدی مذہب تھے اور ہم لوگوں سے امامیہ مذہب کی بنیاد پر بیزار رہا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے شدت مرض کے عالم میں کہا کہ جب تک تمہارے صاحب مجھے شٰا نہ دیں گے میں ایمان نہ لاؤن گا۔ تھوڑی رات کے بعد بلند آواز سے پکار کر کہا کہ دوڑو اپنے صاحب سے ملاقات کرو۔ ہم لوگ دوڑ پڑے لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ صرف باپ کا یہ بیان سنا کہ ایک بزرگ آکر دست ِ شفا پھیر کر درد کو زائل کر گئے ہیں اور پھر ان کا یہ اطمینان دیکھا کہ انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ۴۔ علامہ حلی نے منہاج الصلاح میں ابن طاؤس سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ سید رضی الدین محمد بن محمد بن محمد آوی کو حکومت نے گرفتار کر لیا تھا۔ انہوں نے عاجز آکر امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف سے استغاثہ کیا تو حضرت نے دعائے عبرت پڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس دعا کا علم نہیں ہے۔ فرمایا: کتاب مصباح میں ہے۔ انہوں نے عرض کی کہ میں نے نہیں دیکھی ہے۔ فرمایا کہ ہے۔ اب جو بیدار ہو کر دیکھا تو کتاب میں ایک رقعہ رکھا ہوا تھا۔ اس دعا کی تلاوت کی تو حاکم کی زوجہ نے خواب میں دیکھا کہ امیر الموٴمنین فرما رہے ہیں کہ اگر میرے فرزند کو رہا نہ کیا تو تیرے شوہر کو فنا کر دیا جائے گا۔ اس نے بیدار ہوکر شوہر سے بیان کیا تو اس نے فوراً رہا کر دیا۔ ۵۔ میر اسحاق استر آبادی : علامہ مجلسی نے ان کا بیان یوں نقل کیا ہے کہ میں راہِ مکہ میں قافلہ سے الگ ہوکر سخت پریشان تھا تو امام عصرں سے استغاثہ کیا۔ حضرت تشریف لائے اور حرز یمانی پڑھنے کا حکم دیا۔ میں پیاسا تھا مجھے پانی پلایا اور پھر میری تلاوت کی اصلاح کی اور اپنے ساتھ سواری پر سوار کرکے قافلہ سے ۹ روز پہلے مکہ پہنچا دیا اور اہل خانہ نے مشہور کر دیا کہ میں صاحب کرامات ہوں اور طی الارض کے ذریعہ مکہ آیا ہوں۔ ۶۔ سید ابن طاؤس نے ”فرج الہموم“ میں ابو جعفر محمد بن ہارون بن موسیٰ تلعکبری کے حوالے سے ابو الحسین بن ابو البغل کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میرا ایک معاملہ ابو منصور بن ابو صامحان سے تھا اس میں کچھ اختلاف پیدا ہوگیا اور میں اس کے خوف سے روپوش ہوگیا۔ ایک دن امام موسیٰ کاظمں کے روضہ پر گیا اور ابو جعفر سے گزارش کی کہ آج حرم کے دروازے بند کر دینا میں حضرت سے تنہائی میں فریاد کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے دروازے بند کر دیے اور میں نے نماز، دعا، زیارت اور مناجات شروع کی کہ اچانک ایک جوان کو دیکھا جس نے زیارت میں امام زمانہ کے علاوہ سب کو سلام کیا۔ میں حیرت زدہ ہوگیا کہ یہ کون سا مذہب ہے۔ کچھ پوچھنا ہی چاہتے تھے کہ فرمایا: دعائے فرج پڑھو، اور پھر دعائے فرج کی تعلیم دی۔ ”یا من اظھر الجمیل… اور آخر میں یا محمد یا علی اکفیانی فانکما کافیان و انصرانی فانکما ناصران“۔ میں اس عمل میں مشغول ہوگیا اور عمل تمام کرنے کے بعد اس جوان کو تلاش کیا تو کوئی نظر نہ آیا۔ ابو جعفر سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دروازے بند ہیں۔ یہ تمہارے امام زمانہں تھے جو تمہاری مشکل کشائی کے لیے آئے تھے۔ واضح رہے کہ دعائے فرج کے نام سے مختلف دعائیں کتابوں میں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک دعا یہ بھی ہے ورنہ ﴿یا عماد من لا عماد لہ﴾ کو بھی دعائے فرج ہی کہا جاتا ہے۔ ۷۔ ابو راجح حمامی : علامہ مجلسی نے ان کا واقعہ اس طرح نقل کیا ہے کہ حلہ میں حمام کا کاروبار کرتے تھے۔ وہاں ایک حاکم مرجان صغیر تھا جو انتہائی درجہ کا ناصبی اور دشمن اہل بیت تھا۔ لوگوں نے اس کے پاس ابو راجح کی شکایت کر دی کہ صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں۔ اس نے طلب کرکے ان کی مرمت کا حکم دے دیا۔ سرکاری کارندوں نے اس قدر مارا کہ سارا چہرہ لہولہان ہوگیا۔ سارے دانت ٹوٹ گئے اور ناک میں نکیل ڈال کر کھینچتے ہوئے حاکم کے سامنے حاضر کیا۔ اس نے قتل کا حکم دے دیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ بوڑھا اپنی جان سے جا رہا ہے اب قتل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے دربار سے باہر پھینکوا دیا۔ رات کو ابو راجح نے امام عصرں سے فریاد کی۔ اس وقت جب تمام گھر والے زندگی کے لمحات شمار کر رہے تھے ایک مرتبہ دیکھا کہ گھر نور سے معمور ہوگیا ہے اور ایک بزرگ نے آکر پورے جسم پر ہاتھ پھیر کر مکمل صحت عطا فرما دی ہے یہاں تک کہ سارے دانت بھی واپس آگئے ہیں اور بیس سالہ جوان معلوم ہونے لگیں۔ صبح کو لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوئی تو ابو راجح کو پھر حاکم کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس ظالم نے اپنی آنکھوں سے اس کرامت کا مشاہدہ کر لیا لیکن راہِ راست پر نہ آیا۔ ۸۔ علامہ مجلسی نے بحار میں اس واقعہ کو بھی نقل کیا ہے کہ انگریزوں نے بحرین میں اپنا ایک نمائندہ معیّن کر دیا تھا جو انتہائی درجہ کا دشمن اہل بیت تھا اور ہمیشہ محبانِ اہل بیت کو اذیت پہنچانے کی فکر میں رہا کرتا تھا۔ ایک دن اس کے وزیر نے دربار میں ایک انار پیش کیا جس پر خلفاء کے نام ثبت تھے اور حاکم سے کہا کہ یہ ہمارے مذہب کی حقانیت کی دلیل ہے لہٰذا اگر شیعہ اسے نہ تسلیم کریں تو انہیں قتل کر دیا جائے۔ ان کی عورتوں کو کنیز بنا لیا جائے اور ان کا مال بہ طور غنیمت لے لیا جائے۔ حاکم نے علماءِ شیعہ کو طلب کرکے انار دکھلایا۔ سب پریشان ہوگئے اور جواب کے لیے تین دن کی مہلت طلب کی۔ آپس میں اجتماع کرکے دس مقدسین کا انتخاب کیا اور پھر ان میں سے تین کا انتخاب کیا کہ امام عصرں سے استغاثہ کریں۔ پہلے دن استغاثہ کیا، کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ دوسرے دن دوسرے مقدس نے استغاثہ کیا، کوئی فائدہ نہ ہوا۔ تیسرے دن محمد بن عیسیٰ کی باری آئی۔ وہ مصروف استغاثہ تھے کہ ایک شخص کو دیکھا انہوں نے فرمایا کہ اپنی پریشانی بیان کرو، میں مشکل کو حل کر دوں گا۔ عرض کی کہ اگر آپ امام عصر ہیں تو بیان کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ نے پریشانی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ حاکم سے کہہ دو کہ وزیر نے اپنے گھر میں ایک سانچہ تیار کر رکھا ہے اور اس پر یہ نام کندہ کر دیے ہیں۔ کچے انار پر سانچہ چڑھا دیا تھا۔ جب انار بڑے ہوئے تو یہ نام ثبت ہوگئے اور وہ سانچہ وزیر کے گھر کے فلاں حجرہ میں رکھا ہے۔ آپ اسے طلب کریں اور وزیر کو نہ جانے دیں۔ حاکم نے ابن عیسیٰ کے بیان پر سانچہ کو طلب کیا اور جب حقیقت واضح ہوگئی تو پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوگیا۔ فرمایا کہ میرے مولا نے بتایا ہے جو سلسلہٴ امامت کے بارہویں امام ہیں اور یہ بھی فرمایا ہے کہ انار کو توڑا جائے ان ناموں کی برکت سے اندر سے راکھ کے علاوہ کچھ نہ نکلے گا۔ چنانچہ حاکم نے اس کا بھی تجربہ کیا اور جب حق بالکل واضح ہوگیا تو اس نے مذہب ِ شیعہ کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور محمد بن عیسیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ ۹۔ آقائی میرزا عبد الله اصفہانی نے کتاب ”ریاض العلماء“ میں نقل کیا ہے کہ ابو القاسم محمد بن ابو القاسم حاسمی جو ایک باخبر شیعہ تھے اور رفیع الدین ہسین جو ایک متعصب سنی تھے دونوں میں باقاعدہ دوستی تھی اور آپس میں نوک جھونک چلا کرتی تھی۔ ابو القاسم رفیع الدین کو ناصبی کہتے تھے اور وہ انہیں رافضی۔ ایک دن ہمدان کی مسجد عتیق میں بیٹھے یہ بحث کر رہے تھے کہ علی اور ابو بکر میں کون افضل ہے؟ تو ابو القاسم نے آیات و احادیث سے استدلال کیا۔ رفیع الدین نے قصہٴ غار اور شرف خسریت پیغمبر کا تذکرہ کیا۔ ابو القاسم نے استدلال کو طویل تر بنا دیا اور کہا کہ علی سے کسی کا کیا مقابلہ ہے۔ علی حامل لواءِ پیغمبر، دختر مرسل اعظم کے شوہر، ہجرت کی رات بستر رسول کی زینت، کعبہ میں بتوں کے توڑنے والے اور بیشتر انبیاء کے کمالات کے مظہر تھے۔ ان کے مقابلہ میں کسی کو کوئی شرف حاصل نہیں تھا۔ رفیع الدین نے عاجز آکر کہا کہ اب جو شخص بھی مسجد میں داخل ہوگا اس سے فیصلہ کرائیں گے اور اسی کی بات کو حرف آخر قرار دیں گے۔ ابو القاسم نے اسے منظور کر لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک جوان داخل ہوئے۔ رفیع الدین نے پورے شد و مد کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا۔ اس جوان نے دو شعر پڑھ دیے جس کا مضمون یہ تھا کہ ”لوگ مجھ سے علی کی افضلیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور میرا خیال یہ ہے کہ افضلیت کا بیان خود علی کی توہین ہے۔ کیا تلوار کے لیے یہ بات باعث ِ توہین نہیں ہے کہ اسے ڈنڈے سے زیادہ تیز کہا جائے۔ رفیع الدین یہ اشعار سن کر حیرت زدہ ہوگیا اور اپنے اقرار کے مطابق مذہب آل محمد قبول کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ۱۰۔ آقائے سید محمد رضوی ہندی نے نجف اشرف کے دوسرے مجاور حرم شیخ باقر بن شیخ ہادی کی زبانی اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ نجف اشرف میں ایک شخص حمام میں کام کرتا تھا اور نہایت درجہ موٴمن اور متقی تھا، اپنے ضعیف باپ کی بے پناہ خدمت کرتا تھا، یہاں تک کہ اٹھانا بٹھانا کھلنا پلانا سب اس کے ذمہ تھا، صرف شب چہار شنبہ مسجد سہلہ زیارت امام زمانہ کے اشتیاق میں چلا جایا کرتا تھا۔ ایک شب چہار شنبہ اتفاق سے تاخیر ہوگئی اور تنہا جا رہا تھا کہ اچانک راستہ میں ایک عرب کو دیکھا اور یہ خیال پیدا ہوا کہ عنقریب میرے کپڑے تک اتروا لے گا۔ اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا کہ مسجد سہلہ! اس نے کہا کہ تمہارے جیب میں کچھ ہے؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہے۔ کہا جو بھی ہے فوراً نکالو۔ میں نے پھر انکار کیا تو ڈانٹ کر کہا کہ فوراً نکالو۔ اب جو میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو یاد آیا کہ بچوں کے لیے کشمش خریدی تھی اور وہ رکھی رہ گئی ہے۔ میں نے کشمش پیش کر دی تو کہا کہ واپس جاؤ اور اپنے باپ کی خدمت کرو۔ مسجد سہلہ کی زیارت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ مرد موٴمن کو یہ شرف باپ کی خدمت ہی سے حاصل ہوا ہے کہ اسے امام زمانہں کی زیارت نصیب ہوگئی اور جس مقصد کے لیے برابر آیا کرتا تھا وہ مقصد حاصل ہوگیا اور اسی لیے حضرت نے فرمایا کہ اب جا کر اب جا کر باپ کی خدمت کرو کہ اب دوسرا کوئی کام نہیں رہ گیا ہے ورنہ اگر مسجد سہلہ کی طرف جانا کوئی نامناسب کام ہوتا تو حضرت روز اول ہی منع فرما دیتے۔ بہرحال والدین کی خدمت انتہائی اہم کام ہے۔ یہاں تک روایت میں وارد ہوا ہے کہ اگر ماں باپ شرکت ِ جہاد سے روک دیں اور انہیں اس امر سے وحشت ہو تو ایک ساعت ان کی خدمت کرنا ایک سال راہِ خدا میں جہاد کرنے سے بہتر ہے۔ اور یہ بات امام صادقں نے رسول اکرم سے نقل کی ہے جس سے واقعی اسلام و ایمان کے صحیح مزاج کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دور غیبت کبریٰ میں بھی ایک جہاد کا امکان باقی ہے اور وہ ہے خدمت ِ والدین۔ رب کریم ہر موٴمن کو اس جہاد کی توفیق عطا فرمائے۔ |