معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ
 
زمانہٴ غیبت ِ کبریٰ کے روابط
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام عصرں کی غیبت کی دو قسمیں ہیں۔ غیبت ِ صغریٰ جس کا سلسلہ ۲۶۰ئھ سے شروع ہوکر ۳۲۹ئھ ختم ہوگیا اور جس کے دوران مختلف نواب امام کی طرف سے قوم کے لیے رابطہ کا کام کرتے رہے۔ انہیں کے ذریعہ پیغامات اور سوالات جاتے تھے اور انہیں کے ذریعہ جوابات آیا کرتے تھے۔
جناب عثمان بن سعید، جناب محمد بن عثمان، جناب حسین بن روح اور جناب علی بن محمد سمری وہ معتمد اور مقدس افراد تھے جنہیں امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف نے اپنی نیابت اور سفارت کا شرف عطا فرمایا تھا اور انہیں کے ذریعہ ہدایت اور رہبری کے امور انجام پا رہے تھے۔
اس کے بعد جب غیبت ِ کبریٰ کا دور شروع ہوا اور نیابت ِ خاص کا سلسلہ ختم ہوگیا تو نیابت ِ عام کا سلسلہ شروع ہوا اور اعلان عام ہوگیا کہ اس دور غیبت کبریٰ میں مخصوص صفات کے افراد مرجع مسلمین ہوں گے اور انہیں کے ذریعہ ہدایت امت کا کام انجام دیا جائے گا۔ امت اور اسلام کی حفاظت ان کے ذمہ ہوگی اور ان کی ہدایت و حفاظت ہماری ذمہ داری ہوگی۔
چنانچہ ظاہری نیابت و سفارت کا سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن حفاظت و ہدایت کا سلسلہ جاری رہا اور بے شمار مواقع پیش آئے جب امام نے اپنے نائبین عام کی ہدایت و حفاظت کا فرض انجام دیا اور جہاں ان سے کوئی غلطی ہوگئی یا ان کا وجود خطرہ میں پڑ گیا اور اس کے ذریعہ اسلام کو خطرہ لاحق ہوگیا تو ان کی حفاظت کا فرض بھی انجام دیا۔۔۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ موت برحق ہے اور کسی کو ہمیشہ نہیں رہنا ہے۔ اور بعض اوقات بعض افراد کا راہ حق میں قربان ہو جانا ہی اسلام کے لیے زیادہ مفید تھا تو اس وقت حفاظت و رعایت کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا تھا۔۔۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ عمومی حالات میں انہوں نے ہمیشہ نگرانی فرمائی ہے اور حفاظت و صیانت کا کام انجام دیتے رہے ہیں۔
غیبت ِ صغریٰ اور غیبت ِ کبریٰ کی نیابت کا بنیادی فرق یہی ہے کہ غیبت ِ صغریٰ میں نائبین کی شخصیت طے ہوئی تھی اور غیبت ِ کبریٰ میں ان کے صفات و کمالات کا تعیّن کیا گیا ہے اور شاید اس طریقہ کار میں بھی یہ مصلحت شامل تھی کہ روز اول ہی صفات کا تعیّن کر دیا جاتا تو ہر شخص اپنے آپ کو ان صفات کا حامل قرار دے لیتا اور دوچار اپنے مخلصین جمع کرکے نیابت کا دعویدار بن جاتا اس لیے آپ نے صفات کے بجائے شخصیات کا تعین فرمایا تاکہ لوگ ان افراد کو دیکھ کر ان کے حالات کا جائزہ لیں اور یہ اندازہ کر لیں کہ یہ کن صفات و کمالات کے حامل ہیں اور اس کے بعد یہ طے کریں کہ نیابت امام کے لیے کیسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور کس قسم کے صاحبانِ علم و فضل اور ارباب ِ عزم و ہمت درکار ہوتے ہیں جنہیں امام اپنی نیابت کا کام سپرد کرتا ہے کہ اس کے بعد جب صفات کا تذکرہ کیا جائے گا تو ہر کس و ناکس کو ان صفات کا حامل تصور نہ کیا جائے گا بلکہ اس کے کردار کو ان نائبین کے کردار سے ملا کر دیکھا جائے گا اور پھر اندازہ لگایا جائے گا کہ یہ شخص نیابت ِ امام کا حق دار ہے یا نہیں۔
امام کے صیانت و حفاظت کے شواہد میں وہ خطوط بھی شامل ہیں جو دور غیبت کبریٰ میں امام کی طرف سے وارد ہوتے رہے ہیں، جن میں آپ نے قوم کی حفاظت اور ذمہ داران قوم کی ہدایت کا تذکرہ فرما کر امت اسلامیہ کو مطمئن کر دیا ہے کہ ہم پردہٴ غیب میں ہیں، دنیا سے رخصت نہیں ہوگئے ہیں۔ ہماری غیبت کا مفہوم تمہاری طرف سے غیبت ہے ہماری طرف سے غیبت نہیں ہے۔ ہم تمہاری نگاہوں سے غائب ہیں اور تم ہماری زیارت نہیں کر سکتے ہو لیکن تم ہماری نگاہ سے غائب نہیں ہو۔ ہم تمہیں برابر دیکھ رہے ہیں اور تمہارے حالات و کیفیات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ہم تمہارے حالات سے غافل ہو جائیں تو تمہارا وجود ہی خطرہ میں پڑ جائے اور امامت بھی خطرہ میں پڑ جائے کہ امام قوم کے حالات سے غافل نہیں ہو سکتا۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی قوم کے حالات پر نگاہ رکھتا ہے اور روز ِ قیامت بھی ان کے اعمال کا شاہد و شہید ہوگا، ہم زندہ موجود ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان صرف نگاہوں کا پردہ ہے ورنہ ہم نہ کسی دوسرے ملک میں رہتے ہیں اور نہ کسی دوسرے عالم میں۔ تمہارے ہی درمیان ہیں، تمہارے آلام و مصائب میں شریک ہیں، تمہارے درد و رنج کو دیکھتے رہتے ہیں، موسم حج میں تمہارے ساتھ شریک مناسک رہتے ہیں، تمہارے آباء و اجداد کی زیارت میں تمہارے شانہ بشانہ پڑھتے ہیں بلکہ کبھی کبھی انہیں ہمارے وجود اور ہماری زیارت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے اور جب ہم امام زمانہ کی زیارت کے موقع پر جواب سلام دیتے ہیں تو ان کے ذہن کو ایک جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے لیکن اس کا واقعی احساس ہمارے چلے جانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
ہماری حفاظت و ہدایت میں کسی طرح کا نقص نہیں ہے اور ہم ہر آن تمہاری نگرانی کرتے رہتے ہیں جس کا بہترین ثبوت وہ خطوط ہیں جو ہم نے غیبت کبریٰ کے باوجود اپنے مخلص خادمین دین کو لکھے ہیں اور ان میں ان تمام حقائق کا تذکرہ بھی کر دیا ہے۔
ذیل میں ان دو خطوط کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے جو امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف نے علامہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نام لکھے ہیں اور جن کے الفاظ سے شیخ کی عظمت اور امام کی محبت و حفاظت و رعایت و صیانت کا مکمل اندازہ ہوتا ہے۔
ایک خط میں ارشاد فرماتے ہیں:
”برادر سعید اور محبوب رشید شیخ مفید ابی عبد الله محمد بن محمد بن النعمان (خدا ان کے اعزاز کو باقی رکھے) کے لیے مرکز عہد الٰہی امام کی جانب سے۔
بسم الله الرحمن الرحیم۔ اے میرے مخلص دوست اور اپنے یقین کی بنا پر مجھ سے خصوصیت رکھنے والے محب تم پر میرا سلام۔ ہم خدائے وحدہٴ لا شریک کی حمد کرتے ہیں اور رسول اکرم اور ن کی آل طاہرین پر صلوٰة و سلام کی التماس کرتے ہیں۔
خدا نصرت حق کے لیے آپ کی توفیقات کو برقرار رکھے اور ہماری طرف سے صداقت بیانی کے لیے آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ یاد رکھیے کہ ہمیں قدرت کی طرف سے اجازت ملی ہے کہ ہم آپ کو مراسلت کا شرف عطا کریں اور اپنے دوستوں کے نام پیغام آپ کے ذریعہ پہنچائیں۔ خدا ان سب کو اپنی اطاعت کی عزت عطا کرے، اور اپنی حفاظت و حراست میں رکھے۔ خدا بے دینوں کے مقابلہ میں آپ کی تائید کرے۔ آپ میرے بیان پر قائم رہے اور جس جس پر آپ کو اعتبار و اعتماد ہو اس تک یہ پیغام پہنچا دیں۔ ہم اس وقت ظالمین کے علاقہ سے دور ہیں اور الله کی مصلحت ہمارے اور ہمارے شیعوں کے حق میں یہی ہے کہ ایسے ہی دور دراز علاقہ میں رہیں جب تک دنیا کی حکومت فاسقین کے ہاتھ میں رہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں تمہاری مکمل اطلاع رہتی ہے اور کوئی خبر پوشیدہ نہیں رہتی ہے۔ ہم اس ذلت سے بھی باخبر ہیں جس میں تم لوگ اس لیے مبتلا ہوگئے ہو کہ تم میں سے بہت سے لوگوں نے صالح بزرگوں کا طریقہ ترک کر دیا ہے اور عظمت ِ الٰہی کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے جیسے وہ اس عہد سے باخبر ہی نہ ہوں۔
ہم تمہاری نگرانی کے ترک کرنے والے اور تمہاری یاد کے بھلا دینے والے نہیں ہیں۔ ہم تمہیں یاد رکھتے تو تم پر بلائیں نازل ہو جاتیں اور دشمن تمہیں جلا کر خاکستر بنا دیتے۔ خدا سے ڈرو اور فتنوں سے بچانے میں ہماری مدد کرو۔ فتنے قریب آگئے ہیں اور ان میں ہلاکت کا شدید اندیشہ ہے۔ یہ فتنہ ہماری قربت کی علامت ہے۔ خدا اپنے نور کو بہرحال مکمل کرنے والا ہے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔
تقیہ کو حفاظت کا ذریعہ قرار دو اور اموی گروہ کی جاہلیت کی آگ سے محفوظ رہو۔ جو اس جاہلیت سے الگ رہے گا ہم اس کی نجات کے ذمہ دار ہیں۔ اس سال جمادی الاولیٰ کا مہینہ آجائے تو حوادث سے عبرت حاصل کرو اورخواب سے بیدار ہو جاؤ اور بعد میں آنے والے واقعات کے لیے ہوشیار ہو جاؤ۔
عنقریب آسمان اور زمین میں نمایاں نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ سرزمین مشرق پر قلق و اضطراب ظاہر ہوگا۔ عراق پر ایسے گروہوں کا قبضہ ہوگا جو دین سے خارج ہوں گے اور ان کی بد اعمالیوں سے روزی تنگ ہو جائے گی۔ اس کے بعد طاغوت کی ہلاکت سے مصیبت دفع ہوگی اور صاحبانِ تقویٰ اور نیک کردار افراد خوش ہوں گے۔
حج کا ارادہ کرنے والوں کی مرادیں پوری ہوں گی اور ہم ایک مرتب اور منظم طریقہ سے ان کی آسانی کا سامان فراہم کریں گے۔ اب ہر شخص کا فرض ہے کہ ایسے اعمال انجام دے جو ہماری محبت سے قریب تر بنا دیں اور ایسے امور سے اجتناب کرے جو ہمیں ناپسند ہیں اور ہماری ناراضگی کا باعث ہیں۔ ہمارا ظہور اچانک ہوگا اس وقت توبہ کا کوئی امکان نہ رہے گا اور نہ ندامت سے کوئی فائدہ ہوگا۔ خدا تمہیں ہدایت کا الہام کرے اور اپنی توفیق خاص عنایت فرمائے۔“
یہ خط علامہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی وفات سے تین سال قبل صفر ۴۱۰ئھ میں واصل ہوا تھا، اور دوسرا خط بھی تقریباً اسی طرح کے مضمون کا حامل ہے لیکن ان خطوط کے مضامین سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تازگی ہمہ وقت برقرار ہے اور اس کا ایک ایک جملہ ابدی حیثیت رکھتا ہے۔
صاحبانِ ایمان کو ان خطوط کے حسب ذیل نکات پر خصوصی توجہ دینا چاہیے اور ہر وقت توفیق خیر کی دعا کرتے رہنا چاہیے:
۱۔ راہِ حق میں جہاد کرنے والے اور دین اسلام کی خدمت کرنے والوں کو امام عصرں اپنے ”برادر رشید“ کا مرتبہ عنایت فرماتے ہیں۔
۲۔ امام اپنی قوم سے ہر وقت رابطہ رکھتے ہیں لیکن کوئی کام مرضی ٴپروردگار کے بغیر انجام نہیں دیتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ خط بھی اسی وقت لکھتے ہیں جب حکم خدا ہوتا ہے۔
۳۔ امام ظالموں کے علاقہ سے دور بھی رہتے ہیں اور صاحبانِ ایمان سے قریب بھی رہتے ہیں کہ اس طرح دونوں کی حفاظت بھی ہو رہی ہے اور کارِ دین بھی انجام پا رہا ہے۔
۴۔ قوم کی ساری پریشانیاں ان بے عمل اور بے دین افراد کی وجہ سے ہیں جنہوں نے سلف صالح کا طریقہ ترک کر دیا ہے اور عہد الٰہی کو نظر انداز کر دیا ہے۔
۵۔ امام کسی وقت بھی قوم کی نگرانی سے غافل نہیں ہیں اور اس کا زندہ ثبوت خود قوم کا وجود ہے ورنہ اب تک ظالموں نے سب کو فنا کر دیا ہوتا۔
۶۔ تقیہ ایک بہترین عمل ہے۔ اس کا نظر انداز کر دینا ہلاکت کو دعوت دینا ہے لیکن اسی کے ساتھ خدمت ِ اسلام کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔
۷۔ عراق کے حکام کی بے دینی عوام کی روزی کی تنگی کا باعث ہوگی جس کا منظر آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے کہ ظالموں کی وجہ سے عوام فاقوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
۸۔ عراقی طاغوت کا خاتمہ ہوگا اور صاحبانِ ایمان و تقویٰ کی مسرت کا سامان فراہم ہوگا، انشاء الله۔
۹۔ حج کے مشکلات ختم ہوں گے اور سہولتوں کا دور آئے گا اور امام کی نگرانی میں نظامِ حج مرتب ہوگا، انشاء الله۔
۱۰۔ صاحبان ایمان کا فرض ہے کہ امام سے قریب تر بنانے والے اعمال اختیار کریں اور امام کی ناراضگی سے بچتے رہیں۔ بے عملی، بے دینی، توہین احکام اسلام، غلط بیانی، افترا پردازی، تفرقہ بازی، ضمیر فروشی، محسن کشی، فرائض کا استخفاف، محرمات کی دعوت جیسے اعمال وہ ہیں جن سے امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ناراض ہوتے ہیں اور جن کا محاسبہ ظہور کے بعد بہت سخت ہوگا۔ خدا ہم سب کو امامں سے قریب تر ہونے اور انہیں ارضی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔