معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ | |||||
مَنْ اَنْکَرَ خُرُوْجَ الْمَھْدِیْ
اسلامی روایات کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سرکار دو عالم نے اپنی زندگی میں قیامت تک پیش آنے والے بیشتر واقعات کی وضاحت کر دی تھی اور پروردگار کی طرف سے ترتیب پانے والے نظامِ ہدایت کی صراحت فرما دی تھی۔
آیت اولی الامر کی وضاہت کرتے ہوئے ان تمام افراد کے ناموں کا بھی تذکرہ کر دیا تھا جنہیں پروردگار کی طرف سے منصب ِ ہدایت تفویض ہوا تھا اور جن کے ذمہ صبح قیامت تک ہدایت عالم کی ذمہ داری تھی۔ اس سلسلہ میں ایک عنوان ”مہدی“ بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جس کی بار بار تکرار کی گئی ہے اور جس کے ذریعہ امت کو سمجھایا گیا ہے کہ کائنات کے لیے ایک مہدی کا وجود لازمی ہے، اور دنیا اس وقت فنا نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ مہدی منظر عام پر آکر ہدایت ِ عالم اور اصلاحِ امت کا فرض انجام نہ دے دے۔ لفظ ”مہدی“ کی تعبیر میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ تھا کہ وہ ایسا ہادی ہوگا جو اپنی رہنمائی میں کسی کی ہدایت کا محتاج نہ ہوگا بلکہ اسے پروردگار ِ عالم کی طرف سے ہدایت حاصل ہوگی اور وہ دنیا کی ہدایت کا فرض انجام دے گا۔ یہ بات امت ِ اسلامیہ میں اس قدر واضح تھی کہ ہر دور کے مسلمان کو ایک مہدی کی تلاش تھی اور بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ خود ہی مہدی بن گئے یا سلاطین زمانہ نے اپنی اولاد کے نام مہدی رکھ دیے تاکہ امت کے درمیان جانے پہچانے لق سے فائدہ اٹھایا جا سکے، اور انہیں یہ سمجھایا جا سکے کہ جس کی آمد کی خبر سرکار دو عالم نے دی تھی وہ مہدی میرے گھر میں پیدا ہو چکا ہے۔ بالکل ”مہدی“ ہی کی طرح کا ایک عنوان ”قائم“ بھی تھا جس کا تذکرہ بار بار روایات میں وارد ہوا ہے اور اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ سلسلہٴ امامت کے درمیانی دور ہی سے امت کو ایک ”قائم“ کی تلاش شروع ہوگئی تھی اور جب بھی وہ حالات پیدا ہوگئے یا مظالم اس منزل پر آگئے جس منزل پر امت کے خیال میں ”قائم“ کا قیام ضروری تھا ایک ”قائم“ کی تلاش میں شدت پیدا ہوگئی اور لوگ بے چینی سے اس مصلحِ امت کا انتظار کرنے لگے جس کے قیام سے عالمِ انسانیت کی اصلاح ہو جائے گی اور دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔ بلکہ اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ ائمہ معصومین کی بارگاہ میں حاضر ہوکر برجستہ یہ سوال کرتے تھے کہ کیا سرکار ہی ”قائم آل محمد“ ہیں؟ یا اپنے جس فرزند کی امامت کا اعلان کر رہے ہیں اور اس کی طرف قوم کو متوجہ کر رہے ہیں۔ یہی ”قائم آل محمد“ ہے۔ یعنی امت کے ذہن میں ”قائم“ کا تصور اور ”قائم“ کے ساتھ بساطِ ظلم و جور کے فنا ہو جانے اور عدل و انصاف کے قائم ہونے کا تصور اس قدر راسخ تھا کہ جہاں حالات سے پریشانی پیدا ہوئی اور عدل و انصاف کی ضرورت محسوس ہوئی وہیں ایک ”قائم“ کی جستجو کا خیال صفحہٴ ذہن پر ابھر آیا اور چونکہ مرسل اعظم نے مصلح امت کا تصور اپنی ہی نسل اور اپنے ہی خاندان کے بارے میں دیا تھا اس لیے لوگ اسی خاندان میں تلاش کرنے لگتے اور اس کی ہر فرد سے اصلاح کی آخری امید وابستہ کرکے اسے ”قائم“ کے لقب سے یاد کرنے لگتے۔ ائمہ معصومین نے بھی یہ اہتمام برقرار رکھا کہ ایک طرف یہ وضاحت کرتے رہے کہ ہم ”قائم“ نہیں ہیں یا ابھی آل محمد کے قیام کا وقت نہیں آیا ہے۔ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے اور دوسری طرف جہاں بھی لفظ ”قائم“ زبان پر آیا وہیں سر و قد کھڑے ہوگئے اور گویا کہ ایک طرح کا فرض تعظیم بجا لائے جس کا ظاہری تصور یہی تھا کہ ”قائم“ ایسی باعظمت شخصیت کا نام ہے جس کے تذکرہ پر اس کے آباء و اجداد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور تعظیم و تکریم کا انداز اختیار کر لیتے ہیں جس طرح کہ عظمت ِ زہرا سلام الله علیہا کے اظہار کے لیے مرسل اعظم قیام فرماتے تھے لیکن حقیقی اعتبار سے اس کا ایک دقیق تر نکتہ یہ بھی تھا کہ ائمہ معصومین اس طرزِ عمل کے ذریعہ قوم کے ذہن میں یہ تصور راسخ کرنا چاہتے تھے کہ ”قائم“ کا کام تنہا قیام کرنا نہیں ہے کہ وہ اپنے قیام و جہاد کے ذریعہ سارے عالم کی اصلاح کر دے اور امت خاموش تماشائی بنی رہے جس طرح کہ قوم موسیٰ نے جناب موسیٰں سے کہا تھا کہ آپ اور ہارون جا کر اصلاح کا فرض انجام دیں، ہم یہاں بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ائمہ معصومین کو بنی اسرائیل کا یہ قعود اور ان کی بے حسی اس قدر ناگوار تھی کہ آپ اپنی قوم کو اس کے بالکل برعکس انداز میں تربیت دے رہے تھے کہ وہاں نبی خدا قیام کے لیے آمادہ تھا اور قوم بیٹھی ہوئی تھی اور یہاں قیام کی شان یہ ہے کہ ابھی صرف اس کے نام ”قائم“ کا ذکر آیا ہے اور ہم اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ تمہارے ذہن میں یہ تصور راسخ رہے کہ جب وہ ظاہر بظاہر تمہارے سامنے آجائے اور قیام کے لیے آمادہ ہو جائے تو خبردار تم خاموش نہ بیٹھے رہ جانا اور تمہاری حیثیت ایک تماشائی کی نہ ہو جائے۔ بلکہ تمہارے فرض ہے کہ جیسے ہی وہ قیام کا ارادہ کرے تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اصلاح عالم کی مہم میں اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ ورنہ صرف کسی کے نام آجانے پر اس کے بزرگوں کا کھڑا ہو جانا کوئی دقیق توجیہہ نہیں رکھتا ہے۔ صدیقہ طاہرہ سلام الله علیہا کے لیے پیغمبر اسلام کا قیام ان کی تشریف آوری پر ہوتا تھا ان کے نام پر نہیں۔ اور ائمہ معصومین کا یہ قیام بھی باقی القاب و خطابات سے وابستہ نہیں تھا بلکہ صرف لفظ ”قائم“ سے وابستہ تھا جس کا کھلا ہوا مطلب یہ تھا کہ ان کے نام پر قیام مطلوب ہے اور اس شخصیت کے ساتھ شریک قیام و جہاد ہونا اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔ علماءِ اعلام کی تعلیم اور ان کا طریقہٴ کار آج بھی یہی ہے کہ جب وارث ِپیغمبر کا ذکر اس لقب کے ساتھ ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت کی خدمت میں زبان حال سے عرض کرتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ قیام کے لیے تیار ہیں۔ بس آپ کے ظہور و قیام کی دیر ہے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں رہیں گے اور اصلاح عالم کی مہم میں آپ کی ہر امکانی مدد کریں گے۔ ”مہدی“ اور ”قائم“ یہ دونوں الفاظ دو مختلف لیکن باہم مربوط حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لفظ ”مہدی“ اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا کی اصلاح کسی خود ساختہ یا زمانہ ساز ہادی کے ذریعہ نہیں ہو سکتی ہے، اس کے لیے وہ شخص درکار ہے جس کی ہدایت کا انتظام قدرت کی طرف سے کیا گیا ہو، اور اسے پروردگار نے مہدی بنا کر ہدایت کا ذمہ دار بنایا ہو، اور ”قائم“ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اصلاح عام کا کام گھر بیٹھے انجام نہیں پا سکتا ہے اس کے لیے قیام کرنا ہوگا، زحمتیں برداشت کرنا ہوں گی، مصائب اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور ظلم و جور کے عالم گیر ہنگامہ سے ٹکرانا ہوگا۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین نے ہر دور میں طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، ہر دور میں مصائب برداشت کیے ہیں اور بنی امیہ و بنی عباس کے فراعنہ و جبابرہ سے ٹکر لی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں قائم کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا۔ حضرت امام حسینں کا قیام کربلا میں، امام سجادں کا قیام یزید اور یزیدیت کے مقابلہ میں، امام باقرں و امام صادقں کا قیام بنی امیہ و بنی عباس کے مظالم کے سامنے، امام کاظمں و امام رضاں کا قیام ہارون و مامون کے ظلم و جور کے سامنے، امام جوادں و امام نقی ں اور امام عسکریں کا قیام سلاطین وقت کے مقابلہ میں کوئی مخفی بات نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر قیام مسلح نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود نہ یہ تصور ہو سکتا ہے کہ ائمہ کرام نے اپنے کو حکومتوں کے سپرد کر دیا تھا اور نہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ حالات سے بالکل الگ تھلگ رہے اور امت کی بربادی کا منظر دیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے اپنے ظاہری امکان بھر ہر موقع پر قیام کیا ہے اور حکومت کو اس کے ظلم و جور پر متنبہ کیا ہے بلکہ عوام کو بھی حکومتوں کے مظالم سے آگاہ کیا ہے۔ صفوان جمال سے یہاں تک فرما دیا تھا کہ ان حکام کو جانور کرایہ پر دینا بھی ان کی زندگی کی تمنا کے برابر ہے اور ظالم کی زندگی کی تمنا اس کے ظلم میں شرکت کے مرادف ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ لیکن ان تمام مجاہدات کے باوجود ان معصومین کو لفظ قائم سے نہیں یاد کیا گیا اور یہ حضرات خود فرماتے رہے کہ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے۔ اس کا مطلب یہہے کہ آخری ”قائم“ کے ذمہ جو کام رکھا گیا ہے وہ ان سب سے زیادہ اہم اور سنگین ہے اور اس کا انقلاب آخری اور دائمی ہوگا۔ اس کا فریضہ ظالم سے مقابلہ کرنا اور اسے فنا کرن دینا نہیں ہے بلکہ اس کا فریضہ ظلم و جور کا استیصال کرنا ہے۔ اس کے دور میں صرف کسی ایک ظالم حکومت کا سامنا نہیں کرنا ہوگا بلکہ اسلام و کفر کی تمام انحرافی قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ وہ منحرف مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں، عیسائیوں، کافروں، مشرکوں اور بے دینوں سے بیک وقت مقابلہ کرے گا اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے مقابلے کے لیے اسی طرح کی توانائی کی ضرورت ہوگی اور اتنے بڑے جہاد کے لیے ایسا ہی حوصلہ درکار ہوگا۔ مثالی انداز سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح اسلام کی غربت کے دور میں امام حسینں نے تن تنہا اپنے مختصر ساتھیوں کے ساتھ پوری قوت ِ ظلم و جور کے مقابلہ میں قیام کیا تھا اسی طرح یہ وارث ِ حسین ساری دنیا کے ظلم و جور کے مقابلہ میں اپنے چند مخصوص اصحاب کے ساتھ قیام کرے گا اور اس قیام کی عظمت وہی افراد پہنچائیں گے جو قیامِ کربلا کی اہمیت سے آشنا ہیں، اور اس قائم کی ہمت و جرأت کی قدر وہی افراد کریں گے جو اصلاح و انقلاب و جہاد و قیام کے مفہوم سے آشنائی رکھتے ہیں۔ قدرت نے اس آخری حجت کو ایک عظیم کربلا کا ذمہ دار بنایا ہے تو مناسبت برقرار رکھنے کے لیے اور جہاد کی عظمت کا اعلان کرنے کے لیے اس کے آخری فرائض کی ذمہ داری حضرت امام حسینں ہی کے سپرد فرمائی ہے۔ جیساکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ آغازِ رجعت میں سب سے پہلے امام حسینں ہی کا ظہور ہوگا اور آپ ہی امام عصر کی تجہیز و تکفین کا فرض انجام دیں گے تاکہ معصوم کے امور تجہیز و تکفین معصوم ہی انجام دے اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ یہ آخری کربلا ہے جس کا فاتح آخری وارث ِ حسین بن علی ہے۔ اسی لیے آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ امام عصرں کا تعارف و روایات میں فرزند حسین ہی کے نام سے کرایا گیا ہے اور امام حسینں کے بعد ائمہ معصومین کو فرزندان حسین سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں اس کے آخری فرزند حسین کو امام زمانہ کہا گیا ہے۔ بہرحال ایک ”مہدی“ اور ایک ”قائم“ کا وجود اصلاح دنیا کی ضرورت، اعتبار پیغمبر کی صداقت اور قدرت کے نظامِ ہدایت کی تکمیل کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اب اگر مہدی کا انکار کر دیا جائے گا تو گویا سارا نظامِ ہدایت ناقص اور سارا کلام پیغمبر غیر صادق ہو جائے گا اور یہ بات مزاجِ اسلام کے خلاف ہے۔ اس لیے روایت میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ جس نے خروج مہدی کا انکار کر دیا گویا اس نے پیغمبر پر نازل ہونے والے تمام قانون کا انکار کر دیا جس طرح کہ پہلی منزل پر یہی اعلانِ غدیر خم میں ہوا تھا اور اب آخری منزل پر ظہورِ امام عصر کے بارے میں ہو رہا ہے۔ اول بآخر نسبتے دارد۔ تاریخ آل محمد برابر مربوط اور مسلسل ہے، یہاں اولنا محمد و آخرنا محمد وکلنا محمد، ایک حقیقت ہے۔ |