اس قدر طولانی غیبت کا رازکیا ہے؟
تیسرا سوال:۔اس قدر طولانی غیبت کا رازکیا ہے؟
کہتے ہیں حضرت مہدی کی عمر کے اس حد تک طولانی ہونے پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے قوانین توڑنا پڑیں یا معجزہ کی ضرورت ہو ؟کیوں اس بات کو قبول نہیں کرلیتے کہ آخری زمانے میں امت بشریہ کی قیادت کے لیے اسی زمانے میں ایک شخص پیدا ہوگا اورطبیعی حالات میں زندہ رہ کر انقلاب کے لیے قیام کریگا؟
جواب:۔ہمارے سابقہ معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا جواب بہت واضح ہے اللہ نے ایسی حکمتوں اوراسرار کی وجہ سے کہ جن تک ہماری رسائی نہیں ہے یا ان میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں۔
اس جہان میں یا کسی اورجہان میں بعض اشخاص کو امام مہدی کی عمر سے بھی بہت زیادہ طویل عرصے سے زندہ رکھا ہوا ہے ہم ان پریقینی صورت میں ایمان رکھتے ہیں پس امام مہدی کے بارے میں بھی ایسا ہی کرنا چاہے کیونکہ جیسے کہ پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں ہم مسلمان ہونے کے ناطے ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کوئی فضول کام انجام نہیں دیتا۔
نیز غیب کی بہت سی چیزوں پرایمان رکھتے ہیں کہ جن پر عقلی ومقلی محکم دلائل موجود ہیں پس کوئی حرج نہیں ہے کہ ہمیں اپنے کسی عقیدے کی حکمت اورفلسفہ معلوم نہ وہوجیسا کہ احکام شرعیہ قوانین الہیہ اوربندگی وعبادت کے ایسے کئی اعمال ہیں جن کے راز اورحکمتیں ہمیں معلوم نہیں ہیں لیکن ان کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح دو سرے الہی وغیرہ الہی ادیان میں بھی ایسا ہے بلکہ انسانی اورملکی قوانین میں بھی ایسا ہوتا ہے
اب ہم کہتے ہیں کہ سابقہ فصول میں ہماری قائم کردہ دلیلیں جو یہ بتارہی ہیں کہ مہدی پرایمان لاناضروری ہے اس کی خصوصیات سمیت اور یہ کہ وہ حسن عسکری کا فرزند حجة ہے اوریہ کہ پانچویں سال میں امام تھا اوریہ کہ اب تک زندہ ہے اگرکافی ہے توحتمی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس طولانی غیبت کا عقیدہ رکھیں چاہے اس کے کسی فلسفے کا ہمیں علم ہو یا نہ۔
اگرچہ ممکن ہے کہ ہم اپنی محدودعقل اورقاصر فہم کے ساتھ بعض اسرار کا پتہ لگالیں ۔لیکن جو مسلمان حضرت امام مہدی کی طولانی عمر کے معجزے اورغائب ہوتے ہوئے ان کے وجود کے فوائد کا قائل نہیں ہو سکتا اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے سرے سے اپنے عقیدے کو عقلی ونقلی دلیلوں کی کسوٹی میں پرکھے۔
اس بنا پر اس دوسرے فرض کو قبول کرنا بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ دلیلیں ہماری اس طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ زمین ایک لحظہ کے لیے بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی اس پر ایمان لانے کے بعد چاہے اس کے اسرار کا ہمیں علم ہو یا نہ ہو اس عقیدے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ حضرت مہدی ولادت سے لے کر اب تک زندہ ہیں
سوال چہارم :۔ امام غائب کا فائدہ کیا ہے؟
بعض اذہان میں یہ سوال بھی گردش کرتا ہے کہ امام مہدی جب اس طرح غائب اورنظروں سے اوجھل ہیں توامت مسلمہ کو ان سے فائدہ کیا ہے؟
جواب:۔ جوشخص اس مسئلے میں دقت اورتحقیق کرتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان صحیح روایات کومدنظر رکھے جو کہتی ہیں امام مہدی بہت سریع یا اچانک ظہورفرمائیں گے یعنی کسی مخصوص زمانے یا وقت کی تعین کے بغیراس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر نسل ان ظہور مبارک کی منتظر رہے لہذااس مسئلہ میں تامل کرنے سے مندرجہ ذیل فوائد کا کشف کرنا مشکل نہیں ہے۔
۱۔ یہ چیز ہرمومن کو شریعت پر کاربند رہنے اوراس کے اوامر ونواہی کی پابندی کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے اوراسے دوسروں پر ظلم کرنے اوران کے حقوق کو غصب کرنے سے باز رکھتی ہے۔
کیونکہ امام مہدی کے اچانک ظہور کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی اس حکومت کی بنیادرکھیں گے جس میں ظالم سے انتقام لیا جائے گا،عدل کو رائج کیا جائے گا اورظلم کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائیگا۔اگرکہاجائے شریعت اسلام جس کا دستور قرآن کریم ہے نے ظلم وزیادتی سے منع کردیا ہے پس وہی کافی ہے توہم کہیں گے حکومت سلطنت اورطاقت کے وجود کا عقیدہ رکھنا بہت قوی مانع شمار کیا جاتا ہے۔
صحیح میں آیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ بادشاہ کے ذریعے وہ کچھ روکتا ہے جوقرآن کے ذریعے نہیں روکتا۔
۲۔ یہ چیز ہر مومن کودعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو امام مہدی کے لشکر میں شامل کرنے ان کی پوری طرح حفاظت کرنے اپنی قربانی دینے اورشریعت الہیہ کو قائم کرنے کے لیے ان کی حکومت کو پوری زمین پر پھیلانے کیلئے ہر وقت اپنے آپ کو تیار اورآمادہ رکھے۔
کیونکہ اس سے مومن نے اندر باہمی تعاون اوراپنی صفوں کو منظم ومضبوط رکھنے کا شعور پیدا ہوتا ہے اس لیے کہ مستقبل میں وہ حضرت امام مہدی کے لشکر میں شامل ہونے والے ہیں
۳۔ یہ غیبت مومن کو اپنے فرائض خاص طور پرامر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضے کو جلد از جلد انجام دینے پرآمادہ کرتی ہے کیونکہ حضرت امام مہدی کے مددگاروں کے لیے فقط انتظار میں بیٹھے رہنا کافی نہیں ہے بلکہ عظیم اسلامی حکومت قائم کرنے اورظہور سے پہلے اس کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا فرفریضہ انجام دینا ضروری ہے۔
۴۔ امت مسلمہ جو زندہ اورموجود حضرت امام مہدی کا عقیدہ رکھتی ہے ہر وقت عزت اورکرامت کے احساس کے ساتھ زندی گزارے گی
اللہ تعالی کے دشمنوں کے سامنے اپنا سر تسلیم خم نہ کرے گی ان کی ظلم وزیادتی اورسرکشی کے سامنے نہیں جھکے گی کیونکہ اسے ہر لمحے امام مہدی کے کامیاب ظہور کا انتظار ہے لہذا وہ ذلت وپستی سے محفوظ رہے گی استکباری قوتوں اوران کے تمام آلہ کاروں کو حقیر اورمعمولی سمجھے گی
اوریہی احساس مقابلہ کرنے قربانی دینے اورپایدار رہنے کاایک بہت بڑا عامل ہے اوریہی اللہ اوراسلام کے دشمنوں کوخوفزدہ کئے ہوئے ہے اوریہی ان کے مسلسل خوف اورڈرکا راز ہے۔ اس لئے انہوں نے ہمیشہ نظریہ مہدویت کو کمزورکرنے کی کوشش کی ہے اوراس میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے قلموں کو خریداہے کہ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے انہیں گمراہ کرنے اوراپنے صحیح نظریات سے منحرف کرنے اپنے فاسد عقائد کی ترویج کرنے کے لیے ان کے اندر ربابیت بہائیت ، قادیانیت، اوروہابیت جیسے نئے نئے فرقے پیدا کیے ہیں ۔
ان کے علاوہ ظہور امام مہدی کا عقیدہ رکھنے والا شخص آخرت میں بھی اس کے بہت سارے فوائد اورثمرات حاصل کرسکتا ہے ان میں سرفہرست اللہ تعالی کے عدل اوراس امت پرمہربان ہونے کا عقیدہ رکھنا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے بغیرکسی سہارے کے نہیں چھوڑدیا کہ دین سے اانحراف کودیکھ کے وہ مایوسی کا شکار ہوجائے بلکہ ان کے لیے امام مہدی کی قیادت میں دین کے تمام روئے زمین پر غالب ہونے کی امید برقراررکھی ہے۔
دوسرا فائدہ انتظار پراجروثواب ہے امام صادق سے ایک صحیح حدیث سے مروی ہے "ہمارے مہدی کا انتظار کرنے والا اپنے آپ کو راہ خدامیں خون میں لت پت کرنے والے کی مثل ہے"
اسی طرح کاایک فائدہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا پابندرہنا ہے جس میں وہ ابراہیم کی اپنے بیٹوں کو وصیت نقل کررہا ہے۔
یا بنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تمومن الا وانتم مسلمون
میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لئے دین کو منتخب کیا ہے پس نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ مسلمان ہو(البقرہ :۲۔۱۳۲)
اورہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ جو بندہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مرجائے وہ جاہلیت والی موت مرتا ہے اورہمارے زمانے کے امام یہی امام مہدی ہیں ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ "زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی"
آخرمیں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ دشمنان اسلام کی مسلسل اورسر توڑ کوشش رہی ہے کہ خود مسلمانوں کی صفوں کے اندر ایجنٹ پیدا کریں شاید انہیں بعض ایسے لوگ مل جائیں جنہیں وہ اچک لیں اوراپنی چادردیواری میں محفوظ کرلیں اورانہیں جھوٹے القاب دے کر کہ جن کہ وہ عرصہ دراز سے بھوکے ہیں اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے ان سے سواری کا کام لیں اوراسلام اوراس کے اعلی اصولوں کو بدنام کرنے والے رسالوں اورتنظیموں کے لیے انہیں آلہ کار کے طور استعمال کریں ۔
لیکن انہیں وہی لوگ ملیں گے جو اپنے روشن راستے سے منحرف ہو کر اپنے آپ کو بچے کی طرح وہ شعور سے بے بہرہ ان دایوں کی گودوں میں ڈال دیئے ہیں جو ہر گندے کھیل کے لیے بچے کو تیار کرتی ہیں
جیسے آجکل سلیمان رشدی جیسے لوگ کمزورمسلمانوں کو اپنے زہریلی پروپیکنڈے سے ڈسنے میں مصروف ہیں
لہذا مسلمانوں کو گھٹیا ہتکنڈوں کے خطرات سے آگاہ کرنا ان کے ناپاک عزائم سے بچانا اورقرآن وسنت اورمکتب اہلبیت علیھم السلام کے حقیقی ایمان کے قلعے میں محفوظ کرنا ناشرعا واجب ہے
چنانچہ ندا سلام پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کتاب میں اسلام کے ایک بنیادی نظریے کے بارے میں بحث کی ہے اوروضاحت سے بیان ہوچکا ہے کہ ظہور حضرت امام مہدی کا نظریہ اسلام کے دائمی پیغام کا لازمہ ہے اوراسے جھٹلانا اسلام کے پیغام کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
اوراس کتاب کا سلاست اسلوب اورقوت دلیل کے علاوہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں نظریہ مہدویت کی حقیت کے متلاشی ہر شخص کے لیے جواب موجود ہے
والحمدللہ علی ھدایتہ ، الصلوة والسلام علی افضل انبیائہ ورسلہ محمد، علی آلہ الطاہرین ، وصحبہ المخلصین ومن سارعلی نھجھم الی یوم الدین(المحرم الحرام ۱۴۱۷ھجری)
|