مھدی منتظر اور اسلامی فکر
 
دوسراسوال :۔ طول عمر
شاید سب سے اہم اعتراض کہ جس کا ہمیشہ سے پھر پور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جب مہدی ایک ایسے انسان ہیں جو مسلسل گیارہوں صدی سے زندہ ہیں توانہیں اتنی طویل عمر کہاں سے ملی اوران طبیعی قوانیں سے کیسے محفوظ رہے جس میں بڑھاپے کا مرحلہ ضروری ہے(یہ شبہہ کتب عقائد میں بہت قدیم زمانے سے زیر بحث لایا جاتا ہے اورشیعوں کے بڑے بڑے علماء نے اس کا مختلف طریقوں سے جواب دیا ہے ہم ان میں سے فقط بعض کو ذکر کریں گے)
اس شبہے کو سوال کی صورت میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے ایک انسان کئی صدیوں تک زندہ رہے ؟اس سوال کے جواب کے لیے مسئلہ امکان کی بطور رتمہید وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔

امکان کی تین قسمیں ہیں ۔
اول :۔امکان عملی
یعنی وہ امکان جو فعلا اورواقعا ممکن ہے اورواضح طور پر وجود رکھتا ہے ۔

دوم :۔امکان علمی!
یعنی وہ امکان جو صرف علمی پہلو سے محال نہیں ہے اورعلم اس کے وجود کو محال قرارنہیں دیتا

سوم :۔امکان منطقی!
یعنی وہ امکان جو عقلاء کی نظر میں محال نہیں ہے اورعقل اس کے وجود کو نا ممکن قرارنہیں دیتی ۔اب ہم اس مسئلہ کوامکان منطقی سے شروع کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صورت میں پیش کرتے ہیں ۔
کیا انسان کا صدیوں تک زندہ رہنا عقلی لحاظ سے ممکن ہے ؟اس کا جواب مثبت ہے پس عمر کا طبیعی حدسے کئی گناہ زیادہ ہونا محال نہیں ہے اوریہ بات تھوڑے سے غوروفکر سے واضح ہوجاتی ہے البتہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا لیکن ایسے حالات کو اہل تاریخ نے درج کیا ہے اورعلمی نشریات نے نقل کیاہے جن سے انسان کوتعجب نہیں ہوناچاہئے خاص طورپر مسلمانوں کوکہ جن کے کانوں میں وحی الہی کی یہ آوازٹکراتی ہے۔
ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ فلبث فیھم الف سنۃ الا خمسین عاما
اورہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ ان میں پچاس کم ہزار سال رہے(العنکبوت:۲۹۔۱۴)
امکان کے اس معنی کومزید واضح کرنے کے لیے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں اگرایک شخص ایک مجمع میں دعوی کرے کہ وہ دریا کو چل کرعبورکرسکتا ہے یا آگ پرسے گزرسکتا ہے بغیراس کے کوئی نقصان پہنچے توحتمی طور پرلوگ اس پرتعجب کریں گے اوراس کا انکارکریں گے۔
لیکن اگروہ اپنے دعوی کے ثابت کرتے ہوئے دریا کوعبور کرلے یا آ گ پرسے گزرکردکھادے تولوگوں کا انکاراورتعجب ختم ہوجائے گا پھر اگرایک دوسراشخص یہی دعوی کرے تواس کا تعجب درجہ کمترہوجائیگا اوراگرتیسراچوتھا پانچواں دعوی کرے تویہ تعجب مزید کم ہوتا جائیگا۔
کیونکہ پہلی مرتبہ لوگوں کو تعجب ہوا تھا وہ پانچویں مرتبہ میں اسی قوت اورحالت پر باقی نہیں رہے گا بلکہ یقینی طور پر کم ہوتا ہوتا ختم ہوجائے گا۔
ہمارا مسئلہ بھی اسی طرح کا ہے۔ قرآن نے خبردی کہ نوح نبوت سے پہلے کی عمر کے علاوہ اپنی قوم میں ساڑھے نوسو سال تک رہے اوریہ کہ حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا ہی۔
وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وما قتلوہ وماصلبو ہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلوفیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلو یقینا ، بل رفعہ اللہ الیہ وکان اللہ عزیزاحکیما
اوران کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ ابن مریم کو قتل کردیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل ہی کیا اورنہ سولی ہی دی مگر ان کے لیے ایک دوسرا شخص عیسٰی کے مشابہ کردیا گیا جو لوگ اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں یقینا وہ لوگ اس کے حالات کی طرف دھوکے میں پڑے ہیں ان کو اس واقعہ کی خبر بھی نہیں فقط اٹکلی کے پیچھے ہیں اورعیسی ٰ کو انہوں نے یقینا قتل کیا بلکہ خدا نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا ہے اورخدا بڑازبردست تدبیر والا ہے(النساء :۴۔۱۵۸۔۱۵۷۔۴)
اسی طرح بخاری ومسلم کی روایات میں ہے کہ عیسی ٰنازل ہوں گے نیز ان میں موجود ہے کہ دجال زندہ ہے(بخاری اورمسلم میں خروج دجال اورنزول عیسیٰ کی احادیث کو ہم مفصل بیان کر چکے ہیں نیز ذکر کرچکے ہیں کہ اہل سنت کے کن علماء نے اسے اپنا مسلم عقیدہ شمار کیا ہے اورواضح طور پر کہتے ہیں کہ دجال آخری زمانے تک زندہ رہے گا اورحضرت عیسیٰ حضرت امام مہدی کی مددکے لیے آخری زمانے میں نازل ہوں گے ملاحظہ ہو فصل سوم صحیحین کا احادیث مہدی سے خالی ہونے کا بہانہ)
اب جب صحیح روایات پکارپکار کرکہتی ہیں اورگواہی دیتی ہیں اورپے درپے اعترافات منظر عام پر آتے ہیں کہ پیغمبر کی عترت طاہرہ اوراولاد فاطمہ سے امام حسن عسکری کے فرزند حضرت امام مہدی۲۵۵ ء ہجری میں پیدا ہوئے اورابھی تک زندہ اورموجود ہیں توتعجب اورانکارکی کوئی وجہ نہیں اوراس سے انکار سوائے دشمنی اورہٹ دھرمی کے کچھ نہیں ہے۔
تفسیر رازی میں ہے "بعض اطباکہتے ہیں انسانی عمر۱۲۰سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی لیکن آیت جھٹلاتی ہے اورعقل آیت کی موافقت کرتی ہے۔
کیونکہ انسان میں جوترکیب ہے اس کا باقی رہنا ذاتا ممکن ہے ورنہ باقی نہ رہتی اوراس میں موثر کی دائمی تاثیر بھی ممکن ہے کیونکہ موثر اگرخدا تعالی ہے تووہ واضح طورپردائمی ہے۔ اوراگرغیر ہے تواس کا بھی کوئی موثر ہوگاآخرکاراتناواجب الوجوب پرہوگی جوکہ دائم ہے پس اس کی تاثیر بھی دائمی ہوسکتی ہے پس بقا ذاتا ممکن ہے۔اوراگر ایسا نہ ہوتا توکسی ایسے عارضی سبب کی وجہ سے ہوگا جس کامعدوم ہوناممکن ہے ورنہ وہ اسقدر باقی نہ رہتا کیونکہ جو مانع عارض ہے وہ واجب الوجود ہے
پس ظاہر ہوگیا کہ ان کی یہ بات عقل ونقل کے خلاف ہے"(تفسیرکبیر رازی ۲۵:۲۴)
یوں رازی نے غیرمعمولی طور پر انسان کے طول عمر کے ممکن ہونے پراستدلال کیا ہے جب کہ جناب حضرت عیسیٰ کی طول عمر ثابت ہے لہذا یہی برہان حضرت مہدی کی طول عمر میں بھی جاری ہوسکتی ہے۔
اوراس استدلال کومزید تقویت صحاح وغیرصحاح کے حضرت عیسیٰ کے آخری زمانے میں دجال کے قتل اورامام مہدی کی مدد کرنے پر اتفاق سے مل سکتی ہے اس کی تفصیل مہدی کون ہے والے کے جواب میں گزر چکی ہے اب ہم امکان عملی کی بحث کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کیا عملی طور پریہ امکان ہے کہ انسان اسقدر طویل عمر پائے اورکیا تجربہ اس کا شاہد ہے؟

جواب:
موجودہ تجربات ، موجودہ امکانات اورحالات کی روشنی میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوسکے کہ انسان کی طبیعی عمر کو ایک سال یادوگنا بڑھا دیں اوریہ چیز بظاہر دلیل کی محتاج نہیں ہے لیکن یہ انسانی عمر طویل نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ امکان عملی میں ایک انسان دوسرے انسان کی طبیعی عمر کو طویل کرنے کا فقط حیلہ کرسکتا ہے لیکن عمریں خدا کے ہاتھ میں ہیں۔
لہذا تقدیر کے خلاف عمر کو زیادہ کرنا انسان میں نہیں ہے ہاں اللہ تعالی معمر لوگوں کی زندگی کوطویل کرنے کے اسباب فراہم کرسکتا ہے اورسائنس زیادہ سے زیادہ ان اسباب کی کشف کرسکتی ہے لیکن ان اسباب کو خود فراہم نہیں کرسکتی کیونکہ بالاتفاق یہ اسباب خدا کے ہاتھ میں ہیں۔
دوسرا سوال کیاامکان علمی کی روشنی میں انسان کی عمر طبیعی حدسے زیادہ طویل ہو سکتی ہے؟

جواب اول:
جی ہاں !متعدد شواہداوراعدادوشمار امکان علمی کو ثابت کرتے ہیں ۔
۱۔ سائنسی تجربات انسانی عمر کومعمول سے زیادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اوریہ تجربات بڑھاپے والے قانون کو توڑرہے ہیں۔
چنانچہ مصر سے نکلنے والے رسالے "المقطف"کے شمارہ اگست ۱۹۲۱ ئمطابق۲۶ذیقعدہ ۱۳۳۹ ئہجری کی جز دوم جلد ۵۹صفحہ ۲۰۶پر اس عنوان ’انسان کا زمین پر ہمیشہ رہنا "کے تحت آتا ہے امریکاکی جونس ہبکنس یونیورسٹی کے پروفیسر ریمنڈبول کہتے ہیں ۔
بعض سائنسی تجربات سے ظاہرہوتا ہے کہ انسانی جسم کے اجزاکو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا جاسکتا ہے لہذا انسانی زندگی کے سوسال کے ہونے کا احتمال ہے اوراسکے ہزارسال تک طویل ہونے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے"
اسی رسالے کے ۵۹کے عدد سوم صفحہ ۲۳۹پر ہے "یہ ممکن ہے کہ انسان ہزاروں سال تک زندہ رہے اگراس کی زندگی کو ختم کرنے والی چیزیں اسے عارض نہ ہوں اوران کی یہ بات فقط ایک گمان ہی نہیں ہے بلکہ سائنسی تجربات کا نتیجہ ہے ہم اس امکان علمی کی تائید کے لیے انہیں شواہد پر اکتفاکرتے ہیں ج ماہرین نے اسے امکان علمی میں تبدیل کرنے کے لیے انجام دیئے ہیں۔
۲۔ حال ہی میں بیروت "الایمان پبلیشرز اوردارالرشید "دمشق سے شائع ہونے والی کتاب "حقائق اغرب من الخیال"جزء اول صفحہ ۲۴پر ہے۔
بیریر۱۹۵۵۱ ء میں اپنے آبائی وطن مونٹریا میں ۱۶۶ سال کی عمرمیں دنیا سے رخصت ہو اورا س کی عمرکی اس دوستوں کے گواہی دی اورمیونسپل کمیٹی کے رجسٹروں میں اس کا ریکارڈ محفوظ ہے اورخود بیر یرانے ۱۸۱۵ ء میں واقع ہونے والی جنگ کا راجنیا کے واقعات بڑی وضاحت سے بیان کئے تھے
زندگی کے آخری دنوں میں اسے نیویارک لایاگیا جہاں پر طبیعی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا چیک اپ کیا توانہوں نے دیکھا کہ اس کا بلڈپریشر، نبض اوردل کی دھڑکن بالکل صحیح ہے اوردماغ ابھی تک جوان ہے۔
لیکن اس کے باوجود انہوں رپورٹ دی کہ اس کی عمر ۱۵۰سال سے زیادہ ہے اوراس کے صفحہ تیس پر ہے کہ توماس بار ۱۵۲سال تک زندہ رہا"۔
اورصاحب سنن سجستانی نے "المعمرون نامی ایک کتاب لکھی ہے اس میں اس نے بہت سارے سن رسیدہ افراد کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے بعض کی عمر توپانچ سوسال تک زندہ رہا "۔
۳۔ فقط طبی ماہرین کا بڑھاپے کے مرض اورموت کے اسباب کو پہنچاننے کیلئے تجربات کرنا اورانسانی عمرکو طولانی کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرنا اگرچہ محدود حدتک ہی کیوں نہ ہو یہ خود امکان کی ایک دلیل ہے ورنہ ان کا یہ کام فضول اورخلاف عقل ہوگا۔
اس کی روشنی میں حضرت امام مہدی کے مسئلے میں تعجب یا انکار کی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے مگریہ کہاجائے کہ حضرت امام مہدی سائنس سے بھی سبقت کے گئے ہیں پس آپ کی شخصیت میں امکان علمی امکان عملی میں تبدیل ہواقبل اس کے کہ سائنس ترقی کرتے ہوئے
لیکن یہ بھی انکار یاتعجب کی کوئی عقلی وجہ نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص سائنس سے پہلے کینسر کی دوا دریافت کرلے اوراسلامی نظریہ میں ایسی سبقت کے کئی واقعات ملتے ہیں۔
چنانچہ قرآن مجید میں وجود ، طبیعت اورانسان کے متعلق کئی حقائق کی طرف اشارے کئے ہیں اورسائنس نے بعدان سے پردہ اٹھایا ہے۔
ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے سامنے یہ قرآن کریم ہے جو حضرت نوح کا واقعہ بیان کرکے امکان عملی کا واضح ثبوت فراہم کررہا ہے اسی طرح احادیث نبویہ نے متعدد اشخاص کے صدیوں سے زندہ ہونے کی وضاحت کی ہے جیسے حضرت خضر حضرت عیسیٰ اوردجال،
جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں جساسہ سے نقل کیا ہے ان پرہم کیوں ایمان رکھتے ہیں حالانکہ اسلام کے مستقبل کے لئے ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے سوائے حضرت عیسی کے جونازل ہو کرحضرت امام مہدی کے وزیر ، مددگار اورآپ کے لشکر کے قائد ہوں گے جیسا کہ کثیر روایات میں ہے(ملاحظہ ہو شہید محمد باقر کی "الجوث حول المھدی)
اورکیوں بعض لوگ حضرت امام مہدی کا انکار کرتے ہیں جب کہ مستقبل میں وہ اس قدراہم کام کرنے والے ہیں کہ زمین کوعدل وانصاف سے پرکریں گے اورحضرت عیسٰی آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے(اس چیز کا صحیح بخاری کے پانچ شارحین نے اعتراف کیا ہے جیسا کہ اس کی تفصیل فصل سوم کے اول میں گزر چکی ہے)

جواب دوم:۔
فرض کریں بڑھاپے والا قانون حتمی ہے اورانسانی عمر کو طبیعی حدسے زیادہ طویل کرنا ان طبیعی قوانین کے خلاف ہے جن کا ہم آج تک مشاہدی کررہے ہیں توامام مہدی کی نسبت یہ چیز معجزہ ہوگی اوریہ کوئی تاریخ میں انوکھا واقعہ نہیں ہے۔
پھر مسلمان جو اپنا عقیدہ قرآن کریم اورسنت شریفہ سے حاصل کرتا ہے کو اس پرتعجب یا انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کے سامنے اس سے بھی زیادہ مضبوط طبیعی قانون ٹوٹ گیا ہے جیسا کہ جناب ابراہیم کو جب بھڑکتے ہوئے شعلوں میں ڈالا گیا تو اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے ذریعے ان کو نجات دی اور آگ گلزار بن گئی۔قرآن اس کی یوں تصریح کرتا ہے
قلنا یا نار کونی برداوسطاما علی ابراہیم
ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر بالکل ٹھنڈی اور سلامتی کا باعث بن جا(سورة انبیاء۲۱۔۲۹)
اب یہ اوراس قسم کے دوسرے معجزات وکرامات جو خدا نے خاص طور پر اپنے اولیاء کو عطا کئے ہیں سائنسدانوں کی مادی وسائل سے تیارکردہ نئی نئی ایجادات اوربڑی بڑی اختراعات کی وجہ سے فہم کے زیادہ قریب ہوگئے ہیں۔
یہی ایجادات اگر سابقہ دور میں ذکر کی جاتیں توسختی سے ان کا انکار کیا جاتا لیکن ہم ان کا مشاہدہ کررہے ہیں مثلا یہی ٹیلیویژن جسے پہلے ہم روایات میں پڑھتے تھے کہ :۔آخری زمانے میں مشرق میں رہنے والے لوگ مغرب میں رہنے والوں کو سنیں گے اوردیکھیں گے"
اوربعض لوگ انہیں بالکل غیر معقول قراردیتے تھے لیکن آج کل ایسا ہورہا ہے لہذا کسی شئی کے وجود پر تعجب کرنا یا اس کے وجود کا انکار کرنا صرف اس بنا پر کہ اس کی نظیر نہیں ہے یا وہ عام نہیں ہے کوئی منطقی اورعلمی بات نہیں ہے جب کہ یہ چیزیں امکان علمی اورمنطقی کے دائرے میں ہے اوراس پر متعدد شواہد بھی موجود ہیں
ایسی ہی بڑی بڑی علمی دریافتوں کی خبر دینے والی احادیث مثل وروایات ہیں جو امام مہدی کے معجزانہ طور پر ظہور کی خبر دیتی ہیں کہ جو جدید ایجادات کے بالکل مطابق ہے۔حضرت امام صادق سے مروی ہے کہ :۔جب ہمارا قائم ظہور کرئے گاتواللہ تعالی ٰ ہمارے شیعوں کے لیے ان کے کانوں اورآنکھوں میں اسقدر کشش پیدا کردے گا کہ ان کے اورہمارے درمیان کوئی بڑافاصلہ نہیں رہے گاوہ ان سے بات کرے گا تووہ سن رہے ہوں گے اوراسے اس کی اپنی جگہ پر دیکھ رہے ہوں گے(روضة کافی ۸:۲۰۱۔۳۲۹)