مھدی منتظر اور اسلامی فکر
 
امام مہدی عقل اورعلم کی روشنی میں
جو لوگ حضرت امام مہدی کا انکار کرتے ہیں اورانہیں امام حسن عسکری کا بیٹا محمد نہیں مانتے وہ ایسی دلیلوں سے تمسک کرتے ہیں جن کا عقائد کے سلسلے میں اسلام کی معین کردہ روش سے دور ک بھی واسطہ نہیں ہے
اسلام کی روش جس طرح عقل ومنطق پر قائم ہے اسی طرح فطرت اورغیب پر بھی استوار ہے غیب پر ایمان مسلمان کے عقیدے کا جز ہے کیونکہ قرآن وسنت نے بار بار اس کی طرف دعوت دی ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:۔
الم ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب۔۔
الم یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے ان متقین کے لیے ہدایت ہے جوغیب پر ایمان رکھتے ہیں(سورة بقری آیت ۱۔۳)
نیز فرماتا ہے:۔
تلک من انباء الغیب نوھیھا الیک۔۔۔۔۔
یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی ہم تیری طرف وحی بھیجتے ہیں (سورة ہود۴۹)
اورحدیث کی کتابوں میں ایسی سینکڑوں روایات موجود ہیں جو ایمان بالغیب اورانبیاء ورسل کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنے پر زور دیتی ہیں اورایمان بالغیب کے انکار کے باوجود مسلمان کاعقیدہ صحیح نہیں ہوسکتا چاہے اس کو سمجھ لے اوراس کے اسرار اوررتفصیلات تک پہنچ جائییانہ جیسا کہ فرشتے ، جن عذاب قبر ، سوال منکرونکیراوردیگر وہ غیب کی خبریں جب پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن مجید نے انہیں ذکر کیا ہے حضرت پیغمبر نے ان کی خبردی ہے اورثقہ عادل اورامین لوگوں کے ذریعہ ہم تک نقل ہوئی ہیں انہیں میں سے اہم مسئلہ ظہور حضرت امام مہدی ہے کہ جو زمین کوعدل وانصاف سے پرکردیں گے جیسا کہ وہ ظلم وجورسے پرہوچکی ہوگی۔
پس حضرت مہدی کا انکارمسلمانوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ جن کا ذکر صحاح اورمسایند وسنن میں موجود ہے ان کے طرق کی کثرت راویوں کی وثاقت، تاریخی دلائل اورمشاہدات کو پوری تحقیق سے ہم پیش کرچکے ہیں
منکرین چاہے مغرب کے پروپیگنڈے اورمستشرقین کے لٹریچر سے متاثر ہوئے ہوں یا اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملے تعصب میں اندھے ہوئے ہوں جب متواتر احادیث ، محکم دلیلیں اورپے درپے اعترافات کے مقابلے میں اپنے آپکو خالی ہاتھ اوربے بس دیکھتے ہیں توامت مسلمہ کو اس سے منحرف کرنے اورمرحلہ انتظار میں انہیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ نہ کرنے پرآمادہ نہ کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے بعض پست اورباطل قسم کی قیاس آرائیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اورکہتے ہیں امام مہدی کی عمر کا اسقدر طویل ہونا اوراس کے لوازمات علم وعقل اورحقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن اللہ کی مدد اوراس کی توفیق سے عنقریب واضح ہوجائے گا کہ ان کی یہ منطق کس قدرعلمی اصول وضوابط اورصحیح معیاروں سے دور ہے ۔
شایدان کے اہم ترین شبہات یہ ہیں طول عمر کم سنی غیبت سے خود حضرت امام کو کیا فائدہ ہے اورمسلمان غائب امام سے کیسے استفادہ کرسکتے ہیں ۔
چنانچہ ہم علمی طریقے سے اورعقلی دلائل کی روشنی میں بحث کررہے ہیں ملاحظہ فرمائیے

سوال اول:۔ پانچ سال کی عمرمیں آپ کیسے امام ہو سکتے ہیں؟
جواب:۔ بیشک امام مہدی مسلمانوں کی امامت میں اپنے والد بزرگوار کے جانشین تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہایت کم سنی میں روحانی اورفکری طور پر ایک کامل امام تھے اوربچپن کی امامت آپ سے پہلے بھی کئی اماموں کوحاصل ہو چکی تھی امام محمد تقی آٹھ سال کی عمر میں امام بنے تھے امام علی نقی نو سال اورامام مہدی کے والد امام حسن عسکری بائیس سال کی عمر میں امام تھے۔
توآپ نے ملاحظہ فرمایا کہ بچپن میں امامت والاواضح اورصریخ منصب امام مہدی اورامام محمد تقی کو حاصل ہوا۔
ہم نے اس کو واضح منصب اس لیے کہا ہے کیونکہ یہ امام مہدی کے بعض آباؤ اجداد میں دیکھا گیا ہے مسلمانوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے اوراس کے مختلف علمی تجربات دیکھتے ہیں اورایک ظاہر اورواضح چیز کو ثابت کرنے کے لیے امت کے عملی تجربے سے زیادہ محکم اورواضح دلیل دوسری کوئی اورچیز نہیں ہوسکتی اس کی وضاحت مندرجہ ذیل نکات سے ہوجائے گی
۱۔ اماموں کی امامت کوئی ایسا حکومتی منصب نہیں ہے جو وراثت میں باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوتا ہے اورحکومتی سسٹم اسے سہارا دیتا ہے جیسا کہ امویین ، فاطمیین،عباسیین،میں تھا بلکہ اسلام ومسلمین کی زعامت کا معیار امام کافکری وروحانی بنیادوں پر قیادت کے لائق ہونا ہے اور امام امت کے مختلف گروہوں کو فکری اورروحانی لحاظ سے قانع کرکے اپنی امامت کا لوہا منواتے تھے۔
۲۔ ان گروہوں کی صدر اسلام میں بنیاد رکھی گئی اورحضرت امام محمد باقر وحضرت امام صادق کے زمانے میں پھولے پھلے اوران دواماموں کے زیرنظر چلنے والے مدرسے نے عالم اسلام میں ایک وسیع اورولولہ انگیز فکرپیدا کی جس نے اس وقت کے مختلف اورمعروف انسانی اوراسلامی علمی میدانوں میں سینکڑوں فقہا ، متکلمین ، علمااورمفسرین پیدا کئے۔
حسن بن علی وشاکا کہنا ہے میں نے مسجد کوفہ میں نوسو شیوخ پائے ان میں سے ہر ایک کہتا تھا مجھ سے یہ حدیث امام جعفر بن محمد نے بیان کی ہے(رجال نجاشی ۴۰۔۸۰ حسن بن علی بن زیاد وشاکاکے حالات میں)
۳۔ جن شرائط کا یہ مدرسہ میں پرچار کرتا تھا اورجنہیں یہ امامت قراردیتا تھا وہ بہت سخت تھیں کیونکہ وہ یہ نظریہ پیش کررہا تھا کہ امام علیہ السلام فقط معصوم اوراپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم ہوسکتا ہے۔
۴۔ اس مکتب اوراس کے ہم فکر لوگ امامت میں اپنے عقیدے پر پختہ رہنے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیتے رہے کیونکہ اس وقت کی کوئی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ یہ ہمارے خلاف کوئی خط تشکیل دے رہے ہیں کم از کم فکری لحاظ سے۔
لہذا اس وقت کی حکومتیں مسلسل حملے کرتی رہیں کئی قتل ہوگئے کئی قید میں بند کردیئے گے اورسینکڑوں لوگ قیدخانوں کی تاریکیوں میں جام شہادت نوش کرگئے۔
یعنی ائمۃ علیھم السلام کی امامت کے عقیدے کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی اورانہیں اس عقیدے پر اکسانے والی چیز سوائے اللہ کے قرب کے اورکوئی نہیں تھی
۵۔ ائمۃ علیھم السلام ان گروہوں سے الگ تھلک نہیں رہتے تھے اورنہ بادشاہوں کی طرح عالی شان محلوں میں زندگی گزارتے تھے اورنہ ہی مخفی رہتے تھے مگر یہ کہ خودحکومت انہیں قید یاجلاوطن کردے۔
چنانچہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے آباواجداد میں سے ہر ایک کے سینکڑوں راوی اورمحدث ان کے اپنے ہم عصرلوگوں کے ساتھ خطوکتابت ان کے طویل سفر پھر عالم اسلام کی مختلف جوانب میں اپنے وکلاء کو بھیجنا اورحج کوموقع پر شیعہ کا زیارت کاعادی ہونا
یہ سب امام اور عالم اسلام کے مختلف نقاط میں آپ کے ہم فکر اورپیروی کرنے والے مختلف لوگوں کے درمیان ایک واضح اورمسلسل رابطے کی دلیل ہیں ۔
۶۔ اس دور کی حکومتیں آئمہ علیھم السلام کی اس روحانی قیادت کواپنے اقتدار کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کرتی تھیں اسی وجہ سے اس قیادت کو ختم کرنے کی پوری کوشش تھی اوراسی لیے بڑے بڑے غلط کام سرانجام دیتیں اوراگر ضرورت محسوس کرتیں توسنگدلی اورسرکشی کے نمونے بن جاتیں اورآئمہ علیھم السلام کے خلاف قیدوبند اوردیگر محرمانہ حملے جاری رکھتیں جس کی وجہ سے مسلمان بالخصوص چاہنے والوں کو بہت دکھ ہوتا اورحکومت کے خلاف نفرت پیدا ہوتی تھی۔
ان چھ نکات کو جو تاریخی حقائق پر مشتمل ہیں اگرمدنظر رکھیں تومندرجہ ذیل نتیجے تک پہنچنا ممکن ہوجائے گا۔
بچپن میں امامت والی بات ایک کھلی حقیقت تھی کوئی وہم نہیں تھا کیونکہ بچپن میں جو بھی امام سامنے آیا اورانہوں نے مسلمانوں کے لیے اپنے آپ کو روحی اورفکری امام متعارف کرایا۔
اوروسیع وعریض دنیا میں پھیلے ہوئے آپ کے چاہنے والوں اورپیروکاروں کا آپ امام اوررہبر مان لینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ:۔آپ علم ومعرفت کے اعلی درجے پر فائز تھے فقہ تفسیر وعقائد وغیرہ پر پورا تسلط رکھتے تھے۔اگرایسا نہ ہوتا توممکن نہیں تھا کہ اتنے بڑے بڑے گروہ آپ کی امامت کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے۔با لخصوص اس تناظر میں کہ آپ اپنے پیروکاروں کو اپنے ساتھ رابطہ رکھنے اوراپنی شخصیت کو پرکھنے کا پورا موقع فراہم کرتے تھے کیا ممکن ہے کہ ایک بچہ اپنی امامت کا اعلان کرے اوروہ بھی علی الاعلان اوراتنے بڑے بڑے مختلف گروہوں کے سامنے۔
اوریہ سب اس کی حقیقت سے مطلع ہوئے بغیر اوراس بچے کی حیثیت کا اندازہ لگائے بغیر اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں اوراس راہ میں اپنا امن اورزندگی جیسی قیمتی ترین چیز قربان کردیں ؟
اورکیا یہ ممکن ہے کہ واقعاوہ فکری اورعلمی لحاظ سے بچہ ہو لیکن اسقدر طویل رابطے کے باوجود ظاہر نہ ہو؟
فرض کریں کہ اہل بیت کی امامت کو ماننے والے حقیقت حال کو کشف کرنے پر قادر نہیں تھے توپھر حکومت کیوں خاموش رہی اوراس نے حقیقت حال کو ظاہر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی حالانکہ یہ اس کے مفاد میں تھا
اوراگرامامت کا وہ دعویدار بچہ فکروعلم میں بھی بچہ تھا توحکومت کے لیے یہ کام کس قدر آسان تھاجیسا کہ دیگر بچوں میں ہے؟
اورکس قدر اس کے لیے مفید تھا یہ اسلوب کہ بچے کو شیعوں اورغیرشیعوں کے سامنے اس طرح پیش کردیتی جیسے وہ تھا اوراس کے روحانی اورفکری بنیادوں پرا مامت کے لائق نہ ہونے کو ثابت کردیتی۔
اگرچالیس یا پچاس سالہ شخص کے امامت کے لائق نہ ہونے کو ثابت کرنا مشکل ہو توبھی بچے کے لیے یہ کام مشکل نہیں ہے چاہے وہ کتنا ہی ذہین وفطین ہو اوریہ ان سب طریقوں سے آسان تھا جوان حکومتوں نے اپنا رکھے تھے۔
پس وقت کی حکومت کی اس سلسلے میں خاموشی کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے اوروہ یہ کہ اس نے درک کرلیا تھا کہ بچپن کی یہ امامت ایک کھلی اورروشن حقیقت ہے کہ کوئی جعلی اوربناوٹی شی۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے مختلف مواقع میں اس کی کوشش کرنے اوراس میں ناکام ہونے کی وجہ سے بہت نزدیک سے یہ چیز درک کرلی تھی۔
کیونکہ تاریخ ہمیں اس قسم کے کئی واقعات بتاتی ہے جن میں حکومت کی ناکامی واضح ہوتی ہے اس کے برعکس ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ملتا جس میں بچپن کی یہ امامت لڑکھڑائی ہویا اس چبے نے اپنے سے بالاتر کا سامنا کیا ہواورلوگوں کا اس پراعتماد متزلزل ہو گیا ہو۔
اورہم نے جو کہا تھا کہ بچپن میں امامت ایک کھلی اورروشن حقیقت تھی اس سے ہماری مرادیہی تھی اوراس کی مثال خداکے رسولوں میں بھی ملتی ہے جیسے کہ یحییٰ نبی کے بارے میں خدا فرماتا ہے:۔
یا یحییٰ خذ الکتاب بقوة واتینا الحکم صبیا
اے یحییٰ کتاب کو قوت کے ساتھ پکڑلو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت عطا کی(سورہ مریم ۱۹۔۱۲اورفصل دوم کے نمبر۵، اور۸ میں ابن حجر ہیثمی شافعی اوراحمد بن یوسف قرمانی حنفی کااعتراف گزرچکا ہے کہ مہدی کو بچپن میں حکمت عطاہوئی)
اورجب یہ ثابت ہوگیا کہ بچپن کی امامت ایل بیت کہ ہاں اوریہ ایک کھلی حقیقت ہے موجود تھی توخاص طور سے امام مہدی کے بچپن میں امام بننے پر اعتراض کونا کوئی معقول بات نہیں ہے۔