مھدی منتظر اور اسلامی فکر
 
عیسیٰ بن مریم ہی مہدی ہیں
بعض مشترقین اورغیرمشترقین نے امام مہدی کے انکار کے سلسلے میں محمد بن خالدجندی کی اس حدیث کو بہانہ بنایا ہے کہ اللہ کا نبی عیسیٰ ہی مہدی ہے لیکن میں نے علماء اسلام میں کوئی ایسا عالم نہیں دیکھا جس نے حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس پرتنقید نہ کی ہو اوراس کا مذاق نہ اڑایا ہو۔
لہذا بالاتفاق قابل قبول نہیں ہے لیکن اس غرض سے کہ اس کا بطلان کسی پر پوشیدہ نہ رہے اس کی حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہے۔
اس حدیث کو ابن ماجہ نے یونس بن عبدالاعلی سے انہوں نے شافعی سے انہوں نے محمدبن خالدجندی سے انہوں نے ابان بن صالح سے انہوں نے حسن بصری سے انہوں نے انس بن مالک سے انہوں نے پیغمبر اسلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :۔
"معاملہ سخت ہوجائے گا دنیا پیچھے کی طرف چلتی رہے گی ،لوگ کنجوس ہوتے جائیں گے اورقیامت قائم نہیں ہوگی مگربرے لوگوں کے نقصان میں اورکوئی مہدی نہیں ہے عیسیٰ بن مریم کے سوا(سنن ابی ماجہ ۲:۱۳۴۰۔۴۰۳۰، اورخود ابن ماجہ نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے۔"المھدی حق وھومن ولدفاطمة ""مہدی حق ہے اوراولاد فاطمة سے ہے۲:۱۳۶۸۔۴۰۸۶، جو گزر چکی ہے نیز ہم ذکر کرچکے ہیں کہ اہل سنت میں کسی نے اسے صحیح قرار یا ہے اورکسی نے متواتر۔۔۔۔۔۔)
اس کی رد اوربطلان کے لیے کسی علمی کاوش کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ حدیث گزشتہ ساری صحیح اورمتواتر احادیث کے مخالف ہے
اوراگرمروی حدیث کے ذریعے نقص کے باوجود استدلال صحیح ہو تو علم رجال اورفن درایت ایک بازیچہ اطفال جائے گا اوراس کا مطلب جعلی احادیث کو صحیح قرار دینا ، جھوٹے راویوں کو جلیل القدر اورثقہ شمار کرنا ،مجہول احادیث کو مشہور بنانا اورناصبیوں کو سادات سمجھنا ہوگا۔
اورثقہ وقابل اعتماد کو مجروح اورمطعون کے ساتھ ملانے اچھے اوربرے کو یکجا کرنے اورناقص وکامل کے درمیان فرق نہ کرنے کی صورت میں اسلام میں کوئی بھی متواترحدیث نہیں رہی گی۔
کیاکوئی عقلمند مسلمان ایسا ہے جودجال صفت راوی محمد بن خالد جندی کی تصدیق کرسکتا ہو؟
کیونکہ یہی وہ شخص ہے جس نے حدیث جند(جندجو صنعا سے دودن کے فاصلے پر ایک مقام ہے) کونقل کیاہے کہ جس کاجعلی ہونامشہورہے اوروہ حدیث یہ ہے"چارمساجد کی طرف پالان کسے جائیں گے مسجد حرام ، میری مسجد،مسجداقصیٰ اورمسجد جند"(تہذیب التہذیب۹:۱۲۵۔۲۰۲)
دیکھئے کس طرح اس نے لوگوں کے دلوں کوجند کی چھاونی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس سے پہلے تین مقدس مساجد کا ذکرکیا ہے اور تعحب ابن ماجہ پر ہے کہ انہوں نے محمد بن خالد جندی کی اس عبارت ولا مھدی الا عیسیٰ بن مریم (مہدی وہی عیسیٰ بن مریم ہے)والی حدیث کو ذکر کیا ہے۔
حالانکہ یہی حدیث دیگر صحیح طرق سے بھی مروی ہے کہ جن میں یہ اضافہ نہیں ہے
ان میں سے ایک وہ ہے جسے طبرانی اورحاکم نے اپنی اپنی سند کے ساتھ ابوامامہ سے بالکل انہیں الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن اس میں یہ الفاظ ولامھدی الا عیسیٰ بن مریم (مہدی وہی عیسیٰ مریم ہے )نہیں ہیں۔
اورحاکم نے اسے صحیح قراردیا ہے اورکہا ہے "یہ حدیث صحیح ہے لیکن بخاری اورمسلم نے اسے ذکر نہیں کیا"(مستدرک حاکم ۴:۴۴۰، کتاب الفتن اولماحم اورطبرانی کیالکبیر۸:۲۱۴۔۷۷۵۷)
ہاں حاکم نے بھی ابن ماجہ کی اس حدیث کو اس اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو اپنی مستدرک میں تعجب کے لیے نقل کیا ہے نہ کہ بخاری اورمسلم پرحجة کے لیے(مستدرک حاکم ۴:۴۴۲۔۴۴۱، کتاب الفتن والملاحم)
ابن قیم نے "المنارالنیف "میں اس حدیث (ولامھدی الا عیسی ٰ بن مریم)(مہدی وہی عیسٰی بن مریم ہیں)کا ذکرکیا ہے اوراس کے متعلق علماء اہل سنت کے اقوال نقل کئے ہیں اورکہا ہے اس حدیث کو صرف محمد بن خالد جندی نے روایت کیاہے۔
اورآبری (متوفی ۳۶۳ہجری)سے نقل کیا ہے کہ محمد بن خالد علماء حدیث ودرایت کے درمیان معروف نہیں ہے اوربیقہی سے نقل کیا ہے اسے فقط محمد بن خالد نے نقل کیا ہے اورحاکم ابوعبداللہ نے کہا ہے یہ مجہول ہے اور اس کی سند میں بھی اختلاف ہے پس اس سے روایت کیا گیا ہے کہ اس نے ابان بن ابو عیا ش سے اورانہوں نے مرسل حدیث پیغمبر اکرم سے نقل کی ہے
پس اس کی بازگشت بھی محمد بن خالد کی طرف ہوئی جو مجہول ہے حدیث منقطع ہے اورظہور مہدی کی احادیث زیادہ صحیح ہیں(المنارالنیف۱۲۹۔۳۲۴و۱۳۰۔۳۲۵)
اورابن حجر نے ابوعمرو اورابو الفتح ازدی کی محمد بن خالد پر تنقید پو ذکر کیاہے(تہذیب التہذیب ۹:۱۲۵۔۲۰۲)
میں کہتا ہوں حدیث:۔(ولامہدی الاعیسی بن مریم)
(مہدی وہی عیسی بن مریم) ایک ناقابل قبول روایت ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے(میزان الاعتدال ۳:۵۳۵۔۷۴۷۹)
قرطبی نے کہا ہے یہ جملہ( ولامہدی الاعیسیٰ بن مریم)
اس سلسلے میں وارد دیگر احادیث کے معارض ہے پھر محمد بن خالد پر طعن کرنے والوں اوراس کی حدیث کو رد کرنے والوں کے اقوال نقل کرنے بعد کہا ہے
"حضرت امام مہدی کے ظہور اوران کی عترت اوراولاد فاطمة سلام اللہ علیھا سے ہونے کے سلسلے میں پیغمبر اکرم سے صحیح احادیث موجود ہیں پس فیصلہ انہیں کے مطابق کیا جائے گا کہ اس حدیث کے مطابق"(التذکرہ ۲:۷۰۱)
ابن حجر کا کہنا ہے نسائی نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ حدیث قابل قبول نہیں ہے اوردیگر حفاظ نے قطعی طور پر کہا ہے کہ اس سے پہلے والی احادیث جو واضح طور پر کہتی ہیں کہ مہدی اولاد فاطمہ سے ہے زیادہ صحیح ہیں(الصواعق المحرقہ:۲۶۴)
ابونعیم نے حلیة الاولیاء میں اس حدیث کو غریب شمار کیا ہے اورکہا ہے "ہم نے اس کو نہیں لکھا مگرشافعی حدیث سے "(حلیۃ الاولیاء۹:۶۱)
ابن تیمیہ کا کہنا ہے وہ حدیث جس میں یہ جملہ (ولا مہدی الاعیسیٰ بن مریم)مہدی وہی عیسیٰ بن مریم ہیں )ہے اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اوریہ ایک ضعیف حدیث ہے جسے اس نے یونس سے اس نے شافعی سے اوراس نے یمن کے ایک مجہول شخص سے روایت کیا ہے۔
ایسی سند کے ساتھ توروایت حجة نہیں ہوا کرتی اوریونس اس سے روایت کی گیا ہے کہ مجھ سے بیان کیاگیا شافعی سے اور خلعیات وغیرہ میں ہے ہمیں یونس نے بتایا شافعی سے نہ ہمیں شافعی نے ان دونوں کا مطلب یہ ہے کہ خود شافعی نے نہیں بتایا پس شافعی کی طرف بھی اس کی نسبت ثابت نہیں ہے۔
پھر محمد بن خالد جندی کی حدیث کے متعلق کہتا ہے اس میں تدلیس ہے جو ا س کے ضعیف ہونے پردلالت کرتی ہے اوربعض لوگ توکہتے ہیں شافعی نے اسے روایت ہی نہیں کیا(مہناج السنة ابن تیمیہ ۴:۱۰۲۔۱۰۱)
چنانچہ محمد بن خالد جندی کے بہت زیادہ مطعون ہونے کی وجہ سے امام شافعی کے بعض حامیوں نے ان سے اس حدیث کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اورکہا ہے کہ شافعی کے شاگرد نے ان پر جھوٹ بولا ہے اوردعویٰ کیا ہے کہ شافعی نے خواب میں دیکھا تھا وہ کہہ رہے تھے "مجھ پریونس بن عبداالاعلی نے جھوٹ بولا ہے یہ میری حدیث نہیں ہے(ابن کثیر کی الفتن والملاحم ۳۲)
ابو الفیض غماری نے اس حدیث :۔(ولامہدی الا عیسیٰ مریم)مہدی وہی عیسیٰ بن مریم ہے کو آٹھ محکم ومضبوط دلیلوں سے رد کیاہے۔(ابراز الوہم المکنون :۵۳۸)

مہدویت کے سابقہ دعووں سے استدلال
لامہدویت کا ڈرامہ کرنے والوں نے آخری زمانے میں ظہورمہدی کا انکار کرنے کے لیے مہدویت کے سلسلے میں گذشتہ دعووں کودلیل بنایا ہے جیسے حسنیوں کا دعوی کہ محمد بن عبداللہ بن حسن مہدی ہے
عباسیوں کادعوی کہ مہدی عباسی مہدی ہے اور اسی طرح دوسرے دعاوی جیسے ابن تومرت یامہدی سوڈانی یا محمدبن حنفیہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کی مہدویت کادعوی۔اس استدلال کی بنیاد مہدویت کے باطل دعووں پر ہے اوریوں حق باطل کے درمیان ایک دھوکہ دینے والا موازنہ قائم کرکے انہیں گڈمڈ کردیا گیا ہے جسکی وضاحت مندرجہ ذیل باتوں سے ہو جاتی ہے
اول:۔ان دعویداروں میں ظہور مہدی کی ایک علامت موجود نہیں تھی اورصحیحین کی روایات کی روشنی میں یہ بعض علامات گزر چکی ہیں۔
دوم:۔ان سب کی موت ثابت ہوچکی ہے اورکوئی مسلمان ان کے زندہ ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا۔
سوم:۔ یہ سب آخری زمانے میں نہیں تھے کہ جو ظہور مہدی کی شرط ہے اورپھر ان میں سے کسی نے زمین کو عدل وانصاف سے پر نہیں کیا
چہارم :۔سب سے اہم یہ کہ اگریہ استدلال صحیح ہو تو عدالت ختم ہو جائے گی کیونکہ فرعون مصر سے لیکن آج تک سارے طاغوتوں نے ایسے دعوے کئے ہیں۔
لہذا جاہلوں کے دعوی علم کی وجہ سے ہمیں علماء کو جاہل قرار دینا ہوگا ، بہادرکوبزدل ، سخی کو بخیل اوربردبار کو بیوقوف کیونکہ ہر اچھی صفت میں بعض لوگوں نے جھوٹے دعوی کئے ہیں ۔
ظہور مہدی کامسئلہ ان مسائل میں سے ایک ہے جن سے سیاسی اہداف رکھنے والوں نے فائدہ اٹھایا ہے اسی وجہ سے بعض لوگوں نے خود اس کا دعویٰ کیا تھا اوربعض نے اپنے مفادکی خاطراس کی ترویج کی تھی ۔
اورجیسے ایک عقل مندانسان کسی غیر مستحق کے دعوی کی وجہ سے وجود حق کا انکارنہیں کرسکتا اسی طرح مہدویت کے ان باطل دعووں کی وجہ سے اس مہدی کے ظہور کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جس کی بشارت ہمارے نبی اعظم نے دی تھی
اسی کے ساتھ ساتھ علماء اسلام نے امام مہدی کے بارے میں وارد ہونے والی بہت ساری روایات اوران کی اکثر اسناد کو صحیح قرار دیا ہے کہ جو ساری مل کر متواترہوجاتی ہیں اوربعض سے توتواترکا مسلم شمار کیاہے جیسے کہ اس کا ذکرپہلے ہوچکاہے
ان شبہات کی قلعی کھلنے اوران کے نقش بر آب ثابت ہونے کے بعد ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے اوروہ یہ کہ امام مہدی کی اسقدر طویل عمر عقل وعلم کے معیار پرپوری نہیں اترتی۔
یہ شبہ ان لوگوں کی سب بڑی دلیل ہے اورآخری فصل میں ہم حسب ضرورت اس پر بحث کریں گے تاکہ واضح ہوجائے کہ یہ عقل وعلم کے خلاف ہے اورثابت کریں گے کہ عقل کی اپنی حدودہیں اوریہ کسی شخص کی ذاتی خواہشات ، تمناوں اورمیلان سے آزاد ہے اوراس کے اپنے احکام ہیں جنہیں تمام عقلاء قبول کرتے ہیں اوران کا قبول کرنا کسی فرد کی عقل پرموقوف نہیں ہے
نیز اس بات کو روشن کریں گے کہ محال ذاتی اورممکن ذاتی میں بہت بڑافرق ہے محال ذاتی میں وقوع کسی حال میں بھی ممکن نہیں ہے حتی کہ انبیاء اوراوصیاء کے ذریعہ بھی واقع نہیں ہوسکتا جیسے نقضین کا جمع ہونااورممکن ذاتی جوعام طور پر وقوع پذیر نہیں ہوتا لیکن اس کے واقع ہونے کا امکان ہے اوریہ کہ وقوع پذیر ہونے اورنہ ہونے کے لحاظ سے محال عقلی اورمحال عادی ایک جیسے نہیں ہیں۔
لیکن ان لوگوں نے انہیں اسطرح ملاجلا کرپیش کیا ہے کہ اب عام خیال یہ بن گیا ہے کہ جوشئی بھی عام طورپروقوع پذیرنہیں ہوتی وہ محال عقلی ہے کیونکہ ان دونوں میں انہوں نے فرق نہیں کیا اورہم دلیل سے ثابت کریں گے کی ان کا یہ بہانہ عقل وعلم کی روشنی میں کسی دلیل اوربرہان کی حیثیت نہیں رکھتا۔