احادیث حضرت مہدی کو ضعیف قراردینے میں ابن خلدون کا استدلال
ظہور حضرت امام مہدی کے منکروں نے ابن خلدون کے بعض احادیث کو ضعیف قراردینے کے ساتھ تمسک کیا ہے۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان لوگوں نے علماء اہل سنت کیطرف سے ابن خلدون کو دیئے گئے جوابات کی طرف توجہ نہیں کی۔
نیز اس بات کو بھی بھول گئے کہ ابن خلدون نے بعض احادیث کو ضعیف قرار دینے کے باوجود بعض کوصحیح قراردیا ہے۔
استاد احمدامین کا شاگرد اورازہر یونیورسٹی کے پروفیسرسعدحسن احادیث مہدی کے متعلق لکھتے ہیں ان احادیث کو اورناقدین حدیث نے در کیا ہے اوران پر تنقید کی ہے اور علامہ ابن خلدون نے بڑی سختی سے ان کا انکار کیا ہے (المہدیةفی الاسلام :۶۹)اورایسا ہی خیال ان کے استاد احمد امین کا بھی ہے(المہدیولمہدویة ۱۰۸)یہی بات ابوزہرہ (الامام الصادق ۲۳۹)محمدفریدوجدی(دائرمعارف القرن العشرین ۱۰:۴۸۰)اورجبہان(جبہان کی تبدید الظلان ۴۸۰۔۴۷۹)جیسے دیگرافرادنے بھی کہی ہے اور سائح لیبی کہتا ہے"ابن خلدون نے ان سب احادیث پر تنقید کی ہے اورایک ایک کوضعیف قراردیا ہے"(تراثنا وموازین النقد۔علی حسین السائح الیبی :۱۸۵، مقالہ جو کلیة الدعوة الاسلامیہ "میگزین جو لیبیا سے نکلتا ہے ، میں نشرہواعدد۱۰۔۱۹۹۳ئطبع بیروت)
ابن خلدون نے احادیث کے ضعیف قراردینے کی حقیقت
بیشک ابن خلدون نے احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے اوربعض کو صحیح اوریہ کوئی ہماری اپنی بات نہیں ہے بلکہ خود ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں اس کی وضاحت کی ہے جیسا کہ ہم اس کی عبارت نقل کریں گے۔
اورلگتا ہے کہ استاداحمد امین نے اس کی صحت کی تصریح کونہیں دیکھا اورصرف اس کی تصنعیفات کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
پھر یہ لوگ زبن خلدون کی تاریخ کا مطالعہ کیے بغیراس بات کوبڑھا چڑھا کرنقل کرتے ہیں فرض کریں اگرابن خلدون نے احادیث مہدی میں سے ایک کوبھی صحیح قرار نہ دیا ہوتوکیا دیگرعلماء حدیث ودرایة کا ان کوصحیح اورمتواتر دینا کافی نہیں ہے حالانکہ ابن خلدون کا موضوع تاریخ اوراجتماعیات ہے۔
پھر ابن خلدون نے کتنی احادیث کو ضعیف قرارد یا ہے تاکہ اس کے اس عمل کو اس قدر بڑھاچڑھا کرپیش کیا جائے۔
ابن خلدون نے صرف تیئس احادیث کا مطالعہ کیا اوران میں سے انیس کو ضعیف قراردیا ہے اوراحادیث مہدی کو ذکر کرنے والوں میں سے اس نے فقط سات افرادکا ذکر کیا ہے۔ترمذی ،ابوداؤد،بزار،ابن ماجہ، حاکم ، طبرانی ،اورابویصلی موصلی(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۵۵، فصل ۵۲)
اس طرح انہوں نے ان اڑتالیس علماء کو چھوڑدیا ہے جنہوں نے احادیث کو مہدی کو ذکر کیا ہے کہ جن میں پہلے ابن سعد (متوفی ۲۳۰ہجری)صاحب طبقات اورآخری نورالدین ہیثمی (متوفی ۸۰۷ہجری)ہیں اوراحادیث مہدی کوروایت کرنے والے صحابہ میں سے انہوں نے فقط چودہ کا ذکر کیا ہے(تاریخ ابن خلدون۵۵۶)جب کہ انتالیس صحابہ کو چھوڑ دیا ہے اوراس کی تفصیل فصل اول میں گزر چکی ہے۔
نیز انہوں نے ان چودہ صحابہ کی بھی بہت کم احادیث کا ذکر کیا ہے چنانچہ ہم نے خود ابوسعید خدری کی احادیث کو شمار ہے فقط ان کی احادیث ان تمام احادیث سے زیادہ ہیں جو ابن خلدون نے ذکر کی ہیں اورابوسعید ان کے ذکر کردہ چودہ صحابہ میں سے ایک ہیں۔
اس سے بڑھ کو ابو سعید خدری کی جب احادیث کو انہوں نے ذکر کیا ہے ان کے بھی سارے طرق کو ذکرنہیں کیا ہے فقط چند کو ذکر کیا ہے کیونکہ دیگر طرق کا انہیں علم ہی نہیں ہے۔اوراگرآپ ہمارے ذکرکردہ طرق ملاحظہ فرمائیں اورپھر ان کا موازنہ ان سے کریں جنہیں ابن خلدون نے اپنی تاریخ کی جلد اول کی فصل نمبر ۵۲میں بیان کیا ہے توآپ کو ہماری اس بات کا یقین ہوجائے گا۔
اس لیے ابن خلدون پرسخت تنقید ہوئی اوران کومختصراورمفصل جواب دیا گیا اس سلسلہ میں ابوالفیض اپنی کتاب "ابرازالوہم"میں ابن خلدون کی تصعیفات کیساتھ تمسک کرنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
"جن پرآج تواترمخفی ہے اوراس سے جاہل ہیں اوران کا جہل انہیں علم کے راستے سے دور اور رو کے ہوئے ہے یہ وہ لوگ ہیں جوظہورمہدی کاانکار کرتے ہیں اوران کے بار ے میں وارد ہونے والی احادیث کے ضعیف ہونے کا یقین رکھتے ہیں جب کہ یہ لوگ ضعیف ہونے کے اسباب حدیث ضعیف کے معنی اورعلم حدیث کے قواعد واصول سی بھی واقف نہیں ہیں اوران کاظرف ان احادیث مہدی سے خالی ہے جن کا تواترکسی بیان کا محتاج نہیں ہے"
اس انکارکی دلیل فقط وہ کمزور اورجھوٹی علتیں ہیں جو ابن خلدون نے بعض احادیث کو ضعیف قراردینے کیلئے ذکرکی ہیں اوران کے ذریعے انہوں نے ان احادیث کے ثقہ راویوں پر الٹے سیدھے اورغلط الزامات لگائے ہیں جب کہ اس وسیع میدان میں ابن خلدون کی کوئی جگہ نہیں ہے اوراس سلسلے میں اس کاکوئی حصہ اورکردار نہیں ہے
لہذاان پر کیسے اعتماد کیا جاسکتاہے اوران مسائل کی تحقیق میں کیسے ان کیطرف رجوع کیا جاسکتا ہے ضرورت یہ ہے کہ گھر میں دروازے سے داخل ہوا جائے اورحق یہ ہے کہ ہرفن میں اس کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے لہذافقط حفاظ اورنافذین ہی کا حدیث کو صحیح یا ضعیف قراردینا قابل قبول ہوسکتاہے
(البزار:۴۴۳)اس کے بعد حدیث کے متعددحفاظ اورناقدین کے اقواک کو نقل کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ
احادیث حضرت امام مہدی صحیح اورمتواترہیں
شیخ احمد شاکرکا کہنا ہے "ابن خلدون نے اس چیز کو چھیڑاہے جس کا سے علم نہیں ہے اوراس نے اس وادی میں قدم رکھا ہے جس کاوہ اہل نہیں۔
اس نے اپنے مقدمے کی اسی فصل میں عجب تضادات اورواضح غلطیوں کا ارتکاب کیاہے دراصل ابن خلدون محدثین بات کو سمجھ ہی نہیں پائے کیونکہ اگروہ انہیں سمجھ لیتے تووہ ساری باتیں نہ کہتے جو انہوں نے کہی ہیں(شیخ عبدالمحسن ابن حمدالعباد کا مضمون "مہدی کے بارے میں وادرہونے والی احادیث جھٹلانے کاجواب")یہ مضمون مدینہ منورہ میں "الجامعہ الاسلامیہ "نامی رسالہ میں ۱۴۰۰ ء ہجری میں چھپا ہے عدا، بارھویں جلد نمبر ۴۶،۱۴۰۰ ء ہجری )
شیخ عباد کا کہنا ہے ابن خلدون ایک مورخ ہیں نہ علم رجال کے ماہر تاکہ ان کی تصحیح اوررضعیف پر اعتمادکیا جائے بلکہ اس سلسلے میں بیہقی ، عقیلی ، طابی، ذہبی ، ابن یتمیہ ، ابن قیم جیسے علم حدیث ودرایة کے ماہر پر اعتماد کیا جائیگا جنہوں نے احادیث مہدی کو صحیح قراردیا ہے(سابقہ حوالہ)
بہر حال ابن خلدون کی تضیفات کے ساتھ تمسک کرنے والوں کی دلیل باطل ہے کیونکہ خودابن خلدون نے ان میں سے چار احادیث کی صحة کا اعتراف کیا ہے اوروہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔ وہ حدیث جسے حاکم نے عون اعرابی عن ابو الصدیق ناجی عن ابو سعید خدری کے طریق سے روایت کیا ہے اس کے بارے میں ابن خلدون نے سکوت اختیار کیا ہے اوراس پر کوئی تنقید نہیں کی کیونکہ اس کے تمام روای اہل سنت کے ساتھ علماء کے نزدیک موثق ہیں اگرچہ انہوں نے اسے صحیح نہیں کہا لیکن ان کا سکوت اس کے صحت کے اعتراف کی دلیل ہے(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۶۴، فصل نمبر۵۲)
۲۔ وہ حدیث جسے حاکم نے سلیمان بن عبیدعن ابوالصدیق ناجی عن ابو سعید خدرہ کے طریق سے روایت کیا ہے اس کے بارے میں ابن خلدون کا کہنا ہے "اس کی سند صحیح ہے"(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۶۴)
۳۔ وہ حدیث جسے حاکم نے ظہور حضرت امام مہدی کے بارے میں علی سے روایت کیا ہے اوراسے بخاری ومسلم کے معیار کے مطابق صحیح قرار دیا ہے ابن خلدون کا کہنا ہے "یہ سند صحیح ہے جیسا کہ ذکرہوچکا ہے"(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۶۵)
۴۔وہ حدیث جسے ابوداود سجستانی نے اپنی سنن میں صالح بن خلیل سے انہوں نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے اوراس کی سند کے بارے میں ابن خلدون کا کہنا ہے اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں ان پر کسی تنفید وتنقیص کی کوئی گنجائش نہیں ہے(تاریخ ابن خلدون ۱:۵۶۸)
تضعیفات ابن خلدون کی کہانی ہندسوں کی زبانی
ہندسوں کی زبان کسی نقص وتنقید بحث اورتمحیص کو قبول نہیں کرتی ۔
اب ہم ابن خلدون کی تضعیفات میں بحث کے نتائج کواس زبان کے سپرد کرتے ہیں تاکہ سب ممکنہ صورتوں میں ان کے اس کام کی علمی حیثیت واضح ہوسکے اوریہ تب ہوگا جب آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ "معجم احادیث المہدی "پانچ جلدوں پر مشتمل ہے اوران میں احادیث کو ہزار جلدوں سے اکٹھا کیا گیا ہے اورانہیں مختلف قسموں پر تقسیم کیا گیا ہے ملاحظہ فرمایئے:۔
۱۔ پہلی اوردوسری جلد ان پانچ سو ساٹھ (۵۶۰)احادیث پر مشتمل ہیں جو ساری کی ساری سنی اورشیعہ طرق سے پیغمبر اکرم سے مروی ہیں ۔
۲۔تیسری اورچوتھی جلدان (۸۷۶)احادیث پرمشتمل ہیں جوآئمہ اہل بیت سے مروی ہیں اوران میں سے بہت ساری احادیث شیعوں کے ساتھ اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے۔
۳۔پانچویں جلدان (۵۰۵)احادیث پر مشتمل ہے جو آیات قرآنیہ کی تفسیر کرتی ہیں اورشیعہ وسنی مفسرین نے جتنی بھی تفسیر پرمبنی احادیث حضرت امام مہدی کے بارے میں ذکر کی ہیں وہ سب تقریبااس میں موجود ہیں ۔
اس لحاظ سے احادیث کی تفسیرکرنے والی احادیث کو چھوڑ کربقیہ کی تعدادبنے گی (۱۴۳۶)اورتفسیر کرنے والی احادیث کو ملائیں توکل بن جائیں گی (۱۹۴۱)اوراگران کے سارے طرق شمار کیے جائیں توتقریبا چار ہزار بنتے ہیں ۔
اب غورفرمائیں:۔
۱۔ابن خلدون نے فقط (۲۳)احادیث کے متعلق بحث کی ہے ۔۲۔ان کے طرق کی تعداد(۲۸)ہے۔
۳۔ ابن خلدون نے ان میں سے چار کو صحیح قرار دیا ہے ۔۴۔ ان میں ضعیف ۱۹ ہیں
پس ابن خلدون (۱۹۱۸)احادیث کو زیربحث نہیں لائے ان میں سے (۵۳۷)حدیث پیغمبرسے مروی ہے (۸۷۶)اہلبیت سے اور(۵۰۵)احادیث آیات قرآنیہ کی تفسیرکرتی ہیں اوراس طرح ۲۳کا عدد مندرجہ ذیل نسبتیں تشکیل دیتا ہے:۔
۱۔ پیغمبر سے مروی احادیث کے ساتھ اس نسبت بنتی ہے۱۰۷،۴/
۲۔ پیغمبر اسلام اوراہم بیت سے مروی ساری احادیث کے ساتھ ہے ۶۰۱،۱/
۳۔ اورساری احادیث کے ساتھ ہے ۱۸۴،۱/اوراگر ابن خلدون ساری احادیث کو زیر بحث لائے ہوتے صحیح احادیث کی تعداد جو ان کے نزدیک ۲۳ میں سے ۴ہے کا تناسب یہ ہوتا:۔
۱۔ اگرپیغمبر اسلام سے مروی ساری روایات پر تنقید ی نظر کرتے تو۹۸احادیث صحیح ہوتیں ۔
۲۔ پیغمبر اسلام اوراہل بیت سے مروی احادیث سے۲۵۰احادیث صحیح ہوتیں۔
۳۔ اگرساری احادیث پر تنقید کرتے توصحیح احادیث کی تعداد ۳۳۸ہوتی۔
اورواضح ہے کہ پہلا عدد ہی احادیث مہدی کے تواتر کے لیے کافی ہے اورجن احادیث کو ابن خلدون نے درکیا ہے انہیں اگر ان احادیث سے نسبت دی جائے جنہیں ابن خلدون بحث زیر بحث نہیں لائے تومندرجہ ذیل تناسب بنتاہے:۔
۱۔ پیغمبر سے مروی احادیث کے ساتھ تناسب یہ ہے ۳۹۲۔ ۳/
۲۔ پیغمبر اسلام اوراھل بیت سے مروی احادیث کے ساتھ ۳۲۰،۱/
۳۔ تمام احادیث کے مجموعے کے ساتھ ۹۷۸،۰/
لہذا کیسے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ابن خلدون نے ساری احادیث مہدی کو ضعیف قرار دیا ہے جب کہ وہ بہت ہی کم تعدادکوزیربحث لائے ہیں اوران میں سے بھی بعض کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہےv
|