مھدی منتظر اور اسلامی فکر
 
امام مہدی کے متعلق شبہات
گذشتہ فصلوں میں امام مہدی سے متعلق عقیدے سے بحث کی گئی تھی لیکن اس فصل میں ان شکوک وشبہات کا جواب دیں گے جو بعض طفلانہ فکر رکھنے والے لوگ پیدا کرتے رہتے ہیں اوراگر ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ لوگ علوم حدیث اوران کی اصطلاحات سے بالکل بے بہری ہیں توکوئی تعجب کی بات نہیں ہے
اسی وجہ سے وہ ایسی رکیک دلیلیوں کو وسیلہ بناتے ہیں جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہیں جیسا کہ اسی فصل میں آپ پر واضح ہو جائیگا۔

صحیحین میں احادیث کے نہ ہونے کا بہانہ
ان کی بے اساس دلیلوں میں سے ایک یہ ہے کہ بخاری اورمسلم نے امام مہدی کے بارے میں ایک بھی حدیث نقل نہیں ہے(الامام الصادق ابو زہرہ :۲۳۹۔۲۳۸، امہدی والمہدیة احمد امین :۴۱)
اس دلیل کا جواب دینے سے پہلے چندامورکی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے
اول :۔بخاری سے صحیح طورپرمنقول ہے کہ انہوں نے آپ کی صحیح کے متعلق کہا ہے میں اس کتاب کوایک لاکھ صحیح حدیث یا دوسری جگہ ہے دولاکھ صحیح حدیث میں سے مرتب کیا ہے اورجن صحیح احادیث کو میں نے ترک کیا ہے وہ اس میں موجود ہ احادیث سے کئی گنا ہ زیادہ ہیں ۔
پس خودامام بخاری بھی نہیں کہتے کہ جوبھی حدیث انہوں نے نقل کی وہ ضعیف ہے بلکہ جن کوانہوں نے صحیح قرارد یا ہے وہ ان کی ذکر کردہ احادیث سے دسیوں گنازیادہ ہیں ۔
دوم کسی عالم اہل سنت نے یہ نہیں کہ اکہ بخاری ومسلم نے جو حدیث ذکر نہیں کی وہ ضعیف ہے بلکہ ان کی روش اس کے برعکس ہے اسی وجہ سے انہوں نے صحیحین پ رمستدرک کے عنوان سے کتابیں لکھی ہیں کہ جن میں دیگر کثیر صحیح روایات کو جمع کیا ہے۔
سوم:۔علماء جو صحیح حدیث یا خبر متواتر کی تعریف کرتے ہیں تواس میں کہیں پر یہ شرط نہیں ہے کہ صحیحین یا ان میں سے ایک اسے ذکرکیا ہوپس کسی حدیث کی صحت یا تواتر کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اس کے روای یہ دونوں یا ان دونوں سے کوئی ایک ہو بلکہ اگربخاری اورمسلم دونوں نے ایک متواتر خبر کی روایت نہ کی ہو تو یہ چیز بھی اس کے تواتر کوکوئی نقصان نہیں پہنچاتی ۔
علماء اہل سنت کے نزدیک اس کی بہترین مثال عشرہ مبشرہ والی حدیث ہے کہ جسے اہل سنت متواتر سمجھتے ہیں لیکن نہ اسے بخاری نے روایت کی ہے اورنہ مسلم نے
چہارم :۔جو شخص ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انکار کے صحیحین کے ان کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث بناتاہے اس نے صحیحین کی حقیقت کو نہیں پہچانا جیسا کہ ہم اس دلیل کے جواب میں اس کی وضاحت کریں گاملاحظہ فرمائیں۔
کسی پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ امام مہدی کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث مختلف امور کو بیان کرتی ہیں جیسے آپ کا نام بعض خصوصیات ، ظہور کی علامات ،رعیت کے درمیان فیصلے کرنے کی روش اس کے علاوہ اوربہت سارے امور اوربلاشک ان میں سے ہر حدیث میں ضروری نہیں ہے کہ لفظ مہدی بھی ذکر ہو کیونکہ اس کے بغیر بھی مراد واضح ہے مثلا ایک حدیث جو امام مہدی کانام لیکر ان کی ایک صفت بیان کرتی ہے۔
پھر یہ موصوف اوراس کی یہ صفت بخاری میں مذکور ہو لیکن حضرت امام مہدی کے نام کے ساتھ نہیں بلکہ ایک مرد کے عنوان کے ساتھ توکسی عقل مند کو شک نہیں ہو سکتا جی اس مرد سے مراد حضرت امام مہدی ہیں ورنہ بعض احادیث کے اجمال کو کیسے دورکیا جائیگا؟ کیا شرق وغرب میں علماء مسلمین کے بیان مجمل کو مفصل کی طرف لوٹانے کا کوئی اورطریقہ ہے چاہے یہ مجمل ومفصل ایک کتاب میں ہوں یا دومیں۔
اورجب ہم صحیحین پر نگا ہ کرتے ہیں تودیکھنے ہیں کہ بخاری اورمسلم نے امام مہدی کے بارے میں دسیوں مجمل احادیث روایت کی ہیں جنہیں علماء اہل سنت نے امام مہدی کی طرف لوٹایا ہے کیونکہ صحاح ، مسایند اورمستدرکات میں ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جو اس اجمال کو رفع کرتی ہیں ۔
بلکہ ایسی احادیث بھی بخاری ومسلم میں موجود ہیں جو واضح طور پر حضرت امام مہدی کے بارے میں ہیں ۔
اس حقیقت کو بیان کرنے سے پہلے ایک نقطہ کی طرف اشارہ کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ اہل سنت کے چار موثق علماء نے اس حدیث :۔المھدی حق ، وھو من ولد فاطمة
"مہدی حق ہیں اوروہ اولاد فاطمہ سے ہیں "کو واضح طور پر صحیح مسلم سے نقل کیا ہے اوراب اگر صحیح مسلم کے موجو دایڈیشنز میں جستجو کریں تویہ نہیں ملے گی۔
مندرجہ ذیل علما نے کہا ہے کہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے
۱۔ابن حجر ہیثمی(متوفی ۹۷۴ہجری )صواعق محرقہ میں باب نمبر ۱۱، فصل اول صفحہ ۱۶۳
۲۔متقی ہندی حنفی(متوفی ۹۷۵ہجری)نے کنزالعمال میں جلد نمبر ۱۴، صفحہ ۲۶۴، حدیث نمبر۳۸۶۶۲۔
۳۔ شیخ محمد علی صبان (متوفی ۱۲۰۶ہجری)نے اسعاف الراغبین صفحہ ۱۴۵
۴۔ شیخ حسن عدوی حمزاوی مالکی (متوفی ۱۳۰۳ہجری)میں مشارق الانوار میں صفحہ ۱۱۲۔
بہر حال صحیحین کی بعض احادیث سے مراد فقط حضرت امام مہدی ہی ہیں اورصحیحین کی احادیث کے سمجھنے میں یہ کوئی ہمارا اجتہاد نہیں ہے بلکہ اس پرصحیح بخاری کے پانچ شارح متفق ہیں جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کریں گے

صحیحین کی وہ احادیث جن کی تفسیر حضرت امام مہدی سے کی گئی ہے
بخاری نے اپنی صحیح میں فقط دجال کے خروج اوراس کے فتنے کی روایت پر اکتفاکیا ہے(صحیح بخاری۴:۲۰۵، کتاب الانبیاء ، باب ماذکر عن بنی اسرائیل اور۹:۷۵، کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
لیکن صحیح مسلم میں دجال کے خروج ، اس کی سیرت ،اوصاف ، فتنہ وفساد ،لشکر اورخاتمے کے بارے میں دسیوں احادیث موجود ہیں (صحیح مسلم شرح نووی کے ہمراہ ۲۳:۱۸،اور۸۸۔۵۸، کتاب الفتن واشراط الساعة)
اورشرح صحیح مسلم میں نووی نے واضح طور پر کہا ہے یہ احادیث جو قصہ دجال کی بارے میں وارد ہوئی ہیں اس کے وجود کے عقیدے کے حق ہونے کی دلیل ہیں اوریہ کہ وہ ایک معین شخص ہے اللہ تعالی اس کے ذریعے اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا۔اس کے بعد لکھتے ہیں اہل سنت اور سارے محدثین وفقہا اوراہل نظر افراد کا یہی نظریہ ہے(صحیح مسلم شرح نووی کے ساتھ ۱۸:۵۸)
رہا ان احادیث کا ظہور حضرت امام مہدی کے ساتھ تعلق تویہ علماء اہل سنت کے ان اعترافات سے واضح ہو جاتا ہے کہ مہدی ان کے آخری زمانے میں ظاہر ہونے اورعیسیٰ کا ان کے ہمراہ خروج کر کے دجال کو قتل کرنے میں ان کی مدد کرنے والی احادیث متواتر ہیں جیسا کہ ان احادیث کے تواتر کو ثابت کرنے کے لیے ان کے اقوال نقل کئے جا چکے ہیں ۔

۔صحیحین میں نزول عیسیٰ کی احادیث
بخاری اورمسلم میں سے ہر ایک نے اپنی سند کے ساتھ ابوہریرہ سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے پیغمبرنے فرمایا:۔کیف انتم ازا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم "
"تم اس وقت کیسے ہو گے جب تم میں ابن مریم نازل ہو گااورتمہارامام جو تم میں سے ہو گا (صحیح بخاری ۴:۲۰۵، باب ماذکر بنی اسرائیل ۔ صحیح مسلم۱:۱۳۶۔۲۴۴باب نزول عیسیٰ بن مریم اوران دونوں بابوں میں ایسی بہت ساری احادیث موجود ہیں )
اورصحیح مسلم نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر سے سنا کہ :
"لا تزال طائف من امتی یقاتلون علی الحق ظاھرین الی یوم القیامة قال:فینزل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فیقول امرھم تعال صل لنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمة لھذہ الامة"
"میری امت کا ایک گروہ قیامت کے دن تک حق پر لڑتا رہے گا پھر فرمایا پس عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے توان کا امیر کہے گا آہمیں نماز پڑھا وہ امت کے احترام میں کہے گا نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں "(صحیح مسلم ۱:۲۴۷۔۱۳۷ باب نزول عیسیٰ)
یہاں تک واضح ہو گیا کہ مسلمانوں کا امام جو عیسیٰ بن مریم کے نزول تک موجود ہوگا جیسا کہ صحیحین میں ہے وہ اس گروہ کا امیرہوگاجوقیامت تک حق پرجنگ کرے گاجیسا کہ صحیح مسلم میں ہے یوں کہ عیسیٰ اس گروہ کی تعظیم اوراحترام میں امامت کرانے سے انکار کریں گے۔
مسلم کی حدیث کا واضح طورپریہی معنی ہے اس میں کوئی تاویل ممکن نہیں ہے اورجب ہم دیگر صحاح ، مسایند وغیرہ کیطرف رجوح کرتے ہیں توان میں ایسی کثیر روایات پاتے ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ قیامت تک حق لڑنے والے گروہ کا امیر امام مہدی ہے نہ کوئی اور۔
انہیں میں سے ایک اورروایت ہے جسے ابن ابی شیبة نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے:۔المھدی من ھذہ الائمۃ وھو الذی یوم عیسیٰ بن مریم"
"مہدی ان اماموں میں سے ہے اوریہی عیسیٰ بن مریم کو جماعت کرائیں گے(المصنف ابن ابی شیبة ۱۵:۱۹۸، حدیث نمر۱۹۴۹۵)
انہیں میں سے ایک وہ روایت ہے جسے ابو نعیم نے اپنی سند کے ساتھ اورعمر ودانی سے اس نے حذیفہ سے اپنی سنن میں نقل کیا ہے وپ کہتے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا:۔
" یلقفت المھدی وقدنزل عیسیٰ ابن مریم کانما یقطرمن شعرہ الماء ،فیقول المھدی :تقدم صل بالناس ،فیقول عیسیٰ :انما اقیمت الصلاة لک فیصلی خلف رجل من ولدی"
"جب مہدی متوجہ ہوں گے کہ عیسی ٰ بن مریم نازل ہوچکے ہیں اوران کے بالوں سے پانی کے قطرے گررہے ہیں تومہدی کہیں گے آگے بڑھو اورلوگوں کو نماز پڑھاو اس وقت عیسیٰ کہیں گے آپ ہی کے لیے نماز کا اہتمام کیا گیا ہے پس عیسیٰ میری اولاد میں سے ایک مرد کے پیچھے نماز پڑھیں گے(الحاوی للفتاویٰ سیوطی ۲:۸۱)اس کے بعددیگرروایات کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جواس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ صحیحن کی حدیث میں امام سے مراد مہدی ہیں(ملاحظہ ہو سنن ترمذی ۵:۱۵۲۔۲۸۲۹۔ مسند احمد ۳:۱۳۰، الحاوی للتفاوی ۲:۷۸، مناوی کی فیض الغدیر۶:۱۷)
ان احادیث میں سے اکثر کو سیوطی نے اپنے رسالے "العرف الوردی فی اخبارالمہدی"میں جمع کیا ہے یہ رسالہ ان کی کتاب "الحاوی للتفاوی"کے ساتھ چھپ چکا ہے۔ان احادیث کو انہوں نے حافظ ابو نعیم کی کتاب الاربعین سے نقل کیا ہے اورجواحادیث جنہیں نعیم بن حماد نے ذکر کیا ہے کہ جس کے متعلق سیوطی کا کہنا ہے یہ آئمہ حفاظ اوربخاری کے شیوخ میں سے ایک ہے(الحاوی للفتاوی۲:۸۰)
میں کہتاہوں:۔اگرآپ بخاری کی شروح میں غور فرمائیں توآپ ان کی سب کو اس بات پر متفق پائیں گے کہ بخاری کی حدیث میں جو لفظ امام آیا ہے اس سے مراد امام مہدی ہیں ۔
صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں بخاری کی گذشتہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں احادیث مہدی متواتر ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں "عیسیٰ کا اس امت کے ایک مرد کے پیچھے نمازپڑھنا جبکہ ایسا آخری زمانے میں قیامت کے قریب ہوگا "اس صحیح قول کی دلیل ہے کہ زمین حجة خدا سے خالی نہیں رہ سکتی(فتح الباری شرح بخاری ۶:۳۸۵۔۳۸۳)جیسا کہ ارشاد الساری میں بھی یہی لکھا ہے کہ اس امام سے مراد حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں اورجناب عیسیٰ نماز میں حضرت امام مہدی کی اقتداکریں گے(ارشادالساری ۵:۴۱۹)۔
بعینہ یہی بات صحیح بخاری کی شرح عمدة القاری میں بھی ہے(عمدة القاری شرح بخاری ۱۶:۴۰۔۳۹)
اورفیض الباری میں توابن ماجہ سے ایک حدیث ذکر کی ہے جوبخاری کی اس حدیث کی تفسیر کرتی ہے پھر لکھتے ہیں "پس یہ واضح ہے کہ احادیث میں امام کا مصداق اوراس سے مراد حضرت امام مہدی ہیں "اس کے بعد لکھتے ہیں "اس حدیث کے بعد کس حدیث پرلوگ ایمان لائیں گے(فیض الباری علی صحیح البخاری ۴:۴۷۔۴۴)
اور"البدرالساری الی فیض الباری "کے حاشیے پر مذکورہ حدیث کی طویل شرح کرنے کے بعد حدیث بخاری کی وضاحت کرنے والی ان احادیث کوجمع کیاہے جوتصریح کرتی ہیں کہ امام سے مراد حضرت امام مہدی ہیں
اس کے بعد لکھتے ہیں "ابن ماجہ کی حدیث اس معنی کوزیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے اوراس کی سند بھی قوی ہے"(حاشیہ البدرالساری الی فیض الباری۴:۴۷۔۴۴)
مسلم نے اپنی صحیح میں اپنی سندکے ساتھ جابربن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبرنے فرمایا:۔
"یکون فی آخرامتی خلیفہ یحثی المال حثیا لایعدہ عدا"
"میری امت کے آخرمیں ایک خلیفہ آئے گا جواس قدرمال عطا کرے گا جسے کوئی شمارنہیں کرسکے گا"۔اوراس حدیث کو دیگرطرق سے بھی جابراورابوسعیدخدری سے نقل کیا ہے(صحیح مسلم۱۸:۳۹)
اور"احثاء مال"ایسی صفت ہے جس سے مراد کثرت میں مبالغہ ہے اوراہل سنت کی کتب اورروایات میں اس کا موصوف امام مہدی کے سواکوئی نہیں ۔اسی قسم کی ایک حدیث ترمذی نے ابوسعیدخدری سے اپنی سندکے ساتھ روایت کی ہے اوراسے حسن قراردیا ہے کہ پیغمبرنے فرمایا:۔
"ان فی امتی المھدی "
"بیشک میری امت میں مہدی ہے"
اس کے بعد فرمایا:۔
"فیجی ء الرجل فیقول:۔یامھدی اعطنی اعطنی فیحثحی المال لہ فی ثوابہ مااستطاع ان یحملہ
"پس ان کے پاس ایک مرد آکر کہے گا مجھے دیجئے مجھے دیجئے پس مہدی کپڑے میں اسقدر مال باندھ کر اسے دیں گے جتنا وہ اٹھا سکتا ہوگا(سنن ترمذی ۴:۵۰۶۔۲۲۳۲)یہی روایت ابوھریرہ اورابوسعیدخدری سے دیگردسیوں طرق سے مروی ہے(ابن ابی شیبة کی المصنف ۱۵:۱۹۶۔۱۹۴۸۵و۱۹۴۸۶، مسند احمد ۳:۸۰، عبدالرزاق کی المصنف۱۱:۳۷۱۔۲۰۷۷۰، مستدرک حاکم ۴:۴۵۴دلائل النبوة للبیہقی ۶:۵۱۴، تاریخ بغداد۱۰:۴۸مقدسی شافعی کی عقدالدرر :۶۱باب ۴، کنجی شافعی کی البیان ۵۰۶باب ۱۱، البدایۃ ولنہایۃ۶:۲۴۷، مجمع الزوائد ۷:۳۱۴، الدرالمنشور۶:۵۸الحاوی للفتاوی ۶:۵۹و۲۶و۶۳و۶۴۔)

۔ صحیح مسلم میں بیابان میں دھنسنے والی احادیث:۔
صحیح نے اپنی صحیح میں اپنی سند کے ساتھ عبیداللہ بن قطبیہ سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے حارث بن ابی ربیعہ ، عبداللہ بن صفوان اورمیں ام المومنین ام سلمہ کے پاس گئے انہوں نے ان سے اس لشکر کے متعلق سوال کیا جو زمین میں دھنس جائے گا (اوریہ ابن زبیر کے زمانے کی بات ہے)توانہوں نے کہا کہ پیغمبرنے فرمایا تھا:۔ "یعوذ عائز فی البیت ، فیبعث الیہ بعث ، فاذاکانو اببیداء من الارض خسف بھم"
"پناہ لینے والے گھر میں پناہ لے گا اوراس کی طرف فوج بھیجی جائے گی پس جب وہ صحرامیں ہونگے تووہ دھنس جائیں گے"(صحیح مسلم شرح نووی کے ساتھ ۱۸:۴و۵و۶و۷۔)
بعض جہلا کا خیال ہے کہ یہ حدیث زبیر کے حامیوں کی گھڑی ہوئی ہے عبداللہ بن زبیرنے مویین کے ساتھ سختی کی تھی جو اسکے قتل ہونے کی موجب ہوئی تھی۔لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے جیسے ابن عباس ، ابن مسعود، ابوہریرہ ،جدعمروبن شیعب ، ام سلمہ ،صفیہ، عائشہ،حفصہ ،قعقاع کی بیوی نفیرہ اوردیگربڑے بڑے صحابہ اورحاکم نے بعض طرق کو بخاری اورمسلم کے مطابق صحیح قراردیا ہے(مسند احمد ۳:۳۷، سنن ترمذی ۴:۵۰۶۔۲۲۳۲، مستدرک حاکم ۴:۵۲۰، ذھبی کی تلخیص المسندرک ۴:۵۲۰۔اورابو داود نے اسے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ ذکرکیا ہے جیسے کہ "عون المعبودشرح سنن ابی داود "میں اس کی وضاحت موجود ہے ۱۱:۳۸۰شرح حدیث ۴۱۶۸۷، اورسیوطی نے حدیث کے کثیر طرق اورجن صحابہ نے اسے روایت کی ہے کو اپنی تفسیر درمنشور میں سورہ سباکی آیت نمبر۵۱کی تفسیر میں جمع کیا ہے۶:۷۱۴۔۷۱۲)
بہر حال صحرا کا دھنسنا اس لشکر کے ساتھ پیش آئے گا جوحضرت امام مہدی کے ساتھ جنگ کرے گا جیسا کہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی تمام احادیث بتاتی ہیں اوریہ وضاحت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مسلم کی حدیث سے مراد کیا ہے۔
غایت المامول میں لکھتے ہیں ہم نے نہیں سنا کہ اس وقت تک کوئی لشکر دھنسا ہو اگرایسا ہوا ہوتا تویہ واقعہ اصحاب الفیل کی طرح مشہور ہوتا(غایة المامول شرح التاج الجامع للاصول ۵:۳۴۱) پس ضروری ہے کہ یہ دھنسا مہدی کے دشمنوں کے ساتھ ہو دیر سے ہو یا جلدی اوروہاں پر باطل پرست گھاٹے میں ہوں گے