مھدی منتظر اور اسلامی فکر
 
امام مہدی امام حسین کی اولاد میں سے ہیں اورآپ کے نویں فرزند ہیں
یہ بات اگرچہ گذشتہ بحث میں ثابت ہو چکی ہے لیکن بات کو محکم کرنے کے لیے مزید اس بحث کی ضرورت ہے۔
چنانچہ پہلے ہم بعض ان واضح روایات کو ذکر کررہے ہیں جن کے ذریعے علماء اہل سنت نے استدلال کیا ہے اورپھر اختصار کی خاطر شیعوں کی نظر میں صحیح روایات میں کچھ نقل کریں گے
۱۔یہ حدیث سلیمان فارسی ، ابو سعید خدری ، ابو ایوب انصاری ، ابن عباس اورعلی ہلالی سے مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:۔
"اے فاطمہ ہم اہل بیت کو وہ چھ خصوصیات دی گئی ہیں جو نہ پہلے لوگوں میں سے کسی کو دی گئی ہیں اورنہ آخری (زمانہ کے)لوگوں میں سے کوئی انہیں درک کرپائے گا (ان میں سے ایک یہ ہے )کہ ہم میں سے امت کا وہ مہدی ہے جس کے پیچھے عیسی ٰ نماز پڑھیں گے پھر امام حسین کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا یا امت کا مہدی اس سے ہو گا(اسے دارقطنی نے ذکر کیا ہے جیسا کہ کنجی شافعی کی "البیان فی اخبار صاحب الزمان میں ہے ۵۰۲۔۵۰۱باب ۹ ، ابن صبان مالکی کی الفصول المہمة ۲۹۵۔۲۹۶فصل ۱۲۰۔سمعانی کی فضائل الصحابہ جیسا کہ ینا بیعالمودت میں ہے ۴۹باب ۹۴ اورمعجم احادیث الامام المہدی ۷۷۔۱۴۶:۱ میں واضھ ہے اس کے طرق اتنے زیادہ ہیں کہ اگریہ سب کو ذکر کیا جائے توتقریباً ایک جلد بن جائے)
۲۔ مقدسی شافعی نے عقد الدرر میفں علی سے روایت کی ہے جس میں آپ نے فرمایا "بیشک امام مہدی امام حسین کی اولاد سے ہیں اورجو اس کے غیر کو ولی مانے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔(عقدالدرر ۱۳۲باب ۴، فصل ۲)
مقدسی نے اسے دلیل کے طور پر ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ :۔
"ہم اس فصل کا اختتام بڑے بڑے سورماؤں کی شکست دینے والے علی کے ایسے فرمان سے کر رہے ہیں جوسخت ہو لناک اوردشوار امور اوراس امام مہدی کے خروج پر مشتمل ہے جو دکھوں کو دور کرنے والے اورلشکروں کو متفرق کرنے والے ہیں پھر اس حدیث کو ذکر کرتے ہیں "
۳۔ عقد الدرر میں جابر بن یزید سے انہوں نے امام باقرسے ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس میں ہے "اے جابر !حضرت مہدی حضرت امام حسین کی اولاد سے ہیں (عقد الدرر ۱۲۶باب ۴، فصل ۲)
۴۔ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں علی کے اس فرمان "اورہمارے ذریعے اختتام ہو گا نہ تمہارے ذریعے "کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"یہ اس مہدی کی طرف اشارہ ہے جو آخری زمانے میں ظہور کرے گااوراکثر محدثین کا نظریہ یہ ہے کہ وہ فاطمہ کی اولاد سے ہے اورہم معتزلہ کے علماء بھی اس کا انکار نہیں کرتے بلکہ صراحت کے ساتھ اسے اپنی کتب میں ذکر کرتے ہیں اوران کے بزرگ علماء نے اس کا اعتراف کیا ہے ۔
مزید لکھتے ہیں قاضی القضادرحمہ اللہ نے اابو القاسم اسماعیل بن عباد سے اس نے علی سے متصل سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ آپ نے مہدی کا ذکر کیا اورفرمایا وہ امام حسین کی اولاد سے ہے پھر ان کا حلیہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
"وہ روشن پیشانی والا ، اونچی تیکھی ناک والا ، بڑے پیٹ والا ،موٹی رانوں والا، چمکیلے دانتوں والا ہے اور اس کی دائیں ران پر تل ہے"۔
اس حدیث کو بعینہ عبداللہ بن قتبیہ نے اپنی کتاب غریب الحدیث میں ذکر کیا ہے(شرح نہج البلاغة ابن ابی الحدید ۱:۲۸۲۔۲۸۱، شرح خطبہ نمبر ۱۶)
۵۔ ینا بیع المودت میں مناقب خوارزمی سے ان کی سند کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔
"میں اپنے جد رسول کے پاس گیا انہوں نے مجھے اپنی ران پر بھٹایا اورفرمایا:۔
اے حسین اللہ نے تیری پشت سے نو اماموں کو منتخب فرمایا ہے ان میں نواں قائم ہوگا اوروہ سب کے سب اللہ تعالی کی نظر میں فضلیت اورمقام ومرتبے
لحاظ سے برابر ہیں"(ینابیع المودة ۳:۱۲۸باب ۶۴)
۶۔ نیز ینا بیع میں مناقب خوارزمی سے ان کی سند کے ساتھ سلمان سے روایت نقل کی ہے کہتے ہیں ۔
"میں حضرت پیغمبر کے پاس گیا توحضرت امام حسین آپ کی ران پر بیٹھے تھے آپ ان کی آنکھوں کو چوم رہے تھے اورمنہ کا بوسہ لے رہے تھے اورفرمارہے تھے "توسردار ہے سردار کا بیٹا ہے سردار اکا بھائی ہے توامام ہے ۔ امام کا بیٹا ہے اورامام کا بھائی ہے توحجت ہے ،حجت کا باپ ہے تونو حجتوں کا باپ ہے ان میں سے نواں قائم ہو گا"(ینابیع المودة ۳:۱۶۷باب ۹۶)
اور سلیمان کو اس حدیث کو صدوق نے کتاب الخصال میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہتے ہیں ۔
"ہم سے بیان کیا میرے باپ نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا یعقوب بن یزید نے حماد بن عیسیٰ سے انہوں نے عبداللہ بن مسکان سے انہوں نے ابان بن تغلب سے انہوں نے سلیم بن قیس ہلالی سے انہوں نے سلمان فارسی سے کہ کہتے ہیں میں پیغمبر اکرم کے پاس حاضر ہوا توحضرت امام حسین آپ کی آغوش میں بیٹھے ہوئے تھے اورآپ ان کی آنکھوں اورمنہ کو چوم رہے تھے اورفرمارہے تھے ۔
"انت سید ابن سید ،اخوسید ،انت امام بن امام اخواامام ، انت حجة ابو حجة ، انت ابو حجج تسعة تاسعم قائھم"
"توسردار ہے سردار کا بیٹا ، توامام ہے امام کا بیٹا اوراماموں کا باپ توحجت ہے ، حجت کا بیٹا اورنو حجتوں کا باپ ان میں سے نواں قائم ہوگا "(الخصال ۲:۴۷۵۔ ۳۸ ابواب الاثنی عشر، کمال الدین ۱:۲۶۲۔۹ باب ۲۴)
۷۔ اصول کافی میں علی بن ابراہیم نے انہوں نے اپنے باپ ابراہیم بن ہاشم سے انہوں نے محمد بن عمیر سے انہوں نے سعید بن غزوان سے انہوں نے ابو بصیر سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا۔
"حسین بن علی کے بعد نوامام ہوں گے ان میں نواں قائم ہو گا(اصول کافی ۱:۵۳۳۔۱۵باب ۱۲۵)
صدوق نے کافی کی روایت کو اپنے باپ سے اور انہوں نے علی بن ابراہیم سے نقل کیا ہے(الخصال ۲: ۴۸۰۔۵۰ ابواب الاثنی عشر)
اوراس کی سند میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کی جلالت وعظمت میں شک کیا جائے ۔
۸۔ینابیع میں حمدینی جوینی شافعی کی فرائد السمطین سے ان کی سند کے ساتھ اصبغ بن نباتہ سے انہوں نے ابن عباس سے انہوں نے پیغمبر اکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔
"میں ،علی ، حسن، حسین اورحسین کے نوفرزند کے نوفرزند پاک وپاکیزہ اورمعصوم ہیں"(ینابیع المودة ۳:۱۶۲باب ۹۴، نیز مودت عاشرة ۲:۸۳، میں بھی اس عنوان کے تحت منقول ہے"فی عدد الآئمة وان المھدی منھم"

مہدی محمد ابن حسن عسکری ہیں
اب ہم ان چند نصوص واحادیث کا ذکر کرتے ہیں جو بغیر تاویل کے حضرت امام مہدی پر دلالت کرتی ہیں اوران کی غیبت سے پہلے ان کی خبر دیتی ہیں۔
۱۔ صدوق نے اپنی صحیح سند کے ساتھ محمد بن حسن بن ولید سے انہوں نے محمد بن حسن صفار سے انہوں نے یعقوب بن یزید سے انہوں نے ایوب بن نوح سے وہ کہتے ہیں میں امام رضا سے عرض کیا :۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کے ہاتھ میں حکومت آجائے گی اوراللہ تعالی بغیر تلوار کے اسے آپ کے پاس لوٹا دے گا اورآپ کی بیعت کرلی گئی ہے اورآپ کے نام کے دراہم چھپ چکے ہیں ۔
توآپ نے فرمایا "ہم میں سے کوئی نہیں ہے جسے خطوط لکھے گئے ہوں ، اوراس سے مسائل پوچھے گئے ہوں ، انگلیوں نے اس کی طرف اشارہ کئے ہوں اوراس کی طرف اموال لائے گئے ہوں مگر یہ کہ اسے قتل کردیا گیایا اسے بستر سے موت آئی۔
یہاں تک کہ خداوند متعال اس حکومت کے لیے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کی پیدائش اورپرورش مخفی ہو گی لیکن نسب مخفی نہیں ہوگا"(کمال الدین ۲:۳۶۰۔ اباب ۳۵)
اس حدیث میں امام مہدی کی ولادت کے متعلق امورکی طرف اشارہ ہے اوریہ کہ اس کا علم صرف امام حسن عسکری کے خواص کو ہو گا اس لیے ایک صحیح حدیث میں آیا ہے ۔"مہدی وہ ہے جس کے بارے میں لوگ کہیں گے ابھی تک پیدا نہیں ہوئے"۔
صدوق نے صحیح سند کے ساتھ روادیت کی ہے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا میرے باپ نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ نے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیاموسی خشاب نے اور انہوں نے عباس بن عامر قصبانی سے وہ کہتے ہیں میں نے امام موسی کاظم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ۔
"اس حکومت کا مالک وہ ہے جس کے بارے میں لوگ کہیں گے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا"(کمال الدین ۲:۳۶۰۔۲باب ۳۴۔اسی باب میں دیگر طرق سے بھی ذکر کیا ہے۔)
۲۔ مقدسی شافعی نے عقدالدرر میں امام محمد بن باقر سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا:"یہ حکومت سن کے لحاظ سے ہم میں سے سب سے چھوٹے کے پاس آئے گی"(عقدالدرر :۱۸۸باب ۶)
اس میں بھی امام مہدی بن حسن عسکری کی طرف اشارہ ہے۔
۳۔کلینی نے صحیح سند کے ساتھ علی بن ابراہیم سے انہوں سے نے محمد بن حسین سے انہوں نے ابن ابی نجران سے انہوں نے فضالہ بن ایوب سے انہوں نے سدیر صیرافی سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں میں امام صادق کو یہ فرماتے ہوئے سنا "اس حکومت کامالک یوسف سے کچھ مشابہت رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔
مزید فرماتے ہیں "اس امت کو اس لیے بھی تیار رہنا چاہئے کہ اللہ اپنی حجت کے ساتھ وہی کرے جو اس نے یوسف کے ساتھ کیا تھا کہ وہ ان کے بازاروں میں گھومے اور ان کی بساط کو باندھے یہاں تک کہ اللہ تعالی اس طرح اذن دے دے جیسے یوسف کو دیا تھا کہ لوگ کہنے لگیں کیا تو ہی یوسف ہے ؟تواس نے کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں (اصول کافی۱:۳۳۶،۴ باب ۸۰)
۴۔ ینا بیع المودة میں امام رضا سے روایت ہے "حضرت امام حسن عسکری کی اولاد سے صالح فرزند ہی صاحب الزمان ہے اوروہی حضرت امام مہدی ہیں"
قندوزی نے ینا بیع میں نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ابو نعیم اصفہانی کی کتاب الاربیعن میں بھی موجود ہے"(ینا بیع المودت ۳:۱۶۶باب نمبر ۹۴)
۵۔ اسی کتاب میں امام رضا سے روایت منقول ہے کہ :۔
"میرے بعد میرا بیٹا محمد امام ہے محمد کہ اس کا بیٹا علی اس کے بعد اس جا بیٹا حسن ،حسن کے اس کا بیٹا حجت قائم اوریہ وہی ہے جس کا غیبت میں انتظار کیا جائے گا، ظہور میں اس کی اطاعت کی جائے گی اوروہ زمین کو اس طرح عدل وانصاف سے پر کردے گا جیسے وہ ظلم وجور سے پر ہو چکی ہو گی۔
رہا یہ کہ کب قیام کرے گا ؟ تو یہ وقت بتائے گا مجھ سے میرے باپ نے اورانہوں نے اپنے آباء واجداد سے اور انہوں نے پیغمبراسلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا وہ قیامت کی طرح اچانک تمہارے پاس آجائے گا(ینا بیع المودت ۳:۱۱۵۔ ۱۱۶باب ۸۰، اس وضاحت کے ساتھ کہ اسے حموینی شافعی کی فرائد السمطین سے نقل کیا ہے)
۶۔ اصول کافی میں صحیح سند کے ساتھ علی بن ابراہیم سے انہوں نے حسن بن موسی خشاب سے انہوں نے عبداللہ بن موسی سے انہوں نے عبداللہ بن بکیر سے انہوں نے زرارة سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادق کو یہ فرماتے ہوئے سنا :۔
بیشک قیام سے پہلے ہمار بیٹا غالب ہو گا راوی کہتا ہے میں نے کہا ایسا کیوں توفرمایا خوف کی وجہ سے وہ اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کیا پھر فرمایا:۔
اے زرارة یہی وہ منتظر ہے کہ لوگ جس کی ولادت میں شک کریں گے بعض کہیں گے اس کا باپ بغیر بچے کے مر گیا بعض کہیں گے یہ حمل میں تھا(یعنی باپ کی شہادت کے وقت شکم مادر میں تھا)بعض کہیں گے اپنے باپ کی موت سے دوسال پہلے پیدا ہوا ۔
اے زرارة یہی منتظر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی شیعوں کا امتحان لے گا اس وقت باطل پرست لوگ شک وشبہ میں مبتلا ہوجائیں گے(اصول کافی ۱:۳۳۷۔۵باب ۸۰، کمال الدین ۲:۳۴۲۔۲۴باب ۳۳۔۲،۳۲۳۳۶باب ۳۳، ایک اورسند کیساتھ لیکن پہلی سند زیادہ عمدہ ہے)
وہ کہتے ہیں حضرت امام جعفرصادق نے فرمایا قائم کو دوغیبتیں ہوں گی ایک چھوٹی دوسری لبی پہلی غیبت میں اس کی جگہ کو فقط اس کے خاص شیعہ جانتے ہوں گے اوردوسری میں فقط خالص چاہنے والے(اصول کافی ۱:۳۴۰۔ ۱۹باب ۸۰)
اس حدیث کے حضرت امام جعفر صادق سے صادر ہونے میں شک نہیں ہے کیونکہ اس کے راوی موثق ہیں اورحضرت امام مہدی بن حسن عسکری علیھما السلام پر اس کی دلالت آفتاب نصف النہار کی طرح روشن ہے۔
۸۔ کمال الدین میں صحیح سند کیساتھ روایت نقل کی ہے کہتے ہیں "مجھے میرے باپ نے بیان کیا انہوں نے عبداللہ بن جعفر حمیری سے انہوں نے ایوب بن نوح سے انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے انہوں نے جمیل بن دراج سے انہوں نے زرارة سے وہ کہتے ہیں حضرت جعفر صادق نے فرمایا:۔
لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں ان سے ان کا امام غائب ہو جائے گا ۔
میں نے عرض کیا لوگ اس زمانہ میں کیا کریں گے؟توفرمایا اسی شی کے ساتھ تمسک کریں جو ان کے پاس ہے حتی کہ ظاہر ہو جائے(کمال الدین ۲:۳۵۰۔۴۴باب ۳۳)
۹۔ اصول کافی میں علی بن ابراہیم سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ابن عبی عمیر سے انہوں نے ابو ایوب خزاز سے انہوں نے محمد بن مسلم سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفرصادق کو فرماتے ہوئے سنا"صاحب امر کی غیبت کے بارے میں اگرتمہیں خبر ملے تو اس کا انکار نہ کرنا"(اصول کافی ۱:۳۳۸۔ ۱۰باب ۸۰، اسی باب میں اس حدیث کو ا س کے ساتھ طریق صحیح ذکر کیا ہے ہمارے بعض علماء نے احمد بن محمد سے انہوں نے علی بن حکم سے اورانہوں نے محمد بن مسلم سے نقل کیا ہے۱:۳۴۰۔۱۵)
میں کہتا ہو ں بالاتفاق بارہ اماموں میں سے فقط حضرت امام مہدی غائب ہو ئے ہیں اورجب یہ حدیث صادر ہو ئی تھی اس وقت آپ پیدا نہیں ہوئے تھے اسی لئے اس حدیث میں ولادت کے بعد آپ کی غیبت پر تاکید کی گئی ہے کلینی بے اسے دوایسی سندوں کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جن کے صحیح ہونے کے بارے میں علماء شیعہ کا اتفاق ہے
۱۰۔ کمال الدین میں ہے "مجھ سے بیا ن کیا میرے باپ دادااور محمد بن حسن (رضی اللہ تعالی عنہما)نے وہ کہتے ہیں میں ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ اورعبداللہ بن جعفر حمیری اوراحمد بن ادریس اورانہوں نے کہا کہ ہم بیان کی احمد بن حسین بن ابوالخطاب اورمحمدبن عبدالجبار اورعبداللہ بن عامر بن سعد اشعری نے اورانہوں نے عبدالرحمن بن ابی نجران سے انہوں نے حضرت امام صادق سے کہ میں امام کو فرماتے ہوئے سنا:۔
خداکی قسم تمہارا مام کئی سال تک زندہ رہے گا اورتمہیں آزمایا جائے گا یہاں تک کہ اس کے متعلق کہاجائے گا وہ مر گیا یا جس وادی میں گیا تھا وہیں ہلاک ہوگیا اورمومنین کی آنکھیں اس پر آنسو بہائیں گی۔
اورتم اس طرح متزلزل ہو جاوگے جیسے کشتیاں سمندر کی لہروں میں ہچکولے کھاتی ہیں اورنہیں نجات پائے گا مگر وہ شخص کہ جس سے اللہ نے عہد وپیمان لیا ہوگا اوراس دل میں نور داخل کردیا ہو گا اورخود اس کی مدد کرے گا(کمال الدین ۲:۳۴۷۔۳۵باب ۳۳)
محمد بن مساور سے پہلے والے سب راوی بلا اختلاف جلیل القدر اورثقہ ہیں لیکن محمد بن مساور جو ۱۸۳ء ھ میں فوت ہوا مجہول ہے اورمفضل کی ثاقت میں بھی اختلاف ہے
لیکن خود یہ حدیث ان کے نقل حدیث کے سلسلے میں مانتداری کی بہترین دلیل ہے کیونکہ یہ ایسی اعجاز آمیزخبر ہے کہ جو ابن مساور کی وفات کے ستتر سال بعد وقوع پذیر ہوئی کیونکہ غیبت ۲۶۰ئھ میں ہوئی اورکلینی نے بھی اسے صحیح سند کے ساتھ محمد بن مساور سے اس نے مفضل سے نقل کیا ہے (اصول کافی ۱:۳۳۶۔۳ باب ۸۰)
لیکن اس مفہوم پر مشتمل دیگر کثیر روایات کو دیکھ کر اس کے صدور کا بھی یقین ہو جاتا ہے۔
مثلاابن سنان کی وہ صحیح حدیث کہ جسے صدوق نے اپنے باپ اورانہوں نے محمد بن حسن بن احمد بن ولید سے انہوں نے صفار سے انہوں نے عباس بن معروف سے انہوں نے علی بن مہزیار سے انہوں نے حسن بن محبوب سے انہوں نے اسحاق بن جریزسے انہوں نے عبداللہ بن سنان سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں میں اورمیرے والدحضرت جعفر صادق کے پاس حاضر ہوئے توآپ نے فرمایا:۔
اس وقت تمہارا کیا حال ہو گاجب تم ہدایت کرنے والے امام اورپرچم ہدایت کو نہیں دیکھ سکو گے()کمال الدین ۲:۳۴۸۔ ۴۰باب ۳۳
۱۱۔ اصول کافی میں ہے کہ ہمارے کئی علماء نے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے انہوں نے اپنے باپ محمد عیسیٰ سے انہوں نے بکیر سے انہوں نے زراة سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت جعفر صادق کوفرماتے ہوئے سنا "بے شک قائم آل محمد قیام سے پہلے غائب ہو گاوہ ڈرے گااورحضرت نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کی یعنی قتل سے "(اصول کافی ۱:۳۴۰۔۱۸باب ۸۰، کمال الدین ۲:۴۱۸۔۰ا باب ۴۴میں صدوق نے اسے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کیونکہ محمدبن ماجیلویہ ثقہ ہے)اوراس کی سند بالاتفاق صحیح ہے
۱۲۔ مقدسی شافعی کی عقدالدرر میں شہید کربلا حضرت امام حسین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :اس حکومت کا مالک ، حضرت امام مہدی علیہ السلام دودفعہ غائب ہو گا ، ایک غیبت زیادہ طویل ہو گی حتی کہ بعض لوگ کہنے لگیں گے کہ فوت ہوگیا بعض کہیں گے قتل کردیا گیا اوربعض کہیں گے چلا گیا "(عقدالدرر ۱۷۸باب ۵)
اس طرح کی احادیث صحیح سند کے ساتھ پہلے بیان ہو چکی ہیں ملاحظہ ہو نمبر ۷۔۶
۱۳۔ کمال الدین میں ہے کہ "مجھ سے بیان کیا میرے باپ اور محمد بن حسن (رضی اللہ عنہما)نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ اورعبدا للہ بن جعفر حمیری نے کہا ہم سے بیان کیا احمد بن حسین بن عمر بن یزید نے انہوں نے حسین بن ربیع مدائنی سے (کافی ۱:۳۴۱۔۳۳ باب ۸۰ ، میں اسے احمد بن حسن سے اس نے عمر بن یزید سے اس نے حسن بن ربیع ہمدانی سے ذکر کیا ہے۔اورظاہرہ یہ صحیح ہے کیونکہ سعد اورحمیری نے احمد بن حسین بن عمر بن یزید سے روایت نہیں کی بلکہ سعد نے بہت سارے مقامات پر احمد بن حسن سے روایت نقل کی ہے اوراس سے مراد ابن علی بن فضال فطعی ثقہ ہے رہا عمر بن یزید تو چاہے یہ صیقل ہو یا بیاع سابری اس کی وفات غیبت سے دسیوں سال پہلے ہوئی ہے)
انہوں نے محمد بن اسحاق سے انہوں نے اسید بن ثعلبہ سے انہوں نے ام ہانی سے کہ وہ کہتی ہیں جب میں جب میں نے امام محمد باقر سے ملاقات کی تومیں نے ان سے اس آیت"فلا اقسم با لخنس الجوار الکنس"
مجھے ان ستاروں کی قسم جو چلتے چلتے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اورغائب ہو جاتے ہیں ۔ کے متعلق سوال کیا توآپ نے فرمایا :۔
یہ وہ امام ہے جو اپنے والد کی وفات کے بعد ۲۶۰ئھ میں غا ئب ہوگا پھر رات کی تاریکی میں چمکنے والے شہاب ستارے کی طرح ظاہر ہو گا اگرآپ اسے پائیں گی تو آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائے گی (کمال الدین ۱۔۳۲۴:۱باب ۳۲اسی باب میں ۱: ۳۳۰ ۱۵باب ۳۲اسے ام ہانی نے تھوڑسے سے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے)
پہلے یہ لوگ فوت ہو چکے تھے پس یہ حدیث ان کے سچے ہونے کی دلیل ہے۔
۱۴۔ کمال الدین میں صحیح سند سے یہ روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا محمد بن حسن (رضی اللہ عنہ )نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابو جعفر محمد بن احمد علوی نے اورانہوں نے ابو ہاشم داودبن قاسم جعفری سے وہ کہتے ہیں میں امام علی نقی کو فرماتے ہوئے سنا :۔
"میرے بعد میرا جانشین میرا بیٹا حسن ہو گاپس جانشین کے جانشین کے بارے میں تم کیا کرو گے۔
میں نے عرض کی میں قربان ہوجاوں ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟
توفرمایا:۔کیونکہ تم اسے دیکھ نہیں سکو گے اوراسے تمہارے لئے نام کے سات ذکر کرنا جائز نہیں ہوگا میں نے کہا پس ہم کیسے ذکر کریں گے توفرمایا:تم کہنا حجت آل محمد (کمال الدین ۲:۳۸۱۔۵باب ۳۷،کافی ۱:۳۲۸۔۳باب ۷۵)
یہ سند حجت ہے کیونکہ اس کے سب راوی موثق ہیں اوراس میں جو علوی ہیں یہ جلیل القدرشیعہ مشایخ میں سے ہیں جیسا کہ نجاشی نے اپنے رجال میں العمر کی البو فلی کے حالات میں تحریر کیا ہے(رجال نجاشی ۸۲۸۔۳۰۳)اس سلسلہ میں یہی احادیث کافی ہیں لیکن تین کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے۔
اول :۔آخری حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو بالکل نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ جس جملے میں نام لینے سے منع کیا گیا ہے اس کا سبب دیگر روایات میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زندگی کے لیے جو خطر ہ بیان کیا گیا ہے(حضرت امام مہدی کی ولادت کی دلیلوں میں ہم ان احدیث کی طرف اشاری کریں گے۔)
اگر اس جملے کو (تم اسے نہیں دیکھ سکتے ) کونام لینے سے منع کرنے والے جملے کہ جس کی علامت دیگر احادیث میں آپ کی جان کو لاحق خطرہ بتایا گیا ہے کے ساتھ ملایا جائے تویہ غیبت سے کنایہ ہے یعنی تم اپنے امام مہدی کو جب چاہو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ تم جس طرح میری زندگی میں مجھے دیکھنے پر قادر ہو اس طرح اسے دیکھنے پر قادر نہیں ہوگے کیونکہ وہ تم سے غائب ہوگا اوراس کا نام لیکر ذکر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اسے پہچان کے اسے پانے پر قادر ہوجائے ۔خلاصہ یہ ہے کہ :۔دیکھنے کی نفی غیبت کی طرف کنایہ ہے اورنام لینے سے منع کرنا خطرے کی وجہ سے تھا اورپھر نفی اورنہی بھی زمانہ غیبت سے مخصوص تھی اور یہ صرف ان سب یا بعض مخاطبین کے لیے تھی ورنہ امام حسن عسکری کی زندگی میں میں آپ کو دیکھا تھا اوربہت سارے لوگوں نے آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کو دیکھ اتھا جیسا کہ اسی فصل میں بیان کریں گے۔
دوم :۔ جو نصوص وروایات ہم نے ذکر کی ہیں یہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی روایات کا ایک مختصر سا نمونہ تھا اورہم نے ان کا انتخاب کسی علمی تحقیق کے لیے نہیں کیا یعنی ہم نے صحیح اسانید سے بحث عقیدے کو پختہ کرنے کے لیے نہیں کی کیونکہ ہمارا عقیدہ توپہلے ہی راسخ ہے بلکہ صرف اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لیے ایک وسیلے کے طور پر اسے بیان کیا ہے ورنہ ہمیں ان اسانید کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیونکہ :۔
اولا:۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود کے آخری زمانے تک مستمررہنے پر وافر مقدار میں قطعی دلیلیں موجود ہیں جیسا کہ ان کو تفصیل سے پیش کرچکا ہوں اور ان کے ہوتے ہوئے ان اسانید کیضرورت نہیں ہے۔
ثانیہ اس بات پر وافر دلیلیں موجود ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث بلاواسطہ طور پر ان کتابوں سے لی گئی ہیں جو آپ کی ولادت سے دسیوں سال پہلے لکھی گئی ہیں اورشیخ صدوق نے اس کی گواہی دی ہے
پس اگر کسی کی سند میں کوئی ضعف تھا بھی تووہ مضر نہیں ہے کیونکہ ان کا اس اعجاز نما خبر پر مشتمل ہونا جو بعد میں وقوع پذیر ہوئی خود ان کے سچے ہونے کی علامت ہے۔
سوم:۔احادیث حضرت امام مہدی علیہ السلام چاہے پیغمبر سے منقول ہوں یا اہل بیت علیھم السلام سے ایک ہی حقیقت پر مشتمل ہیں اوران میں کوئی فرق نہیں ہے اورجس طرح اس حقیقت کو صحیح حدیث ثابت کرتی ہے اسی طرح ضعیف بھی ثابت کرتی ہے کیونکہ اگرکوئی موثق شخص خبر دے کہ زید مرگیا ہے پھر ایک خیر موثق بھی یہی خبر دے توہم اسے نہیں کہ سکتے کہ توجھوٹ بول رہا ہے ۔
اسی طرح تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ۔۔۔دسواں شخص یہی خبر لائے توہم نہیں کہہ سکتے تم جھوٹ بول رہے ہو چاہے ہمیں علم نہ بھی ہو کہ وہ سچا ہے یا نہیں بلکہ ان میں سے ہر خبر ایک احتمالی قرینہ ہو گی کہ جسے اس سچی خبر کے ساتھ ملایا جائے گا حتی کہ وہ سچی خبر درجہ یقین کو پہنچ جائے گی۔
کیونکہ جتنے قرائن زیادہ ہوتے ہین اتنا ہی ان کی نقیض کا احتمال کم ہوتا ہے ۔
اگریہی موضوع پر اخبار اتنی زیادہ ہوں جن کی وجہ سے انسان یقین کی حد تک پہنچ جائے تومحال ہے کہ وہ موضوع سچا اورواقع کے مطابق نہ ہو۔
یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام عملی قدروں کو ٹھوکر مار کر بالخصوص یہ ثابت ہونے کے بعد کہ ان سے مراد امام مہدی ہیں علم حدیث کی الف ، با سے ناواقف بعض لوگ جو احادیث مہدی کے متعلق شکوک وشہبات پیدا کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ :۔
یہ اس مہدی پر دلالت نہیں کرتیں تویہ درحقیقت ایک ناشناختہ شکست کا اظہار اوراس بات کا آئینہ دار ہے کہ کسی عقیدے سے بحث کرنے کیلے ان کے پاس فکری مواد بہت کم ہے اسی وجہ سے جھوٹ اورغلط بیانی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔
البتہ اصلاح کرنے کے پس پردہ عقائد کو کتابی صنعت کی شکل میں بیان کرنے کی ان کی کوشش اس بات کا مظہر ہے کہ ان کاسر چشمہ مغربی تمدن ہے اسی سے وہ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اوراس سلسلے میں انہیں کا پیسہ خرج ہوتا ہے ۔
لیکن وہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ عقیدہ ہوا کی سمت کوئی کوڑا کرکٹ نہیں اوراس صحیح راہ روش کو انہوں نے ترک کردیا جس کو پیغمبر اکرم اوران کی اہل بیت نے امام مہدی کا پہنچاننے کے لیے معین کیا تھا اوراس کے ساتھ ہی ان کا نام ونسب بھی بتادیا تھا