مھدی منتظر اور اسلامی فکر
 
حدیث:۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام پیغمبر کے نواسے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولادسے ہیں۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضرت حسن علیہ السلام کی اولادسے ہونے کے بارے میں کتب اہل سنت میں صر ف ایک حدیث بلکہ عالم اسلام کی کتابوں میں اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث نہیں ہے۔
اوراس حدیث کوابو داودسجستانی نے اپنی سنن میں ذکرکیاہے وہ کہتے ہیں میرے لیے ہارون بن مغیرہ سے نقل کیا گیا کہ اس نے عمربن ابوقیس سے اوراس نے شعیب بن خالدسے اوراس نے ابواسحاق سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلام کودیکھ کرفرمایا:۔
"ان ابنی ھذا سید کما سماہ النبی صلی علیہ وآلہ وسلم وسیخرج من صلبہ رجل یسمی باسم نبیکم ،یشبھھہ فی الخلق ولایشبھہ فی الخلق"
"میرا یہ بیٹاسردارہے جیسا کہ نبی اکرم نے اسے یہ نام دیاہے اوراس کی صلب سے ایک مولودہوگا جو تمہارے نبی کا ہمنام ہوگا وہ خلق (اخلاق)میں نبی کا مشابہ ہوگا نہ خلقت میں"
اس کے بعدیہ جملہ فرمایا کہ وہ زمین کو عدل سے پرکردے گا(سنن ابوداود ۴:۱۰۸۔۴۲۹۰، اسی سے جامع الاصول میں نقل ہوا ہے ۱۱:۴۹۔۵۰۔ ۷۸۱۴، کنزالعمال ۱۳:۲۵۷۔۳۷۶۳۶،نعیم بن حمادنے اسے الفتن میں ذکرکیاہے۱:۳۷۴۔۱۱۱۳)
حدیث کے باطل ہونے پرسات دلیلیں نعیم بن حمادکی الفتن ۱:۳۷۵ ،اوراسی سے تشریف بالنن میں نقل ہوا ہے :۱۷۶۔۲۳۷ باب نمبر۶۳

حدیث کے باطل ہونے پر سات دلیلیں
اس حدیث کی سند اورمتن میں غور کرنے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولادسے ہونے والی احادیث کے ساتھ اگرموازنہ کرنے سے بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ یہ حدیث جعلی ہے۔

پہلی دلیل:
۔یہی حدیث ابوداؤدسے مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے چنانچہ جزری شافعی (متوفی ۸۳۳ہجری)نے اس حدیث کو اپنی سندکے ساتھ خودابوداؤد سے نقل کیا ہے اوراس حدیث کو سندکے ساتھ خودابوداؤد سے نقل کیا ہے اوراس میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی بجائے حضرت امام حسین کا نام لکھتے ہیں:۔
"صحیح یہ ہے کہ حضرت امام مہدی حسین ابن علی علیھما السلام کی اولادسے ہیں کیونکہ اس بات کی خود حضرت علی علیہ السلام نے وضاحت فرمائی ہی"۔
جیسا کہ شیخ عمربن حسن رقی نے مجھے یہ خبردی ہے انہوں نیابوالحسن بخاری سے ، اس عمربن محمدقزی سے اس ابوبدرکرخی سے اس بے ابوبکرخطیب سے ، اس نے ابوعمرہاشمہ سے اس نیابوعلی لولوئی سے اوراس نے حافظ ابوداودسے وہ لکھتے ہیں مجھے ہارون بن مغیرہ سے نقل کیا گیااس نے عمربن ابوقیس سے اس نے شعیب بن خالدسے اوراس نے ابواسحاق سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف دیکھ کرفرمایا:۔
"ان ابنی ھذا سید کما سماہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،وسیخرج من صلبہ رجل یسمی باسم نبیکم ، یشبھہ فی الخلق ،ولا یشبھہ فی الخلق"
"میرا یہ بیٹاسیدہے جیساکہ پیغمبراکرم نے اس کانام رکھاہے اوراس کے صلب سے ایک مولودہوگا جوتمہارے نبی کا ہمنام ہوگا وہ ان کے خلق (اخلاق )میں مشابہ ہوگا نہ کہ خلقت میں "۔
پھر یہ جملہ ارشادفرمایاکہ وہ زمین کوعدل سے پرکردے گا۔
ابوداؤدنے اسے اپنی سنن میں اسی طرح روایت کیا ہے اوراس پرکوئی تبصرہ نہیں کیا(اسمی الماقب فی تھذیب اسنی المطالب ، علامہ جزری دمشقی شافعی :۱۶۵۔۱۶۸۔۶۱)ہم نے بعینہ اصلی الفاظ کونقل کیا ہے
مقدسی شافعی نے عقدالدررصفحہ۴۵باب اول پراسے ذکرکیاہے اس میں حضرت امام حسن علیہ السلام کانام ہے اوراس کی تحقیق کرنے والے نے حاشیے پرلکھا ہے کہ ایک دوسرے نسخے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کانام ہے
اس نسخہ کی تائیدیوں ہوتی ہے کہ سیدصدرالدین نے اس نسخے سے نقل کیاہے کیونکہ انہوں نے عقد االدررسے حدیث نقل کی ہے اوراس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کانام ہے (المہدی سید صدرالدین صدر:۶۸)

دوسری دلیل
حدیث منقطع ہے کیونکہ اسے حضرت علی علیہ السلام سے ابواسحاق سبعجی نے روایت کیا ہے اوراس کے متعلق ثابت نہیں ہے کہ اس نے حضرت علی علیہ اسلام سے ایک بھی حدیث سنی ہو جیسا کہ منزری نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے(مختصرسنن ابی منزری ۶:منزری ۶:۱۶۲۔۴۱۲۱)
کیونکہ امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت کے وقت اس کی عمرسات برس تھی کیونکہ ابن حجرکے قول کے مطابق خلافت عثمان کے ختم ہونے سے دوسال پہلے پیدا ہوئے تھا(تہذیب التہذیب ۸:۵۶۔۱۰۰)

تیسری دلیل
اس کی سند مجہول ہے کیونکہ داودکا کہنا ہے کہ مجھے ہارون بن مغیرہ سے نقل کیاگیا معلوم نہیں نقل کرنے والا کون ہے اوربالاتفاق مجہول حدیث ہراعتمادنہیں کیاجاسکتا۔

چھوتھی دلیل
مذکورہ حدیث کو اہل سنت بزرگ عالم دین ابوصالح سلیلی نے اپنی سندکے ساتھ حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے انہوں نے اپنے باپ داداحضرت امام جعفرابن محمدصادق علیھما السلام سے ، انہوں نے اپنے جدحضرت علی ابن ابیطالب علیھما السلام سے روایت کیا ہے اوراس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کانام ہے نہ حضرت امام حسن علیہ السلام کا(سید ابن طاوس کی التشریف بالنن :۲۸۵۔۴۱۳باب نمبر ۷۶،انہون نے اسے فتن سلیلی سے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔)
"لولم یبق من الدنیا الا یوم واحد ،لطول اللہ عزوجل ذلک الیوم حتی یبعث فیہ رجلا من ولدی اسمہ اسمی"
"دنیااگر کا ایک دن باقی ہو تواس دن کوبھی اللہ تعالی اس قدرطول دے گا کہ اس میں میری اولادمیں سے ایک مرد کو بھیجے گا جومیراہمنام ہوگا"۔
سلمان فارسی نے کھڑے ہوکردریافت کیا یارسول اللہ آپ کے کون سے بیٹے سے ؟
فرمایا :۔ من ولدی ھذا" میرے اس بیٹے سے اوراپنا ہاتھ حضرت امام حسین علیہ السلام پررکھا"
(ابن قیم نے المنارالنیف :۱۴۸۔۳۲۹ فصل نمبر۵۰ ،میں طبرانی کی کتاب الاوسط سے نقل کیاہے عقدالدرر :۴۵ باب اول(اوراس میں ہے کی اسے حافظ ابو نعین نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حالات میں ذکرکیا ہے )محب طبری کی ذخائز العقبی :۱۳۶(اوراس میں کہا ہے کہ گزشتہ سب حدیثو ں کو اس مقید پر حمل کیا جائے گا)فرائد السمطین ۲:۳۲۵۔۵۷۵باب ۶۱ابن حجر کی القول المختصر۷:۳۷ باب اول ،فرائد فوائد الفکر ۲:باب ۱، السیرة الحلبیہ۱: ۱۹۳،ینابیع المودة ۳:۶۳باب نمبر ۹۴
اسی طرح کی مندرجہ ذیل کتابوں میں احادیث ہیں۔
خوارزمی حنفی کی مقتل الحسین ۱:۱۹۶،فرائد السمطین ۲:۳۱۰۔ ۳۱۵ الاحادیث :۵۶۱،ینابیع المودة ۳:۱۷۰۔۲۱۲ باب نمبر ۹۳، ۹۴
شیعہ کتب میں ملالحظہ ہوں۔
کشف الغمہ۳:۲۵۹، کشف الیقین:۱۱۷، اثبات الھداة ۳:۶۱۷۔۱۷۴باب ۳۲،حلیةالابرار۲:۷۰۱۔۵۴ باب نمبر۴۱،غایہ المرام:۶۹۴۔۱۷ باب۱۴۱ اور "منتخب الاثر"میں اس سلسلے میں طرفین کی ذکرکردہ بہت ساری احادیث نقل کی ہیں

چھٹی دلیل
ابو داؤدکی حدیث میں کتابت کی غلطی کا احتمال بھی بعید نہیں ہے کہ حسین کی جگہ حسن لکھ دیاہوکیونکہ اس کی نقل میں اختلاف ہے رہا یہ احتمال کہ حسن کی جگہ حسین ہو گیاہوتویہ خبرواحد ہے جو متواتر کا مقابلہ نہیں کرسکتی جیسا کہ اس کی تفصیل ہم ذکرکریں گے۔

ساتویں دلیل
گزشتہ وجوہات کی بنا پریہ احتمال قوی ہے کہ یہ حدیث جعلی ہواس احتمال کی تائیداس بات سے ہوتی ہے کہ حسنین اوران کے پیروکاروں اورمددگاروں کاخیال یہ ہے کہ محمد بن عبداللہ بن الحسن المثنی بن امام حسین علیہ السلام ہی امام مہدی ہیں کہ جنہیں ۱۴۵ئھ میں منصورعباسی کے زمانے میں قتل کردیاگیا۔
جیساکہ اس کے بعد عباسیوں اورا ن کے پیروکاروں نے کہا کہ انہوں نے عباسی خلیفہ محمد بن عبداللہ منصور جس کالقب مہدی تھا کے امام مہدی ہونے کا دعوی کیااوراس کے ذریعے وہ اپنے بڑے بڑے سیاسی مقاصدمیں پہنچنا چاہتے تھے جن تک اس مختصرراستے کے بغیرپہنچنا ممکن نہیں تھا۔
مذکورہ حدیث ان حدیثوں کے ساتھ تعارض نہیں رکھتی جو دلالت کرتی ہیں
کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام حضرت امام حسین کی اولادمیں سے ہیں
گزشتہ سب اشکالات سے اگر صرف نظرکرکے ہم اس حدیث کو صحیح مان لیں توبھی ان احادیث کے ساتھ تضادنہیں رکھتی جوواضح طورپرکہتی ہیں کہ حضرت امام مہدی منتظرعلیہ السلا م حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولادمیں سے ہیں اوران کے درمیان جمع کرناممکن ہے۔
ا س طرح کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام باپ کی طرف سے حسینی اورماں کی طرف سے حسنی ہوں کیونکہ چوتھے امام زین العابدین کی بیوی اورحضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی ماں حسن مجتبٰی علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں۔
پس حضرت امام باقرعلیہ السلام باپ کیطرف سے حسینی اورماں کی طرف سے حسنی ہیں تودرحقیقت آپ کی اولا دونوں نواسوں کی اولادسے ہوئی۔
اسی جمع کی قرآن مجید بھی تائیدکرتا ہے چنانچہ ارشاد ہے۔
"ووھبنا لہ اسحاق کلا ھدینا ونوحا ھدینا من قبل ومن زریتہ داودو سلیمان ۔۔۔وعیسیٰ والیاس کل من الصالحین"انعام ۶:۸۴۔۸۰
اورہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کیے ہم نے سب کی ہدایت کی اوران سے پہلے نوح کی (بھی )ہم نے ہدایت کی اوران ہی کی اولادسے داؤد سلیمان ۔۔۔۔اورعیسیٰ والیاس (سب کی ہدایت کی)یہ سب خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں۔
اس آیت میں جناب عیسیٰ کو جناب مریم کی وجہ سے انبیاء کی اولادشمارکیاگیاہے لہذااگرحضرت امام محمدباقر علیہ السلام کی اولادکوماں کی وجہ سے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولادشمارکرلیاجائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
یہ اس صورت میں ہے کہ داودکی حدیث مان لیں ورنہ مذکورہ ادلہ کی روشنی میں حدیث صحیح ہی نہیں ہے
یہاں تک یہ بات واضح ہوگئی کہ دوسر احتمال (یعنی حضرت امام مہدی علیہ السلام کا حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے ہونا)صرف احتمال نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے چاہے ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولادسے ہونے والی حدیث کوصحیح سمجھیں یانہ ۔
اگر صحیح سمجھیں تو یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حضرت امام حسین کی اولادسے ہونے والی احادیت کی مویدبن جائے گی۔
اوراگر اس حدیث کو صحیح نہ مانیں جیسا کہ ہم سات دلیلوں سے ثابت کرچکے ہیں پھرحقیقت کو جاننے کے لیے کسی اورچیزکی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم بتاچکے ہیں کہ دونوں احتمال باطل نہیں ہوسکتے لہذا ایک کا بطلان خودبخود دوسرے احتمال کو ثابت کردیتا ہے۔
کیونکہ یہ تویقینی ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام جناب زھراسلام اللہ علیھا کی اولادسے ہیں۔
وہ حدیثیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے امام حسین علیہ السلام کی اولادہونے کے ساتھ تضادرکھتی ہیں
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سلسلہ نسب کے بارے میں جوبحث کی ہے اس سے واضح ہوگیاہے کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی اولادہیں۔
اورشیعوں کے اس عقیدے کو کہ حضرت امام مہدی امام حسین کے نویں فرزندہیں اورآپ پیداہوچکے ہیں اورآپ کے والدگرامی امام حسن عسکری ہیں ثابت کرنے والی احادیث کوذکرکرنے سے پہلت کچھ ان روایات کے بارے میں بحث کرنا ضروری ہے جوان کے معارض ہیں۔
یہ اہل سنت کی وہ روایات ہیں جو حضرت امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ بتاتی ہیں اس وجہ سے بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مہدی عبداللہ کافرزندمحمدہے جو ابھی تک پیدانہیں ہوااورآخری زمانے میں ااپنے ظہورسے کچھ عرصہ قبل پیداہوگا۔
اورچونکہ تواترسے یہ ثابت ہے کہ مہدی ایک ہی ہے لہذافریقین میں سے ایک یقینافرضی مہدی کا منتظرہے فرزندہرفریق کواپنے نظرئیے کی ادلہ میں غور کرناچاہیے مبادہ وہ صحیح نہ ہوں اوردوسرے کی ادلہ میں بھی غورکرنا چاہیے مبادہ وہ صحیح ہوں۔
یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن اس پر عمل کرنے والا یقینا منزل تک پہنچ جائے گا اوریہ جاننے کے لیے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے والد کانام عبداللہ ہے یا حسن چندباتیں قابل ذکرہیں۔
احادیث :"اسم ابیہ اسم ابی (عبداللہ )
ان احادیث کی تحقیق سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ بعض شیعہ علماء نے ان احادیث کو دیانت داری کی وجہ سے صرف نقل کیا ہے ان پران کا اعتقاد نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں یا اس امیدپرکہ ان کی تاوئل کرکے انہیں اپنے بنیادی عقائد سیکار سازبنایا جاسکتا ہے اور یا بعینہ نقل کرکے مسلمانوں کو ان پرجرح و بحث کی دعوت دی ہے وہ احادیث مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ ابن ابی شیبہ،طبرانی اورحاکم سب نے عاصم بن ابی نجودسے اس نے زربن حبیش سے اس نے عبداللہ بن مسعود سے اورانہوں نے پیغمبراکرم سے روایت کی ہے
کہ آپ نے فرمایا :۔
"لا تذھب الدنیا حتی یبعث اللہ رجلا یواطی اسمہ اسمی‘واسم ابیہ اسم ابی"
"دنیا اسوقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اللہ کے ایسے بندے کو نہ بھیج دے جومیراہمنام ہوگا اوراس کا والد میرے والد کے ہمنام ہوگا"(ابن ابی شیبہ کی المصنف۱۵:۱۹۸۔۱۹۴۹۳‘طبرانی کی المعجم الکبیر ۱۰: ۱۶۳۔۱۰۶۱۳،اور۱۰:۱۶۶۔ ۱۰۲۲۲، مستدرک حاکم ۴:۴۴۶، شیعوں میں سے اسے قتل کیاہے مجلسی نے بحارالانوار میں ۵۱:۸۶۔۲۱، اردبیلی کی کشف الغمہ سے ۳:۲۶۱،اوراردبیلی نے اسے ابو نعیم کی کتاب الاربعین سے نقل کیا ہے۔)
۲۔ ابو عمر ودانی اوعرخطیب بغدادی دونوں نے عاصم بن ابی نجودسے اس نے زربن حبیش سے اس نے عبداللہ بن مسعود سے اورانہوں نے حضرت پیغمبر اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔
"لا تقوم الساعة حتی یملک الناس رجل من اھل بیتی ،یواطی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی"
اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک میرے اہل بیت کاایک شخص لوگوں کا حاکم نہ بن جائے جو میرا ہمنام ہوگااوراس کا باپ میرے باپ کا ہمنام ہوگا"(سنن ابوعمر ودانی :۹۴۔۹۵ ،تاریخ بغدارا:۳۷۰،اوراس کی روایت کوکسی شیعہ نے نقل نہیں کیا ہے۔)
۳۔ نعیم بن حماد،خطیب اورا بن حجر سب نے عاصم سے اوراس نے زرسے اوراس نے ابن مسعودسے اورانہوں نے پیغمبر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: المہدی یواطی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی"
"مہدی میراہمنام ہے اوراس کا والدمیرے والدکاہم نام ہے"(تاریخ بغداد ۵:۳۹۱، نعیم بن حماد کی کتاب الفتن ۱:۳۶۷ ۔۱۰۷۶،۱۰۷۷، اس میں ابن حمادکابیان ہے "میں نے یہ حدیث کئی دفعہ سنی ہے اوراس میں ان کے والدکانام نہیں تھا" کنزالعمال ۱۴:۳۸۶۷۸،پرابن عسا کرسے نقل کیا ہے اورسیدابن طاوس نے اسے التشریف بالنن :۱۵۶۔۱۹۶۔۱۹۷ باب ۱۶۳، میں ابن حمادکی الفتن سے نقل کیاہے اورا بن حجرنے اسے القول المختصرمیں بطورمرسل نقل کیا ہے:۴۰۔۴)
۴۔ نعیم بن حمادنے اپنی سندکے ساتھ ابوالطفیل سے نقل کیا ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا:۔
المہدی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی"
"مہدی کا وہی نام ہے اوراس کے باپ کا وہی نام ہے جومیرے باپ کانام ہے(نعیم بن حمادکی الفتن ۱:۳۶۷ ۔۱۰۸۰ اوراسی سے سیدابن طاوس نے التشریف بالنن :۲۵۷۔ ۲۰۰ پرنقل کیا ہے)

اس تعارض کی حقیقت اور اس کی علمی حیثیت
یہی وہ احادیث ہیں کہ جنہوں نے بعض لوگوں کے لئے محمدبن عبداللہ کومہدی آخرالزمان ماننے کا جوازفراہم کیا۔
لیکن یہ ان کے لیے دلیل نہیں بن سکتیں کیونکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پہلی تینوں روایات عاصم بن ابوالبخود کے سلسلے سے ابن مسعودتک پہنچتی ہیں اوراس سلسلے کی حقیقت عنقریب واضح ہو جائے گی۔
رہی چوتھی حدیث تواس کی سند بالا تفاق ضعیف ہے کیونکہ اس کی سندمیں رشدین بن سعدمھری ہے کہ جس کے ضعیف ہونے پر اہل سنت کے علماء کااتفاق ہے۔
چنانچہ رشدین کے متعلق احمد بن حنبل سے منقول ہے ۔
وہ پروا نہیں کرتاتھاکہ کس سے روایت نقل کررہا ہے "۔اورحرب بن اسماعیل کا کہنا ہے کہ :۔
"میں نے اس کے متعلق احمدبن حنبل سے سوال کیا توانہوں نے اسے ضیعف قراردیا"۔
یحیی بن معین سے منقول ہے کہ اس کی حدیث لکھی نہیں جاتی ابوذرعہ سے منقول ہے کہ یہ ضعیف ہے اورحاتم کا کہنا ہے کہ اس کی حدیچ قابل قبول نہیں ہے۔
جوزجانی کا بیان ہے کہ اس کے ہاں بہت ساری معضل اورنا قابل قبول روایات ہیں اورنسائی کا کہنا ہے اسکی احادیث قابل قبول نہیں ہیں اوروہ لکھی نہیں جاتی تھیں خلاصہ میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے اسے موثق قراردیاہو۔
ہاں فقط ھیثم بن ناجة نے احمدبن حنبل کی موجودگی میں اسے موثق قراردیاہے تواحمدہنسنے لگا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ضعیف ہونے پرسب کااتفاق ہے (تہذیب الکمال ۹:۱۹۱ ۔۱۹۱۱ اورتہذیب التھذیب ۳:۲۴۰ ان دونو ں کتابوں میں رشد ین ابی رشدین کے بارے میں سب کچھ موجودہے)
لہذا اتنے اہم مسئلہ کے متعلق رشدین ابن رشدین جیسے غیرمعتبرشخص کی بات نہیں مانی جاسکتی۔
اوررہا مسئلہ پہلی تین احادیث کا تووہ بھی کسی طرح سے دلیل نہیں بن سکتیں کیونکہ ان کی عبارت "اسم ابیہ اسم ابی"کو کسی بڑے محدث اورحافظ نے روایت نہیں کیا بلکہ ان سے فقط یہ عبارت اسمہ اسمی اس کا نام میرانام ہے ثابت ہے کہ جیسا کہ ہم عنقریب اس کودلیل سے ثابت کریں گے ۔
اس کے علاوہ بہت سارے علماء اہل سنت نے عاصم بن ابی النجودکے سلسلہ روایت میں تحقیق کرکے وضاحت کی ہے کہ اس میں یہ اضافہ ہے اس کی تفصیل آگے آئے گی
نیز ان تینوں حدیثوں کی سندابن مسعود تک پہنچتی ہے اورخود ابن مسعودسے اسمہ اسمی وہ میراہمنام ہوگامروی ہے جیسا کہ مسند احمد میں کئی مقامات پریہ عبارت موجود ہے(مسنداحمد۱:۳۷۶۔۳۷۷۔۴۳۰۔۴۴۸)
اسی طرح ترمذی نے بھی اس حدیث کواس اضافے کے بغیرروایت کیاہے اورساتھ ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ابوسعیدخدری ام سلمہ ابوھریرہ سے "اسمہ اسمی "(وہ میرا ہمنام ہوگا)مروی ہے۔
پھراسی عبارت کیساتھ ابوسعیدسے حدیث کو روایت کرنے کے بعدکہتاہے اس باب میں حضرت علی ابوسعید خرری ام سلمہ اورابوھریرہ سے بھی روایات ہیں اوریہ حدیث ھسن صحیح ہے(سنن ترمذی ۴:۵۰۵۔۲۲۳۰)
اکثر حفاظ نے ایسا ہی نقل کیا ہے مثال کے طورہے طبرانی نے اسی حدیث کوخودابن مسعودسے کئی دوسرے سلسلوں سے روایت کیاہے کہ جن کی عبارت "اسمہ اسمی "(میرا ہمنام )ہے اس کی المعجم الکبیرکی مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
:۱۰۲۰۴۔۱۰۲۱۵۔۱۰۲۱۶۔۱۰۲۱۷۔۱۰۲۱۸۔۱۰۲۱۹۔۱۰۲۲۰۔۱۰۲۲۱۔۱۰۲۲۳۔۱۰۲۲۵۔۱۰۲۲۶۔۱۰۲۲۷۔۱۰۲۲۹۔۱۰۲۳۰۔
اسی طرح حاکم نے مستدرک میں اس حدیث کوابن مسعودسے فقط ان الفاظ کے ساتھ روایت کیاہے "اسمہ اسمی"ا سکا نام میرا نام ہے "اس کے بعدلکھتے ہیں "یہ حدیث بخاری اورمسلم کے معیارکے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے ذکرنہیں کیا"(مستدرک حاکم ۴:۴۴۲)
ذھبی نے بھی اس بات میں حاکم کی پیروی کی ہے اسی طرح بغوی نے بھی اس حدیث کوابن مسعودسے اس اضافے کے بغیرروایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے(مصباح السنة :۴۹۲۔۴۲۱۰)
مقدسی شافعی نے واضح طورپرلکھا ہے کہ اس اضافے کو آئمہ حدیث نے روایت نہیں کیا اوراس حدیث کواس اضافے کے بغیرابن مسعود سے ذکرکرنے کے بعدلکھا ہے کہ :۔
"آئمہ حدیث کی ایک جماعت نے اسے اپنی اپنی کتابوں میں ذکرکیاہے جیسے امام ابوعیسی ترمذی نے اپنی جامع میں امام ابوداود نے اپنی سنن میں اورحافظ ابوبکر بیہقی اورشیخ ابوعمرودانی نے"
لیکن سب نے اس اضافے کے بغیرنقل کیا ہے(عقدالدرر :۵۱باب نمبر ۲)
یعنی اس میں یہ نہیں کہا کہ :۔اسم ابیہ اسم ابی"
"اس کا باپ میرے باپ کاہمنام ہے"
پھراس کی تائیدکرنے والی دوسری بہت سے روایات ذکرکی ہیں اوراس کیساتھ ہی اشارہ کیا ہے کہ ان حفاظ :طبرانی ۔احمد حنبل ۔ترمذی ۔ابوداؤد ۔حافظ ابوداؤد اوربیہقی نے اسے عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عمراورحذیفہ سے روایت کیا ہے(عقدالدرر :۵۱۔۵۲ باب نمبر۲)
اوراس سے پہلے ہم بتا چکے ہیں کہ ترمذی نے ان روایات کو حضرت علی ابوسعیدخدری ۔ام سلمہ اورابوھریرہ سے روایت کیا ہے اورسب میں فقط یہی تھا" اسمہ اسمی "وہ میرا ہمنام ہے"۔
اوریہ ممکن نہیں ہے کہ اتنے سارے حفاظ اس میں اس اضافے "اسم ابیہ اسم ابی"
(اس کے باپ کا نام میرے باپ کانام ہے)کو حذف کریں یہ واقعا ابن مسعود سے مروی ہوتاتوکبھی بھی اس کے حذف ہونے پراس قدراتفاق نہ ہوتا بلکہ ان کے اس اضافے کو ساقط کرنے کاتصورہی محال ہے کیونکہ مخالفین کے لیے تویہ بہت بڑاہتھیار تھا۔
یہی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جملہ ابن مسعود کی عاصم سے روایت میں بڑھایاگیاہے اس کی وجہ یاتوحسنیوں اوران کے طرفداروں کی طرف سے محمد بن عبداللہ حسن المثنی کی مہدویت کی ترویج کرنا تھا یا عباسیوں اوران کے پیروکاروں کی طرف سے منصورعباسی کی مہدویت کوثابت کرناتھا
اس حدیث کے جعلی ہونے کی ،مزتائیداس بات سے ہوتی ہے کہ ان میں سے سے پہلے کی زبان چونکہ تتلی تھی اس لئے اس کے پیروکاابو ھریرہ کیطرف غلط نسبت دینے پرمجبرہوئے کاابو ھریرہ نے کہا "بیشک مہدی کا نام محمدبن عبداللہ ہے اوراس کی زبان تتلی ہے"(یہ جعلی حدیث معجم احادیث الامام المہدی میں مقاتل الطالبین سے نقل کی گئی ہے:۱۶۳۔۱۶۴)
چونکہ پہلی تینوں احادیث جوعاصم بن ابوالنجودنے زر بن حبیش سے اوراس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہیں ان دوسری احادیث کے مخالف ہیں کہ جو علماء حدیث نے عاصم سے روایت کی ہیں
لہذا حافظ ابونعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ہجری)نے اپنی کتاب "مناقب المہدی "میں عاصم کی اس حدیث کے طرق کی تحقیق کرکے انہیں اکتیس تک شمارکیاہے ورکسی ایک میں بھی یہ عبارت نہیں ہے
"اسم ابیہ اسم ابی"
(اس کے والدکانام میرے والد کانام ہے)
بلکہ سب کے سب اسی جملہ پرمتفق ہیں کہ "اسمہ اسمی"وہ میراہمنام ہوگاان کی عبارت کوکنجی شافعی (متوفی ۶۳۸ہجری)نے نقل کرنے کے بعدکہاہے کہ
اس حدیث کو زرسے عاصم کے علاوہ عمرو بن حرة نے بھی روایت کیاہے ان سب نے یہی روایت کی ہے "اسمہ اسمی"اس کانام میرا نام ہے سوائے عبیداللہ بن موسی کے اس نے زائدہ سے اوراس نے عاصم سے روایت کی ہے "اسم ابیہ اسم ابی"اس کے والد کا نام میرے والدکانام ہے
لیکن کسی ذی شعور کی نظرمیں اس اضافے کی کوئی اہمیت نہیں ہوسکتی کیونکہ محدثین نے اسے قبول نہیں کیا۔
مزیدکہتا ہے اس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ امام احمدنے جواحادیث کے سلسلے میں انتہائی دقیق ہیں اس حدیث کو اپنی مسندمیں کئی مقامات پرنقل کیا ہے
اوران سب میں فقط یہ ہے "اسمہ اسمی"اسکانام میرانام ہے(البیان فی اخبار صاحب الزمان کنجی شافعی:۴۸۲۔
لہذا ان ساری باتوں سے ی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث "اسم ابیہ اسم ابی "اس کے والدکا نام میرے والدکانام ہے اس قددضعیف ہے کہ حضرت امام مہدی کے والد کے نام کے تعین میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
لہذا جوشخص محمدبن عبداللہ نامی مہدی کامنتظرہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق درحقیقت اس سراب کاانتظارکررہا ہے جسے پیاساپانی کاسمجھتاہے۔
اس سلسلے میں ازھر یونیورسٹی کے پروفیسرسعدمحمدحسن واضح طورپرکہتے ہیں یہ احادیث "اسم ابیہ اسم ابی "اس کے والدکا نام میرے والدکا نام ہے جعلی ہے لیکن تعجب اس پرہے کہ انہوں نے ان جعلی احادیث کوشیعوں کی طرف منسوب کیاجاتاہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے نقطہ نظرکی تائیدکی جاسکیں (المہدیة فی الاسلام استادسعدمحمد حسن:۶۹)
پس نسب حضرت امام مہدی حضرت امام حسین کی اولادمیں سے ہیں کیونکہ باقی اس کے خلاف سب احادیث ضعیف ہیں اورکوئی قرینہ ان کی صحت کی تائیدنہیں کرتا بلکہ اس کے برخلاف سارے قرائن ان کے جعلی ہونے کوثابت کرتے ہیں اورمتواتر روایات اسی کی تائیدکرتی ہیں