انتظار کا صحيح مفهوم
 
مفہوم انتظار کی تصحیح
ہمارے زمانے میں ظہور امام کے بارے میں بحث و گفتگو کا بازار اتنا گرم ہے کہ جس کی مثال مجھے ،ماضی قریب یا بعید میں کسی جگہ نظر نہیں آتی اس طرح مسئلہ ”انتظار“ اس دور کے اہم مسائل میں سر فہرست دکھائی دیتا ہے ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ عوام الناس کے سامنے یہ مسئلہ صحیح انداز سے پیش نہیں کیا گیا ہے اسی لئے ہمارے جوان امام زمانہ کے ظہور اور اس کی علامتوں کو کتابوں کے اندر تلاش کرتے ہیں جب کہ میرے خیال میں یہ طریقہٴ کار صحیح نہیں ہے بلکہ اس کا صحیح راستہ یہ ہے کہ ہم ظہور امام اور آپ کی عالمی حکومت کو اپنی سیاسی اور سماجی زندگی کے اندر تلاش کریں ۔
بے شک کتابوں کے اوراق میں ظہور امام کی اتنی علامتیں نہیں مل سکتی جتنی علامتیں
-----------

(۱)الزام الناصب،ج/۱،ص/۲۶۰

ہمیں اپنی معاصرسیاسی اور تہذیبی صورتحال نیز ہماری بیداری وشعور ،استقامت ،وحدت کلمہ سیاسی انسجام واتحاد ،قربانیوں اور تحریکی سیاسی اورذرائع ابلاغ میں مل سکتی ہیں۔
ہمارے جوانوں نے ظہور امام کی علامتوں کو تلاش کرنے کے لئے کتابوں کی ورق گردانی کا کر جو راستہ اختیار کیا ہے یہ بالکل منفی اور غلط انداز فکر ہے لہٰذا مثبت انداز سے انتظار کا صحیح مفہوم بیان کرنا اور لوگوں کو اس کے صحیح اورمثبت انداز سے آگاہ کر نا ہمارا فریضہ ہے۔
انتظار کے ان دونوں مفاہیم کا واضح فرق یہ ہے کہ انتظار کے بارے میں پہلا تصور انتظار کے سلسلہ میں انسان کے کردار کو منفی بنادیتا ہے جب کہ دوسرا تصورانسان کے اندر ظہور امام سے متعلق مثبت ،پر تحرک رخ پیدا کرکے اسے ہماری موجودہ سیاسی ،انقلابی صورتحال اور مسائل و مشکلات سے جوڑ دیتا ہے۔
معمر بن خلاد نے امام ابو الحسن سے اس آیہ ٴ کریمہ < الم اٴَحَسِبَ النَّاسُ اٴَنْ یُتْرَکُوا اٴَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لاَیُفْتَنُونَ >(۱)کی تفسیر میں یہ نقل کیا ہے:کہ امام نے ارشاد فرمایا:”یفتنون کما یفتن الذہب “”انہیں اسی طرح پرکھا جائے گا جیسے سونے کو پرکھا جاتا ہے“ پھر آپ نے فرمایا”یخلصون کما یخلص الذھب“ (۲) ”انہیں اسی طرح خالص بنا دیا جائے گا جیسے سونے کو خالص بناتے ہیں “
منصور صیقل بیان کرتے ہیں کہ میں اورہمارے مومن بھائی حارث بن مغیرہ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے اور امام جعفر صادق -ہماری باتیں سن رہے تھے تو آپ نے ہمیں مخاطب کرکے فرمایا ”فی اٴی شیء اٴنتم ھا ھنا؟ھیھات لا واللّٰہ لا یکون ما
-----------
(۱)عنکبوت /۱۔۲
(۲)الزام الناصب،ج/۱،ص/۲۶۱

تمدّون الیہ اٴعینکم حتی تمیزوا“تم یہ کیسی گفتگو کر رہے ہو؟بہت بعید ہے خدا کی قسم جس چیز پر تمہاری نظریں لگی ہوئی ہیں یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم ایک دوسرے سے ممتاز نہ کر دئیے جاوٴ۔
امام جعفر صادق -نے منصور سے فرمایا:”یامنصوران ھٰذاالاٴمرلا یاٴتیکم الّا بعد اٴیاس،لاواللہ حتیٰ تمیزوا،لا واللہ حتیٰ یشقیٰ من یشقیٰ ویسعد من یسعد“(۱)
”اے منصور ،یہ امر مایوسی کے بعد ہی تمہارے سامنے آئے گا،خدا کی قسم جب تک ایک دوسرے سے ممتاز نہ کر دئیے جائیں ،نہیں خداکی قسم ،بلکہ جسے شقی وبد بخت ہونا ہے وہ شقی وبدبخت اور جسے خوش قسمت ہونا ہے وہ خوش قسمت اور سعادت مند نہ ہو جائے۔“
اس طرح امام زمانہ کے ظہور کا تعلق کتابوں میں مذکور علامات سے کہیں زیادہ ہمارے عمل ،باطن، امتحان ،جد وجہد اور سعادت وشقاوت سے ہے اور اس بارے میں عمیق انداز سے غوروفکر کرنا اور اسے ثابت کرنا ہمارا فریضہ ہے۔

منتظر کون ،ہم یا امام ؟
اس انداز فکر کے مطابق یہ مسئلہ بالکل بر عکس ہے کہ ہم امام کے منتظر نہیں بلکہ امام ہماری جدوجہد،سعی وحرکت،استقامت اور جہادکے منتظر ہیں !
لہٰذا اگر امام کے ظہور کا تعلق ہماری سیاسی اور سماجی نقل وحرکت اورجدوجہد سے ہے تو پھر اس کو ہم ہی واقعیت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
-----------
(۱)الکافی،ج/۱،ص/۳۷۰،ح/۳

یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیاجائے کہ ہمارے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم اپنے کردار وعمل ،جد وجہد،وحدت کلمہ،انسجام واتحاد،ایثار وقربانی اور امر بالمعروف کے ذریعہ امام کے ظہور کی راہ ہموار کردیں ۔اور ہمارے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اسے ایک دوسرے کے سر ڈال کر میدان عمل سے غیر حاضررہ کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرکے اس میں تاخیر کردیں۔

انتظار کی قدر وقیمت
در حقیقت یہ با مقصد اور مثبت انتظار ہی اُس عظیم قدر وقیمت کا حقدارہے جس سے نصوص اور روایات نے نوازاہے ۔
جیسا کہ رسول خدا سے منقول ہے :”اٴفضل اٴعمال اٴمتی الانتظار“ ”میری امت کا سب سے بہترین عمل انتظارہے۔“(۱)
آپ ہی سے یہ قول بھی منقول ہے:”انتظار الفرج عبادة“”ظہور کا انتظار عبادت ہے۔“یا آپ نے فرمایا:”المنتظر لاٴمرنا کالمتشحّط بدمہ“(۲) ”ہمارے امرکا انتظار کرنے والا اپنے خون سے نہانے والے کی طرح ہے۔“
مختصر یہ کہ روایات میں مذکور انتظار کی اس قدر وقیمت کا تعلق انتظار کے اس صحیح اور مثبت معنی ومفہوم سے ہے اور انتظار کے غلط اور منفی معنی ”معطل اور خاموش تماشائی بنے رہنے“سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
-----------
(۱)الزام الناصب،ج/۱،ص/۴۶۹
(۲)اکمال الدین وتمام النعمة،ص/۶۴۵

حرکت اور انتظار کا رابطہ
حرکت اور انتظار کے درمیان تقابلی رابطہ
حرکت اور انتظار کے ربط کے سلسلہ میں ہم پہلے گفتگو کر چکے ہیں اور انشاء اللہ اب ہم یہ بیان کر یں گے کہ انتظار کے ساتھ حرکت کا کیا ربط ہے؟

تحریکی عمل
تحریکی عمل ایک تعمیری اور تخریبی مہم کا نام ہے اس لئے اسے مسلسل مزاحمت اور مشکلات اور پریشانیوں کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر یہ تحریک صرف تعمیری ہوتی اور تخریب سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا تو پھر اس کی راہ میں اتنی زحمتیں اور پریشانیاں نہ ہوتیںدر اصل یہ تخریبی کارروائی موجود ہ سیاسی نظام کے خلاف ہوتی ہے اور ہر سیاسی نظام سے کچھ افراد وابستہ ہوتے ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور وہی اس کادفاع بھی کرتے ہیں۔اور توحید کی طرف دعوت بھی بعینہ ایسی ہی تحریک تھی اسی بنا پر اس دعوت کے ساتھ ”جنگ وجہاد“دونوں شامل ہیں جےسا کہ خدا وند عالم ارشاد ہے:<وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہ>(۱)
-----------
(۱)انفال/۳۹

اوریہ ممکن نہیں ہے کہ یہ تحریک فتنوں کا خاتمہ کئے بغیر اور دنیا ئے شرک کے مفاد پرست اہل سیاست کے بچھائے ہوئے جال کو پارہ پارہ کئے بغیرلوگوں کے درمیان اپنا اثر ورسوخ قائم کرلے۔اوریہ بھی طے ہے کہ جنگ و جہاد کے بغیر صرف زبانی تبلیغ سے ان فتنوں کا ازالہ ممکن نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید کا پرچم سیاست اور سماج سے خالی کسی میدان میں نصب نہیں ہوگا ،بلکہ اسے توشرک آلود مقامات پر لہرانا ہے لہٰذا جب تک شرک کاخاتمہ نہ ہوجائے اس وقت تک خدائی تبلیغ کا استحکام ممکن نہیں ہے۔

تحریکی عمل کا تاوان
اسی بنا پرمشرکانہ قیادت ورہبری توحیدی تحریک کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کر تی ہے اور خدا کی طرف دعوت دینے والوں کے راستے میں کبھی فتنہ وفساد کو ہوا دیتی ہیں تو کبھی بارودی سرنگیں بچھا کر ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں لہٰذا توحید کی طرف دعوت دینے کا مطلب ان تمام فتنوں کا ازالہ،اور ان تمام رکاوٹوں کو ہٹا کر دنیا ئے شرک کے چیلنج کاجواب دینا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ ان دونوں چیزوں (چیلنج اور مقابلہ)کی وجہ سے خدا کی طرف دعوت دینے والوں کو اپنی جان ،مال اور اولاد ہر طرح کی قربانی پیش کرنا ہوتی ہے اور اس کے لئے انہیں جان توڑکوشش کرنے کے علاوہ بے شمار نقصانات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

تحریک ایک فریضہ
ان ہی اسباب کی بنا پر قرآن مجید نے تحریک اورجد وجہدپر بے حد زور دیا ہے اور خاص تاکید کی ہے اگر توحیدی تحریک میں اتنی زحمتوں اور مشقتوں کا سامنا نہ ہوتا تو پھر اس قدرتاکید کی کوئی ضرورت نہیں تھی جیسا کہ خدا وندعالم کا ارشاد ہے:
<وقومواللّٰہ قانتین>(۱)
< وَاٴْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنْ الْمُنکَرِ>(۲)
< فَاسْتَقِمْ کَمَا اٴُمِرْت>(۳)
<ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ >(۴)
<اقْرَاٴْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ >(۵)
<جَاہِدْ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ >(۶)
< وَجَاہَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ>(۷)
<انفرواخفافًاوثقالاً وجاھد وا باٴموالکم واٴنفسکم فی سبیل اللّٰہ> مسلمانو! تم ہلکے ہو یا بھاری گھر سے نکل پڑو اور راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو۔ (۸)
< وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ> اور مشرکین کو جہاں پاوٴ قتل کر دو(۹)
< وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ الله> اور تم بھی ان سے راہ خدا میں جہاد کرو۔(۱۰)
-----------
(۱) اور اللہ کی بارگاہ میں خشوع وخضوع کے ساتھ کھڑے ہو جاوٴ ۔بقرہ/۲۳۸
(۲) نیکیوں کاحکم دو برائیوں سے منع کرو۔ لقمان/۱۷
(۳) لہٰذا آپ کو جس طرح حکم دیا گیا ہے اسی طرح استقامت سے کام لیں۔ہود/۱۱۲
(۴) آپ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیں۔ ََنحل/۱۲۵
(۵) اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پےدا کےا ہے ۔علق/۱
(۶) پےغمبر! کفار و منافقےن سے جہاد کےجئے ۔توبہ/۷۳
(۷) اور انہوں نے راہ خدا مےں جہاد کےا۔بقرہ/۲۱۸
(۸)توبہ/۴۱
(۹)بقرہ/۱۹۱
(۱۰)بقرہ/۱۹۰

< وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ> اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے۔(۱)
دو ٹوک اور صریح آیات کریمہ میں ایسے لب ولہجہ میں حرکت وتبدیلی کا حکم شرک کے مقامات پر توحید کا پر چم لہرانے اور دعوت تو حید کی راہ سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے ہے۔

انسانی کمزوری
انسان اس قسم کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصرہے اوراپنے اندر ان تمام مشکلات اورمصائب کامقابلہ کرنے کی قوت وطاقت نہیں پایا کیونکہ توحید اور شرک
کے درمیان لڑائی بے حد خوں ریز اور شدید ہوتی ہے اس لئے عام انسان اس قسم کے محاذ پر تن تنہا اورمومنین کی تھوڑی سی تعداد کے ساتھ دشمن کے مقابلہ سے کتراتاہے ۔
عموماً لوگ پہلو تہی میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں مگر یہ کہ خداوندعالم اسے اس پہلوتہی اور فکر عافیت سے محفوظ رکھے ۔ خدا کی راہ میں اٹھ کھڑے ہونے والوں کی راہ میں یہ سب سے پہلی رکاوٹ آتی ہے اور پھر یہی کمزوری طاغوت اور اس کے ساتھیوں کے مقابلہ میںخوف اور بزدلی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے یا اس سے جہد مسلسل کے بجائے تھکن کا احساس ہوتا ہے کبھی انھیں مقابلہ جاری رکھنے میں مایوسی کے آثارنظر آتے ہیں کبھی عافیت اور راحت وآسائش کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منزل کو پا لینے والوں کے مقابلہ میں ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ہمت ہار کر راستہ میں ہی بیٹھے رہ گئے۔
-----------
(۱)انفال/۳۹