انتظار کا صحيح مفهوم
 
مقدمہ
اللہ تعالیٰ کے نیک بندے زمین کی اس وراثت کے منتظر ہیں جس کا وعدہ خدا نے اپنے بندوں سے اس آیہٴ کریمہ میں کیا ہے:< وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ >(۱)”اور ہم نے زبور کے بعد ذکر میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے ۔“
اسی کے مانند رسول اللہ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے:”اٴُبشرکم بالمھدی یبعث فی امتی علی اختلاف من الناس وزلازل فیملاٴ الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت ظلماً وجوراً“(۲)
”میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں جو میر ی امت کے درمیا ن اس وقت بھیجا جائے گا جب لوگوں کے درمیا ن اختلاف اور بے ثباتی کی کیفیت ہوگی،اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جورسے بھری ہوگی۔“
بعض لوگ اسی خیال میں مگن ہیں کہ انتظار کا مطلب تلخ حقیقت سے فراراور مستقبل کے خواب دیکھنا ہے کہ جب ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا عدل وانصاف سے بھر جائے گی۔
----------
(۱)انبیاء/۱۰۵
(۲)مسند احمد بن حنبل ،ج/۳،ص/۳۹۳،ح/۱۰۷۴۶

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ زمانہ یقینا آئے گاکیو نکہ خداوند عالم نے اس کا وعدہ فرمایا ہے ، اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے،بلکہ اختلاف اس بارے میں ہے کہ انتظار کا انداز کیا ہوناچاہئے ؟کیونکہ انتظار کا مطلب آئندہ پیش آنے والے مشکلات سے فرار یا ان کی تبدیلی کے خواب دیکھنا اور اسی خواب کو کافی سمجھ لینا نہیں ہے ۔
بلکہ یہ ایک ایسا انتظار ہے جس میں نقل وحرکت او ر تبدیلی کے درمیان اعضائے جسمانی جیسا رابطہ پایا جاتا ہے یا یہ ایسا انتظار ہے جس میں جد وجہد کے ذریعہ اسے اس حقیقت میں تبدیل کر دیا جائے گاکہ جس کے بعد زمین پر اللہ کے نیک بندوں کی وراثت مسلم ہو جائے گی۔
مولف محترم نے اپنے انداز فکر کے اعتبار سے انتظار کے بارے میں تحقیق کی ہے فاضل مولف کا نظریہ ہے کہ”انتظار اور حرکت کے درمیان اعضائے بدن جیسا مضبوط رابطہ پا یا جاتا ہے کیونکہ انتظار کا نتیجہ حرکت ہے اور وہ اس کا محافظ ونگہبان ہے“اس کے بعد یہ گفتگو مزید آگے بڑھتی ہے تو اس میں یہ موضوعات سامنے آتے ہیں:غیر دینی مکاتب فکر میں انتظار کا عقیدہ، مسئلہ انتظار لا مذہب مکاتب فکر کی روشنی میں ،انتظار کے بارے میں اسلام سے پہلے موجود ادیان کا نظریہ،مسئلہ انتظار اہل سنت کی نظر میں ،احادیث انتظار ، شیعہ امامیہ کی نظرمیں ، انتظار اور اس کی تہذیبی (سماجی )قدرو قیمت کیا ہے؟،انقلاب سنن الٰہیہ اور غیبی امدادوں کا کرداد،روایتوں میں ظہور کی تیاری کرنے والی جماعتوں کا تذکرہ، راہ ہموارکرنے والوں کے امتیازات اور خصوصیات،ظہور کی تیاری کا طریقہ،زمین ہموار کئے جانے کا طریقہ (ظہو ر کی تیاری کے لئے مختلف چیلنچ)،رایتوں میں جماعت انصار کا تذکرہ،طالقان کے جوان مرد،امام کے جوان اصحاب،امام کے انصار کی تعداد،امام کے انصارکے صفات”انتظار “کے دوران ہماری ذمہ داریاں،شکوہ ودعا،بامقصد انتظار (معقول انتظار)،مسئلہ انتظار کی صحیح وضاحت،منتظر کون ،ہم یا امام؟ انتظار کی قدر وقیمت ، دوڑ دھوپ اور انتظار کا آپسی رابطہ،تحریکی عمل،تحریکی عمل کا ٹیکس،تحریک ایک فریضہ،انسانی کمزوری،تباہی سے محفوظ رہنے کا طریقہ۔
مولف محترم نے پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ :انتظار کس کو ہے ؟ہمیں یا امام کو ؟ اور پھر جواب دیتے ہیں:کہ انتظار دونوں کو ہے امام کو ہماری جد وجہد ،قیام،استقامت اور ہمارے جہاد کا اتنظار ہے۔نہ کہ بیکار اور معطل بیٹھے رہنے کا ۔اور اسی سے انتظار کی عظیم قدر وقیمت کا صحیح اندازہ ہو تا ہے جس کے بارے میں ہمیں رسول خدا نے آگا ہ کیا ہے:” اٴفضل اٴعمال امتی الانتظار“”میر ی امت کا سب سے اہم عمل انتظار کرنا ہے۔“
اسی بنا پر محقق بصیر نے تحریک حرکت اور انتظار کے با ہمی رابطے کے بارے میں گفتگو کو آگے بڑھا یا ہے،اور آپ کا نظریہ ہے کہ قرآن مجید نے تحریک وحرکت کو اہم فریضہ قرار دیا ہے اور مسلمانوں کومتوجہ کیا ہے کہ اپنے حالات خود تبدیل کریں۔شرک کانام ونشان مٹا کر اس کی جگہ توحیدکا پرچم لہرائیں ،تبلیغ دین کی راہ میں حائل رکاوٹوں کودور کریں ۔ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے کہ جب انسان خود اپنے کو تباہی وبربادی اور تنزلی کے اسباب سے محفوظ رکھے۔
مولف محترم نے انسان کی حفاظت کرنے والے ان اسباب کی وضاحت بھی کی ہے اور وہ اسباب صبر ونماز سے استمداد،ولایت ومحبت ،میراث ،انتظار اور آرزوہیں۔
اس طرح مولف محقق نے نہایت سادہ الفاظ میں منطقی دلائل کے ذریعہ یہ واضح کر دیا ہے کہ قافلہ ٴتوحید کے طولانی اور پر مشقت سفر کے لئے انتظار ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔
مرکز غدیر الدراسات الاسلامیہ