حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 



آٹھویں فصل

عادلانہ حکومت میں توبہ کا عمل
توبہ والی روایات
بعض روایات میں ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام توبہ کو قبول کر لیں گے بعض روایات کہتی ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت قائم ہونے کے بعد کسی کا اسلام قبول نہ ہوگا تو آپ سے پہلے کوئی مسلمان ہو گیاتو ٹھیک!وگرنہ اسے اسلام میں داخل نہ کیا جائے گا۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ پھر زمین میں چلنے والا، اپنا سر اوپر اٹھائے گا اللہ کے اذن سے پوری زمین کے مناظر کو دیکھے گا اور یہ اس وقت ہوگا جب سورج مغرت سے طلوع کرے گا تو اس وقت توبہ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا تو بہ قبول نہ ہوگی کوئی عمل قبول نہ ہوگا۔
سورہ الانعام آیت ۸۵۱ ”کسی کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا یا اس نے اپنے ایمان کے ساتھ خیر کو نہ کمایا ہوگا اے رسول انہیں کہہ دو کہ تم انتظارکرو اور ہم بھی انتظار کرنے والے ہیں“۔
پھر آپ نے فرمایا: مجھ سے یہ سوال نہ کرو کہ اس کے بعد کیا ہوگا کیونکہ میرے لئے میرے حبیب رسول اللہ کا معاہدہ ہے کہ اس بارے اپنی عترت کے سواءکسی اور کو خبر نہ دوںگا۔(کمال الدین ج۲ص۵۲۵باب ۷۴۔ ذیل ۱)
البرہان میں اللہ تعالیٰ کی اس آیت بارے کہ ”یوم یاتی“ بعض آیت ”ربک“ کے ذیل میں تحریر کیا ہے۔
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام نے فرمایا: زمین میں برابر اللہ کی حجت اور نمائندگی موجود رہے گی جو حلال اور حرام کی پہچان کرائے گی اور لوگوں کو سبیل اللہ کی طرف دعوت دے گی حجت زمین سے نہیں اٹھے گی مگر چالیس دن کے لئے اور یہ قیامت سے پہلے ہوگا جب حجت کو اٹھا لیا گیا تو پھر توبہ کا دروازہ بند کر دیا جائے گا یہ ہے کہ ”ولم ینفع نفسا ایمانھا....الخ“یعنی جو حجت کے اٹھنے سے پہلے ایمان نہیں لائے گا، اس کے لئے توبہ نہیں ہے۔(تفسیرالبرہان ج۱ص۴۶۵حدیث ۷سورہ الانعام آیت ۵۸۱)

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور توبہ
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام توبہ قبول کریں گے ایمان بھی قبول کریں گے جو پہلے کافر ہوں گے ، سرکش ہوں گے، گناہ گار ہوں گے اور یہ سب کچھ”دابة الارض“ کے خروج سے پہلے تک ہوگا جب ”دابة الارض“ خروج کرے گا تو پھر توبہ اٹھ جائے گی یا حجت خدا(اللہ کی نمائندگی)کے زمین سے اٹھ جانے پر توبہ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔
کمال الدین میں ہے۔ حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام نے فرمایا:
سورہ انعام کی آیت ۸۵۱: ان آیات سے مراد آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں جن کا سلسلہ ایک دوسرے سے متصل چلا آرہا ہے جو اپنے حقوق سے محروم رہے، جن پر ظلم ہوا، اس پر وہ انتظار میں رہے کہ ان کا آخری آئے گا اور سب کچھ ٹھیک کرے گا اور وہ امت جس کی انتظار کی جا رہی ہے اس سے مراد حضرت امام قائم علیہ السلام ہیں تو اس دن آپ کے تلوار لے کر قیام کرنے سے پہلے جوایمان نہ لائے ہوں گے انہیں پھر ایمان کا فائدہ نہ دیں گے اگرچہ وہ ان پر ایمان لا چکے ہوں جو آپ سے پہلے آپ کے آباءسے آئمہ ہو گزرے ہیں۔(کمال الدین ج۲ص ۶۳۳باب ۳۳ذیل ۸)
البحار میں روایت ہے: ابوجعفر باقر علیہ السلام نے فرمایا:آپ (مہدی علیہ السلام)کسی سے توبہ طلب نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔(البحارالانوار ج۱۵ص۴۵۳حدیث ۴۱۱)
توقیع المبارک میں ہے: تم میں سے ہر آدمی کو چاہیے اس پر لازم ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جو اسے ہماری محبت کے قریب کر دے اور ایسے عمل سے دوری اختیار کرے جو اسے ہماری ناپسندیدگی کے قریب کر دے کیونکہ ہمارا امر(ظہور) اچانک اور یکدم ہوگا پھر اس وقت کسی کو توبہ فائدہ نہ دے گی اور نہ ہی اسے ہماری سزا سے اس کا توبہ کرنا گناہ اسے فائدہ دے گا اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت سمجھائے ، ٹھیک رکھے اور تمہارے ساتھ مہربانی کرے اپنی رحمت کے صدقہ میں(البحار ج۳۵ص۶۷۱حدیث ۷، الاحتجاج ج۲ص۴۲۳)
اصول الکافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہے ”من کان یریدحرث الاخرة“ جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے یعنی جو امیرالمومنین علیہ السلام کی معرفت اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی معرفت حاصل کرتا ہے ”نزدلہ فی حرثہ“ اس کے کھیت میں اضافہ کر دیں گے یعنی آئمہ علیہ السلام کی حکومت کے دوران اسے بہت کچھ دیں گے ”ومن کان یرید الدنیا لونہ مھاومالہ فی الاخرہ من....اور جو دنیا چاہتا ہے تو اسے دیں گے پھر اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ بھی نہ ہوگا، یعنی اس کے لئے حضرت قائم علیہ السلام کے ہمراہ دولت حقہ میں کچھ نصیب نہ ہوگا۔(الکافی ج۱ص۶۳۴)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: اے ابومحمد میں دیکھ رہا ہوں کہ حضرت امام مہدیعلیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مسجد سہلہ میں اتررہے ہیں۔
راوی: جنہوں نے آپ سے دشمنی کی۔
امام علیہ السلام: نہیں ایسا نہیں ہے اے ابامحمد! جس نے ہماری حکومت کے دوران ہماری مخالفت کی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ بھی حصہ نہیں ہے ہمارے قائمعلیہ السلام کے قیام کے بعد اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے ان کے خون بہانے کی اجازت لی ہے جب کہ آج کے دور میں یہ ہمارے لئے حرام ہے اور تم پر بھی حرام ہے کہ تم ان کا خون بہاﺅ، کوئی ایک بھی مجھے دھوکہ میں نہ ڈال دے، جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو وہ اللہ اور اللہ کے رسول اور ہمارے مخالفین سب سے انتقام لیں گے۔
(بحارالانوار ج۲۵حدیث ۶۷۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام قائم علیہ السلام اپنی حکومت میں کسی سے توبہ قبول نہ کریں گے۔

ان روایات میں جمع کا طریقہ
۱۔ ایک تو وہ ہے جسے شیخ اصفہانی نے کہا ہے :
بتحقیق حضرت امام مہدی علیہ السلام توبہ کو قبول کریں گے جن کے ایمان کا آپ کو علم ہوگا کہ ان کا اخلاص واضح ہوگا اس کی توبہ قبول نہ کریں گے جو زبان سے ایمان لائیں گے جان چھڑانے کے لئے ۔
یہ چیز تو سابقہ بیان سے سمجھی جا سکتی ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے باطنی علم کے مطابق ہی فیصلہ دیں گے جو علم امام علیہ السلام سے مخصوص ہے اس اشکال کو حل کرنے کے لئے یہ ایک تصور و خیال آیا ہے۔
(مکیال المکارم ج۱ص۴۳۱ ذیل ۷۸۳ قتل دجال کے ذیل میں)
۲۔ ایک توجیہ السید نعمت اللہ الجزائری نے بیان کی ہے الانوار میں ہے میں ان روایات بارے بہت زیادہ تصور کرتا تھا اور ان کے درمیان جمع بارے سوچتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حدیث سے آگاہ کیا جس میں ان روایات کے درمیان جمع ہو سکتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے جس وقت اللہ تعالیٰ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اذن دے گا تو اللہ تعالیٰ اس گروہ کو زندہ کرے گا جو خالص کفر پر تھے اور انہیں بھی زندہ کرے گا جو خالص ایمان پر تھے پس یہ زندہ ہونے والا کافر جن کو پہلے موت آ چکی ہو گی اور انہوں نے عذاب کا مشاہدہ بھی کر لیا ہوگا تو وہ مجبور ہوں گے کہ ایمان لے آئیں تو حضرت امام مہدی علیہ السلام ان سے توبہ قبول نہ کریں گے کیونکہ اس حالت میں ان کی توبہ ایسی ہے جیسی فرعون کی توبہ تھی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”الان وقد عصیت قبل“ اب توبہ! جب کہ اس سے پہلے تو نے عصیان و نافرمانی کی تھی“۔
اس کی توبہ قبول نہ ہوئی اس کی توبہ جس کی روح نکل رہی ہواور حلقوم تک آ گیا ہو سینے میں موت کا جرجرہ آ چکا ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہے جو اپنی جگہ آ گ میں دیکھ رہا ہو، ایساشخص توبہ کرے گا تو خدا اس کی توبہ قبول نہ کرے گا آیت میں جو آیا ہے کہ اس نفس(انسان) کی توبہ قبول نہ ہو گی تو اس نفس سے مراد یہ کافر جماعت ہے جن کو اللہ تعالیٰ دوبارہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں اٹھا دے گا۔
(الانوار النعمانیہ ج۲ص۲۷)
توبہ قبول نہ کرنے والی روایات جو ہیں وہ ہمیں ایک بہت بڑی مشکل میں ڈال دیتی ہیں کیونکہ توبہ کا دروازہ بند ہونا قرآنی آیات کے مخالف ہے۔
”بے شک خدا توبہ کرنے والوں اور ستھرے لوگوں کو پسندکرتاہے“
(سورہ بقرہ آیت ۲۲۲، پارہ ۲)
”خدااس(جُرم)کو تو البتہ نہیں معاف کرتا ہے کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ہاں اس کے سوا جو گناہ ہو جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے(کسی کو)خدا کا شریک بنایا تو اس نے بڑے گناہ کا طوفان باندھا“۔(سورہ النساءآیت۸۴،پارہ ۵)
تو کیا ان آیات پر عمل حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام میں ختم ہو جائے گا۔

ظہور کے زمانہ اور عدالت کے زمانہ کا فرق
اس جگہ یہ فرق بھی کر سکتے ہیں کہ ایک تو ظہور کا زمانہ ہے اور عادلانہ حکومت کے قیام کا زمانہ ظہور کے زمانہ میں اور ہر حجت تمام کرنے کے بعد ان سے توبہ قبول کر لی جائے گی جب کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے گا اور کسی کے گناہ کے اسباب نہ ہوں گے تو اس وقت جو توبہ کرے گا تواس سے توبہ قبول نہ کی جائے گی یہ عادلانہ حکومت قائم ہونے کے بعد ہوگاجب کہ فرض یہ ہے کہ اس وقت ہر ایک کو اس کا حق دے دیا جائے گا فساد نہ ہوگا باطل ختم ہو چکا ہوگا، ظلم نہ ہوگا، ابلیس قتل ہو جائے گا، معاشرہ عصمت کے درجہ پر پہنچ جائے گا تو اس سب کے بعد معصیت اور گناہ کا کوئی جواز نہ رہے گا کوئی نافرمانی نہ کرے گا کہ اسے سزا دی جائے اور نہ ہی اس وقت توبہ کا سوال پیداہوگا۔

توبہ والی روایت بارے توجیہ
یہ درست ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد توبہ قبول نہ کرنے والی روایات قرآنی آیات کے مخالف ہیں لیکن ان روایات کو ایسے زمانہ بارے قرار دیا جا سکتا ہے جب فرائض اور واجبات ادا کرنے کے لئے کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے اور سب نیکی کے اسباب ہوں تو اس وقت توبہ قبول نہ ہوگی۔

ایک اور توجیہ
روایات میں توبہ قبول نہ کرنے کی بات سخت رویہ بتانے بارے ہو تاکہ ظہور سے پہلے احکام شرعیہ پر پابندی کی جائے اور واجبات و فرائض کو انجام دینے پر ابھارا جائے تاکہ ایک مومن انسان اپنے مولا علیہ السلام سے اپنے امام علیہ السلام سے ملاقات کے لئے آمادہ ہو اور اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔

تیسری توجیہ
توبہ قبول نہ ہو گی یعنی انہیں توبہ کی توفیق نہ ہو گی عصر ظہور میں توبہ کا دروازہ تو کھلا ہوگا لیکن انسان موفق نہ ہوگا کہ وہ توبہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ مختلف اسباب سے توبہ قبول کرتا ہے ہوسکتا ہے کہ ایسا شخص جو گناہوں میں اس قدر غرق ہوچکا ہوگا کہ وہ توبہ کرنا چاہے گا لہٰذا اسے سزا ملے گی امام علیہ السلام کے سامنے اس پر حد جاری ہو گی کیوں کہ اس نے توبہ نہیں کی اپنی توبہ کا اعلان نہیں کیا توبہ کی توفیق حاصل نہ ہوئی بہرحال یہ اللہ تعالیٰ سے مربوط ہے۔

چوتھی تاویل و توجیہ
توبہ کرنے کا جواز ہی نہ رہے گاکیونکہ توبہ کے اسباب موجود نہ ہوں گے معاشرہ عصمت تک جا پہنچے گا جب گناہ نہ ہوگا تو توبہ کیسی؟ کیونکہ توبہ، استغفار تو گناہ اور معصیت پر ہوتاہے اور یہ حالت اس وقت ہو گی جب پوری دھرتی پر عادلانہ حکومت قائم ہو جائے گی یہ سلسلہ ظہور کے ابتدائی مراحل میں نہ ہوگا۔ کیونکہ جس نے ظہور سے پہلے نافرمانی کی ہو گی اور توبہ نہ کی ہو گی اور امام علیہ السلام کا ظہور ہو جائے گا تو کیا امام علیہ السلام اس سے توبہ قبول کر لیں گے؟ جب کہ معاشرہ ابھی عصمت کے مقام پر نہیں پہنچا ہوگا۔
اس قرض پر تو لوگوں کی اکثریت جب ایسی ہو گی تو پھر توبہ قبول ہو گی جو اخلاص سے کریں گے دوسروں کی قبول نہ ہو گی جو زبانی کریں گے ، یہ توبہ کرنے والے وہی ہوں گے جو امام علیہ السلام کا مشاہدہ کر کے توبہ کریں گے۔

پانچویں توجیہ
قرآنی آیات کی تفسیر کہ جب امام علیہ السلام کا مشاہدہ کر لیں گے تو پھر توبہ نہ ہو گی یا اسی حساب اور احساس کے لئے لایا جائے گا یا اس پر حد جاری ہوں گی یہ وہ ہے جس نے ماضی میں گناہ کیا ہوگااور ابھی تک ظہور کے زمانہ تک توبہ نہ کی ہو گی تو جب حد جاری ہو گی تو اس وقت توبہ قبول نہ ہوگی۔
”اب (مرنے کے وقت ایمان لاتاہے)حالانکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کر چکا اور تُوتو فسادیوں میں سے تھا تو آج ہم(تیری رُوح کو تو نہیں مگر)تیرے بدن کو(تہ نشین ہونے سے)بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے عبرت(کاباعث)ہو اور اس میں تو شک نہیں کہ بہتیرے لوگ ہماری نشانیوں سے یقینا بے خبر ہیں“
(سورہ یونس آیت ۰۹تا۲۹،پارہ ۱۱)
یہ احتمال درست ہے اور مناسب بھی ہے یہ بات حضرت امام مہدی علیہ السلام اور آپ کی حکومت سے مخصوص نہیں بلکہ یہ تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہے آئمہ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہے یعنی جس پر گواہ قائم ہوجائیںکہ اس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے تو پھر اس کے لئے سزا ہی دی جاتی تھی اس فیصلہ کے بعد وہ کہتا ہے کہ میں نے توبہ کر لی ہے تو اس سے یہ توبہ قبول نہیں کی جاتی۔ غرض یہ ہے کہ توبہ کی عدم قبولیت حضرت امام مہدی علیہ السلام کے مختصات سے ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے گناہوں کے ارتکاب کئے ہوں گے اور امام علیہ السلام ان پر حد جاری کریں گے اور وہ بھی اپنے علم کے مطابق تو سزا کے اجراءکی حالت اور اس فیصلہ کے بعدجو توبہ کرے گا تو اس کی توبہ قبول نہ ہوگی۔

توبہ اور استنابہ میں فرق
توبہ اور استنابہ میں فرق کیا جائے توبہ گناہ سے معافی مانگنا ہے اور یہ کہ گناہ کی طرف پلٹ کر نہ جائے گا استنابہ یہ ہے کہ بندگان سے توبہ طلب کی جائے اور انہیں کہا جائے کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں امام علیہ السلام گناہ گار سے توبہ طلب کریں گے یہ کام اسے سزا دینے سے پہلے ہوگا۔
تو ہم کہتے ہیں کہ توبہ باقی رہے گی اللہ تعالیٰ بندگان سے توبہ قبول کر لے گا لیکن امام علیہ السلام کسی سے یہ نہیں کہیں گے کہ تم اب معافی مانگ لو، ان وجوہات کی وجہ سے جن کا ذکر ہو چکا، حجت اور دلیل قائم ہونے کے بعد بھی کسی سے یہ کہا جائے کہ تم توبہ کرلو، معافی مانگ لو تو اس کا کوئی معنی نہیں بنتاجب حق سب پر کھل جائے امام علیہ السلام کی جانب سے استنابہ کا عمل ختم ہوگا خاص احکام کے تحت جیسا کہ پہلے ہم نے کہا ہے کہ آپ دلیل نہیں مانگیں حقیقت اور واقع امر پر فیصلہ دیں گے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ بات ایک مشکل امر ہے احتیاط اس باب میں دین کے لئے بہتر ہے تاکہ کوئی ایسی بات نہ کریں جو واضح آیات اور روایات کے معنوں سے مخالف ہو کہ باب توبہ اور استغفاربندہوجائیں گے جب کہ یہ دونوں عبادت کے ابواب سے ہیں سنت نبی سے ہیں جب کہ امام مہدی علیہ السلام قرآن اور سنت نبی پر عمل کی دعوت دیں گے۔
بلکہ ان بیانات کی روشنی میں توبہ کے دروازہ بند ہو جانے والی روایات کو رد کر دینا اور ان کے بارے تاویل و توجیہ کرنا ہی بہتر انداز ہے۔

توبہ قبول نہ ہونا، مسلمان کے لئے یا کافر کے لئے
ایک اور مشکل امر اس جگہ ہے کیا ایک مسلمان کے لئے توبہ قبول نہ ہو گی کہ اس کے پاس حجت آ چکی تھی اس نے توبہ کو خود ہی موخر کیا اسے مھمل چھوڑ دیا تو کیاایساتونہیں کہ یہ روایات اس امرکو بیان کر رہی ہوں یاپھرکافر سے توبہ قبول نہ ہو گی امام علیہ السلام کی جانب سے اس پر دلیل قائم ہو جانے کے بعد اگرچہ وہ عصر ظہور میں ہی کیوں نہ ہو پھر وہ کافران کے ہاتھوں پر اسلام نہ لائے تو پھر اسے توبہ کا نہ کہا جائے گا یاپھریہ روایات عمومی معنی میںہیں اورہر دو کو شامل ہیں۔بہت سارے احتمالات ہیں ان میں غور کرنے کی ضرورت ہے اس جگہ پر یہ استفادہ کر سکتے ہیں کہ ہر انسان کو احتیاط سے کام لینا چاہیئے اپنے دین کی خاطر ابھی سے توبہ اور استغفار کر لے زمانہ ختم ہونے سے پہلے اپنا معاملہ روشن کر لے۔یہ وہ کچھ تھا جو ہمارے ذہن میں آیا اور ہم نے اپنے مطالعہ کے دوران ”حضرت امام علیہ السلام کی عادلانہ حکومت اور اس کے تقاضے“ بارے سمجھا اور اللہ تعالیٰ آپ کے ظہور میں تعجیل فرما دے ہمیں ان کے اعوا ن و انصار سے بنائے اور اس نظریہ پر ثابت قدم رکھے۔والحمدللہ رب العالمین

مترجم کی توبہ بارے بات
توبہ کے بارے میں ایک بات میرے ذہن میں ایسی ہے جس کا میں نے اپنے خطابات میں بھی کئی بار تذکرہ کیا ہے کہ ظہور سے پہلے علامات و نشانیاں مومنین اور شیعوں کے لئے بیان کر دی گئی ہیں اور ضروری ہے کہ جو شیعہ ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی امامت کے قائل ہیں ان کے منتظرین سے ہیں وہ آپ علیہ السلام کی آمد سے قبل توبہ کر لیں اگر توبہ نہ کریں گے اور امام علیہ السلام کا ظہور ہو گیا تو وہ باغیوں سے ہوں گے اور باغی کے لئے توبہ نہیں ہے اس کے واسطے سزا ہے۔ اسی طرح باقی مسلمان جو اس انتظار میں ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پیدا ہوں گے اور ان کے اوصاف بارے آگاہ ہیں، ظہور سے قبل کی علامات اور نشانیوں سے بھی واقف ہیں تو جب امام علیہ السلام کا ظہور ہو گا اور آپ دلائل قائم کر کے سب مسلمانوں سے کہیں گے کہ میں بقیة اللہ ہوں، میں مہدی علیہ السلام ہوں ، میں آل محمد سے ہوں، میرا ساتھ دو، پس جو انکار کریں گے اور آپ علیہ السلام کے مقابلہ میں آجائیں گے تو پھر ان کے لئے توبہ نہیں ہے ۔
باقی رہا کافروں،ملحدوں، عیسائیوں اور یہودیوں بارے تو امام علیہ السلام اپنے ظہور کے بعد قانع کنندہ دلائل کے ساتھ اپنے بارے بیان کریں گے کہ آپ اللہ کے نمائندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر عدالت کی حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں علمی، فلسفی، منطقی،سائنسی دلائل دیں گے، معجزات آپ علیہ السلام کے غیب سے مربوط ہونے پر گواہی دیں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ علیہ السلام کی تائید کر کے آپ علیہ السلام کے برحق ہونے پر ایک اور گواہ ہوں گے حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام آپ کے ہمراہ ہوں گے جو آپ کے حق ہونے پر دلیل ہوں گے ، اصحاب کہف کا آنا سابقہ انبیاءعلیہم السلام کے تبرکات، سابقہ آسمانی کتابوں کا آپ علیہ السلام کے پاس موجود ہونا آسمانی نداء، زمینی حقائق یہ سب دلیل ہوں گے کہ سارے لوگ آپ علیہ السلام کی اطاعت میں آ جائیں یہ سب کچھ دیکھنے، جاننے کے باوجود جو مسلمان نہ ہوں گے تو پھر ان کے لئے توبہ نہیں ہے اور ان سے پھر توبہ کا نہ کہا جائے گا پھر ان کے لئے سزا ہے۔ویسے اصل صورتحال کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے یا پھر اللہ تعالیٰ کے نمائندہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے پاس ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی زمین پر اپنی رحمت کا نمائندہ بنا کر بھیجیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے مخالفین سے انتقام لینے کے لئے اپنی صفت انتقام کا بھی انہیں نمائندہ قرار دیں گے۔

مترجم کی دعا!
اے اللہ! ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے آخری نمائندے کے ظہور سے پہلے توبہ کر لیں اور خود کو اس طرح بنالیں کہ ہم اپنے امام علیہ السلام کے باغی قرار نہ پائیں۔
اے اللہ! ہمارے امام علیہ السلام کی دعائیں ہمارے نصیب ہوں۔
اے اللہ! ہمارے امام علیہ السلام کے ناصران بڑھا دے اور ہمارے امام علیہ السلام کے ظہور کے لئے جو وسائل و اسباب درکار ہیں انہیں جلد پورا کر دے اور ہمیں اپنے امام علیہ السلام کی نصرت کی توفیق دے۔
اے اللہ! امام علیہ السلام کے ظہور تک بندہ حقیر پر تقصیر کو طویل عمر دے تاکہ میں اس خوشحالی کا دور دیکھ سکوں اور اپنے امام علیہ السلام کی خدمت میں رہ سکوں اپنے امام علیہ السلام کی شفقتوں سے بہرہ ور ہو سکوں جو آپ علیہ السلام کے ظہور سے مربوط ہیں۔
میرے والدین ، میرے دادا ،دادی اور میرے ہر اس رشتہ دار کو میری اس کوشش کا ثواب پہنچا دے جو میرے اس دنیا میں آنے کا وسیلہ بنے اور پھر میری تربیت میں انہوں نے کردار ادا کیا اور ان کو بھی یہ ثواب ملے جو مجھ سے منسوب ہیں اور جن جن نے مجھ سے کلمہ خیر حاصل کیا اور ولایت اہل البیت علیہ السلام کا تحفہ مجھ سے وصول کیا۔
والحمدللہ رب العالمین ۔ اللھم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجھم والعن اعدائہم

۷صفر المظفر۰۳۴۱ھ (۳ فروری ۹۰۰۲ء)
جامعہ السیدہ خدیجة الکبریٰعلیہ السلام پکی شاہ مردان میانوالی پنجاب پاکستان
بوقت صبح دس بج کر تیرہ منٹ