حضرت امام مہدی علیہ السلام سے تعلق و رابطہ
حضرت امام مہدی علیہ السلام سے اس عنوان سے رابطہ اور تعلق بڑھایا جائے کہ وہی الٰہی قائد ہیں جوایک فرد کی شخصیت پر بھی اثر چھوڑتے ہیں اور ان کے کمال میں مو ¿ثر ہیں اور معاشرہ پر بھی ان ہی کے اثرات مرتب ہونے ہیں پس معاشرہ اورسول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ اس قائد کے راستہ پر چلے اس سے ظہور کی امید بڑھتی ہے ظلم و جور کے خاتمہ اور عدالت کے نفاذ کے لئے اسی قائد سے خودکووابستہ رکھا جائے اور یہی فرد کا کمال ہے اور سول سوسائٹی کا کمال بھی اسی میں ہے لیکن صحیح و باطل نظریات کا مخلوط ہوجانا تو یہ آپ کے ظہور بارے شبہات کوپیدا کر دے گا اور وہ سارے آثار وفوائدجن کا ذکر ہوا وہ سب ختم ہوجائیں گے ظلم کا خاتمہ اور ظالموں کا زوال، اس بارے لوگ شک میں پڑ جائیں گے اس کے علاوہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود بارے عقیدہ بھی کمزور پڑ جائے گا۔
یہ سب کچھ ان علامات بارے ہے جو حتمی نہیں ہیں جن کے بارے ممکن ہے کہ وہ وقوع پذیر ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وقوع پذیر نہ ہوں یا ایک ہی قسم کی علامات متعدد بار ظاہر ہوں جس کا سبب ان علامات کا آپس میں مشابہت رکھناہے۔جیسے زلزلے ہونا ،چاندگہن، سورج گہن، زمین کاپھٹنا،آگ کا ظاہر ہونا،دنگہ فسادکاہونا، خاص بیماریوں کا پھیلنا ان میں طبعی اور غیرطبعی علامات سب ہی موجودہیں ظہور کے بارے اس قسم کی علامات پر اگر ظہور نہ ہوگا تو پھر یہی علامات بے شک و تردیدسادہ لوح عوام کے عقیدہ میں خلل اور اشتباہ ڈالنے کا سبب ہوں گی۔
ظہور کی حتمی علامات سے بحث کرنے کا ہدف
ان علامات کو لوگوں کے لئے بیان کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے لیکن ایسے انداز سے ان کا ذکر کیا جائے جو تیاری اور آمادگی کے لئے مددگار بنیں اور کام اور عمل پر متوجہ کرنے کاسبب بنیں اور اس کے لئے پروگرام اور منصوبہ بندی کا سبب بنیں، لوگوں کو ظہور کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں اور واجبات کو ادا کرنے سے گریزاں نہ ہونے دیں امام علیہ السلام کے حوالے سے اور آپ کی عادلانہ حکومت کے قیام کے حوالے سے جو ذمہ داریاں بنتی ہیں ان سے فرار کا سبب نہ بنیں۔
ظہور کے قریب ہونے کا ذکر جو ہے یہ نفسیاتی اور اجتماعی اثر چھوڑتا ہے کیونکہ ایسی علامات جو ظہور سے کچھ عرصہ قبل وقوع پذیر ہونا ہیں جب انسان ان کے بارے سنے گا کہ اب ظہور قریب ہے اس کے آثار نظر آ رہے ہیں تو وہ تیاری کرنے پر لگ جائے گا توبہ کرے گا، گناہوں پر پشیمان ہوگا وہ امام علیہ السلام کے ظہور کی حالت اور کیفیت میں زندہ رہے گا جب کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ امام علیہ السلام زندہ ہیں ،ہمارے اعمال پر ناظرہیں، وہ ہمیں دیکھتے ہیں، ہماری بات کو سنتے ہیں، ہمارے اعمال ان کے پاس پیش ہوتے ہیں وہ ہماری اچھی کارکردگی پر خوش ہوتے ہیں اور ہماری بری کارکردگی پر ناخوش ہوتے ہیں ہمارے اچھے کام، ہمارے اعمال خیریہ انہیں مسرور کرتے ہیں، ہماری کمزوریاں، ہماری برائیاں، ہماراحرام کاموں کا ارتکاب کرنا بلکہ مکروہات کو بجالانا انہیں ناراض کردیتا ہے۔
جی ہاں!ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ علامات کو اس انداز سے بیان نہ کریں کہ جو اصل حقیقت کو مشکوک بنا دے اور حقائق کو بگاڑنے کا سبب بنے شک و تردیدکو اصل عقیدہ میں ڈالنے کا سبب بنے۔خاص کر خراسانی اور یمانی کے قیام بارے جب ہم بیان کریں تو اس میں بڑی احتیاط سے کام لیا جائے یہ دونوں واقعات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے قبل ہونے ہیں لیکن ان کو بیان کرنے میں انداز صحیح اپنایاجائے۔
حتمی علامات کا خلاصہ
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ:حضرت قائم علیہ السلام کے قیام سے پہلے پانچ علامات ایسی ہیں جوحتمیات سے ہیں۔
(۱)یمانی (۲)سفیانی(۳)آواز(۴)نفس زکیہ کا قتل(۵)بیداءزمین کا دھنسنا۔(کمال الدین ج۰۵۶۔باب ۷۵حدیث ۷)
فقط پانچ علامات کیوں؟
اس جگہ ان علامات میں ایک جامع موجود ہے اور وہ ہے حضرت قائم علیہ السلام وقت ظہورسے ان کا فاصلہ ان واقعات نے ظہور سے بہت تھوڑے پہلے واقع ہونا ہے۔
جیسے نفس زکیہ کا قتل ہونا روایت ہے کہ ظہور سے پندرہ دن پہلے ہوگا آواز اسی وقت ہو گی جب ظہور ہونا ہے یہ آپ کے بارے پہلا اعلان ہوگا۔
بیداءکی زمین کا دھنسنا بھی آپ کے مکہ میںظہور سے تھوڑا پہلے کا واقعہ ہے جیسا کہ خسف والی روایات سے سمجھا جاسکتاہے۔(البحارج۲۵ص۳۵۲حدیث ۳۴۱)
یمانی اور سفیانی ایسے ہیں جیسے مقابلہ میں دوڑنے والے دو گھوڑے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت میںہے سفیانی اور حضرت قائم علیہ السلام کاظہور دونوںایک سال میں ہوں گے۔
(البحار ج۳۵ص۰۱ باب ۵۲، ج۲۵ص۶۸۱حدیث۱۱، غیبة نعمانی ص۳۵۲باب ۴۱حدیث ۳۱)
ان سب میں مشترک بات یہ ہے کہ امام علیہ السلام کا ظہور اور یہ علامات زمانی لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں یا ہمزمان ہیں۔پھر خسف(زمین دھنسنا)سفیانی اور یمانی میں بھی وجہ اشتراک موجود ہے کیونکہ خسف جو ہے وہ سفیانی اور یمانی کے مرکز سے متعلق ہے جیسا کہ روایات کے سیاق و سباق سے بات سمجھی جا سکتی ہے۔یمانی عربی لیڈر ہوگا اور سفیانی مسلمانوں میں فتنہ ایجاد کرے گا وہ بھی عربی ہوگا، اس کا تعلق شام سے ہوگا وہ عرب اسلامی ممالک میں فساد کا سبب ہوگا اور زمین دھنسنے کا واقعہ بھی اسی سے مربوط ہے جیسا کہ اس کی تفصیل بعد میں ذکر ہوگی۔
(معانی الاخبارص۶۴۳۔الزام الناصب ج۲ص۹۰۱)
یمانی کی شخصیت
جناب ابوبصیر نے حضرت امام ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام سے نقل کیا: یمانی سفیانی اور خراسانی کا خروج ایک ہی سال میں ہوگا ایک مدینہ ہوگا، ایک دن ہوگا یہ ایسے ہے جیسے بہار کا موسم ایک دوسرے کے پیچھے چلا آتا ہے ہر طرف سے بدبختی ہو گی ، جنگ ہو گی،پھٹکار ہے ان کے لئے جو ان کے مقابلہ میں آئے، ان پرچموں میں سفیانی کے پرچم سے زیادہ گمراہی والا اور کوئی پرچم نہ ہے اوریمانی کا پرچم ہدایت کاپرچم ہوگا وہ تمہیں تمہارے صاحب الزمان علیہ السلام (امام مہدی علیہ السلام)کی طرف بلائے گا جس وقت یمانی خروج کرے تو پھر کسی کے پاس اسلحہ فروخت کرنا حرام ہے، ہر مسلمان اورہر انسان پرلازم ہے کہ وہ یمانی کا ساتھ دے جب یمانی خروج کرے تو پھرتم اٹھ کھڑے ہونا اس کے پرچم تلے جانا وہی پرچم ہدایت کا پرچم ہوگا کسی مسلمان کو اجازت نہیں کہ ان کے پرچم کو لپیٹ دے اوراس کے خلاف بات کرے جو بھی ان کے مقابلہ میں آ کر ایسا کرے گا وہ آتش جہنم میں ہوگا کیونکہ وہ تو حق کی جانب دعوت دے گا صراط مستقم کی جانب بلائے گا۔(غیبت النعمانی ص۶۵۲)
یمانی کون؟
یمانی عربی شخصیت ہیں، صاحب پرچم ہوں گے یاتوان کی باقاعدہ حکومت ہو گی یا انکا کوئی ادارہ ہوگا جو اسلامی حکومت کے قیام کے لئے کوشاں ہوں گے کسی اسلامی جماعت کاسربراہ ہوگا جوعرب ممالک کو متحد کرنے کے لئے کام کرے گا، عرب علاقوں سے فتنوں کو دور کرے گا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سارے عرب ممالک میں محبوب ہوگا اوروہ ان کی پسندیدہ شخصیت ہوں گے۔
روایت بیان کرتی ہے کہ اس کی اطاعت کرناضروری ہے اوراس کا ساتھ دینا ہوگا ان کی مخالفت حرام ہے اس کے ذکر میں جو اہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ اس خطہ میں مسلمانوں کی وحدت انتہائی اہم ہے اور آخری زمانہ میں عادلانہ سلطنت کے قیام کی تیاری کے لئے یہ اہم اقدام ہے کیونکہ یہ حکومت کسی ایک طائفہ یا گروہ کی نہیں ہوگی یا کسی ایک مذہب کی نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی مخصوص دین کی ہو گی بلکہ یہ حکومت کمزور ، محروم، مظلوم، عدالت خواہ، سلامتی چاہنے والے، امن چاہنے والے کی ہوگی ترقی پسندوں ، حق پرستوں کی حکومت ہو گی عدلیہ کی بالادستی چاہنے والوں کے لئے ہوگی، اس حکومت کے عالمی اور آفاقی ہونے بارے اس کتاب کے شروع میں بیان ہو چکاہے۔
سفیانی کی شخصیت
یمانی کے پرچم کے مدمقابل سفیانی کا پرچم ہوگا، یمانی ہدایت اور وحدت کا داعی ہوگا ، سفیانی فتنہ، گمراہی کا داعی ہو گا ، سفیانی عربی وحدت اور اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ہوگا، فتنہ ایجاد کرنے والا ہوگا، داخلی جنگیں چھیڑے گا،اسلام کے دشمن، عدالت کے دشمن، امن مخالف طاقتیں اس کی حامی ہوں گی اس پرچم سے دور رہنا ہوگا اس کی شکل جو بھی ہو، اس کا رنگ جو بھی ہو،اس کا مذہب اور دین جو بھی ہو، کیونکہ انبیاءکے خواب کی تعبیر کے لئے یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہوگا، عدل مطلق کے قیام میں سنگ راہ ہوگا اقتصادی عدالت، اجتماعی عدالت، معاشرتی عدالت، سیاسی عدالت، علمی عدالت ہر قسمی عدالت کے نفاذ کے لئے تنہارکاوٹ اور بڑی رکاوٹ سفیانی ہی ہوگا۔
ہر وہ شخص، ہر وہ ارادہ، جماعت، صاحب پرچم جو عدالت چاہتا ہے، امن چاہتا ہے، ظلم کا مخالف ہے، علم چاہتا ہے، ترقی چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس قسم کی قوت کے وجود میں آنے کے لئے رکاوٹ بنے اور اگر ایسی قوت سامنے آجائے تو اس سے دور رہے کمزور سی حمایت بھی نہ کرے، ذرا برابر اس کا ساتھ نہ دے، الگ تھلگ رہے، قلم سے، نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے ان کی حمایت کسی بھی حوالے سے نہ کرے، تاکہ ایسی قوت کا خاتمہ آسان ہو جائے اور تھوڑے نقصانات سے اسے ختم کرنا ممکن ہو، یہ صحیح ہے کہ یمانی کی سرگرمیاں اسے محدود کر دیں گی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام اس کی جڑوں تک کو اکھیڑ ڈالیں گے، لیکن اس کے خاتمہ کے لئے بڑے نقصانات بھی ہیں،بڑی تباہیاں ہیں، بربادیاں ہیں ، مالی نقصانات ہیں، جانی نقصانات ہیں، فتنہ ہے، یہ کم نہ ہوں گے بہت زیادہ ہوں گے لیکن جس قدر ہو سکتا ہے انہیں کم سے کم کیا جائے ایسی طاقت جوطبقاتی ہو،فرقہ پرست ہو، نسلی امتیاز پھیلائے ،جنگیں چھیڑے، علاقہ کو بے امن کرے ،تفرقہ ڈالے ،تکفیری مہم چلائے ،مسلمانوں کو آپس میں لڑانا اس کی پالیسی ہو گی ایسی طاقت کا ساتھ دینا یا اس کی حمایت کرنا حرام ہے، اس پرچم نے ضرورسرنگوں ہونا ہے اور ایسی طاقت کوہرصورت ختم ہونا ہے، اس کے ایام چند ماہ ہی ہوں گے، یہ الٰہی وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو ہر صورت پوراکرناہے۔
ہم اس قسم کی فسادی طاقتوں کو جس قدر محدود کریں گے اور فتنہ پرور پرچموں کی سرگرمیوں پر جتنی پابندیاں لگائیں گے اور جتنا ان فتنوں کو ٹھنڈ ا کرنے کے لئے جدوجہد کریں گے تو اتنی مقدار میں ہم مادی اور معنوی خسائر اور نقصانات کو کم کریں گے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے اسلامی اہداف اور الٰہی ادیان کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آسانی پیدا کریں گے، آسمانی ادیان، جنہوں نے ہمیشہ عدل مطلق کے نفاذ کو پوری روئے زمین پر جاری کرنے کی بات ہے اور ایسا قیامت سے پہلے ضرورہونا ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام اس مقصد کو پورا کرنے میںضرور کامیاب ہوں گے تو اس کے لئے ہمیں کام کرنا ہے۔
سفیانی سے مراد
سفیانی سے مراد ایک خاص شخص ہو گا جیسا کہ بعض نے روایات سے سمجھا ہے یا ایک مخصوص حالت اور کیفیت ہوگی جیسا کہ بعض دوسروں کا خیال ہے یا خاص حالات کے ضمن میں ایک خاص شخصیت ہوگی کیونکہ ہر حالت کے لئے اور ہر کیفیت کے لئے ایک قیادت کی ضرورت ہے کیونکہ اس بات سے سفیانی کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ ایک ایسا فتنہ ہوگا جو مسلمانوں کے اندر سے اٹھے گا اور اسلام کو اس سے سخت نقصان پہنچے گا اس میں شک نہیں ہونا چاہیئے اس قسم کے پرچم اٹھیں گے، استعماری اور سامراجی طاقتیں ایسے فتنہ بازوں کی سرپرستی کریں گی جو عدل پھیلانے اور ظلم کے خاتمہ کے حق میں نہیں ہے تو ان کے مقابلہ کے لئے عدالت کا نفاذ چاہنے والوں اور امن کی بات کرنے والوں کو کام کرناہوگا۔
حتمیات علامات جیسی چنددوسری نشانیاں
کچھ اور علامات ہیں جن پر حتمی ہونے کا لفظ نہیں ہے لیکن ان واقعات بارے روایات کی کثرت اورروایات میں ان حادثات اور واقعات کاکثرت سے تذکرہ ان کے ثبوت اور حتمیت کو بتا رہے ہیں ہم ان علامات کو ظہور کی شرائط کا عنوان دیتے ہیں تاکہ ان کاظہور کی حتمی علامات سے فرق کیا جا سکے ان علامات سے جو زیادہ اہم ہیںہم انہیں بیان کرتے ہیں۔
۱۔ سیاہ پرچم
اس عنوان کے تحت بہت ساری روایات ہیں یا ایسی روایات جو اس معنی پر دلالت کرتی ہیں جیسے مشرق سے پرچموں کا ظاہر ہونا، طالقان سے مردوں کا ظاہر ہونا یا خراسان کا تذکرہ یا فارس کے شہروں کا ذکر۔
اس پرچم کی اہمیت یہ ہے کہ عدل کے راستہ پر ہوگا اور کفر و نفاق کی جڑوں کو اکھیڑ پھینکے گا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی سلطنت کی تمہید بنے گا یہ بھی فی الجملہ علامت ہے مگر یہ کہ ظہو کی شرائط سے ایک شرط ہے کیونکہ ظہور کے لئے تیاری اور آمادگی کے لئے ایسا پرچم ضروری ہے۔
ان علامات کا نام خراسان ، طالقان یا مشرقی سرزمین تو واضح ہے لیکن ان کے لئے سیاہ رنگ کا استعمال ہے تو یہ بات یا تو حقیقی عنوان سے ہے یا اس کا اشارہ حضرت امام حسینعلیہ السلام کی شہادت کی جانب ہے اور ان کے مصائب کے سوگ میں اٹھنے والے سیاہ علم ہیں یہ بات اس حوالے سے بھی ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا نعرہ ”یاثارات الحسین علیہ السلام “”حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے انتقام لینے والے“(البحار ج۲۵ص۸۰۳حدیث ۲۸)
خراسانی
روایات کے سیاق وسباق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک شخصیت ہو گی جو عالمی سطح پر معروف ہو جائے گی اور قومیت، زبان، رنگ، بو، نسل، علاقائی تعصب سے بالاتر ہو کر عدالت کی حکومت قائم کرنے کےلئے تمہید کاکام کرے گا یہ بھی ایک علامت ہے اسکا بھی خراسانی، طالقان سے نکلنے والے پرچموں سے ہے ان کا قائد عام خراسانی ہوگا۔
۲۔ دجّال
الطبرانی میں اسماءسے روایت ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی جس وقت تمہارا امتحان ایک ایسے شخص کے ذریعہ لیا جائے گا جس کے لئے زمین، دریا، سمندر، شجر و ثمر سب مسخر اور اس کے کنٹرول میں ہوں گے جو اس کی پیروی کرے گا وہ اسے مالا مال کر دے گا اور جو اس کی مخالفت کرے گا وہ اسے محروم رکھے گا ۔
بتحقیق اللہ تعالیٰ اس دن مومنوں کو اس طرح اس کے شر سے محفوظ رکھے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے سارے فرشتوں کو تسبیح کے ذریعہ محفوظ رکھا ہوا ہے، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہے”کافر“جسے ہر پڑھا لکھا مومن اور ان پڑھ مومن پڑھ لے گا۔
دجال سمندروں میں داخل ہوگا، بادلوں پر اس کی دسترس ہو گی ، سورج کے ساتھ مغرب تک جانے کا مقابلہ کرے گا، اس کی پیشانی میں ایک ”قرن“ ہوگا کہ جس سے سانپ نکلے گا، اس کے بدن پر سارے اسلحوں کی نمائش لگی ہو گی، تلوار، نیزہ اور درق۔
راوی: میں نے سوال کیا کہ درق کیا ہے؟
رسول اللہ: ڈھال ہے۔
دجّال سے مراد
دجّال سے مرادایک عالمی حالت ہو گی جس کا ہدف حضرت امام مہدی علیہ السلام کی سلطنت کے قیام میں رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگا تاکہ عدالت قائم نہ ہو، امن نہ ہو، ترقیاتی کام نہ ہو سکیں۔ایک خاص شخص مراد نہیں یا پھر ایک خاص شخص ہوگا جو ان ساری خصوصیات کا حامل ہوگا۔
روایات میں اس کی جو خصوصیات بیان ہوئی ہیں تو اس کے تناظر میں ہم اس کی ھویت کو جان سکتے ہیںکہ وہ ظالم ہوگا، خودثنائی میں غرق، منکر، لٹیرا، ڈاکو، جھوٹی حکومتوں کاحامیاور اقوام کے مال کو ہڑپ کرنے والا ، تباہی لانے والا، فسادی، خون بہائے گا بغیر وجہ اور حق کے جو بھی سلامتی اور امن چاہتے ہیں،جو امن کے خواہاں ہیں جو عدالت خواہ ہیں توان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی شخصیت یا ایسی حالت کا مقابلہ کریں۔
جیسا کہ ہم نے سفیانی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جس قدر ہو سکے اس کے فتنے اور فساد کو اور اس کی تخریب کارانہ کارروائیوں کو اپنی جدوجہد سے محدود کیا جائے اسی طرح دجالی حالت جو پوری دنیا پر چھا چکی ہو گی ، ہر طرف ظلم ہوگا، فساد ہوگا، دہشت گردی ہوگی، قتل و غارت گری ہو گی، بدامنی ہو گی تو اس حالت کا مقابلہ کرنا، حق کو عام کرنا اور عدالت کے قیام کے لئے جدوجہد اہم ذمہ داریوں سے ایک ہے۔
دجّالی تحریک کا سب سے پہلا نقصان عالمی صنعتی ممالک کوہوگا، ایسے ممالک جو ترقیاتی اور فنی کاموں میں زیادہ کام کر رہے ہوں گے جو ماحولیات کو ٹھیک رکھنے میں مصروف ہوں گے، جو طبعیت کے حسن و جمال کو باقی رکھنے کے خواہش مند ہوں گے جو زمین میں امن اور آبادی چاہتے ہوں گے تو ایسی ساری طاقتوں اور حکومتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ دجالی تحریک کا مقابلہ کریں اور اس تحریک کے شر سے اپنی عوام کو اپنے ممالک کو بچائیں اگر یہ تحریک طاقتور ہو گئی تو اس کا سب سے زیادہ نقصان صنعتی ممالک کو اٹھانا پڑے گا۔
دجّال سے مراد ایک شخص ہو یا ایک فسادی حالت سے کنایہ ہو یا ایک تحریک ہو جس کی قیادت ایسے شخص کے پاس ہو جو ظالم ہو، ڈکٹیٹر ہو، فسادی ہو، امن دشمن ہو، خودپسندہو، منکرہو، قدرت خواہ ہو، ہر معنی میں دجالی حالت دجّالی تحریک یا دجال نام کا شخص معاشرہ پر منفی اثرات چھوڑے گا اور عدالت خواہوں، امن پسندوں کے لئے مشکلات لائے گا۔ اس کا مقابلہ کرنا ہرفردکی ذمہ داری ہے۔
ظہور کے لئے جلد تیاری
جو کچھ بیان ہو چکا اس سے واضح ہو گیا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے وقت معین کر دینے کا عملی کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی بعض علاماتِ ظہور بارے بحث کا کوئی فائدہ ہے ہم نے بیان کیا ہے کہ اس حوالے سے کچھ قباحتیں اور منفی اثرات بھی ہیں جب کہ بعض افراد ایسی عادت بنا چکے ہیں کہ وہ ان علامات کا ذکر کر کے خود کو تسلی دیتے ہیں۔
جو افراد ظہور کے معاملہ میں جلدی میں ہیں تاکہ علامات کے ساتھ یا جو حسابات نکالتے ہیں یا علم الحروف کے تحت جو اعداد نکال کر جمع کرتے ہیں تاکہ اس طرح یہ جان سکیں کہ ظہور کس سال میں اور کب ہوگا؟ اور پھر نتیجہ دیں کہ ظہور نے فلاں سال ہونا ہے فلاں وقت میں ہونا ہے، ایسا کرنا صحیح نہیں ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔
یہ بات بھی منفی اثرات کی حامل ہے اس رویہ سے کئی نقصانات سامنے آتے ہیں۔
(۱)نفسیاتی نقصانات(۲)خاندانی نقصانات(۳)معاشرتی نقصانات
(۱) نفسیاتی نقصانات اس طرح کہ جو یہ امید لگا کر بیٹھا ہے کہ تین ماہ بعد یا تین سال بعد فلاں دن میں ظہور ہونا ہے تو اس کی بنیاد پروہ پروگرام اپنے لئے بنالے گا منصوبہ بندی کرے گا، اگر کسی سفر پر اسے جانا ہوگا تووہ کینسل کر دے گا، یا کوئی تجارت شروع کرنا چاہتا ہے تو اسے روک دے گااوراگر کوئی صنعت لگانا چاہتا ہے، کوئی کارخانہ لگانے کا ارادہ رکھتا ہے غرض کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہے تووہ اسے ترک کر دے گا، اسی طرح کھیتی باڑی کے بارے ہے، شادی کومو ¿خر کر دے گا کہ ظہور ہونے والا ہے، تعلیم روک دے گا، غرض اپنی زندگی کے تمام کاموں میں اسی حساب کی روشنی میں وہ تبدیلی لے آئے گا اور جب اس کے سارے حسابات اور اندازے غلط نکلیں گے تو وہ نفسیاتی طور پر مریض ہو جائے گااور ظہور مبارک کا عقیدہ بھی اس کے ہاں کمزور پڑ جائے گا اور اگر ایسا کئی مرتبہ ہوا تو وہ اس عقیدہ کا انکار کر بیٹھے گا۔
۲۔ خاندانی نقصانات: اس طرح ہوگا کہ ایسا شخص اپنے گھرانے اور خاندان کے لئے مسائل کھڑے کر دے گا اگر انہیں کسی کام کی ضرورت ہو گی، گھر بنانے کی ضرورت ہو گی، گاڑی کی ضرورت ہو گی تو وہ ان سارے معاملات کو مو ¿خر کر دے گا کہ ابھی ظہور ہونے والا ہے، جب تین ماہ گذر جائیں گے کہ جن میں ظہور کی امید لگائے بیٹھا تھا اور ظہور نہ ہوا تو اس کاپورا گھرانہ متاثر ہوچکاہوگا، اسے کافی صدمات اٹھانا پڑیں گے، اس واقعہ کے بعد ظہور کے متعلق اس کا اہتمام اور توجہ یاتو ختم ہو جائے گی یا کم ہو جائے گی خاص کر جب ایسا کئی مرتبہ ہو۔
(۳)اجتماعی نقصانات : یہ پہلے دو سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ہر شخص جس نے ظہور کے لئے وقت معین کردیا ہے تو اس نے اس بارے اپنے ساتھ کئی اور افراد کو ملا لیا ہو گا بہت سارے گھرانے اس کے ہمراہ ہوں گے کئی خاندان اس کا ساتھ دے رہے ہوں گے اور ان سب نے اپنے اپنے مقام پر وقتِ ظہور سے آگاہ ہونے کے بعد اسی قسم کے اقدامات کر لئے ہوں گے جن کا اوپر ذکر آ چکا ہے۔ وہ سب اپنے اپنے کام روک دیں گے، تعمیری منصوبہ جات ٹھپ ہو جائیں گے، کھیتی باڑی ختم ہوجائے گی، تجارتیں ٹھپ ہو جائیں گی، ان کی اولاد کا مستقبل تباہ ہو جائے گا، جب وہ وقت گزر جائے گا تو یہ سب متاثرین سے ہوں گے ان کے عقائد متزلزل ہوچکے ہوں گے خاص کر جب ایسا کئی مرتبہ ہوا۔
نتیجہ یہ ہوگا کہ امام علیہ السلام کی انتظار کافرد اور معاشرہ کے لئے جو فائدہ مرتب ہونا تھا وہ معاشرہ کی ترقی میں رکاوٹ بن جائے گا۔
اس جگہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک فرمان مدنظر رکھیں ”اعمل لدنیاک کا ¿نک تعیش ایدا واعجل لاخرتک کا ¿نک تموت غداً“
(بحارالانوار ج۴۴ص۹۳۱)
اپنی دنیا کی خاطر ایسے کام کرو جس طرح تم نے ہمیشہ اسی میں باقی رہنا ہے اور آخرت کے لئے اس طرح کام کرو کہ تم نے کل ہی مرجانا ہے۔ظہور کی توقع اور انتظار کے امر اس فرمان پر تطبیق دے سکتے ہیں۔
ہم عمل اس طرح کریں کہ بس ظہور تین ماہ بعد ہونے والا ہے کہ اگر ہم گناہ کرتے ہیں تو چھوڑ دیں، ہمارے اوپر کسی کا قرض ہے تو اسے ادا کر دیں اور ہر وہ عمل کریں جو ہمیں ظہور کے اپریشن اور عملیات کا لائق بنا دے اور ہم ظہور سے متعلق تمام کاروائیوں میں شریک ہو سکیں، ہر وہ کام کریں جو ہمیں اس لائق بنا دے کہ ہم حضرت قائم علیہ السلام سے ملاقات کر سکیں اس کے منصوبہ جات میں شریک ہو سکیں اوران کا ساتھ دے سکیں جس کی تفصیل بیان ہو چکی ۔
اس کے مدمقابل ہم اس وقت ایسا کام کریں کہ ظہور کے لئے ابھی بہت طولانی مدت درکارہے۔ اس لحاظ سے اپنی خوشحال زندگی کے لئے سارے اعمال اور کاموں کو انجام دیں اپنی اولاد کے مستقبل بارے منصوبے بنائیں اوران پر عمل کریں؟
ظہور کا قریب ہونا ہمیں روزمرہ کے کاموں سے نہ روکے اور ظہور کا دیرسے ہونا ہمیں اقتصادی، معاشرتی، نفسیاتی، خاندانی طور پر تباہ بھی نہ کرے۔
اگر ظہور قریب ہوا تو بھی ہم تیار ہوں اور اگر قریب نہ ہوا توبھی ہمیں کوئی نقصان نہ ہو۔
|