ساتویں فصل
ظہور سے پہلے
رونما ہونے والی نشانیاں
ظہور کی اہم علامات اوران کے حوالے سے ہمارا کردار
یہ علامات کسی ایک معین نص(روایت یا آیت قرآن)میں موجود نہیں بلکہ بہت ساری روایات کے ضمن سے ان علامات کو سمجھاجا سکتا ہے جب کہ یہ علامات ظہورکی شرائط سے زیادہ قریب ہیں لیکن اس جگہ ان علامات بارے بحث ان کے متعلق زیادہ تاکید کے لئے ہے۔
علامت کا تعلق ہر مومن، مستصنعف اور مظلوم کے حوالے سے عبارت ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر اس بات پر قانع ہو کہ تبدیلی نے آنا ہے اور اس وقت جو کچھ صورتحال ہے اس پر وہ قانع نہ رہے جس وقت پوری امت اس یقین پر آجائے گی اور اس بات پر قانع ہو جائے گی کہ موجودہ صورتحال کو تبدیل ہونا ہے تو وہی زمانہ تبدیلی کا زمانہ ہوگا اس وقت امت اپنی پوری صلاحیتوں، لیاقتوں اور وسائل و ذرائع کہ اس تبدیلی کی تیاری کے لئے لگا دے گی تو اسی تناظر میں ظہور کا زمانہ آن پہنچے گا۔
یہ بات ضروری ہے کہ ساری امت اس مبارک ظہور کے حوالے سے اس اسلامی سلطنت کے لئے اور اس زمانہ کے مدمقابل ذمہ دارانہ کردار کے شعور و احساس کی سطح تک پہنچ جائے۔
یہ احساس ذمہ داری اور ایسا یقین اور ایسی آرزو اور اس کے لئے عملی جدوجہد اور پوری آمادگی اس بات سے منافات نہیں رکھتی کہ ظلم موجود ہو اور عام ہو یہ بات منتظرین کی طاقت اور انہیںبرداشت کی عادت ڈالنے کے لئے ضروری ہے تاکہ جسمانی طور پر مضبوط ہو، تصوراتی طور پر آمادہ ہو، عقلی طور پر پختہ دارستہ ہو، عقل بہتر ہو، جیسا کہ غربلہ اور تخمیص والی روایات ہیں کہ ظہور سے پہلے خالص کو ناخالص سے جدا کرنا اس بات کو ان روایات سے سمجھا جا سکتاہے۔
لیکن اگر ایسا نہ ہوایعنی پوری امت میں اس عالمی تبدیلی کے لئے آمادگی موجود نہ ہو اور کچھ میں آمادگی ہو، وہ قناعت کی منزل پر ہوں اور دوسرے اس سے انکاری ہوں اوریہ حجت پیش کریںاوروہ خوف کے اسباب کو بیان کریںاور بھوک، بیماری اوراسی قسم کے جو دوسرے امور مشابہت رکھتے ہیںوہ اس کو بہانا بنائیں کہ بہتر حالات خودبخود آجائیں گے وہ یہ کہیں گے کہ ظلم کے نتیجہ میں خودبخود تبدیلی آجائے گی جب کہ ایسا نہیں ہوگااگر آمادگی نہ ہوئی تو پھر ظہور کا زمانہ موجود ہو جائے گا یہ اس وقت ہی ہوگا جب اللہ تعالیٰ اذن دے گا
”اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَو مٍ حَتّیٰ یُغَیِّرُو ا مَا بِاَن فُسِہِم “(سورہ رعدآیت ۱۱)
حالات کی تبدیلی کے لئے منتظر کا کردار
بتحقیق اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو تبدیل نہیں کرے گا، یہاں تک کہ وہ قوم خود اپنے حالات کو بدل دے، جو بھی علامات بیان ہوئی ہیں یہ سب اس بات پر زور دے رہی ہیں اور اس امر کی تاکید کے لئے ہیں کہ حضرت قائم علیہ السلام کا ظہور ضرور ہوگا اور یہ برحق ہے وگرنہ یہ سب کچھ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے ہم منتظر ہیں جیسا کہ ہر انسان انتظار کر رہا ہے اگر وہ ان علامات پر ایمان نہ بھی رکھتا ہو یا ان کی تصدیق نہ بھی کرتاہو۔
جو بات ظہور کو قریب کر دے گی اور فَرَج میں جلدی ہو گی وہ یہ ہے کہ امت اس بات پر اطمینان اور یقین کر لے کہ حضرت قائم مہدی علیہ السلام کا وجود ایک حقیقت ہے اور یقینی ہے اور ان کے وجود مقدس پر ہمارے ایمان کا مطلب تحرک ہے اپنے حالات کو بدلنے کےلئے، اپنے معاشرہ میں تبدیلی لانے کے لئے، سول سوسائٹی میں آمادگی پیدا کرنے کے لئے کہ وہ سب اس یوم موعود کی خاطر تیار ہو جائیں ۔
کیا ایسانہیں ہوتاکہ جب کوئی شخص فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے لئے ایک گھر بنائے تو وہ اس گھر کے لئے مقدمات فراہم کرتا ہے، سب سے پہلے جگہ لیتا ہے، نقشہ بناتا ہے، میٹریل لیتا ہے، اس کے لئے راستہ بناتا ہے اور ایسے افراد مہیا کرتا ہے جو اس کے لئے مکان تعمیر کر دیں، مکان کی تعمیر کے سارے لوازمات اسے تیار کرنے ہوتے ہیں اور پھر دعا بھی کرنا ہے کہ میرا مکان جلد بن جائے لیکن دعا مانگتا رہے اور مکان بنانے کے لوازمات اور ضروریات کو مہیا نہ کرے تو اس کی یہ آرزو کبھی بھی پوری نہ ہوگی۔
اسی طرح ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنے گھر پر دعوت دیتا ہے وہ آئے گا وہ آپ کو وعدہ دیتا ہے وہ فلاں معین دن آئے گا تو وہ کیا کرے گاجس کے لئے وعدہ دیا گیا ہے جب کہ اسے یہ یقین ہو کہ جس نے وعدہ دیا ہے وہ سچا ہے اس نے ضرور آنا ہے کیا وہ یہ چاہے گاکہ وہ آجائے یہ اس کی انتظار کے لئے بیٹھ جائے یا وہ اپنے گھر کو صاف کر رہا ہوگا، مہمان کی شان کے مطابق اس کے بیٹھنے کی جگہ بنائے گا، کھانا ، پذیرائی کا انتظام کرے گا اسقبال کی تیاری کرے گا۔
اپنے منتظر کی شان کے مطابق تیاری کرے گا اور ساتھ ساتھ دعا بھی مانگے گا کہ کوئی رکاوٹ نہ آجائے !وہ ضرور آجائے۔
کیا ہم امام مہدی علیہ السلام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں
اب سوچیئے! کیا ہم سب حضرت امام زمانہ (عج) کو دعوت نہیں دے رہے کہ وہ اس جگہ تشریف لے آئیں جس جگہ ہم اس وقت رہتے ہیں ہمارے گھروں، ہماری بستیوں، ہمارے شہروں، ہمارے ملکوں میں آئیں اورہمارے لئے خوشحالی دیں ہمارے لئے حکومت تشکیل دیں، سوال یہ ہے کہ ہم نے ان کی آمد کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ کیا ہم خود انہیں قبول کرنے کے لئے، ان کے عادلانہ نظام کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ ہیں؟ اور اس نظام کے لئے جو کچھ چاہیں گے وہ سب کچھ ہم کرنے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہمارے گھر اس کے لئے آمادہ ہو چکے ہیں کہ حضرت امام زمان علیہ السلام ہمارے گھروں میں تشریف لے آئیں یا ہمارے گھروں کے اندرظلم کا سایہ ہے ، مردگی ہے، فحاشی ہے، بداخلاقی ہے، ہماری رگوں میں حرام سرایت کر چکا ہے۔
کیا ہمارے دلوں کی طہارت اور نظافت ہو چکی ہے تاکہ ہم اپنے مولا کا استقبال کر سکیں یا حسد، بغض، کینہ ایک دوسرے سے نفرت، دھوکہ، خیانت، چغلخوری، غیبت، بدگمانی جیسی بیماریاں اور نجاستیں ہمارے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔
ہمارے اوپر لازم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ذکر سے اپنے دلوں کو آباد کرنے کے لئے ہم پہلے ان دلوں کو شیطان اور اس کے کارندوں کی یادوں سے خالی کر دیں۔ہمارے اوپرواجب ہے کہ ہم ظہور کی علامات کا سوال کرنے سے پہلے اور ان علامات کے ظاہر ہونے کی انتظار کرنے سے پہلے خود کو اپنے مولا علیہ السلام سے ملاقات کے لئے تیار کریں(ارواح العالمین لہ الغدی)
ظہور سے پہلے منتظرکوکیاکرناچاہیے؟
میں نے سادہ اور عام فہم مثالیں دی ہیں اور چند مثالیں دی ہیں قاری متوجہ رہے کہ اسے ظہور سے پہلے کیا کرنا ہے خاص کر جو کچھ آپ کے ظہور کی تمہید، تیاری، آمادگی، اپنے اندر قابلیت معلومیت اورصلاحیت پیدا کرنے کے لئے کرنا ہے اس کے واسطہ آگاہ ہو اور اسی تناظر میں وہ خود کو تیار کرے حضرت امام مہدی علیہ السلام کو قبول کرنے کے لئے ہر منتظر کا فرض ہے کہ وہ خود کو تیار اور آمادہ کرے، ملاقات تو آپ علیہ السلام کے ظہور کے یقین کو مستحکم کرنے کا وسیلہ ہیں۔
ایسی علامات جن کا واقع ہونا یقینی ہے
ایسی علامات جن کا ظہور سے پہلے واقع ہونا حتمی ہے، اس بارے چند روایات ملاحظہ ہوں۔
ابوحمزہ ثمالی: میں نے حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام سے سوال کیا حضرت امام ابوجعفرعلیہ السلام فرمایا کرتے تھے:سفیانی کا خروج حتمیات سے ہے؟
حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام: جی ہاں!
ابوحمزہ: بنی عباس کا آپس میں اختلاف حتمیات سے ہے؟
امام علیہ السلام: جی ہاں!
ابوحمزہ: نفس زکیہ کا قتل ہونا حتمیات سے ہے؟
امام علیہ السلام : جی ہاں!
ابوحمزہ: قائم علیہ السلام کا خروج حتمیات سے ہے؟
امام علیہ السلام: جی ہاں!
ابوحمزہ: وہ نداءکس طرح آئے گی جس کے بعدظہورہوناہے؟
امام علیہ السلام: آسمان سے دن کے شروع میں منادی اس طرح آواز دے گا”الا ان الحق فی علی وشیعتہ کہ لوگو!آگاہ ہو جاﺅ حق علی علیہ السلام اور علی علیہ السلام کے شیعوں کے ساتھ ہے ۔
پھر دن کے آخری حصے میں ابلیس لعنتی آواز دے گا”الاان الحق فی السفیانی وشیعتہ“ سفیانی اور اس کی جماعت حق پر ہے۔
یہ ایسا مقام ہو گا کہ باطل پر چلنے والے شک میں پڑ جائیں گے ۔
(کمال الدین ج۲ص۲۵۶باب ۷۵حدیث ۴۱)
حتمی علامات
عبداللہ بن سنان کا بیان ہے: حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام نے فرمایا:نداءکا آنا، سفیانی کا خروج، یمانی کا قیام، نفس زکیہ کا قتل ہونا آسمان سے ہاتھ کا طلوع ہونا حتمیات سے ہیں ماہ رمضان میں خوفناک چنگھاڑ آئے گی جو سوئے ہوئے کو جگا دے گی ہرشخص پریشان ہو جائے گا حتیٰ کہ جوان لڑکی اپنے پردہ سے باہر آجائے گی۔
(الغیبة ص۲۶۲حدیث ۸علامات الظہور)
ایک اور روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہے کہ چند راوی اسے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے سفیانی ، نفس زکیہ کا قتل ہونا، قائم علیہ السلام کا خروج، بیداءمیں زمین کا دھنس جانا، آسمان سے ہاتھ کا طلوع ہونااور نداءکا آنا، ان کے بارے سوال کیا کہ یہ حتمیات سے ہیں(ہر ایک بارے الگ الگ سوال کیا گیا)آپ نے سب کے بارے جواب میں فرمایا: جی ہاں! یہ حتمیات سے ہیں۔
راوی: نداءکس قسم کی ہوگی۔
امام علیہ السلام: منادی قائم علیہ السلام اور ان کے باپ کا نام لے کر آواز دے گا۔
حمران بن اعین: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت قائم علیہ السلام کے قیام سے پہلے سفیانی کا خروج بیداءزمین(مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی ہے) کا دھنسنا، نفس زکیہ کا قتل ہونا، آسمان سے نداءکا آنا حتمی ہے(الغیبت ص۲۷۲ص۶۲۔علامات الظہور)
ان کے علاوہ جتنی علامات ہیں وہ اجتماعی ہیں اور وہ بہت ہی زیادہ تعداد میں ہیں کہ اس کتاب میں ان سے بحث کرنے کی گنجائش نہ ہے۔
علامات بارے آگہی
ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ ان علامات بارے آگاہ ہونے کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ان علامات کو جان لینے کے نتیجہ میں امام علیہ السلام کا ظہور جلدی نہیں ہوگا اور ان سے آگاہ نہ ہونا ظہور مبارک کو موخر بھی نہ کرے گا اور جو اس قسم کی روایت ہے کہ ان علامات سے آگاہ ہونا اور ان کو عام کر دینا ظہور کی تاخیر کا سبب بنے گا تو اگر اس قسم کی روایات صحیح ہوں تو پھر یہ کسی مخصوص زمانہ کے حوالے سے ہے عمومی ایسا نہیں ہے۔
علاوہ برایں اس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ ایسے رازوں کو عام کرنا جو حضرت قائم علیہ السلام کی ذات اور ان کی صفات اور علامات کے بارے ہوں اس بارے منع کیا گیا ہو، خاص کر آپ کے ظہور اور قیام کے لئے تیاری اور آمادگی کے حوالے سے جو کچھ بیان کر آئے ہیں ان وسائل کا افشاءکرنا اور اپنے بارے مخالفین کومعلومات دینا تواس سے روکا گیا ہے۔
ظہور کی غیرحتمی علامات بارے بحث کرنے میں قباحت
اس جگہ غیر حتمی علامات کو عام کرنے میں ایک قباحت موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے عقیدت کمزور پڑ جائے گی کیونکہ جس وقت ہم ایک علامت کو ذکر کریں کہ مشرق زمین پر آگ کے شعلے بھڑکیں گے اس کا تعین ہم کر دیں یا خلیفہ کی موت ہو گی اس کا نام بھی ہم ذکر کردیں اوریہ ہوجائے پھر اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور نہ ہو تو اس کا منفی اثر پڑے گا کیونکہ مشرق میں کتنی زیادہ آگ لگی ہے اور کتنے زیادہ خلفاءاور بادشاہ ایک نام کے ہلاک ہوئے ہیں اسماءمشابہ ہوتے ہیں جب ایک علامت جو ظاہر ہو اور اس میں نام کی شباہت اور جگہ کا عنوان بھی مشابہ ہو تو پھر جو حتمی علامات ہیں ان کے بارے بھی عقیدہ پر منفی اثر پڑے گا۔
اجتماعی اور اقتصادی طور پر بھی اس کے منفی اثرات ہوں گے جس سے فتنہ اور بدامنی ہو گی یا تو کچھ کمزور ذہن لوگ اسے عام کر دیں گے اور جس شہر میں وہ علامت ظاہر ہوئی ہو گی اسے چھوڑ دیں گے اور اپنے مفادات کو اس مملکت سے ترک کر دیں گے فتنہ میں پڑنے اور قتل ہونے کے خوف سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں گے۔
ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کے لوگ اپنے واجبات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تحریک کے حوالے سے ان پر عائد ہوتے ہیں اور ہم پہلے ابواب میں اسے بیان کر آ ئے ہیں۔
یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ ظہور مبارک کے عقیدہ کوکمزور کرنے کے لئے اور اس کی کیفیت کو خراب کرنے کے لئے دشمنان خدا کی جانب سے اس بارے پیشگی منصوبہ بندی کر لی جائے اور مومنین کے نظریات اور افکار منتشر ہوجائیں، صحیح اور غلط گڈمڈ ہو جائے اس قسم کی سازشوں بارے ہم نے پہلے آگاہ کردیاہے۔
ہمارا واجب کیاہے؟
پس ہمارے اوپر واجب ہے کہ ظہور مبارک کے حوالے سے ایسے واقعات و احادیث بیان کرنے سے گریز کریں جن کی وجہ سے دشمنوں کو موقع مل جائے کہ وہ اپنے مقاصد کے لئے ان واقعات کو استعمال کریں تاکہ عوام گمراہ ہو جائیں۔
عادلانہ، شریفانہ حکومت کے قیام میں اس طرح رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں اور دشمن ایسی حکومت کے قیام کی ناکامی کے لئے اپنی ساری توجہات کو ایک جگہ پر ہی مرکوز کر لیں۔
|