حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

علم کا نتیجہ احاطہ اور مشاہدہ کی وسعت ہے
روح القدس سے متعلق روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: روح القدس کے وسیلہ سے انہوں نے عرش کے نیچے سے لے کر تحت ثریٰ تک کا علم حاصل کر لیا روح القدس ثابت اور موجود ہے وہ دیکھتا ہے جو کچھ مشرق اور مغرب، خشکی اور تری میں موجود ہے۔
راوی: میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں!امام علیہ السلام اپنے ہاتھ سے اس چیز کو اٹھا سکتا ہے جو بغداد میں ہے۔
امام علیہ السلام: جی ہاں! جو کچھ عرش کے نیچے ہے اور جو کچھ بھی اس کائنات میںہے سب کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں۔(بصائرالدرجات ص۴۵۴حدیث ۳۱، ان روح القدس یتلفاھم)

روح القدس سے مراد
روح القدس ایسا موجود ہے جو انہیں (آئمہ اطہار علیہم السلام) علم دیتا ہے یا ایسا موجود ہے جس کے وسیلہ سے وہ علم وصول کرتے ہیں اور اسی سے انہیںمشرق و مغرب سے عرش تک ہر چیز پر قدرت حاصل ہے(اور وہ ہر قسمی تصرت کر سکتے ہیں)
ذوالقرنین کے متعلق حضرت امام حسن علیہ السلام سے سوال کیا گیا اللہ تعالیٰ کے اس قول بارے کہ ”اور ہم نے اسے ہر چیز کا سبب عطا کر دیا، انہیں علم دیا کہ وہ منزلوں کے اسباب کو حاصل کرلیں“۔(تاریخ دمشق ج۷۱ص۹۳۳، ترجمہ ذی القرنین قم ۶۰۱۲)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حق میں فرمایا:ان کے پاس وہ کچھ ہے جو ذو القرنین کے پاس تھا اور ان سے چندبرابر آگے بڑھ گئے ہیں جس سے انہوں نے ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کا مشاہدہ کیا ہے یعنی جو علم ان کے پاس ہے اس کے وسیلہ سے انہوں نے پوری بشریت اور انسانیت کا مشاہدہ کیاہے۔(الہدایة الکبریٰ ص۰۷۲)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قدرت اور طاقت
حذیفہ اور کعب الاحبار دونوں سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قدرت بارے یہ روایت موجود ہے ”پس مہدی علیہ السلام سات تکبیریں بلند کریں گے پس آپ علیہ السلام کے واسطے ہر رکاوٹ اور دھار ٹوٹ جائے گا اور ان میں قسطنطنیہ کا سقوط بھی شامل ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قدرت بارے ارشاد فرمایا: حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک لکڑی کو زمین میں گاڑ دیں گے تو وہ فوراًسرسبز ہو جائے گی اورپتے نکالے گی(عقدالدرر ص۰۸۱،۱۸۱)
امیرالمومنین علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام کی قدرت بارے فرماتے ہیں کہ حضرت مہدی علیہ السلام پرندے کو اشارہ کریں گے اور وہ آپ علیہ السلام کے ہاتھوں پر آ گرے گا۔
(عقدالدرر فی اخبار المنتظر ص۸۳۱ باب ۶۔ الہدایة الکبریٰ ص۴۰۴۔الانوار النعمانیہ ج۲ص۸۸)
حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: جس وقت ہمارے قائمعلیہ السلام قیام فرمائیں گے تو آپ علیہ السلام سارے بندگان کے سروں پر ہاتھ رکھیں گے جس سے ان کی عقلیں اور فکریں کامل ہو جائیں گی(عقدالدرر فی اخبار المنتظر ص۸۳۱۔باب السادس ، الانسان الکامل ص۵۲۱،باب۴)
امیرالمومنین علیہ السلام کے الفاظ میں امام مہدی علیہ السلام کا علم اور قدرت
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا خطاب ہے جس میں آپ امام مہدی علیہ السلام کے اوصاف کو بیان فرماتے ہیں اس میں ہے آپ ہیبت رعب و دبدبہ کا لباس پہنے ہوں گے علم الضمیر(اندر کا علم)آپ کے پاس ہوگا غیب کی آپ کو اطلاع ہو گی علی الاطلاق(ہرحوالے سے)آپ کوحق تصرف حاصل ہوگا۔(مشارق انوار الیقین ص۵۱۱)
قائم منتظر کے لئے ہوا مسخر ہوگی۔ (الانوار النعمانیہ ج۲ص۳۹)
آپ کے پاس پانی زمین سے نکالنے کی طاقت ہوگی۔(مجموعة ورام ص۳۲۶)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی طاقت اور آپعلیہ السلام کا اسلحہ
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا فرمان ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی: یا رب میرے اوصیاءعلیہ السلام کون ہیں؟تو آواز آئی کہ تیرے اوصیاءعلیہ السلام کے نام عرش کے پائے پر درج ہیں تو میں نے ان اسماءپر نگاہ ڈالی جب کہ میں اپنے رب کے سامنے موجود تھا عرش کے ستون تک میری رسائی تھی تو میں نے ۲۱ ، انوار کامشاہدہ کیا ہر نور میں ایک سبز سطر تھی جس پر میرے اوصیاءعلیہ السلام سے ہر وصی کا نام درج تھا ان کا پہلا علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ان کے آخری میری امت کے مہدی علیہ السلام ہیں۔
رسول اللہ: میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی ،کیا یہی میرے اوصیاءعلیہ السلام ہیںجومیرے بعد ہوں گے؟
نداءالٰہی: اے محمد! یہی میرے اولیاءعلیہ السلام ہیں ،میرے احباءہیں، میرے اصفیاءہیں، میرے دلائل اور حجج ہیں، تیرے بعد میری مخلوق پرحاکم ہیںاور وہ سب تیرے اوصیاءاور تیرے خلفاءہیں اور تیرے بعد میری مخلوق سے بہترین ہیں، مجھے میری عزت اور جلالت کی قسم ہے میں ان کے وسیلہ سے اپنے دین(نظام)کوضرورغلبہ دوںگا اوران کے ذریعہ میں اپنے کلمہ اور اپنی بات کو ضرور بالضرور سب پر حاوی کروں گا اور ان اوصیاءسے جو آخری ہو گا اس کے ذریعے میں زمین کو اپنے دشمنوں کے وجود سے ضروربالضرور پاک کردوں گا اور میں اسے زمین کے مشارق و مغارب کا مالک بنا دوںگااورمیں اس کے لئے ہواﺅں کو مسخر کر دوںگااورسخت وسرکش گردنوںکوان کے لئے جھکادوںگااورمیں اسے سارے اسباب اوروسائل پر ترقی دوں گا اور میں اس کی اپنے فرشتوںکے توسط سے ضروربالضرور مدد کروں گا تاکہ وہ میری دعوت کا اعلان کرے گا اور پوری مخلوق کو میری توحید پراکٹھا کر دے گاپھر میں اس کی سلطنت اور ملک کو دوام دوں گا اور پھر قیامت کے دن تک ان ایام کو اپنے اولیاءکے درمیان بھیجتا رہوں گا۔(کمال الدین ص۵۵۲یا۳۲حدیث۴)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ فرمان حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے کہ میں زمین کے مشارق و مغارب کا ضروربالضرور مالک بناﺅں گا، کیونکہ اللہ عزوجل حضرت ولی عصرعلیہ السلام کو جب مشرق اور مغرب کا مالک بنا دے گا بادلوں کو ان کے اختیار میں دے دے گا، ہواﺅں کا کنٹرول ان کے پاس ہوگا۔
تویہ سب بیانات امام مہدی علیہ السلام کی قدرت کو واضح کر رہے ہیں اور یہ کہ امام علیہ السلام کے اختیارمیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا انہیں مالک بنایا ہے اور جو علم انہیں عطاءکر دیا ہے وہ اس کے تصرف اور استعمال میں بااختیارہوںگے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:میری اولادسے چوتھے کنیزوں کی سردار کے بیٹے ہر جَور سے زمین کو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے پاک کر دے گا اور ہر ظلم سے زمین کوخالی کر دے گا ظلم کا نام و نشان نہ رہے گا اور وہ ایسا شخص ہے کہ جن کی ولادت پر سارے لوگ شک کریں گے ان کے لئے ایک غیبت ہے اور یہ غیبت ان کے خروج سے پہلے ہو گی جب وہ خروج کرےں گے تو ان کے نور کے وسیلہ سے زمین چمک اٹھے گی وہ لوگوں میں عدالت کا ترازو لگا دیں گے کوئی ایک بھی کسی پر ظلم نہ کرے گا وہ ایسے ہیں کہ جن کے لئے زمین لپیٹی جائے گی ان کے لئے کوئی سایہ نہ ہو گا ان کے لئے منادی آسمان سے نداءدے گا جس کو ساری زمین والے سنیں گے اس نداءمیں ان کی طرف دعوت دیں گے آواز دینے والے اس طرح پکارے گا ”الاحجة اللہ قدظہرعندبیت اللہ فاتبعوہ فان الحق فیہ ومعہ“ آگاہ ہو جاﺅ اللہ کی حجت کا ظہور بیت اللہ کے پاس ہو چکا ہے بس تم سب اس کی پیروی کرو کیونکہ حق ان میں ہے اور حق ان کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا سورہ الشعراءآیت ۴ میں فرمان اسی بات کی طرف اشارہ ہے ”اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ان کے لئے نشانی کو اتاردیں تو ان کی گردنیں اس نشانی کے سامنے جھک جائیں گی۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مہدی علیہ السلام میری اولاد سے ہے ان کا نام میرے والا نام ہے، ان کی کنیت میرے والی کنیت ہے وہ خلقت میں اور اخلاق میں عام لوگوں سے زیادہ میرے مشابہ ہوگا ان کے لئے ایک غیبت ہو گی اور اس میں حیرت ہو گی سرگردانی ہوگی بہت ساری اقوام اس دوران گمراہ ہو جائیں گی بھٹک جائیں گی پھر وہ شہاب ثاقب کی مانند آگے بڑھیں گے اورتیزی سے نمودار ہوں گے زمین کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین جور اور ظلم سے بھرچکی ہو گی۔(فرائدالسمطین ج۲ص۵۳۳حدیث ۶۸۵)
البحار میں بصائر اور الاختصاص سے عبدالرحیم کے واسطہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت ابوجعفر علیہ السلام نے فرمایا: بہرحال ذوالقرنین جو ہے تو ان کے لئے دو بادلوں میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے ذلول(نرم) بادل کا انتخاب کیا اور تمہارے صاحب الامر امام کے لئے صعب(سخت) بادل کو ذخیرہ کر کے رکھ دیا گیا۔

سوال:صعب بادل سے کیامراد ہے؟
امام علیہ السلام: یہ ایک ایسا بادل ہے جس میں گرج، کڑک، چمک ہے، بجلی کی مانند تیز روشنی ہے، پس تمہارے صاحب (امام)اس پر سوار ہوں گے بہرحال وہ سحاب پر سوار ہوں گے اور اسباب پر اٹھ جائیں گے سات آسمانوں اور سات زمینوں کے تمام جگہوں پر جائیں گے پانچ ان میں آباد ہیں اور دو ان میں ویران ہیں۔
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لئے دو بادلوں کا اختیار دیا انہوں نے ذلول بادل کا چن لیا جس میں بجلی کڑک، چمک دمک اور گرج نہ تھی اور اگر وہ صعب بادل کا انتخاب کرتے تو وہ انہیں عطا نہ ہوتا کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حضرت قائم علیہ السلام کے لئے انتخاب کر چھوڑا ہے وہ ان کے لئے مخصوص ہے۔(بصائرالدرجات ج۸ص۸۷۲۔۹۷۲ باب ۵۱ ج۱۔۳۔ الاختصاص ص۴۹۱۔بحارالانوار ج۲۵ص۱۲۳باب ۷۲۔ ذیل ۷۲۔ ۲۱/۲۸۱۔ حدیث ۱۲)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب کی قدرت اور طاقت
حدیث مفضل میں بیان ہوا ہے: حضرت امام مہدی علیہ السلام رکن اور مقام (مقام ابراہیم) کے درمیان ٹھہریں گے اور آپ وہاں پر بلند آواز میں اس طرح اپنے انصار کو بلائیں گے۔آپ کہیں گے:
اے میرے نقباءکی جماعت،اے میرے خاصان! وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے میری نصرت کے لئے میرے ظہور سے پہلے ذخیرہ کر کے رکھا ہوا ہے اس زمین پر تم سب میرے پاس فوری آجاﺅ پس یہ آواز اور گونج سب تک ان کے پاس پہنچ جائے گی جب کہ وہ اپنے محرابوں اور اپنے بستروں پر ہوں گے زمین کے مشرق اور مغرب میں ہوں گے تو وہ سب اس آواز کو اسی وقت سنیں گے وہ آواز ان کے کان میں جا پہنچے گی پس وہ سب اس آواز پر جواب دیں گے ان کے لئے وقت نہ گزرے گا ایک پلک جھپکنے کی دیر نہ لگے گی اور پھر وہ سب رکن اور مقام کے درمیان حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سامنے موجود ہوں گے اور اللہ عزوجل نور کو حکم دیں گے تو وہ نور زمین سے آسمان تک ایک ستون بن جائے گا زمین پر موجود ہر مومن اس سے روشنی حاصل کرسکے گا اور اس پر نور اس کے گھر کے اندر سے داخل ہوگا مومنوں کے دل اس نور کی وجہ سے خوش ہوں گے جب کہ وہ اس وقت ہم اہل البیت علیہ السلام سے قائم علیہ السلام کے ظہور بارے آگاہ نہیں ہوں گے پھر وہ سب امام علیہ السلام کے سامنے موجود ہوں گے ان کی تعداد تین سوتیرہ مرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنگ بدر میں اصحاب کی تعدادکے برابر ہو گی(بحارالانوار ج۳۵ ص۷باب ۵۲)

عقلاءکے بیان سے دلیل اور حقیقی صورتحال
اس عنوان میں ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک اس وقت علمی حوالے سے مفکرین اور دانشور پہنچ چکے ہیں عسکری میدانوں میں،صحت کے میدانوں میں، اجتماعی یا اقتصادی میدانوں میںہم سب کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں۔
۱۔ عسکری سطح پر یہ بات ہے کہ اس زمانہ کے عقلائ، دانشور پورے عالم اور دنیا میں ایسی حکومت کو سب سے بڑی طاقت سمجھتے ہیں جس کے پاس سب سے زیادہ ایٹمی صلاحیت ہے جب ہم اس بات بارے غور کریں گے کہ وہ بڑی ایٹمی طاقت کیسے بنی ہے تو ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اس ملک نے علمی میدانوں میں ترقی کر لی ہے سائنس دانوں نے مسلسل کئی سالوں کی جدوجہد اور محنت شاقہ کے بعد اور مسلسل علمی تجربات کرنے کے بعد اس طاقت کو حاصل کیا ہے ایسی ایجاد تک پہنچنے کے لئے انہیں بہت زیادہ تجربات سے گزرنا پڑا ہے آخر کار ایسی قوت اور طاقت کو حاصل کر لیا ہے کہ جس کے ذریعہ وہ ایسی طاقت کے مالک بن بیٹھے ہیں کہ ایسی تباہی لائی جا سکتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ایٹمی اسلحہ یا ایٹمی طاقت علمی اور سائنسی نظریات سے مربوط ہے، اس کے نتیجہ میں یہ طاقت حاصل ہوئی ہے۔ عقلاءیہ بات بھی کر رہے ہیں کہ جو کچھ اس وقت بڑی طاقتوں کے پاس موجود ہے اور جس حد تک وہ علمی میدانوں میں آگے جا چکے ہیں اگر کوئی اور ملک اس سے زیادہ جدید ترقی حاصل کر لے اور اس کے پاس موجود نظریات سے بڑھ کر جدید نظریات اور حاصل ہو جائیں جو ان حکومتوں کے پاس موجود نہ ہوں تو وہ بڑی ایٹمی طاقت بن جائے گی اور پھر وہی سپرپاور کہلائے گی اور وہ بڑی حکومت ہو گی اورسب سے زیادہ طاقتور ہو گی۔اسی طرح اگر کوئی حکومت ایسے مائع یا مادہ کو حاصل کر لے جو ایٹمی اثرات کو زائل کر دے تو وہی حکومت دوسری حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہو گی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ علم ساری طاقتوں کا سرچشمہ اورمنبع ہے اور علم ہی سے پورے عالم پر تسلط اور برتری حاصل کی جا سکتی ہے یہ بھی عقلاءکا فیصلہ ہے اور جس حد تک عقلاءاور سائنس دانوں کی تحقیقات اور ایجادات پہنچ چکی ہیں تو اس کا نتیجہ بھی یہی ہے۔
۲۔ اسی طرح جب ہم طبی حوالے سے بات کریں اور صحت عامہ بارے دیکھیں تو علم طب میں حیرت انگیزترقی ہوئی ہے اور بیماریوں کے علاجات کو ایجاد کیا گیا ہے پس ایسی دوائیںجن سے بیماریوں کا علاج ہوسکے اور ان کے منفی اثرات بھی نہ ہوں تو ایسی تحقیقات کرنے والے دوسروں پر غلبہ پالیں گے۔
تمام عقلاءاس بات پر اکٹھے ہیں کہ کسی بھی علاج کی کامیابی یا دوا کا موثر ہونا علمی نظریات کا نتیجہ ہے جس تک اس میدان میں علماء، اطباء، محققین پہنچ چکے ہیں اس کے ساتھ علمی تجربات کا لحاظ بھی رکھا جائے گا تجربات سے کسی دوا کے اثرات کا انکشاف ہوتا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ طب کے میدان کی مضبوطی بارے استحکام بھی علمی نظریات کا نتیجہ ہے۔
۳۔ اقتصادی میدانوں میں بھی یہی صورتحال ہے، اقتصادی طاقت ایسے عوامل اور اسباب کے مجموعہ پر قائم ہوتی ہے کہ ان نظریات کو اقتصادیات کے ماہرین نے کشف کیا ہوتاہے معاشرتی اجتماعی اور ثقافتی میدانوں میںایسا ہی ہے کہ معاشرہ انحراف سے محفوظ ہو بداخلاقی کے گھڑے میں نہ جا گرے تو یہ بھی اس اجتماعی نظریہ کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔
اخلاقی پہلو کو لیں کسی معاشرہ میں فساد کا عام ہو جانا،معاشرہ کی تباہی ، اخلاقی نظریات میں انحرافات کانتیجہ ہے ۔ جب کسی معاشرہ کی اخلاقی قدریں متزلزل ہو جائیں تو وہ معاشرہ فساد زدہ ہو جاتا ہے اور جس معاشرہ کی بنیاد مضبوط اخلاقی نظریات پر ہو تو وہ معاشرہ مضبوط ہوگا اور انحراف سے دور ہو گا۔
اسی قانون کو زندگی کے تمام شعبہ جات میں لاگو کریں، کھیل کے میدان میں، تہذیب کے میدان میں، نشریات کے میدان میں، ذرائع ابلاغ میں، لیکن ہم اسی مقدار پر اکتفاءکرتے ہیں ۔
جی ہاں! ان کے مراتب عہد اور حالات مختلف ہیں ان علوم کی طبیعت اور مزاج میں فرق ہے لیکن سب کا سہارا علمی نظریات ہیں۔
لیکن ان نظریات کو صحیح طریقہ پر نافذ کرنا اس قوت اور طاقت کی بنیادی شرط ہے۔
خلاصہ:۔ کائنات پر غلبہ، تسلط اور طاقت حاصل کر لینا یا کائنات کے کچھ حصہ پر غلبہ پا لینا تو اس کا سارا خلاصہ اور بازگشت سائنس، علمی نظریات ہی پرہے کہ جس کے نتائج میں ایجادات اور اختراعات حاصل ہوتی ہیں....پاک ہے وہ ذات جس نے انسان کو علم دیا ہے اس کا جو اسے علم نہ تھا۔عالمی سطح پر تمام تر طاقت کا راز علم کی ترقی پر ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام پورے عالم میں تبدیلی لائیں گے
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علم کی وسعت بارے جو کچھ بیان ہو چکا ہے اس سے واضح ہو گیا کہ آپ علیہ السلام کا علم اس قدر وسیع ہوگا جس کی حد اور انتہاءکا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ کس قدر اس علم کی طاقت ہو گی اور اس کے زندگی کے منابع پراس کے کیا اثرات ہوں گے یا کائنات میں طاقت کا منبع اور سرچشمہ جو ہوگاتو اس کے کائنات پر اور زمین میں بسنے والی مخلوقات اور انسان پر کیا اور کس قسم کے اثرات ہوں گے۔
لیکن یہ بات جانناہمارے لئے ممکن ہے یا اس کا تصور کر سکیں کہ عدالت کے امام ، علم و سائنس کے امام ،علمی، فنی، تکنیکی میدانوں میں ترقی کی کیا کچھ منزلیں طے کریں گے اور کیا کچھ تبدیلیاں لائیں گے؟پہلے اس سب کے امکان پر بات ہو گی اورپھر اس سب کچھ کے وقوع پذیر ہونے پر بھی بات ہو گی۔

مفکرین، دانشوروں اور نئی نئی ایجادات کرنے والوں کے لئے بشارت
اس بات کے امکان بارے تو واضح ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علم کی وسعت اور قدرت بارے جو کچھ بیان ہو چکا ہے اس سے واضح ہے کہ ہر دانشور اور ہر مخترغ نے کائنات میں جو کچھ بنانے اور ایجاد کرنے کا جو خواب بھی دیکھا ہو گاوہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پورا کر دیں گے۔ زندگی کے مختلف پہلوﺅں میں اور زندگی کے تمام علمی، فنی، تکنیکی، سائنسی، اجتماعی، معاشرتی ، سیاسی، اقتصادی میدانوں میں وہ کچھ کر دیں گے جس کا کسی دانشور یا عالم یا سائنس دان نے تصور کیا ہوگا۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ:”سلونی سلونی قبل ان تفقدونی قانا بطرق السماءاعلم منی بطرق الارض“(نہج البلاغہ ج۲ص۰۳۱ شمارہ ۹۸۱)
”مجھ سے سوال کرو قبل اس کے کہ تم مجھے اپنے درمیان نہ پاﺅ، بتحقیق میں تو آسمان کے راستوں کو زمین کے راستوں سے زیادہ جانتا ہوں“۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام آئیں گے تاکہ پوری کائنات میں اپنے جد امجد کے اس فرمان کو سچ ثابت کر دکھائیں اور بتائیں گے کہ حضرت علی علیہ السلام کی مراد اس فرمان سے کیا تھی اور اس کا علمی اور مادی اثر کیا ہے جس سے کائنات ماضی کے سالوں میں محروم رہی اور علمی کارناموں کی برکات اور اس کے نتائج سے مستفید نہ ہو سکی۔
ایسی ہستی آئیں گے جو ان سرد آہوں کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیں جو حضرت علی علیہ السلام اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے بھرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس میں علم کے خزانے ہیں، کاش! اس علم کو لینے والے مجھے مل جاتے اور میں یہ علم انہیں دیتا۔(الخصال ص۶۸۱)
یا حضرت علی علیہ السلام کا نہج البلاغہ ج۱ص۱۴ خطبہ نمبر۵ میں جو ارشاد ہے کہ ”علم پوشیدہ موجود ہے اس کو سامنے لاﺅں تو تم اس طرح مضطرب ہو جاﺅ گے جس طرح صحرا میں تند ہواﺅں سے ذرات مضطرب ہوتے ہیں“۔
آج کے علمائ، مفکرین، دانشوروں، سائنس دانوں کے لئے یہ بشارت ہو کہ ہمارے لئے بہت جلدایک بڑی بشارت اور خوشخبری آنے والی ہے جس سے تم اپنے نظریات کے صحیح ہونے کو جان سکو گے اور ان نظریات میں ایسی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرو گے کہ جن کے تصور سے اس وقت تمہیں وحشت ہو جاتی ہے پس تمہارے لئے ایسی حکومت قائم ہونے والی ہے جو تمہاری ساری آرزوﺅںکو پورا کر دے گی تمہارے لئے یہ سب مبارک ہو، اس حکومت میں آپ کے لئے بڑا حصہ ہوگا اور تم علماءاور مفکرین ، سائنس دان ہی اس حالت سے سب سے زیادہ خوشیاں مناﺅ گے کیونکہ تمہیں اپنے خیالات اور تصورات کی دنیا مل جائے گی۔

حضرت امام عصر علیہ السلام کا زمانہ ایسے زمانے کا آغاز ہو گا جس کی انتہا نہیں
اس جگہ میرے سامنے حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی گفتگو ہے جو بہت ہی عمدہ اور خوبصورت ہے آپ نے فرمایا:
بعض کا تصور ہے کہ بقیة اللہ کے ظہور کا دور آخری زمانہ ہے اور اسی سے عالم کا خاتمہ ہے۔ لیکن میں یہ کہتا ہوںکہ بقیة اللہ کے ظہور کا زمانہ درحقیقت اس عالم کا آغاز ہے اور یہی صراط مستقیم ہے جس پرہر انسان کی حرکت کا پہلا قدم ہوگا،ایسا فرق نہیں کہ یہ سب کچھ بعض رکاوٹوں کے ہمراہ ہو یا اس میں رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور یہ حرکت بڑی تیزی سے ہو گی اور اس تحریک کے لئے ہر قسم کے لئے تمام لوازمات کو پورا کر دیا جائے گا۔
اگر ہم فرض کر لیں کہ الٰہی صراط مستقیم ایک بڑی شاہراہ ، موٹروے سے مشابہت رکھتی ہے جو سیدھی ہے اور تیار شدہ ہے کہ سارے انبیاءعلیہ السلام ماضی کی لمبی صدیوں میں، ہزاروں سال کی محنت شاقہ انہوں نے کی ہے تاکہ انسان انسانیت کو غیر مبہم اور ہلاکت میں جا پھینکنے والے راستوں سے بچالیں اور ایک مضبوط اور پختہ، مستحکم شاہراہ کی انہیں راہنمائی کریں جب انسان کی انسانیت اس راستہ پر پہنچے گی تو وہ اپنی پختگی کی آخری حد کو چھو رہی ہو گی اور پھر اس شاہراہ پر سب چلیں گے اور بغیر رکاوٹ کے چلیں گے سب کے لئے اس پر چلنا آسان ہوگا اس میں انہیں کسی قسم کے فسادات اور نقصانات کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔عصر ظہور اس قسم کا زمانہ ہوگا جس میں بشریت سکھ کا سانس لے گی اور الٰہی موٹروے پر چلے گی عالم طبیعات میں جتنی پوشیدہ قوتیں ہیں ان سب سے انسانیت فائدہ اٹھائے گی اور انسان کے اپنے وجود میں جوقابلیتیں اور صلاحیتیںہیں ان سب سے انسان بہرہ مندہوگا۔
اس وقت انسانی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال میں نہیں لایا جا رہا اس کی قابلیتیں ضائع ہوجاتی ہیں اسی طرح طبیعات میں جو پوشیدہ طاقتیں ہیں وہ بھی زیادہ تر ضائع ہو رہی ہیں اس وقت ہم جتنی خرابیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ماحول میں جو آلودگی ہے اس کی وجہ انسان کا اپنی تمام صلاحیتوںاور قابلیتوں کو صحیح طریقہ اور مناسب طریقہ پر استعمال میں نہ لاسکنا ہے۔
انسانیت علم اور سائنس کے طریقہ سے غافل ہے اور سیدھا اور مستحکم راستہ جس پر چلنے کے لئے الٰہی نظام کا سایہ درکار ہے اس سے موجودہ انسانیت دور ہے۔
(خطاب ۷رجب ۱۲۴۱ھ ق۔مدرسہ فیضیہ قم ایران)
اس بحث سے ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انتہائی موثر کردار اور ان کے انتہائی فعال اور متحرک علمی رول کو سمجھ سکتے ہیں۔یہ بات بھی امکانی حوالے سے ، تصوراتی لحاظ سے ہے البتہ یہ سب کچھ وقوع پذیربھی ہونا ہے تو اسے ہم ان روایات سے سمجھ سکتے ہیں جن میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علمی کارناموں کا تذکرہ ملتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ سائنسی دنیا میں کتنا بڑا علمی معجزہ تخلیق کریں گے، جس کی وجہ سے پوری علمی دنیا آپ کے آگے جھک جائے گی۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی سلطنت میں علمی انقلاب
علی بن ابراہیم القمی نے اپنی تفسیر میں مفضل بن عمر کی سند سے اس بات کو نقل کیا ہے:
مفضل: میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول”وَ اَش ±رَقَتِ ال ±اَر ±ضُ بِنُو ±رِرَبِّھَا“ (سورة الزمر آیہ ۹۶)کے متعلق یہ سنا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:رب الارض سے مراد امام الارض ہے، زمین کے امام کی آمدسے زمین چمک اٹھے گی۔
مفضل: جب آپ علیہ السلام خروج کریں گے تو اس وقت کیا ہوگا؟
امام علیہ السلام: اس وقت لوگ سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی سے بے نیاز ہو جائیں گے وہ امام علیہ السلام کے نور سے سارے کام چلالیں گے۔
(سورہ زمر آیت ۹۶۔تفسیرالقمی ج۲ص۱۷۵)
کتاب المحجہ میں بھی مفضل کی روایت ہے:
مفضل : میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے یہ بات سنی ہے کہ جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو زمین اپنے رب(اپنے امام) کے نور سے چمک اٹھے گی اور لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہو جائیں گے، دن اور رات ایک ہو جائیں گے آپ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرد کی عمر ایک ہزار سال ہو گی ہر سال اس کے لئے ایک لڑکاپیدا ہوگا اس کے لئے لڑکی پیدا نہ ہو گی وہ اسے ایساکپڑا پہنائے گاکہ وہ اسی ایک ہی کپڑے میں بڑا ہوتا جائے گا تو وہ کپڑا بھی اسی طرح بڑھتا جائے گا اور جس رنگ کو چاہے گا اس کا رنگ وہی ہو جائے گا۔(المحجہ ص۴۷)
(اس قسم کی روایات ہمارے لئے عجیب لگتی ہیں اور ہمارے اذہان میں ان کے معانی نہیں سماتے اس کی مثال ایسے سمجھیں کہ اگر ماںکے شکم میں موجود بچے کو یہ بتایا جاتا کہ تم ایک ایسی جگہ جانے والے ہو جہاں پر ہزار میل لمبا پانی کا دریا ہوگا سو فٹ اونچی کھجور ہو گی اتنی اقسام کے جانور ہوں گے اسی طرح کی جھاڑیاں بھی ہوں گی اورکئی کئی منزلہ مکانات ہوں گے جب اس کے سامنے دنیا میں موجود اشیاءکی تفصیل بیان کی جائے اور وہ بچہ عقل و شعور اور سمجھ بھی رکھتا ہو تو وہ یہ سب کچھ سن کر تعجب کرے گا اور اسے انہونا کہے گا یہی ہمارا حال ہے کہ ہم اس وقت جن حالات میں پھنسے ہیں اس کے بعد والے حالات کا تصور ہمارے لئے مشکل ہے جس طرح سوسال پہلے کے لوگوں کے لئے ہوائی جہازوں، جیٹ طیاروں، ایٹم بم وغیرہ جیسی نئی ایجادات، ٹیلیفون کی جدیدترین سروس، کمپیوٹر جیسی صنعت کو قبول کرنا مشکل تھا اب امام زمانہ (عج) کا جو دور ہوگا ظاہر ہے اس میں علمی ترقی اس قدر ہو گی جس کا ہم تصور تک نہیں کر سکتے سارا علم اول سے آخر تک دو حروف کا ہے اور جب امام زمانہ(عج) تشریف لائیں گے تو باقی پچیس حروف کا علم بھی کھل جائے گا تو پھر اس زمانہ کے حالات وواقعات اور زندگی کی سہولیات کا ادراک ہم کیسے کر سکتے ہیں؟اور کیونکر کر سکتے ہیں؟ یہی حال قبر کے اندر کے حالات، میدان محشر کے حالات،جنت اور جہنم کی کیفیات بارے ہے،ہم تو بس اتنا کہتے ہیں کہ صادق اور امین ذوات جو کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے ترجمان ہیں انہوں نے یہ سب کچھ بیان کیا ہے ہماری سمجھ میں اگر نہ بھی آئے تو ہم اس سب کچھ کو تسلیم اور قبول کرتے ہیں انکار نہیں کر سکتے، انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے....مترجم)
البحار میں مفضل سے روایت ہے کہ میں نے سنا ہے:
حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام: جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو زمین اپنے رب کے نور سے (اپنے امام کے نور سے)چمک اٹھے گی لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہو جائیں گے ظلمت اور تاریکی ختم ہو جائے گی۔
(بحارالانوارج۲۵ص۰۳۳باب ۷۲حدیث ۲۵)


وضاحت
لوگوں کا سورج کے نور سے بے نیاز ہونے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ امام علیہ السلام کا مادی نور ظاہر ہوگا یعنی اس سے مراد نور کی مادی روشنی ہی لیں یا اس سے مراد علمی انقلاب ہے روشنیاں اور انوار اس قدر عام ہوں گے کہ دن رات ایک لگیں گے جب کہ اس وقت رات کو بعض تجارتی صنعتی سرگرمیاں ماند پڑجاتی ہیں زراعت کے کام رک جاتے ہیں جب کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں یہ ساری رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی تو اس وقت دن رات کے سارے اوقات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا اس طرح دن رات ایک ہو جائیں گے اس سے مرادیہ نہیں کہ رات کا وجود ختم ہوجائے گا۔
روضة الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے شیعوں کے لئے ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں کو وسعت عطاءکر دے گا ان کے درمیان اور قائم علیہ السلام کے درمیان فاصلہ نہ رہے گا اوران کے درمیان میں واسطہ کی ضرورت نہ ہوگی جب امام علیہ السلام سے گفتگو کریں گے تو وہ سن لیں گے وہ بولیں گے تو اسے مومنین سن لیں گے اور وہ سب کچھ دیکھ سکیں گے جب کہ امام علیہ السلام اپنی جگہ پر موجود ہوں گے۔(الکافی ج۸ص۰۴۲ذیل ۹۲۳)
امام علیہ السلام سے ایک اور حدیث میں آیاہے:
آپ علیہ السلام نے فرمایا: مومن قائم علیہ السلام کے زمانہ میں اس طرح ہوگا کہ اس کا جو بھائی مشرق میں ہوگا وہ مغرب میں بیٹھ کر اسے دیکھ لے گا اسی طرح جومغرب میں ہوگا تو وہ مشرق میں بیٹھ کر دیکھ لے گا۔(بحارالانوار ج۲۵ص۱۹۳حدیث ۳۱۲)
یہ حدیث ٹیلی ویژن کی سکرین پر نمودار ہونے والی تصاویر اور ٹیلیفون پر آنے والی تصویر موجودہ ترقی کے دور میں نشاندہی کرتی ہے لیکن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیان سے یہ لگتا ہے کہ اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہوگا کیونکہ وہ ایسی حالت ہو گی جو اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھی ہو گی۔

حضرت امام عصر علیہ السلام کے دور میں علوم کی کثرت
بحارالانوار میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: آپ مومنوں کے اذہان میں علم کو ڈال دیں گے کوئی بھی مومن معلومات لینے کے حوالے سے کسی دوسرے مومن کا محتاج نہیں رہے گا اس دن اس آیت کی تاویل آئے گی ”یُغ ±نِ اللّٰہُ کُلّاً مِّن ± سَعَتِہ“(سورہ نساءآیت ۰۳۱)
(بحارالانوار ج۳۵ص۶۸)
اصول الکافی میں حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام سے اپنی اسناد کے ذریعے یہ روایت نقل کی ہے:جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندگان پر اپنی قدرت کا ہاتھ رکھ دے گا اس طرح ان کے لئے ان کی عقلوںکو اکٹھا کر دے گا اور اسی طرح ان کے سارے خیالات، احلام، تصورات، افکار کامل ہو جائیں گے اور الخرائج میں ہے کہ مومنوںکے اخلاقیات کو کامل کر دے گا۔(الکافی ج۱ص۵۲ باب العقل حدیث ۱۲ کمال الدین ج۲صفحہ ۷۶ باب ۸۵ ذیل ۰۳)
علامہ مجلسی ثانی نے مرآة العقول میں اسی ضمن میں فرمایا ہے کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ ”ومسح یدہُ“یدہُ میں ”ة“ ضمیر کا اشارہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہے کہ االلہ تعالیٰ اپنا ہاتھ بندگان پر رکھے گا یا حضرت قائم علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے کہ قائمعلیہ السلام اپنے ہاتھ کو بندگان کے سروں پر رکھیں گے دونوں صورتوں میں یہ رحمت و شفقت یا قدرت کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ اس وجہ سے انہیں پورا تسلط اور غلبہ حاصل ہوگا اور ساری معلومات ان کوحاصل ہو جائیں گی۔
اس حدیث میں جو یہ جملہ ہے کہ ”تجمع بھا عقولھم“ تو اس میں دو احتمال ہیں
ایک احتمال ہے کہ ان سب کے عقول کو حق کا اقرار کرنے پر اکٹھا کر دیں گے اس طرح کہ ان میں کسی قسم کا حق بارے اختلاف نہ رہے گا سب حق کی تصدیق کریں گے ۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے عقل مجتمع ہو گی تو یہ اکٹھا ہونے کا مطلب ہے کہ تمام نفسانی قوات اور صلاحیتیں عقل کے تابع ہوں گی نفسانی خواہشات کے متفرق ہونے کا اثر نہ پڑے گا سب عقل کے تابع ہوں گے ۔
پہلا احتمال زیادہ واضح ہے عبارت میں ”بہ“ میں ”ھائ“ کا اشارہ دفیع اور.... کی طرف ہے جب کہ ”بھا“میں”ھائ“کااشارہ ”ید“ہاتھ کی طرف ہے۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت قائم علیہ السلام بندگان کے سروں پر ہاتھ رکھیں گے جس سے سارے علوم انہیں حاصل ہو جائیں گے، عقول کی بالادستی ہو گی قدرتمند ہوں گی، سب حق کی تصدیق کریں گے، حق بارے اختلاف نہ رہے گا نہ ہی کسی کو دلائل مانگنے کی ضرورت ہو گی نفسانی خواہشات عقلوں کے تابع ہوں گی احلام، حِلم کی جمع ہے اس سے مراد بھی عقل ہے، اس جگہ علامہ مجلسی کی بات ختم ہوئی۔(مکیال المکارم ج۱ص۶۷)
بعض علماءرضوان اللہ علیہم کا بیان ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آپ معجزاتی طور پر اپنے جسمانی ہاتھ کو تمام بندگان کے سروں پر رکھ دیں گے۔
اس بات کی دلیل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے۔ الکافی میں روایت ہے اور یہ امر اس کے لئے ہوگا جس کے لئے گھٹی دی جائے گی۔ جب اللہ تعالیٰ کی اس بارے اجازت ہوگی تو وہ خروج کرے گا تو اللہ تعالیٰ سے یہ کہے گا یہ وہ ہے جسے ہونا ہے اللہ تعالیٰ اپنا دست قدرت اپنی رعیت کے سر پررکھ دے گا۔(بصائرالدرجات ص۴۰۲/۹۳)
اس سب سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عقلیں قدرت مند ہو جائیں گی انکی سوچ بڑھ جائے گی انکی سوچوں میں تبدیلی آئے گی، آسمان، فضاءسمندر ماحولیات، زمین کے اندرون ہر جگہ ترقی ہو گی ایسی ترقی ہو گی جس کاکسی نے تصور تک نہ کیاہوگا۔

منتظرین کے علم کی وسعت
ابوخالد: میں نے عرض کیا یابن رسول اللہ : یہ سب کچھ ہوگا؟
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا:جی ہاں! میرے رب کی قسم! یہ سب کچھ ہمارے پاس اس صحیفہ میں درج ہے جس میں وہ تمام مصائب اور مشقتیں درج ہیں جو ہمارے اوپرحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آئیں گے۔
ابوخالد:یابن رسول اس کے بعد پھر کیا ہوگا؟
حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام: حضرت رسول اللہ کے بعد جو اوصیاءاور آئمہ ہیں ان میں جو بارہویں ہیں ان کے لئے غیبت ہے۔
اے اباخالد! جو آپ کی غیبت میں موجود لوگ ہوں گے وہ آپ کی امامت کے قائل ہوں گے اور آپ کے ظہور کی انتظار کرنے والے ہوں گے وہ سارے زمانوں کے لوگوں سے افضل ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے عقول اور ایسی سمجھ عطاءکر دی ہوئی ہے کہ ان کے ہاں غیبت ایسے ہو گی جس طرح امام علیہ السلام ان کے درمیان موجودہوں غیبت ان کے لئے بمنزلہ مشاہدہ ہو گی اللہ تعالیٰ اس زمانہ کے لوگوں کو ایسے مجاہدین کا مقام دیں گے جنہوں نے تلوار لے کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ان کے ہمراہ جہاد کیا یہ حقیقت میں مخلصین ہوں گے اور سچے شیعہ ہوں گے اور اللہ عزوجل کے دین کی جانب ظاہر میں اور مخفیانہ انداز سے دعوت دینے والے ہوں گے۔(کمال الدین ج۱ص۹۱۳حدیث ۲،النجم الثاقب ج۱ص۳۱۵)

صحت کے میدانوں میں حیرت انگیز ترقی
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مملکت میں ایک آدمی اتنی لمبی عمر کرے گا کہ اس کے لئے ایک ہزار لڑکے پیدا ہوں گے ان میں ایک بھی لڑکی نہ ہوگی۔(النجم الثاقب ج۱ص۱۱۳)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بیان میں اس کے علاوہ بھی ہے کہ اس دور کے لوگ ہر بدعت ، آفت اور مصیبت سے امن میں ہوں گے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سنت رسول پر عمل کریں گے ان سے ہر قسم کی آفات و بلیات و شبہات دور ہوجائیں گے۔
(النجم الثاقب ج۱ص۱۱۳)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس نے ہم اہل بیت علیہ السلام کے قائم علیہ السلام کا زمانہ پا لیا تو اس وقت جو مریض ہوگا، معذورہوگا، اپاہج ہوگا،شفاءپا جائے گا جو کمزوری میں مبتلا ہوگا وہ طاقتور ہو جائے گا۔حضرت امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:جس وقت حضرت قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر مومن سے بیماری دور ہو جائے گی کمزوری ختم ہو جائے گی، ان کے لئے بے انتہاءطاقت ہو جائے گی۔
یہ ساری روایات طبی میدانوں میں بے تحاشا ترقی کی نشاندہی کرتی ہیں ایسی ادویات کشف ہوں گی جو لاعلاج بیماریوں کا مداوا ہوں گی۔(النجم الثاقب ج۱ص۱۲۳،۲۱۳)

زراعت اور ماحولیات میں تبدیلیاں
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ: جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو آسمان اپنے قطرات کو اتار دے گا اور زمین اپنی نباتات کو اگا دے گی اور بندگان کے دلوں سے بغض اور نفرت ختم ہوجائے گی درندوں اور چوپاﺅں میں صلح ہو جائے گی ایک عورت عراق اور شام کے درمیان کا سفر کرے گی جہاں بھی وہ قیام رکھے گی اس جگہ سبزہ ہو گا اس کے سر پر زینت چڑھی ہو گی اس کو نہ تو کوئی درندہ ڈرائے گا اور نہ ہی اسے کوئی آدمی خوف زدہ کرے گا۔(النجم الثاقب ج۱ص۰۰۳)
ملاحظہ
عراق اور شام کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے اور زیادہ تر علاقہ صحرائی ہے اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عصر ظہور امام زمانہ علیہ السلام میں اس وقت زراعت کے میدان میں اتنی ترقی ہو گی کہ عراق اور شام کے درمیان ہزاروں مربع میل صحرائی علاقہ سرسبزوشاداب ہو جائے گااور کہیں بھی ویرانی نہ ہوگی۔
”سعدالسعود“ کتاب میں صحف ادریس علیہ السلام سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ ”اس زمانہ میں امامت کو زمین پر ڈال دیا جائے گا کوئی بھی چیز کسی دوسری چیز کانقصان نہ کرے گی اور کوئی بھی کسی دوسری چیز کو خوفزدہ نہ کرے گی اور کوئی بھی کسی دوسرے سے خوف نہ کھائے گا، حشرات الارض ، حیوانات، درندے سب لوگوں کے درمیان ہوں گے وہ سب ایک دوسرے کو اذیت نہ دیں گے حشرات الارض میںسے جس جس کے لئے زہر کا کانٹا ہوگایعنی زہریلا ڈنگ اس سے نکال دیا جائے گا اور ہر ڈسنے والے سے اس کازہریلا پن ختم کر دیا جائے گا آسمان اور زمین سے برکات کو اتار دیا جائے گا زمین اپنی خوبصورت نباتات کے ذریعے چمک اٹھے گی جگمگائے گی زمین اپنے سارے ثمر کو باہر نکال دے گی اور اپنی خوشبوﺅں کی تمام اقسام کو دے دے گی لوگوں کے درمیان رحمت، شفقت، ہمدردی انڈیل دی جائے گی سارے ماحول میں پیار اور محبت ہوگا امن اور سکون ہوگا۔(بحارلانوارج۲۵ص۴۸۳،باب ۷۲۔ ذیل ۴۹۱)
البحار میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں میری امت خوشحال ہو گی وہ سب ایسی نعمت میں ہوں گے کہ اس سے قبل ایسی نعمتوں سے بہرہ ور نہ ہو سکیں گے آسمان ان پر مسلسل برکات اتار دے گا اور زمین اپنی نباتات میں سے کچھ بھی نہ چھوڑے گی مگر سب کو اگا دے گی۔(بحارالانوار ج۵۱ص۳۸باب ۱حدیث ۹۲)
اسی طرح جب ہم علمی، فنی، سائنسی ترقی کی روایات کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو بات سمجھ آجاتی ہے کہ زراعت کے میدان میں حیرت انگیز ترقی ہو گی اور زراعت سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا کیونکہ زمین میں کوئی نقصان دینے والی چیز باقی نہ رہے گی۔
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے :”مدھا متان“ آپ نے فرمایا: مدینہ سے مکہ میں کھجوروں کے باغات ایک دوسرے سے متصل ہوجائیں گے۔(البرہان ج۴ص۱۷۲)

ڈیموں کی تعمیر
ایک طویل حدیث میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد ان کے اقدامات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: پھر آپ کسی کو آرڈر جاری کریں گے اوروہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی مشہد کے پیچھے سے نہر کھودےں گے جو غریبین تک ہو گی اور نجف کی بلندی سے نیچے گرے گی اس کے بعد اس پر پل بنائیں گے آٹا پیسنے کی فلور ملیں لگائیں گے۔ ایک بوڑھی عورت آئے گی اور بغیر اجرت کے اس کی گندم اسے پیس دی جائے گی(گویا اس ڈیم پر جس کی لمبائی کربلاءسے نجف تک ہو گی پانی سے چلنے والی آٹا پیسنے کی چکیاں ہوں گی جہاں سے بغیر اجرت کے آٹا پیس کر دیا جائے گا)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: حضرت امام مہدی علیہ السلام کی سلطنت میں پانیوں کی رونق ہو گی نہریں لمبی لمبی ہوں گی زمین خوراک دے گی اور خزانوں کو زمین اگل دے گی۔(النجم ج۱ص۶۰۳)
ایک اور روایت ہے کہ ان کے لئے زمین اپنے خزانے کھول دے گی اور قائمعلیہ السلام فرمائیں گے سب کھاﺅ پیو گزشتہ زمانوں میں جو کمی رہی ہے اس کی تلافی کرو۔
(سورہ الحاقة آیت ۴۲۔ بحارالانوار ج۳۵ص۶۸)

سڑکوں اور شاہراہوں کی وسعت اور پھیلاﺅ
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو وہ بڑی شاہراہ کو وسعت دیں گے اور اس سے انحرافی موڑ ختم کر دیئے جائیں گے سڑکوں پر لگے میزابوں، گٹروں کا خاتمہ کر دیں گے(سڑکوں سے پانی کے راستے ایسے بنائیں گے کہ ٹریفک کے لئے پانی کی گذرگاہیں رکاوٹ نہ بنیں)
(الانوار البھیہ ص۳۸۳۔ اعلام الوریٰ ج۲ص۱۹۲)
شاہراہ اعظم سے مراد ہر وہ بڑی سڑک ہے جو شہروں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہے اور جس کی توسیع کی ضرورت ہو گی اسے وسعت دیں گے۔

علمی اور سائنسی ترقی پر دلیل اور گواہ
ہم نے علمی اور سائنسی انقلاب پر روایات سے جو نمونے پیش کئے ہیں یہ ایک بڑی دلیل ہیں لیکن اگر روایات میں یہ سب کچھ نہ بھی ہوتا تب بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام نے جو بڑے بڑے کام سر انجام دینے ہیں ان کا تقاضا بھی اسی قسم کی علمی ترقی پر گواہ ہے۔

بلقیس کا تخت اور سلیمان کی حکومت
اگر ہم بلقیس کے تخت کی مثال کو سامنے رکھیں کہ کس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے وصی یمن (صنعاءشہر)سے قدس شہر(فلسطین)میں پلک جھپکنے کی دیر میں لے آتے ہیں جب کہ ان کے پاس تھوڑا سا علم تھا اس قرآنی واقعہ سے ہم یہ بات تو سمجھ سکتے ہیں کہ علم میں یہ طاقت ہے کہ ایک چیز کو ایک جگہ سے اٹھا کر آن واحد میں دوسری جگہ پر پہنچا دے اگر حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے وصی سے یہ چاہتے کہ پورے یمن کو اپنی جگہ سے اٹھا کر لے آئیں اور اسے دوسری جگہ پر رکھ دیں جیسے مصر کا صحراءسینا،تو وہ یہ بھی کر دیتا پس علم ہی کے لئے معنوی اور مادی سلطنت ہے۔
جس وقت انسان کے پاس ایسے ذرائع، وسائل اور اسباب موجود ہوں کہ جن کو وہ استعمال میں لا کر اپنی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے تو وہ ایسا کیوں نہ کرے گا اللہ تعالیٰ نے بعض احادیث قدسیہ میں ان مطالب کی طرف اشارہ دیاہے۔
میرابندہ نوافل(عبادات) کے وسیلہ سے برابر، تسلسل کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کا پاﺅں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
(غوالی اللئالی ج۴ ص۳۰۱ حدیث ۲۵۱۔ الغدیر ج۱ص۸۰۴۔ کنزالعمال ج۱ص۹۲۲ حدیث ۵۵۱۱)

اولیاءاللہ کا اختیار
الشیخ الشعرانی نے کہا ہے کہ میں نے خواص سے سوال کیا کہ کیا اولیاءمیں سے کسی ایک کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں”کُن“ کے تصرف کا اختیار دے دے گا ۔
(یعنی اللہ تعالیٰ کا ولی کسی چیز کے بارے یہ ارادہ کرے کہ وہ ہو جائے تو وہ چیز اس اللہ کے اذن سے اسی لمحہ ہو جائے گی) تو ان خواص نے جواب میں یہ کہا: جی ہاں! ایسے ہو سکتا ہے اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے کہ آپ نے جنگ تبوک میں اسی قسم کاتکوینی اختیار استعمال کیا کہ آپ نے ابوذرعلیہ السلام کے لئے چاہا کہ وہ آپ کے پاس موجود ہو جائیں تو وہ اسی وقت تبوک کے مقام پر موجود آہوئے(جب کہ وہ مدینہ سے آپ کے ہمراہ نہ آئے تھے)(الجواہر والدرر للسفرانی کتاب الغدیر کے حاشیہ پرص۳۲۱)
ابن العربی نے بیان کیا ہے: اللہ تعالیٰ سے اور نہ ہی رسول اللہ سے ایسی کوئی روایت ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے کسی کو”کُن“ کا اختیار دیا ہو سوائے انسان کامل(اس سے مراد حضورپاک کی ذات ہے)کی ذات کے اور یہ بات جنگ تبوک میں حضورپاک سے ظاہر ہوا آپ نے فرمایا:
”کن اباذر،فکان ھواباذر“
اے اباذرعلیہ السلام ہو جاﺅ، تو اس وقت ابوذرعلیہ السلام ہو گئے۔(یعنی آپ نے یہ چاہا کہ اے ابوذرعلیہ السلام ! اسی لمحہ میرے پاس تم پہنچ جاﺅ تو(باذن اللہ)ایسا ہی ہوا)
حضرت آیت اللہ الشیخ حسن زادہ آملی نے فرمایا:بتحقیق وہ اسم جو انسانی جوہر اور حقیقت کی بلندی اور ارتقاءکا سبب ہے وہ اسم مسلسل اس ارتقاءمیں درجہ بدرجہ آگے بڑھتا رہتا ہے پھر ایسی جگہ پر پہنچ جاتا ہے کہ یہ شخص قادر ہو جاتا ہے کہ وہ کائنات کے مادی سسٹم میں تصرف کرے ایسا درحقیقت ایک عینی اور خارجی حقیقت سے عبارت ہے کیونکہ جس وقت انسان اپنے وجود اوراپنی حقیقی، عینی اور خارجی حیثیت سے کسی بھی اسم سے متصف ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے اسماءکی خصوصیات سے جو خصوصیت اس خاص اسم کے لئے ہے وہ اس کے واسطے حاصل ہو جاتی ہے اللہ کے اسماء”کُن“ کے کلمات سے ہیں کیونکہ اس اسم میںسلطنت ،برتری قدرت کاملہ کا اظہار ہے چنانچہ جس کے پاس اسم الٰہی ہوگا تو پھر اسم کے عینی اور خارجی خواص اس انسان سے ظاہر ہوں گے اس طرح خودوہ انسان اسم کا درجہ اختیار کر لیتا ہے اس حالت میں وہ قادر ہو جاتا ہے کہ جو کچھ چاہے اس کو کر ڈالے جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کرتے تھے۔(الانسان الکامل ص۲۶۔ الفتوحات المکیہ باب ۱۶۳ سے نقل کیا ہے)
اسی طرح کے حالات اور انبیاءعلیہ السلام سے بھی ظاہر ہوئے، حضرت سلیمان علیہ السلام کے وصی آصف ابن برخیا سے تخت بلقیس لانے کا مظاہرہ اسی سلسلہ سے مربوط ہے جب کہ حضورپاک تمام انبیاءکے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اسماءکا مظہرکامل ہیں اس لئے آپ میں اللہ تعالیٰ کے سارے اسماءکے اثرات موجود ہیں آپ جو ارادہ کریں تو وہ ارادہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے پھر یہی سلسلہ آپ کے معصوم جانشینوں میں نظرآتا ہے کیونکہ ہر امام معصوم آپ کا قائم مقام ہے نبوت و رسالت کے علاوہ آپ کی ہرخصوصیت اس میں موجود ہوتی ہے۔مترجم)
ہم نے اپنی کتاب ”آل محمد بین قوسی النزول والصعود“میں متواتر واسطوں سے تفصیل بیان کر دی ہے کہ اس کتاب کی پہلی فصل جس میں آل محمد علیہم السلام کی ولایت تکوینیہ کو بیان کیا ہے جب کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام خاتم آل محمد علیہم السلام ہیںجن کے تعارف کے لئے آپ سے پہلے تمام آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے سعی و کوشش کی آپ اس سب کو عملی شکل دیں گے جسے ان حضراتعلیہ السلام نے شروع کیا تھا آپ ہی اسے پورا کریں گے۔

عادلانہ سلطنت کے قیام میں علم سے استفادہ
حضرات آل محمد علیہم السلام کی قدرت اور علم بارے جو روایات اور دلائل بیان کیے گئے ہیں یہ سب کچھ بالذات مقصود نہیں ہے اور نہ ہی یہ کتاب اس بحث کے لئے تحریر کی گئی ہے اس سب سے جو مقصد ہے وہ یہ ہے:
۱۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی صفات ان کی علمی صلاحیات کے بارے میں آگہی اور یہ کہ وہ کتنی قدرت کے مالک ہوں گے یہ معرفت اپنے زمانہ کے امام بارے حاصل کرنا واجب ہے ”من لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة“ جو اس حالت میں مرجائے وہ اپنے زمانہ کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو تو وہ جہالت کی موت مرا۔(الانسان الکامل ص۹۹)
۲۔ یہ کہ عدالت عام کرنے اور پاکیزہ حکومت کے قیام اور فلاحی مملکت بنانے کے لئے تاکہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکیں کہ اس معاشرہ میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ ہو گی اس سب کے لئے جن علمی طریقوں کو استعمال کیا جائے گا اس سے آگہی ہوجائے۔
اسی تناظر میں جو اسالیب اور طرق بیان ہو چکے ہیں اس کے ساتھ آپ مسالمت آمیز طریقہ کو بھی بروئے کار لائیں گے نصیحت، وعظ، دلیل، اچھی گفتگو اسی سے آپ آغاز کریں گے،لوگوںکو سمجھائیں گے، اپنی حقانیت انہیںبتائیں گے، انہیںعقلی،سائنسی دلائل سے قائل کریں گے تاریخی حوالے دیں گے قرآن اور سنت سے استدلال کریں گے جولوگ آپ کی اس روش پرحق بات کو قبول کریں گے تو پھرآپ اپنے مقصد اور ہدف کے دفاع کے لئے مخالفین سے جہاد کریں گے بالآخر غیبی امداد اور الٰہی اعجاز بھی ہمراہی کرے گا اس سب کا اثر ہونا ہے اور اس سے مطلوب نتیجہ ملنا ہے، ہر عمل اور کارروائی کا آغاز باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہو گا جب کہ ظہور کے لئے اور عالمی سطح پر عادلانہ حکومت کے قیام واسطے عمومی طورپرپہلے سے آمادگی موجود ہو گی اور عادلانہ حکومت کے قیام کی تیاری کرنے والی جماعتیں افراد بھی اپنا کردار ادا کرچکے ہوں گے اور اس وسیع اور عالمی حکومت کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے آمادہ ہوں گے انہیں کسی کی طرف سے مذمتی بیانات کی پرواہ نہ ہو گی وہ الٰہی رضاکار فورس ہوں گے دن میں غراتے شیروں کی مانند اور رات کی تاریکی میں مارگزیدہ کی طرح اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر عبادت کرنے والے ہوں گے سیاسی بصیرت کے مالک ہوں گے عالمی حالات پر ان کی گہری نظر ہو گی ظالم حکمرانوں کی کمزوریوں سے واقف ہوں گے ان سب کااللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہوگا کسی کا خوف ان کے دل میں نہ ہوگا اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان، اپنا مال اور ناموس تک کی قربانی پر آمادہ ہوں گے، قربانیاں پیش کرنے سے وہ تھکیں گے نہیں اور نہ ہی ہار مانیں گے فتح اور نصرت ان کے قدم چومے گی اور وہ اپنے امام کی آمد کے لئے ہر قسمی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہ کریں گے ان کا مقصد ایک ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ ہو اور ظلم کا خاتمہ ہو اور وہ یہ جانتے ہوں گے اور ان کا یقین کامل ہوگاکہ ان سب کے قائد،سارے انبیاءعلیہ السلام کی آرزو، محروموں کے لئے ڈھارس، خاتم الحجج،خاتم الاوصیائ، خاتم الائمہ، خاتم الخلفائ، حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ذخیرہ کر رکھا ہے اور ان کی قیادت میں انہیں بڑی فتوحات نصیب ہوں گی۔
اس سب کے باوجود اتنی بڑی سلطنت کا قیام اور پوری زمین پر عدالت کا نفاذ اور سارے انسانوں اور پوری بشریت کے لئے رفاہ اور خوشحالی کا انتظام، مکمل طور پر غربت کا خاتمہ جہالت کا خاتمہ، نئی علمی دنیا کی تعمیرکوئی آسان اور سادہ سا کام نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ سب آبادیاں وسیع و عریض ہیں، انسانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے سارے براعظموں تک پہنچنا اور ان سب میں اپنی بات پہنچانا کوئی آسان کام نہیں، یہ فقط زبانوں کی کثرت ماحول کے متعدد ہونے تہذیبوں کے تعدد، قومیتوں کے متفرق ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ انٹرنیٹ، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ تمام ترجدید ترین روابط اور اتصالات کی سہولیات کے باوجود اگر فرض کر لیں کہ ایک چینل پر حضرت امام مہدی علیہ السلام خطاب کریں اور اپنے مقاصد کو بیان کریں تو پھر کتنے اور چینلز ہوں گے جو آپ کی بات کونشر کریں گے تین، چار،دس، بیس ،سو اس کا اثرہوگا۔

سوال: امام کا خطاب سب لوگوں تک کیسے پہنچے گا؟
فرض کریں کہ آپ کے خطاب کا ترجمہ بھی مختلف زبانوں میں کیا جا رہا ہوگا، کئی لوگ ہوں گے جو ٹیلی ویژنوں کے سامنے بیٹھ کر اس خطاب کو سن رہے ہوں گے اگر خطاب رات کو ہوا تو بہت سارے ممالک میں دن ہوگا اور دن کو لوگ کاروبار میں مصروف رہتے ہیں کم ہی ٹیلی ویژن پر بیٹھتے ہیں اور اگر دن کو ہوا تو بہت ساری جگہوں پر رات ہو گی، بعض ممالک میں راتوں کو کاروبار ہوتا ہے بعض میں دنوںکو بہت ساری اقوام اور افراد ایسے ہیں کہ جن کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ٹیلی ویژن پر آسکیں جیسے جاپان، چین، کوریا وہ لوگ تو دن رات کام کرنے میں لگے رہتے ہیں، بہت ساری اقوام ہیں جو لذات کی دنیا میں غرق رہتے ہیں انہیں کچھ سروکار نہیں کہ عالم میں کیا ہو رہا ہے کتنے افراد ہیں جو ہفتہ میں فقط ایک دن ٹیلی ویژن پر بیٹھتے ہیں بہت سارے انٹرنیٹ سے بالکل فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں اس کے استعمال کو نہیں جانتے ہیں۔
اس کے ساتھ بہت سارے ہیں کہ جنہوں نے اسلام کے بارے میںکچھ بھی نہیں سنا اور نہ ہی حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے سنا ہے اور نہ ہی ان کے عمل سے آگاہ ہیں نہ ہی ان کے پروگرام سے واقف ہیںاور نہ ہی ان کی عالمی اسلامی حکومت کے فوائدبارے آگاہ ہیں،نہ ہی ان کی امن کے قیام کی کوششوں سے واقف ہیں اگرچہ انسانوں کی اکثریت فطری طور پر ایک ایسے انسان کی امید لگائے ہوئے ہوگی جو پوری انسانیت کو امن دے اور انہیں خوشحال بنائے۔لیکن یہ سارے انسان اس سے آگاہ نہ ہوں گے کہ ان کا ہمدرد انسان، امام مہدی علیہ السلام ہی ہیں اور وہ تشریف لے آئے ہیں
بہرحال چھ ارب انسانوں کی آبادی والی زمین پر ایک حکومت کا قیام کہ جس میں ظلم نہ ہو، عدالت ہو،امن ہو، خوشحالی ہو، علم ہو، جہالت نہ ہو، غربت نہ ہو،سب کا ایک دین ہو،سب کے لئے ایک نظام ہو، یہ کام آسان نہیں ہے البتہ اس نے ضرور ہونا ہے اور اس کے لئے مقدمات ہیں اور پھر اس کام کے لئے مختلف ذرائع اور وسائل کو استعمال میں لایا جائے گا۔