چھٹی فصل
حضرت امام مہدی علیہ السلام
کا علم اورآپ کا علمی غلبہ
حضرت امام مہدی علیہ السلام کا علم
ہم نے اپنی کتاب آل محمد بین قوسی النزول والصعود“ میں ”باب علم“ میں اہل بیت علیہ السلام کے علوم کی ماہیت ان کے علوم کی وسعت اور ان کے منبع کے بارے تفصیل سے بیان کیا ہے اس جگہ پر ہم اس بحث سے مختصر ایک بیان نقل کرتے ہیں۔گفتگو ایک دفعہ امام کے علم بارے ہوئی ہے پھر اس علم کی وسعت اور اس کے دائرہ کار کے بارے ہوئی ہے پھر اس علم کے بیرونی اور خارجی اثرات کے متعلق بات ہوئی ہے اور یہ کہ ان کی تکوینی قدرت اور طاقت کتنی ہے یہاں سے ہم اس بحث تک پہنچتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کی قدرت اور طاقت کی بحث کی جاتی ہے اوریہ سب کچھ علم الٰہی کا نتیجہ ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علم کی وسعت
البحار میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:علم ستائیس حروف ہے جو کچھ تمام مرسلین لے کر آئے وہ دو حرف برابر علم تھا تمام لوگوں نے آج تک جو کچھ علم سے حاصل کیا ہے وہ ان دو حرفوں والے علم سے لیا ہے جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو آپ علیہ السلام علم کے باقی پچیس حروف کو بھی نہان خانوں سے باہرنکالیں گے اور اس سارے علم کو لوگوں میں پھیلائیں گے اور ان پچیس حروف کے ساتھ پہلے والے دو حروف کا علم بھی ملادیں گے اس طرح پورے ستائیس حروف کا علم لوگوں میں عام ہو جائے گا(بحارالانوار ج۲۵ص۶۳۳باب ۷۲ج۳۷)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”عَالِمُ ال غَی بِ فَلَا یُظ ہِرُ عَلیٰ غَی بِہ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ار تَضٰ مِن رَّسُو لٍ“اللہ ہی عالم غیب ہے وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا مگر اس کے لئے جسے اپنے نمائندوں سے پسند فرمالیتاہے“(سورہ الجن آیت ۶۲۔۷۲)
آئمہ اطہارعلیہ السلام سے علم غیب کی نفی پرحضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام کا رد عمل
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے عمرو بن ھذاب کے لئے بیان کیا کہ جس وقت اس نے آئمہ اطہار علیہم السلام سے علم غیب کی نفی کی تو آپ علیہ السلام نے اس کے جواب میں اس آیت سے استدلال فرمایا جو اوپر ذکر ہوئی ہے کہ رسول اللہ مرتضیٰ ہیں اور ہم اسی رسول کے وارثان ہیں جس رسول کو اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب پر مطلع کیا ہے پس ہم نے ماکان کو بھی جان لیا اور قیامت تک جو ہوگا”مایکون“اسے بھی جان لیا۔
(بحارالانوارج۲۱ص۲۲ج۵۱ص۴۷)
حضرت ابوجعفر باقرعلیہ السلام نے فرمایا:”الا من ارتضیٰ من رسول“ خداکی قسم!محمد ان سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے آپ اللہ کے مرتضیٰ نمائندے ہیں“۔(الارشاد الی ولایة الفقیہ ص۷۵۶، الخرائج والجرائح ص۶۰۳)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”وَرَح مَتِی وَسِعَت کُلَّ شَیً ‘ اور میری رحمت ہرچیز کو اپنے دائرہ میں لئے ہوئے ہے۔(سورة الاعراف آیہ ۶۵۱)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے اس کی تفسیر میں آپ نے بیان فرمایا: رحمت سے مراد، امام کا علم ہے، اس کا معنی ہے، اللہ کا علم وسیع ہے اور اس نے ہر شئی کو اپنے گھیرے اور دائرے میں لے رکھا ہے کہ اللہ کے علم سے ہی ہر شئی کا وجود ہے۔(نورالثقلین ج۲ص۸۷حدیث ۸۸۲ الکافی سے)
امام علیہ السلام سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہوتی(الخرائج والجرائح ص۹۷۲)
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان ہے:اللہ تعالیٰ نے اپنے نمائندہ (حجت) کو ہرچیز کی معرفت عطاءفرمائی ہے۔(اعلام الوریٰ ص۷۵۳)
حضرت امام ابوالحسن علیہ السلام نے فرمایا: امام علیہ السلام کی زمین پر ایسی حیثیت ہے جو آسمان پر چاند کی حیثیت ہے اور وہ اپنی جگہ پر ساری اشیاءکے بارے مطلع و آگاہ ہوتا ہے۔(بصائرالدرجات ص۱۴۴،حدیث ۸باب ذکرعامودالنار)
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام نے فرمایا:بتحقیق انہیں(آئمہ علیہ السلام کو)ہر اس بارے علم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خلق فرمایا ہے ، تیار کیا ہے، بنایا ہے۔(بحارالانوار ج۶۲ص۶۱۱حدیث۲۲)
حضرت امام ابوجعفر صادق علیہ السلام نے ایک حدیث بیان کی جس میں آپ نے اس بات کا حوالہ دیا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام وقت الوداع اپنی بیٹی فاطمہ علیہ السلامکوایک کتاب حوالے کی کہ اس کتاب کو آپ نے حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام کے حوالے کیا۔
راوی: میں نے عرض کیا کہ اس کتاب میں کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام پر رحمت فرمائے۔
امام علیہ السلام: اولاد آدم علیہ السلام کو دنیا کی خلقت کے دن سے لے کر اس کی فناءکے دن تک جس کی ضرورت ہے اس سب کا علم اس کتاب میں موجودتھا۔
(البحار ج۶۲ص۴۵ حدیث۹۰۱ باب جہات علومہم)
حضرت امام ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت ہے:خدا کی قسم! ہمیں اولین اور آخرین کا علم عطا کیا گیاہے۔
علم غیب کے بارے ایک شخص کا سوال اور امام علیہ السلام کا جواب
میں آپ پر قربان جاﺅں کیا آپ کے پاس علم غیب ہے؟
امام علیہ السلام: تم پر وائے ہو، بتحقیق بلاشک و شبہ میں یہ جانتا ہوں کہ مردوں کی صلبوں میں کیا ہے اور عورتوں کے ارحام میں کیاہے؟ تم سب پر پھٹکار ہو، اس بات کو سمجھو، اس کا ادراک کرو اپنے دل و دماغ کو کھولو، اپنے سینوں کو کشادہ کرو، تمہاری آنکھیں کھلی رہنی چاہیں اور تمہارے دلوں کو بیدار ہونا چاہیئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کے نمائندے ہیں اور اس بات کوبرداشت نہیں کر سکتا مگر ہر مومن کا سینہ کہ اس میں ایسی طاقت موجود ہے جوتھامہ پہاڑ سے بھی زیادہ طاقتور ہے مگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہے اللہ کی قسم! اگر میں چاہوں تو تھامہ پہاڑ پر موجود ہر کنکری کے بارے تمہیں آگاہ کردوںاوراس کی کیفیت سے آگاہ کردوں۔
(بحارالانوار ج۲۶ص۸۲حدیث ۸۲۔ باب جہات علومہم ، مناقب آل ابی طالب ج۳ص۴۷۳)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے مفضل! ہمارا جو عالم ہوتا ہے وہ ہوا میں اڑنے والے پرندوں کے پروں کی حرکات و سکنات اور ان کے پروں کی کیفیت کو بھی جانتا ہے اور جو شخص اس بات کا انکار کرتا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ کے عرش عظمت پر موجود ہونے کا انکار کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اولیاءکے لئے اس نے جہالت کا عنوان لگا دیاہے۔(مشارق الانوار الیقین ص۵۳۱)
علم غیب بارےحضرت ابوجعفر صادق علیہ السلام سے سوال
بتحقیق آپ علیہ السلام کے بارے آپ کے شیعوں کاخیال یہ ہے کہ آپ دجلہ میں جو پانی ہے اس کے وزن، پیمائش اور مقدار سے آگاہ ہیں(اس وقت آپ اور وہ سوال کرنے والا دجلہ کے کنارے بیٹھے تھے)
حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام:کیا اللہ عزوجل کی قدرت میں یہ موجود ہے کہ وہ اس کا علم اپنی مخلوق سے مچھر کو بھی دے دے؟
ہمراہی:۔ جی ہاں!
حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام: میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق مچھر سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ کرامت اورشان رکھتا ہوں(میری حیثیت ایک مچھر سے کہیں زیادہ ہے جس کا تم تصور ہی نہیں کرسکتے)امام علیہ السلام نے یہ فرمایا اورپھر وہاں سے چل دیئے۔
(اثبات الوصیة ص۱۹۱ ،۲۹۱)
علم غیب بارےحضرت امیرالمومنین علیہ السلاماپنے خطاب میں فرماتے ہیں
امام سچائی اور عدالت کا عنوان ہے،وہ غیب پر مطلع ہوتا ہے اور علی الاطلاق(ہرحوالے سے اور ہر جہت سے) وہ کائناتی تصرف کا مالک ہوتاہے۔(مشارق الارض ص۵۱۱)
حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے فرمایا:اے مفضل ! آل محمد علیہم السلام سے جو امام ہوتا ہے اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اس کے پاس کسی بھی شی کا علم موجود نہیں یا اس سے کچھ چوک ہو جاتی ہے اوروہ حتمی بات سے آگاہ نہیں توایساشخص اس کاکافر ہوا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتارا ہے بلاشک وتردید(راوی سے مخاطب ہوئے) ہم آپ لوگوںکے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ہم پر تمہارے امور سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہتا اور یہ کہ تمہارے اعمال کو ہمارے اوپر پیش کیا جاتا ہے، ہمارے پاس تمہارے اعمال کو معائنہ کے لئے لایا جاتا ہے اور جب روح بچ جائے اور جان سکڑ جائے گا یعنی بدن سے روح پرواز کرجائے گی اوربدن کی قید سے روح آزاد ہوجائے گی اورروح کے انوار چمکیں گے، اس کے اسرار ظاہر ہوں گے اور وہ عالم غیب کا ادراک کرے گا۔(مشارق انوار الیقین ص۸۳۱)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے جو ابن ھذاب سے گفتگو فرمائی ہے اس کے مطالعہ سے اس بابت سارا شک دور ہو جاتا ہے ۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ابن ھذاب سے: اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ ان ایام میں اپنے قریبی عزیز کے حوالے سے کچھ مشکل میںمبتلاءہو تو تم میری تصدیق کرو گے؟
ابن ھذاب : نہیں! کیونکہ غیب سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کوئی نہیں جانتا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام: کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا ”وہ عالم الغیب ہے کسی ایک کو اپنے غیب کو ظاہر نہیں فرماتا مگر اپنے نمائندہ(رسول) میں جو اللہ کا مرتضیٰ (چناہوا) ہو، اس پر اپنے غیب کو ظاہر فرما دیتا ہے۔(القرآن)
پس رسول اللہ !اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتضیٰ ہیں اور ہم اسی رسول کے وارث ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب سے جتنا چاہا ہے مطلع فرما دیا ہے پس قیامت تک جو ”ماکان“ ہے اور ”مایکون“ ہے اس کا علم ہم نے حاصل کیا ہے اور اے ابن ھذاب! جو میں نے تمہیں بیان کیا ہے یہ پانچ دن میں ہوگا جو میں نے کہا ہے اگر ان ایام میں ایسا نہ ہوا تو میں جھوٹا افتراءپرداز ہوں گا اور اگر صحیح ہوا تو پھر تو ایسا ہوگا جو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی بات کو رد کرنے والاہے۔
تیرے لئے اس بابت ایک اور ثبوت بھی میرے دعویٰ کا موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ تم نابینا ہو جاﺅ گے اور تم نہ میدان دیکھ سکو گے نہ پہاڑ اور یہ چند دنوں بعد ہونے والا ہے۔
میرے پاس ایک اور ثبوت بھی موجود ہے کہ تم ایک جھوٹی قسم اٹھاﺅ گے جس کے نتیجہ میں تمہیں برص کی بیماری لگ جائے گی۔(عیون اخبارالرضا)
حضرت ابوجعفر امام جواد علیہ السلام نے جب ام الفضل بنت مامون کو اس بارے خبر دی جو کچھ ایام عادت میں عورتوں کو لاحق ہوتا ہے۔
ام الفضل: غیب کی خبر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔
امام علیہ السلام: میں اللہ تعالیٰ کے علم سے اس بات کو جانتاہوں(الارشاد الی ولایة الفقیہ ص۴۵۲)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کا تعارف بزبان امیرالمومنین علیہ السلام
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف منسوب کلام میں ہے جس میں آپ نے امام مہدی علیہ السلام کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:”امام مہدی علیہ السلام فضاءپر سوار ہوں گے یہ سفر نہ جادو سے ہوگا اور نہ ہی آنکھ کا دھوکا ہوگا بلکہ اس علم کے وسیلہ سے ہوگا کہ جس علم کو ان سے جو سابقین تھے وہ بھی آگاہ تھے پس آپ علیہ السلام اس علم کو استعمال میں لائیں گے اور پہاڑوں جیسے بیڑے بنائیں گے جو آسمان کے سمندر میں تیریں گے آسمانوں اور زمین کے تمام راستوں پر پہنچ جائیں گے۔
وہ اپنے ایام میں اللہ تعالیٰ سے وہ کچھ معرفت لے لیں گے کہ سارے اہل زمین سے کسی ایک کو بھی اس کا علم نہ ہوگا ایام اللہ ”زمانہ کے دن“نہیں گذریں گے مگر یہ کہ پوری زمین کو اوپر نیچے سے ہر ہر بالشت تک اور ہر ہر حصہ کو، اس کے ہرہر ٹکڑا تک کو طے کریں گے(المفاجاة لمحمدعیسی بن ص۱۷۴)
حضرت امام علی علیہ السلام کی طرف یہ بیان بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام بارے منسوب ہے۔اللہ تعالیٰ اہل اسلام کے دلوں کو شفاءبخش دے گا(ان کی ساری کمزوریاں دور ہو جائیں گی)وہ قرآنی اسرار کو سیکھ لیں گے اور حروف کے انوار کی تعلیم لے لیں گے، تمام حروف کا علم ان کے پاس آجائے گا۔
جس کے ذریعہ علوم کے ایسے شہر بنائے جائیں گے کہ تم نے ان میں سے کسی شہر کو اس سے پہلے اس حالت میںنہ دیکھا ہوگا ”اورب“(اس لفظ سے مراد یورپ ہے)والے یہ سب کچھ دیکھ کر پشیمان ہوں گے کہ ان سے یہ سب کچھ چُوک گیا پس وہ توبہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ ریز ہو جائیں گے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام سے جنگ کر رہے ہوں گے اور اپنی اولاد کو انہوں نے جو اس فیض سے محروم رکھا اس سب پر وہ شرمندہ ہوں گے اور اپنی اولاد کو ایک عرصہ تک نور حق کی معرفت سے محروم رکھا، حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے نمائندوں(امیروں، گورنروں)کو سارے شہروں میں قرآن اور اولاد آدم علیہ السلام کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق اور عدالت کا نظام دیکھ کر بھیجیں گے جو شخص ان پرایمان لاچکا ہوگا تو وہ بھی بہرہ ور ہوگا اور جو کفر کرے گا تو وہ بھی اس کو جان لے گا کہ سب پرعدالت نافذ ہوگی۔ بھیڑیا اور بکری ایک گھاٹ پر چریں گے۔
سانپ اور بچھو
رب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم! اس زمانہ میں چھوٹا بچہ سانپ اور بچھو سے کھیلے گا لیکن وہ اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے ، شَر ختم ہو جائے گا اور خیر باقی رہ جائے گی، انسان ایک مدگندم بوئے گا اور سات گنا اٹھائے گا سات سودانے اگیں گے ”اللہ اکبر“ خیر بہت زیادہ ہو گی اگر تم چاہو تو پھر اس آیت کو پڑھ لو ایک دانہ کی مثال ہے کہ اس سے سات خوشے نکلے ہیں اور ہر خوشہ میں ایک سودانہ ہے اور اللہ تواس سے چندبرابر کر دیتا ہے جس کے لئے وہ چاہتا ہے ۔(المفاجاة لمحمد عیسی بن داﺅد ص۹۲۶،۰۳۶)
میں اس جگہ یہ بتاتا چلوں کہ اس مقام پر ابن عربی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علم غیب جاننے کے متعلق بہت ہی لطیف اور عمدہ کلام تحریر کی ہے جو تفصیل معلوم کرنا چاہے تووہ کتاب میں دیکھ لے۔(الفتوحات المکیہ ج۶ص۰۸باب ۶۶۳)
علم کا نتیجہ قدرت و طاقت کی صورت میں
یہ بات معلوم رہے کہ ان حضرات علیہم السلام کا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے ہے پس ان کا علم درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کا علم ہے اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی مشیت اور ارادہ سے عبارت ہے، پس جس ہستی کے پاس اللہ کا علم ہے تو اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ بھی ہے یہ وہ ذوات مقدسہ ہیں کہ جن کا ارادہ نہیں ہوتا مگر وہ جو اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے ۔
الحکیم سبزواری نے بیان کیا ہے: اور ارادہ اس کے نافذ اور راسخ ہونے والے ارادہ میں اور اپنی قوت اور قدرت میںٰ یہ ہے کہ روح قدسی اس طرح سے ہو کہ جس کا تصور اس کا متعلق ہو تو اس کے تصور ہی سے اس کا وجود ہے کائنات کا میٹر(مادہ)اس کی اطاعت و پیروی میں رہتا ہے تو وہ اس میں اس طرح تصرف کرتا ہے جس طرح وہ اس کے بدن میں تصرف کرتاہے۔(شرح دعاءالصباح ص۷۹،۸۹، کماقال السبزواری)
علم کا نتیجہ قدرت ہے ....ہماری دلیل
ان آیات سے ثابت ہے کہ قدرت علم کا نتیجہ ہے۔
۱۔ سورہ رعد آیت ۱۳: اور اگر اس قرآن کے ذریعہ پہاڑوں کو چلایا جائے یا زمین کے راستوں کو طے کیا جائے یا اس کے وسیلہ سے مردوں سے گفتگو کی جائے تو ایسا ہوسکتا ہے۔
۲۔ سورہ الحشر آیت ۱۲۔ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر اتار دیتے تو آپ اس پہاڑ کو اللہ کے خوف سے پھٹتا ہوا ، چھینکتا ہوا دیکھتے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:ہم قرآن کے وارث ہیں کہ جس قرآن میں ایسی چیز موجود ہے جس کے وسیلہ سے پہاڑوں کو چلایا جا سکتا ہے اور شہروں کے فاصلے طے کیے جائیں اور مردوں کو زندہ کیا جا سکتاہے۔
(الزام الناصب ج۲ص۱۳۳، الکافی سے نقل کیاہے)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان کیا کہ ان کا علم قرآن سے ہے ہمارے پاس وہ چیزیں موجود ہیں جن کے ذریعہ پہاڑوں کو چلایا جاسکتا ہے زمین کے راستوں کو طے کیا جاتا ہے اور مردوں کو زندہ کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اذن اور ارادہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔(بصائر الدرجات ج۵۱حدیث ۳باب العلم ورثواعلم آدم)
تخت بلقیس کا واقعہ
۳۔ سورہ النمل آیت ۸۳،۱۴ میں اللہ عزوجل نے فرمایا:سلمان نے اپنے اجتماع سے یہ بات کہی (جو خواص سے تھے)کہ تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے تخت کو ان کے تسلیم ہونے سے پہلے میرے پاس لے آئے تو جنات میں سے عفریت نے یہ کہا کہ میں اسے لے آتا ہوں آپ کے یہاں سے اٹھنے سے پہلے اور میں اس پر قدرت رکھتا ہوں اور صحیح و سالم لاﺅں گا اور وہاں پر وہ شخص جس کے پاس کتاب کا تھوڑاسا علم تھا تو اس نے کہا کہ میں تیری آنکھ جھپکنے سے پہلے اس کے تخت کو تیرے پاس لے آتا ہوں (پس عالم کتاب کو کہا گیا کہ وہ لے آئے)پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا تو وہ تخت اس کے سامنے موجود تھا پھر سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ میرے رب کا انعام ہے تاکہ وہ میری آزمائش کرے کہ میں شکر بجا لاتا ہوں، یاکفران کرتا ہوں کیونکہ شکر بجا لایا جانا تو یہ عمل اپنی ذات کے لئے ہی تو ہے اور جو کفران کرتا ہے تو میرا رب غنی ہے ، کریم ہے، سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ ذرا اس کے تخت کو الٹاﺅ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (بلقیس)ہدایت پر آجاتی ہے یا ان میں سے ہے جو ہدایت نہیں لیتے۔ الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام کی سدیرکے ساتھ علم غیب بارے گفتگو ہے جس میں آپ نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟
سدیر: کیوں نہیں!ہم قرآن پڑھتے ہیں۔
امام علیہ السلام :کیا تم نے قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ بیان پڑھا ہے کہ جس کے پاس کتاب سے تھوڑاسا علم تھا اس نے کہا کہ آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے میں اس کے(بلقیس کے) تخت کوتیرے پاس لاکھڑا کروں گا۔(سورہ النمل آیت ۰۴)
سدیر: میں آپ پر قربان ! میں نے یہ پڑھا ہے۔
امام علیہ السلام: تو آپ اس آدمی سے آگاہ ہیں جس نے یہ عویٰ کیا تھا اور یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ اس کے پاس علم کتاب سے کیا موجود تھا؟
سدیر: آپ اس بارے مجھے بتائیں۔
امام علیہ السلام: سبز سمندر میںجو پانی موجود ہے اس میں سے ایک قطرہ برابر تو آپ خود سوچیں کہ علم کتاب میں اس علم کی کیا حیثیت ہے؟!
سدیر:کس قدر کم مقدار ہے اس علم کی۔
امام علیہ السلام: اے سدیر! کیا تم نے قرآن سے جو پڑھا ہے اس میں یہ بھی پڑھا ہے:اے رسول! ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے اور وہ جس کے پاس علم کتاب ہے وہ بطور گواہ کافی ہے۔(سورہ رعدآیت ۳۴)
سدیر: میں نے اس آیت کو پڑھاہے۔
امام علیہ السلام: تو کیا جس کے پاس علم کتاب ہے تو ساری کتاب کا علم اس سے سمجھا جاتا ہے یا کتاب کے کچھ حصہ کا علم اس سے سمجھا جاتا ہے۔
سدیر: نہیں! اس سے تو پوری کتاب کا علم سمجھا جاتاہے۔
سدیر: امام علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : خدا کی قسم!علم الکتاب سارا ہمارے پاس ہے ۔ خدا کی قسم!سارے کا سارا علم کتاب ہمارے پاس ہے۔(اصول الکافی ج۱ص۷۵۲ باب نادر ذکر الغیب حدیث ۳ ، بصائرالدرجات ص۳۱۲۔ باب ان عندھم علم الکتاب حدیث ۳)
میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اس باب میں روایات بہت زیادہ ہیں اور ان روایات کی اکثریت صحیح السند ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم کتاب اہل البیت علیہ السلام آئمہ اطہار علیہ السلام کے پاس ہے ان میں سے چند روایات پر ہم نے اکتفاءکیا ہے۔(تفصیل کے لئے دیکھیں اصول الکافی ج۱ص۹۲۲، بصائرالدرجات ۳۲ تا۶۳۳حدیث ۲۱ تا ۵۱ ص۲۱۲ تاص۶۱۲حدیث ۱ تا۱۲باب ماعندھم من الاسم الاعظم وعلم الکتاب الوسائل ج۸۱ص۴۳۱حدیث ۳۲۵۳۳مابعدہ)
یہ بات معلوم ہے کہ کتاب سے جو تھوڑی مقدار میں اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو علم دیا تھا وہ آصف بن برخیعلیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام کے وصی تھے جو بلقیس کے تخت کو (جو ایک بہت بڑا پلیٹ فارم تھا جس پر اس کا دربار لگتا تھا)ایک سیکنڈ سے بھی کم مدت میں یمن سے بیت المقدس صحیح و سالم، اصلی حالت میں اپنی تمام خصوصیات سمیت لے آئے۔
بڑی طاقت، قدرت اور غیر معمولی اقدامات
اور طبیعی قوانین کا توڑ سب علم کا نتیجہ ہے
حضرت ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: امیرالمومنین علیہ السلام یہ بات بہت زیادہ کرتے تھے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے جہنم اور جنت کو تقسیم کرنے والا ہوں، میں فاروق اکبر ہوں، میں صاحب عصا ہوں، میں نشان لگانے والاہوں، میرا اقرار سب فرشتوں نے، سب رسولوں نے، روح نے کیا جس طرح انہوں نے یہ اقرار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کیاتھا۔
مجھے ایسی صفات اور خصلتیں دی گئی ہیں کہ جن تک مجھ سے پہلے کوئی ایک بھی نہ پہنچ سکا میرے پاس علم منایا، علم بلایا، علم انساب اور علم فصل الخطاب ہے جو مجھ سے پہلے ہو چکا وہ مجھ سے چُوکا نہیں اور جو ابھی پیش آنا وہ مجھ سے غائب نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے اذن سے میں نشر کروں گا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے میں سب کچھ انجام دوں گا یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس کا فضل اور کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ مجھے اپنے علم کے وسیلہ سے قدرت دی ہے۔(بصائرالدرجات ص۱۰۲۔ باب انھم جہری لھم ماجری للرسول حدیث ۳،۴)
یمن کا علم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
ابان: میںحضرت ابوعبداللہ علیہ السلام کے پاس موجود تھا ان کے پاس یمن کا رہنے والا ایک شخص موجودتھا۔
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام: اے یمانی کیا تمہارے درمیان علماءموجود ہیں
یمانی: جی ہاں!
امام علیہ السلام:تمہارے عالم کا علم کس حدتک پہنچاہواہے۔
یمانی: وہ ایک رات میں دو مہینوں کا سفر طے کر لیتاہے۔
امام علیہ السلام: مدینہ منورہ کا عالم تمہارے عالم سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔
یمانی: مدینہ میں رہنے والے عالم کا علم کس حد تک پہنچا ہوا ہے۔
امام علیہ السلام: وہ تو ایک صبح میں اتنا فاصلہ طے کر لیتا ہے جتنا فاصلہ سورج ایک سال میں طے کرتا ہے بہرحال ایک دن کی جو بات ہے تو جوتوں پسند کرے اور جیسا توں کہے تو مدینہ کا عالم ایک دن میں بارہ مغرب اور بارہ مشرق طے کر ڈالے گا۔
(بصائرالدرجات ص۱۰۲، باب انھم جری لھم ماجری للرسول حدیث ۳،۴)
آئمہ علیہم السلام کا علم اور آپ کے اختیارات
امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ایک طولانی حدیث میں یہ بیان آیا ہے میں اپنے رب کے اذن سے زندہ کرتا ہوں اور میں ہی مارتا ہوں....اور میری اولاد سے جو آئمہ ہیں وہ بھی اسی طرح کرتے ہیں....اور ہمارے رب اللہ نے جو کچھ ہمیں عطا فرمایا ہے وہ اس سے اجل و اعظم، اعلی و اکبر ہے....ہمارے رب عزوجل نے ہم کواسم اعظم کا علم عطاءفرمایا ہے کہ اگر چاہیں تو اس کے ذریعہ آسمانوں ، زمین، جنت اور جہنم کو عبور کر جائیں اس کے ذریعہ بلندیوں پر پہنچ جائیں اور اس کے ذریعہ زمین پر اتریں، اس کے مشرق و مغرب کو عبور کر جائیں اور ہم اس کے ذریعہ عرش تک جاپہنچیں اور عرش پر اللہ عزوجل کے سامنے جابیٹھیں اور ہر چیز ہماری اطاعت کرے تمام آسمان، زمین، سورج، چاند،ستارے،سیارے، پہاڑ،درخت، حیوانات، پرند، چرند، درندے، سمندر، جنت،جہنم سب ہماری اطاعت کرتے ہیں۔
ہم اللہ تعالیٰ کے بندگان ہیں
ہم کو اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ اسم اعظم کے ذریعہ عطا فرمادیا ہے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے اسم اعظم کا علم دیا اور اسے ہمارے لئے مخصوص کر دیاہے اس سب کے ہوتے ہوئے ہم غذا کھاتے ہیں، پانی پیتے ہیں، گلی کوچوں میں، راہ چلتے ہیں یہ سب کچھ ہم کرتے ہیں اپنے رب کے امر سے، ہم اللہ تعالیٰ کے مکرم و محترم بندگان ہیں ایسے بندگان جو گفتگو کرنے میں اس پر سبقت نہیں لیتے اور وہ سب اس کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں معصوم بنایا ہے پاک اور طاہر قرار دیا ہے اور اپنے بہت سارے مومنین، بندگان پر ہمیں فضیلت اور برتری عطا فرمائی ہے۔
(بحارالانوار ج۶۲ ص۶،۷۔ باب نادر فی معرفتھم بالنورانیہ حدیث۱)
ابن عباس: امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: بتحقیق قاف کے پیچھے ایک عالم (دنیا) ہے میرے سوا اس جگہ کوئی ایک بھی نہیں پہنچے گا اس کے پیچھے والے عالم پر میرا احاطہ ہے اس کے بارے میرا علم اسی طرح ہے جس طرح تمہاری اس دنیا بارے میرا علم ہے میں اس کا محافظ ہوں میں اس پر گواہ ہوں اور اگر میں چاہوں تو ساری دنیا پر گھوم جاﺅں، ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں سے گذر جاﺅں اور یہ سب کچھ پلک جھپکنے سے کمتر وقت میں کیونکہ میرے پاس اسم اعظم ہے۔
(مشارق الانوار الیقین ص۳۴، بحارالانوار ج۷۵ص۶۳۳حدیث ۰۲)
حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے بتحقیق اللہ کا اسم اعظم ۳۷ حروف پر مشتمل ہے آصف بن برخیا کے پاس ان میں سے ایک حرف تھا اس نے اس حرف کو بولااورزمین سکڑ گئی اور اس نے بلقیس کے تخت کو اٹھا لیا پھر زمین اپنی پہلی حالت میں واپس ہو گئی پلک جھپکنے سے کمتر وقت میں اور ہمارے پاس اسم اعظم کے ۲۷حروف ہیں ایک حرف اللہ کے پاس ہے اللہ تعالیٰ علم الغیب میں اسی اسم کو اپنے پاس رکھتاہے(اور وہ ہی اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ”مستاثر“ ہے)”لاحول ولاقوة الا باللہ العلی العظیم“
(اصول الکافی ج۱ص۰۳۲، باب مااعطوا من الاسم العظم حدیث ۱، دلائل الامامة ص۹۱۲، معاجزالہادی)
|