حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

امام علیہ السلام کے طریقہ اور روش بارے شرعی دلیل
۱۔ جوروایات گزر چکی ہیں کہ آپ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلیں گے اسی طرح آپ قرآن کی طرف دعوت دیں گے اور اسی پر عمل کرنے کا لوگوں سے کہیں گے اور قرآنی اسلوب کو اپنی عملی زندگی میں لائیں گے۔
ان روایات میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آپ نبی اکرم کی دعوت کے جو بھی طریقے تھے آپ ان سب کو استعمال میں لائیں گے آپ کا سارا عمل اور پروگرام اسی کا تسلسل ہے۔آپ مسالمت آمیز طریقہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لئے استعمال کریں گے موعظہ حسنہ اور حکمت ودانائی کو استعمال میں لائیں گے اس طریقہ پر لوگ سیدھے نہ ہوئے، سرکشی کی گئی اور منافقوں اور کافروں نے انکار کر دیا اور حقائق کو توڑ مروڑ دیا حق بات سننے کے لئے تیار نہ ہوئے اور رکاوٹیں کھڑی کر دیں تو پھر جس طرح نبی اکرم نے اسلحہ کا استعمال کیا جنگیں کیں آپ بھی ایسا ہی کریں گے یہاں تک کہ وہ لوگ حق کی طرف آجائیں اور حق اور اسلام کے انکار سے باز آجائیں۔
پھر اگر دعوت دینے، جہاد میں کامیابی کے لئے غیبی امداد اور معجزہ کی ضرورت پیش آئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کی مدد فرشتوں کے ذریعہ کی اور دیگر معجزات بھی آپ کے وسیلہ سے وقوع پذیر ہوئے اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے بھی ہوگا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے عام اسالیب اور طریقوں کو بالترتیب تدریجی اورطولی(سیدھ میں)حساب سے استعمال کیا۔ دعوت مسالمت آمیزطریقہ سے وہی موعظہ حسنہ اور حکمت ، دلیل و منطق سے بات کی اس میں رکاوٹیں ہٹانے کے لئے جنگ و جہادبھی کیا اور ہر دو طریقوں میں کامیابی کے لئے معجزہ اور غیبی امداد کا استعمال اس بارے روایات بھی موجود ہیں اور قرآنی آیات میں بھی یہ مطلب بیان ہوا ہے۔
حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام کی روایت میں آیا ہے:
”بتحقیق اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اسلام دے کر دس سال کے لئے بھیجا تو لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو جنگ کا حکم دیا پس خیر اور برکت تلوار میں اور تلوار کے سایے تلے اور بات ایسی طرف پلٹے گی جیسا اس کا آغاز تھا یعنی حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت وہی کچھ ہوگا جو آغاز اسلام میں ہوا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام قرآن پر عمل کرنے کی دعوت دیں گے جیسا کہ روایات میں ہے قرآن پہلے اسلوب کو پیش کرتا ہے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے اسی طرح قرآن دوسرے اسلوب کی بات کرتا ہے اور جہاد کا حکم دیتا ہے بہت ساری آیات میں یہ حکم موجود ہے کچھ تو نبی اکرم سے مخصوص آیات ہیں اور کچھ آیات میں حکم عمومی ہے اور ہر زمانہ کو شامل ہے۔
بہرحال تیسرا اسلوب اعجازی اور معجزہ کا طریقہ ہے چاہے ہم معجزہ کامعنی عادی اور طبیعی قوانین کو توڑنے سے کریں جیسا بلقیس کے تخت بارے آیا ہے کہ کس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کا وصی، بلقیس کے عرش کو لے آیا یمن سے بیت المقدس تک ایک لمحہ بھی صرف نہ ہوا جیسا کہ سورہ نمل آیت ۰۴ میں ہے۔اعجاز اور معجزہ اس معنی میں قرآن میں موجود ہے یا اس کی تفسیر اس طرح کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیہ السلام اور اولیاءکی مدد فرشتوں کے ذریعہ فرماتا ہے اور اس غیبی امداد سے ان کی تقویت کرتا ہے جیسا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایسا ہی ہوا جیسا کہ بہت سارے مقامات میں قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہوا ہے اس مضمون کی بہت ساری آیات ہیں۔”(اے رسول)اس وقت تم مومنین سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے آسمان سے بھیج کر تمہاری مدد کرے (ہاں ضرور کافی ہے)بلکہ اگر تم ثابت قدم رہو اور (رسول کی مخالفت سے)بچو اور کفار اپنے (جوش میں) بھی تم پر چڑھ بھی آئیں توتمہاراپروردگار ایسے پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جو نشان جنگ لگائے ہوئے ڈٹے ہوئے ہوں گے“(سورہ آل عمران آیت ۴۲۱،۵۲۱۔ پارہ ۴)
اعجاز اس معنی میں قرآن کے اندر موجود ہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جب حضرت امام مہدی علہ السلام قرآن پر عمل کی دعوت دیں گے تو یہ دعوت قرآن میں اعجاز بارے موجود آیات پر عملی دعوت بھی ہو گی پس تینوں اسالیب قرآن میں ذکر ہوئے ہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں ان تینوں پر عمل ہوگا۔
طولی حساب سے ان تینوں کے استعمال پر عقلی دلیل موجود ہے جو پہلے بیان ہو چکی اسی طرح بعض آیات میں جو آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت نبی اکرم کی امداد کے لئے آسمان سے اتارا جس وقت مسلمان دشمن کا مقابلہ کرنے سے عاجز آ گئے تھے جیسا کہ جنگ حنین میں ہوا اسی طرح روایات میں جو چھ اوپر بیان ہوئی ہیں وہ ان اسالیب کی ترتیب کو بھی بیان کرتی ہے۔
ان میں سے ایک یہ روایت ہے کہ ابوبکر کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابوالحسن علیہ السلام سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کا جو فرمان ہے کہ ”وَلَہُ اَس لَمَ مَن فِی السَّمٰوَاتِ وَال اَر ضِ طَو عاً وَ کَر ھاً“(سورہ آل عمران آیت ۳۸)”جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے وہ سب اس کے لئے تسلیم ہوگا اور اسلام لے آئے گا“۔
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: یہ آیت قائم علیہ السلام کے بارے اتری ہے جس وقت یہودی، نصرانی، عیسائی، زنادقہ اور مرتدین، مشارق و مغارب میں بسنے والے کافر ان سب پر آپ اسلام پیش کریں گے جو آرام سے اور اپنے اختیار و ارادہ سے مسلمان ہو جائے گا تو اسے نماز اور زکات کا حکم دیں گے اور اس بات کا حکم دیں گے جو ایک مسلمان کو دیا جاتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر واجب کیا ہے اور جو مسلمان نہیں ہوگا تو اس کی گردن اڑا دیں گے اس طرح مشرق زمین اور مغرب زمین میں کوئی ایک بھی نہیں بچے گا مگر یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے عقیدہ پر آجائے گا۔(البحار ج۳۱ص۸۸۱)
میری جان ان پر قربان کہ آپ اسلام ان سب پر پیش کرنے کے بعد انہیں قتل کرنے کا حکم دیں گے اور یہ بات کہ انہیں نماز اور زکات کا حکم دیں گے تو یہ انہیں اسلام کی تعلیمات دینے کے بعد کریں گے اسلامی احکام کی انہیں تعلیم دے کر ان واجبات کے ادا کرنے کا انہیںحکم دیں گے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے موافق ہے۔
(سورہ الاسراءآیت ۰۵۱)
جو ہدایت پا لیتا ہے تو وہ اپنے لئے ہدایت پاتا ہے خود اسی کا فائدہ ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے بھٹک جاتا ہے تو یہ بھی اس کے اپنے نقصان میں ہے کسی ایک کا جرم دوسرے پر نہیں ڈالا جاتا ہے اور ہم تو کسی ایک کو سزا نہیں دیں گے مگر ان کے پاس اپنا پیغام دینے والا بھیجنے کے بعد جب وہ اس کا انکار کر دیں تو پھر انہیں سزا دیتے ہیں۔(قرآن)
یہ بات بنیادی مقصد کے بھی موافق ہے اوراسی سے کمال مطلق کا تحقق اور اسلامی تربیت کا حصول ہے تاکہ واحد اَحَد مالک حقیقی کی عبادت اس پوری دھرتی پر ہو، آغاز ہی میں قتل،ماردھاڑ سختی غرض کے حصول میں رکاوٹ بنے گی کیونکہ اگرروئے زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کو قتل کردینا ہے اورمعجزات کے ذریعہ بڑے بڑے شہروں کو تباہ کرنا ہے تو پھر روئے زمین پر کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا،جو کچھ روایات میں ہم پڑھتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس غرض کو حاصل کرنے کی غرض سے قتل و جنگ و جدال ہوگا، قتل و تباہی، ویرانی توزمین میں زلزلے اصل ہدف نہیں بلکہ ہدف تک پہنچنے کا وسیلہ ہےں یا تویہ ایک ذریعہ ہے یا پھر آخری وسیلہ ہے، جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت میں ہے ”قیامت کی گھڑی قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس سے پہلے ان مخالفین پر میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد قیام کرے گا اور ان مخالفین کی گردنیں اڑائے گا تاکہ وہ سب حق یعنی اسلام کی طرف آجائیں“۔
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے”جس وقت اللہ تعالیٰ حضرت قائم علیہ السلام کو خروج کا اذن عطا فرمائیں گے تو حضرت قائم علیہ السلام لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے انہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیں گے کہ وہ آپ کی تائید کریں انہیں حق کی دعوت دیں گے اورآپ ان لوگوںمیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلیں گے اور ان میں رسول اللہ جیسا عمل کریں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجے گا حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئیں گے اور رکن حطیم پر اتریں گے پھر وہ آپ سے سوال کریں گے کہ آپ کس چیز کی دعوت دے رہے ہیں تو حضرت قائم علیہ السلام حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپناپروگرام بتائیں گے۔
اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آگے بڑھ کر یہ کہیں گے کہ اس کے لئے تو سب سے پہلے میں آپ علیہ السلام کی بیعت کرتا ہوں وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں گے حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ مَس کریں گے اس دوران تین سوسے کچھ اوپرافراد آپ علیہ السلام کے پاس پہنچ جائیں گے اور وہ سب آپ علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کریں گے آپ علیہ السلام مکہ میں قیام فرمائیں گے کہ آپ علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد دس ہزار ہو جائے گی پھر مکہ سے مدینہ کی جانب جائیں گے۔(بحارالانوار ج۲۵ص۷۳۳باب ۷۲ذیل ۸۷)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی دعوت کے مراحل
اس میں شک نہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام منبر پر جائیں گے اور منبر پر جا کر لوگوں کو دعوت دیں گے اپنی طرف بلائیں گے انہیں اپنا پروگرام بتائیں گے وگرنہ جنگ، حرب اور قتل کر دینے کے بعد دعوت دینے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔
جناب بشیر نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے عرض کیا کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ بتحقیق جس وقت حضرت امام مہدی علیہ السلام قیام کریں گے تو سارے معاملات بغیر نقصان کے درست ہو جائیں گے کوئی قطرہ خون کا نہیں گرے گا کوئی کھوپڑی نہیں اڑے گی۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:ایسا تو ہرگز نہیں ہوگا اگر کسی ایک کے لئے سارے معاملات بغیر نقصان اور تکلیف اٹھائے درست ہو جائیںتو پھر یہ سب کچھ حضرت رسول اللہ کے لئے ہو جاتااور بغیر تکلیف اٹھائے آپ کامیاب ہوجاتے جب کہ آپ کی رباعیہ ٹوٹ گئی(دانت ٹوٹ گئے)ان کا چہرہ زخمی ہو گیامجھے میری جان کی قسم ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ہم ان سختیوں کی وجہ سے اپنی پیشانیوں سے خون کے چھینٹے پونچھیں گے پھر آپ نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔اس حدیث سے یہ بات روشن ہوتی ہے کہ امام علیہ السلام کے لئے یہ دعوت بغیر نقصان کے پوری نہیں ہو گی اور نہ ہی اسے استحکام ملے گا اور حضرت نبی اکرم کے لئے بھی ایسا نہیں ہوگا ہر قسمی اسلوب اور طریقہ اپنایا جائے گا اور ہم نے یہ جوکہا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسلوب و طریقہ اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اسلوب وطریقہ میں وحدت اور یک رنگی ہو گی اس کا معنی یہی ہے۔
۲۔ روایت میں لفظ (عفو)تھا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی دعوت عَفَوی ہو گی، اس کا معنی یہ ہے کہ یہ دعوت اچانک ہو گی اور مفت میں ہو گی اس کے لئے کسی عمل اور محنت کی ضرورت نہ ہو گی اور نہ ہی اس دعوت کے لئے منصوبہ بندی اور کسی قسم کی تیاری کی قدرت ہو گی نہ قربانی دینی پڑے گی بلکہ بڑے آرام سے سب کچھ ہو جائے گا پر سکون ماحول میں سب کچھ انجام پائے گا تو یہ بات کسی ایک کے بھی نصیب نہیں ہوئی تو یہ ان کے لئے کیسے انجام پا سکتی ہے جو رسول کریم ہیں، خاتم الانبیاءہیں،انہوں نے اپنے پروگرام کو پیش کیا اس کے لئے منصوبہ بندی کی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام خاتم الاولیائ، مہدی منتظر ہیں، آپ اپنی دعوت کے لئے منصوبہ بندی کریںگے اس راستے میں تکالیف اٹھائی ہیں، خون بھی بہایا جاتا ہے، کام آسان نہیں ہے، آخری حجت کا کام اور بھی سخت اور دشوار ہوگا۔

ظہور امام علیہ السلام کے لئے جلدی
روایت میں آیا ہے کہ تم کس لئے امام قائم علیہ السلام کے خروج کے لئے جلدبازی میں پڑے ہو(یعنی یہ چاہتے ہو کہ ابھی ابھی خروج ہو جائے جب کہ تم نے کوئی تیاری بھی نہیں کی ہے اوریہ سمجھ رہے ہو کہ سب کچھ اسی طرح انجام پائے گا بڑی آسانی ہو گی)
خدا کی قسم!ان کا لباس کھردرا، موٹا ،ہوگا، ان کی غذا سخت ہو گی، لذیذ نہیں ہو گی،ان کے ساتھ تو تلوار ہو گی، جنگ ہو گی(یعنی ایسا نہیں ہے کہ ان کی آمد پرفوراً ہر طرف ہریالی ہو جائے گی، غذائی اجناس کی فراوانی ہو گی، لذیذ غذائیں ملیں گی، آرام و سکون ہوگا، بلکہ غذا تھوڑی اور وہ سخت قسم کی اور غیرمزیدار ، پھر جنگیں بھی ہوں گی۔سختیوں اورمشکلات کے بعد آرام ہوگا)(غیبت نعمانی ص۲۵۱)
قتل و غارتگری کی یہ روایات اور اس مضمون کی اور روایات یہ بتا رہی ہیں کہ حکومت کے قیام کے لئے دوراندیشی، منصوبہ بندی، قربانی، جہاد کی ضرورت ہو گی پس جو ایمان لے آیا تو اس کے لئے وہی ہو گا جو سب مسلمانوں کے لئے ہے اور جو مسلمانوں کے لئے ضرررساں ہیں ان کے لئے بھی ہوگا یعنی وہ مسلمانوں کے نفع و نقصان میںحصہ دار ہوں گے اور جس نے انکار کر دیا تو اس کے خلاف جنگ ہو گی اتنی جنگ کہ یا تو وہ مسلمان ہو جائے یا پھر قتل کر دیا جائے یہ حضرت رسول اللہ کی سیرت ہے اور وہی ان کے پَرتَو سے اور ان کے ہمنام مہدی منتظر کی سیرت ہو گی۔
جی ہاں! اس جگہ ایک فرق ملحوظ خاطر رہے اور وہ یہ کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہرپر حکم لگاتے تھے جب کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام واقعیت کے مطابق حکم لگائیںگے کہ اس طرح کوئی منافق نہ رہے گا،جو کہے گا میں مسلمان ہوں تو اگر اپنے بیان میں سچا ہوگا تووہ بچے گا اس کے ظاہری قول پر اسے معاف نہ کر دیا جائے گا ظاہری اقرار اگرتو باطنی اعتقاد کا مظہر ہوگا تووہ بچے گا وگرنہ اسے قتل کر دیا جائے گا اس طرح پوری دھرتی کو کافروں، منافقوں، ملحدین، مشرکوں، یہودیوں، نصرانیوں، مرتدوں سے پاک کر دیا جائے گا البتہ اس سے پہلے دعوت دی جائے گی ان کواپنا پروگرام بتایا جائے گا، دلیل و منطق سے بات ہو گی موعظہ حسنہ اور دعوت سلیمہ ہو گی اس کے بعد مخالفین، سرکشوں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہو گی راستے دو ہی ہوں گے۔
(۱)اسلام لے آﺅ ۔ خدا کے ہو جاﺅ، آرام اور سکون سے رہو۔
(۲)یا مخالفت کا اعلان کرو اورقتل ہونے کے لئے تیار ہو جاﺅ۔
(۳)تیسری صورت منافقانہ ہے ظاہر میں دعوت قبول کر لیں باطن سے مخالف ہوں تو ایسی حالت ہرگزقبول نہ ہوگی۔
ایک اور فرق بھی بعد میں بیان کیا جائے گا اور توبہ کے مسئلہ میں آئے گا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور امرجدید
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے ، قائم امر جدید لے کر قیام کریں گے کتاب جدید ہو گی، فیصلہ جدید ہوگا، عربوں پر شدید ہوگا آپ کی روش تلوار ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے بارے کسی قسم کی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔(غیبت نعمانی ص۲۲۱)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ جب حضرت قائمعلیہ السلام خروج کریں گے تو وہ کیا کیا اقدامات اٹھائیں گے تو یہ جان کر ان لوگوںکی خواہش یہ ہو گی کہ کہ لوگ انہیں نہ دیکھیں بوجہ اس خبر کے کہ وہ لوگوں کو قتل کریں گے ۔ آگاہ رہو کہ وہ اس کا آغاز قریش سے کریں گے ان کے ساتھ سوائے تلوار کے کوئی اور رویہ نہ اپنائیں گے، تلوار اتنی چلائیں گے کہ آپ علیہ السلام کا یہ عمل دیکھ کر بعض لوگ یہ کہیں گے کہ لگتا ایسا ہے کہ یہ تو آل محمد علیہم السلام سے نہیں ہیں کیونکہ اگر یہ آل محمد علیہم السلام سے ہوتے تو رحم کرتے۔(غیبت نعمانی ص۲۲۱)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام: میرے والدین ان پر قربان جائیںجو کنیزوں سے بہترین کا بیٹا ہے وہ انہیں زلزلے اورزمین کے دھنس جانے سے ھانکے گا اور انہیں سخت موت کے مزے چکھائے گا وہ انہیں تلوار کی نوک پر لے گا اس وقت قریش قبیلہ فاجر اور بدکردار لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کاش! ان کے دنیاوی مفادات کا تحفظ کسی طرح ہو جاتا ان کے لئے معافی نہ ہو گی اور ان سے اس وقت تک ہاتھ نہیں اٹھائیں گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے وہ لوگ یہ چاہیں گے کہ ان سے کوئی دنیاوی مال و متاع لے لیتا اور انہیں مارتا نہیں، لیکن ان کے مظالم اور خراب کاریاں اس حد تک ہوں گی کہ ان کے لئے سوائے قتل کے معافی نہ ہوگی۔(مترجم)(غیبت النعمانی ص۰۲۱)
حضرت امام جواد علیہ السلام کی روایت میں ہے آپ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اس حد تک قتل کریں گے کہ خدا آپ پر راضی ہو جائے۔(کفایة الاثر ص۲۸۲)
یہ چند نمونے تھے کہ آپ علیہ السلام ظہور فرمانے کے بعد تخریب کاروں کو، فاسقوںکو، فاجروں کو، مفسدوں، فتنہ بازوں کو، ظالموں جابروں کو اتنا قتل کریں گے کہ آپ کے ساتھی بھی یہ منظر دیکھ کر گھبراجائیں گے۔ آپ ان جرائم کی معافی نہ دیں گے۔
ان روایات سے ایسا لگتا ہے کہ آپ دعوت دینے سے پہلے قتل کریں گے لیکن اس بارے ذیل کا تجزیہ ملاحظہ کریں۔

حضرت قائم علیہ السلام قتل سے پہلے دعوت دیں گے
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دعوت دینے سے پہلے قتل کرنا شروع کر دیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امام مہدی علیہ السلام انہیں اسلام کی طرف دعوت نہ بھی دیں تو وہ لوگ حضرت قائم علیہ السلام کے ساتھ جنگ شروع کر دیں گے جب کہ یہ قتل و قتال اور جنگ اس لئے ہو گی کہ وہ انہیں اسلام پر لانے کے لئے دعوت دینے والے ہوں گے اور وہ دنیائے اسلام کی امامت کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کی قیادت اور رہبری سنبھالنے والے ہیں۔
(آپ کا جب ظہورہوگا تو آپ کی آمد سے پہلے خود مسلمان ممالک میں ایسے گروہ موجود ہوں گے جو خود دعویدار ہوں گے کہ انہوں نے اسلام لانا ہے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنوں میں سے بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں گے اور ہر اس طاقت سے جنگ کریں گے جو انہیں اصلی اسلام کی طرف دعوت دیں گے جب حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا اعلان کعبة اللہ میں ہوگا تو آپ ان بکھرے ہوئے، منتشر اور حقیقی اسلام سے دور مسلمانوں کو اپنے پہلے خطاب میں دعوت دیں گے اور اپنے برحق ہونے کے دلائل بھی دیں گے انہیں قرآن اور سنت سے قائل کرنے کی کوشش کریں گے تو مسلح گروہ آپ کی بات کو نہ سنیں گے اور آپ علیہ السلام پر چڑھائی کر دیں گے اور آپ علیہ السلام کے حامیوں کو مارنا شروع کر دیں گے تو اس حالت میں آپ علیہ السلام پر جنگ کو مسلط کر دیا جائے گا تو آپ علیہ السلام بھی حق کے دفاع کے لئے جنگ کریں گے۔ آپ علیہ السلام نے جنگ کا آغاز نہیں کرنا، آپ علیہ السلام کے مخالفین جنگ کا اعلان کریں گے آپ علیہ السلام ان کا مقابلہ کریں گے اور اس میں کسی پر رحم پھر نہ کریں گے۔ روایات اسی بات کو بیان کر رہی ہیں۔مترجم)
اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے۔
حضرت امام ابوعبداللہ صادق علیہ السلام: آپ علیہ السلام مکہ میں اتریں گے اور اپنی تلوار کو اپنے نیام سے باہر نکالیں گے زرہ کو پہن لیں گے، اپنا پرچم لہرادیں گے(رسول اللہ کا مخصوص لباس) چادر، عمامہ پہن لیں گے اپنے ہاتھ میں عصا کو پکڑ لیں گے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے ظہور کی اجازت مانگیں گے تو ان حالات میں آپ کے بعض موالی ظاہر ہوں گے پس حسنی نامی شخص حاضر ہو کر آپ کو ایک خبر دے گا اور اس وقت حسنی خروج کرنے میں جلدی دکھائے گا اس پر مکہ والے ٹوٹ پڑیں گے اور وہ اسے قتل کر دیں گے اور اس کے سر کو کاٹ کر شام روانہ کردیں گے پس ان حالات میں صاحب الامر علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اورلوگ آپ کی بیعت کریں گے اورآپ کا ساتھ دیں گے تو اس صورتحال میں شامی مدینہ کی جانب اپنی فوج بھیج دے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی فوج کو مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک کر دے گا اس دوران جو بھی مدینہ میں موجود ہوگا وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوگا مدینہ چھوڑ کر جانے والے سب حضرت علی علیہ السلام کی اولاد سے ہوں گے اور ان کا رخ مکہ ہوگا اور وہ وہاںجا کر صاحب الامر علیہ السلام کے ساتھ مل جائیں گے صاحب الامر علیہ السلام عراق کی جانب بڑھیں گے اور آپ علیہ السلام ایک لشکر کو مدینہ بھیج دیں گے جو مدینہ والوں کو امن دے گا وہ لشکر مدینہ میں امن قائم کرے گا اوراس طرح جو مدینہ سے باہر چلے گئے تھے وہ مدینہ واپس آجائیں گے۔(الکافی ج۸ص۵۲۲حدیث ۵۸۲)

حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنا نمائندہ مکہ والوں کے پاس بھیجیں گے
حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام ایک طولانی حدیث میں بیان فرماتے ہیں:حضرت قائم علیہ السلام اپنے ساتھیوں سے کہیں گے اے قوم! مکہ والے تو مجھے نہیں چاہتے لیکن میں ان کی جانب اپنا نمائندہ بھیج رہا ہوں تاکہ ان پر احتجاج کیا جا سکے جیسا کہ میرے جیسے شخص کے لئے ضروری ہے،اپنے اصحاب میں سے ایک کو بلائیں گے اس سے فرمائیں گے کہ تم مکہ والوںکے پاس جاﺅ اور ان سے یہ کہو اے مکہ والو!میں فلاں شخصیت (امام مہدی علیہ السلام)کی جانب سے تمہارے پاس نمائندہ بن کر آیا ہوں وہ تم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اہل بیت علیہ السلام رحمت ہیں ، ہم معدن رسالت ہیں، ہم ہی معدن و مرکز خلافت ہیں، ہم محمد کی ذریت ہیں اور انبیاءعلیہ السلام کی نسل اور اولاد سے ہیں، اس میں شک نہیں کہ ہمارے اوپر ظلم ڈھائے گئے، ہمارے ساتھ زیادتیاں کی گئیں ہمیں شکست سے دوچار کیا گیا ہمارا حق ہم سے چھین لیا گیا، ہمیں اذیتیں دی گئیںیہ سارے مظالم اس دن سے جس دن ہمارے نبی کا وصال ہوا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ہم تمہیں مدد کے لئے پکارتے ہیں تم سب ہماری مدد کرو....
جب یہ جوان (امام مہدی علیہ السلام کا نمائندہ)یہ گفتگو کرے گا تومکہ والے اس کے پاس آئیں گے اور رکن اور مقام کے درمیان اسے ذبح کردیں گے اور یہی شخص نفس زکیہ ہے۔
جب امام علیہ السلام کو یہ خبر ملے گی تو آپ اپنے اصحاب سے کہیں گے کہ میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ مکہ والے ہمیں نہیںچاہتے مکہ والے انہیںدعوت نہیں دیں گے بلکہ وہ خود عقبہ طوی سے تین سو تیرہ افراد کے ساتھ اتریں گے یہ تعداد بدر کے مجاہدوں کی تعداد کے برابر ہو گی،آپ مسجدالحرام میں پہنچیں گے مقام ابراہیم کے پاس آپ چاررکعت نماز پڑھیں گے اور حجر اسود کے ساتھ اپنی پشت لگائیں گے ان کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کریں گے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد کریں گے ان پر صلوات پڑھیں گے ایسی گفتگو کریں گے کہ اس سے پہلے کسی نے اس قسم کی گفتگو نہ کی ہو گی۔

ظہور امام علیہ السلام کے بعد بیعت کا عمل
اس وقت سب سے پہلے جو آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے وہ جبرئیل علیہ السلام ومیکائیل علیہ السلام ہوں گے اور ان دونوں کے ساتھ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام بھی آئیں گے اور آپ ایک جدید کتاب دیں گے جو عربوں پر بارگراں ہو گی جن پر تازہ مہر لگی ہوگی اور کہا جائے گا کہ جو اس پر تحریر ہے اس پر عمل کریں آپ کی بیعت تین سو(اورتیرہ)کریں گے ان میں مکہ کے افراد بہت تھوڑے ہوں گے۔
اسکے بعد آپ مکہ سے خروج کریں گے اس طرح کہ آپ ایک حلقہ کی مانند ہوں گے۔
راوی: حلقہ سے کیا مرادہے؟
امام علیہ السلام: آپ کے ساتھ دس ہزار مرد ہوں گے جبرائیل علیہ السلام آپ کی دائیں جانب اور میکائیل علیہ السلام آپ کی بائیں جانب ہوں گے پھر ”رایت ‘ اپنے خاص پرچم کو لہرائیں گے۔
حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام: تیرہ شہر اور تیرہ گروہ قائم علیہ السلام سے جنگ کریں گے اور آپ علیہ السلام ان سے جنگ کریں گے۔(غیبت نعمانی ص۰۶۱)

حضرت امام مہدی علیہ السلام ظہور کے بعد
۱۔ روایات میں جنگوں کے متعلق جو ذکر موجود ہے یہ ضروری نہیں کہ ان جنگوں کا آغاز حضرت امام مہدی علیہ السلام کریں گے۔ خاص کر اس روایت میں یہ نہیں کہا گیا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام مخالفین سے جنگ کاآغازکریں گے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ لوگ (امام کے مخالفین) امام مہدی علیہ السلام سے جنگ کریں گے اس کے بعد امام مہدی علیہ السلام بھی ان سے جنگ کریں گے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام جنگ کا آغاز نہیں کریں گے۔
۲۔ یہ بات درست ہے کہ آپ علیہ السلام عربوں پر سخت ہوں گے آپ کے اور ان کے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی، آپ علیہ السلاماللہ تعالیٰ کے پیغام کی خاطر جو بھی کارروائی کریں گے اس میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے عربوں پر یہ بات گراں گزرے گی کہ انہیں کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے گی آپ علیہ السلامحق کے نفاذ کے لئے تلوار کا استعمال بھی کریں گے اس قدر عربوں سے جنگ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کو بلند رکھنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہو جائے۔
۳۔ جو بات حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث میں ذکر ہوئی ہے اس وقت قریش کے فاجر و فاسق تمنا کریں گے کہ کاش! ان کے لئے کچھ دنیاوی مفادات کو بھی مدنظررکھاہوناتاکہ مال دنیا دے کروہ اپنی جان بخشی کرا لیتے لیکن ایسا نہیں ہوگا یا جو امام جواد علیہ السلام کی روایت میںہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضایت کے حصول تک آپ علیہ السلام جنگ کو جاری رکھیں گے اور اللہ کے دشمنوں کا قتل جاری رکھیں گے یہ بات اس پر دلیل ہے کہ آپ ایسے عربوں پر سخت ہوں گے جو تاجر مزاج ہوں گے مجرم ہوں گے، کافر ہوں گے ایسے افراد ہی تو اللہ کے دشمن ہیں انسانیت کے دشمن ہیں یہ قتل کئے جانے کے حقدار ہیں لیکن ایسے عرب حکمران اور ایسی عرب اقوام جو عدالت کے نفاذ کی انتظار میں ہیں، حق کی بالادستی ان کی آرزو ہے عدالت سے انہیں پیار ہے، اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں اور اسی آرزو پر زندہ ہیں تو ان کے لئے آپ علیہ السلام کا ظہورسوائے رحمت، شفقت، ہمدردی و پیار کے اور کچھ نہ ہوگا، امام علیہ السلام ان پر مہربان ہوں گے ان کے لئے رحیم ہوں گے ان پر شفیق ہوں گے۔
۴۔ یہ بات جو امیرالمومنین علیہ السلام کے بیان میں آئی ہے آپ علیہ السلامان سے ہاتھ اس وقت تک نہیں اٹھائیںگے جب تک اللہ تعالیٰ راضی نہ ہو جائے تواس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران قتل کرنا، مارنا، جنگ کرنا ایسا عمل ہو گا جس پر خدا راضی ہو گا اللہ تعالیٰ اپنے بندگان کے لئے کفر، گمراہی اور اتحاد کو نہیں چاہتا مگر یہ کہ لوگ خود ایسا اپنے لئے پسند کر لیتے ہیںاور حق کے داعی کی بات کو قبول نہیں کرتے امام برحق کو نہیں مانتے عدالت نافذ کرنے والے کا انکار کرتے ہیں اور اس امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سلطنت کی مخالفت کرتے ہیں جنہیںاللہ تعالیٰ نے اپنی زمین پر عدالت کے نفاذ کے لئے باقی رکھا ہوا ہے۔
میں اس جگہ یہ بات کہتا ہوں اس ساری گفتگو کا خلاصہ وہی بات ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے دعائے ندبہ میںہے جس میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے جہاد اور آپ کی دعوت کی کیفیت کو بیان کیا گیاہے۔
آپ نے اپنے دشمنوں کو ذلت و رسوائی اور سزا کے مزے چکھانے ہیں حق کے منکروں اور سرکشوں کا صفایا کرنا ہے آپ منکرین اور مغرور حکمرانوں کی بنیادوںکو اکھیڑ کر رکھ دیںگے اور ظالموں کی اصل اورنسل کا خاتمہ کردیںگے۔(مکیال المکارم ج۲ص۰۹)
پس ان لوگوں کے خلاف امام علیہ السلام کی جنگ اس لئے ہو گی کہ وہ حق کے مخالف ہوں گے، عدالت نہیں چاہیںگے، انسانیت کے دشمن ہوںگے، دین نہیں چاہیں گے، آپ کا خروج ہی اسی لئے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے مخالفین ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے اور ظلم و جور کے اسباب ختم کر دیئے جائیں وہ اس لئے خروج کریں گے تاکہ عدالت کا نفاذ کریں، مظلوموں کو ان کا حق دلائیں ، امن قائم کریں۔
امن کے قیام کے لئے جوسات اسلوب بیان ہوئے ہیںان میں آخری اسلوب ہی صحیح ہے جس میں تینوں اسالیب اور طریقوں کو اکٹھاکر کے بیان کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ چھٹی فصل میں ایک نئی بات ہم بیان کریں گے جو ان اسالیب سے کچھ مختلف ہو گی یا یوں جانیئے کہ ان اسالیب کوایک مناسب تبدیلی سے بیان کیا جائے گاجو بات طے ہے کہ عصرالظہور سائنسی ، تکنیکی وعملی ترقی کا دور ہو گایہ اس حالت سے مناسبت رکھتاہوگاعالمی سطح پر مختلف حکومتوں میں ان کی تبدیلی کے عشاق علماءسائنس دانوں، ادارہ جات، تنظیموںکاوجود اس عمل کو آسان کر دے گا اوربڑی تیزی سے عوام میں قبولیت آئے گی کہ وہ عدل و انصاف پر مبنی حکومت کو فوری قبول کرلیں گے ایسی حکومت جو علمی اور سائنسی بنیادوں پرقائم بھی ہو گی، ترقی پذیر ہو گی، امن کی ضامن ہو گی آئندہ صفحات میں اسے پڑھیے گا۔

حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبی سپورٹ ،حمایت
چوتھی فصل میں یہ بات گذر چکی ہے کہ جب ہم نے بتایا کہ امام علیہ السلام واقعیات اور اصل حقائق کے مطابق فیصلے دیں گے اور امام علیہ السلام کے درست اور صحیح فیصلے دینے کے متعلق روایات بیان ہوئیں، اس جگہ ہم اس بات کو کہنا چاہتے ہیں جو حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام سے یہ روایت موجودہے کہ آپ پر فرشتے اتریں گے جو حضرت نوح علیہ السلام کے لئے کشتی میں موجود تھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہمراہ جب انہیں آگ میں پھینکا گیا جو فرشتے حضرت موسیٰعلیہ السلام کے ساتھ تھے جب بنی اسرائیل کے لئے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور چار ہزار فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مسومین(نشان لگے) پھر ایک ہزار فرشتے۔مردفین(آگے پیچھے آنے والے)پھر تین سو تیرہ فرشتے بدریوں کی تعداد کے برابر اور چار ہزار فرشتے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی مدد میں ان کے مخالفین سے جنگ کے لئے اترے اور انہیں جنگ کی اجازت نہ ملی اور وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر پراب بھی موجود ہیں۔ گردآلود حالت میں مسلسل رو رہے ہیں اور قیامت تک ان کی یہ حالت رہے گی ان کا سردار فرشتہ ہے جسے منصور کہا جاتا ہے کوئی بھی زائر زیارت کے لئے نہیں آتا مگر یہ کہ فرشتے اس کا استقبال کرتے ہیں اس کو وداع کرنے پر اکتفاءنہیں کرتے بلکہ اسکے گھر تک اسے چھوڑنے جاتے ہیں اور پھر گھر میں بھی دس دن یا تین دن تک رہتے ہیں ان میں اگر کوئی مریض ہو جائے تو اسکی عیادت کرتے ہیں ان میں سے کوئی مر جائے تو اسکے جنازہ پر نماز پڑھتے ہیں اور اسکی موت کے بعد اس کےلئے استغفار کرتے ہیں اور یہ سب زمین پر موجود ہیں جو حضرت قائمعلیہ السلام کے خروج کا انتظار کررہے ہیں۔(بحارالانوار ج۲۵ص۸۲۳ باب ۷۲ذیل ۸۴)
جب آپ ظہور فرمائیں گے تو یہ سب آپ کی مدد کے لئے آپ کے ہمراہ موجودہوں گے ۔

حق کی تائید میں قرآنی آیات
”اے ایماندارو!اگر تم خدا(کے دین)کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا“۔(سورہ محمد آیت ۷۔پارہ ۶۲)
”اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو خدا(قرآن کے ذریعہ سے)مزید ہدایت کرتا ہے“(سورہ محمدآیت ۷۱۔ پارہ ۶۲)
”اے میری قوم اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو پھر اس کی بارگاہ میں(اپنے گناہوں سے)توبہ کرو تو وہ تم پر موسلا دھار مینہ آسمان سے برسائے گا(خشک سالی نہ ہوگی)اور تمہاری قوت میں اور قوت بڑھا دے گا اور مجرم بن کر اس سے منہ نہ موڑو“
(سورہ ہود آیت ۲۵، پارہ ۲۱)
”جن (مسلمانوں)سے (کفار) لڑا کرتے تھے چونکہ وہ (بہت)ستائے گئے اس وجہ سے انہیں بھی (جہاد کی)اجازت دے دی گئی اور خدا تو ان لوگوں کی مدد پر یقینا قادر(وتوانا)ہے۔ یہ وہ(مظلوم ہیں)جو(بیچارے)صرف اتنی بات کہنے پر کہ ہمارا پروردگارخدا ہے ناحق(ناحق)اپنے اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے دور دفع نہ کرتا رہتا تو گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوس کے عبادت خانے اور مسجدیں جن میں کثرت سے خدا کا نام لیا جاتا ہے کب کے کب ڈھا دیئے گئے ہوتے اورجوشخص خدا کی مدد کرے گا خدا بھی البتہ اس کی مدد ضرور کرے گا بے شک خدا ضرور زبردست غالب ہے“۔
(سورہ حج آیت ۹۳،۰۴،پارہ ۷۱)
”اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے(اور)تم پر آسمان سے موسلا دھار پانی برسائے گا اور مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغ بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا“(سورہ نوح آیت ۰۱تا۲۱،پارہ ۹۲)
ان آیات میں غیبی امداد کا تذکرہ ہے غیبی حمایت ہے، آسمانی مخلوقات کا مدد کے لئے اترنا ہے غرض حکم الٰہی کو اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے بندگان کے لئے نافذ کرنے کی خاطر پوری کائنات انتظار میں ہے اور جوبھی مخلوقات اس کائنات میں موجودہیں وہ سب اس وقت کے منتظر ہیں جب ہر طرف خوشحالی ہو ، انصاف کاراج ہوگا، عدالت ہوگی، ظلم نہ ہوگا، جہالت کا خاتمہ ہوگا، امن ہوگا تو یہ ساری مخلوقات اپنے ولی صاحب الامرعلیہ السلام کی حمایت میں اپنا کردار ادا کریں گی۔

دعوت دینے میں جدید علمی اور سائنسی اسلوب
علمی اعجاز
سابقہ اسالیب میں اعجازی اسلوب کا ذکر ہو چکا ہے تو ہماری مراد اعجاز سے غیرطبعی واقعات کا رونما ہونا تھا کائناتی تغیر و تبدل جیسے زمین کا دھنس جانا، آگ کا طوفان آنا، زلزلے ہونا یا فرشتوں کا اترنا‘ موسیٰعلیہ السلام کے عصا، سلیمان علیہ السلام کی خاتم اور اسی قسم کی اور چیزوں کاآپ کے پاس موجود ہونا۔
اس اسلوب کو امام علیہ السلام جہاں ضرورت سمجھیں گے استعمال میں لے آئیں گے۔
البتہ یہاں پر ایک اور اسلوب بھی ہے جسے امام علیہ السلام استعمال کریں گے جو بظاہر اعجاز ہی ہوگا لیکن درحقیقت اسلامی دعوت دینے کے طریقوں اورذرائع سے وہ بھی ایک ذریعہ ہوگا جو اس زمانہ کے ساتھ مناسبت رکھتا ہوگا جس میں امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔
یہ اسلوب، ذریعہ یا اعجاز اور اس کی جہت علمی ہوگی، البتہ اس کا اثر کائناتی ہوگا، حکومتوں، لشکروں، دانشوروں اور ان کے عقول پر اس کا اثر پڑے گا۔
حکومت اور فوج پر اس طرح کہ آپ کے پاس جو طاقت ہو گی اور جس قدرت کے آپ اس عالم میں مالک ہوں گے وہ قوت ان سب پر اپنے اثرات چھوڑے گی اور وہ اس حالت سے مرعوب ہوں گے جس کی تفصیلی بحث ہم چھٹی فصل میں کریں گے۔
مفکرین، دانشوران اور ان کے عقول پر اثرانداز ہونے والی بات تواس سے مراد وہ علوم ہیںجن کا استخراج حضرت امام مہدی علیہ السلام کریں گے اور وہ علمی اور سیاسی ہیں جن کو آپ پوری علمی دنیا کے لئے پیش کریں گے اور ان نظریات علمی پر دلائل قائم کریں گے اور یہ سب کچھ اس علم لدنی سے ہوگا جس کے آپ مالک ہوں گے اس بات کو بھی ہم چھٹی فصل میںبیان کریں گے