دنیا کے بادشاہوں کے لئے دعوت دینے کا نبوی طریقہ کار
انس سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بادشاہان قیصر، کسریٰ، حبشہ اوردوسرے جابر و ظالم حکمران کی جانب خطوط روانہ کئے ان کو اللہ تعالیٰ کی جانب دعوت دی، نجاشی ایسا خوش قسمت حاکم تھا کہ جس پر حضرت نبی اکرم نے صلوات بھیجی اور اس کے لئے رحمت کی دعا فرمائی۔(صحیح مسلم ص۴۷۷۱)
ابن عباس سے روایت ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے اہل الکتاب کی جانب اس مضمون کی تحریر روانہ کی گئی ”تَعَالَو ! اِلیٰ کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَی نَانَا وَبَی نَکُم “”آئیے ایک سیدھے کلمہ(بات) پر متفق ہو جائیں جوتمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ایک خدا پر اکٹھے ہو جائیں “۔
(سورہ آل عمران آیت ۴۶)(الدررالمنثورج۲ص۴۳۲)
جن کی طرف آپ نے خطوط بھیجے وہ کچھ اس طرح ہیں:قیصر بادشاہ روم، کیسریٰ بن ہرمزبادشاہ فارس، ھرقل،حارث ابن ابی شمر الغسانی۔(دیکھیں الخرائج والجرائح ج۱ص۱۳۱،۷۱۲۔ الطبقات الکبریٰ ج۱ص۹۵۲۔ البحارج۲،ص۹۸۳،۶۸۳ج۸ص۱۸۳۔صحیح مسلم ۳۷۷۱)
اسکندریہ(مصر) کے بادشاہ المقوقس کو خط بھیجا جو قبطیوں کے سربراہ تھے اسے اسلام کی دعوت دی اس کے پاس حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط پہنچا اس نے یہ خط پڑھ کر اچھا ردعمل ظاہر کیا اس نے خط لے کر اسے عاج(ہاتھی کے دانتوں سے بنی) کی صندوقچی میں رکھا اس پر مہرلگائی اور اپنی کنیز کے سپرد کردیا اور نبی اکرم کو اس طرح جواب لکھ بھیجا ”مجھے معلوم تھا کہ ایک نبی نے ابھی تشریف لانا ہے اور میرا خیال تھا کہ وہ شام سے خروج کرے گا میں نے آپ کے نمائندہ کا احترام کیا میں دوکنیزوں کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں قبطی قبیلہ میں ان کی بڑی شان ہے آپ کے لئے ایک لباس ہدیہ بھیجا ہے اور سواری کے لئے ایک خچر بھی روانہ کررہا ہوں، اس نے اس پر کچھ اور نہ لکھا اور اسلام کا اظہار نہ کیا۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قبول کر لیا اور اس کی دونوں کنیزوں کو بھی وصول کر لیا، جناب سیدہ ماریہ علیہ السلام جو اُم ابراہیم علیہ السلام ہوئیںاور ان کا بڑا شرف ہے کہ وہ رسول اللہ کی زوجیت میں آئیں اور صاحب اولاد بھی ہوئیں۔اور اس کی بہن ماریہ تھی اور سفید رنگ کا خچر تھا کہ عرب دنیا میں اس جیسا اور موجود نہ تھا اسی کو دُلدُل کہا جاتا تھا۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بدبخت نے سلطنت کالالچ کیا جب کہ اس کی سلطنت کے لئے بقاءنہیں ہے حاطب نے کہا جو مقوقس کی جانب سے رسول اللہ کے پاس آیا آپ نے بہت اچھی مہمانی دی میں آپ کے ہاں زیادہ نہ ٹھہرا فقط پانچ دن قیام کیا۔(الطبقات ج۱ص۱۶۲)
لھوذہ بن علی الحنفی کو خط لکھا اور اسے اسلام کی دعوت دی اس کے پاس رسول اللہ نے نمائندہ بھیجا اس نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط وصول کیا اسے پڑھا اور نبی اکرم کی طرف جواب تحریر کیا لیکن اس نے جو جواب دیا وہ غیر مناسب تھا اس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تحریر کیا ”کیا ہی خوبصورت ترین بات ہے جس کی طرف آپ دعوت دے رہے ہیں یہ بہت ہی عمدہ دعوت ہے میں قومی شاعر ہوں اور اپنی قوم کا خطیب ہوں عرب میری منزلت سے خوف کھاتے ہیں میری عربوں میں ہیبت اور رعب ہے، جس بات کی طرف آپ دعوت دیتے ہو تو اس سے کچھ میرا حصہ قرار دے دو تو میں آپ کی پیروی کروں گا“۔
سبط بن عروہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے تھے اسے تحائف دیئے بہترین پوشاک اسے پہنائی جو ھَجَر علاقے کے بنے ہوئے تھے سبط یہ سب کچھ لے کر حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضڑ ہو گیا اور سارے حالات و واقعات سے آپ کو آگاہ کیا اور اس کا خط آپ کو پڑھ کر سنایا آپ نے اس کا خط سن کر فرمایا اگر وہ مجھ سے زمین کا سایہ ( )طلب کرے تو بھی میں اسے نہ دوں گا بَادَ وَ بَادَ مَا فِی یَدَی ہِ( )جس وقت حضور پاک فتح مکہ کے سال واپس ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے واپس آ کر بنایا کہ وہ مر گیا ہے۔(الطبقات الکبریٰ ج۱ص۰۶۲۔۱۶۲)
بادشاہ روم کی جانب خط
اس خط میں آپ نے تحریر فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جو اللہ تعالیٰ کا عبد اور بندہ ہے اس کی جانب سے یہ خط ہے ھرقل کی طرف جو روم کا بڑا ہے اور سلامتی ہے ان کے لئے جو ہدایت کی پیروی کرے۔
اما بعد!میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں، تم مسلمان ہو جاﺅ تو محفوظ رہو گے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دو مرتبہ(دوبرابر)عطا کرے گااور اگر تو اس سے پھر گیا اور دعوت کو قبول نہ کیا تو پھر تیری رعیت کا گناہ تیری گردن پر ہوگا”یَا اَہ لَ ال کِتَابِ تَعَالَو ا اِلیٰ کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَی نَنَا وَبَی نَکُم اَلَّا نَع بُدُ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُش رِکَ بِہ شَیئاً وَلَا یَتَّخِذَ بَع ضُنَا بَع ضاً اَر بَاباً مِّن دُو نِ اللّٰہِ فَاِن تَوَلَّو ا فَقُو لُو ا ش ہَدُو ا بِاَنَّا مُس لِمُو نَ“۔ (تفسیر ثعلبی ج۳ص۶۸)
آیت کا ترجمہ: اے اہل کتاب تم سب ایک کلمہ (بات) پر آجاﺅ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ بات یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ آپس میں کسی ایک کو ایک دوسرے کا رب قرار نہ دیں اور اگر تم اس پر نہ آﺅ تو پھر تم سب یہ بات کہہ دو کہ تم گواہی دو کہ ہم تو مسلمان ہیں“۔
خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیار،محبت، منطق، دلیل سے لوگوں میں اسلام کو پھیلایا ، آپ نے خط وکتابت کے ذریعہ کوبھی اسلام کی دعوت کے لئے استعمال کیا اپنے سفراءاور نمائندوں کے ذریعہ بھی اسلام کی دعوت دی خود براہ راست بھی دوسروں کے پاس جا کر انہیں اسلام کی دعوت دی اسلام کی دعوت کو کسی ایک طبقہ یا کسی ایک علاقہ تک مخصوص نہ رکھا بلکہ ہر طبقہ کو اسلام کی طرف بلایا اور ہر علاقہ کے لوگوں کو بلایا اور آپ کے زمانہ میں جتنی بڑی بڑی حکومتیں اور سلطنتیں ہیں اور جو بڑے بڑے معروف گروہ تھے ان حکومتوں کے سربراہوں اور ان گروہوں کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دی آپ نے اپنے زمانہ میں اس دور کی معروف شخصیات تک اپنے پیغام کو پہنچایا۔
اہل البیت علیہ السلام کا اسلام کی طرف دعوت دینے کا اسلوب
اہل البیت علیہم السلام نے اسلام کی دعوت عام کرنے کے لئے قرآنی اسلوب سے استفادہ کیا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقوں کو اپنایا ۔
جی ہاں! آپ حضرات جن زمانوں میں تھے تبلیغ دین اور اسلام کی طرف دعوت دینے میں اپنے زمانہ کے حالات اور مسائل کا لحاظ رکھا اور اس زمانہ کی مناسبت سے جو خاص طریقہ اپنانا پڑا تو آپ نے اسے اپنایا جیسے حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنے دور میں جو طریقہ اپنایا البتہ آپ حضرات علیہم السلام نے جو بھی رویے اپنے اپنے زمانوں میں اپنائے ان کا مآخذ قرآن مجید اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی رہا۔ حضرت امام حسن علیہ السلام کامعاویہ کے ساتھ صلحنامہ یا جنگ بندی کے معاہدہ پر دستخط کرنا تو یہ آپ کے دور کا تقاضا تھا پھر حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید کے خلاف آواز بلند کی اور اس کی بیعت سے انکار کیا اور پھر اسی انکار نے آپ کو کربلا تک پہنچا دیا اور آپ نے اسلام ہی کی دعوت کو عام کرنے اور لوگوں تک صحیح اسلام پہنچانے کے لئے شہادت کا راستہ اپنایا اور اسی طرح باقی آئمہ کا زمانہ ہے کہ ہر امام نے اسلام کے پیغام کو خودمسلمانوں کے اندر اور مسلمانوں سے باہر کے طبقات میں اسلام پہنچانے کے لئے جو طریقے اپنائے سب کے سب قرآنی اور نبوی طریقے ہیں اور یہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کا اسلوب دعوت
امام علیہ السلام کے اسلوب اور طریقہ کار سے مراد ہماری یہ ہے کہ آپ یہ سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کریں گے کہ جس حکومت کی بنیاد عدالت عام کرنے اور حقیقی عدل کو رواج دینے اور اللہ کے دین کا اس طرح نفاذ کہ جس طرح مرضی خدا ہے اسے عملی صورت میں لانے کے لئے ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسانوں کی خلقت کا ہدف اپنی عبادت اور اطاعت کو قرار دیا ہے۔
(سورہ الذاریات آیت ۶۵)
سارے انسانوں کی خلقت کا ہدف اللہ واحد احد کی عبادت ہے اور ابھی تک انسان اس منزل تک نہیں پہنچا کہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں یہ اس وقت ہو گا کہ جب حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے اس ہدف کے حصول کے لئے آپ اپنی آمد کے بعد کیا طریقہ کار اپنائیں گے اس جگہ کئی احتمالات دے سکتے ہیں۔
۱۔ پہلا اسلوب یہ اختیار کریں گے کہ اپنی دعوت کاآغازموعظہ حسنہ سے کریں گے قتل اور جنگ کا راستہ نہ اپنایا جائے، وعظ، نصیحت، دلیل، منطق، گفتگو، مذاکرہ سے اپنی بات سے دوسروں کو قائل کیا جائے گا۔
۲۔ دوسرا اسلوب یہ اختیار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جہاد کریں گے اور تلوار کے سایے میں حکومت قائم کریں گے۔
۳۔ تیسر ااسلوب اعجاز کا ہوگا مکمل معجزہ ہوگا ، تلوار کا استعمال نہ ہوگا۔
۴۔ چوتھا اسلوب پہلے اور دوسرے کا ملاپ ہوگا یعنی وعظ،نصیحت، مذاکرات اور گفتگو کا اندازاپنایا جائے گا اور جہاں پر یہ فائدہ نہ دے گا تو تلوار کا استعمال کیا جائے گا۔
۵۔ دعوت دی جائے گی اور معجزہ کا راستہ بھی اپنایا جائے گا۔
۶۔ جہاد ہو گا اور معجزہ بھی ساتھ ساتھ ہوگا۔
۷۔ تینوں طریقوں کا امتزاج ہوگا۔(۱)وعظ و نصیحت و مذاکرات و گفتگو، دلیل، عقل منطق(۲)جہاں پر یہ کارگر نہ ہو تو جنگ ،تلوار(۳)جس جگہ یہ دونوں کام نہ کریں تو معجزہ کا استعمال ہوگا بلکہ ان دونوں طریقوں کے استعمال ہی میں اعجازی پہلو بھی ہوگا۔
اس بیان پر دلائل موجود ہیں جو پہلے دوسرے اور تیسرے اسلوب کو بیان کر رہے ہیں جیسا کہ بعد کے بیانات سے روشن ہو جائے گا۔
پہلا اسلوب: مسالمت آمیز طریقہ سے دعوت دینا
قرآن میں جو تبلیغ کے طریقے بیان کیے گئے اور جو حضرت نبی اکرم کی سیرت اور آئمہ اہل البیت علیہم السلام کی روشوں سے ثابت ہے ان سب کو آپ علیہ السلام استعمال کریں گے ، قتل، تباہی، سختی، دھونس، ڈرانے، دھمکانے کے بغیر دعوت دیں گے اس پر دلیل حسب ذیل روایات ہیں۔
۱۔ روایت کی گئی ہے کہ آپ دعوت کے لئے قتل کا رویہ نہ اپنائیںگے جناب ابوہریرہ سے روایت بیان ہوئی ہے کہ مہدی علیہ السلام کی بیعت رکن(حجر اسود والاکونہ) اور مقام (مقام ابراہیمی علیہ السلام) کے درمیان (بیت اللہ میں)بیعت کی جائے گی آپ سوتے ہوئے کو جگائیں گے نہیں اور نہ ہی کسی کا خون بہائیں گے ۔(کتاب الفتن لابن حمادص۲۱۲)
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک اورحدیث روایت ہوئی ہے کہ”مہدی علیہ السلام کی جانب آپ کی امت پناہ لے گی جس طرح شہد کی مکھیاں اپنی سردار مکھی کے گرد جمع ہوتی ہیں اور اس کی پناہ میں آتی ہیں، زمین کو عدالت اور انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین ظلم اور جور سے بھر چکی ہو گی اسی طرح کہ سارے لوگ اپنے پہلے امر پر ہوں گے (فطرت پر ہو جائیں گے) آپ کسی سوئے ہوئے کو جگائیں گے نہیں اور نہ خون بہائیں گے۔(الملاحم والفتن ص۷۴۱ حدیث ۸۷۱)
۲۔ روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام قرآن کے لئے دعوت دیں گے اور قرآن پر عمل کا کہیں گے حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے، مہدی علیہ السلام مکہ میں عشاءکے وقت ظاہر ہوں گے آپ کے ہمراہ رسول اللہ کا پرچم اور آپ کی قمیص ہوگی....وہ اعلان کریں گے کہ اس کو تم سب زندہ کرو جسے قرآن نے زندہ کیا ہے اور تم سب اسے مار دو جسے قرآن نے ختم کیا ہے اور ہدایت کے لئے تم سب مددگار بنو اور تقویٰ کے لئے تعاون کرو، تقویٰ کی مضبوطی بنو....میں تمہیں اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف دعوت دیتا ہوں اور یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو باطل کو ختم کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور یہ کہ رسول اللہ کی سنت کو زندہ کرو۔(الملاحم والصنن ۷۳۱۔۷۵۱)(الصراط المستقیم ج۲ص۵۲۳)
۳۔ روایت ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کی دعوت دیں گے جیسا کہ گذشتہ روایات میں تھا۔
۴۔ روایت بیان ہوئی ہے کہ قوم کو وعظ کریں گے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت میں آیا ہے: قائم (علیہ السلام و عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)اپنے اصحاب سے کہیں گے کہ مکہ والے مجھے نہیں چاہتے لیکن میں ان کے پاس کسی کو بھیجتا ہوں تاکہ ان پر احتجاج کیا جا سکے اور مجھ جیسی شخصیت کو جیسا کہ اقدام اٹھانا چاہیئے میں ایسا کروں اور ان پر احتجاج کروں۔(البحار ج۳۱ص۰۸۱)
۵۔ یہ روایت بھی ہوئی ہے کہ آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جائے گی اور یہ محبت تباہی ، ویرانی، قتل و غارتگری، سخت روش کے منافی ہے۔
حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے :اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت کو ڈال دے گا“دو لفظ ہیں ایک میں ہے خودیلقی....دوسرے میں ہے خدا یقذف....دونوں کا معنی قریب قریب ہے اللہ محبت کو ڈال دے گا۔ یعنی بغیر کوشش کے خدا کی طرف سے عطا ہو گی کہ اپنے ولی کی محبت کو دلوںمیں جاگزیں کر دے گا(یقذف پھینک دے گا، یلقی ڈال دے گا)
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے : میں نے سوال کیا یا رسول اللہ! کیا مہدی علیہ السلام ہم آل محمد سے ہوں گے یا ہمارے غیر سے ہوں گے؟ رسول اللہ نے فرمایا:ہم سے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان پر دین کا اختتام کرے گا جس طرح آغاز ہم سے ہوا، ہمارے ذریعہ لوگوں کو فتنوں سے نجات دلائی جائے گی جس طرح ہمارے ذریعہ سے انہیں شرک سے بچایا گیا ہمارے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت اور محبت پیدا کر لے گا جب کہ اس سے قبل ان میں کینہ کی آگ نے دشمنی ڈال رکھی ہو گی جس طرح شرک کی دشمنی کے بعد ان کے دلوں کو ایمان کی برکت سے قریب کر دیا اور کل کے دشمن آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔(غیبة النعمانی ص۰۵۱)
سوال: جب ہم دوسرا اسلوب بیان کریں گے جس میں آیا ہے کہ آپ علیہ السلام جہاد کریں گے ، تباہ کن جنگ ہو گی، قتل ہوگا، مار دھاڑ ہو گی تو یہ سارے بیانات اس کے ساتھ منافات رکھتے ہیں ان میں سے کون سا طریقہ درست ہے یا پھر اس کی توجیہ دینا ہو گی اسے بعد میں بیان کیا جائے گا۔
دوسرا اسلوب :جہاد
ہماری مراد اس روش سے یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ساری تحریک اور آپ کے قیام کا محور و مرکز جہاد ہو گا اس میں مسالمت آمیز رویے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی غیر معمولی اعجاز کا میدان ہے اس جہاد سے مراد جہاد اصغر ہے جس میں جنگ ہے، ماردھاڑ ہے، قتل سے سزا دیناہے۔
اس رویہ پر دلائل
۱۔ روایات میں واردہوا ہے کہ آپ بہت زیادہ قتل کریں گے زخمیوں کو بھی مار ڈالیں گے۔
حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ :اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ قائم علیہ السلام جب خروج فرمائیں گے تو وہ کیا کریں گے تو اکثر کی خواہش یہ ہو گی کہ وہ انہیں نہ دیکھیں بوجہ لوگوں کو کثرت سے قتل کرنے کے، یعنی لوگ آپ کے قتل و ماردھاڑ کے رویہ کو دیکھ کر یہ خواہش رکھیں گے کہ وہ انہیں نہ دیکھیں۔ایک روایت میں ہے....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت میں نرم رویہ اپنایا لوگوں میں محبت عام کرتے تھے آپس میں جوڑتے تھے جب کہ قائم علیہ السلام کی سیرت اور روش قتل کرنا ہوگا، مارنا ہوگا۔
ایک روایت میں ہے کہ قائم علیہ السلام بھاگنے والے کو ماریں گے اور زخمی کو بھی قتل کر دیں گے۔(غیبة النعمانی ص۱۲۱)
۲۔ بعد میں ذکر ہوگا کہ آپ ظہور کے بعد توبہ قبول نہ کریں گے اور نہ ہی کسی سے یہ چاہیں گے کہ وہ توبہ کرے جس کا معنی یہ بنتا ہے کہ جو شخص گناہ پر ہوگا آپ اسے قتل کر دیں گے چہ جائیکہ جو کافر یا مشرک ہو ان کے معصیت کار کو معاف نہیں کریں گے اور جو غیر مسلم ہوں گے تو پھر ان کے لئے معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔
سوال: یہ روش پہلی روش کے ساتھ منافات رکھتی ہے ان دونوں کو کیسے یکجا کیا جائے تو یہ بعد میں بیان ہوگا۔ علاوہ برایں اگر کوئی ہدایت پا سکتا ہو اور اس میں وعظ و نصیحت اس کے لئے موثر ہو تو پھر اسے کیوں مارا جائے گا یہ بات تو انتقام ہوگی جب کہ آپ کا مقصد مطلق عدل کا نفاذ ہے۔
تیسرا اسلوب اعجاز کا ہے
اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام مسالمت آمیز روش نہ اپنائیں گے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اور قتل وتباہی اور مار کٹائی سے بھی کام نہ بنے گا کیونکہ دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی اور وہ طاقتور بھی ہوں گے۔ پس آپ اعجازکی روش اپنائیں گے معجزاتی طریقہ سے عدل قائم کریں گے یہی مفہوم عام افراد کے ذہن میں راسخ ہے کہ امام علیہ السلام معجزاتی طریقہ سے پورے عالم پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عام لوگ امام علیہ السلام کی تحریک، آپ کی دولت کے قیام کی کیفیت اور اس کے لئے بنیادی اور اسکے صحیح مفہوم سے ناواقف ہیں۔
اس پردلائل
روایت ہے کہ آپ کے پاس سارے انبیاءوالے معجزات ہوں گے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ: مہدی علیہ السلام میری اولاد سے ہیں ان کے لئے غیبت ہو گی حیرانگی اور سرگردانی ہو گی، اس میں ساری اقوام گمراہ ہو جائیں گی آپ انبیاءعلیہم السلام کے ذخیرہ کو لے کر آئیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔(فرائدالسمطین ج۲ص۵۳۳حدیث ۷۸۵)
محدث حرالعاملی اپنی اثبات الہداة میں فضل بن شاذان سے اپنی اسناد کے واسطہ سے عبداللہ بن ابی یعفور سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابوعبداللہ جعفر بن محمد(صلوات اللہ علیہھا وعلی آبائھا وابنائھا) نے فرمایا : انبیاء علیہ السلام اور اوصیاءکے معجزات سے کوئی معجزہ ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس جیسے معجزہ کو ہمارے قائم علیہ السلام کے ہاتھ پر جاری فرمائے گا تاکہ سارے دشمنوں پر اتمام حجت ہوجائے۔
(اثبات الہداہ ج۷ص۷۵۳حدیث ۷۳۲)
۲۔ جو روایات میں آیا ہے کہ آپ کی قدرت اور قوت آ پکا علم اور آگہی غیر معمولی ہو گی اور عام قوانین کے دائرہ سے ماورا ہو گی جس سے آپ پوری دنیا کو پلٹ کر رکھ دیں گے اور یہ وہ چیز ہے جس سے صاحب الزمان علیہ السلام کے لئے ولایت تکوینی کا عنوان ہے۔ بعد میں اس بارے بیان ہوگا۔
۳۔ روایت میں آیا ہے کہ ساری زمین آپ کے لئے سمٹ آئے گی آپ بادلوں میں گھومیں گے آپ کے اصحاب پانی کی سطح پر چلیں گے فرشتوں سے آپ کی مدد ہو گی جبرئیل علیہ السلام آپ کے دائیں میکائیل علیہ السلام آپ کے بائیں ہوں گے اور جو روایات زمین زلزلوں، زمین کے پھٹنے بارے میں ہیں جیسا کہ گذر چکا ہے ۔ ان مضامین پر مشتمل روایات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی ساری تحریک معجزاتی ہو گی اس میں قتل مار دھاڑ یا مسالمت آمیز رویوںکازیادہ کردار نہ ہوگا۔
سوالات
۱۔ پچھلے دو اسلوب بارے جو روایات ہیں ان کا کیا بنے گا۔
۲۔ عسکری تیاری بارے جو روایات ہیں، فوج بنانے، اسلحہ ذخیرہ کرنے ، جنگی تربیت لینے والی روایات کا کیا بنے گا۔
۳۔ اس کالازمہ یہ ہے کہ آپ یہ سب کچھ طاقت رکھنے پر خاموشی میں ہے یہ سارا ظلم ہو رہا ہے اگر عدالت کے نفاذ نے اعجازی طریقہ سے ہی ہونا ہے اور یہی تنہا راستہ ہے تو پھر اتنی لمبی غیبت کیوں؟ اب تک امام علیہ السلام کا صبر کس لئے؟ آپ نے غیبت صغریٰ کے دوران قیام کیوں نہیں کیا؟ آپ اس دوران ہی اپنے اس اسلوب کو استعمال کرتے اور ظلم کا خاتمہ کر دیتے۔
تو کیا امام زمانہ علیہ السلام یہ پسند کرتے ہیں کہ مومنین کی ایک کمزور جماعت ظلم برداشت کرتی رہے، قتل ہوتے رہیں، ان کے سر اڑتے رہے، ان کی عزتیں لٹتی رہیں، ان کے اموال غارت ہوتے رہیں اور امام سب کچھ دیکھتے رہیں اگر یہ مان لیںتو پھر آپ امام عدل نہیں ہیں؟ کچھ اور ہی ہیں (العیاذ باللہ)
چوتھا اسلوب پہلے اور دوسرے اسلوب کو استعمال کرنا ہے
قرآنی اور نبوی اسلوب کو استعمال میں لائیں گے، مسالمت آمیزدعوت بھی ہوگا اور جہاد بھی ہوگا، جہاں پر عدالت کے نفاذ میں رکاوٹ آئے گی تو اس رکاوٹ کو جہاد کے ذریعہ دور کریں گے سختی بھی کریں گے ضرورت پڑی تونرمی بھی کریں گے اور جزوی طور پر جہاں کہیں ویرانی کی ضرورت پڑی تو وہ بھی کریں گے۔
اس کے دلائل
اس کے دلائل وہی ہیں جو پہلے اسلوب میں ذکر ہو چکے ہیں۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ دونوں اسلوب اکٹھے طولی شکل میں استعمال میں لائے جائیں گے جب ایک سے کام نہ چلے گا تو اس کے بعد دوسرا اسلوب استعمال میں لایا جائے گا۔
اس پر اعتراض: وہی اعتراض ہے جو اعجازی طریقہ کار کے بارے بیان ہوا ہے۔
پانچواں اسلوب
اس میں پہلے اور تیسرے اسلوب کو استعمال میں لایا جائے گا مسالمت آمیز دعوت کے ساتھ ساتھ اعجازی طریقہ کار بھی ہوگا اور ضرورت پڑنے پر جہاد بھی ہوگا۔
اس کی دلیل وہی ہے جو ان اسالیب میں بیان ہو چکی ہے۔
اس پر اعتراض
دوسرے اسلوب والی روایات ہیں اس کے علاوہ مسالمت آمیزدعوت اور اعجازی طریقہ کے درمیان ظاہری طور پر منافات موجود ہے اور اعجازی طریقہ کا روز مرہ وسیع پیمانے پر قتل کاجاری رہنا بھی ہے اور زمین بوس دشمنوں کو کردینابھی ہے مگر یہ کہ اس مقام پر سائنسی اعجاز مراد لیا جائے جو مسالمت آمیز دعوت کو مکمل کرنے والا ہے یہ احتمال موجود ہے بلکہ ایسا ہونا یقینی ہے کہ روایات میں ہے کہ زمین اور آسمان اپنے خزانے کھول کر رکھ دیں گے۔(بحارالانوار ج۳۵ص۶۸)
جو روایت میں آیا ہے کہ آپ ہر قسم کی تباہی اور بربادی کا خاتمہ کر دیں گے اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں وسیع پیمانے پر ترقی ہو اور جس سے ان خطرات کا ازالہ ہو جوزمین زلزلوں، آسمانی آفات سے رونما ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا بوجہ ان اعمال کے جو کچھ ان انسانوں نے انجام دیا یہ اس لئے ہوا تاکہ وہ اپنے ان اعمال کا کچھ مزہ چکھ لیں جو انہوں نے انجام دیئے ہیں یہ بھی ان کی تنبیہ کے لئے شاید کہ وہ واپس پلٹ آئیں( اور اللہ کی اطاعت میں آجائیں)(سورہ الروم آیت ۱۴)
چھٹا اسلوب
دوسرے اور تیسرے اسلوب کو ملا کر کام کرنا ہے، جہاد ہوگا اور اعجاز ہوگا اور یہ طولی شکل میں ہوگا جہاں پر جہاد کمزور پڑرہا ہوگا وہاں معجزہ اسے مضبوط کرنے کے لئے استعمال ہوگا۔
اس کی دلیل وہی ہے جو ان دو اسلوب میں دی جا چکی ہے اس پر اعتراض وہی ہے جو ان تین اسالیب کو بیان کرتے وقت ذکر ہوچکا ہے۔
ساتواں اسلوب
تینوں اسالیب کو طولی شکل میں استعمال کیا جائے گا یعنی آغازمسالمت آمیز دعوت سے ہوگا، موعظہ حسنہ ہوگا، دلیل اور منطق سے لوگوں کو متوجہ کیا جائے گا، حق کی طرف بلایا جائے گا، پیار و محبت سے سمجھایا جائے گا جب اس انداز کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی اور آواز حق کو دبایا جائے گا تو پھر اس دعوت کے سامنے آنے والی رکاوٹوں کو توڑنے کے لئے جہادی عمل شروع کیا جائے گا اگر جہادی عمل میں مشکل سامنے آئی اور کامیابی میں رکاوٹ آنے لگی تو اس وقت اعجاز اور معجزہ درمیان میں آئے گا اور فتح یقینی ہوگی۔
عقلی اور شرعی دلیل
عقلی دلیل اپنے ہدف اور غرض کو توڑنا عقلاءکی سیرت کے خلاف ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام سیدالعقلاءہیں وہ کس طرح اپنی غرض کو توڑ سکتے ہیں کس طرح ایسا کام کریں گے جس سے انکا مقصد ہی فوت ہو جائے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے خروج اور قیام کی غرض و غایت عدالت کا نفاذ ہے ایسی عدالت جو پورے کرہ ارض کو شامل ہو تاکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی خالص عبادت کے لئے خلق فرمایا ہے وہ غرض حاصل ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں“(الذاریات آیت ۶۵)
جو چھ اسالیب پہلے بیان ہو چکے ہیں وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر تنہا اس غرض کو پورا نہیں کرتے کیونکہ اگر تنہا جہادی طریقہ ہو تو اس سے تباہی و ویرانی توڑ پھوڑ، قتل و غارتگری اورنفرتیں ہوں گی اس سے جدید ترین ، تباہ کن اسلحہ کے استعمال سے فضاءآلودہ ہو گی اور یہ اس قتل کی کثرت کی وجہ سے ہوگاجو عدالت کے منافی ہے بلکہ ظلم کے مقدمات سے ہے ۔
مثال امام علیہ السلام کسی ایک شہرمیں وارد ہوتے ہیں اور پھر وہاں جنگ کرتے اور اسی فیصد آبادی کو مار دیتے ہیں تو اس اقدام پر یہ نہیں کہا جائے گا کہ امام علیہ السلام نے عدل قائم کیا اور زمین سے ظلم ختم کیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ زمین والوں کا صفایا کر دیا اور تھوڑے سے تسلیم ہو گئے یہ بات ہدف کے منافی ہے۔سومیں سے اسی افراد کو قتل کر دیا جائے اور بیس افراد کو زندہ رکھا جائے تو یہ بات بھی ہدف کے منافی ہے۔
۲۔ اگر مسالمت آمیز دعوت کو استعمال میں لایا جائے اور دوسرے ذرائع استعمال میں نہ لائے جائیں تو یہ بھی کافی نہیں کیونکہ غرض اس انقلاب سے یہ ہے کہ پورے عالم میں عدالت کا نفاذ ہو جب کہ مختلف تہذیبیں ہیں ایک وسیع و عریض زمین پر رہنے والے انسانوں کے مزاجوں کا اختلاف ہے ان کی زبانیں مختلف ہیں پھر یہ بھی ہے کہ اکثریت پرظلم و زیادتی کا راج ہے تباہ کن اسلحہ بھی موجود ہے اور کوئی ظالم حکمران اپنی حکومت اور تسلط کو آسانی سے نہ چھوڑے گا۔مسالمت آمیزدعوت جو متعارف ہے اسے ابتدائی سطح کے چھوٹے معاشرہ میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے تو دعوت کا یہ انداز زیادہ فائدہ نہ دے گا بلکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں اس طریقہ کا استعمال کمزوری سمجھا جائے گا۔یہ اس صورت میں ہے جب ہم یہ کہیں کہ اس قسم کی دعوت امام علیہ السلام کی حکومت کے لئے اس معقول عرصہ میں ہدف کو پورا کر دے گی جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضرت نبی اکرم ایک اسلامی حکومت کوقائم کرتے ہیں(پوری عدالت پورے معاشرہ میں نافذ نہیں کرپاتے کیونکہ خود مدینہ میں منافقین، یہود و نصاریٰ، مشرکین تک موجود رہے اسی طرح جب مدینہ سے باہر اس کا دائرہ وسیع ہوا تب بھی کامل سطح پر اور ہر ایک کے لئے عادلانہ حکومت کا نفاذ نہ ہوا)اور وہ بھی ایک بہت سارے محدود ماحول میں دنیا کے ایک بہت ہی چھوٹے سے حصہ پر اس کے لئے بھی بیس سال لگ جاتے ہیں یہ نتیجہ ہے مسالمت آمیز دعوت کاہے، اس تناظر میں غور کریں کہ آپ کے نواسے حضرت امام مہدی علیہ السلام جو پورے عالم میں ایک عادلانہ اسلامی حکومت قائم کرنا چاہیں گے اور وہ بھی ایسے ماحول میں کہ جہاں پر تباہ کار اسلحہ کی بھی بھرمار ہو، ظالموں اور ستمگروں کا راج ہو، ان کے پاس بھی سارے زندگی کے وسائل موجودہوں تمام معاشی ذرائع پر ان کا کنٹرول ہو ، ذرائع ابلاغ بھی ان کے پاس ہوں، جدید ٹیکنالوجی بھی وہ رکھتے ہوں، اس پوری زمین پر عدالت کے نفاذ کے لئے کس قدر وقت درکار ہو گا، اتنے بڑے معاشرہ کی حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ والی سول سوسائٹی جس پر آپ نے اسلامی حکومت قائم کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے پھر ایسی عدالت کا نفاذ کہ پوری آبادی عصمت کے مقام پر پہنچ جائے کہ کوئی بھی مجرم نہ رہے سب اچھے بن جائیں، نیک ہوں، تو ایسا طریقہ ہے کہ اس ذریعہ سے تو سو سال میں بھی یہ مقصد پورا نہ ہوگا، اور یہ بھی اگر فرض کر لیں کہ آپ کی مسالمت آمیزدعوت، منطقی انداز اور تبلیغی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے گی آپ کو موقع دیا جائے گا کہ آ پ اپنی بات سب انسانوں سے کر سکیں تو اس طرح آپ کی طولانی غیبت کے بعد ظہور اوروہ بھی اس مقصد کے لئے تو یہ اصل ہدف کو توڑنے والی بات ہے اور غرض کے منافی ہے۔
۳۔ اگر اسلوب اور روش فقط اعجازی ہو، مسالمت آمیز دعوت نہ ہو تو یہ طریقہ بھی تبا ہی اور بربادی لائے گا، ویرانی ہو گی اگر امام علیہ السلام پورے عالم میں مختلف حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے زمینی زلزلے، آسمانی آفات کااستعمال کریں گے، ہر جگہ معجزہ سے ویرانی کریں گے اور بڑی مقدار میں انسانوں کو مار ڈالیں گے تو بھی غرض کے منافی ہے وہ تو انسانوں کو خوشحالی دینے آئیں گے انسانوں پر عدالت کا نفاذکرنے آئیں گے نہ کہ انسانوں کو مارنے آئیں گے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ سابقہ طریقے اور رویے جو بیان ہوئے ہیں ان کو اگر تنہا تنہااستعمال میں لایا جائے تو اس سے مقصد و غرض حاصل نہیں ہوتا لہٰذا ان تینوں طریقوں کو استعمال میں لایا جائے گا جہاں جس طریقہ کی ضرورت ہو گی وہاں پر وہی طریقہ اپنایاجائے گا، دعوت بھی ہو گی،معجزہ بھی ہوگا، جنگ بھی ہوگی ۔
|