حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

پانچویں فصل

ابتدائیہ
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ہم انبیاءکی جو جماعت ہے ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں کی عقل و فہم کے مطابق گفتگو کریں۔(المحاسن للبرقی ج۱ص۵۹۱حدیث ۷۱)
یہ تمام عقلاءکا طریقہ ہے کیونکہ وہ اپنے مخاطب، سامع، سننے والے کے لئے اتنی گفتگو کرتے ہیں جسے وہ سمجھ سکتا ہے وگرنہ ان کی گفتگو لغو اور بے فائدہ ہو گی اللہ تعالیٰ کے انبیاءعلیہ السلام مخلوق میں سردار ہیں اور ان میں سب سے زیادہ عقلمند ہیں بلکہ اس کے بغیر ہو تو پھر ہدف منتفی ہو جاتا ہے، اندازکا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، ہدف یہ ہے کہ انبیاءعلیہ السلام، آئمہ طاہرین علیہم السلام یا علماءکی طرف سے جو حکم دیا جاتا ہے اس کی پابندی کی جائے اور جو وعظ اور نصیحت کی جاتی ہے اس سے اثر لیا جائے یہ اسی صورت میں ہو گا جب انسانوں کی سمجھ اور عقلی حیثیت کو سامنے رکھ کر ان سے بات کی جائے۔
انبیاءکی سیرت اور ان کے بعد آئمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت اسی طریقہ پر قائم رہی جیسا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براق(وہ سواری جس پر رسول پاک بیٹھ کر آسمانوں کی سیر کے لئے لے جائے گئے مکہ سے بیت المقدس(مسجداقصیٰ) اور پھر وہاں سے مختلف کرات میں تشریف لے گئے، اس سفر میں مسجد کوفہ میں بھی اترے)اس کا منہ آدمی کے منہ جیسا ہے اس کے گھر ھیل( ) کے گھر ہیں، اس کی دم گائے جیسی ہے، گدے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا....اس کے اوپر دوپر لگے ہیں....(مستدرک سفینة البحار ج۱ص۲۳۳)
جب کہ براق اس طرح نہیں تھا اور نہ ہی وہ گدھا تھا ممکن ہے اس کے لئے دو پر ہوں، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانہ میں اسی انداز سے براق کو سمجھانے کی کوشش کی ہے مثالیں دے کر، کیونکہ اس وقت کے انسان اس سے زیادہ سمجھ نہیں سکتے تھے، ان کے پاس سواری کے جو عادی ذرائع تھے وہ گدھا اور خچر ہی تھے جب کہ رات کے وقت آپ کا سفرِ معراج مکہ سے یا مدینہ سے بیت المقدس تک اور پھر بیت المقدس سے سے آسمانوں کی بلندیوں پرجاتاہے تو اس کے لئے ہوائی سروس کی ضرورت ہے یہ تعبیر اس دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے بیان ہوئی وگر نہ آج ہمارے زمانہ میں براق(برق رفتارسواری)جدید ترین فضائی اڑان کا وسیلہ ہے جس کا انسان تصور کر سکتا ہے وہ ایسی فضائی سواری تھی جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے آپ کو لیا ہے اورآپ کو بیت المقدس پہنچایا پھروہاں سے سات آسمانوں کی طرف لے جایاگیا ایک ایک آسمان میں ٹھہرایا بھی جاتا ہے، ہر آسمان میں باجماعت نماز کا انعقاد ہوتاہے مزیدبرآں کہ جنت اور جہنم کا معاملہ اس سفر میں شامل ہے اور یہ سارا سفر چندگھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے کیونکہ رات کا ایک حصہ اس سفر میں صرف ہوتاہے۔

اصحاب حضرت امام قائم علیہ السلام کی خصوصیات
اس طرح کی بات اصحاب حضرت قائم علیہ السلام کے لئے حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام سے احادیث بیان ہوئی ہیں:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: جب حضر ت امام قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو زمین کے مختلف خطوں میں(براعظموں)ایک آدمی کو بھیجیں گے اور اس سے فرمائیں گے کہ تیرے کاموں کی تفصیل تیرے ہاتھ میں ہے۔(الغیبة ۲۷۱، باب ماجاءعندخروج القائم علیہ السلام)
اس وقت تک اسے موبائیل ،ٹیلی فون سے تعبیر کیا جا رہا ہے دستی کمپیوٹر مراد لیا جاسکتا ہے یا پھر کوئی اور جدید ترین وسیلہ ہوگا۔
حضرات آئمہ اہل البیت علیہم السلام سے حدیث بیان ہوئی ہے کہ حضرت امام قائم علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مومن جو مشرق میں ہوگا وہ اپنے بھائی کو جو مغرب میں ہو گا دیکھنے کا ارادہ کرے گا تو وہ دیکھ لے گا اسی طرح مغرب میں موجود بھائی اپنے بھائی کو مشرق میں دیکھ لے گا۔(بحارالانوار ج۲۵ص۱۹۳حدیث ۳۱۲)
اس بات کو اس وقت ٹیلی ویژن،کمپیوٹر، الیکٹرانک میڈیا سے تعبیر کیا جارہا ہے جب کہ اس سے پہلے اس کا کوئی معین معنی نہ تھا۔
خلاصہ:۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیاءعلیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام انسانوں کے ساتھ اس انداز میں گفتگو فرماتے تھے جس کووہ سمجھ لیں یا ایسے اوصاف بیان کرتے تھے جو ان کے زمانہ سے مناسبت رکھتے تھے یا جس جگہ اور ماحول میں آپ موجود تھے اس کو سامنے رکھ کر بات کرتے اور بعض امور کی جتنی مثالیں جو اس علاقہ سے مخصوص تھیں وہ پیش کر کے لوگوں کو بات سمجھاتے تھے۔
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مطالب بیان کرتے جو اسلوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تھا اور جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں تھا ان دونوں میں فرق دیکھا جا سکتا ہے جس طرح زہد کا وصف بیان کرنے میں فرق پاتے ہیں جو مفہوم اور معنی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانہ میں ہے اور جو حضرت امام جعفرصاد ق علیہ السلام کے زمانہ میں ہے دونوں اسلوب میں فرق ہے، بات ایک ہے لیکن اسے نبی اکرم کے زمانہ میں اور طریقہ سے سمجھایا جا رہا ہے اورحضرت امام جعفرصادقعلیہ السلام کے زمانہ میں دوسرے طریقہ سے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے دور میں زہد کو ایک انداز سے سمجھایا جا رہا ہے جبکہ حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام کے زمانہ میں دوسرے انداز سے سمجھایا جا رہاہے۔(دعائم الاسلام ج۲ص۴۵۱حدیث ۴۴۵)
بعض اوقات ایک قوم اور دوسری قوم کے لئے بھی مطلب کو بیان کرنافرق کرتا ہے جیسا کہ اس بات کو حدیث قدسی میں بیان کیا گیا ہے۔
بتحقیق میرے مومن بندگان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کی ہدایت نہیں ہو سکتی مگر مال اور دولت سے اگر مال اس سے لے کر دوسرے کو دے دوں تو وہ ہلاک ہو جائے گا اور میرے مومن بندگان سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کی بہتری نہیں ہے مگر فقر اور فاقہ میں، اگر یہ ان سے لے لوں تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔(الکافی ج۲ص۳۵۳حدیث ۸)
حدیث قدسی میں آیا ہے کہ میرے کچھ بندوں کا فائدہ نہیں ہے مگر بیماری میں اگر میں انہیں صحت دے دوں تو وہ اس وجہ سے فاسد ہو جائیں اور کچھ میرے بندے ایسے ہیں جن کی اصلاح اور بہتری ان کی صحت میں ہے اگر ان سے صحت لے لوں تو یہ بات انہیں فاسدکردے گی۔(جامع احادیث الشیعہ ج۱ص۰۹۳حدیث ۳۱۸)
پس جو شخص بیماری کی حالت میں ہے تو اس کے ساتھ ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے جو اس کی حالت سے مناسبت رکھتا ہے اورجو فقیر اور غریب ہے اس سے ایسا انداز اپنایا جاتا ہے جو اس سے مناسبت رکھتا ہے اورجو مالدار ہے تو اس کے ساتھ ویسا انداز اپنایا جاتا ہے اور جو مریض رہتا ہے تو اس سے بیماروں سے جو بات مناسب ہوتی ہے وہ کی جاتی ہے اور صحت مند سے ایسا انداز ہوتا ہے جو اس سے مناسبت رکھتا ہے اس کے برعکس کرنے میں نقصان ہوگا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے جس میں آیا ہے ”پھر امام مہدی علیہ السلام ایک گھوڑے پر سوار ہوں گے جو ابلق( ) ہوگا اس کی آنکھوں کے درمیان شمراخ( )ہوگا جس سے روشنی چھوٹے گی کوئی گھر نہ بچے گا مگر یہ کہ اس گھرمیں اس شمراخ سے نکلی ہوئی روشنی آئے گی یہ ان لوگوں کے لئے آیت اور نشانی ہو گی....
اس سے پتہ چلتا ہے کہ براق کا معنی سمجھانے کے لئے جو انداز نبی اکرم نے اختیار کیا آپ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے خطاب کی جگہ کو بیان کرنے کے لئے دوسرا انداز اپنایا ہے ہو سکتا ہے کہ یہ اشمراخ وہی براق ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ فضائی وسیلہ ہو۔(دلائل الامامة ص۷۵۴)
(الشمراخ: اس سے مراد گھوڑا ہے یا گھوڑے کی پیشانی کی سفیدی مراد ہے یا پہاڑ کے اوپر نکلی ہوئی چوٹی مراد ہے یا بڑا پہاڑ اور مضبوط قلعہ مراد ہے جس کی پناہ لی جاتی ہو۔(کتاب العین ج۴ص۵۲۳ الضحاح)

دعوت دینے کا قرآنی اسلوب
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی دعوت کے اسلوب کا بیان شروع کرنے سے پہلے قرآن مجید کے اسلوب دعوت کو بیان کرتے ہیں۔
قرآن الکریم کا اسلوب انبیاءکا اسلوب، آئمہ طاہرین علیہم السلام کا اسلوب جو رہا ہے سب کو بیان کریں گے پہلے قرآنی اسلوب کو بیان کریں گے اور اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اسلوب کو بیان کریں گے اور دیکھیں کہ دونوں میں فرق ہے قرآنی اسلوب جاننے کے لئے ذیل میں آیات ملاحظہ ہوں۔
”اور(وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے(جو تمہارے بزرگ تھے) عہدوپیمان لیا تھا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ اچھے سلوک کرنا اور لوگوں کے ساتھ اچھی طرح (نرمی) سے باتیں کرنا اور برابر نماز پڑھنا اور زکوٰة دینا پھر تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا (سب کے سب)پھر گئے اور تم لوگ ہو ہی اقرار سے منہ پھیرنے والے“۔
(سورہ بقرہ پارہ، آیت ۳۸ ،پارہ ۲)
”(اے رسول)تم درگذر کرنا اختیار کرو اور اچھے کام کا حکم دو اور جاہلوں کی طرف سے منہ پھیر لو “(سورہ اعراف آیت ۹۹۱۔پارہ ۹)
”اور(یہ)وہ لوگ ہیں کہ جن (تعلقات)کے قائم رکھنے کا خدا نے حکم دیا انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور (قیامت کے دن) بری طرح حساب لیے جانے سے خوف کھاتے ہیں“۔(سورہ الرعد آیت ۲۲۔ پارہ ۳۱)
”اے ایماندارو(دیکھو) نہ خدا کی نشانیوں کی بے توقیری کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کی اور نہ پٹے والے جانوروں کی(جونذر خدا کے لیے نشان)دے کر منیٰ میں لے جاتے ہیں اور نہ خانہ کعبہ(کے طواف وزیارت)کا قصد کرنے والوں کی جو اپنے پروردگار کی خوشنودی اور فضل(وکرم)کے جو یاں ہیں اور جب تم (حرام سے) محل ہو جاﺅ تو شکار کر سکتے ہو اور کسی قبیلہ کی یہ عداوت کہ تمہیں ان لوگوں نے خانہ کعبہ (میں جانے) سے روکا تھا اس جرم میں نہ پھنسوا دے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور(تمہارا تو فرض یہ ہے کہ)نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو اور خدا سے ڈرتے رہو(کیونکہ)خدا تو یقینا بڑا سخت عذاب والاہے“۔( سورہ المائدہ آیت ۲۔پارہ ۶)
”(اے رسول) تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی راہ پر حکمت اور اچھی اچھی نصیحت کے ذریعہ سے بلاﺅ اور بحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طریقہ سے جو (لوگوں کے نزدیک) سب سے اچھا ہو اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا کی راہ سے بھٹک گئے ان کو تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اور ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی خوب واقف ہے“۔
( سورہ النحل آیت ۵۲۱۔ پارہ ۴۱)
”لوگو ہم نے تو تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم ہی نے تمہارے قبیلے اور برادریان بنائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر لے اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت وار وُہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو، بے شک خدا بڑا واقف کار خبردار ہے“۔(سورہ الحجرات آیت ۳۱۔پارہ ۶۲)

پہلا موقف :۔ عوام سے خطاب اور ان کے ساتھ رویہ
قرآنی اسلوب، قول حسن ہے اچھی گفتگو، فائدہ کی بات ، خراب ماحول کو خوبصورت کلام سے بہتر بنا دینا بلکہ برائی کو اچھائی سے دور کر دینا منفی بات کو مثبت بات سے جواب دینا، منفی رویہ کو چھوڑ کر مثبت رویہ اختیارکرنا۔
یہ معنی ہے ”یدرﺅون بالحسنة السیة“ وہ تو برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے ہیں اور برائی کو اچھائی اور نیکی کے طریقہ سے روکتے ہیں۔
اس میں برائیوں کا خاتمہ فقط ان پر اعتراض کرنے سے نہیں بلکہ ان کے برے رویوں کو بھلا کر، جس نے برا کیا اس کے ساتھ اچھی گفتگو کر کے اس کے رویہ کوبھلا کر،جس طرح کوئی آپ کو گالی دے تو آپ نہ یہ کہ اسے گالی نہ دیں بلکہ اس پر مہربانی کریں اس کو اپنے گھر پر دعوت دیں اسے مال دیں، کھانا دیں، یہ ہے برائی کا جواب نیکی سے دینا ہے یہ رویہ ان ذوات میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔(العوالم ج۴۶۔ الانوار البھیہ۸۸)
حضرات اہل البیت علیہم السلام کی جانب سے اور علماءکی جانب سے یہ طریقہ آزمایا ہوا ہے مجرب ہے اوراس کا نتیجہ مفید ہے، نافع ہے، اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ کا اشارہ ہے۔
”(اے رسول) تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی راہ پر حکمت اور اچھی اچھی نصیحت کے ذریعہ سے بلاﺅ اور بحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طریقہ سے جو (لوگوں کے نزدیک) سب سے اچھا ہو اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا کی راہ سے بھٹک گئے ان کو تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اور ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی خوب واقف ہے“۔
( سورہ النحل آیت ۵۲۱۔ پارہ ۴۱)

قرآنی اسلوب ،دعوت
قرآنی اسلوب یہ ہے کہ ہماری دعوت کا طریقہ دانائی، حکمت پر مبنی ہو، اس میں معرفت، عرفان، علم، منطق،سمجھ، شعور ہو، عمدہ کلام ہو، لطیف جملے ہوں، گفتگو میں پیار ہو، صفاءقلب ہو، ہمدردی ہو، طمع لالچ کا عنصر نہ ہو، یہ انداز دلوں کو موہ لیتا ہے، جذب کر لیتا ہے دشمن کو دوست بنا لیتا ہے، خالی دوست نہیں بلکہ گہرا رفیق اور دوست بنا دیتا ہے اور ایسا گہرا تعلق ہوجاتا ہے کہ تھوڑی دیر پہلے تک جس سے گستاخی کر رہا تھا اسے اپنا ولی اور سرپرست اور رہبر قرار دے دیتا ہے اور اس پر اپنی جان تک نچھاور کرنے کے لئے تیار ہو جاتاہے۔
یہ اسلوب کتنا ہی عمدہ ہے اور اس نورانی آیات کا مضمون کتنا وسیع ہے مختصر آیت نے کتنی مشکلات آسان کر دیں قتل و غارتگری کی نفی کی، جارحیت کی نفی کی، جنگوں کی نفی کی، سختی کو کچل کر رکھ دیا، نفرت کا خاتمہ کر دیا، تھوڑے سے نقصان سے، مختصر وقت میں اپنے بڑے ہدف کو پانے کا گربتا دیا، اس سے تمہارا رب تم سے راضی ، لوگوں میںتم محبوب، تم لوگوں سے محبت کرو گے، لوگ تم سے محبت کریں گے یہ اسلوب اس بات کی تفریق نہیں کرتا کہ اس طریقہ کو فقط اپنے ہم مسلک والوں میں اپنانا ہے یا دوسروں میں بھی یہ طریقہ سب کے لئے ہے جس کی رائے تمہارے مخالف ہے جو تمہارے نظریہ کے خلاف ہے جو تم سے دشمنی رکھتا ہے جس کا دین تمہارے دین سے مختلف ہے سب کے لئے ایک قانون ہے”ادفع بالتی ھی احسن“بھلائی سب کے لئے ،پیار سب کے لئے، اچھایاں سب کے لئے، گالی کا جواب گالی نہیں، گالی کا جواب پیار سے ہے۔
قرآنی اسلوب کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ جب تبلیغ کے لئے کوئی کام کرنا چاہتاہو تو پھرمیرے خلاف ادا کیے گئے الفاظ کا جواب اچھے الفاظ سے،گستاخی کا جواب ہمدردی سے، نفرت کا جواب محبت سے ہونا چاہیے، یہ قرآنی اسلوب ہے، اسے آئمہ اہل البیت علیہم السلام نے اپنایا اور اسی انداز کے ذریعہ انسانوں کے لئے ہمدردی کا پیغام دیا،سب کے لئے محبت بانٹی اور اعلان کیا ”ان الدین الالحب“دین تو سوائے محبت کے اور کسی چیز کا نام نہیں ہے ”لکل شی اساس واساس الاسلام حبنا اھل البیت علیہ السلام “اسلام کی بنیاد اہل البیت علیہ السلام سے محبت قرار پائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل البیت علیہ السلام نے سب انسانوں کے ساتھ محبت کی ہے۔ خود کو بھوکا رکھا دوسروں کو کھانا دیا جس نے گالی دی اس سے پیار کیا جس نے محروم کیا اس کونواز دیا، دشمنوں کی بہو وبیٹیوں کا احترام کیا، قاتلوں کودودھ پلایا، کھانادیا،یہ سب قرآنی اسلوب ہے، یہ اسلام ہے، یہ دین حق ہے۔

دوسراموقف:۔ دوسرامرحلہ
باہمی رابطہ، تعارف، شرائط اور باہمی پہچان، ایک دوسرے سے تعلقات
قرآن مجید کا دوسرا مثالی موقف اور کردار جو اختلافات کو بھلا دیتا ہے معاشرہ کی خدمت کےلئے افتراقی امور کو نظر انداز کرتا ہے، معاشرہ کی ترقی کے لئے، اس کے تکامل کے واسطے باہمی تعاون کرنا ہے نیکی اور تقویٰ کی بنیاد پر باہمی روابط کو قائم کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہو، تم اللہ کے شعائر کو حلال نہ جانو، ان کی بے احترامی کو جائز مت سمجھو اور نہ ہی محترم مہینہ کو حلال جانو کہ تم اس میں جنگ شروع کردو،نہ ہی ہدی قلائد کوحلال جانو(ان سب سے مراد بے احترام ہدی اور قلائد حج میں قربانی کے جانور کے لئے ہیں کہ ان کی بے احترامی سے بھی منع کیا ہے)اور جو لوگ بیت اللہ الحرام میں امن لینے آئے ہیں انہیں بھی حلال مت جانو(یعنی ان کی بے احترامی بھی جائز نہیں ہے)جو اپنے رب کا فضل چاہتے ہیں اور اپنے رب کا رضوان چاہتے ہیں اور جب تم احرام حج کھول دو تو اس وقت تمہارے لئے ہے کہ تم شعار کر لواور کسی قوم کی بدزمانی اور ان کا غلط رویہ تمہیں اس بات پر نہ لے آئے کہ تم انہیں مسجدالحرام سے روک دو اور تم ان پر زیادتی کر بیٹھو نیکی اور تقویٰ کے امور میں ایک دوسرے سے تعاون کرو گناہ اور دشمنی کے لئے ایک دوسرے سے زیادتی کے امور پر ان سے تعاون مت کرو۔(سورہ التوبہ آیت ۲)
اس آیت میں جو حکم دیا جا رہا ہے یہ مسلمانوں کے آپس میں روابط اور تعلقات بارے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو خطاب ہے کہ وہ انسانی کمال تک پہنچنے کے لئے غیرمسلمانوں سے کیارویہ اپنائیںغیرمسلموں کے ساتھ احسان کریں، غیرمسلموں کے ساتھ اچھا برتاﺅ کریں، انہیں نیکی کی طرف راغب کریں، ان کے ساتھ زیادتی نہ کریں کہ انہوں نے ان کے ساتھ غلط رویہ اپنایا ہوا تھا۔
اسی حکم کے ساتھ یہ حکم بھی دیا جا رہا ہے کہ ایسے اعمال سے بچے رہو جو گناہ کی طرف لے جائیںاور دشمنی اور زیادتی کا سبب بنیں یہ بھی غیرمسلموں کے ساتھ رویہ اور تعلقات کے لئے ایک ضابطہ دیا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آﺅ لیکن ایسا کوئی کام مت کرو جو تمہیں ان سے تعاون کرتے ہوئے گناہ میں پہنچادے۔
گویا یہ آیت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ایک معاشرہ کے اندر مختلف نظریات والے افراد موجود ہوتے ہیںمختلف قومیں رہتی ہیں، مختلف قبائل ہوتے ہیں اور اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں خلق فرمایا ہے بلکہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ معاشرہ کے اندر جنگیں ہوتی ہیں، دشمنیاں موجود ہوتی ہیں لیکن یہ سب کچھ باہمی روابط، احسان اور نیکی کے عمل کے لئے رکاوٹ نہیں ہے، معاشرہ میں خدمت کے کاموں کے لئے رکاوٹ ہرگز نہیں ہے اس وقت جس طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی سطح پر حکومتیں سارے اختلافات کے باوجود بیماریوں کے علاج کے لئے ادویات ایجاد کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو وہ ادویات دیتے ہیں۔
جی ہاں!مسلمانوں کے خود اپنے اندر، ان کے مختلف طبقات میں مسالک کے اندر اس قسم کا تعاون تواوربھی ضروری ہے اوریہ رویہ سب سے زیادہ واجب ہے۔
ایک اور آیت میں ہے کہ ”وَجَعَل نَا کُم شُعُو باً وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُو ا“ اور ہم نے تمہیں اقوام اور قبائل میں خلق کیا ہے تاکہ ایک دوسرے سے آشنائی رکھ سکو، ایک دوسرے کی پہچان رکھ سکو ،باہمی تعارف اور میل جول کی بات کی جا رہی ہے ۔(سورہ حجرات آیت ۳۱)
تعارف کا معنی ایک دوسرے سے آگہی، ایک دوسرے سے تعاون اور ایک دوسرے کے قریب ہونا ہے اور یہ امرانسانی خلقت کا تقاضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا حکم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور اختیار سے انسانوں کو اس طرح خلق فرمایا ہے اور ان سب کو ایک دین پر خلق فرمایا(ایک دین پر اور ایک نظام پر چلنے کا حکم دیا ہے لیکن اس میں جبرنہیں اختیار دیا ہے، اپنے ارادہ سے انسان ایسا کرے)

تیسرا موقف اورمرحلہ
قرآن کا تیسرا مثالی اور نمونہ کا موقف انسان کی انسانیت کا احترام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے مسئلہ پر جنگ نہیں چھیڑی اور تمہیں انہوں نے گھروں سے بھی نہیں نکالا ہے کہ تم ان سے نیکی کرو، ان پر احسان کرو، ان سے انصاف کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف اور بھلا کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے “۔(الممتحنہ آیت ۸۔۹)
اللہ تعالیٰ نے فقط ان سے تعاون کرنے سے منع کیا ہے جنہوں نے دین کے مسئلہ پر تم سے جنگ چھیڑ رکھی ہے اور تم کو تمہارے گھروں سے باہر نکال دیا ہے اور تمہارے نکالنے پر انہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے ان کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے کہ تم ان سے دوستی مت رکھو اور جو بھی ان سے دوستی بنائے گا تو ایسا آدمی ظالموں میں سے ہوگا۔
یہ اسلوب ہمارے زمانہ میں کامیاب ترین اسلوب ہے کیونکہ یہ واقع اور حقیقی امر کی تصویر پیش کرتاہے اور موجودہ زمانہ کے لئے ہمارے لئے حل پیش کرتاہے۔
اس وقت انسانی معاشرے مختلف ادیان میں تقسیم ہیں، ایک ہی وطن میں رہتے ہیں، مذاہب مختلف ہیں، ادیان مختلف ہیں تو کیا ایک مومن ان سب سے خود کو الگ تھلگ کر لے ، ایک جانب ہو کر بیٹھ جائے یا اس معاشرہ کے اندر گھل مل جائے ان کے ساتھ روابط اور تعلقات بنا کر رکھے باہمی احترام قائم کرے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان موجود رہنے سے ہمیں منع نہیں فرمایا بلکہ ہمیں اجازت دی ہے کہ ہم لوگوں سے اچھے انداز میں گفتگو کریں ، باہمی مذاکرات کریں، ایک دوسرے سے تعلقات قائم کریں اگرچہ دین اور مذہب میں ہم سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ رنگ،بو،نسل، زبان مختلف ہو۔
رویوں کا اختلاف تعلقات توڑنے کا سبب نہیں قرار دیا گیا قرآن نے ہمیں تقویٰ اور احسان کی ہدایت کی ہے سب سے تعلقات قائم کرنے کا حکم دیا ہے ان کی خدمت کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ دوسرے قرآنی موقف میں بیان ہواہے۔
پھر اس جگہ قرآن ہمیں یہ اجازت دے رہا ہے کہ ہم ان پر احسان کریں اور جو ان کے حقوق ہیں وہ انہیں دیں اور ان پر ظلم نہ کریں ان کے ساتھ دھوکہ نہ کریں جب تک وہ ہمارے ساتھ حالت جنگ میں نہیں آتے جب تک وہ ہمیں دھوکہ دینے پراصرار نہیں رکھتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پسند فرمایا ہے کہ ہم ان کے ساتھ احسان کریں، عادلانہ رویہ رکھیں، ان سے بغض نہ رکھیں ، ان کے خلاف کینہ اور نفرت نہ کریں ، ان کی اہانت نہ کریں، یہ سب اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے یہ ارادہ کیا ہوتا کہ وہ سب ایک امت ہوں جیسا کہ سورہ المائدہ آیت ۸۴میں ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ تم سب ایک امت ہو(لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ تمہیں قبائل بنایا، اقوام بنایا، مختلف رنگوں میں بنایا، مختلف زبانوں والا بنایا) اور یہ سب اس لئے کہ وہ تمہارا امتحان لے اس بارے جو کچھ اس نے تمہیں دیاہے، اس نے تمہیں اقوام و ملل میںبنایا ہے توباہمی پہچان کے لئے، باہمی تعاون کے لئے اور پھر یہ بتا دیا کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتا ہے یعنی تقویٰ پر قائم ہے۔
قرآن مجید کا یہ موقف بہت ہی عمدہ مواقف سے ہے اس موقف میں انسان کی انسانیت کا احترام کیا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:لَقَد خَلَق نَا ال اِن سَانَ فِی اَح سَنِ تَق وِی م(سورہ والتین آیت ۴)
”بتحقیق ہم نے انسان کو بہت ہی عمدہ انداز میں خلق کیا ہے“۔
یعنی اسے جس طرح جسمانی شکل بہترین دی ہے اسی طرح اسے اقوام و ملل میں بنا کر اس کی خوبصورتی کو بڑھادیا ہے انسان کی خلقت کا انداز اچھا ہی نہیں بہترین ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :”بتحقیق ہم نے بنی آدم علیہ السلام کو کرامت دی ہے اسے معزز و مکرم بنایا ہے اور ہم نے اسے خشکی اور تری میں بسایا ہے اور ہم نے انہیں عمدہ روزی عطا کی ہے بہت ہی عمدہ کھانے پینے، رہنے سہنے کی اشیاءسے نوازا ہے اور جو مخلوقات ہم نے بتائی ہیں ان میں سے بہت ساری مخلوقات پراس انسان کو فضیلت اور برتری دی ہے۔
(سورہ الاسراءآیت ۰۷)
اللہ تعالیٰ اس مقام پر انسان کی خلقت پر فخر و مباہات کر رہا ہے اس کی خلقت پر فخر کیا ہے اگرچہ وہ مسلمان نہ بھی ہو، مومنین کے لئے اختصار کے ساتھ اس امر کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ یا تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور یا وہ خلقت میں تمہاری مانند ہے“۔
(نہج البلاغہ ج۳ص۴۸،عہد۳۵)
ہر ایک کے لئے حقوق ہیں اور فرائض ہیں،فرائض کو انسان نے ادا کرنا ہے اور اپنے حقوق کو وصول کرنا ہے۔ قرآن مجید کے یہ تین مواقف ہیں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کےلئے، انسان غور کرنے سے ان سے زیادہ کا بھی قرآن کی آیات سے استخراج کر سکتا ہے لیکن جس امر کو ہم بیان کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

دعوت میں نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موقف اورطریقہ کار
حضرت نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ کار اجمالی طور پر قرآنی اسلوب سے مختلف نہ تھا جسے ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالات کی سنگینی کے باوجود ان ذرائع اور طریقوں کو دعوت کے سلسلہ میں استعمال کرنے میں کامیاب رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس عمل کی گواہی اپنی کتاب میں دی ہے ۔
سورہ قلم آیت ۴”وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِی مٍ“ ”بتحقیق تم تو خلق عظیم پر قائم ہو“۔
یہ اشارہ اس بات کا ہے کہ آپ اپنے اخلاقی سلوک اور رویے میں کامیاب رہے ہیں آپ کا اخلاق قرآنی اخلاق کا مظہر ہے اور الٰہی تعلیمات کی عملی شکل ہے۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ اور طریقے بھی ہیں اگرچہ وہ ذرائع آپ نے بعض مخصوص حالات کے لئے استعمال کئے لیکن کچھ طریقے بہرحال ہیں جو آپ کی ذات سے خاص ہیں اور وہ اس طرح ہیں۔

۱۔ رواداری، نرم پالیسی
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام:” محبت اور پیار آدھا عقل ہے“(نہج البلاغہ حکمت ۲۴۱)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے آباءعلیہم السلام سے اس بات کو نقل فرمایا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومن نرم ہوتا ہے ، بخشش کرنے والا ہوتاہے، نرم خو ہوتا ہے، اچھے خلق والا ہوتا ہے، کافر سخت ہوتا ہے، سنگین مزاج ہوتا ہے، برے اخلاق والا ہوتا ہے، اس میںبڑائی کا عنصرہوتاہے، سخت مزاج ہوتا ہے، تندخو ہوتا ہے(امالی الطوسی، المحلیس الثالث عشرحدیث ۸۲ص۶۶۳شمارہ ۷۷۷)
حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے اپنے والد سے نقل کیا کہ حضرت نبی اکرم نے فرمایا:ایمان کا بہترین وزیرعلم ہے اور علم کا وزیربردباری اور حلم ہے حلم کا وزیررفاقت ہے اور رفاقت کا وزیر نرم خوئی ہے“۔(قرب الاسناد ص۷۶حدیث ۷۱۲)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے آباءسے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ نے فرمایا:”کیا میں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ کل آگ کن لوگوں پر حرام ہو گی ؟
جواب دیا گیا: جی ہاں! یارسول اللہ : تو آپ نے فرمایا: ”جو آسان منش ہو، قرب والا ہو، نرم خُو ہو، آسان ہو“۔
”الھین القریب اللین السھل“
(امالی الصدوق، المجلس الثانی والخمسون حدیث ۵/۷۹۳، شمارہ ۱۱۵)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام: بغیر کمزوری اپنائے تمہیں نرم رویہ والا ہونا چاہیئے شدید لیکن اس شدت میں ( )کمزوری کا عنصرنہ ہو۔(غررالحکم ج۰۶۱۷)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے:جس کی طبیعت میں نرمی پائی گئی تو اس سے محبت کرنا لازم ہوجاتاہے۔(غررالحکم حدیث ۲۵۱۸)
رواداری، پیار، محبت ایک ایسا اندازہے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں موجود ہے جو آپ کو زیادہ مواقع پر فائدہ دیتا تھا، اپنے اصحاب سے عطاءاور بخشش میں مداراة(رواداری غررالحکم حدیث ۲۵۱۸)فرماتے ہیں اپنی بیویوں کے ساتھ گھریلومعاملات میں یا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ یا اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ دعوت کے آغاز میں یا جنگی قیدیوں کے حوالے سے آپ نے جورویہ اپنایا اس سے آپ نے اپنی دعوت میں فائدہ اٹھایا۔

۲۔ پاک کرنا، تزکیہ کا عمل
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ”اے رسول!ان کے اموال سے صدقہ(ایک مقدار مال)وصول کر لو اس طرح تم انہیں طاہر کردو اور انہیں پاکیزہ بنا دو اور ان پر رحمت کی دعا کردو(ان پر صلوات بھیجو)کیونکہ آپ کی جانب سے ان کے لئے رحمت طلب کرنا ان کے لئے سکون اور آرام کا وسیلہ ہے ۔(سورہ التوبہ آیت ۳)
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال سے یہ ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں کو رذائل، پلیدیوں،کدورتوں سے پاک کرتے اور ان کے نفوس کی صفائی کرتے تھے۔

۳۔ تعلیم
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں رسول کو بھیجا کہ ان پر آیات کی تلاوت کرے اور انہیں پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب(قرآن مجید) اور حکمت(دانائی)کی تعلیم دے اگرچہ وہ اس سے قبل کھلی گمراہی میں موجود تھے۔
(سورہ الجمعہ آیت ۲)
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری امت کو اپنی اولاد سمجھتے تھے، بلکہ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو خطاب فرمایاکہ:”یا علی علیہ السلام! انا وانت ابواھذہ الامة“ اے علی علیہ السلام!میں خود اور تم ، ہم دونوں اس امت کے باپ ہیں“۔(الغارات للثقفی ج۲ص۷۱۷)
پس آپ انہیں پڑھاتے تھے، تعلیم دیتے تھے، ان کی تربیت کرتے ، انہیں انحراف سے بچاتے، ان پر مہربانی کرتے، ان سے پیارفرماتے، ان کے نقصانات سے انہیں آگاہ کرتے، ان پر شفقت فرماتے تاکہ وہ سب کمال مطلق تک پہنچ جائیں۔

جنگ ، سخت روش، ہدف ہے یا وسیلہ
جس وقت ہم نے تیسری فصل میں عسکری حوالے سے تیاری کی بات کی ہے وہاں پر ہم نے بیان کیا ہے کہ جنگ کاہدف سختی، تندی نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے ایک ہدف کے لئے اسلام کی اس رائے کو واضح طور پر بیان کیا گیاہے ۔
سوال ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کو کیونکر اختیار کیا؟سخت رویہ کیوں اپنایا؟
سیرت نبوی کاخلاصہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی بعثت شریفہ کے حوالے سے جنگ کو اسٹریجک ہدف کے طور پر استعمال نہیں کیا، جنگی حکمت عملی بطور ہدف اختیار نہیں کی بلکہ آپ کی دعوت ایک مہربان باپ اپنی اولادسے ہمدردی رکھنے والا۔آپ انہیں دن رات سمجھاتے تھے،انہیں پیار سے بلاتے تھے، اچھی اچھی باتیں انہیں بتاتے تھے ،ان سے پیار کرتے تھے موعظہ فرماتے ، اخلاق سے اپنے پاس بلاتے، حکمت ،اعلیٰ درجہ کی دانائی سے اپنی دعوت کوان کے پاس لے جاتے تھے لوگوں کی تندی بداخلاقی پر صبر فرماتے تھے اور یہ عمل مسلسل جاری رکھتے تاکہ وہ ایمان لے آئیںانہیں بارہا دعوت دیتے کیونکہ آپ کی یہ شدید خواہش ہوتی تھی کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں خود کو سختی میں ڈالتے اور خدا سے انہیں دور دیکھ کر سخت پریشان ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس حالت کو دیکھ کر فرمایا:
تم جن کو چاہتے ہو کہ وہ ہدایت پا جائیں تووہ اس طرح ہدایت نہیں پائیں گے اللہ تعالیٰ بے شک جنہیں چاہتا ہے ہدایت دیتاہے۔(سورہ القصص آیت ۶۵)
حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت کے لئے کسی بھی ذریعہ یا وسیلہ کو ترک نہ کیا مگر یہ کہ اسے استعمال کیا جنت کی رغبت دلائی ، جنت کی نعمات بیان کیں، حورالعین، غلمان، جنت میں ہر خواہش، ہرلذت کے پورے ہونے کی نوید، عزت ،کامیابی،سکون ابدی، دنیاوی فوائدسب کچھ بتایا کہ لوگ خدا کی طرف آجائیں رغبت کے ساتھ ساتھ مخالفت کرنے کے برے انجام سے ڈرایا، جہنم کی آگ کے بارے بتایا، جہنم کے اندر جوتکالیف ہونی ہیں اس کے بارے آگاہ کیا ، ہتک حرمت، دنیاوی نقصانات کی خبر دی۔
یہ اسلوب جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختیار کیا جن میں ایمان کے نور کو وصول کرنے کی صلاحیت موجود تھی وہ ایمان لے آئے جو نااہل تھے وہ ہدایت نہ پاسکے۔
اس ساری مدت میں آپ نے کسی ایک جگہ بھی سخت رویہ نہیں اپنایا ہر جگہ پیار ہے، محبت ہے، خوش کلامی ہے، اچھا اخلاق ہے، مہربانی ہے شفقت ہے، بلکہ آپ اس جملہ کوبار بار ارشادفرماتے تھے کہ ”لااکراہ فی الدین “(سورہ البقرہ آیت ۶۵۲)
دین کے انتخاب میں جبر نہیں ہے، زبردستی نہیں ہے، اختیار سے اللہ تعالیٰ کے نظام کو اپنانا ہے، آپ کے نرم رویہ کانتیجہ تھا کہ مشرکین نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو اللہ کے حکم کی انجام دہی سے روک دیں اور آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا، آپ کومکہ چھوڑناپڑا، آپ مدینہ آ گئے، مدینہ میں بھی آپ نے اپنی دعوت کے اسلوب کی بنیاد پیار،محبت، خوش کلامی، موعظ حسنہ، ہمدردی، شفقت، انسان دوستی کو قرار دیا لیکن مشرکین مکہ نے جب آپ کی پے در پے کامیابی ملاحظہ کی اور دیکھا کہ آپ کی دعوت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اورمسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو آپ کے ساتھیوں سمیت ختم کر دیں اور اس طرح کفار مکہ نے آپ کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی کی تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دفاع کے لئے جنگ میں داخل ہوتے ہیں، آپ کی دفاعی جنگ تھی، یہ آغاز کی بات ہے مکہ میں آپ نے لڑائی کی بجائے اپنے پیروکاروں کو ہجرت کا حکم دیاجب آپ کی ذات کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا تو بھی آپ نے ہجرت کو اختیار کیا، مدینہ میں آپ کی موجودگی کے خاتمہ کے لئے منصوبہ بندی کر لی گئی تو پھر آپ نے مدینہ سے باہر نکل کر مکہ سے آنے والے لشکر کا مقابلہ بدر کے مقام پر کیا تو اسلام کی پہلی با قاعدہ جنگ اپنے دفاع میں لڑی گئی اورآپ کامیاب بھی ہوئے۔جب اسلام کا دائرہ وسیع ہو گیا ہر طرف اسلام پھیل گیا تو اس وقت بھی آپ نے ان کے خلاف جنگیں لڑیں جنہوں نے خود کو اسلام کے مقابل لا کھڑا کیا اور اسلامی دعوت کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر دیں اپنے نظریہ اور اپنی موجودگی کے دفاع میں آپ نے ساری جنگیں لڑیں۔لیکن جس وقت اسلامی سلطنت مدینہ منورہ میں قائم ہو گئی تو حضرت نبی اکرم نے اسلام کے پیغام کو وسیع سطح تک پہنچانے کا فیصلہ کیا تو آپ نے دنیا کے اطراف و اکناف میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی غرض سے اپنے سفراءاور نمائندگان کو روانہ کیا، پس آپ کا ہدف یہ تھا کہ بغیرجبر و اکراہ کے حکمت و دانائی کے ساتھ، دلیل اور منطقی بنیاد پر، موعظہ حسنہ اور خوش کلامی سے اللہ تعالیٰ کی جانب لوگوں کو دعوت دیں اور اس طرح اسلام کی نشرواشاعت کریں۔
جی ہاں! جو لوگ اسلام کے مدمقابل آتے، اسلامی تبلیغات سے روکتے تو اس وقت آپ جنگ کا راستہ اختیار کرتے اور جنگ کے ذریعہ اسلامی دعوت کے لئے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا خاتمہ کرتے، پس جنگی حکمت عملی، سخت رویہ، آپ کی دعوت میں ہدف نہ تھا ہدف تک جانے کے لئے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے وسیلہ تھا، اسلام کی دعوت ، بیداری، آگہی، رضایت اور اختیار سے انجام پائی۔ رکاوٹ دور کرنے کے بعد لوگوں کو اسلامی دعوت دی گئی زبردستی انہیں مسلمان نہیں بنایا گیا یعنی ایسا اعلان نہ ہوتاکہ یا اسلام لے آﺅ وگرنہ تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔ نہیں ایسا نہیں تھا بلکہ اسلام کا پیغام پہنچانے میں جو رکاوٹیں کھڑی کی جاتی تھیں ان کو دور کیا جاتا تھا جو افراد اسلامی تبلیغات سے روکتے تھے انہیں راستہ سے ہٹایا جاتا اور پھر وہ پیار، محبت، شفقت، حکمت، دانائی، خوش اسلوبی، خوش کلامی، دلیل، منطق سے اسلام کی دعوت دی جاتی اور یہ اعلان کیا جاتا کہ”لااکراہ فی الدین“دین کے انتخاب میں جبر نہیں۔
واضح الفاظ میں یوں سمجھیں کہ لوگ اسلام میں آجائیں یہ بات حضرت نبی اکرم کے لئے آرزو تھی، خوشی کا سبب تھی اور آپ اسے شدت سے چاہتے تھے آپ ان لوگوں سے جنگ و جدال اور قتل وقتال کو پوشیدہ نہ کرتے تھے،لوگوں کا اسلام قبول کرنا آپ کے لئے ایک ہدف ہی نہ تھا بلکہ آپ کے لئے یہ پسندیدہ اور محبوب امربھی تھا، آپ کی یہ شدید رغبت تھی کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیںآپ نے حضرت علی علیہ السلام سے یہ جملہ ارشاد فرمایا:”اے علی علیہ السلام! اگر اللہ تعالیٰ آپ کے وسیلہ سے ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ آپ کے لئے اس سب کچھ سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتاہے۔(کنزالعمال ج۰۱ص۶۵۱حدیث ۲،۸۸۲، الکافی ج۵ص۸۲حدیث ۵)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ فتنوں اور سازشوں سے بھراپڑا ہے، جس کے بارے مشہور ہوا کہ آپ علیہ السلام کی حکومت جنگوں والی حکومت تھی، آپ علیہ السلام نے تقریباً اپنی حکومت کے کے دورانیہ میں جنگیں ہی لڑی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت اسلامی نظام حکومت کو اس کی اصلی اور واقعی شکل میں واپس لانے کے لئے تھا آپ نے اس امر کی اصلاح کو انجام دیا جو بگڑ چکا تھا، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سے لے کر آپ کی جانب سے زمام حکومت سنبھالنے تک کا جو عرصہ گذرا اس میں بہت ساری خرابیاں رونما ہو چکی تھیں جن کا ازالہ ضروری تھا، سیاسی، عدالتی، عسکری، مالیاتی، بیت المال، معاشرتی بگاڑ آچکاتھا۔
اس وقت کی ایک بڑی اسلامی سلطنت کی جب اصلاح کرنی شروع کی تو مارقین، ناکثین اور قاسطین کے گروہ آپ کے مدمقابل آ گئے طلحہ اور زبیر آپ کے مخالف اس لئے ہوئے کہ انہیں کافی مقدار میں مال نہ دیا گیا اور جس منصب کے وہ خواہش مند تھے وہ انہیں نہ ملا۔
معاویہ کا معاملہ بھی بڑا واضح ہے وہ بادشاہت چاہتا تھا، خلافت نہیں، منافقین کا معاملہ جو ہے تو ان کی خواہشات ایک عورت کی مرضی کے گرد گھوم رہی تھیں اوروہ اپنی آرزوﺅں اور مادی خواہشات کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ اسلام کی جنگیں بھی بے ہدف نہ تھیں بلکہ وسیلہ تھیں حضرت نبی اکرم کے دین کی اصلاح کا جو عمل آپ نے شروع کیا تھا اس کے سامنے جو رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں تو آپ اس ہدف کا دفاع کر رہے تھے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جنگ شروع کرنے سے پہلے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام مخالف فریق کے پاس نمائندگان کو بھیجتے تھے تاکہ جنگ سے بچا جا سکے مذاکرات سے معاملات کو حل کر لیا جائے ایسے افراد کو بھیجتے تھے جو ان کے ساتھ جا کر دلائل کے ساتھ گفتگو کرتے تاکہ وہ بھی باقی عوام کی طرح خلیفة المسلمین کی اطاعت میں آجائیںاور سرکشی نہ کریں۔
مزیدبرآں ہر جنگ سے پہلے آپ کے خطابات ہیں جن میں آپ جنگ سے گریز کی کوشش کرتے، مخالف فریق کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کرتے، اسلام اور مسلمانوں کی وحدت کی خاطر یہ سب کچھ کرتے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح گذرچکا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید خواہش تھی کہ لوگ اسلام کے دائرہ میں آجائیں اسی طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی بھی شدید خواہش تھی کہ سارے لوگ صلح و صفائی کے ساتھ زندگی گزاریں امن اور آشتی سے رہیں، اسلامی قوانین کا احترام کیا جائے گفتگو اور مذاکرات سے لوگوں کو مطمئن کیا جائے اور جنگ سے بچا جائے، جنگ کو آپ علیہ السلام آخری وسیلہ کے طور پر اختیار کرتے تھے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اور سخت رویہ
حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلاب نے اس بات کو واضح کر دیا کہ آپ علیہ السلام کا انقلاب اصلاحی اور تصحیحی انقلاب تھا آپ بگڑے ہوئے معاملات کو ٹھیک کرنا چاہتے تھے جس کے بارے میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے ایک سے زیادہ مقامات پر خود بیان فرمایا: آپ علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو جو وصیت تحریر کر دی تھی اس میں آپ علیہ السلام نے واضح بیان کیا کہ ”میں نے شر پھیلانے کے لئے ،تکبر اور بڑائی کے اظہار کی خاطر، فساد اور بداامنی پھیلانے کے لئے اور ظلم اور زیادتی کسی پر کرنے کی غرض سے خروج نہیں کیا، حاکم وقت کے خلاف میراخروج اپنے نانا کی امت کی اصلاح ہے، میں چاہتا ہوں کہ امربالمعروف کروں اور نہی عن المنکر انجام دوں(البحار ج۴۴ص۹۲۳)
آپ علیہ السلام کی جنگ اصلاح کی غرض سے تھی، اسلام میں جو خرابیاںداخل ہو چکی تھیں ان کو دور کرنے اور اسلام کو اس کی اصلی شکل میں لانے کے لئے آپ علیہ السلام نے جنگ کی پھر آپ علیہ السلام نے جنگ کا آغاز نہیں کیا آخر وقت تک گفتگو کی، خطابات فرمائے، دلائل دیئے، موعظہ و نصیحت کی، جنگ سے گریز کیا اور یہ عمل بار بار دہرایالیکن جب مخالفین نے حملہ کا آغاز کیا تو پھر آپ علیہ السلام نے اپنا دفاع کیا اور تب دشمن کے خلاف جنگ لڑی اور حق و باطل کے معرکہ کی مثال بنے۔
یہ مثال کے طور پر دیا ہے، اسلام کے حقیقی نمائندگان کا عمل حضرت نبی اکرم کے عمل سے مختلف نہیں ہے اسلام میں جنگ مقصود نہیں ہے اور نہ ہی اسلام جنگ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ اپنے دفاع کے لئے جنگ کی اجازت دیتا ہے اور اعلیٰ ہدف کے لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشینوں نے جنگ کا استعمال کیا۔