حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

کیا لوگ حضرت امام مہدی علیہ السلامکے زمانہ میں عصمت کے مقام کو پالیں گے
روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی حکومت میں امت کے لئے ایک بہت ہی عظیم ایمانی حالت پیدا ہو جائے گی اس طرح کہ اس حکومت کے زیرسایہ کوئی ایک بھی اللہ کی نافرمانی نہ کرے گا صحیفہ ادریس علیہ السلام کے حوالے سے حدیث قدسی میں آیاہے....میں ان کے درمیان مہربانی، الفت اور شفقت و پیار کو ڈال دوں گا پس وہ ایک دوسرے سے ہمدردی کریں گے آپس میں برابر مال تقسیم کریں گے فقیر مستغنی ہو جائے گا بعض دوسرے بعض پر فوقیت نہ جتائیں گے اور کوئی کسی پر بڑا نہ ہوگا بزرگ چھوٹے سے پیار کرے گا اور چھوٹا بڑے کی توقیر و عزت کرے گا حق پر عمل کریں گے حق کی بنیاد پر عدل کریں گے ، فیصلے دیں گے، یہی تو میرے اولیاءہیں میں نے ان کے لئے نبی مصطفی کا انتخاب کیا ہے اور میں نے مرتضیٰ کو چنا ہے میں نے ان کی ہدایت کے لئے انبیاءعلیہ السلام اور رُسل کو متعین کیا ہے ان کے لئے میں نے اولیاءاورانصار قرار دیئے ہیں یہ وہ امت ہے جسے میں نے نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اور اپنے امین مرتضیٰ کے لئے اختیار کیا ہے اس کے وقت جو میں نے اپنے علم غیب میں محجوب رکھا ہے اور ایسا ضرور ہونا ہے(اے ابلیس تو مردود ہے، جب وہ وقت آئے گاتو) میں تجھے اس دن تباہ کر دوں گا، ہلاک کر دوں گا، تیرے سواروں کو تیرے پیادوں کو اور تیری ساری افواج کواور تیرے سارے کارندوںکو ختم کردوں گا، پس تم جاﺅ وقت معلوم تک تیرے لئے مہلت ہے تم اس دن کی انتظار کرو۔
علامہ المجلسی نے فرمایا ہے: اس حدیث قدسی بارے میرا بیان یہ ہے کہ یہ آثار جن کا اس حدیث میں ذکر ہوا ہے اور یہ کہ شیطان کااور اس کے لشکریوں کا خاتمہ ہو گا تو یہ سب کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی کے ایام میںتو حاصل نہیں ہوااور نہ ہی آپ کی امت میں ابھی تک ایسا ہوا ہے جب کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سچ ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی بعثت کے بعد یہ سب کچھ بعض ایام میں ہوگا اور وہ ایام نہیں ہیں مگر حضرت قائم علیہ السلام کے زمانہ کے ایام ہیں جیسا کہ روایات میں آچکا ہے اور مزید بھی آئے گا(البحار ج۲۵ص۴۷۳،۵۸۳)
آئمہ معصومین علیہم السلام سے روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود کا نفاذ ہوگا۔(یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کا آخری نمائندہ ظہور فرمائے گا)
دعائے ندبہ میں یہ جملے موجودہیں:این حاصدفروع الغ ¸ والشقاق، این طامس آثارالزیغ والاھواءاین مبیداھل النفاق والعصیان والطیان، این قاطع حبائل الکذب والافتراء، این مستاصبل اہل العناد والتضلیل والالحاد، این جامع الکلمة علی التقویٰ
ان روایات اور اسی قسم کے دوسرے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام معاصی اور گناہوں کے تمام اسباب کو کائنات میںسے جڑ سے اکھیڑ دیں گے آپ کے دور میںنہ ملاوٹ ہو گی نہ افتراق ہوگا، نہ بغض ہوگا نہ کینہ ہوگا، نہ حسد ہوگا، نہ بخل ہوگا، نہ نفسانی خواہشات کی پیروی ہو گی اور نہ ہی ایسی خواہشات ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مخالف ہوں، نہ فسق رہے گا نہ فسادنہ سرکشی ہو گی نہ زیادتی ہوگی نہ جور ہوگا نہ ظلم نہ گمراہ کرنے والے اسباب ہوں گے نہ ہی دشمنیاں نہ جھوٹ ہو گا نہ افتراءکوئی کسی پر ظلم نہ کرے گا اور نہ ہی کوئی کسی کوگناہ پر آمادہ کرے گا اور نہ ہی کوئی کسی کو گمراہ کرے گا، بلکہ یہ تقویٰ ہوگا، خدا ترسی ہو گی، نیکی ہوگی، عدل ہوگا، سچ ہوگا، محبت ہو گی، ایمان ہوگاہر سطح پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو گی،اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو گی کوئی کسی پر ظلم نہ کرے گا سب ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور کوئی کسی کا حق نہ مارے گا سب بھائی بھائی ہوں گے تواس جگہ سوال یہ ہے کہ کیا عصمت اس کے علاوہ کسی اورحالت کا نام ہے؟ یہ عصمت غیرذاتی ہے، اس حکومت میں گناہ کے اسباب ہی نہ رہیں گے تو کوئی کس طرح گناہ کرے گا؟ اپنے امام علیہ السلام کے نور کی برکت سے سارے انسان اپنی اصلی فطرت کی طرف پلٹ آئیں گے،ظلم کی ضرورت ہی نہ رہے گی عدل ہر ایک گھر میں اور ہر خاندان کے درمیان پہنچ جائے گا، حکمرانوں کے ضمیروں میں عدل بسا ہوا ہوگا، چوری نہیں ہوگی کیونکہ فقر ہی موجود نہ ہوگا، سب خوشحال ہوںگے، عدل کی سلطنت ہوگی، پاکیزہ حکومت ہو گی، زنا نہیں ہوگا،فسق و فجور نہ ہوگا کیونکہ جس کے لئے ازواج اور شادی کی حاجت ہو گی تو امام علیہ السلام اس کے لئے شادی کے اسباب مہیا فرما دیں گے۔کوئی ایسا نہ رہے گا کہ اس کے لئے شادی کی خواہش ہو اور وہ مالی مجبوریوں یا مناسب رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے شادی نہ کر سکے، بلکہ ہر ایک کے لئے اپنی فطری ضرورت کو پورا کرنے کے واسطے اسباب مہیا کر دیئے جائیںگے۔
بغض، کینہ،حسد،نفرت کچھ بھی نہ ہوگا،امام زمان(عج)کے نور سے اللہ تعالیٰ اس زمانہ کے لوگوں کے دلوں کو طاہر کر دے گا اور وہ سب امام زمان(عج)کے نور کی برکت سے اس فطرت پر واپس آجائیں گے جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں خلق فرمایا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو توحید اور اپنی معرفت کی فطرت پر خلق فرمایا ہے، یہ فطرت اپنی پوری آب تاب سے امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت میں سب انسانوں پر حکمران ہوگی۔

ابلیس کا قتل
اس بات کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ امام علیہ السلام، ابلیس ملعون کو قتل کریں گے۔
اسحق بن عمار سے روایت ہے:
اسحق: میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا ابلیس کو جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور وقت معلوم تک مہلت کا کہا گیا ہے تو اس سے کیا مرادہے؟(سورة الحجر۸۳)
امام علیہ السلام: وقت معلوم قائم علیہ السلام کے قیام کا وقت ہے جب اللہ تعالیٰ انہیں مبعوث فرمائیں گے تو آپ علیہ السلام مسجد کوفہ میں موجود ہوں گے وہاں پر ابلیس آئے گا اور اپنے زانو کے بل جھک کر آپ علیہ السلام کے سامنے بیٹھ جائے گا اور وہ کہے گا کہ ہائے افسوس!اس دن پر جو آ گیا ہے پس امام علیہ السلام اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑیں گے اور اس کو قتل کر دیں گے پس وہ دن یوم معلوم ہے ابلیس کی مدت عمر کے خاتمہ کا دن ہے۔اس بارے فرق نہیں ہے کہ ابلیس کو آپ علیہ السلام حقیقی طور پر پکڑ کر قتل کردیں گے یا نفوس کے اندر میں موجود شیطان کو قتل کر دیں گے ہرانسان کے اندر کا شیطان ماردیں گے دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔

ایک سوال اور اس کا جواب
جی ہاں! اس بنا پر کہ آپ نفوس سے شیطان کو ماردیں گے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض روایات میں جویہ قول موجود ہے کہ شیطان زندہ رہے گااور وہ انسانوں میں شیطانی وسوسہ ڈالے گا اوروہی شیطان حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قتل کا سبب بنے گا اور اس کے بعد امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ ختم ہوگااوراللہ تعالیٰ کا غضب مخلوق پر نازل ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کی روایات صحیح نہیں ہیںاور اس کی تردید ان روایات سے ہوجاتی ہے جن میں آیا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں گناہوں اور جرائم کے اسباب ہی باقی نہ رہیں گے سب نیک ہوں گے۔ لیکن اس بحث کی جگہ یہ کتاب نہیں ہے اس کی جگہ اورہے۔جی ہاں! یہ بات کہ امت عصمت کے درجہ پر پہنچ جائے گی تو یہ فوری طورپر نہیں ہوگا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت کے مکمل ہو جانے کے بعد ہو گا ظہور کے ابتدائی دور میں ایسا نہ ہوگا کیونکہ وہ زمانہ توجنگوں کا اور دعوت دینے کا، ظلم سے منع کرنے کازمانہ ہوگا۔
ان روایات کا مضمون ہماری اس بات کی تائید کرتا ہے کہ امت عصمت مطلقہ کو پہنچ جائے گی خاص کر جب ان روایات کو ساتھ ملا دیں کہ امام علیہ السلام کا عدل وسیع ہو گا آپ علیہ السلام کی سلطنت عام ہو گی توحید الکلمة اور کلمة التوحید حاکم ہوگا خیالات، عقلیں سب ایک ہو جائیں گے، دلوں سے ہرقسم کی گرہیں کھول دی جائیں گی جیسا کہ پہلے گذرچکا ہے ان روایات کو دوبارہ ذکر کرنے میں تکرارہوگا۔
اسی طرح ابلیس کو قتل کرنے کی جو روایت ہے وہ بھی اس کی تائید میں ہے کیونکہ ابلیس ہر قسم کے شر اور گناہ کی بنیاد ہے اسی لئے بعض روایات میںیہ بیان گذر چکا ہے کہ شر اور گناہ کے اسباب کا قلع قمع کر دیا جائے گا اس کی جگہ خیر اور بھلائی کو رکھ دیا جائے گا۔اجمالی طور پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں امت کے عصمت کے درجہ کو پہنچنا ثابت ہے اور ایسا ہونا ناممکن نہیں ہے ان کی تاویل اس طرح کی جا سکتی ہے کہ لوگوں میں نیکی کے اسباب زیادہ ہوں گے خیر عام ہو گی گناہ کے ارتکاب کا کوئی سبب موجود نہیںرہے گاتوپھرانسان عصمت کے درجہ پرکیوںنہ پہنچ جائے اور وہ جن کے لئے اختیارہے، اختیاری حالت میں گناہ نہ کریں گے کیونکہ گناہ کی ضرورت ہی نہ ہو گی گناہ کے اسباب ہی نہ ہوںگے تویہ بات محال نہیں ہے ایسا ممکن ہے توپھر ان بہت ساری روایات کے مضمون کی تاویل اور توجیہ کیوں کی جائے۔

عصمت کا معنی
عصمت سے مرادفرائض اور واجبات ادا کرنے کی پابندی اورحرام کو چھوڑناہے ،عصمت ذاتی جو آئمہ اہل البیت علیہم السلام کے لئے ہے وہ اس جگہ مراد نہیں ہے۔
عمار الساباطی:میں نے حضرت ابوعبداللہ صادق علیہ السلام سے عرض کیا: میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں، تب تو ہم یہ رائے رکھیں کہ ہم قائم علیہ السلام کے اصحاب سے ہوں اور ان کا ظہور جلدہو جائے کیونکہ ہم آج آپ کی امامت میں ہیں آپ کی اطاعت میں ہیں اور اعمال کے اعتبار سے یہ افضل ہے دولت حق اور دولت عدل میں موجود ہونے سے۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام: سبحان اللہ!کیوں تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے ممالک میں عدل اور حق کا اظہار کرے اور اللہ تعالیٰ اپنے کلمہ کو اکٹھا کرے اور مختلف دلوں میں اللہ تعالیٰ تالیف و محبت پیداکر دے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ حق کو اہل حق کی طرف واپس پلٹا دے اور حق ظاہر ہو جائے اور حق سے کچھ بھی مخفی نہ رہے، مخلوق میں کسی ایک کے ڈر کی وجہ سے حق ظاہر ہونے سے مخفی نہ رہے پورے کا پورا حق ظاہرہوجائے۔حضور پاک نے حضرت عمارعلیہ السلام سے فرمایا: کہ تم جس حال میں ہو اسی پر قائم رہو گے اور جب تمہارے ساتھیوں کو موت آئے گی تو تمہارا انعام اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدر اور احد کے بہت سارے شہداءسے افضل ہوگا پس تمہارے لئے یہ بشارت ہو۔(الکافی ج۱ص۴۳۳باب تا در فی حال الغیبة ص۲)
اس جگہ کوئی اعتراض کر سکتا ہے اور اس کا اعتراض برجا بھی ہے کہ اس بات کو کہنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آخری زمانہ کے لوگوں کی سیرت میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی بہت ساری اخلاقی قدریں، سیاسی، اجتماعی قوانین بدل جائیں گے بلکہ بہت سارے توابین کو ملنی منسوخ ہو جائیں گے چہ جائیکہ عدالتی احکام اور اس کے لوازمات جیسے فوجی عدالتیں، سول عدالتیں، جیل خانے بلکہ پولیس، فوج اور اسی طرح کے دیگر امور کی ضرورت نہ رہے گی تو یہ سب کیسے ہوگا؟
یہ سوال اپنی جگہ پر ٹھیک ہے لیکن اگر ہم یہ جواب دیں کہ اس کے لئے وقت درکار ہوگا یہ یکدم اور فوری تو نہ ہوگا جب ماحول اور حالات ایسے ہو جائیں گے کہ کوئی بھی کسی پر ظلم نہ کرے گا گناہ اور جرائم کے اسباب کا خاتمہ کر دیا جائے گا تو پھر ان تبدیلیوں کے آجانے میں کیا حرج ہے؟جیسا کہ رسول پاک کا فرمان ہے:”علق السوط حیث یراہ اھلک“(تفسیر السمعانی ج۵ص۵۷۴)
ترجمہ:۔اپنے کوڑے کو ایک طرف رکھ دو جس وقت تم اس طرح کے افرادکو پالو۔
لیکن اس میں ایک بات ہے کہ جب برائی جڑ سے اکھیڑ دی جائے گی عدل مطلق نافذ ہوگا، حق عام ہوگا ہر گھر میں عدل ہوگا، جور نہ ہوگا، ظلم نہ ہوگا، رذائل اور خیانت کے اسباب ہی نہ رہیں گے، دلوں میں قربت ہو گی، محبت ہی محبت ہو گی تقویٰ پر سب اکٹھے ہوں گے تو پھر ان سب کی ضرورت نہ رہے گی جو اوپر سوال اٹھایا گیا ہے۔ پھرڈنڈے اور کوڑے کی ضرورت نہ ہو گی، تہدید ووعید کی ضرورت نہ ہو گی، لیکن اس جگہ پھر یہ سوال ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوجائے گا؟
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب روایات ہیںیہ ان کے مضامین ہیں، یہ وہ کچھ ہے جو ہم نے سمجھا ہے، سوالات موجود ہیں اشکالات موجود ہیں، بحث دقیق ہے۔اس پرکوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے۔خدا ہی ہماری درستگی فرمائے اوریقینی امر ہے کہ جب ظہور ہوگا تو پھر یہ سب کچھ سمجھ بھی آجائے گااللہ تعالیٰ صحیح سمجھ عطا کرے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ ،ترقی اور خیر مطلق، خوشحالی کا دور ہے
رہبر عظیم الشان آقای السید علی خامنہ ای کا ایک مقالہ میرے سامنے ہے جس میں انہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی برکات اور خیرات کو بیان کیا ہے آپ نے بیان کیا:
صاحب الامر علیہ السلام”ارواحنا فداہ“ کا زمانہ جو کہ آنے والا ہے یہ زمانہ انسانی زندگی کا نقطہ آغاز ہو گا یہ دور انسانی زندگی کی فناءاور خاتمہ نہیں اسی زمانہ میں اور اسی حکومت میں انسان کی حقیقی زندگی شروع ہو گی اور انسان کی حقیقی سعادت اسے حاصل ہو گی اس بڑی انسانی کائنات کے لئے آپ کی حکومت میں واقعی سعادت اور خوش حالی ہو گی انسان کے لئے خیرات اور برکات سے استفادہ کے مواقع ہوں گے وہ حکومت جو اس پوری زمین کو شامل ہو گی، زمین میں جتنی برکات ہیں اور جتنی پوشیدہ خیرات ہیں سب سے فائدہ حاصل کرنا اور انہیں بغیر کسی نقصان اور ضرر کے اپنے فائدہ کے لئے استعمال میں لانا انسان کے لئے ممکن ہوگا۔
یہ بات درست ہے کہ اس وقت انسان کائنات کی کچھ برکات اور خیرات سے فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن ان فوائد کے بدلے میں انہیں کافی سارے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں انہوں نے ایٹمی طاقت کو ایجاد کر لیا ہے لیکن ان لوگوں نے اس ایجاد کو انسان کے قتل کے لئے استعمال کیا ہے۔ زمین کی گہرائیوں سے خام تیل کو حاصل کیا ہے لیکن اس کے ذریعہ ماحول اور فضاءکو آلودہ کیا جاتا ہے جو انسان کی زندگی کے لئے نقصان کا سبب ہے یہ گزشتہ صدی میں حاصل ہوا ہے انسان کے محرکہ وسائل اور پوشیدہ طاقتوں کو ایجاد کر لیا ہے جیسے تجارات کی طاقت اور اسی طرح کی دوسری اشیاءکی طاقتیں، لیکن اس کے مدمقابل انسان کو بہت سارے بدنی اور جسمانی نقصانات پہنچائے ہیں، انسان کے لئے مادی زندگی بہت ساری مشکلات اور مصائب کو لے کر آئی ہے،موجودہ مادی ترقی انسان کےلئے زندگی کی آسائشیں اورسہولیات کولے آئی ہے لیکن اس ترقی نے انسانی زندگی سے بہت کچھ چھین لیا ہے دوسری جانب معنوی لحاظ سے ہمعصر انسان اخلاقی اقدار کی بربادی سے دوچار ہے لیکن اس کے برعکس جس وقت حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کا ظہور ہوگا تو بالکل مختلف حالات ہوں گے انسان کائنات کی تمام خیرات اور برکات سے فوائد حاصل کرے گاعالم طبیعت میں جو طاقتیں(انرجی)خیرات موجود ہیں سب انسان کے لئے ہوں گی بغیر اس کے کہ انسانی زندگی کو کسی قسم کا نقصان کا سامناکرنا پڑے اسے جسمانی نقصان بھی نہیں ہوگا مالی نقصان بھی نہ ہوگا اخلاقی اور معنوی نقصانات بھی نہ ہوں گے ایسی حالت ہو گی جو انسان کو ترقی اور کمال کی منزل پر پہنچا دے گی۔
انبیاءآئے ہیں انہوں نے ایسے اسٹیشن اور مرکز کی خبر دی ہے اور اس کی خصوصیات بیان کی ہیں کہ جس سے انسانی زندگی نئے طریقے سے اپنا آغاز کرے گی پس اگر خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہدف انسانیت کو اس مرکز تک پہنچانا نہیں تھا جو کہ آخری دین کا تقاضا ہے تو پھر آپ نے کیا کام کیاہے؟
ضروری ہے کہ تربیت کا وہ سلسلہ جاری رہے جسے انسان کے لئے آپ نے مہیا فرمایا ہے نسل در نسل ایک کے بعد دوسرے طبقہ میں تربیت کایہ عمل جاری رہے آپ نے اس دنیا کوچھوڑ جانا تھا”اِنَّکَ مَیِّت وَّاِنَّہُم مَیِّتُو نَ“(سورہ الزمرآیت۰۳)
”اے پیغمبر! تو نے یقینامرنا ہے اور ان سب نے بھی مرنا ہے“۔

حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین کا تقرر
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ اپنا قائمقام ایسے کو بنا جائیں جوپوری دقت اور امانت سے آپ کے قدم بقدم چلے اور جس راستہ کی تعمیر آپ نے شروع کی اسے آگے بڑھائے اور آپ کے طریقہ پر عمل کرے اورو ہ ہستی حضرت علی ابن ابی طالبعلیہ السلام ہیں جنہیں یوم الغدیر(۸۱ ذوالحجہ ۰۱ ہجری) خلیفہ کے منصب پرمقررفرمایا۔ہماری مراد یہ ہے کہ اگر امت نے اس دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی تنصیب کے اقدام کی حقیقت اور اصلیت کا ادراک کر لیا ہوتا اور اس کے حقیقی مفہوم کو جان لیا ہوتا اور اسے اچھی طرح لے لیا ہوتا اورساری امت نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے نشانات پر چلنا شروع کر دیا ہوتا اورنبوی تربیت پر خود کو باقی رکھا ہوتا اورحضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد میں آنے والی انسانی نسلوں کو الٰہی تربیت کے سائے تلے ہرقسم کی خرابیوں سے پاک ہو کر چلنے میں امت نے ان کا ساتھ دیا ہوتا تو انسان نے اپنی اس سطح کو پا لیا ہوتا جس تک پہنچنے میں اب تک یہ انسان ناکام رہا ہے اس منزل کو انسان نے بڑی تیزی سے حاصل کر لیا ہوتا انسانی علوم میں ترقی، انسان کی تمام روحانی منازل میںترقی اورلوگوں کے درمیان وحدت معاشرہ میںسلامتی اور امن، ظلم اور جور کا خاتمہ، طبقاتی تفاوت کا خاتمہ ہو چکا ہوتا اورمحبت و ولایت کی فضا سے بہرہ ور ہوتاتوموجودہ بدحالی اور بدامنی سے دوچار نہ ہوتا، اخلاقی بدحالی کایہ انسان شکار نہ ہوتا، مادی نقصانات سے دوچار نہ ہوتاانسانی معاشروں میں ظلم و جَور کے مظاہر موجود نہ ہوتے۔

حضرت علی علیہ السلام کی قیادت بارے جناب سیدہ زہراءسلام اللہ علیہا کافرمانا
جیسا کہ حضرت سیدہ فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہا جو اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کی منزلت اور ان کے مقام سے آگاہ تھیں فرمایاکہ: اگر لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کی ہوتی تو وہ انہیں اس راستہ پر(ترقی اور کمال کے راستہ پر) لے کر چلتے اور انہیں اس کے انجام تک پہنچادیتے۔
آپ نے فرمایا : ان پر وائے ہو، پھٹکار ہو کہ انہوں نے رسالت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا نبوت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا یعنی کس طرح اہل البیت علیہم السلام سے خود کو الگ کر کے نبوت اور رسالت کے مضبوط ستونوں کو کمزور کر دیا۔حضرت علی علیہ السلام جو دنیا اور دین کے معاملات سے بہترآگاہ تھے ان سے خود کو الگ کر لیا، آگاہ ہوجاﺅ کہ یہی تو کھلا اور واضح نقصان ہے ابوالحسن علیہ السلام کو انہوں نے ناپسند کیا خدا کی قسم!ان میں کچھ بھی ایسا نہ تھا جو ناپسندیدگی کا سبب ہو یہ فقط ان کی تلوارکی کاٹ سے نفرت کا اظہار تھا، ان کی شدت سے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر جو ان کا غضب تھااس کے وہ مخالف تھے۔
کتنا ہی اچھاہوتااگر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوامانتیں اور ذمہ داریاں سونپیں تھیں وہ لوگ اسے لے لیتے اوراس پر پردہ نہ ڈالتے توحضرت علی علیہ السلام انہیں بڑے آرام سے منزل کی طرف امت کو لے کر چلتے اور امت کوکسی انحراف میں نہ پڑنے دیتے انہیںکوئی تکلیف نہ ہوتی انہیں خوشگوار گھاٹی پر پہنچا دیتے جہاں سے وہ سیراب ہو کر نکلتے،کوئی بھی بھوکا نہ رہتا، وہ سب اس طرح سیراب ہوتے جیسا کہ ہونا چاہئے ، انہیں کہیں بھی پریشانی نہ ہوتی، اپنے واضح اورروشن عمل کے ذریعہ بھوکے کی بھوک مٹا دیتے آسمان سے ان کے لئے برکات اترتیں اللہ تعالیٰ انہیںان کی اس غفلت اور کوتاہی پر اور اپنے مولا کی نافرمانی پر عنقریب گرفت میں لے گا بوجہ اس کے جووہ کر رہے ہیں۔یعنی وہ اپنے کئے کا نتیجہ بھگتیں گے۔
(بلاغات النساءص۶۲،۷۴۔ کلام فاطمہ علیہ السلام، البحار ج۳۴۸۵۱۔۹۵۱۔۱۶۱)
لیکن انسان بہت زیادہ غلطیوں میں جا پڑتا ہے کتنی بڑی غلطیاں اس انسان نے کی ہیں جس کا تاریخ نے مشاہدہ کیا ہے انسانیت کو بڑے بڑے مصائب جھیلنے پڑے ہیں، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدمیں انسان الٰہی سفر، حادثات، سانحات اوراہم واقعات سے بھرا پڑا ہے اس کا یہ سفر انتہائی گہرے فلسفے پر مشتمل ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فلسفہ کا مزید گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اسے اچھی طرح پرکھا جائے، اس کی جانچ پڑتال کی جائے، ہمعصر انسانیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی تحریک کو جاری رکھے اسی راستہ پر چلے انسانی تنظیمات اور معاشرے جس قدر عدالت اور معنویات سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے اور انسان سب اخلاقی رذائل،انانیت، خودپسندی،بری عادات اور شہوانی احساسات سے پاک ہو گاتو پھر انسانیت کا کاروان روشن مستقبل کے قریب تر ہو جائے گااس وقت انسانیت انحرافات کی قربانی بنی ہوئی ہے اس لمبی تاریخ میں ایسے راستہ پر چلی ہے جس نے اس انسانیت کو طے شدہ ہدف اورمقصد سے اسے دور کر دیا ہے۔(خطاب ۸۱ذوالحجہ ۱۲۴۱ھ ق)

اوّل زمان اور آخر زمان کی دعوت
سورة الانبیاءآیت ۵۰۱تا۷۰۱ میں ہے ”ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ بات درج کر دی ہے کہ بتحقیق زمین کے وارث میرے صالح بندگان ہوں گے یہ عبادت گزار قوم کے لئے خیر ہے جو اس کی طرف بھیجا جا رہا ہے اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔
یہاں ایک قدر مشترک ہے کہ حضرت نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جنہیں عالمین کے لئے اول زمان میں رسول بنا کر بھیجا گیا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کہ جن کے بارے ہمیں آخری زمانہ کے لئے وعدہ دیاگیاہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:ہم سب ایک ہیں اور ایک نور سے ہیں اور ہماری روح اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے ، ہمارا پہلا محمد ہے ،ہمارا درمیانی محمد اور ہمارا آخری بھی محمد ہے“۔(بحارالانوار ج۶۲ص۶۱۔الزام الناصب ج۱ص۴۴)
پس پہلے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیںجو کہ نبی اعظم ہیں اور آخری محمد وہ مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں۔اس آیت کے بہت سارے معانی ہیں ”اَنَّ ال اَر ضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُو نَ“ (سورة الانبیاءآیہ ۵۰۱)یہ آیت آخری زمانہ کی جانب اشارہ ہے حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد مصطفی تک ساری زمین کے صالحین وارث نہیں بنے اور اب تک بھی ایسا نہیں ہواکہ صالحین ساری زمین کے وارث ہوں، حضرت قائم علیہ السلام کے زمانہ میں ایسا ہوگاجیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اللہ کا وعدہ ہے ان کے لئے جو تم سے ایمان لے آئے ہیں اورنیک اعمال بجالائے کہ انہیں زمین کی خلافت اور اقتدار ضرور دیا جائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو اقتدار دیا گیا اور ان کے لئے اس دین کو ضرور قدرت مند بنا دیا جائے گا جس دین کو ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایاہے“(سورہ النورآیات۵۵)
پہلی آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کا جو یہ ارشاد ہے کہ ”وَمَا اَر سَل نَاکَ اِلَّا رَح مَةً لِّل عَالَمِی نَ“ کہ آپ عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں(سورة الانبیاءآیہ ۷۰۱)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سارے انسانوں کے لئے رحمت ہے ، اسلام رحمت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ایک نظری اور فکری دین ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ نظام عمل ہے اور اسے نافذ کیا جا سکتا ہے اور یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کے سارے احکام کا اس طرح نفاذ ہوگا جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ساری زمین پر ہوگا تو اس وقت یہ دین، یہ نظام پورے عالمین کے واسطے رحمت ہوگا۔
سورہ الانفال آیت ۴۲میں ہے ”اے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی بات پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسے امر کی دعوت دیں جو تمہیں زندہ کرتا ہے اور یہ بات تم سب جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے اور یہ کہ اس انسان کو اللہ کے پاس ہی محشورہوناہے“۔جس وقت اللہ تعالیٰ کے احکام کو قبول کر لیا جائے گا اور ان پر عمل کیا جائے گا تو ان کا اثر رحمت کی شکل میں ہوگا،فرد اوراجتماع کی حیات کی صورت میں حاصل ہوگااس تناظر میں یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام تشریعاتی ہیں تکلیفی نہیں ہیں کیونکہ تکلیف میں ایک طرف کی مشقت ہوتی ہے جب تشریف میں ایک قسم کی رحمت پوشیدہ ہے اللہ تعالیٰ کے احکام رحمت ہیں، امت اورفرد کی زندگی میں دنیاوی اور اخروی فائدہ ہے۔(سورہ ص۸۸)
یہ بات معلوم ہے کہ ابھی تک سارے احکام کو نافذ نہیں کیا جا سکااور وہ بھی پوری زمین پرتونفاذ بالکل نہیں ہوسکتا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت نے ابھی تک عالمین کے لئے رحمت کا عنوان پوری طرح حاصل نہیں کیا۔
جی ہاں! مہدی منتظر علیہ السلام کے زمانہ میں اور حکومت عدل کے قیام کے بعد ایسا ہوگا کہ جس حکومت میں ظلم نہ ہوگا کوئی کسی کا حق نہ مارے گا اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہوگی، امن ہوگا، محبت کاراج ہوگا، پھر رحمت ہی رحمت ہوگی، سکون ہی سکون ہوگا، خوشحالی کا دور ہوگا، اس وقت حضور پاک کی رسالت عالمین کے لئے رحمت بن کر چمکے گی جیسا کہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔
اس لحاظ سے آیت کے شروع اور آیت کے آخرمیں بہت ہی مضبوط ربط اور تعلق ہے اور یہ اول زمان اورآخر زمان کا رابطہ ہے۔

دوسرا بیان پہلے اور آخری زمانہ کے درمیان ربط و تعلق
اگر اس سے آپ قانع نہیں تو مزید سنیں۔
سورة الفرقان آیت ۱ میں ہے”اللہ کی ذات بابرکت ہے جس نے فرقان اپنے عبدپر نازل فرما دیا ہے تاکہ آپ عالمین کے لئے نذیریعنی ڈرانے والے ہوں“۔
سورہ سباءآیت ۸۲،۰۳ میں ہے کہ”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر سارے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر، لیکن انسانوں کی اکثریت نہیں جانتی کہ وہ ان سب کی طرف بشیر اور نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیںوہ تو یہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو یہ وعدہ کب پوراہوگا؟اگر تم سچ کہتے ہو کہ وہ سب کی طرف بشیر اور نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں پس تم اے رسول! ان سے کہہ دو کہ: تمہارے لئے ایک دن کا وعدہ ہے کہ اس دن سے ایک گھڑی بھی آگے پیچھے نہیں ہوگی“۔
یعنی جب وعدہ والا دن آ گیا تو پھر یہ سب کچھ ہو جائے گا اس دن سے آگے پیچھے نہ ہوگا۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی کو نوحعلیہ السلام کے سارے شرائع(تمام قوانین) عطا کئے، اسی طرح ابراہیم علیہ السلام، موسیٰعلیہ السلام اور عیسیٰعلیہ السلام کے ذریعہ جن شرائع کو بھیجا گیا وہ سب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کی گئیں اللہ تعالیٰ نے انہیں سب کے لئے مبعوث کیا، سفید کےلئے،کالے کےلئے، جنات کے لئے سارے انسانوں کے لئے۔(المحاسن ج۱ص۸۴۴)
اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ذکر ”للعالمین“کا عنوان دیا ہے تو اس سے مراد یا تو قرآن ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ہے جو کہ اسلام کی شکل میں سامنے آئی یا دونوں مراد ہیں اگر ایسا ہے تو وہ سارے عوالم کیا ہیں جو قرآن کو اپنے لئے ذکر شمار کرتے ہیں۔اول زمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر اس زمانے تک جس میں اس وقت ہم موجود ہیں ایسے لوگ موجود ہیں اور پہلے بھی اس زمین میں موجود رہے ہیں جنہوں نے نہ قرآن سنا نہ اسلام کانام سنا اور نہ ہی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے سناتو پھر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح ان سب کے نذیر(ڈرانے والے)ہوں گے اور کس طرح ان سب کے لئے بشیر(بشارت دینے والے)ٹھہرے، اسی طرح یہ آیت ہے کہ ”وَمَا اَر سَل نَاکَ اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِی راً وَّنَذِی را“کب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارے انسانوں کو خدا کی اطاعت کرنے کے نتیجے میںبشارت دی ہے اور کب آپ کی دعوت سارے عالم میں پہنچی ہے بہت ہی تھوڑے تھے جنہیں آپ نے ڈرایا اور بہت ہی تھوڑے تھے جنہوں نے آپ کی اورقرآن اور اسلام کی دعوت کو قبول کیا۔
اس بیان سے نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اگر آپ کی دعوت سارے انسانوں تک نہیں پہنچی یا عالمین کے لئے آپ کی دعوت نہیں گئی تو پھرکیا یہ آیات بے معنی نہ ہوں گی؟!
نہیں ایسا نہیں ہے! آیات کے ذیل میں اس بات کا جواب دے دیا گیاہے۔
”ولتعلمن نبا ہ بعدحین“اور یقینی طور پر تم اس خبر کو کچھ وقت گزرنے کے بعد ضروربالضرورجان لوگے“۔
”وَیَقُو لُو نَ مَتٰی ھَذَال وَع دُ اِن کُن تُم صَادِقِی نَ(سورہ یونس آیت ۸۴)قُل لَّکُم مِی عَادُ یَو مٍ لَّا تَس تَاخِرُو نَ عَن ہُ سَاعَةً وَّلَا تَس تَق دِمُو نَ(سورہ سبا آیہ ۰۳)اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا، اگر تم سچے ہو، تو ان سے کہہ دو کہ: وعدہ کادن مقرر ہے جب اس کا وقت آن پہنچے گا تو پھر نہ تم اس سے آگے بڑھ سکو گے اور نہ ہی اس سے پیچھے رہ سکو گے۔
وعدہ پورا ہونے والا ہے،وعدہ سچا ہے، اس نے ضرور پورا ہونا ہے، اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور وہ دن جو آنے والا ہے اس وقت ہوگاجب اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو خروج کا اذن عطاءکرے گا اور وہ آ کر سارے انسانوں کو ڈرائیں گے اور انہوں نے ہی سارے انسانوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاپیغام دیناہے، دعوت کو پہنچانا ہے، بشارت دینی ہے، وہ دن آنے والا ہے ،وعدہ سچ ہونے والاہے۔
”ھُوَ الَّذِی اَر سَلَ رَسُو لَہُ بِال ہُدٰی وَدِی نِ ال حَقِّ لِیُظ ہِرَہُ عَلَی الدِّی نِ کُلِّہِ وَلَو کَرِہ ال مُش رِکُو نَ“(التوبہ ۲۳،۳۳۔ الفتح ۸۲الصٰف۹)
اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور حق کے ساتھ بھیج دیاہے دین حق دے کر تاکہ وہ اس دین کو ظاہرکریں اور غلبہ دیں اگرچہ مشرکین اس کو ناپسند کریں، باقی سارے نظاموں پر اس دین کو غلبہ دینا ہے دیں کے غلبہ کے حوالے سے چند روایات ملاحظہ ہوں کہ ان سے قاری کو مزید اطمینان حاصل ہوگا۔
۱۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی سیرت کیا ہوگی؟
جواب دیا گیا کہ وہ وہی کچھ کریں گے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا جو کچھ آپ سے پہلے موجود ہوگا اسے ختم کر دیں گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا کہ کہ آپ نے جاہلیت کے دور کی ہرچیزکومنہدم کر کے نئی تعمیر کی اسی طرح حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد سے اسلام نئے سرے سے شروع ہوگا(غیبة النعمانی ص۱۲۱سیرة القائم)
۲۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام :جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو سارے انسانوں کو نئے امر کی دعوت دیں گے جس طرح حضرت رسول اکرم نے سارے لوگوں کو دعوت دی تھی ،اسلام شروع ہوا یعنی جس وقت اسلام کی دعوت دی گئی تو لوگ اسلام کو بھول گئے تھے حضرت رسول اللہ نے اس عالم میں اسلام کی طرف لوگوں کو بلایا، ایک دفعہ پھر اسلام غریب ہو جائے گا جس طرح اس کاآغاز ہوا تھا تو حضرت امام مہدی علیہ السلام پھر سے اس کی طرف دعوت دیں گے پس خوشخبری غربا کے لئے ہے۔(غیبة نعمانی ص۳۷۱،الاسلام بداءغریبا)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں:امام زمانہ(عج) کے متعلق حدیث ہے کہ آپ اپنے خطاب میں فرمائیں گے....جو شخص بھی نبیوں کو درمیان میں لا کر مجھ سے بحث کرنا چاہتا ہے تو میں سب نبیوں کے زیادہ قریب ہوں اور جو شخص حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درمیان میں لا کر مجھ سے بحث کرنا چاہتا ہے تو میں ان کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان اپنی محکم کتاب میں اس طرح موجود نہیں ہے”اِنَّ اللّٰہَ اص طَفیٰ آدَمَ وَنُو حاً وَ آلَ اِب رَاہِی مَ وَ آلَ عِم رَانَ عَلَی ال عَالَمِی نَoذُرِّیَّةً بَع ضُھَا مِن بَع ضٍ وَاللّٰہُ سَمِی ع عَلِی م “۔(آل عمران۳۳،۴۳)
”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام، نوحعلیہ السلام، آل ابراہیم علیہ السلام اور آل عمران کو عالمین پر چن لیا ہے بعض جو ہیں وہ بعض کی ذریت سے ہیں اللہ سمیع ہے اور علیم ہے“۔
میں حضرت آدم علیہ السلام کا بقیہ ہوں، میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذخیرہ ہوں، میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انتخاب ہوں، میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چنا ہوا ہوں، سب پر سلام و صلوات ہو، آگاہ رہو، متوجہ ہوجاﺅ، جو شخص کتاب خدا کو درمیان میں لا کر مجھ سے بحث کرنا چاہتا ہے تو سارے لوگوں سے کتاب خدا سے میرا زیادہ تعلق ہے اور جو شخص سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درمیان لا کر مجھ سے بحث کرنا چاہتا ہے تو سارے لوگوں سے زیادہ سنت رسول سے میرا تعلق ہے“۔(بحارالانوار ج۲۵ص۹۳۲)
یہ ہے وہ رابطہ اور تعلق جو اول زمان اور آخر زمان کے درمیان موجود ہے پس جس کام کا آغاز حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی کی تکمیل حضرت امام مہدی علیہ السلام کریں گے،اسے پورا آپ علیہ السلامآکرپورا کریں گے، کام وہی ہے لیکن اسے آخر تک حضرت امام مہدی علیہ السلام نے پہنچانا ہے۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خاتم، خاتم الخلفاءکے بارے خود ہی فرمایا”وہ میرے نشان پر چلے گا اور وہ غلطی نہیں کرے گا اور اس سے چوک نہ ہو گی“۔(الفتوحات المکیہ ج۶ص۱۷،۱۸، باب ۶۶۳)
سوال:” وَمَا اَر سَل نَاکَ اِلَّا رَح مَةً لِّل عٰلَمِی نَ“میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات قرار دی جائے اور اس رحمت سے مراد آپ کی رسالت کو نہ لیا جائے تو پھر اوپر اٹھائے سوال کا جواب کیاہے؟
جواب: حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کو دوسری آیات نے بھی بیان کیا ہے۔”اللہ کی جانب سے رحمت کی وجہ سے ہی تم ان کے لئے نرم ہوئے اگر تم سخت مزاج ہوتے ،تندخُو ہوتے تو وہ سب تیرے گردا گرد سے دور ہو جاتے تیرے پاس نہ آتے پس تم انہیں معاف کر دو ان کے لئے استغفار کرو اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کرو اور جب تم فیصلہ کر لو تو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اس کام کو کر گزرو کیونکہ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو دوست رکھتاہے“۔(سورہ آل عمران آیت۹۵۱)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے پاس آیا ہے جو خود تمہارے میں سے ہے جس تکلیف میں تم ہوتے ہو تو وہ اس کے لئے گراں گزرتی ہے وہ تمہارے اوپر حریص ہے کہ تم مومنین ہو، انہیں مومنین کا بہت خیال رہتا ہے وہ رﺅف ہے رحیم ہے ،مہربان ہے“۔(سورہ التوبہ آیت ۸۲۱)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے نبی! تم کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ان پر سختی کرو ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ان کا انجام بُرا ہے“۔(سورہ التحریم آیت ۹)
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحیم ہیں ان مومنوں کے واسطے جو آپ کے گرد موجود ہیں لیکن آپ کافروں کے لئے سخت ہیں، شدت اور غلبہ جو لفظ استعمال ہوئے ہیں ان سے مراد انتقام نہیں ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ انہیں ظلم اور سرکشی کرنے سے روکو انہیں دین کی طرف واپس لے آﺅ اور اسلام کی رحمت میں انہیں داخل کرو پس حضرت نبی اکرم کی سختی اور درشتی رحمت ہے دشمنوں کے حق میں، اگرچہ اس باب سے ہی ہو کہ سونا عبادت ہے یا ظالم کو قتل کرنا عبادت ہے، کیونکہ جب انسان سو جاتا ہے یا مر جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچ جاتا ہے یا اس سے کم کر لو کہ اس کا ظلم کرنا کم ہوجاتا ہے اوراس طرح اس کا عذاب کم ہوجاتا ہے اور مظلوم پر اس کی زیادتی کم ہو جاتی ہے۔پس دشمنوں کو جب ظلم سے روکا جائے گا اور اس سے سختی کی جائے گی تو گویا انہیں ہلاکت سے بچایا جا رہا ہوگا تو یہ بات ان دشمنوں کے لئے رحمت ہو گی۔ سورہ فتح کی آیت ۸۲،۹۲ کا ترجمہ ملاحظہ ہو، یہ آیات اس مطلب کو بڑا ہی واضح بیان کر رہی ہیں جسے ہم بیان کرنے میں مصروف ہیں۔

مہدوی رحمت کے نظارے
جب ہماری گفتگو رحمت پر آٹھہری ہے تو مہدوی رحمت کے چند نظارے ملاحظہ ہوں۔
روایات گذر چکی ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی رحمت پر دلیل ہیں، جیسے آپ رحمت عام کریں گے، زمین کی ساری برکات باہر آجائیں گی، اگر ہم میں سے کوئی ایک زمین پر موجود نہ رہے تو زمین برباد ہو جائے۔(اہل البیت علیہ السلام لتوفیق ص۳۷)
رحمت کے چند نمونے:
۱۔ عدالت عام ہونا ظلم ختم ہونا رحمت ہے۔
۲۔ فقر کا خاتمہ گداگری کا خاتمہ رحمت ہے۔
۳۔ غیر خدا کی غلامی کا خاتمہ رحمت ہے۔
۴۔ اجتماعی اور انسانی ارتقاءاور تکامل حاصل ہونا رحمت ہے۔
۵۔ معنوی اور مادی محرومیوں کا خاتمہ رحمت ہے۔
۶۔ پوری امت کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا دینا، احکام اسلام کی پابندی اورنافرمانی خدا کا خاتمہ، رحمت ہے۔
۷۔ کمزور کی مدد کرنا اور اس کا حق اسے دلانا رحمت ہے۔
۸۔ بھیڑ اور بھیڑیے کا ایک گھاٹ پر پانی پینا، شیر اوربکری کا ایک ریوڑ میں چرنا، بلی اور چوہے کا اکٹھا رہنا ، رحمت ہے۔
اس کتاب میں جو کچھ بیان ہو رہا ہے وہ اس اجمال کی تفصیل ہے۔
ابن عربی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی نو خصوصیات کو ذکر کیا ہے، ان خصوصیات میں ایک رحمت ہے، یہ مہدی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے غضبناک ہوں گے اور غضب کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی معین کردہ سزاﺅں سے تجاوز نہ فرمائیں گے اس کے بعد اس نے لمبی کلام کی ہے جو اس کے مذہب کے حوالے سے بہت ہی لطیف اور عمدہ ہے۔(فتوحات المکیہ ج۶ص۴۷باب ۶۶۳)
حدیث النبوی ہے:”یقضواثری ولایخطی“(الفتوحات المکیہ ج۶ص۱۷ص۱۸ باب ۶۶۳)
اس حدیث سے واضح ہو رہا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام رحمت ہیں آپ علیہ السلام کی رحمت نبی اکرم کی رحمت جیسی ہے۔
”(تو اے رسول یہ بھی)خدا کی ایک مہربانی ہے کہ تم(سا) نرم دل (سردار) ان کو ملا اور تم اگر بدمزاج اور سخت دل ہوتے تب تو یہ لوگ(خدا جانے کب کے) تمہارے گرد سے تتر بتر ہو گئے ہوتے پس (اب بھی) تم ان سے درگزر کرو اور ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو اور(سابق دستورظاہراً)ان سے کام کاج میں مستورہ کر لیا کرو(مگر) اس پر بھی جب کسی کام کو ٹھان لو تو خدا ہی پر بھروسا رکھو(کیونکہ)جو لوگ خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں خدا ان کو ضرور دوست رکھتاہے“۔(سورہ آل عمران آیت ۹۵۱، پارہ ۳)
”اور ہم نے تو نصیحت(توریت)کے بعد یقینا زبُور میں لکھ ہی دیا تھا کہ روئے زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اس میں شک نہیں کہ اس میں عبادت کرنے والوں کے لئے (احکام خداکی)تبلیغ ہے اور(اے رسول)ہم نے تو تم کو سارے جہان کے لوگوں کے حق میں ازسرتاپارحمت بنا کر بھیجا“(سورہ الانبیاءآیت ۵۰۱تا۷۰۱، پارہ ۷۱)
(جو کچھ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہی کچھ آپ کے آخری خلیفہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے ہے کیونکہ حضورپاک نے فرمایا: کہ وہ میرے نشان پر چلے گا اس سے ذرا چُوک نہ ہو گی، غلطی نہ ہو گی، وہی رحمت جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے آپ بھی ہیں جس طرح آپ رحمت تھے اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام رحمت ہیں جو احکام حضورپاک کے لئے ہیں وہی امام مہدی علیہ السلام کے لئے ہیں، امام مہدی علیہ السلام صاحب شریعت نہیں بلکہ شریعت محمدیہ اور اسلام کا احیاءکرنے والے ہیں، آپ اپنے جد امجد کی قائمقامی میں ان کے کام کو پورا کرنے والے ہیں اور آپ کی رسالت کی آفاقیت کو عملی شکل آپ نے دینا ہے اور جس نظام کو سب دوسرے نظاموں پر غلبہ ملنا ہے وہ نظام اسلام ہے، دینِ غالب اسلام ہے، اس کی عملی شکل حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں ہونا ہے، جب حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے جیسا کہ روایات میں ہے امام مہدی علیہ السلام کی آمد سے پہلے اسلام کا نام توہوگا اسلام کا عنوان بھی موجودہوگا لیکن اسلام کی حقیقت مٹ چکی ہو گی آپ علیہ السلام اسے دوبارہ بحال کریں گے لوگ سمجھیں گے کہ کوئی نئی شریعت لائے ہیں لیکن آپ علیہ السلام واضح کر دیں گے کہ یہ وہی اسلام ہے جسے میرے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہنچایا ہے اب میں اسے اس کی اصلی شکل میں بیان کررہا ہوں اور دنیا کے کونے کونے تک اس پیغام کو پہنچا کر رسول پاک کی رسالت کے عالمی اور آفاقی ہونے کو بھی ثابت کر دیں گے ]خداوند وہ ایام جلد لائے اور ہمیں ان ایام کو قریب تر کرنے والوں سے شمار کرے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ایام لانے میں کام کرنے والے بنیں اور تمہیدی عمل جو آپ کی سلطنت کے قیام کے لئے ضروری ہے اس میں ہمارا بھی کردار ہو
۔آمین(مترجم)