تیسرا ہدف:۔ عدل کا نفاذ اور ظلم کا خاتمہ
یہ ہدف فقط انسانوں میں لاگو نہ ہوگا بلکہ اس میںحیوانات بھی شامل ہوں گے۔
حیوانات میں عدالت کے قیام بارے روایات
و البحار میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے جس میں قائم علیہ السلام کے اوصاف کو بیان کیاگیا ہے آپ نے فرمایا:آسمان اپنے قطرات باراںکو برسا دے گا اور درخت اپنے پھل دے دیں گے زمین اپنی نباتات کو اگل دے گی اور زمین اپنے باسیوں کے لئے آراستہ ہوجائے گی ، وحشی جانور بھی امن سے رہیں گے کسی پر زیادتی نہ کریں گے وہ بھی زمین کے اطراف میں اسی طرح گھاس چریں گے جس طرح باقی جانور گھاس چرتے ہیں۔(بحارالانوار ج۳۵ص۵۸)
و البحار میں ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے اس قوللِیُظ ہِرَہُ عَلَی الدِّی ن کُلِّہ وَلَو کَرِہَ ال مُش رِکُو نَ(سورة التوبہ آیہ ۳۳) کے ضمن میں روایت بیان کی ہے۔
ابن عباس: ایسا نہیں ہوگا مگریہ اس وقت ہوگا جس وقت کوئی یہودی، نصرانی اس دنیا میںباقی نہ رہے گاکسی ملت اور دین کا پیروکار نہ بچے گامگر یہ کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے گایہاں تک کہ بھیڑیا اور بکری ، گائے اور شیر ، انسان اورسانپ سب اکٹھے مل کر رہیں گے اور کسی کوکوئی نقصان نہ دیں گے یہاں تک کہ چوہاجراب تک کو نہ کاٹے گا، یہ سب کچھ امام قائم علیہ السلام کے قیام میں ہوگا۔
(بحارالانوارج۱۵ص۱۶۔باب آیات الموملہ زیل ۹۵)
امیرالمومنین علیہ السلام: آپ کے ملک میں وحشی جانوروں کی اصلاح ہو جائے گی اور زمین اپنی نباتات کو باہر نکالے گی اور آسمان اپنی برکات کو اتار دے گا۔(بحارالانوارج۲۵ص۰۸۲)
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مہدی علیہ السلام، میری اولاد سے ایک مرد ہیں، ان کا رنگ عربی ہے، ان کا بدن اسرائیلی ہے، ان کے دائیں رخسار پر خال ہے، کوکب دری کی مانندہے، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی آپ علیہ السلام کی خلافت میں زمین والے، آسمان والے، فضاءکے پرندگان سب راضی ہوں گے۔(بحارالانوار ج۱۵حدیث ۰۸ باب ۱ ذیل ۹)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام: بھیڑیا اور بکری ایک جگہ پر گھاس چریں گے بچے، سانپ اور بچھو اکٹھے کھیلیں گے کوئی کسی کونقصان نہ دے گا شر جاتا رہے گا اور خیر ہی خیر رہ جائے گی۔(النجم الثاقب ج۱ص۱۰۳)
امیرالمومنین علیہ السلام: اس زمانہ میں زمین پر امان کوانڈیل دیا جائے گا کوئی چیز بھی کسی کو نقصان نہ دے گی اور نہ ہی کوئی چیز کسی سے ڈرے گی حیوانات، حشرات الارض، درندگان،وحوش سب انسانوں کے درمیان ہوں گے تو کوئی بھی ایک دوسرے کو اذیت نہ دے گا حشرات الارض سے ہر ایک سے اس کا زہرلے لیا جائے گااس میں وہ زہر ہی نہ رہے گاکہ جس سے وہ ڈستے تھے۔(النجم الثاقب ج۱ص۱۰۳)
وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ ان روایات کو ذکر کرنا ذاتاًمقصود نہیں ہے اور نہ ہی حیوانات کے عالم سے اور ان میں ظلم و جور کی کیفیت اور عدل کے نفاذ کی بات کرنا مقصود ہے، یہ ہم نے نمونہ کے طور پر اس لئے ذکر کی ہیں تاکہ ہم ان سے اپنے مقصد کے لئے استفادہ کریںان روایات سے ایک بات بڑی عیاں ہے کہ ہر سطح پر،ہر صنف و قبیلہ میں اور ہر نوع اور جنس میں ہر طرح کا عدل ہوگا امن ہوگا، سکون ہوگا۔
عدل سے مراد
جس عدل کی ہم بحث کر رہے ہیں جو امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے اہداف سے ہے اس عدل سے فقط احکام اور فیصلہ جات میں عدل کا نفاذ نہیں ہے بلکہ یہ عدل ہر قسم کے ظلم و زیادتی کے خاتمہ کے لئے ہے اس طرح کہ اس عدل میں حیوانات بھی شامل ہوں گے جن کی طینت میں ہے کہ طاقتور کمزور کو کھا جائے گا اور جنگل کے جانوروں کے درمیان رائج قانون یہی ہے کہ طاقتوربادشاہ ہے اور اس نے کمزور کو اپنا لقمہ بنانا ہے اللہ تعالیٰ اس عدل کی حقیقت سے آگاہ ہے اور اس کی وسعت کو بھی وہی ذات بہتر جانتی ہے یہ اس کا اپنا لطف ہے کہ کس طرح وہ بھیڑیے ،شیر،سنسار، چیتے، باز کو راضی رکھے گا اور وہ اپنی طبیعت کو بدل لیں گے۔ یہ عدل ہونا ہے کہ بچھو انسان کو اذیت نہ دے گا حیوان کو بھی بچھو نہیں ڈسے گا۔
میں یہ کہتا ہوں کہ ظاہر امر یہ ہے جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا کہ امام علیہ السلام کا عدل طاقت کے زور پر لاگو نہیں ہوگا بلکہ ایک بہت ہی لطیف طریقہ پر اس کا نفاذ ہوگاجسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے اُد عُ اِلیٰ سَبِی لِ رَبِّکَ بِال حِک مَةِ وَال مَو عِظَةِ ال حَسَنَةِ(سورة النحل ۵۲۱)
حضرت امام مہدی علیہ السلام عدل قرآن ہیں، قرآن کے ساتھ ہیں، قرآن آپ کے ساتھ ہے تو قرآن میں اللہ تعالیٰ کے نظام کو لاگو کرنے کے لئے جو طریقہ بیان کیا گیا ہے آپ اس الٰہی نہج کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کی تفصیل ہم پانچویں فصل میں بیان کریں گے۔
مہدوی عدالت کا جوہر اور حقیقت
عدل عام کرنے سے مراد یہ ہے کہ عالمی سطح پر انسانوں کے لئے جو سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ماحولیاتی، اخلاقی بحران موجود ہیں ان سب کو حل کر دیا جائے، ہر انسان کو سکون اورامن کا ماحول فراہم کر دیا جائے اور ہر انسان کی ضروریات زندگی کو پورا کیاجائے پوری روئے زمین پر بسنے والوں کوعادلانہ مواقع خوشحال زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کر دیئے جائیں اور کوئی بھی کسی دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب نہ کرے۔
عدل کا نہ ہونا سب سے بڑا انسانی مسئلہ ہے اس کے بہت زیادہ منفی اثرات ہیں۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: امام عادل کی ایک گھڑی ستر سال کی عبادت سے افضل ہے زمین پر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک حد(جرم کی سزا)کا قائم کرنا بارش برسنے سے افضل ہے۔(الوسائل ج۸۱ص۸۰۳،باب ۱ حدیث ۴)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اللہ کا وعدہ ہے ان کے لئے جو تم سے ایمان لے آئے ہیں اور اچھے اعمال انجام دیئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین کا اقتدار دے دے جیسا کہ اس نے ان سے پہلے والوں کو بھی زمین پر اقتدار دیا اور یہ وعدہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جس دین (نظام) کو پسند فرمایا ہے اسے ان کے واسطے قدرت مندبنا دے اور یہ وعدہ ہے کہ جو خوف و ہراس ان پر طاری ہے اسے بدل کررکھ دے اور ان میں امن و سکون کی فضاءقائم ہو اور امن سے وہ سب میری عبادت کریں اور میرا کسی ایک کو وہ شریک نہ بنائیں اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے گا تو وہی لوگ فاسقین سے ہیں۔
یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ مکمل عدل ابھی تک قائم نہیں ہوا اس نے بعد میں قائم ہونا ہے اور اسی عدل کے نفاذ اور قیام کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو پوری زمین کا اقتدار دے گا اور یہ آخری زمانہ میں ہوگا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے( سورہ التوبہ آیت ۲۳،۳۳۔ سورہ الصف آیت ۹ ۔سورہ الفتح آیت ۸۲)
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس دین (نظام حیات) کوسارے ادیان پر غلبہ دے دے اگر مشرکین اس عمل کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔
ابھی تک دین اسلام سارے ادیان پر غالب نہیں آیا اور مشرکین کا خاتمہ نہیں ہوا جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت سے بھی واضح ہو رہا ہے۔ لیکن ایسا یقینی ہونا ہے اور یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور پر ہی ہوگا۔
(کمال الدین ج۷۶حدیث ۶۱۔ تفسیر نور الثقلین ج۲ص۱۱۲حدیث ۲۲۱)
عدل کے بارے روایات
ابوسعید الخدری۔ رسول اللہ نے فرمایا:
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : میں تمہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے بشارت دیتا ہوں وہ میری امت میں مبعوث ہوں گے جب کہ لوگوں میں اختلافات ہوں گے،زمین میں زلزلے ہوں گے، تو وہ آئیں گے اور زمین کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین ظلم اور جور سے بھر چکی ہو گی، اس سے آسمان میں رہنے والے اور زمین پر بسنے والے سب راضی ہوں گے، وہ مال کو صحیح طریقہ پر تقسیم کریں گے۔ایک شخص کا سوال:مال کو ”صحاحاً“صحیح طریقہ پر تقسیم کریں گے اس صحاح سے کیا مرادہے؟
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لوگوں کے درمیان مال کوصحیح معیارکی بنیاد پر تقسیم کریں گے۔(فرائدالسمطین ج۲ص۰۱۳حدیث ۱۶۵)
حسین بن خالد:حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا گیا: یا بن رسول اللہ!آپ علیہ السلام اہل بیت علیہ السلام کا قائم علیہ السلام کون ہے؟
حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا المرتضیٰ علیہ السلام: میری اولاد سے چوتھے جو کنیزوں کی سردار بی بی علیہ السلام کا بیٹاہے اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے زمین کو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک کر دے گا اسے مقدس بنا دے گا وہ ایسے ہیں کہ لوگ ان کی ولادت بارے شک کریں گے ان کے لئے ایک غیبت ہے آپ کے خروج سے پہلے جب وہ خروج کریں گے تو ان کے نور سے زمین چمک اٹھے گی اور آپ لوگوں کے درمیان عدل کا میزان لگا دیں گے کوئی ایک بھی کسی پرظلم نہ کرے گا وہ ایسے ہیں کہ ان کے لئے زمین کو لپیٹ دیا جائے گا۔اس کے لئے کوئی سایہ نہ ہوگا وہ ایسے ہیںکہ جن کے لئے آسمان سے منادی نداءدے گاجس کوسارے زمین والے سنیں گے اس نداءمیں لوگوں کو ان کی طرف بلایا جائے گا اس میں کہا جائے گا”الا ان حجة اللّٰہ قد ظہر عندبیت اللہ فاتبعوہ فان الحق فیہ ومعہ“ آگاہ ہوجاﺅ، خواتین و حضرات، حجت خدا کا ظہور بیت اللہ میں ہوچکا ہے پس تم سب اس کی پیروی کرو اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں موجود ہے ”اِن نَّشَا نُنَزِّل عَلَی ہِم مِّنَ السَّمَآئِ اَیَةً اَع نَاقُہُم لَھَا خَاضِعِی نَ“
(سورہ شعراءآیت ۴۔ فرائدالسمطین ج۲ص۷۳۳ حدیث ۹۵۔ کمال الدین ج۲ص۱۷۴۔ باب ۵۳ ذیل ۵)
ابوسعید الخدری سے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نبی اکرم: حضرت امام مہدی علیہ السلام میری امت میں خروج کرے گااللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے لئے فریاد رس بنا کر بھیجے گا، امت کے لئے نعمات کی فراوانی ہو جائے گی حیوانات پر سکون زندگی گزاریں گے زمین اپنی نباتات کو باہر نکال دے گی اور مال کی تقسیم برابر طور پر کی جائے گی۔(کشف الغمہ ج۳ص۰۷۲)
البحار، غیبت النعمانی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث بیان ہوئی ہے: خدا کی قسم! آگاہ رہو کہ ان کے زمانہ میں، انکا عدل لوگوںکے گھروں میں اس طرح داخل ہوگا جس طرح گرمی اور سردی گھروں میں آتی ہے(بحار ج۲۵ص۲۶۳حدیث۱۳۱)
کمال الدین میں شیخ صدوقؒ نے اپنی اسناد سے امام ابوجعفر باقر علیہ السلامسے روایت نقل کی ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ضمن میں”اِع لَمُو ا اَنَّ اللّٰہَ یُح ¸ِ ال اَر ضَ بَع دَ مَو تِھَا“ اللہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دے گا(سورہ الحدید آیت ۷۱)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: اللہ تعالیٰ زمین قائم علیہ السلام کے وسیلہ سے زندہ کردے گا جب کہ وہ آپ علیہ السلام کی آمد سے پہلے مردہ ہو چکی ہو گی۔
زمین کی موت کا معنی ہے کہ زمین پر کفر کے رواج سے زمین مردہ ہو جائے گی کفر کی موت امام مہدی علیہ السلام کی آمد سے ہوگی۔ (من لایحضرہ الفقیہ ج۲ص۸۶۶باب ۸۵۔ ذیل ۳۱)
ابن عباس سے کتاب الحجة میں ہے: کہ اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ قائم آل محمد کے وسیلہ سے زمین کی اصلاح فرمائے گا جب کہ آپ علیہ السلام سے پہلے زمین مردہ ہو چکی ہو گی یعنی زمین پر بسنے والوں میں ظلم و جور کی حکمرانی سے زمین مردہ ہو چکی ہوگی ”قَد بَیَنَّالَکُم ال اٰیَاتِ“اور ہم نے تمہارے لئے نشانیوں کو واضح کر دیاہے۔
تو اس سے مراد بھی یہ ہے کہ ہم قائم آل محمدعلیہم السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ذریعہ اپنی نشانیوں کو واضح کیا ہے ”لَعَلَّکُم تَع قِلُو نَ“یہ سب کچھ اس لئے ہو گا کہ تم سمجھ جاﺅ، اس کا ادراک کر لو(سورہ الحدید آیت ۷۱۔ المحجة ۲۵۷)
ابوابراہیم علیہ السلام سے اس قول کے بارے آیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ زمین کو بارش برسا کر آباد نہیں کرے گا زندہ کرنے سے مراد زمین کو آباد کرنا نہیں ہے اور نہ ہی زمین کے مردہ ہونے سے زمین کا غیرآباد ہونا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ آدمیوں کو بھیجے گا جو عدل کا قانون جاری کر کے زمین کو زندگی دیں گے یعنی زمین پر بسنے والوں کو زندگی دیں گے اور زمین کے اوپرایک(جرم کی سزا)قائم کرنا، زمین پر چالیس دن تک بارش برسنے سے زیادہ فضیلت رکھتاہے۔(الکافی ج۷ص۴۷۱حدیث ۱)
الجواہر میں ہے۔
حضرت امام ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام کافرمان ہے کہ حد(جرم کی سزا)جو زمین پرقائم کی جائے تو یہ زیادہ مفید ہے کہ چالیس دن رات زمین پر بارش برستی رہے۔
(المحجہ ۳۵۷)
المحجہ ص۳۵۷ میںالحلبی سے ہے کہ ابوعبداللہ سے میں نے اس آیت ”وَاع لَمُو اَنَّ اللّٰہَ یُح ¸ ال اَر ضَ بَع دَ مَو تِھَا“ (سورة الحدید آیہ ۷۱)کے بارے سوال کیا:
امام ابوعبداللہ علیہ السلام : کے بعد عدل کا نفاذ مراد ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بارزترین اور روشن ترین صفات میں صفت عدل ہے، آپ علیہ السلام کا لقب ہی عدل ہے۔ماہ رمضان کی راتوں کے لئے مروی صلوات میں ہے”اللھم وصل علی ولی امرک القائم المو مل والعدل المنتظر“اے اللہ! اپنے امر کے ولی القائم المومل پر صلوات بھیج اور عدل منتظر پر صلوات بھیج اس میں امام مہدی علیہ السلام کو عدل کے لقب سے یاد کیا گیا ہے یعنی اس عدل(مہدی)پر صلوات بھیج جنکی انتظار کی جا رہی ہے۔(تہذیب الاحکام ج۳ص۱۱۱)
کمال الدین میں مروی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم نے مہدی علیہ السلام کے وصف میں بیان کیا ”اولہ العدل واخرہ العدل“ ان کا آغاز بھی عدل ہے اور ان کا اختتام بھی عدل پر ہے۔(مکیال المکارم ج۱ص۸۰۱)
اس سے مراد یہ ہے کہ آپ علیہ السلام عدل کے کمال پر ہوں گے۔
کوئی حدیث بھی ایسی نہیں ہے کہ جو امام مہدی علیہ السلام کے وصف میں ہو اور اس میں آپ علیہ السلام کی صفت عدل کو بیان نہ کیا گیا ہو۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کےلئے فرمایا:اے حسین علیہ السلام ! تمہاری اولاد سے نویں قائم علیہ السلام بالحق ہوں گے جو دین کو ظاہر اور غالب کرنے والے ہوں گے، عدل کو پھیلانے والے ہوں گے۔(کمال الدین ج۱ص۴۰۳باب ۶۲،حدیث۶۱)
البحار میں حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے۔
ابوعبداللہ علیہ السلام: عدل سے پہلی بات جس کا اظہار قائم علیہ السلام کریں گے و عمار الساباطی: میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے عرض کیا: میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں پھر تو ہمیں اصحاب قائم علیہ السلام سے ہونے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ وہ حق کا اظہار فرمائیں گے حق کو ظاہر کریں گے، غلبہ لیں گے، جب کہ آج ہم آپ کی امامت میںہیں آپ کی اطاعت میں ہے تو دولت حق اور دولت عدل میں رہنے والوں سے ہم افضل ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: سبحان اللہ! کیا تم اس بات کوپسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ حق اور عدل کو سارے شہروں میں ظاہر کرے اورسب کا کلمہ ایک کر دے، سب کی بات ایک ہو جائے اور اللہ تعالیٰ مختلف دلوں کو آپس میں جوڑ دے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود (خداکی جرائم پر طے شدہ سزائیں)کانفاذ ہو، اللہ تعالیٰ حق کو اہل حق کی طرف پلٹا دے پس اس طرح حق ظاہر ہو جائے اور غالب آجائے کہ کسی ایک کے ڈر سے حق سے کوئی چیزمخفی نہ رہے آگاہ رہواے عمار! خدا کی قسم! تم میں جو بھی اس حالت میں مرے گاجس پر اس وقت تم ہوتووہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بدر اور اُحد کے بہت سارے شہداءسے افضل ہے پس تمہارے لئے یہ بشارت ہو۔(بحارالانوار ج۲۵ص۴۷۳باب ۷۲حدیث ۹۶۱)
و اس کا عدل ، میری جان اس پر قربان! انجیل میں موجود ہے....بلکہ وہ مساکین اور بیچاروں کے لئے عدل کا نفاذ کرے گا زمین کے بدبختوں کے لئے انصاف کو لائے گا اپنے منہ کی چھڑی سے مخالف کومارے گا اپنے ہونٹوں کی ایک پھنکار سے منافق کو مارے گا پس بھیڑیا میڈھے کے ساتھ رہے گا اور چیتا بچھڑے کے ساتھ رہے گا....ہر ایک پہاڑ میں قدسی( )موجود ہے کیونکہ زمین رب کی معرفت سے بھری پڑی ہے۔(اشعیاءج۱۱ص۴۰۸)
یہ ایسی روایات ہیں جن میں تامل اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۔ آسمانوں میں رہنے والے اور زمین پر آباد سب اس سے راضی ہوں گے۔
۲۔ زمین کو جور سے طاہر کر دے گا اور ہر ظلم سے پاک کر دے گا۔
۳۔ لوگوں کے گھروں میں عدل کو داخل کر دے گا جس طرح گرمی اورسردی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتی ہے۔
۴۔ کوئی بھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے گا۔
۵۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک بات کو ایک کردے گا۔ توحید کلمہ ہوگا مختلف دلوں کو جوڑ دے گا اللہ کی زمین میں نافرمانی نہ ہو گی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کر دیا جائے گا۔
آسمانوں میں رہنے والوں اور زمین کے ساکنین کاحضرت امام مہدیعلیہ السلام سے راضی ہونا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کا لطف و کرم
امام علیہ السلام نے جو بات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حق میں بیان فرمائی ہے کہ آسمانوں اور زمین والے سب حضرت امام مہدی علیہ السلام پر خوش ہوں گے، زمین میں بسنے والوں کا راضی ہونا تو سمجھ میں آتا ہے کہ جب عدل مطلق کا تقاضا ہوگا تو ولی امر(حاکم وقت) سے زمین میں بسنے والے راضی ہوں گے، عورت ،مرد، چھوٹے، بڑے، امیر، غریب،بیمار، صحت مند،انسان،حیوان سب راضی ہوں گے ۔
کیونکہ حدیث میں ہے زمین میں بسنے والوں کے بارے میں ہے کہ جو حیوان اور انسان دونوں کو شامل ہے ۔
حیوانات میں عدالت کے بارے روایات بیان ہو چکی ہیں۔اس کی تفاصیل اور جزئیات اس کتاب کے دائرہ سے باہر ہیں۔
جی ہاں! عوام کی رضایت کے عنوان سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ ان عمومی مہربانیوں اور وسیع پیمانے پر عادلانہ اقدامات کا نتیجہ ہوگا جو حضرت امام زمانہ(عج) کی طرف سے انجام پائیں گے کیونکہ عوام کو راضی کر لینا اور ہر انسان کا خوش ہو جانا یہ ایک ایساہدف ہے جس کا حاصل کرنا بہت ہی مشکل کام ہے بس وہ کون سا اسلوب اور طریقہ ہوگاعدل کے نفاذ میں جس کی وجہ سے جب امام علیہ السلام ایک سوکن کے حق میں اور دوسری کے خلاف فیصلہ دیں تو بھی دونوں اس فیصلہ کی وجہ سے امام سے راضی ہوں گی۔
البتہ آسمان والوں کا راضی ہونا تو یہ امر واضح نہیں ہے کہ ان ساکنین سے مراد فرشتے ہیں کہ فرشتے آپ پر راضی اور خوش ہوں گے آپ کے عدل کو لوگوں پر نافذ ہوتا دیکھ کر اور فرشتے لوگوں کی معصیات اور گناہوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں پہنچائیں گے یہ ان کے لئے ایک طرح کی رضایت اور خوشی کی بات ہے یا اس سے مراد جنات ہیں اور آسمان سے مراد فضا کی ہے کہ امام علیہ السلام ان کے درمیان عدل کا قانون نافذ کریں گے جس طرح زمین میں بسنے والے انسانوں اور حیوانات پرعدل کا قانون جاری کریں گے اس اقدام سے جنات آپ سے راضی ہوں گے ۔
جی ہاں! اس میں تو شک نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کا عدل عالم جنات کو بھی شامل ہوگا یا تو اس لحاظ سے کہ یہ مخلوق زمین میں بسنے والوں سے ہے اور یا آسمان میں رہتی ہے۔
یا آسمان میں رہنے والوں سے مراد زمین کے علاوہ دوسرے کرات میں رہنے والی مخلوقات ہے چاہے وہ انسان ہوں یا کوئی اور مخلوق ہم ان کے بارے نہیں جانتے وہ فضا میں رہنے والے ہیں یا دوسرے کرات میں رہنے والے ہیں، حضرت امام مہدیعلیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو اس حقیقت کو اپنے علم، اپنی قدرت سے ان سب کی حقیقت سے پردہ اٹھائیں گے۔
یا اس سے مراد سارے معانی مراد ہیں فرشتے، جنات اور ہر دوسری مخلوق جو آسمانوں میں (چاہے فضاءمراد لیں یا دوسرے کرات مراد لئے جائیں)رہنے والے ہیں وہ امام علیہ السلام کے فیصلوں پر آپ علیہ السلام کے عدل کے نفاذ پر راضی ہوں گے۔
اس حوالے سے مختلف وجوہات اور احتمالات ہیں یہ سارے درست ہیں یا کچھ ان میں درست ہیں، باقی خیال ہے تو اس بارے میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ کتاب اس حوالے سے تحریربھی نہیں کی گئی کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے جتنے بھی سوالات سامنے آئیں ان کا جواب دے دیا جائے بلکہ ان مسائل میں بہت تھوڑے مسائل کا جواب بھی اس کتاب کے دائرہ میں نہیں آتا کیونکہ یہ معاملہ بہت ہی دقت طلب ہے اور اللہ تعالیٰ ہی حقیقت حال سے واقف ہے۔
زمین کی تطہیر اور تقدیس کا مسئلہ
امام علیہ السلام:” اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے زمین کو ہر جور سے طاہر کر دے گا اور ہر ظلم سے پاک و مقدس بنا دے گا“۔
اس حدیث میں زمین کی تطہیر کی بات کی گئی ہے۔ جب جور زمین سے اٹھ جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتوں سے، ادارہ جات سے، دفاتر سے ظالموں کاکردار ختم ہو جائے گا۔ تطہیر کی تعبیر سے اس کی نوعیت یا کیفیت کو بیان کیا جاتا ہے کہ جور کو زائل کر کے اس کی جگہ حق اور عدل کو رکھ دیا جائے گا تو یہ طاہر نقی ہوگا جس طرح کوئی شخص جب کسی کپڑے کو طاہر کرتا ہے تو نجاست کو ذائل کرتا ہے اور اس جگہ پر ایک دفعہ پانی بہا دیتا ہے، اس طرح وہ پاک ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات نجاست کا اثر یا اس کا رنگ باقی رہ جاتا ہے لیکن اگر اس جگہ پر ایک دفعہ اور پانی بہا دیا جائے تو صفائی یا طہارت کی شکل میں اضافہ ہو جائے گا یہ درست ہے کہ نجاست کے زائل کر دینے کے بعد ایک پانی ڈالنے سے پاکیزگی اور طہارت حاصل ہو گئی لیکن ایک دفعہ سے زیادہ پانی ڈالنے سے اس کی طہارت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے یہاں بھی اسی طرح ہے۔
قرآن مجید میں آیا ہے”حیض کی حالت میں عورت سے مقاربت مت کرو یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے “۔
پھر آگے فرمایا”اگر وہ طاہر ہوجائیں یعنی غسل کر لیں اور غسل کرلینے کے بعد ان کے ساتھ مقاربت کرو جیسا کہ اللہ کا حکم ہے” تمہارے لئے“اللہ تعالیٰ تو،توبہ کرنے والوں اور طہارت کے ساتھ ہوجانے والوں سے محبت کرتا ہے“۔(سورہ البقرہ آیت ۲۲۲)
غسل کرلینا، طہارت اورپاکیزگی میں اضافہ پر دلالت کرتا ہے یہ صحیح ہے کہ حیض کے خاتمہ کے بعد جماع کرنا جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ غسل کے بعد جماع کیا جائے۔
ہمارے اس مورد اور جگہ پر صحیح ہے کہ جور کا زائل کر دینا کافی ہے،لیکن جَور کے آثار اور نشانات کو مٹادینا اور جَور کی پلیدگی سے پوری زمین کو پاک کر دینا تو یہ چیز ہمارے مولا مہدی منتظرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی نورانی شعاﺅں سے حاصل ہوگی۔
یہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ”زمین کو ہر جَورسے“تو اس بارے ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ آپ کا عدل تمام ادارہ جات، سارے شعبہ ہائے حیات اور اس کے تمام ٹکڑوں کو شامل ہوگا، اس کی مزید تفصیل بعد میں آئے گی۔
امام علیہ السلام کا یہ فرمان کہ ”ویقد سبھا من ظالم“کہ ہر الم کے خاتمہ کے ذریعہ زمین کو مقدس بنا دیں گے یہ بھی ظالم کے ازالہ کے بعد مزیدعنایت اور مہربانی ہے، ظالم کے ہٹادینے اور اس کے ظلم کے خاتمہ سے ایک مرحلہ پوراہوگا۔
لیکن اس جگہ کو مقدس بنا دینا ، اس عہدہ کا تقدس، اس ادارہ کا تقدس ، اس شعبہ کا تقدس، زمین کے اس ٹکڑے اور حصہ کا تقدس،جسے ظلم اور ظالم سے پاک کیا گیا ہے تو یہ بات زمین پر حجة اللہ کے انوار سے ہوگا اور یہ آپ کی خصوصی عنایات اور مہربانیوں سے ہوگا
عدل اور قسط میں فرق
کمال الدین میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بتحقیق میرے خلفائ، میرے اوصیاءاور مخلوق پر حجج اللہ میرے بعد بارہ ہیں، ان میں پہلے میرے بھائی اور آخری میرے بیٹے ہیں۔
سوال: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے بھائی کون ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
سوال: آپ کے بیٹے کون ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:مہدی علیہ السلام ہیں جو زمین کو قسط اور عدل سے بھر دیں گے جس طرح جوراور ظلم سے بھر چکی ہوگی۔(کمال الدین ج۱ص۰۸۲باب ۴۲ذیل ۸۲)
روایات میں لفظ قسط اورلفظ عدل دونوں کا اکٹھا استعمال ہوا ہے سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان کیا فرق ہے ۔
جواب دیا گیا ہے کہ استعمال کے اعتبار سے عدل کا دائرہ قسط سے زیادہ وسیع ہے قسط استعمال ہوتا ہے دوسرے کے حق کو پورا دے دینا جیسے گواہی دینے کے موقع پر، فیصلہ دیتے وقت وزن اور پیمائش کے وقت، عدل اس صورت میں استعمال ہوتا ہے کہ دوسرے کے حق کو پورا پورا دے دینا اور اس کے علاوہ بھی استعمال ہوتاہے۔
عدل حق کے موافق ہے مطلقاًجب کہ قسط حق کے موافق ہے مخلوقات کے حوالے سے، اس کی تصدیق کے لئے عدل اور قسط کے حوالے سے جو آیات ہیں ان کا مطالعہ کریں جَور، قسط کی ضد ہے، جب کہ ظلم، عدل کی ضد ہے،؟ظلم مطلقاً حق سے تجاوز کرنا ہے، جب کہ جَور دوسرے کے حق کو دبانا ہے یعنی جس کا تعلق دوسرے سے ہے اس دوسرے کے حق کو دبالیناجَورکہلاتاہے۔
اس ضمن میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ یہ بیان کرتی ہیں کہ آخری زمانے کے افتراق،حکمران،قضاوت اپنی حکومت میں لوگوں کے درمیان جَور کو رواج دیں گے یعنی لوگوں کے جو حقوق بنتے ہیں وہ انہیں نہیں ملیں گے۔
اسی طرح وہ ظالم بھی ہوں گے یعنی اپنے اوپر بھی ظلم کریں گے اور دوسروں پر بھی ظلم کریں گے جب حضرت قائم علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو آپ لوگوں کے درمیان سے جَور کا خاتمہ کر دیں گے اور جَور کی جگہ عدل کی حکمرانی قائم کر دیں گے۔
ظالموں کی بنیاد بھی اکھیڑ دیں گے اور ظالموں کے اثرات کا بھی خاتمہ کر دیں گے اس طرح کہ آپ کا عدل پورے عالم پر پھیل جائے گا کوئی بھی کسی دوسرے پر جَور نہیں کرے گا اسی طرح کوئی بھی ظلم نہ کرے گا نہ اپنے ساتھ زیادتی اور ظلم کا رویہ اپنائے گا اور نہ ہی دوسروں پر ظلم و زیادتی کرے گا، ہر ایک کو اس کا حق ملے گا اور اپنے حقوق بھی اس کے محفوظ ہوں گے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: آگاہ رہو خدا کی قسم!حضرت امام مہدی علیہ السلام کا عدل ضروربالضرور ان کے گھروں میں اس طرح داخل ہوگا جس طرح گرمی اور سردی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتی ہے(بحارالانوار ج۲۵ص۲۶۳حدیث ۱۳۸ غیبت نعمانی)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عدل کی وسعت
امام علیہ السلام کا فرمان:”لیدخلف علیہم عدلہ جوف بیوتہم کما یدخل الحروالقر“
حضرت امام مہدی علیہ السلام ان پر ان کے گھروں کے اندر عدل کو ضروربالضرور داخل کر دیں گے، جس طرح گھروںمیں سردی اور گرمی داخل ہوتی ہے۔
الحر:۔وہ حرارت اور تپش ہے جو گھروں کے اندر داخل ہوتی ہے جس کے لئے دروازہ یا کھڑکی یاسوراخ کی ضرورت ہوتی ہے۔
القر:۔حرارت اور گرمی کے مقابل میں ہے اس سے مار ڈالنے والی سخت سردی ہے اور یہ بھی گھروں میں گرمی کی طرح داخل ہوتی ہے۔
یہ روایت بہت ہی عمدہ ہے یہ ہمارے لئے امام مہدی علیہ السلام کے عدل کی حدود اور دائرہ کو بیان کر رہی ہے امام علیہ السلام نے اس حدیث میں امام علیہ السلام کے عدل کی شدت اور اس کی وسعت کو بیان کیا ہے یہ عدل گھروں کے اندر پہنچ جائے گابغیر اس کے کہ کوئی اسے گھروں میں داخل کرنے والا ہو، حدیث میں لفظ ”جوف البیوت“ گھروں کے اندر، اس سے اشارہ ہے کہ جہاں انتہائی خفیہ اور رازداری کا سسٹم موجود ہوگا جو خود اس گھرانے کے اندر قائم ہوگاوہاں بھی آپ کا عدل موجود ہوگا۔
یہ ہمارے لئے ایک بڑے قانون کو کھول رہا ہے جو عدل سے مربوط ہے اور اس قانون نے گھرانوں کے اندر موجود ہونا ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کا قانون ایساہوگا شوہر اور بیوی کے ذاتی معاملات کوبھی شامل ہوگا نہ شوہر اپنی بیوی پر ظلم کرے گا اور نہ ہی بیوی اپنے شوہر سے زیادتی کرے گی بیوی اپنے شوہر کو ناراض نہیں کرے گی، اسے تنگ نہیں کرے گی اسے خوش رکھے گی اسی طرح شوہر اپنی بیوی کوخوش رکھے گا اس کی جائز ضروریات کو پورا کرے گا بیوی شوہرسے خوش ہوگی،ناراض نہ ہو گی کوئی زبردستی نہیں کرے گاوہ دونوں خودبخود عدل کے قانون پر عمل کریں گے جس طرح گرمی اور سردی کے گھروں کے اندر آنے میں کسی قسم کے اضافی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا ہے:”کمایدخل الحر والقز“جس طرح گرمی اور سردی داخل ہو جاتی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ کسی سے اجازت لئے بغیر عدل ہر گھر میں پہنچ جائے گا اور یہ احتمال بھی ہے کہ گھروالے نہ بھی چاہیں گے تو قانونِ عدل ان کے پاس پہنچ جائے گا اگر اسے ٹھکرانا چاہیں گے تب بھی عدل ان کے پاس ہوگا، اس سے وہ فرار نہیں کر سکتے جس طرح سردی اور گرمی کی گھروں میں آمد سے فرار نہیں کیاجا سکتا ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ گھر میں عدل داخل ہوگا جس کا علم گھر والوں کو ہوگا لیکن وہ اس عدل کی آمد کو روک نہ سکیں گے جس طرح سردی اور گرمی کو کوئی روک نہیں سکتے جب موسم سرما میں سردی اور موسم گرما میں گرمی آتی ہے تو اس کا ہمیں علم ہوتا ہے ہم اسے روک نہیں سکتے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ عدل گھروں میں پہنچے گا، گھر والے پورے شوق اور محبت سے اسے لے لیں گے جس طرح موسم گرما میں سردی کو شوق سے لیا جاتا ہے اور موسم سرما میں گرمی کو شوق سے حاصل کیا جاتاہے۔
تینوں معانی میں فرق موجود ہے پہلے اور دوسرے معنی میں سختی کا عنوان موجود ہے لیکن تیسری صورت میں عدل خودپہنچ جائے گا اس کا گھر والوں کوعلم بھی ہوگا اور اس سے واقفیت بھی موجود ہوگی اور علم کا تقاضا بیداری اور آگہی ہے تاکہ گھروں میں اس کی روشنی میں عدل وارد ہو۔
جب کہ چوتھے احتمال میں عدل داخل ہوگا، اس کی انہیں چاہت ہوگی، اس کے لئے علم کی ضرورت ہے اور علم کے ساتھ رضایت اور پسندیدگی کی بھی ضرورت ہے ۔
امام علیہ السلام کا قول:”لایظلم احد احداً“کوئی ایک کسی ایک پر ظلم نہ کرے گا۔
اس سے محسوس ہوتا ہے کہ قاضیوں اور ججوں کی ضرورت نہ رہے گی اور نہ ہی عدالتوں کے قیام کی ضرورت ہو گی اور عدالتوں کے قیام کے سارے لوازمات کی ضرورت نہ رہے گی یہ بات قابل غور، قابل دقت ہے۔
دعائے ندبہ میں ہے ”این المنتظر لاقامة الدمت والعوج....“کہاں ہیں وہ جن کی انتظار ہو رہی ہے کہ ہر ٹیڑھے پن اور انحراف کو صحیح کر دے۔این حاصد فروع الغ ¸ الشقاق ....کہاں ہے وہ جو زیادتی وافتراق کو آ کر جڑ سے اکھیڑ دے گا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں ٹیڑھا پن، انحراف بالکل نہیں ہوگا بلکہ سب لوگ صراط مستقیم پر ہوں گے۔
امام علیہ السلام کا فرمان:” یجمع اللہ الکلمة ویو ¿لف بین قلوب مختلفة ولایعصی اللہ فی ارضہ وتمام حدود فی صفقہ“ کلمہ میں توحید سے مراد یہ ہے پورا عالم متحد ہوگا ایک بات پر اور وہ کلمہ یہ ہوگا ”اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدان محمد ارسول اللہ“جس کے لئے انبیاءعلیہ السلام اور آئمہ اطہار علیہم السلام نے مسلسل جدوجہد کی اور علماءنے توحید کلمہ کے لئے کوششیں کیںہر ایک حکومت اپنے اپنے زمانہ میں ایسا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے یا ایک بستی میں ایسا ہو یا ایک خاندان میں کسی جھگڑے کے بغیرایسا ہوجائے،لیکن کوئی ایسا نہیں کر سکا یہ ہمارے امام مہدی علیہ السلام کی خصوصیات سے ہے دعائے ندبہ میں ہے:
”این جامع الکلم“کلمہ کو ایک کر دینے والے کہاں ہیں؟
آپ علیہ السلام کی زیارت میں آیا ہے ”السلام علیک یا جامع کلمہ علی التقویٰ“اے کلمہ کو تقویٰ سب پر اکٹھا کر دینے والے کہاں ہیں؟ آپ تقویٰ کی بنیاد پر کلمہ ایک کر دیں گے۔
مختلف دلوں کو ایک کر دیں گے سب دلوں میں محبت ہو گی ، مختلف دل جن میں محبت تھی، بغض تھا، ایک دوسرے سے نفرتیں تھیں، پیار و محبتوں میںمختلف تھے، رائے میں مختلف تھے چاہتیں مختلف تھیں یہ سب ایک ہوجائیں گے۔
نور امام مہدی علیہ السلام ان کے درمیان اتحاد کوپکا کر دیں گے ان میں تالیف ہو جائے گی پیار، محبت، انس، مہربانی،شفقت میں سب ایک ہو جائیں گے پیارہی پیار ہوگاوحدت افکار ہوگی۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام: اگر ہمارے قائم علیہ السلام نے قیام کیا تو آسمان اپنے قطرات برسا دے گا اور زمین اپنی نباتات کو نکال دے گی اور بندگان کے دلوں سے نفرت جاتی رہے گی۔(النجم الثاقب ج۱ص۰۰۳)
آپ کا یہ بیان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مناسبت رکھتا ہے”وَ نَزَع نَا مَافِی صُدُو رِہِم مِن غِلٍّ اِخ وَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِی نَ“(حجر آیت ۷۴)
اور ہم نے ان کے دلوں سے نفرت اور گرہیں کھینچ ڈالیں وہ آمنے سامنے پلنگوں پر بھائی بھائی بن بیٹھے۔
لو ¿لف کا معنی ہے کہ ان کے دلوں میں محبت ڈال دیں گے اور ان کے دلوں سے نفرت ختم کر دیں گے۔ دوریاں ختم وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں گے یہ عدل کا اعلیٰ درجہ ہے عدل کی شدت اور سب تک عدل کا پہنچنا اس بات کا سبب ہو گا کہ تمام نفرتیں ختم ہو جائیں بغض اور کینہ کی زنجیریں ٹوٹ جائیں۔
دعائے ندبہ میں ہے ”این حاصد فروع الغی والشقاق، این طامس اثار الزیغ والاھوائ“ ہمارے امام مہدی علیہ السلام کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ کہاں ہیں جوشقاق و افتراق اور نفرت کی شاخوں کو کاٹ کر رکھ دیں گے اور تمام خواہشات اور انحرافات کے آثار کو مٹا دیںگے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام تمام اخلاقی رذائل اور دلوں کے کینوں کو جڑوں سے اکھیڑ پھینکےں گے۔
امام علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو گی اور اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کیا جائے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے کہ ظہور امام مہدی علیہ السلام میں سارے لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے اللہ تعالیٰ کی معصیت نہ کریں گے، عدل ہوگا جور نہ ہو گا کسی دوسرے کے حق کو نہ مارا جائے گا،ہر ایک اللہ تعالیٰ کی حدود کی پابندی کرے گا۔اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرے گا تاکہ دولت حق میں عدل مطلق نافذ ہو جائے۔
لوگ اس حد تک پہنچ جائیںگے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریںگے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے بارے بہت زیادہ سوالات ہیں بلکہ اس بات کا تو تصور ہی بہت سخت لگتاہے کہ سب کچھ یہ کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ جمعہ کی ظہر میں سارے لوگ نمازظہر میں ہوں گے وہ بھی امام زمان علیہ السلام کی امامت میںمعلوم ہے کہ ایسی نمازکا کتنا زیادہ ثواب ہوگا؟
اس زمانہ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ امام زمانہ(عج)کی امامت میں نماز ادا کر رہا ہوگا کیونکہ عصرِظہور میں نمازجمعہ واجب عینی ہو گی اس کا وقت بھی محدود ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوگی خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جو اس زمانہ کو پائیں گے اس سے انسان ان روایات کے معنی کو سمجھ سکتا ہے جن میں ہے کہ زمین اپنی تمام برکات اور خیرات کوباہر نکال دے گی اور آسمان اپنی ساری برکات اتار دے گا ایسا کیوں نہ ہوگا؟اس زمانہ میں ہر انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہوگا اور ان سب کے دل ایک ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ان نعمات سے بہرہ ورہونے کی توفیق دے اورہم بھی اس مبارک زمانہ میں موجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ صاحب الزمان علیہ السلام کے زمانہ کو جلد لائے۔
عدل کو کیسے پھیلایا جائے گا
امام علیہ السلام کے عدل کے بارے جو روایات اور بحثیں گزر چکی ہیں چاہے وہ بات کہ جو عدل آپ کی مبارک حکومت اور مملکت میں رائج ہوگا اور اس کے تمام سیاسی، اقتصادی، عسکری شعبہ جات میںجاری ہوگا یا گھروں کے اندر تک عدل پہنچ جائے گا، خاندانوںکے روابط اور تعلقات میں عدل موجود ہوگا دلوں سے نفرتوں کاخاتمہ ہو جائے گابغض اور کینے ختم ہو جائیں گے یہ سب کچھ یقینی ہوگا تو اس جگہ ایک سوال پیش ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام اس عدلِ مطلق کو کیسے محقق کریں گے اورآپ کون سا طریقہ اپنائیں گے؟جس کی وجہ سے یہ سب کچھ موجود ہوپائے گا۔
اس امر کے بارے میں بیان جو ہے اس کا پانچویں فصل کے ساتھ ربط اور تعلق ہے جس میں امام مہدی علیہ السلام کی دعوت کے طریقہ کار کو بیان کیا جائے گا۔
البتہ عدل کی اقسام جو اوپر بیان ہوئی ہیں اور ان کے حوالے سے آپ کی دعوت کے طریقہ کے نتیجہ میںجو اثرات سامنے آئیں گے ان کے درمیان فرق کوپیش کیا جا سکتا ہے ۔جو عدل حکومتی اداروں سے مربوط ہے تو اس کے لئے ایک قانون عام وضع کیا جائے گا جو ایک سلطنت عظمیٰ کے لئے ہو گا یا اسلامی شہروں میں جو قضاة اور ججز تعین کیے جائیں گے ان کے بارے ایک قانون اور ضابطہ ہوگا جس کی وہ پیروی کریں گے اور وہ اس قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے وہ وہی قانون ہوگاجو خداوند نے اتارا ہے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ جب ہم یہ کہیں کہ جھگڑوںاور اختلافات کو حل کرنے کے لئے عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت ہو گی کیونکہ روایات تو اس بات کی طرف بھی اشارے دے رہی ہیں کہ آپ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو گی کوئی ایک بھی کسی دوسرے پر ظلم نہ کرے گا اس لحاظ سے عدالت گاہیں قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو گی اور نہ ہی قضاةکی ضرورت رہے گی لیکن جس عدل نے لوگوںکے گھروں میں پہنچنا ہے، اورخاندانوں کے اندرپہنچنا ہے، جس طرح گرمی اور سردی پہنچتی ہے تو اس کے لئے ہم نے احتمالات پہلے بیان کر دیئے ہیں۔البتہ وہ عدل جس کی وجہ سے نفرتیں ختم ہوں گی سب لوگ ایک جان ہو جائیں گے سب کے دلوں سے کینے ختم ہوجائیںگے، سب متحد اور ایک سوچ والے ہوں گے یہ خودامامعلیہ السلام کی ذات کی برکات سے ہوگا جوبندگان خدا پروارد ہوںگی ان میں سے ایک برکت اس صورت میں ظاہر ہو گی۔ جب عدل مطلق محقق ہو گاظلم ختم ہو گا تو اس کے لئے کسی معین اسلوب اور طریقہ کی ضرورت نہےں بلکہ یہ خبر تو ہمارے مولا صاحب الزمان علیہ السلام کی رحمات واسعہ سے ایک چھوٹی سی رحیمانہ جھلک سے ہوگا اور آپ کی رحمت کا اس طرح اظہار ہوگا کہ خود آپ کی ذات اللہ تعالیٰ کی رحمت مطلقہ کا مظہرہے یہ سارے اشارے اسی رحمت کے حوالے سے ہیں۔
|