حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

دوسرا ہدف:۔ دنیاکی سب سے بڑی الٰہی حکومت کا قیام
ہمارے امام مہدی علیہ السلام کے اسٹرٹیجک اہداف میں سے اہم ہدف وسیع ترین اور عظیم ترین(سپرپاورز)حکومت تشکیل دینا ہے جو ساتوں براعظموں کو شامل ہو گی اور واحد حکومت ہو گی جو پوری روئے زمین پر ہوگی، پورے جہان پر ایک آرڈر ہوگا اورایک نظام ہوگا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا امتیاز
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک ایسی الٰہی یا اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی نہ امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانہ میں اور نہ ہی غیبت کے زمانہ میں قائم ہونے والی اسلامی حکومتوں میں اس کی مثال ہو گی تمام حکومتیں محدود وقت کے لئے قائم ہوئیں اور جغرافیائی اعتبار سے محدود جگہوں کے لئے رہیں عالمی حیثیت کسی ایک کو حاصل نہیں ہے
نبی سلیمان علیہ السلام کی حکومت اپنی تمام تر وسعت اور طاقت کے باوجود بلاد و شام اور جزیرة العرب اور جو علاقہ ان کے ساتھ متصل تھااس پر قائم تھی(مثلاً یمن میں ان کی حکومت نہ تھی وہاں پر بلقیس نامی ایک عورت حکومت کر رہی تھی جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہواہے)
نبی یوسف علیہ السلام(اگر یہ کہاجائے کہ انہوں نے ایک حکومت قائم کی)حکومت بھی مصر اور اس کے اطراف پر قائم تھی۔
نبی اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عظمت اور وسعت کے باوجودآپکی حکومت ایک براعظم سے زیادہ پر قائم نہ تھی اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت اپنی حدود سے آگے نہ بڑھ سکی بلکہ کچھ علاقے معاویہ کے زیرتسلط تھے۔
جی ہاں!ذوالقرنین مشرق و مغرب کا مالک بنااس نے مشرق اور مغرب میں عدل کا نفاذ اور ان کی حکومت بارے یہ بات ذہن میں رہے کہ اس وقت انسانوںکی آبادی بہت کم تھی اورآبادی والے علاقے بہت تھوڑے تھے اورانسانی زندگی کے ابتدائی ایام تھے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تحریک گزشتہ تمام انبیاءنے جوپروگرام شروع کیا اسے پورا کرنے والی ہو گی جو انہوں نے خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر ہو گی اس عنوان سے دعائے ندبہ میں آیا ہے۔
انبیاءعلیہ السلام اوراولیاءعلیہ السلام کے خون ناحق کا بدلہ لینے والا کہاں ہیں؟ اور کربلا کے مقتولین کے خون کا انتقام لینے والے کہاں ہیں؟

حکومت بنانے اور عدل قائم کرنے میں فرق
ہمارے امام علیہ السلام۔ ان پر ہماری جانیں قربان جائیں۔
زمین کے تمام حصوں پر آپ کی حکومت قائم ہوگی اورآپ کا حکومت بناناآپ کی پہلی ترجیح ہوگی جو عدالت کے عملی نفاذ سے پہلے ہوگا۔جیسا کہ تیسرے ہدف میں بیان ہوگاحکومت کا قیام اور عدل کا نفاذ ان دونوںمیں فرق ہے ۔عدل سے مراد عدل مطلق ہے ہر قسم کے ظلم و جور اور زیادتی کی نفی ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسلامی حکومت موجود تھی لیکن اس میں عدل مطلق نہ تھا۔ کیونکہ اس کے لئے ابھی ماحول آمادہ نہ ہوا تھا اگرچہ جن جن علاقوں میں آپ کی حکمرانی ہوتی گئی عدالت کا نفاذ ہوتا گیا لیکن ایسا عدل جو ہر سطح پر ہو ہر صنف اور ہر جنس ونوع کے لئے ہو، آپ کے زمانہ میںمثال کے طور پر بھیڑ کا بچہ بھیڑ یے کے پہلو میں نہ سوتا تھا اسی طرح ہر قسم کا ظلم و جور ختم نہ ہوا تھا ہم کس طرح کہہ سکتے ہیںجبکہ خود ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم اور زیادتی کی گئی اسی طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کا معاملہ ہے آپ کا عدالت کے نفاذ میں سخت ہونا آپ کی شہادت کا سبب بنا بلکہ آپ علیہ السلام کی حکومت میں تویہ بات اور زیادہ واضح ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کی حکومت میں عدلیہ کا سربراہ قاضی شریح جیسا شخص تھا جس کی حالت معلوم ہے اوراس کے غیر اسلامی اور غیرمنصفانہ فیصلہ جات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ عدل کا قیام حکومت کا محتاج ہے حکومت کے ذریعہ عدل نافذ کیا جائے لیکن ایسابھی ہوسکتاہے کہ اسلامی حکومت قائم ہولیکن اس میں عدل مطلق نہ ہو لیکن ایسا کسی معصوم علیہ السلام کی کوتاہی سے نہیں بلکہ حالات اور ماحول کا مناسب نہ ہونااور حالات کا ساتھ نہ دینا۔
لیکن حضرت امام مہدی علیہ السام کا زمانہ کہ جنہیں مطلق عدل کے قیام کے لئے جنا گیا ہے تو ان کا معاملہ پچھلے تمام ادوار سے مختلف ہوگا۔
جی ہاں! آپ علیہ السلامحکومت پہلے بنائیں گے اورعدل بعد میں نافذکریں گے اس لئے ہم نے دوسرے ہدف کو تیسرے ہدف سے الگ کر کے بیان کیا ہے۔
عدل کے بعدمیںنافذہونے اورہر قسمی ظلم کا خاتمہ جس کے معنی بعدمیں بیان ہوں گے کہ قوانین کے لحاظ سے اسلام کے عادلانہ قانون کوفقط رائج کرنا نہیں بلکہ شوہر اور بیوی کے درمیان جلوت اور خلوت میںبیٹے اورباپ کے درمیان، جلوت اور خلوت میں ہمسایہ اور ہمسایہ کے درمیان بھیڑیے اور بھیڑ کے درمیان، جیسا کہ روایات میں ہے عدل قائم کرناہے یہ ایک ایسا امر ہے جس کی کیفیت سے ہم ناواقف ہیں ان کے عملی ہونے کے لئے امام علیہ السلام کی خصوصی عنایت کی ضرورت ہو گی اس کے لئے تمہید ہو گی بیداری دی جائے گی آگہی کا مرحلہ ہوگا تعلیم دی جائے گی عالمی قوانین کے نفاذ سے مختلف رویہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں قانون کا اعلان ہوتا ہے اور پھر اس پر پابندی کرنے کااعلان کر دیا جاتا ہے کسی کو قانون سمجھ آئے یا نہ آئے۔حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں ایسا نہیں ہوگا سب کو پہلے آگہی دی جائے گی پھراس کا نفاذہوگا۔
جی ہاں! دولت عظمیٰ کا قیام کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے پلاننگ ہوگی، تیاری ہوگی، جنگیں ہوں گی ، قربانیاں دی جائیں گی، اس راستہ میں شہداءہوںگے۔

نتیجہ
یہ اتنی بڑی عالمی حکومت آپ کے ظہور کے اعلان کے ساتھ ہی قائم نہیں ہو جائے گی اس حکومت کے قیام میں وقت لگے گا۔البتہ اس عالمی بڑی حکومت کے قیام کی کیفیت کیا ہو گی تو اس کا تعلق امام علیہ السلام کی تحریک اور اسلوب اور رویہ سے ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اس بارے تفصیلی گفتگو پانچویں فصل میں ہوگی، کیونکہ اس بارے بہت سارے احتمالات موجودہیں، موعظہ ہوگا، کلام طیب ہو گی، علمی مذاکرے ہوں گے، جدیدترین ہتھیاروں سے جنگ ہوگی،غیبی معجزات ہوں گے یہ سارے امور ہوں گے وعظ و نصیحت بھی ہوگا، علمی انداز بھی اپنایا جائے گا، مخالفین کے ساتھ جنگ بھی ہوگی، اخلاق حسنہ بھی ہوگا، ہمدردی اور محبت کا اسلوب بھی ہوگا، رغبت کے ساتھ ساتھ دھمکی اور ڈرانے کا عمل بھی ہوگا، بہرحال اس بارے بہت سارے احتمالات ہی دیئے جا سکتے ہیں۔

امام علیہ السلام کی حکومت کے اراکین اور آپ علیہ السلام کی حکومت کے وسائل
حضرت امام ابوجعفر باقر علیہ السام : ہماری حکومت تمام حکومتوں میں آخری حکومت ہو گی کوئی بھی گھرانہ ایسا نہ رہے گا مگر یہ کہ وہ ہماری حکومت سے پہلے اپنی اپنی حکومت بنا چکے ہوں گے تاکہ وہ ہماری سیرت کو دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں کہ اگر ہمیں حکومت بنانے کاموقع ملتا تو ہم بھی ایسا ہی کرتے یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”وَال عَاقِبَةُ لِل مُتَّقِی نَ“(سورہ الاعراف آیت ۸۲۱۔ القصص آیت ۳۸)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے بھی باقی حکومتوں کی طرح مختلف ادارہ جات ہوں گے، عدلیہ،مقنہہ، انتظامیہ، محکمہ تعلیم، محکمہ بلدیات، محکمہ پولیس،مختلف کاموں کے وزارت خانے موجود ہوں گے ایک حکومت کے لئے جتنے ادارہ جات کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب موجود ہوں گے۔
اس پر ہماری دلیل وہ مشہور حدیث ہے کہ آپ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی“۔(بحارالانوارج۲۵ص۲۳۳)
زمین میں عدل قائم کرنے سے مراد یہ زمین نہیں جس میں پتھر،ریت،مٹی،درخت، گھاس، پہاڑ، دریا بلکہ اس سے مراد زمین پر بسنے والے افراد ہیں تنہا زمین سے مراد کرہ ارض نہیں بلکہ اس کے رہائشی مراد ہیں پھر جب عدالت کے قیام، ظلم و جور کے خاتمہ کی بات ہے تو اس سے مراد فقط افراد نہیں بلکہ ادارے،تنظیمیں،دفاتر، حکومتیں ہر سطح پر ظلم کا خاتمہ ہوگا اور عدل کا نفاذ ہوگاظلم کے خاتمہ کے بعد عدل کا قانون اس کی جگہ لاگوکریں گے، حق، خیر، امن اور سکون ہوگا تمام طبقات میں ، تمام گروپوں میں، تمام اقوام میں، تمام قبائل میں، تمام ادارہ جات میں، سیاسی،عسکری، انتظامی، عدلیہ، ہر جگہ عدل قائم ہوگا ہر جگہ سے ظلم وجورکا خاتمہ ہوگا، ورزش کے میدانوںمیںانفرادی طور پر، اجتماعی طورپر،چھوٹے سے، بڑے سے، گھر میں، گھر سے باہر، ادارہ کے اندرونی نظام میں اداروں سے باہر ہر جگہ امن قائم ہوگا، ظلم ختم ہوگا۔
حدیث نبوی میں عدل کے نفاذ کا خاص دائرہ بیان نہیں کیا اور نہ ہی ظلم کے خاتمہ کے حوالے سے کسی خاص عنوان کو بیان کیا ہے بلکہ ہر جگہ سے ہر قسم کے ظلم کے خاتمہ کی بات ہے اور اس کے مقابلے میں عدل کانفاذ ہے جہاں بھی ظلم ہوگا، اس کا خاتمہ ہوگا اور اس جگہ عدل ہوگا، جیسے جوا کھیلنا، سٹے بازی، اسراف، فضول خرچی ،نجی زندگی میںہو، اداروں کی سطح پرہو،حکومتی معاملات میں ہو۔اس کا خاتمہ ہوگا اور اس کی جگہ عدل کا نفاذ ہوگا جس جگہ ظلم ہو گا اس میں اس کی جگہ عدل نہیں آجائے گا بلکہ ظلم کو مٹا دیا جائے گا ظلم کے آثار اور نشانات کوختم کر دیئے جائیں گے اس کی جگہ عدل آجائے گاجیسے جوا ¿،کھیلانا ظلم ہے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا نہ یہ کہ اس میں عدل نافذ ہوگا۔
امام علیہ السلام اپنی حکومت میں قانون ساز اسمبلی کا خاتمہ کر دیں گے کیونکہ قانون سازی کا اختیارآپ کے اپنے پاس ہوگا آپ کا ہر بیان قانون کا درجہ رکھے گا کسی اور کو کسی بھی حوالے سے نہ قانون بنانے کا حق ہوگااور نہ ہی قانون کی تشتریح کا حق ہوگا یہ سب کچھ حضرت امام مہدی علیہ السلام خود بیان کریں گے یہ اتھارٹی ان کے اپنے پاس ہوگی۔
جی ہاں!بعض عناوین بدل جائیں گے وزیراعظم کا عنوان، صدرکاعنوان، کمانڈر انچیف کا عنوان، بادشاہ کا عنوان، امیر کاعنوان، گورنر کا عنوان، ان کی جگہ نئے عناوین متعارف ہوں گے جیسے وکیل، نمائندہ، نائب وغیرہ۔
جغرافیائی حدود آپ کی حکومت میں ختم ہو جائیں گی کیونکہ آپ علیہ السلام کے زمانہ میں جغرافیائی حدود کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی اسی طرح اسلام کی پارٹی کے مقابل میںجو بھی سیاسی پارٹی ہو گی اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا جیل خانوں پر تالے ڈال دیئے جائیں گے
اس مفروضے پر کہ تمام آبادیاں عصمت کے درجہ پر پہنچ جائیں گی اور کوئی ایک بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے والا نہ رہے گا تو اس صورت میں جیل خانے ختم ہو جائیں گے ہم اس بارے آٹھویں فصل میں بات کریں گے۔

نتیجہ
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے بھی اسی طرح اعمال اور سرگرمیاں ہوں گے جیساکسی اور حکومت میںہوتا ہے مگر وہ امور جن کی آپ کے زمانہ ضرورت نہ رہے گی جیسے قانون ساز اسمبلی، آپ کی حکومت نے ہر قسم کے ظلم وجورکا خاتمہ کرنا ہے اور اس کی جگہ عدل و انصاف کا نفاذ کرناہے۔
اسی بنیاد پر اس حکومت کی تیاری کے مختلف امور بیان کیے گئے ہیں اس بحث کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حکومت کی وسعت کا اندازہ ہو سکے اور پھر اس حوالے سے تیاری کی جائے اور اس بارے خصوصی اہتمام کیا جائے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی وسعت اور دائرہ کار
دعائے عہد میں ہے کہ”اے اللہ!اپنے شہروں کو ان کے وسیلہ سے آباد کر دے اور ان کے ذریعہ سے اپنے بندگان کو حیات تازہ عطاءکر دے“۔
کمال الدین میں شیخ صدوقؒ نے اپنی اسناد سے جابر بن عبداللہ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ سے یہ بات خود سنی کہ آپ نے فرمایا:رسول اللہ:ذوالقرنین عبدصالح(نیک بندہ)تھا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندگان پر حجت(اپنا نمائندہ)قرار دیا تھا اس نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی اور انہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اس کے قرن کو( )کاٹ ڈالا وہ اپنی قوم سے ایک عرصہ کے لئے غائب ہوگیا یہاں تک باتیں ہوئیں کہ یا تو وہ مر گیا ہے یا کسی وادی میں بھٹک کر ہلاک ہوگیاہے؟پھر وہ اپنی قوم میں واپس آیا، تو انہوں نے اسے دوسرے قرن( )کوبھی تلوار سے کاٹ ڈالا اور تمہارے میں ایساموجودہے جو اس کے طریقہ پر چلے گا اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو زمین پرقدرت دے دی اور اس کے لئے ہرچیز سے ایک وسیلہ دے دیا وہ اس طرح مشرق سے مغرب تک پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ اسی روش کو میری اولاد سے قائم علیہ السلام کے لئے جاری فرمائے گا تو وہ بھی زمین کے مشرق اور مغرب تک پہنچے گا یہاں تک کہ زمین کی کوئی گھاٹی، کوئی وادی، کوئی چھوٹی بڑی آبادی، کوئی پہاڑ، ریگستان، زمین کا کوئی بھی ٹکڑا ایسا نہ بچے گا کہ جس پر ذی القرنین نے قدم رکھا تھا وہاں پر میرا بیٹا قائم علیہ السلام پہنچے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے زمین کے پوشیدہ خزانے ظاہر کر دے گا زمین کی ساری معدنیات ظاہر ہوجائیں گی اللہ تعالیٰ رعب کے وسیلہ سے ان کی مدد فرمائے گا اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ زمین کوعدل اور انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم اور جور سے بھرچکی ہوگی۔(کمال الدین ج۲ص۴۹۳باب ۸۳ذیل ۴)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:مہدی علیہ السلام زمین کو عدل اور انصاف سے بھردیں گے جس طرح زمین ظلم اور جور سے بھرچکی ہوگی۔ قسم اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے اگر دنیاکے خاتمہ سے کچھ بھی نہ بچا مگر ایک دن تواللہ تعالیٰ اس دن کو طولانی کر دے گا یہاں تک کہ اس دن میں میرا بیٹا مہدی علیہ السلام خروج کرے گا اور روح اللہ عیسیٰعلیہ السلام ابن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی ان کی سلطنت اوران کا اقتدار مشرق سے مغرب تک ہوگا۔(فرائدالسمطین ج۲ص۲۱۳، ۲۶۵)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: میری اولاد سے مہدی علیہ السلام چالیس سالہ فرزند، ان کا چہرہ ایسے کہ کوکب دری(چمکتادمکتاروشن ستارہ)ان کے دائیں رخسار پر سیاہ خال ہوگا اور ان کے اوپر روئی کی بنی ہوئی دو عبائیں ہوں گی ایسا لگے گاکہ بنی اسرائیل کے مردوں سے ہے خزانوں کو زمین کے اندر سے نکالے گا اور شرک سے آلودہ شہروںکوفتح کرے گا۔(فرائدالسمطین ج۲ص۴۹۳، ۵۶۵)
ان روایات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت زمین کی وسعت کے برابرہوگی پوری زمین پر آپ اپنی حکومت بنائیں گے زمین کا کوئی بھی حصہ آپ کے اقتدار سے باہر نہ ہوگا۔

عادلانہ حکومت کی منصوبہ بندی
یہ بات واضح ہے کہ امام قائم علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف جس وقت ظہور فرمائیںگے توایسا نہیں کہ آپ کچھ وقت انتظار کریں کہ الٰہی حکومت کے لئے پلاننگ کریں اور اس کے اراکین اور اعضاءکے بارے منصوبہ بندی کریں، جائزہ لیں، بلکہ آپ ایسی حالت میں خروج کریں گے کہ آپ کے پاس اپنی حکومت کا مکمل نقشہ ہوگا اور اس کے سارے خدوخال معلوم ہوں گے اور آپ کو اپنی حکومت کے بنیادی ارکان اور اعضاءکا بھی علم ہو گا آپ کامل نمونہ ایک عادلانہ حکومت کے لئے دیں گے جوزمین کے ہر حصہ کواپنے زیراثر لے لے گی۔
ہمارے پاس دلیل میں اس بارے حسب ذیل روایات ہیں:
۱۔ روایت ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں ذمہ داری لیں گے کمال الدین میں امام ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے۔
ابوجعفر علیہ السلام: اس امر کا جو صاحب ہے، جس نے حکومت بنانا ہے، ان کی مثال یوسف علیہ السلام جیسی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حکومت کے معاملات کو ایک رات میں ٹھیک کر دے گا۔(کمال الدین ج۱ص۹۲۳باب ۲۳ذیل ۲۱)
النبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مہدی علیہ السلام ہم اہل بیت علیہ السلام سے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حکومت کے معاملہ کو ایک رات میں درست کر دے گا۔
۲۔ آپ کے پاس کام کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ موجود ہوگا جو آپ نے لمبے عرصہ میں تجربہ حاصل کیا ہوگا اور مختلف حکومتوں کو قریب سے دیکھا ہوگا ان کی خامیاں کمزوریاں خوبیاں ان کے سامنے ہوں گی یہ غیبت کبریٰ میں آپ کے لئے ایسا تجربہ حاصل رہا جس کی روشنی میں آپ نے اپنی حکومت کے لئے منصوبہ بندی کر رکھی ہوگی۔
۳۔ آپ کے پاس جو علم کثیر ہے اور عصمت جو آپ کو عطا شدہ ہے۔
۴۔ ملائکہ اور فرشتوں کا تعاون آپ کے لئے حاصل ہوگا۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ان میں سے نویں جو وہ قائم اہل بیت علیہ السلام ہیں(امام حسین علیہ السلام کے بعد نویں فرزند) میری امت کے مہدی علیہ السلام مجھ سے اپنے شمائل، اقوال اور سیرت و کردار اور اعمال میں سارے لوگوں سے زیادہ شباہت رکھتے ہیں آپ لمبی غیبت کے بعد ظاہر ہوں گے گمراہ کر دینے والی حیرت اور پریشانی کے بعد آئیں گے اللہ کے حکم کا اعلان کریں گے، اللہ کے دین کو غلبہ دین گے، اللہ کی نصرت اور مدد سے ان کی تائید ہوگی، اللہ کے فرشتوں کی مدد اور تعاون انہیں حاصل ہوگا توآپ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔
(النجم الثاقب ج۱ص۵۰۵،۶۰۵)
مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں: اے میرے سردار! کیا فرشتے اور جنات انسانوں کے سامنے ظاہری شکل میں آتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: جی ہاں! خدا کی قسم! نجف اور کوفہ کے درمیان ہجرت کی سرزمین پر ضرور بالضرور اتریں گے اور ان کے اصحاب کی تعدادچھالیس ہزار فرشتوںسے اور چھ ہزار جنات سے ہو گی اورایک روایت میں ہے کہ جنات کی تعداد بھی چھیالیس ہزار ہوگی ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا اور ان کے ہاتھوں فتح ہوگی۔
۵۔ رعب کے وسیلہ سے مدد ہوگی۔
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ:
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :اللہ تعالیٰ ان کے لئے زمین کے خزانوں کو ظاہر کر دے گا زمین کی معدنیات کو ان کے لئے کھول دے گا اور رعب کے وسیلہ سے ان کی مدد کرے گا ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے زمین ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی۔(کمال الدین ج۲ص۴۹۳،۸۳ ذیل ۴)
حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام آپ کے پرچم بارے فرماتے ہیں:آپ کے پرچم کے آگے آگے ایک ماہ کے فاصلہ پر رعب چلے گا(یعنی آپ علیہ السلامنے جہاں ایک ماہ بعد پہنچنا ہو گا وہاں پر پہلے سے ہی آپ علیہ السلام کے رعب و دبدبہ کی دھاک بیٹھ چکی ہوگی)آپ کے دائیں، آپ کے بائیں رعب ایک ماہ کے فاصلہ پر آگے آگے جا رہا ہوگا۔
(بحارالانوارج۲۵ص۰۶۳،باب۷۲حدیث ۹۲۱)
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام: آپ علیہ السلام کے اصحاب کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”گویا ان کے دل فولاد کے ٹکڑوں کی مانندمضبوط ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات بارے وہ کسی قسم کاشک نہ کریں گے، پتھر سے زیادہ ٹھوس عقیدہ رکھتے ہوں گے، اگر وہ پہاڑوں پر چڑھائی کریں گے تو انہیں اپنی جگہ سے ہٹا دیںگے وہ اپنے پرچموں کے ساتھ کسی بھی شہر میں وارد نہ ہوں گے مگریہ کہ اسے ویران کر دیں گے گویا ان کے گھوڑوں کے اوپر عقبان( ) بیٹھاہوا ہے وہ امام علیہ السلام کی سواری سے اپنے آپ کو مسح کریں گے ”یتمسحون بسرج الامام“ اس وسیلہ سے وہ برکت حاصل کریں گے وہ اپنے امام علیہ السلام کو گھیرے میں لئے رکھیں گے جنگوں میں اپنے وجود سے ان کی حفاظت کریں گے جو ان کے امام علیہ السلامچاہیں گے وہ اسے پورا کردیں گے، ان میں ایسے مرد موجود ہوں گے جو رات کو نہیں سوئیں گے، ان کی نمازوں میں ایسی صدا ہو گی جس طرح شہد کی مکھیوں کے چھتہ میں مکھیوں کی بنبناہٹ ہوتی ہے، رات کو اپنے قدموں پر کھڑے عبادت کریں گے، جب کہ صبح اپنے گھوڑوں پر کریں گے رات کے رہبان(عبادت گزار)ہوں گے دن کے شیر ہوں گے، وہ اپنے مولا علیہ السلام کی اطاعت میںایک کنیز جس طرح اپنے مولا کی اطاعت میں ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ اطاعت کرنے والے ہوں گے وہ مصابیح(روشن چراغ)کی مانند ہوں گی ان کے دلوںکی مثال قنادیل(قندیلیں،روشن دیے) جیسی ہو گی، وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے کانپتے ہوں گے، شہادت کی دعا کرتے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے کی تمنا کرتے ہوں گے، ان کا نعرہ ہوگا ”یاثارات الحسین علیہ السلام“ جب وہ چلیں گے تو رعب ان کے آگے ایک ماہ کے فاصلہ پر چلے گا وہ اپنے مولا کی جانب دوڑ کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ امام الحق کی نصرت فرمائے گا۔(بحارالانوار ج۲۵ص۸۰۳ص۲۸)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے باقی حکومتوں سے امتیازات
جی ہاں! امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے دوسری حکومتوں سے حسب ذیل امتیازات ہیں۔
۱۔آپ علیہ السلام کی حکومت میں عدل ہوگااوریہی بات آپ کی حکومت کی اساس و بنیادہے۔
۲۔آپ واقعیات، حقائق اور ہر واقعہ کی اصل کے مطابق فیصلہ وحکم کریں گے آپ کی حکومت میںاصلی اور واقعی قوانین کا نفاذہوگا۔
۳۔آپ کے تمام ادارہ جات میں ظلم وجوروزیادتی نہ ہوگی، ہر جگہ اور ہر وقت عدل کا راج ہوگا، ظلم کسی بھی مرحلہ پر نہ ہوگا۔
۴۔خالص الٰہی قوانین نافذہوں گے، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نہ ہوں گے۔
۵۔واسطوں کی ضرورت نہ رہے گی جیسا کہ بیان ہوچکا۔
۶۔امام علیہ السلام تک جانے کے لئے اس حکومت کی وسعت اور پھیلاﺅ کے باوجود اس میں کوئی فقیر اور محتاج نہ ہوگا۔
۷۔ہر عہدہ اور ذمہ داری کے لئے ماہر، آگاہ عالم، لائق ترین اور مناسب ترین فردکا انتخاب رہے گا۔
۸۔سائنسی اور علمی ترقی کی آخری حدوں کو انسان پہنچ جائے گا جس کی وضاحت علم امام علیہ السلام کے باب میں کریں گے۔
۹۔آپ کی حکومت کاپورے عالم کے اطراف پر مکمل نفوذ اور تسلط ہوگا۔
۰۱۔تکوینی قدرت کا مظاہرہ بھی ہوگا جیسا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قدرت وطاقت کے بیان میں آئے گا۔
۱۱۔آپ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوقات کو ایک دین اور ایک مذہب پر اکٹھا کردیں گے۔
۲۱۔پورے عالم کے سارے اطراف و اکتاف میں اجتماعی معاشرتی اور حیات انسانی سے مربوط سارے قوانین کویکجا کر دیں گے۔
۳۱۔آپ کا حکم اور اقتدار آسمانوں میں رہنے والوں اور زمین میں رہنے والوں سب پر جاری ہوگا جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا۔
۴۱۔آپ کی حکومت میں اللہ تعالیٰ سارے دلوں کو جوڑ دے گا جیسا کہ امام جعفر صادقعلیہ السلام سے روایت ہے کہ پیار اور محبت پر مبنی معاشرہ قائم ہوگا۔(الکافی ج۲ص۶۶۴حدیث ۱)
۵۱۔پورے عالم کے سارے اطراف میں وحدت کلمہ ہوگا، سب کی بات ایک ہوگی اختلاف نہ ہوگا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زیارت میں ہے”سلام ہو مہدی علیہ السلام پر کہ جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اقوام عالم کو دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے سارے کلمات کو، تمام بیانات کو، ساری آراءکو، ایک کر دے گا اورمعاشرہ سے ہر قسمی اختلافات و افتراق کو اٹھالے گا۔(کمال الدین وتمام النعمة ص۷۴۶)
یہ وہ امور تھے جو میرے ناقص خیال میں آئے ہیںیہ اس الٰہی حکومت کی خصوصیات ہیں جیسے حضرت امام مہدی علیہ السلام قیام کریں گے اور دوسری حکومتوںکے مقابل میں یہ اس الٰہی حکومت کے امتیازات ہیں ان میں بعض خصوصیات بارے مزید غوروفکر کی ضرورت موجود ہے اور بعض عناوین جو ہیں انہیں بعض دوسرے عناوین کے ضمن میں بھی لایا جا سکتا ہے اور بعض جو ہیں انہیں بنیادی اہداف میں شامل کر سکتے ہیں جو ان اہداف کے علاوہ ہیں جو ہم نے پہلے بیان کئے ہیں۔