چوتھی فصل
حضرت امام زمانہ (عج)کی حکومت میں اہداف اور ان کے حصول کا طریقہ کار، حکومتی پالیسیاں
روایات جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے اہداف کو بیان کرتی ہیں ان میں بہت سارے اہداف کو ذکر کیا گیا ہے اور پھر ان کی تطبیق اور نفاذ کی بات کی گئی ہے لیکن یہ اہداف کتنی مدت میں حاصل ہوں گے اس کا ذکر موجود نہیں ہے اور کیسے ان اہداف کو حاصل کیا جائے گا اسے ہم پانچویں فصل میں بیان کریں گے۔اہداف کے حصول میں کتنا وقت لگے گا تو اس کا تعلق اس اسلوب اور طریقہ کار سے ہے جو اختیار کیا جائے گا ۔
مثال کے طور پر براعظم افریقہ میں اسلامی حکومت قائم کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے علمی اور ثقافتی طریقہ اختیار کیا جائے تو اس کے لئے ایک معین عرصہ درکار ہے اور اگر جنگی طریقہ ہو گا تو پھر اس کے لئے وقت کم درکار ہوگا اسی طرح باقی اہداف کے بارے ہے۔
ہماری اس جگہ گفتگو کا مقصد اہداف کے تحقق کی مدت کا تعین نہیں ہے نہ ہی یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ کتنے سال لگیں گے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ ان سالوںمیںاستعداد اور قابلیت کی مدت بارے جو امراس استعداد کی نوعیت، کیفیت اور حجم پر اثر انداز ہو گی اس کا ذکر کرنامقصود ہے۔
مثال:ایک بستی میں اسلامی قانون نافذ کرنے کے لئے ایک مہینہ کی ضرورت ہے تو اس میں دو جج ضرورت پڑیں گے ایک سوسپاہی کی ضرورت ہوگی لیکن اس بستی میں ایک سال وقت درکار ہو تو پھر وہ تعداد ناکافی ہے نتیجہ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا اور سپاہیوں کی تعداد بھی بڑھانا ہوگی۔
اس اعتبار سے اس فصل کا اور بعد والی فصول کا باہمی ربط اور تعلق ہے اوران دونوںابواب کے مطالب پچھلی فصل میں جو کچھ بیان ہو چکا ہے اس پر بھی اثر پذیر ہوں گے۔
اہداف
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے اہداف کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کا نفاذ
۲۔ اسلامی حکومت کا قیام
۳۔ عدالت کا عام کرنا ظلم و جور کا خاتمہ
پہلا ہدف:۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کا نفاذ
اللہ کے قانون کا نفاذ اسلامی حکومت ہی میں ہو سکتا ہے وہ اس طرح ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بعض احکام اور قوانین کا نفاذ مراد ہو اور وہ بھی محدود جگہ پر اور محدود وقت کے لئے تو پھر کسی حکومت کو تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری بحث یہ ہے کہ سارے احکام کا نفاذ ہو اور غیرمعین مدت کے لئے اور زمین کے ہر کونے پراسلامی قوانین رائج ہوں۔
جی ہاں!امام علیہ السلام کے ظہور کے آغاز میں اور امام علیہ السلام کے سارے اہداف کے پورے ہونے سے پہلے ایک زمنی مرحلہ ہو گا جس میں اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہو گا اور وہ بغیر حکومت کے قیام کے ہوگا اوروہ نفاذ محدود علاقوں میں ہوگایہ اسی حوالے سے ہے کہ امام علیہ السلامکا پہلا ہدف اللہ کے قانون کا نفاذ ہے۔
حضرت امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے احکام کی نوعیت
امام علیہ السلام جن احکام اور قوانین کا نفاذ کریں گے وہ ظاہری احکام ہوں گے یا واقعی حقیقی اور اصلی احکام ہوں گے؟اس اعتبار سے کہ وہ اصلی احکام کا نفاذ کریں تو اس میں ماضی کے حوالے سے بھی فیصلے کئے جائیں گے یا نہیں؟ جوواقعہ گذر چکا ہے اور جس جرم کا ارتکاب پہلے کیا جا چکا ہے اس حوالے سے عام معافی دے دی جائے گی؟ موجودہ حال اور مستقبل میں اصلی احکام کا نفاذ یقینی بنایا جائے گا؟امام علیہ السلام کے لئے اصلی احکام کی پابندی کیوں ضروری ہے؟ اور اس سے ہدف کیا ہے؟
پشیمانی سے پہلے تنبیہ، خبردار کرنا
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس بات پر توجہ دلانا ضروری ہے کہ اسے پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ امام علیہ السلام کی حکومت کے قیام سے پہلے لوگوں کے دلوں میں رعب ڈالا جائے اور نہ ہی اس کی تعلیم دینا مقصود ہے کہ وہ کس طرح عمل کریں گے۔ بلکہ یہ تو خبردار کرنا ہے کہ شرعی احکام کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور شرعی احکام کی پابندی پر اکسایا اور آمادہ کیا جائے تاکہ انسان بعد میں پشیمان نہ ہو کیونکہ اس وقت اصلاح کا موقع ہی نہ ملے گا یا اس حالت سے واپس آنے کا وقت ہی نہ رہاہوگا۔
جو شخص امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے یہ بات جانتا ہوکہ امام علیہ السلام اسے رسوا کر دیں گے اس کے اموال جن کا ظاہری طور پر وہ مالک ہے اور ظاہری دستاویزات بھی اس کے پاس موجودہیں لیکن اصلی مالک وہ نہیں، غیر شرعی طریقہ سے اس کے پاس یہ اموال آئے ہوئے ہیں، اس کے پاس انہیں نہ چھوڑا جائے گا جو شخص اس بات سے واقف ہے کہ اس کی بیوی کو اس سے الگ کر دیا جائے گا جو اصل میں اس کی بہن ہے یا ایسی عورت سے اس کی شادی ہوچکی ہے جو پہلے سے شادی شدہ تھی تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اور اس منکر سے بچ جائے گا۔
اسی طرح کے بہت سارے اعمال ہیں جن کا انسان ارتکاب کرتا ہے چھپ کر اور امام علیہ السلام جانتے ہیں کہ اس نے ان جرائم کا چھپ کر ارتکاب کیاہوا ہے ۔
بعض کا ارتکاب اس نے جان بوجھ کر کیا ہوتا ہے اور بعض کے بارے اسے معلوم ہی نہیں اور وہ جرم کر چکا ہوگا۔ امام علیہ السلام اس کے اعمال سے اس وقت واقف تھے جس وقت اس نے وہ اعمال انجام دیئے تھے کیونکہ اس کے اعمال امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں تو یہ شخص خلاف کاریوں سے بچے گا۔
امام علیہ السلام اصل اور واقعیت کے مطابق فیصلہ دیں گے
روایات میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام آل داﺅد علیہ السلام کی مانند فیصلے دیں گے جو واقعیت اور اصلیت پر مبنی ہوں گے ۔ کمال الدین میں شیخ صدوقؒ نے اپنی سند سے، ابان بن تغلب سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت امام ابوعبداللہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: عنقریب تمہاری مسجد میں ۳۱۳ آدمی آئیں گے یعنی مکہ کی مسجد میں، مکہ والے جانتے ہوں گے کہ یہ سارے لوگ انکے شہر سے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے آباﺅ اجداد اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کے پاس تلواریں ہوں گی ہر تلوار پر ایک لفظ لکھا ہوگا جس سے ایک ہزار نقطہ(کلمہ)لکھیں گے(ظاہر ہے اس سے مراد مخصوص قسم کا بٹن یا چابی مراد ہے جیسا کہ کمپیوٹر کے لئے ”کی بورڈ“ استعمال ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کچھ اور مراد ہو)اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا اور اس میں سے آواز دی جائے گی ”یہ مہدی علیہ السلام ہیں داﺅد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام جیسے فیصلے دیں گے ان فیصلوں کے لئے گواہ طلب نہیں کریں گے۔“
(کمال الدین ج۲ص۱۷۶ باب ۸۵ذیل ۹۱)
اسی کتاب میں مزید بیان ہواہے:
حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام: جس وقت قائم علیہ السلام ظہورفرمائیں گے کوئی شخص بھی رحمن کی مخلوق سے ان کے سامنے نہیں آئے گا مگر یہ کہ آپ علیہ السلام اسے پہچان لیں گے کہ وہ نیک ہے یا بد ہے کیونکہ اس میں متوسمین( )کے لئے نشانی ہے اوریہی سبیل مقیم( )ہے
(کمال الدین ج۲ص۱۷۶ باب ۸۵، ذیل ۰۲)
بحارالانوار میں کتاب الغیبہ تالیف علی بن عبدالحمید سے اپنی سند سے نقل ہے کہ ابوبصیر نے حضرت ابوجعفر باقر علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے:
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: حضرت قائم(عج)بعض واقعات بارے ایسا فیصلہ سنائیں گے کہ جن لوگوں کی جانب وہ واقعات منسوب ہوں گے وہ انکار کر دیں گے بلکہ آپ علیہ السلام کے بعض ایسے ساتھی بھی انکار کر دیں گے جنہوں نے آپ کے حکم پرتلوار چلائی ہو گی جب کہ آپ کا فیصلہ تو حضرت آدمعلیہ السلام کے فیصلہ کے مطابق ہوگاجس کے نتیجہ میں آپ ان کے خلاف بغاوت کا جرم عائد کریںگے اور ان کی گردنیں اڑادیں گے اس کے بعد آپ دوسرا فیصلہ سنائیںگے تو اس کا بھی ایک جماعت انکار کر دے گی یہ بھی ان میں سے ہوں گے جنہوں نے آپ علیہ السلام کے سامنے تلوار چلائی ہو گی اور یہ داﺅد علیہ السلام جیسا فیصلہ ہو گا پس آپ انہیں سامنے لائیں گے اور ان کی گردنیں بھی اڑا دیں گے پھر تیسرا فیصلہ دیں گے کہ اس کا بھی ایک جماعت انکار کر دے گی یہ بھی وہ ہوں گے جنہوں نے آپ کے سامنے تلوار چلائی ہو گی یہ فیصلہ حضرت ابراہیم علیہ السلام والا فیصلہ ہوگا پس آپ انہیں سامنے لائیں گے اور ان کی گردنیں اڑا دیں گے پھر چوتھا فیصلہ دیں گے اور وہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا فیصلہ ہوگا تو پھر اس کا کوئی انکار نہ کرے گا۔(بحارالانوار ج۲۵ص۹۸۳، باب ۷۲ذیل ۷۰۲)
اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ساتھ دینے والے ایسے ہوں گے جنہوں نے کچھ جرائم کا ارکتاب کیا ہوگا جس وقت باقاعدہ اسلامی عدالت لگے گی اور سابقہ جرائم کی سماعت شروع ہو گی تو ان کے بارے حضرت امام مہدی علیہ السلام یہ فیصلہ سنائیں گے تو ان کے فیصلہ کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کر دیں گے اور بغاوت پر اتر آئیں گے جن کے ساتھ امام علیہ السلام کوئی رعایت نہ کریں گے اور انہیں باغی کی سزا دی جائے گی جب کہ ان میں سے بعض ایسے افراد ہوں گے جن کا تعلق آپ کے ہمراہ جنگی محاذ پر لڑنے والوں سے بھی ہوگا لیکن آپ احکام الٰہی کے نفاذ میں کسی قسم کی نرمی نہیں کریں گے۔(مترجم)
الکافی میں صحیح سند سے عمار الساباطی کی روایت ہے۔
راوی: میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے سوال کیا کہ اگر آپ علیہ السلام کی حکومت ہو تو آپ علیہ السلام فیصلے کس طرح دیں گے؟
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اوراللہ کی معین کردہ حدود کے مطابق فیصلے دیں گے اگر ہمارے پاس کوئی ایسافیصلہ آئے کہ اس کا ریکارڈ موجود نہ ہو تو روح القدس ہمارے پاس اس کی تفصیل لے آتاہے(پھر اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جاتاہے)۔(اصول کافی ج۲ص۷۹۳)
٭اصول الکافی میں صحیح سندسے آبان کی روایت ہے۔
ابان: میں نے حضرت اباعبداللہ علیہ السلام سے سنا، آپ علیہ السلام نے فرمایا:
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام: دنیا ختم نہیں ہوگی مگر یہ کہ میری اولاد سے ایک مرد خروج کرے گا جو آل داﺅد علیہ السلام کی حکومت جیسے فیصلے کرے گا اوروہ فیصلہ دیتے وقت گواہ نہیں لیں گے ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے گا۔(اصول الکافی ج۲ص۷۹۳)
٭الدیلمی نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے یہ بیان نقل کیا ہے ۔
امام ابوعبداللہ علیہ السلام: جس وقت قائم آل محمد علیہم السلام قیام فرمائیں گے تو لوگوں کے درمیان داﺅد علیہ السلام جیسے فیصلے دیں گے گواہوں کی ضرورت نہ ہو گی اللہ انہیں الہام کرے گا اور وہ اسی کے مطابق فیصلے دیں گے۔ ان کے فیصلے ان کے اپنے علم کے مطابق ہوں گے وہ ہر جماعت کو اس بات کی خبر دیں گے جوبات ان کے اندرکی ہو گی جس بات کو انہوںنے چھپا رکھا ہو گا اور آپ اپنے دوست کو اپنے دشمن سے خاص نشانی کے ذریعہ پہچان لیں گے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّل مُتَوَسِّمِی نَoوَاِنَّہَا لَسَبِی لٍ مُّقِی مٍ(سورة الحجر آیت ۵۷،۶۷)
(بحارالانوارج۲۵ص۹۳۳باب ۷۲ذیل ۶۷)
سوال: اگرچہ یہ پوچھا جائے کہ کیا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے فیصلوں میں غلطی کرتے تھے جب کہ آپ جو فیصلہ دیتے وقت گواہوں کو طلب کرتے تھے اورگواہوں کی گواہی کی روشنی میںفیصلہ دیتے تھے اسی طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فیصلے دیا کرتے تھے؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ گواہوں کی گواہی دینا غلط کام نہیں ہوتا،کیونکہ گواہوں کے لئے شرائط ہیں جن شرائط کی ان میںموجودگی ضروری ہے جیسے گواہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ عادل ہو، جھوٹ نہ بولتا ہو، معتمد ہو، یابعض کیسوںمیں دو گواہوں کایا چار گواہوں کا ایک ہی بات پر متفق ہونا، اسی ایک ہی واقعہ پراور یہ کہ ایک ہی وقت ہو اور اس کے علاوہ گواہی میںخصوصیات ہیںجن کا لحاظ ضروری ہے۔ یہ ساری شرائط وقیود گواہوں کی غلط گواہی کے امکان کو بہت ہی کم کر دیتی ہیں ایک عام قاضی اور حاکم جو ذہین و فطین ہے، سمجھدار ہے، جو گواہی کو سن رہا ہے تو اس سے غلطی کا امکان کم ہوجاتا ہے چہ جائیکہ جب وہ گواہ ایک معصوم کے سامنے کسی واقعہ کی گواہی دے رہے ہوں تو یقینی امر ہے کہ غلطی یا توبالکل ہوگی نہیں اور اگر احتمال کی بات کریں تو بہت ہی کمزور اور ضعیف احتمال ہے کہ گواہی غلط دی گئی ہو اور معصوم نے اس گواہی کے مطابق فیصلہ دے دیا ہو۔(جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی فقط ایک فرضی احتمال میں ہے۔مترجم)
دوسری بات: اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءعلیہ السلام اور اپنے اولیاءکی حفاظت عن الخطاءدنیا میں فرما دی ہے اور انہیں معصوم بنایاہے۔
”یَا اَیُّھَاالَّذِی نَ اَمَنُو ا اتَّقُوا اللّٰہ وَاٰمِنُو بِرَسُولِہ یُو ¿ تِکُم کِف لَی نِ مِن رَّح مَتِہ وَیَج عَل لَّکُم نُو رًا تَم شُو نَ بِہ وَیَغ فِر لَکُم وَاللّٰہُ غَفُو ر رَّحِی م “
”اے ایماندارو!خدا سے ڈرو اور اس کے رسول(محمد) پر ایمان لاﺅ تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصے اجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور عطا فرمائے گا جس(کی روشنی) میں تم چلو گے اور تم کو بخش بھی دے گا اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے“۔
(سورہ حدید آیت ۸۲، پارہ ۷۲)
”اَوَمَن کَانَ مَی تاً فَاَح یَی نَہُ وَجَعَل نَالَہُ نُو رًا یَّم شِی بِہ فِی النَّاسِ کَمَن مَّثَلُہُ فِی الظُّلُمٰتِ لَی سَ بِخَارِجٍ مِّن ھَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِل کٰفِرِی نَ مَاکَانُو ا یَع مَلُو نَ“
”کیا جو شخص پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور بنایا جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں(بے تکلف)چلتا پھرتا ہے اس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی یہ حالت ہے کہ (ہرطرف سے)اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے کہ وہاں سے کسی طرح نکل نہیں سکتا(جس طرح مومنوں کے واسطے ایمان آراستہ کیا گیاہے)اسی طرح کافروں کے واسطے ان کے اعمال(بد)آراستہ کر دیئے گئے ہیں“۔
(سورہ الانعام آیت ۲۲۱، پارہ ۷)
”اَفَمَن شَرَحَ اللّٰہُ صَد رَہُ لِل اِس لَامِ فَھُوَ عَلیٰ نُو رٍ مِّن رَّبِّہ فَوَی ل لِل قٰسِیٰةِ قُلُو بُہُم مِن ذِک رِ اللّٰہِ اُولئٰکَ فِی ضَلَلٍ مُّبِی نٍ“
”تو کیا وہ شخص جس کے سینہ کو خدا نے (قبول)اسلام کے لئے کشادہ کر دیا ہے تو وہ اپنے پروردگار (کی ہدایت)کی روشنی پر(چلتا)ہے(گمراہوں کے برابر ہو سکتاہے)افسوس تو ان لوگوں پر ہے جن کے دل خدا کی یاد سے(غافل ہوکر)سخت ہو گئے ہیں“(سورہ الزمر آیت ۲۲۔پارہ ۳۲)
انبیاءعلیہ السلام اور اولیاءعلیہ السلام پر فرشتوں کا نزول اس لئے ہوتا ہے کہ وہ کہیں غلطی نہ کریں، انہیں خطاءسے محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ فرشتے ان کے واسطے ایک مخیرکا کردار ادا کرتے ہیں اور انبیاءعلیہ السلام اور اولیاءعلیہ السلام اللہ کو تمام حالات سے باخبر رکھتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام ہے ناپسندیدہ(مکروہ) افعال سے بھی انہیں دور رکھا جاتا ہے یہ بات قرآنی آیات سے نص اور واضح بیان ہے کہ انبیاءعلیہ السلام اور اولیاءاللہ علیہ السلام خطا سے محفوظ ہوتے ہیں۔
آخری آیت جو ہے وہ مختلف واقعات میں فیصلہ صادر کرنے کے بارے ہے کیونکہ عام طور پر استقامت کا عنوان حاکم اور جج کے لئے بولا جاتاہے۔
لغت کی کتاب الصبحاح میں استقامت کا لکھا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ”استقام الہ الامر“ یعنی اس کا مقابلہ اپنی جگہ پر درست ہو گیا اس میں کوئی سقم اور خرابی نہیں رہی۔(الصحاج ج۵ص۷۱۰۲)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے وَاس تَقِم کَمَا اُمِر تَ وَلَاتَتَّبِع اَھ وَائھُم (شوریٰ ۵۱)
استقامت دکھاﺅ جیسا کہ تمہیںحکم دیا گیا ہے اورلوگوں کی خواہشات کی پیروی مت کرو
ابن العربی نے اپنی کتاب احکام میں ”تنزل الملائکة“ کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ مفسرین کہتے ہیں کہ موت کے وقت فرشتے اترتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ہر روز فرشتے اترتے ہیں۔(تفسیر العالی ج۵ص۶۳۱)
علامہ الطباطبائی نے اس آیت بارے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ان مومنین سے خاص ہے جو دوسروں سے ایمان کے درجات میں ممتاز ہیںاور جوصفات انہیں عام مومنوں سے الگ کرتی ہیں۔(تفسیر المیزان ج۰۱ص۳۹)
القرطبی نے کہا ہے کہ ولی کی شرائط سے ہے کہ اس میں خوف کا عنصرباقی رہ کہ اس پر فرشتے اتریں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا”تنزل علیہم الملائکة“ان پر فرشتے اترتے ہیں۔( تفسیر القرطبی ج۱۱ص۹۲، موسسة التاریخ العربی )
انہوں نے فرمایا کہ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ شیاطین کے نزول بارے آیات میں آیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”ھَل اُنَبِّکُم عَلیٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّیَاطِی نُ“ (سورة الشعراءآیہ ۱۲۲)کیا میں تمہیں بیان کر دوں کہ شیاطین کن پر اترتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ شیاطین حق کی تصویر بنا کر باطل کے اظہار کے لئے اترتے ہیں اور برائی کو خوبصورت شکل میں بنا کراترتے ہیں یہ شیاطین کی حالت ہے جیسا کہ علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے۔
الشوکاتی نے بیان کیا ہے کہ ظاہر امر یہ ہے کہ فرشتوں کا اترنا اولیاءپر کسی معین وقت میں نہیں ہے بلکہ عام ہے۔(فتح القدیر ج۴ص۵۱۵)
پس شیاطین کے مقابلہ میں فرشتے بھی اترتے ہیںاور وہ ان پراترتے ہیں جو ایمان لائے ہیں تاکہ حق کو ظاہر کریں قبیح اور برائی کو دور کر دیں ان سے جنہوں نے استقامت دکھائی ہے اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے جسے تفسیر القمی میں بیان کیا گیاہے۔”نَح نُ اَو لِیٰٓو ¿ کُم فِی ال حَیٰوةِ الدُّن یَا“(سورہ حٰم السجدہ آیہ ۱۳) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر بیان کیا کہ ”کنانجرھم من الشیاطین“
المجمع میں ہے یعنی نحرسکم فی الدنیا(تفسیرالمیزان ج۷۱ص۴۹۳)
پس فرشتے ان کی حفاظت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اولیاءہوتے ہیں گذشتہ آیت میں آیا ہے کہ اولیاءوہ ہیں جنہوں نے استقامت کی۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: نہج البلاغہ ج۱ص۸۴۴ اللہ تعالیٰ کے کلام ”رجال لاتلھیم“ کے ذیل میں ارشاد فرمایا ہے۔
مشہور حدیث قدس ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”میرا بندہ مجھ سے نوافل (عبادات) کے ذریعہ تقرب حاصل کرتا رہتا ہے،اس کی مسلسل عبادات کے نتیجہ میں، میں(اللہ) اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعہ وہ دیکھتا ہے، میں اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کے پاﺅں ہوتا ہوں جن سے وہ چلتاہے۔(غوالی اللئالی ج۴ص۳۰۱حدیث ۲۵۱۔ الغدیر ج۱ص۸۰۳، کنزالعمال ج۱ص۹۲۲حدیث ۵۵۱۱)
دعا میںآیا ہے”اے میرے سردار!اگر توں نہ ہوتو حیرت میں پڑنے والے گمراہ ہو جائے اگر تیری جناب سے درستگی نہ ہوتی تو مستقرین نجات نہ پاتے۔ تونے ان کے لئے راستوں کو آسان کردیا یہاں تک کہ وہ وصل ہو گئے تو تقویٰ کے وسیلہ سے ان کی تائید فرما دی تو انہوں نے عمل کیا تیری جناب سے ان پر قیمت بڑھتی رہی اور ان کے لئے تیری نعمت پہنچتی رہی۔(بحارالانوار ج۱۹ص۰۷۱)
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی حمایت اور تائید خاص اس لئے موجود ہوتی ہے جس وقت قاضی فیصلہ دے رہا ہوتا ہے اورمال تقسیم کرنے والا جب بیت المال سے مال تقسیم کر رہا ہوتا ہے تو بھی اللہ کا ہاتھ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
(المجازات النبویہ ص۲۹۳ حدیث ۹۰۳)
جب اللہ تعالیٰ کی تائید قاضی کےلئے، حاکم کے لئے، مال تقسیم کرنے والے کے لئے ہے یہ تو ان کے لئے ہے اور جو ان سے بڑے مرتبہ پر ہیں تو ان کے فیصلوں کو اللہ تعالیٰ کی تائید یقینی حاصل ہو گی اور خطاءو غلطی نہ ہوگی۔تیسری بات یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فیصلہ جات درست ہیںکیونکہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی صحیح اور درست ہونے کا انتظام موجود ہے تائید الٰہی ان کے لئے حاصل ہے فیصلہ سے پہلے ان کے لئے واقعہ کی صحیح صورتحال معلوم ہوجاتی تھی اور آپ اسی کے مطابق فیصلہ دیتے تھے اور یہ بات امیرالمومنین علیہ السلام کے فیصلہ جات مشہور و معروف ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ گواہوں کے بیانات میں اوران کی گواہی دینے میں تو خطا اور غلطی کا امکان موجود ہے لیکن فیصلہ صادر کرنے میں یہ امکان موجود نہیں ہے لیکن اس قسم کا فرضی احتمال امام مہدی علیہ السلام کے فیصلہ جات میں بالکل نہیں ہوگا کیونکہ آپ علیہ السلام اصل اور واقعہ کے مطابق فیصلہ دیں گے ظاہر کے مطابق فیصلہ نہیں دیں گے۔
کیاحقیقت امر اور اصل کے مطابق فیصلہ دینا ممکن ہے ؟!
یہ بات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے ممکن ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کے پاس حقائق کا علم ہوگا تمام حالات سے آگاہ ہونے کی آپ کے پاس قدرت ہوگی جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا جو ہستی ہر قسمی حادثات و واقعات و حالات کو ان کی جزئیات سمیت ان کے ظاہری اور باطنی کیفیات و کمالات سے آگاہ ہواور پھر اس کے پاس ہر حکم اور فیصلہ پر عملدرآمد کی قدرت اور اختیار بھی موجود ہو اگرچہ ایسا فیصلہ تمام حکومتوں پر ہی لاگو کیوں نہ کرناپڑے، جب اس کے پاس یہ اختیارموجود ہوگااس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ فیصلے اصل کے مطابق کریں، واقعیت اور حقیقت پر مبنی فیصلہ جات صادر کریں یہ بات بڑی واضح اور روشن ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے البتہ ہمارے معاشرہ کے لحاظ سے اور جو اس میں زندگی گزار رہا ہے تو اس امر کو قبول کر لینا آسان نہیں ہے یا تو اس لئے کہ ہم اس قسم کے فیصلوں کے عادی نہیں ہیں بلکہ بعض تو ایسے ہیں کہ غیبت کے زمانہ میں ظاہری حالات کے مطابق بھی فیصلہ جات سننے سے عاری رہے اور ترستے رہے کہ ظاہری حالات کے مطابق ہی عدالتی فیصلے ہوں چہ جائیکہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی فیصلہ جات ہوں۔
بہرحال واقعی احکام کا نفاذ اور حقائق کے مطابق فیصلہ جات کو قبول کرنے کے لئے آگہی اور بیداری کی ضرورت ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کیایہ فیصلہ جات ماضی کے واقعات اور حالات پر بھی لاگوہوں گے اور ان فیصلہ جات کے ماضی پر اثرات مرتب ہوںگے جس کی طرف پہلے اشارہ کیاجا چکاہے جیسے شوہر اور بیوی میںجدائی، اموال کا ضبط کر لینا وغیرہ تو اسے بھی قبول نہ کرنے کی ایک وجہ لوگوںکا اس قسم کے فیصلہ جات سے نامانوس ہونا ہے اور امامعلیہ السلام فقط اسی بات ہی کو تبدیل نہ کریں گے بلکہ آپ کی آمدسے معاشرہ کے اندر پوری تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
غیبت نعمانی میں ہے کہ:
ابوحمزہ ثمالی: میں نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے سنا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
امام محمد باقر علیہ السلام: وہ تو نیا امر لائیں گے نئی سنت اپنائیں گے نئے فیصلے سنائیں گے ان کے فیصلے عربوں پر سخت ہوں گے، ان کا کام قتل کے سوا کچھ نہیں ہے، وہ کسی سے توبہ نہیں لیں گے اور خدا کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کریں گے۔
(غیبة نعمانی ص۴۳۲ حدیث ۲۲باب ۳۱)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام:جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو وہ لوگوں کو نئے امر کی دعوت دیں گے جس طرح حضرت رسول خدا نے دعوت دی تھی اسلام کا آغازغربت کے عالم میں ہوا وہ تنہا تھا اکیلا تھا، ایک دفعہ پھر اسلام غریب ہوگا، تنہا ہوگا، اکیلا ہوگا جس طرح اسلام آغاز میں غرباءکے لئے ہی خوش خبری ہے ۔(اسی طرح آخر زمانہ میں غرباءکے لئے خوشخبری ہوگی)
ابوسعید: اللہ آپ کے سارے امور درست کر دے آپ ذرا اس کی تفصیل سمجھا دیں۔
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام: پھر سے ایک دعوت دینے والا ہوگا جو نئے سرے سے اسلام کی دعوت دے گا جس طرح حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی تھی۔(سابقہ حوالہ ص۳۷۱ الاسلام بدا غربائ)
نتیجہ: احکام جو امام علیہ السلام لائیں گے وہ نئے معلوم ہوں گے۔اسلام پر لوگ عمل چھوڑ چکے ہوں گے، اسلامی احکام کو بھلا دیا گیا ہوگا لہٰذا اسلام کے حوالے سے ہر بات اور ہر حکم نیا معلوم ہوگا، یہ حالت اسلام کی غربت تنہائی اور بے چارگی پر دلالت کرے گی۔
اس میں کوئی مانع موجود نہیں ہے انسان کو اس قسم کی حالت کی توقع رکھنی چاہیئے اوراپنے آپ کو اس کے لئے تیار رکھے۔
اصل بات یہ ہے کہ لوگ اسلام کی حقیقت سے دور جا چکے ہوں گے اسلام کا نام ہوگا اسلام کے احکام سے ناواقف ہوں گے ان حالات میں جب امام مہدی علیہ السلام احکامِ اسلام بیان کریں گے اور اسلام کا نفاذ کریں گے توہر بات نئی لگے گی گویا نئے سرے سے امام علیہ السلام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیںگے۔
اسلام کےنفاذ کامسئلہ
یہ مسئلہ بہت ہی پیچیدہ ہے جس کے لئے ایک مدت درکار ہو گی جس میںلوگ عادلانہ حکومت کے نتائج کو تسلیم کرلیں اور اس حکومت کے قیام کے لوازمات جو ہیں انہیں مان لیں کہ واقعاتی احکام کا دورآ گیا ہے یا نئے احکام اور نئے قوانین کے نفاذ کا زمانہ آگیاہے۔یہ بات ثقافتی بنیادوں سے مربوط ہے جو کہ امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے انجام پانے ہیں اور دین کی نشرواشاعت جو امام علیہ السلام نے کرنی ہے اس سے بھی اس کا تعلق ہے ۔
سوال:کیا امام علیہ السلام عوام کی ہدایت کے لئے نبی اکرم والا اسلوب اور طریقہ کار اپنائیں گے جو آئمہ معصومین علیہم السلام کی عملی سیرت رہی ۔بیداری دینے میں، علم پھیلانے میں، مشکلات پر صبر کرنے میں،اسی روش کو آپ اختیار کریں گے؟ یا ایسا ہے کہ حضرت قائم علیہ السلام کے ظہور کے بعد توبہ نہ ہو گی، امام علیہ السلام کے زمانہ میں ہدایت ایک آرڈننس کے ذریعہ نافذ ہو گی اس کی خلاف ورزی نہ ہو گی آرڈر ہوگا قوانین کا اعلان ہوگا اور اس کی پابندی کی بات ہوگی اوران کانفاذ ہوگا خلاف ورزی ناقابل قبول ہوگی، خلاف ورزی پر سخت سزا ہوگی معافی نہ ہوگی، اس میں نہ کوئی اعتراض کا حق ہوگا اور نہ ہی خلاف ورزی اور نافرمانی قبول ہوگی ؟اس بارے دومختلف حالتیں ہیںاور دو احتمال ہیں اس جگہ اس بارے کچھ نہیں کہا سکتا کہ کون سا امر اور احتمال زیادہ صحیح ہے اس کو اگلی فصل کے سپرد کرتے ہیںجس میںتوبہ کی بحث آئے گی تو اس میں اس بات کا ذکر بھی کیا جائے گا۔
امام علیہ السلام واقعیات کے مطابق فیصلہ جات کی روشنی میں حقوق واپس دلائیں گے؟
حقوق واپس لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے افعال اور اعمال جو ظہور سے پہلے لوگوں سے صادر ہوئے اور وہ اعمال اسلام کے مخالف تھے تو کیا امام علیہ السلام آ کر ان کاموں کی درستگی کریں گے اور انہیں ان کی اصل شکل میں واپس لے آئیں گے یا ایسا نہیں کریں گے؟
اس مقام پر تفصیل ہے:
۱۔ وہ اعمال جن میں اللہ تعالیٰ کی معصیت اور نافرمانی ہو اور اس میں لوگوں کے حقوق کی پامالی نہ ہو، جیسے نماز نہ پڑھنا، روزہ ترک کرنا، حج ادا نہ کرنا اسی قسم کے دوسرے عبادتی مسائل اس قسم کے اعمال جو ہیں ان کے بارے توبہ کر لینے کے بعد اس شخص پر کچھ نہ ہو گا البتہ اگر یہ توبہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قیام کے بعد ہو تو پھر اس بارے پانچویں فصل ہم بیان کریں گے کہ اس کی کیا صورت ہو گی۔
۲۔ ایسے اعمال جو دوسروں کے حقوق غصب کرنے کے بارے ہوں جیسے چوری کرنا، دوسروں کے اموال کو غصب کرنا، دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنا، ان میں سے فقراءکے حقوق کاغصب کرنا،جیسے وہ شخص جس نے اپنے اموال سے خمس نہیں دیا، زکوٰة اس پر واجب ہوئی اسے ادا نہ کیا تو اس قسم کے حقوق بارے کوئی شک نہیں کہ امام علیہ السلام لوگوں سے غصب شدہ حقوق انہیںواپس دلائیں گے۔یہ کام امام علیہ السلام کی حکومت کے اہداف میں شامل ہے۔
۳۔ ایسے اعمال یا معصیتیں کہ جن کے ذریعہ کسی ایسے حرام کا ارتکاب کرلیا ہے کہ اسے جاری نہیں رکھا جا سکتا جیسے وہ شخص جس نے اپنی رضاعی بہن سے شادی کر رکھی ہو یا جس نے کسی ایسی طلاق شدہ عورت سے شادی کی تھی لیکن پتہ چلا کہ وہ ابھی تک سابقہ شوہر کے حق میں ہے اور اس کی طلاق واقع ہی نہ ہوئی یا ایسی عورت سے شادی کر لی تھی جس کا شوہر غائب ہو گیا تھا بعد میں پتہ چلا کہ اس کا شوہر تو زندہ ہے اسی قسم کے اور امور جو شادی سے متعلق ہیں تو اس میں شریعت کا حکم ہے کہ دونوں کے درمیان حقیقت معلوم ہونے کے بعد فوری جدائی ڈال دی جائے ۔
امام علیہ السلام کے ظہور کے بعد امام علیہ السام کی امضاءاور تائید کے بغیر ان کا تسلسل ایک لمحہ کے لئے بھی نہ رہے گا تو یہ ایسے اعمال ہیں جن کی امام علیہ السلام آ کر درستگی کریں گے اور اس کے اثرات کی پابندی واجب ہے جب امامعلیہ السلام ان امور کے بارے اصل حقائق سے پردہ اٹھا دیں گے اور حقیقت کا علم ہو جائے گاآپ اپنے اس علم کے ذریعہ جو امام علیہ السلام کو عطا کیا گیا ہے یا خود افراد اس بات کا اعتراف کرلیںگے تو اس کے مطابق ہی عمل کرنا ہوگا، بلکہ غیبت کے زمانہ میں بھی اس حالت پر باقی رہناجائز نہیں ہے۔جس وقت کسی ایسی صورتحال کے بارے علم ہوجائے۔
وہ شخص جسے یہ علم ہو جائے کہ اس نے کچھ حقوق دوسروں کے غصب کر رکھے ہیں یا اس پر کچھ مالی حقوق فقراءکے حوالے سے واجب الادا ہیں یا بعض اعمال میں اسے شبہ لاحق ہو جائے۔اس کے حلال و حرام کی تمیز نہ ہو رہی ہو، شادی کے بارے ایسے شبہ ہو کہ جس سے اس نے شادی کی ہے وہ شرعاً جائز ہے یا نہیں ہے تو اس کی درستگی امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے کرنا بھی اس پرواجب اور لازم ہے اور امام علیہ السلام کے ظہور کے بعد خود امام علیہ السلام کی جانب سے اس شخص کو آگہی دے دینے کے بعد اس کی روشنی میں عمل کرنا ضروری ہوگا۔
اصلی اورواقعی احکام کے مطابق فیصلے دینے سے کیا مقصودہے؟
یہ بات کہی جاتی ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت ظاہری جس پر قائم تھی جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا کہ اصلی اور واقعی احکام کے مطابق فیصلے دینے میں کچھ مسائل درپیش ہوں گے توحضرت امام مہدی علیہ السلام ایسا کس لئے کریں گے؟
اس بارے میںوضاحت پیش ہے۔
۱۔ آئمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت ایسی نہیں تھی جس کا اوپر خیال ظاہر کیا گیا ہے یا جو عام طور پر تصور کیا جا تا ہے بیان ہو چکا کہ ظاہری احکام کی روشنی میں فیصلہ دیتے وقت وہ اس فیصلہ کو اصل اور حقیقت کے مطابق دینے میں موفق ہوتے تھے اور وہ فیصلہ خلاف حقیقت نہیں ہوتا تھا تاکہ یہ بات کہی جا سکے کہ باقی آئمہ علیہ السلام تو ظاہری احکام کے مطابق فیصلے دے دیتے تھے اگرچہ اصلیت اور واقعیت اس بارے کچھ اور ہی ہوتی، یعنی خلاف حقیقت فیصلہ دیتے تھے(ایساہرگزنہیں)
۲۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اہداف میں اہم ہدف اور مقصد یہ ہے کہ آپ ظلم اور جور جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کا خاتمہ کریں عدل اور حق کو لاگو کریں جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ وہ احکام اور قوانین جو پوری انسانیت کی فلاح اور بہتری کے لئے وضع کیے گئے ہیںیقینی امر ہے کہ ان کے وضع کرنے میں حتمی مصلحت کارفرما ہے جس کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں ہے اور وہ مصلحت اس واقعہ کے حوالے سے اس کی اصلیت اور حقیقت پر مبنی ہے نہ کہ اس کی ظاہری صورتحال پریعنی کسی بھی حکم کے بارے مصلحت اس واقعہ کی اصلیت اور حقیقت کے حوالے سے ہوتی ہے۔ امامعلیہ السلام اس اصلیت اور واقعیت کو سامنے رکھ کرفیصلہ دیں گے ، اسی طرح وہ مصلحت جو اس قانون بنانے میںطے شدہ تھی اسے امام علیہ السلام تحقق بخشیں گے جو امام علیہ السلام کے ظہور تک پوری نہ ہو سکے گی اگرقوانین اور احکام کی واقعی اور اصلی صورتحال کو سامنے رکھ کر فیصلے نہ دیئے جائیں تووہ فیصلے اللہ تعالیٰ کی اس مصلحت کے منافی ہوں گے جو اس خاص قانون یا حکم کے وضع کرنے میں ملحوظ تھی۔
نتیجہ
واقعیت کی روشنی میں فیصلہ صادر کرنا درحقیقت الٰہی مصلحت کو پورا کرنا ہے کہ جس کی بنیاد پر اسلامی احکام و قوانین وضع ہوئے ہیں اور اسی روشنی میں پورا عدل نافذہوگااور پورا حق ملے گا ظلم و جور اور زیادتی کی ساری شکلیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے مٹ جائیں گے ان کا نشان تک نہ رہے گا۔یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ ظاہری احکام کے مطابق فیصلے دینے سے بھی مصلحت الٰہی پوری ہوتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مصلحت الٰہی حاصل نہیں ہوتی فقط اتنی بات ہے کہ ظاہری احکام کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ ہمیں واقعیت اور اصلیت بارے علم نہیں مثال کے طور پرجب ایک واقعہ یا حالت کا جو اصلی حکم اور قانون اللہ تعالیٰ نے وضع فرمایا ہے اس کے بارے ہمیں علم نہیں ہے ہمیں جومعلوم ہے وہ ظاہری حکم ہے جو ہم نے قرآن وحدیث سے خودسمجھاہے تو ہمیں الٰہی حکم ہے کہ جو تم ظاہر میں سمجھ لو اس پر عمل کرو لیکن جب امام علیہ السلام کا ظہور ہو جائے گا اور اس وقت ایسے احکام جو ظاہری تھے اور ان پر عمل ہو رہا تھاجب ان کے بارے معلوم ہوگا کہ اصل میں حکم اور قانون اس طرح نہیں ہے جیسا کہ سمجھا گیا ہے تو اس صورت میں لازم ہوگا کہ الٰہی مصلحت کو پورا کیا جائے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ واقعی اور اصلی احکام وہی ہیں اور جب یہ معلوم ہو جائے گا کہ ظاہری احکام پر جب عمل ہو رہا تھا وہ واقعی اور اصلی احکام کے خلاف ہیں تو پھر ان پر عمل کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا، کیونکہ ظاہری احکام کو جو حیثیت ملی ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ اصلی احکام کا پتہ نہ تھا، جب پتہ چل گیا تو پھر ظاہری احکام بے حقیقت ہو گئے۔
حکم ظاہری اور حکم واقعی کی مثال
شوہر اور بیوی کا رشتہ ظاہر میں قائم تھا دونوں کو علم نہ تھا کہ وہ اصل میں رضاعی بہن بھائی ہیں اور ان کا نکاح جائز نہیں ہے جب اصلیت کا علم ہو جائے تو پھر ان دونوں کاایک لمحہ کے لئے اکٹھارہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا جب امام علیہ السلام اپنے علم کی وجہ سے فیصلہ صادر کردیں گے کہ یہ دونوںآپس میں بہن بھائی ہیں تو پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیںگے تو اسی صورت میں امام علیہ السلام کا فیصلہ ظاہری حکم نہیں ہے بلکہ واقعی اور حقیقی حکم ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے۔
|