حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

ثقافتی تیاری
ثقافت کے متعلق جب بات ہوتی ہے توبعض دفعہ کتابی ثقافت کی جاتی ہے بعض دفعہ کپڑے سازی کی ثقافت ، بعض معاشرہ میں رسومات و رواج و عادات کی ثقافت ۔ آج کل کتابی ثقافت کمزور پڑ گئی ہے۔ اس کا اثر کم ہے کیونکہ کتاب کے قاری کم ہو گئے ہیں اس کے کافی سارے اسباب ہیں ۔ان میں ٹیلی کمیونیکیشن کا جدید نظام، ویڈیو، انٹرنیٹ، ویب سائٹس، کمپیوٹر ان کے روزگار میں اس قدر مصروف رہتا ہے کہ کتاب پڑھنے کا وقت نہیں بچتا یا پھر اتنی پیچیدہ بیماریاں آ چکی ہیں کہ ان کے علاج میں لگا رہتاہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ مختلف وسائل اور ذرائع سے کتاب کے مطالعہ کا شوق دلایا جائے، اسلامی کتب کی معاشرہ میں طلب بڑھائی جائے، جدید طرز تحریر،دلچسپ تحریریں، زندہ موضوعات پر تحریریں، طباعت کی عمدگی، اختصار، بہر حال کتاب خوانی کا عمل معاشرہ میں ختم نہ ہونے دیا جائے۔
رائٹرز حضرات سے گزارش ہے کہ وہ اس بات کا لحاظ رکھیں کہ کتاب قاریوں کی تعداد کم ہے ، تالیف اور تصنیف کے انداز میں تبدیلیاں لے آئیں ایسا انداز اپنائیں کہ وہ قاری کو کتاب کی اہمیت کا قائل کر دے، موضوعات میں اختصار پیش نظر رکھا جائے، علمی مطالب بیان کرتے وقت ایسی حکایات درج کی جائیں جن سے قاری کی دلچسپی بڑھ جائے۔ ایسے موضوعات کو چھیڑا جائے جو لوگوں کے روزہ مرہ مسائل سے مربوط ہیں یا ایسے موضوعات زیر بحث لائے جائیں جن سے بیماریوں کو کو دور کر دیں انہیں خطرات سے بچائیں یا ان کے لئے معاشی مسائل کا حل پیش کریں۔
ایسے مطالب جو اسلامی عقیدہ کو مضبوط بنا دیں اور اہل البیت علیہ السلام سے مودت و محبت کو مستحکم کریں اسی طرح علمی اور سائنسی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جو انسان کے ذہن کی تقویت میں معاون ہوں اور سائنسی میدانوں میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے آگہی ہو مختلف میدانوں میں سائنس نے انسان کی فلاح کے لئے جو کارنامے انجام دیئے ہیں اس سے آگہی حاصل کرے۔خاص کر ایسے مقالات جن سے علیہ السلام میں مدد ملے ان کا مطالعہ کیا جائے نئی ایجادات سے آگہی لی جائے ایسے امور سے آگہی حاصل کی جائے جو معاشرہ کی اصلاح اور تربیت میں خلل ڈالتے ہیں معاشرہ اور اجتماع میں فضاءاور ماحول کو آلودہ کرنے والے لٹریچر سے آگہی حاصل کی جائے اور اس کا توڑ کیا جائے تاکہ اس صاف ستھرے انسانی ماحول کو بنایا جاسکے۔
اس جگہ حضرت قائم علیہ السلام کی حکومت کے لئے ثقافتی علیہ السلام کی بات ہو رہی ہے وہ حکومت جو پورے کرہ ارض پر ہوگی مختلف تہذیبوں، تمدنوں اور مختلف زبانوں، مختلف خطوں میں قائم ایک ہی حکومت ہو گی ایک سائنس دان جو ایٹمی رازوں سے واقف ہے اور دوسرا عام جاہل ان پڑھ ہے ان دونوں کے درمیان میں لمبا فاصلہ ہے ذہنی دوری ہے اور دونوں انتہاﺅں کے درمیان مختلف اذہان رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے، اس وجہ سے ہم اس وقت نہیں جانتے کہ اس حکومت میں کیا موقعیت بنے گی اور اس تجارت کا خاتمہ کیسے ہوگا اور اس حکومت میں ہر فرد کی کیا ذمہ داری ہو گی پھر یہ ذمہ داری ثقافتی ہو گی، عسکری ہو گی، سیاسی ہو گی، لیکن ایک بات ضروری ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کو چلانے والے ہوں گے جو انسان ہو وہ خیالی رول ادا کر رہے ہوں گے ان کے لئے کوشاںرہے کہ وہ اسلامی ثقافت سے آراستہ ہوں اور پھر یہ بھی ایک طے شدہ امر ہے اور اس کے آثار نمایاں ہیں کہ حضرت کے ظہور سے پہلے ثقافتی جنگ ہو گی جو عسکری جنگ سے زیادہ خطرناک ہے تہذیبوں کا ٹکراﺅ ہونا ہے اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے ہر تہذیب کی خوبیاں اور مختلف تہذیبوں میں خامیوں کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے اگر خوبیاں لے لی جائیں اور خامیوں کو نکال دیا جائے تو ایک بہترین انسانی تہذیب تسلسل پا جائے گی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا خاصہ یہی ہوگا کہ اس میں انسانی قدریں پروان چڑھیں انسانی ثقافت کو عروج ہو، غیر انسانی ثقافتی شو ختم ہو جائے عدالت کا نفاذ اس حکومت میں ہونا ہے، عدالت کی نشرو اشاعت ثقافت کے وسیلہ سے ہی ہو گی ایسی قوم میں عدالت کا نفاذ کہ جس کی کوئی ثقافت نہیں ہے جاہل اجڈ ہیں، ان کا استحصال ہی ہو گا اقوام پر جبر ہو گا ایسے احکام اور قوانین ان پر لاگو کر دینا کہ جن سے وہ آشنا ہی نہیں ان کے صحیح اور غلط ہونے سے وہ واقف نہیں خاص کر ایسے علاقوں میں جو اسلامی تہذیب سے کوسوں دور ہیں انہوں نے اسلامی ثقافت کا کچھ دیکھا ہی نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی آداب اور تعلیمات سے واقف ہیں اور اس خطہ میں امام علیہ السلام اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے وارد ہوں گے تو یہ کیسے ہوگا؟ ظاہر ہے کہ امام علیہ السلام کی آمد سے پہلے دنیا بھر کی تہذیب کو قریب کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ اسلامی تہذیب کو دوسری تہذیبوں کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور پھر اس کی نشرواشاعت بھی کرنا ہوگی تاکہ امام علیہ السلام کی حکومت کے قیام سے پہلے انسانی ذہن اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب کی خوبیوں سے آگاہ ہو چکا ہو اور اس کو اپنانے کے لئے اس میں آمادگی موجود ہو یہ بہت ہی اہم کام ہے اس حوالے سے ہمارے لئے لازم آتا ہے کہ ہم اس موضوع کی مناسبت سے کتابوں کا مطالعہ کریں جو ہمیں اس قابل بنا دیں کہ ہم ثقافتی میدانوں میں علیہ السلام کر سکیں۔

قیادت کرنے والے لیڈر کی ثقافت
یہ علیہ السلام آخری اور مطلوب ہدف نہیں ہے جیسا کہ معاشرتی ثقافت کے حوالے سے بات ہو گی بلکہ یہ علیہ السلام کا ایک مرحلہ ہے اور ثقافت کی نشرواشاعت کے لئے ایک قدم ہے ہماری مراد یہ ہے کہ افراد میں سے ایک ایسی تعداد موجود ہونی چاہئے جس میں تمام ثقافتی اور علمی صلاحیات موجودہوں جو انہیں مستقبل میں بننے والی حکومت میں ذمہ داریاں ادا کریں گے یہ علیہ السلام بغیر پلاننگ اور منصوبہ بندی کے نہ ہو بلکہ اس میں افراد کا چناﺅ کیا جائے اور انہیں مختلف ذمہ داریوں کی تربیت اور ٹریننگ لینی چاہیئے۔
جیسے ایک ایڈمنسٹریشن میں مہارت حاصل کرے تو ایک میدان میں اعلیٰ ڈگری رکھتا ہو تو ایک انتظامیہ میں بڑی ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس طرح ہر حکومت میں مختلف ادارہ جات کے لئے مختلف پوسٹیں مختص کی جاتی ہیں اور پھر ان پوسٹوں کے لئے افراد کو خاص شرائط کے تحت تربیت کیا جاتا ہے تو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کو بھی اس سب کی ضرورت ہو گی تو اس حکومت کے کام کرنے کے لئے جہاں پر مخصوص ذمہ داری کے لئے یہ ضروری ہے اس کے ساتھ اس کی اسلامی ثقافت کے لحاظ سے بھی تربیت ہو گی وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اس کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
افراد کی سطح پر بھی اور حکومتی سطح پر بھی یہ کام آسان بھی نہیں ہے اس کا دائرہ وسیع بھی ہے اور اس کا تربیتی مرحلہ سخت بھی ہے اس لیڈر سازی کا عمل ظہور کے مرحلہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ان سے معاشرہ کو تہذیب ....اور ان کے اندر اسلامی شعور پیدا کرنے اور انہیں اسلامی تہذیب و تمدن سے آگہی دینے کے لئے بھی کام لیا جائے گا۔
اس سے مراد یہ بھی نہیں کہ ہمیں کوئی خاص جگہ مختص کر دیں اور اس میں کیڈٹ کالج بنا کر یہ کام شروع کریں بلکہ اس کام کو معاشرہ کے اندر رہ کر کرنا اس کے لئے کوئی الگ سے سلسلہ بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ بات ہدف کے حصول میں رکاوٹ ہو گی بات یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت میں حکومتی اداروں کو چلانے کے لئے ....سے لے کر ایک یونین کونسل کی سطح تک ہر جگہ دفاتر ہیں ، عملہ ہے، مدیر ہیں، افسر ہیں ، کلرک ہیں ایک ضلع کو لے لیں تو جو افراد خود کو امام زمانہ (عج) کی حکومت کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے تو وہ مخلف مراحل میں اور مختلف پوسٹوں کے لئے اپنے اندر قابلیت پیدا کریں اور جس معاشرہ میں رہتے ہیں اور جن چیزوں میں کام کرتے ہیں ان میں موجود رہیں اور اپنی اخلاقی خوبیاں اجاگر کریں معاشرہ سازی میں اور اچھا ماحول بنانے میں کردار ادا کریں کیونکہ معاشرہ کی اصلاح ہی اہم مرحلہ ہے اس عالمی اسلامی حکومت یعنی جب امام علیہ السلام کاظہور ہوگا تو ہر شخص کواس کی قابلیت، مہارت، کی مناسبت سے اس ذمہ داری پوسٹ پر بٹھایاجائے گا اس کے لئے علیہ السلام پہلے کرناہے اور جو اس نیت سے علیہ السلام کرتا ہے ایک اچھا ٹیچر، اچھا ایڈمنسٹریٹر، اچھا پروفیسر،اچھا ڈائریکٹر،اچھا سیکرٹری، اچھاکمپوزر، اچھا ویب سائیٹ ڈیزائنرہے حضرت امام مہدیعلیہ السلام کی حکومت کام کرنے کے لئے اپنے اندر ساری صلاحیات پیدا کرنا ہیں اور اس انتظار میں رہنا ہے کہ اگر اسے موت آجاتی ہے تو اسے اس کا اجر ملے گا اور جس شدت سے اس کی انتظار ہو گی اس کی نیت کے مطابق اسے قبر سے دوبارہ اٹھایا جائے گا جب کہ روایات میں آیا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت چلانے والے جو بڑے افراد ہوں گے جنہوں نے روئے زمین کے مختلف خطوں میں جا کر ذمہ داریاں لینا ہیں ان کی تعداد ۳۱۳ ہو گی اور وہ سب ایک جگہ سے نہیں ہوں گے، آسمانی آواز پر وہ سب مکہ میں اکٹھے ہو جائیں گے اور وہی پہلا گروپ ہو گا جو امام زمانہ علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرے گا یہی امام علیہ السلام کی سینٹ ہو گی آپ کے خاصان ہوں گی۔
جی ہاں! اس جگہ جو مشکل امر ہے وہ یہ ہے کہ ان باصلاحیت افراد کی تربیت کی ذمہ داری ان پر ہے جو ہم بات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر معاشرہ ، زمین کے تمام خطوں کے اندر اس بارے کام ہونا چاہئے ہر ملک میں، ہر شہر میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو اس ذمہ داری کو نبھائے اور اس ثقافت کو کچھ افراد میں عام کریں کہ وہ اس ہدف کو پا سکیں اللہ تعالیٰ ان کا مدد گار ہے جو ایمان لے آئے ہیں اللہ کی ذات پاک ہے۔

معاشرہ، قوم، اجتماع کی ثقافت
کسی بھی قوم کی ثقافت، سوسائٹی کی ثقافت بہت اہم ہے اور قومی ثقافت ہی ہمارے امام پر ہزاروں جانیں قربان کرنے کی تمنا اور آرزو ہے پورے عالم میں عدالت پھیلانے میں اس کا بنیادی کردار ہے اور یہی اصلی شرط ہے کیونکہ وہ حکومت عدل کی حکومت، علم کی حکومت، ثقافت کی حکومت ہو گی ، تہذیب و تمدن کی حکومت ہو گی ایسی حکومت ہو گی جس میں حقیقی علم پھیلایا جائے گا۔ ہمارے امام منتظر علیہ السلام کے وسیلہ سے، بعد میں امام علیہ السلام کے علم اور آپ علیہ السلام کے اصھاب کے علم بارے بات آئے گی۔
امام علیہ السلام سے یہ علم سب لوگوں کی طرف منتقل ہو گا مرد اور عورت کی تفریق نہ ہو گی بوڑھے اور جوان کا فرق نہ ہو گا یہ بات اس نظریہ کو تقویت دیتی ہے کہ ثقافت کسی ایک معین گروہ اور طائفہ کی نہیں ہوتی اور نہ ہی چند افراد کو ثقافت کی تعلیم دی جائے بلکہ تمام لوگوںکو تعلیم یافتہ کیا جائے، جہالت کا خاتمہ کیا جائے سب کو تہذیب سکھائی جائے سب کو متمدن شہری بنایا جائے معاشرہ کے تمام طائفہ اور گروہوں سے جہالت کا خاتمہ کیا جائے۔اگر ہم ایک بستی میں داخل ہوں اور اس میں آدھے بچوں کی تربیت کریں، انہیں تعلیم دیں اور باقی کو ہم نے ایک سال کے لئے چھوڑ دیا تو ہم نے اس بستی میں جن بچوں کو تعلیم دی جنہیں تربیت دی ، آداب زندگی تعلیم دیئے، اچھی عادات سکھائیں وہ بچے گھر میں گلیوں میں کوچوں میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلیں گے تو ان بچوں کی جو بری عادات ہیں وہ ان میں سرایت کر جائیں گی اس طرح ہم اس بستی میں جو عملی اور ثقافتی انقلاب لانا چاہتے تھے اس میں ناکام ہو جائیں گے لہٰذا ہم سب کے بچوں کے لئے مساوی تعلیم کا نظام اپنا کر سب کو تہذیب یافتہ بنائیں سب کومثقف بنائیں سب کو تعلیم دیں اس میں فرق نہ کریں۔
جو شخص اپنے بچوں کی اچھی تربیت چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ کے بچوں کی تربیت کا بھی انتظام کرے اگر ہم لیدڑ اور قیادی افراد کی تربیت کر رہپے ہیں، مردوں میں کام کر رہے ہیں پھر ایک تربیت یافتہ کی شادی ایک غیر تعلیم یافتہ لڑکی سے کرتے ہیں تو ظاہر ہے اس کے ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کیونکہ جوعورت اس کے گھر میں آئی ہے اور وہ اسلامی تعلیمات سے واقف نہیں ہے اسلامی آداب سے آراستہ نہیں ہے تو وہ ایک مثالی گھرانہ نہیں بنا سکتی اور نہ ہی اولاد کی اچھی تربیت کر سکتی ہے آپ اگر اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو آپ کو اس بارے بہت ساری مثالیں مل جائیں گی۔
اس عورت نے یہ سیکھا نہیں کہ وہ شوہر کے ساتھ کیسے رویہ اپنائے اور اس کے حقوق کیا ہیں اور شوہر کے حقوق کیا ہیں اسے اس کا علم ہی نہیں اولاد کے حوالے سے ذمہ داریاں کیا ہیں اسے کچھ پتہ ہی نہیں تو وہ عورت تربیت یافتہ لیڈر اور قیادتی افراد پر منفی اثراب چھوڑے گی۔
یہ بات ہمارے اوپر اس امر کو روشن کر دیتی ہے کہ اسلامی ثقافت کی اہمیت کیا ہے اور یہ کہ اسے عام ہونا ہے اور معاشرہ کے ہر فرد کو تعلیم یافتہ بنانا ہو گا سب کو تہذیب یافتہ کرنا ہوگا سب افراد پر کام کرنا ہوگا تب ہی ان میں اعلیٰ صفات کے حامل افراد بڑی ذمہ داریوں کے لئے تیار ہو کر باہر آئیں گے ایسے افراد جو ایک زمین پر رہائش پذیر ہیں اور ایک آسمان تلے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں، ایک دوسرے سے واقف ہیں، اللہ تعالیٰ کاسورہ حجرات آیت ۳۱ کا فرمان اسی طرف اشارہ ہے ”وَ جَعَل ±نا کُم ± شُعُو ±باً وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُو ±ا اِنَّ اک ±رَمَکُم ± عِن ±دَاللّٰہِ اَت ±قَاکُم ±“
”ہم نے تمہیں اقوام، قبائل میں قرار دیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو اور تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہوگا“۔
تعارف معرفت سے ہے اور یہ ایک دوسرے سے رابطہ میں رہنا ہے ایک دوسرے سے آگاہ ہونا ہے ہر ایک اپنی ثقافتی ، تہذیبی، اجتماعی، سیاسی، علمی معلومات دوسرے تک پہنچائے، ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں تمام میدانوں میں کرامت اور بزرگی تقویٰ کے مصادر پر ہے جتنا تقویٰ زیادہ ہوگا اتنا ہی اس تہذیب و تمدن کا مقام زیادہ ہوگا۔

معاشرہ کو مثقف بنانے کا طریقہ
ہم معاشرہ کے تمام گروہوں اور اقوام بارے ایک خاص پروگرام تربیت اور ثقافت کے حوالے سے دے سکیں ایک تو یہ بات ہے کہ لوگوں کی علمی اور ذہنی و فکری پہنچ مختلف ہوتی ہے یا فراغت کے اوقات مختلف ہیں کوئی صبح کو فارغ ہے تو کوئی دوپہر کو، کوئی دوپہر کو فارغ نہیں شام کو فارغ ہے کوئی شام کو فارغ نہیں رات کو فارغ ہے ۔ہر کسی کے پاس وقت کم ہے اور کسی کے پاس ثقافتی طریقہ کار مختلف ہیں کسی کو ایک رویہ پسند ہے کسی کو دوسرا طریقہ پسند ہے، تبلیغ کے انداز مختلف ہیں، کوئی قرآنی آیتوں کو پسند کرتا ہے، کوئی ناول کے انداز کو چاہتا ہے، کوئی اختصار چاہتا ہے کوئی تفصیل مانگتا ہے جو حضرات ان کاموں کے درپے ہیں ان پر ہے کہ وہ اس کا جائزہ لے کر اپنے تعلیمی، تربیتی ،تبلیغی ، ثقافتی پروگرام تربیت دیں کچھ دروس رات کو ہوں تو کچھ دن کو ہوں چھٹیوں کے ایام میں ہو، ہر گروہ کو ان کی پسند کے اوقات اور پسند کے انداز سے تربیت کا اہتمام کیا جائے گھرانوں اور خاندانوں کے پاس ملاقات کے لئے جانے والے اساتذہ کرام ، علماءعظام کے تجربات میں بات آئی ہے اور طریقہ انتہائی موثر اور مفید رہا ہے کہ جب کسی گھر میں ایک عالم دین یا ایک اخلاق کا مربی جاتا ہے ان سے پہلے ہم آہنگی کر کے جائے اچانک نہ جائے ۔
پہلے تو باپ، بیٹے، بیٹی، بیوی کو گھرانے کے افراد سے تعارف ہوتا ہے پھر ان کے مادی اور روزگار کے بارے سوال کرے پھر ان کی صھت کا پوچھے پھر ثقافتی امور کی جانب سوالات بڑھا دے ان میں اہم کو پہلے نمبر پر لے آئے جیسے پاک دامنی کے بارے سوال کرے ،پردہ کے بارے سوال کرے پھر اہم واجبات کی پابندی بارے نماز پڑھنے کے بارے، روزہ رکھنے، اسی طرح آداب کے بارے، مستحبات کا سوال کرے، سلام کرنا، مریض کی عیادت کے لئے جانا، رشتہ داروں کی ملاقات کے لئے جانا، ہمسایوں کے بارے خیال رکھنا نماز باجماعت دعا زیارت ۔
اسی طرح شروع میں بچوں کی تعلیم بارے ،تعلیم میں ان کے درجات اگر ہو سکے تو اس ملاقات میں ایسا وقت رکھے کہ تعارفی پروگرام کے بعد نماز باجماعت ان کے گھر میں ادا کرے تجربہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب ایک عمامہ پوش شخص کسی گھر میں وارد ہوتا ہے توصاحب عمامہ بچوں کو اپنے قریب بٹھائے اور ان سے علیہ السلام کے چھوٹے چھوٹے سوال کرے اور وہ سوال کریں تو ان کا بڑے پیارے انداز سے بچوں کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر جواب دے ایک گھر کے اندر جا کر ان سے جس اپنائیت کے عالم میں ایک عالم بیٹھا ہوتا ہے اور ا س سے سوال و جواب ہوتا ہے اور اس کے مثبت اثراب اس گھرانے کے سارے افراد پر پڑتے ہیں یہ کام مسجد اور امام بارگاہ میں نہیں ہو سکتا اگر ہم یہ کہیں کہ یہ سارے لوگ امام بارگاہ میں آتے ہیں تو یہ بھی درست نہیں بلکہ آنے والوں کی تعداد کیا ہوگی مثلا ایک بستی میں بارہ ہزار افراد ہیں تو دو سو افراد مسجد یا امام بارگاہ میں آجائیں گے مجالس عزاءمیں پانچ سو آجائیں گے ایک ہزار آجائیں گے۔
یہ معاملہ بہت ہی خطرناک ہے، جو لوگ امام بارگاہ میں آتے ہیں اگر اس میں سوفیصد شریک ہو تو پھر بھی وہاں سے جس قدر تربیت لیتے ہیں تو اس کی پیش رفت بہت کم ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح ہے کہ جو فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس پر عمل پیرا کتنے ہوتے ہیں تو ان کی تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے جب کہ ایک گھر میں جا کر اس پیغام کو دینا تو ا سکے اثرات بہت ہی مختلف ہیں پھر مسجد اور امام بارگاہ میں آنے والے ایک قسم کے یا دوتین قسم کے سوالات کا جواب حاصل کر پاتے ہیں ایک آدھ بات تربیت کے حوالے سے لیتے ہیں جیسے وہ قاری، خطیب ، ذاکر، مولوی پیش کرتا ہے اور وہ مختصر وقت میں جو آدھ گھنٹہ ہوگا یا کچھ اس سے زیادہ۔
جب کہ گھروں میں جا کر یہ کام کرنا اگر منصوبہ بندی کے ساتھ ہو تو اس میں ایک موضوع محدود نہیں ہوتا وقت بھی محدود نہیں ہوتا بعض دو دو گھنٹے بغیر کسی اکتاہٹ کے جاری رہتا ہے۔جی ہاں! گھروں میں جا کر تبلیغی عمل کو انجام دینے کے بعد جو طریقہ موثر اور مفید ہے وہ شب بیداریاں ہیں خاص کر گھروں کے اندر جو شب بیداریاں منعقد ہوتی ہیں جن میں بہت سارے رشتہ داروں کو اس گھر والے بلالیتے ہیں تو اس موقع پر بھی فائدہ اٹھایا جا سکتاہے۔
(اس بیان کا ماحصل یہ ہے کہ امام زمانہ(عج) کی حکومت کے لئے ہر میدان میں افراد کی علیہ السلام کرنا ہے، اس کے لئے اسلامی تعلیمات، اسلامی آداب، اسلامی تہذیب عام کرنا ہوگی اس کے لئے مبلغین ، علمائ، ذاکرین، معلمین تربیت دینے والے افراد بہت کام کر سکتے ہیں اس کام کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ مجلس کا ہے، مجلس میں درس کا ہے۔ دوسرا طریقہ کسی گھر میں، بیٹھک پر کھلی مجلس منعقد کرنے کا ہے مجلس کے بعد جو عالم دین کسی گھر میں ایک رات ٹھہر جاتا ہے تو اس کے ساتھ جو لوگوں کی نسبت ہوتی ہے سوال و جواب مختلف حوالوں سے ہوتے ہیں تو یہ اندازتبلیغ میں انتہائی ہے اور بہت اچھاہے یہ بات خود ہمارے تجربہ میں بھی آئی ہے اور خاص مناسبتوں میں اس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے اسی طرح گھر میں دعا ئے توسل، حدیث کساءکی نسبت بھی انتہائی موثر ہے کہ اس کے بعد لوگوں کو قریب سے عالم کے پاس بیٹھ کر بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے اسی طرح عالم دین اپنے علاقہ میں مریضوں کی عیادت کے لئے جائے، اس کی خوشی غمی میں شریک ہو، جن کی میت ہوئی ہے ان کے گھر پرسہ کے لئے پہنچے پھر یہ پیغام ہدایت پہنچانے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ۔ خلاصہ تبلیغ کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور ہر انداز اپنایا جائے یہ آج کے دور کی اہم ذمہ داریوں میںسے ہے....ازمترجم)

ثقافت پرعورتوں کے اثرات
البحار میں النعمانی سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوجعفر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں تمہارے اس دین کو دیکھ رہا ہوں پس ماندگی کا انتظار رہے گا، خونی مصر کے ہوں گے، یہاں تک کہ ہم اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد آئے گا جو اس دین کو دوبارہ تمہارے لئے لائے گا ان کے اقتدار میں سال میں دو بونس ملیں گے، مہینہ میں دو دفعہ تنخواہیں ملیں گی ان کے زمانہ میں تمہیں حکمت دی جائے گی یہاں تک کہ ایک عورت گھر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلے دے گی۔
(غیبة نعمانی ص۲۱بحارالانوارج۲۵ص۲۵۳، باب ۷۲ذیل ۶۰۱)
اس بات پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ تبلیغ اور ثقافت کی نشرواشاعت میں بہت زیادہ عورت کا کردار ہے کیونکہ اس کے گھروں اور خاندانوں میں رفت و آمد آسان ہوتی ہے اور وہ مردوں سے زیادہ وقت دے سکتی ہے۔عورت کے لئے بھی مرد کی طرح تعلیم یافتہ، مہذب ہونا، تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے، اس پر بھی واجب ہے کہ وہ تعلیم کے لئے ، تربیت کے لئے وقت دے۔ شرعی احکام جو خواتین کے کام کے بارے ہیں ان کا لحاظ رکھتے ہوئے خواتین میں بھی قابل عنصر کی تربیت اور لیڈرسازی کی ضرورت ہے، اس کی پاک دامنی ، حجاب، شوہر یا باپ سے اجازت لینا، اس کے کام کرنے میں شرط ہے اور یہ کہ تبلیغی عمل کی وجہ سے گھر کے مسائل اور اپنی اولاد کی تربیت میں خلل واقع نہ ہو، بعض ثقافتی امور فقط خواتین سے مخصوص ہیں جیسے اولاد کی تربیت کی ثقافت، گھر سے معاملات چلانے کی ثقافت، شوہر کے ساتھ برتاﺅ کی کیفیت کی ثقافت یہ وہ امور ہیں جن پر توجہ دی جاتی ہے ان میں بنیاد عورت ہے پس اس کی تربیت کرنا ضروری ہے اسے بعینہ آگہی دینا ضروری ہے تاکہ معاشرہ کی تربیت اور اس کے سنوارنے اور مہذب بنانے میں عورت اپنا کردار ادا کر سکے یہ امور جو عورت سے مخصوص ہیں یہ ایک معاشرہ کے لئے بنیادی ستون ہیں ان امور میں جو اولاد کی تربیت کے متعلق ہیں وہ سب پر مقدم ہیں۔ عورت نے ایک اچھی نسل تربیت کر کے معاشرہ کودینی ہے۔
امت کے لئے مستقبل کی قیادت عورت کی گود سے پروان چڑھتی ہے، پس اس امر پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے پروگرام تربیت دینا ہوں گے۔
بعض تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سارے مواقع پر جو ازدواجی زندگی میں خلل واقع ہوتا ہے اس کا سبب عورت کا غیر تربیت یافتہ ہونا ہوتا ہے ازدواجی زندگی کے بارے عورت اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب سے بے بہرہ ہوتی ہے اور بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں کہ معاملہ طلاق تک جا پہنچتا ہے اور ہم نے اپنی کتاب فاطمہ علیہ السلام بنت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ”قدوة النسائ‘ میں تفصیل دی ہے۔

مغربی ثقافت سے خبرداررہنا
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا بنیادی کردار یہ ہو گا کہ اس میں اسلامی ثقافت واپس لوٹ آئے گی استعماری ثقافت کا خاتمہ ہو جائے گا اسلامی تعلیمات کی دشمن استعماری و سامراجی طاقتیں غیر انسانی استعماری ثقافت کو اسلامی ممالک اور اسلامی دنیا میں پھیلانے پر لگے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” یَاَیُّھَالَّذِی ±نَ اَمَنُو ±ا س ±تَجِی ±بُو ±اللّٰہِ وَلِلرَّسُو ±لِ اِذَا دَعَاکُم ± لِمَا یُح ±یِی ±کُم ±“(سورہ انفال آیت ۴۲)اے وہ لوگ جو ایمان لا چکے تم اللہ اور اللہ کے رسول کے اس پروگرام کو قبول کرو کہ جس پر عمل کرنے میں تمہاری زندگی ہے“۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاءعلیہ السلام اور رسولوں علیہ السلام کو اس لئے بھیجا تاکہ وہ انسانوں اور اقوام عالم کو زندگی دیں انہیں مُردگی سے باہر نکالیں جو انبیاءعلیہ السلام لے کر آئے وہ عوام الناس کے ساتھ مربوط تھا ایسی تعلیمات لے آئے کہ انسان کا تعلق اس کے مجمع اور سوسائٹی سے اور اس کا تعلق اپنے بھائی سے، اپنے بیوی سے، اپنے باپ سے، اپنی ماں سے، اپنی بہن سے، اپنی بیٹی سے، اپنے بیٹے سے، اپنے دوست سے، اپنے ہمسایے سے، اپنے استاد سے، اپنے شاگرد سے، اپنے قائد سے کیسا ہونا چاہئے؟وہ ان روابط کو اچھا اور خوبصورت دیکھنا چاہتاہے اور ان روابط کی بنیاد کو وہ محبت کی بنیاد پر استوارکرتاہے۔
اسلام کے شرعی احکام، اسلامی آداب، فضائل، اچھائیاں ، نیکیاں یہ سب کچھ انسان کے ضمیر اور وجدان کو جگانے کے لئے ہے اور دنیا اور آخرت میں بہترین زندگی حاصل کرنے کے لئے ہیں دنیا دارالعمل ہے اور دارالاخرة جو ہے وہ دارالثواب ہے دارالاجر ہے۔اسلام نے یہ حکم جس کا تعلق انسان کی سعادت سے ہے چاہیئے وہ قانون ہو ، ادب کی بات ہو، جو انسان کی زندگی اور اس کے حالات سے متعلق ہے اس سب کو بیان کیا ہے اور اسے بہترین اسلوب، بہترین انداز اور پوری دقت اور باریک بینی سے بیان کیا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ خود اس انسان کے لئے ، اس کی ذات کے لئے ، اسکے اہل و عیال کے لئے یا اس کے معاشرہ اور اس کی سوسائٹی کے لئے ہے۔
قرآن کریم ، نبی اکرم، اہل البیت علیہ السلام نے ہمارے لئے بہت ہی ثروت مند ثقافت دی ہے، ایسی عادات ہیں جن کو اپنانے سے ہمارے نفوس زندہ ہو جاتے ہیں اس کے لئے یہ ثقافت ایک نور سے جس کی روشنی میں یہ انسان چلتا ہے لوگوں کے درمیان اس مشعل کے سہارے زندہ ہے،اس تہذیب کی کوئی زندگی نہیں جس کی اپنی ثقافت نہیں وہ مردہ ہے، چلتی پھرتی لاش ہے ۔
اسلام نے بیان کر دیا ہے یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان اصولوں پر عمل کرے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کے امور کو منظم کرے لیکن انسانیت دشمن اور ہر زمانہ کے سرکش و خودسر حکمرانوں نے انسانیت دشمن ثقافتیں متعارف کروائی ہیں اور بری عادات اور روایات کو عام کیا ہے اور ان غیر انسانی اخلاقیات کو اسلامی ممالک میں لے آئے ہیں تاکہ قرآن، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اہل بیت علیہ السلام کی سیرت کے مدمقابل انسان دشمن ثقافتوں کو متعارف کروائیں اور عوام میں اسے لاگو کروائیں۔
بہت سارے لوگ ان کے ساتھ چل پڑے ہیں وہی گندی عادات اور حیوانی لغزشیں اپنا لی ہیں اور اس بڑی مصیبت کے عام کرنے میں دشمن کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا ہے حالت ہماری یہ ہے کہ جب ہم کوئی خوبصورت چیز دیکھتے ہیں یا غیر معمولی حالت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے لکڑی خام لکڑی لے آئے ہیں تاکہ ہم اس پر کام کریں اور اسلامی ثقافت کو ہم چھوڑ دیتے ہیں جو ثقافت ہماری یہ تربیت کرتی ہے کہ پڑھو”اللھم صل علی محمد وآل محمد“ جو ہمیں کہتی ہے کہو ماشاءاللہ، سبحان اللہ، اللہ اکبر۔
اسلام نے جو ثقافت اور تہذیب انسان پر لازم قرار دی ہے تو وہ ثقافت ایک دوسرے کے کام آنے ایک دوسرے کی ہمدردی کرنے کی ثقافت ہے اچھا برتاﺅ کرنا، ایک دوسرے کی ملاقات کے لئے جانا، جب ملنا تو پہلے سلام کرنا، مصافحہ کرنا ایک دوسرے کی بھلائی چاہنا ایک دوسرے کی مشکلات حل کرنا، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنا،لیکن اس کے مقابل میں انحرافی ثقافت لائیں جس کی بنیاد ہے کہ سب سے پہلے اپنے بارے سوچ کرو، اس تہذیب کی بنیاد خود پسندی ہے، اپنی ذات کے گرد سب امور گھومتے ہیں، مغربی انحرافی عادات اپنا لی جاتی ہیں جس میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مفادات کے گرد گھومنا شروع کر دیتا ہے، شوہر بیوی ، اولاد والدین، ہمسایے، دوست، احباب، رشتہ دار، حاکم، محکوم غرض تمام تر تعلقات کا مرکزی نقطہ انسان کی اپنی ذات بن جاتی ہے۔ سلام کا رواج ختم ہو رہا ہے، ہمسایہ کی احوال پرسی ختم ہو رہی ہے بلکہ ہمسایہ کا یہ تک نہیں پتہ کہ میرا ہمسایہ کون ہے؟ماں باپ بوڑھے ہو گئے ان کی خدمت کی بجائے انہیں اولڈ گھر پہنچا دیا جاتا ہے اور کرایہ کے خدمت گذار ان کے لئے مقرر کر دیئے جاتے ہیں ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ باپ بیٹے کا اختلاف، بھائی سے بھائی کا اختلاف، شوہر بیوی کا اختلاف ، چچا بھتیجے کا اختلاف، پھر یہ اختلافات ایسے وسیع ہو جاتے ہیں کہ مرتے دم تک ختم نہیں ہوتے یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے انسانی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے شاگرد، استاد کا احترام نہیں کرتے یہ سب کچھ ہمارے معاشرہ میں ہو رہا ہے۔ اورہمارے ماحول میں یہ آگیا ہے، اس نے ہمارے نفوس پر اپنے اثراب چھوڑے ہیں، جس وجہ سے ہم بہت ساری نعمتوں سے محروم ہو چکے ہیں، کیونکہ جونعمتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لئے رکھی ہیں ان سے ہم محروم ہو جاتے ہیں۔
اے انسانو! ہم ہیں جنہیں یہ دعوت دی گئی ہے کہ انسان کی انسانیت کو زندہ کرو اپنی زندگی کو اخلاق محمدیہ اور فضائل اسلامیہ سے آراستہ کریں ان سے بھی ہمارے نفوس زندہ ہوں گے مُردگی ختم ہو گی ہمارے لئے یہ دعوت ہے کہ ہم کافروں کی عادات کو چھوڑ دیں کافروں کی ثقافت، کافروں کا لباس، کافروں جیسی شکل نہ اپنائیں۔ اسے خداوند نے ناپسند فرمایا ہے ،ناراض ہوجاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ کاروبار کرنا ان کی مصنوعات کو خرید کرنا جس سے ان کا اقتصاد مضبوط ہو یہ ہمارے لئے جائز نہیں ہے اس سے اسلام کمزور ہوتاہے۔اے مسلمانو! اسلام کا سر بلند رہنا ہے اس نے سرنگوں نہیں ہونا اسلام اللہ کے نزدیک محترم سے مکرم سے معزز ہے پھر ہم کیونکر کافروں کے رعب تلے آ جاتے ہیں، ان کی عادات اور ان کی تہذیبوں کو کیوں اپناتے ہیں ان کی مصنوعات کے دلدادہ کیوں ہیں؟ خود کیوں نہیں کرتے، اپنی ثقافت کو عام کیوں نہیں کرتے؟ ہم اپنی تہذیب مغربی دنیا میں کیوں نہیں پہنچاتے ہماری ثقافت، خالص انسان کی تربیت دی ہوئی ہے اس میں کشش موجود ہے اس میں عالمی ہونے کی قابلیت ہے یہ کام ہم نے کرنا ہے اسے متعارف ہم نے کروانا ہے یہ وہ کام ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام سے پہلے ہمیں کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ذلیل بنایا ہے ان کے لئے عزت نہیں ہے کیونکہ ان کے دلوں میں انسانیت کے لئے بغض ہے نفرت ہے،کینہ ہے وہ انسانی قدروں کے دشمن ہیں جو کچھ ان کے پاس ہے اقوام عالم کو غلام بنانے اور انہیں نقصان پہنچانے کے لئے ہے۔
ہمارے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انبیاءعلیہ السلام سے ایک نبی علیہ السلام کو وحی فرمائی: مومنوسے کہہ دو کہ وہ میرے دشمنوں کا ترتیب دیا ہوا لباس نہ پہنیں اور نہ ہی میرے دشمن کی تیار کردہ غذا تناول کریں اور نہ ہی میرے دشمنوں کے بنائے ہوئے راستوں کو اپنائیں اگر ایسا کرو گے تو تم بھی ان کی طرح میرے دشمن قرار پاﺅ گے۔(مفاتیح الجنان ص۶۳۸)

خفیہ کاری (انٹیلی جنٹس)
اس امر بارے میری تحقیق نہیں ہے ہم نے اس کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی علیہ السلام کے لئے جو امور ضروری ہیں ان کی فہرست پوری کرنے کے لئے اسے دیا ہے۔
ہم نے اس امر میں خفیہ کاری، رازداری کو بیان کیا ہے اور اس کی اہمیت کو بھی بیان کیا ہے، کسی بھی حکومت کو چلانے کے لئے جتنی راز داری ضروری ہے، اتنا ہی آگہی اور معلومات رکھنا بھی ضروری ہے ، مملکت میں کیا ہو رہا ہے؟ دشمن کیا کر رہا ہے؟ فتنہ فساد پھیلانے والوں کے منصوبہ جات کیا ہیں اس بارے اطلاعات کا ہونا بہت ضروری ہے تب ہی مملکت میں امن قائم کیا جا سکتا ہے جس حکومت نے پورے عالم پر قائم ہونا ہے تو اس کے لئے بھی اس محکمہ کی اشد ضرورت ہے اس کی علیہ السلام کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے تاکہ دشمنوں کی سرگرمیوں اور ان کے طریقہ کار کا علم ہو پھر اسی تناظر میں علیہ السلام کی جائے آج کی اصطلاح میں اطلاعات کا محکمہ انٹیلی جینٹس کا محکمہ ،مخبری کا محکمہ یا جاسوسی کا محکمہ کہا جاتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث میں ہے:
اپنے پروگراموں اور منصوبہ جات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے انہیں پوشیدہ رکھنا ضروری ہے۔(الراسخ السماویہ ج۴)
اپنے پراگراموں اور منصوبہ جات کے لئے رازداری سے مدد لو کیونکہ یہ نعمت رکھنے والا محسود ہوتا ہے اس کے لئے حسد کیا جاتاہے۔(تحف العقول ص۸۴)
جس نے اپنے راز کو چھپائے رکھا تو اختیار اس کے اپنے پاس موجوود رہا۔(نہج البلاغہ ج۴)
اس نقطہ کی اہمیت ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتاجب حاجات کے لئے رازداری کی اہمیت ہے تو وہ معاملات جو تقدیر ساز ہیں جن سے انسان کا مستقبل وابستہ ہے داخلی اور خارجی مفادات جن امور سے وابستہ ہوں ان کی اہمیت سب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔خاص کر جن امور کا تعلق حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام سے ہے ان کے لئے معاونین بنانے ہیں، ان کے لیڈر کی تربیت کرنی ہے، ایسی حکومت جس نے پورے عالم میں امن قائم کرنا ہے ، عدالت کا نظام لانا ہے ، ظلم کا خاتمہ کرنا ہے تو اس کے لئے رازداری کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر شعبہ اطلاعات رسانی ہے کیونکہ ایسے سازشی عناصر بھی ہو سکتے ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی تمہید میں خلل ڈال دیں گے اس کے لئے رکاوٹیں کھڑی کریں تو ایسے عناصر سے آگہی اور ان کا توڑ اہم ذمہ داریوں میںسے ہے۔اب اس کا طریقہ کار کیا ہے تو جو اس فیلڈ کے افراد ہیں وہی اس بارے رائے دے سکتے ہیں ہم نے اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور یہ کہ اس چیز کی ضرورت ہے۔

۴۔ اخلاقی علیہ السلام
اس کا تعلق ثقافتی تربیت سے ہے، بلکہ یہ اس کا ہی ایک حصہ ہے اس سے جدا نہیں ہے۔ ہم نے اخلاق کی اہمیت کے پیش نظر اسے الگ عنوان دیا ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بعثت کا مقصد اخلاق قرار دیتے ہیں۔
”بعثت لاتمہم مکارم الاخلاق“(بحارالانوار ج۶ص۰۱۲)
اس حدیث کے مضمون سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ حضورپاک نے اپنی بعثت کے نتیجہ میں اخلاقیات کی تمام خوبیوں کی تکمیل کردی، اخلاقیات کو ان کی آخری حد تک پہنچا دیا، آداب انسانی کو عروج پر لے گئے، کسی ایک کے لئے اس بات کی گنجائش نہیں رکھی کہ وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقتدار اور پیروی میں ہچکچاہٹ کرے، مکارم اخلاق کی نظری موقعیت اور ان سے آگہی کہ مکارم اخلاق ہیں کیا؟ اور پھر انہیں عملی زندگی میں لے آنا حضورپاک نے ایسا ہی کیا آپ کی پوری زندگی اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھی آپ کا ہر پہلو اخلاق کا آئینہ دارہے۔

معاشرہ و مجمع میں عمومی اخلاقیات کی اہمیت
السید الخامنہ ای فرماتے ہیں:
اخلاقی شکل ہی درحقیقت کسی سوسائٹی کی پہچان ہے، کسی بھی مجمع اور سوسائٹی کا وزن اس کے اخلاقی قطب پر قائم ہوتا ہے باقی سارے معاملات اسی اخلاقی مرکز کے گرد گھومتے ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اخلاقی امور کو اہمیت دیں اور ان کی پوری سرپرستی کی جائے، ذرائع ابلاغ، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، تمام وسائل کو اخلاقی فضائل کی اشاعت اور مکارم اخلاق کی تعلیم اور انہیں بیان کرنے کے لئے استعمال میں لایا جائے معاشرہ کے افراد کی روش، ان کے رویوں بارے اخلاقی ضابطے، اجتماعی ذمہ داریاں، نظم، منصوبہ بندی، اجتماعی آداب، خاندان کی اہمیت، دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھنا، انسان کا احترام اور اس کی کرامت کا لحاظ ، ذمہ داری کا احساس، اپنے اوپر اعتماد اور بھروسہ، ذاتی شجاعت، قومی شجاعت، قناعت یہ وہ اہم اخلاقی فضائل ہیں جن سے ایک معاشرہ کو بہرہ ور ہونا چاہیے۔
اگر ہم اس وقت مختلف زندگی کے میدانوں میں خرابیوں کے بارے گفتگو کریں تو سب کا بنیادی سبب اچھے اخلاق کا فقدان اور اچھے عادات کو چھوڑنا ہے۔
اسی طرح امانت، درستگی، خیر،اصلاح، حق کا ساتھ دینا ، خوبصورتی کو چاہنا، اپنے لئے خوبصورت زندگی چاہنا، ظاہری اور باطنی دونوں حوالوں سے خوبصورت زندگی، ....زندگی سے گریز، فضول خرچی سے گریز، پاکدامن، ماں باپ کا احترام ، استاد کا احترام اخلاقی فضائل سے ہیں۔
ہمارے ہاں اخلاقی فضائ، اسلام نے ان سب پر زور دیا ہے اہل البیت علیہ السلام نے اس کی تشویش فرمائی ہے، علماءاعلام، فلمگاروں پرلازم ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کے تمام پروگراموں میں اخلاقی فضائل کا لحاظ رکھیں جو مکالمے ہوتے ہیں جو ڈڑامے پیش کیے جاتے ہیں جو خبریں نشر کی جاتی ہیں ، ٹیلیفونک گفتگو ہوتی ہے، خطاب ہوتا ہے، مکالمہ ہوتا ہے سب میں اخلاقی فضائل کا لحاظ رکھا جائے تاکہ ہر قسم کے نقص سے پروگرام پاک رہے۔
الٰہی اخلاقیات اور اخلاق مکارم کی وضاحت اور تعلیمات کو شریعت اسلامی میں بیان کیا گیا ہے چاہے وہ امور جن کا تعلق انسان کی ذات سے ہے جیسے صبر، شکر، اخلاق، یا وہ امور جن کا دوسروں سے ہے جیسے درگذر کرنا، معاف کر دینا، تواضع، عاجزی، قربانی، انسانوں کا احترام کرنا یا وہ جن کا تعلق عمومی معاشرہ اور سوسائٹی سے ہے۔
اسلامی اخلاقیات کا میدان بہت ہی وسیع ہے یہی وہ امور ہیں جن پر انبیاءعلیہ السلام اور رسولوںکی تبلیغ کا زورتھا، ادیان الٰہی کی بڑی شخصیات، اولیاءاللہ نے اسی نقطہ پر اپنی تمام مساعی اور جمہور کو مرکز رکھا، اسی طرح اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی سارے محنتیں و مشقتیں اسی پر تھیں معلوم رہے کہ ان امور کو ظالم حکومتوں کے زیر سایہ حاصل نہیں کیا جا سکتا مگر یہ کہ انسان بہت زیادہ مشقت کر کے ان فضائل کو اپنا سکتا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
ہمارے اوپر واجب ہے، خطباءپر لازم ہے، تہذیب یافتہ طبقہ کی ذمہ داری ہے، گریجوایٹ افراد پر فرض ہے، رائٹرز، تجزیہ نگاروں، اخبارات کے مالکان، ٹی وی چینلز کے مالکان ، پروگرام ترتیب دینے والوں سب پرلازم ہے کہ اخلاق کی تعلیم دیں اور اخلاق کو عام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی مدد کرے، حضرت امام زمانہ صاحب الزمان (عج) کا دل خوش ہو آپ علیہ السلام سے بھی اور ہم سے بھی اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہدایت الٰہی ہمارے نصیب ہو، اس طرح ہم اپنے عظیم رہبر حضرت روح اللہ الخمینیؒ کی روح کو بھی شاد کریں اپنی اس اخلاقی تحریک سے فیضان الٰہی حاصل کریں برکات کو سمیٹیں۔
(خطاب۷۱شوال ۵۲۴۱ہجری قمری، دوسرا خطاب ۷۲ رجب ۷۱۴۲ ہجری قمری ۔تہران)
خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے علیہ السلام میں اخلاقی فضائل کی تعلیم لینا اور دوسروں کو تعلیم دینا اسی طرح اخلاقی فضائل کو اپنے وجود پر لاگو کرنا اور دوسروں کو اس پر جلانا اہم ذمہ داریوں سے ہے۔(ازمترجم)

نظریاتی لحاظ سے اخلاق کی تعلیم
اخلاقی تیاری کے لئے آغاز نظری اخلاق سے ہوگا، اصول اخلاق، اصول آداب کو بیان کرنے کے لئے باقاعدہ پروگرام اور منصوبہ سازی کرنا ہوگی جیسا کہ ہم نے ثقافتی تربیت کے بیان میں کہا ہے۔پروگرام اور منصوبہ سازی کے بعد اور اس کو پڑھنے اور پڑھانے کے بعد اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا ان اصولوں کو لوگوں کے لئے تعلیم دینا ہوگا اور معاشرہ میں اس کی تعلیم عام کرنے کے لئے اخلاقیات کا درس دینے والے معلمین تربیت کرنا ہوں گے، اخلاقی اصولوں سے آگہی کے لئے مختلف کورسز کا اجراءکرنا ہوگا نظریاتی طور پر اخلاقی بنیادوں کو مستحکم طریقہ سے پیش کرنا ہوگا اور اس کی تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا اسے ہم اخلاقی میدان میں نظریاتی تیاری کا عنوان دیتے ہیں۔

اخلاقیات کی عملی تیاری
اخلاقیات کے اصول بیان کردینا، اخلاقی فضائل کی بنیادوں کی تعلیم دے دینے سے ایسا معاشرہ تشکیل نہیں پاجاتا جو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ ہو اور اخلاقی فضائل کا نمونہ ہو، بلکہ اس کے بعد اگلا قدم اٹھانا ہوگا اور وہ ہے ان اخلاقی اصولوں اور ضوابط کو نافذ کرنا ہے اور عملی طور پر لاگو کرنا ہے۔
یہ امر جو ہے مطالعہ چاہتا ہے جائزہ لینا ہوگا کہ کس طرح ان اصولوں پر عمل کروایا جائے اس کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی تجربہ گواہ ہے کہ جس نے اخلاقی فضائل کے اصول پڑھ لئے ہیں تو ان فضائل کی تعلیم دینے اور نافذ کرنے کے مرحلہ میں مشکل سے دوچار ہوتے ہیں یا تو ان کو پڑھنے کے بعد بھول جاتے ہیں یا خود بھلا دیتے ہیں یا پھر ان کو عمل کرنے کے لئے اشتباہ میں پڑجاتے ہیں اس لئے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو عملی میدان میں لانے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی درکار ہے تاکہ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔

اخلاقی تعلیمات کے نفاذ کی ضمانت
جیسا کہ میری معلومات ہیں اس پروگرام کے لئے علمی نظریات نہیں بلکہ یہ اجتماعی تجربات ہیں کیونکہ یہ امر ایک معاشرہ میں کچھ۔ اور دوسرے میں کچھ ہوگا۔ ایک گھرانہ میں کچھ، اور دوسرے میں کچھ ہوگا پروگرام سے مراد یہ ہے کہ عملی طور پر ایسا رویہ اپنایا جائے جو فرد اور معاشرہ کے لئے مفید ہو فرد کو ان اخلاقی خوبیوں کو اپنانے کا شوق دلایا جائے اور معاشرہ میں ان اخلاقی اصولوں کی پاسداری کا احساس اجاگر کیا جائے کہ شرعی آداب، مستحبات کی پابندی کریں، رذائل اور پست صفات کو اپنے سے دور کریں
جی ہاں!یہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد ہوگا اورآگہی کے بعد ہوگا پہلا مرحلہ آگہی ہے اور دوسرا مرحلہ عمل ہے، ثقافتی اور تہذیبی تربیت ہی اس کو عمل کے میدان میں لائے گی فرد اور مجتمع دونوں کو اعلیٰ اخلاقیات، اخلاقی فضائل کے فوائد سے واقف ہو اور بیری عادات سے برے اخلاق کے نقصانات کاعلم ہو۔ہم اس امر کی صعوبت اور مشکل سے آگاہ ہیں یہ کام ہم آسان نہیں سمجھے اس میں مشقت ہے، دقت کرنا ہوگی، اخلاق حسنہ اور اخلاق رذیلہ کے سارے معادین کو بیک وقت حاصل کرنا اور اخلاق رذیلہ کو بیک وقت چھوڑ دینا ممکن نہیں ہے یہ تدریجی عمل ہے۔
مثال: جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ معصومین علیہم السلام کے کی مزارات کی زیارت کے یہ فوائد ہیں انتا ثواب ہے تو پھر اس کے لئے پروگرام ترتیب دینے ، قافلہ زیارات کے لئے تیار کرتے ہیں ایک دوسرے کو آمادہ کرتے ہیں اور زیارت کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں اسی طرح باقی مستحبات ہیں جیسے ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا، ہر نعمت کے بعد الحمدللہ کہنا، کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا کھانے کے بعد شکراللہ کہنا، پانی پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا،غسل سے پہلے بسم اللہ پڑھنا، گھر داخل ہوتے وقت بسم اللہ پڑھنا، لباس پہنتے وقت بسم اللہ پڑھنا، جب فردایسا کرے گا تویہ عمل پورے معاشرہ میں جاری ہو جائے گا اسی طرح سلام کرنا ہے یا جمعرات کو ناخن کاٹنا ہے، جمعہ کی صبح دعائے ندبہ پڑھنا ہے، شب جمعہ زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا ہے، زیارت عاشورا پڑھنا ہے، صبح کی نماز کے بعد دعا ئے عہد پڑھنا ہے، مریض کی عیادت کے لئے جانا ہے، جمعہ کا غسل کرنا ہے، جمعہ کے دن اچھا لباس پہننا ہے، دوستوں سے ملاقات کرنا ہے، ہمسایوں کی احوال پرسی کرنا ہے، یہ سارے امور افراد انجام دیں گے اور معاشرہ اور سماج خودبخود اس پر عمل پیرا ہوجائے گا۔ان امور کی انجام دہی کے لئے ایک دوسرے کو آمادہ کرنا اور یاد دلانا ہوگا۔
تبلیغ کے ذرائع جو بیان کئے ان سے استفادہ کر سکتے ہیں کسی گھر میں جاتے ہیں، شب جمعہ کا انتخاب کرتے ہیں، نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں، زیارت عاشورا پڑھتے ہیں، امام زمانہ(عج) کی سلامتی کی دعا مانگتے ہیں، زیارت آل یٰسین پڑھتے ہیں، باپ، ماں، اولاد سب مل کر نماز ادا کرتے ہیں، مل کر کھانا کھاتے ہیں، اسلامی آداب کا لحاظ کرتے ہیں تو اس سے اخلاقی تعلیمات پر عمل شروع ہو جاتا ہے۔
جب لوگ یہ سنیں گے کہ دوستوں، بھائیوں کی خدمت کا ثواب ہے تو ہم رفاہی اور خیراتی جمعیات اور ادارے بنائیں گے اور اسلامی طریقہ پر ان میں کام شروع کر دیں گے اور ان تنظیموں کے ذریعہ اسلامی اخلاق اور اسلامی آداب کو بھی عام کریں گے ان تنظیموں کے ذریعہ جہاں فقراءمساکین کی مدد ہو گی ان پڑھوں کو تعلیم دی جائے گی دشمنوں کی سرپرستی ہو گی تو وہاں انہیں اخلاقیات اور اسلامی آداب کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ دی جائے ، اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر بجا لانے کو بیان کیا جائے گا۔
بہرحال خیراتی ادارہ،خدماتی تنظیموں کا قیام، اعلیٰ اخلاقیات کی تبلیغ اور اخلاقی فضائل کو عملی جامہ پہنانے میں بہت ہی موثر ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کر آئے ہیں اس میدان میں بھی خواتین سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے، مردوں سے زیادہ خواتین خدماتی اور رفاہی میدانوں میں کام کر سکتی ہیں، اسلامی آداب بجالانے، مستحبات پر عمل کرنے، دعاﺅں اور زیارات کے باب سے فائدہ اٹھانا ان کا اہم کام کردار ہے خود خواتین نماز جماعت بھی اپنے لئے اقامت کر سکتی ہیں اس میں کوئی شرعی اشکال نہیں ہے۔
اخلاقی فضائل کی نطیق اور عملی میدانوں میں ان کے نفاذ کے لئے مقابلوں کا انعقاد بھی مقید ہے، انعامات رکھے جائیں، اس میں علمی فائدہ بھی ہوگا اور عملی فائدہ بھی ہوگا مثلاً تین دن وضو کے ساتھ رہنے والے کے لئے انعام، ایک ماہ باقاعدہ نماز جماعت میں شرکت کرنے والے کے لئے انعام، چالیس دن باقاعدہ زیارت عاشورا پڑھنے والے کے لئے انعام، دس فقیروں کی مدد کرنے والوں کے لئے انعام، دس بچوں کو وضو سکھانے والوں کے لئے انعام، گھر کی گلی صاف کرنے والوں کے لئے انعام، صاف ستھرا لباس پہننے والے کے لئے انعام، جمعرات اور جمعہ کے دن ناخن باقاعدگی سے تراشنے والے کے لئے انعام، جمعہ کے دن غسل کرنے والے کے لئے انعام، کسی بھٹکے ہوئے کو رستہ دکھانے والے کے لئے انعام، اخلاقی فضائل بیان کرنے والے کے لئے انعام، اخلاق رذیلہ بتانے والے کے لئے انعام، غرض انعامات کے مقابلے منعقد کئے جائیں مختلف مناسبات میں ایسا کیا جائے ان کے ذریعہ اخلاقی فضائل کو رواج دینے میں مدد ملے گی۔
ایک عارف کا قول ہے کہ ہر شئی کی زکات ہے اور جس کے پاس اپنی گاڑی ہے اس کی زکات یہ ہے کہ وہ پیدل چلنے والے کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسے منزل مقصود تک پہنچا دے خاص کر اس وقت جب اس کے پاس جگہ اور اس کا راستہ بھی اسی جگہ سے گزرتا ہو جہاں اس پیدل چلنے والے نے جانا ہے ہم نے اس کی تفصیلات کو اپنی کتاب ”معاجز الصدقہ وآثارہا“میں بیان کیا ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت اوراخلاق کی اہمیت
اجتماعی زندگی میں اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت ہے، ہم اس جگہ اس کے بیان کرنے کے درپے نہیں ہیں، یہ کتاب اس کے لئے مخصوص نہیں ہے، ہم اس جگہ ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں اخلاق کی اہمیت اور اس کے اثرات کیا ہیں؟
اخلاقیات چند عملی، قولی اور سلوکی الزامات اور پابندیوں کا نام ہے لوگوں کی جانب سے، تو یہ ناچار معاشرہ کے اندر انجام پانے والے تمام اعمال اور کاموں پر مثبت اور منفی اثرات چھوڑے خاص کر جو الٰہی اعمال ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ اخلاقیات کا عادلانہ اور پاکیزہ حکومت کے قیام میں بہت بڑا کردار ہے۔
اس دولت کریمہ میں رہنے والوں اور اس کی پیروی میں کام کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ انبیاءعلیہم السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے اخلاق سے آراستہ ہوں اور اپنی سیرت اور کردارکے دور میں اخلاقی فضائل کو اپنائیں اور ان پر پابند ہوں تاکہ وہ چیز جلدی اور مختصر وقت میں اپنے ہدف اور مقصد تک پہنچا دے اس حکومت کی خواہش رکھنے والوں کو اپنے اخلاقیات کو صحیح کرنا ہوگا اور اخلاقی فضائل سے خود کو رنگنا ہوگا۔

صحت اور ماحول کی درستگی
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان خود کو صحت مند بنائے رکھے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکے اور عبادات کے علاوہ اس سے جو کام چاہے گئے ہیں انہیں انجام دے سکے۔
عبادتی امورمیں سے ہے جسے ہم بیان کر رہے ہیں اور وہ ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے خود کو تیار کرنا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کو چاہنے والے شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ خود کو صحت مند رکھے اور بیماریوں سے بچائے(البتہ انہی امتحان کے تحت جو بیماری آ جاتی ہے تو وہ اس جگہ مراد نہیں ہے اس جگہ مراد یہ ہے کہ خود کو بیماری میں ڈالنے کے اسباب اپنے لئے مہیا نہ کرے)یہ ایک اہم واجب کی ادائیگی کے لئے مقدمہ ہے۔
جی ہاں! صحت کی بڑی اہمیت ہے اس حکومت کے علاوہ بھی اولاد کی تربیت کے لئے ، خاندان کے لئے، کاروبار کے لئے، محنت مزدوری کے لئے، روزگار کے لئے صحت کی ضرورت ہے۔صحت مند جسم مین صحت مند عقل ہوتا ہے عقلمندوں کی حضرت امام مہدی علیہ السلام کو ضرورت ہے ، صحت مندوں کی ضرورت ہے بیمارتو معاشرہ پر بوجھ ہوتے ہیں۔ایک ذمہ دار اور بامقصد زندگی گزارنے والے انسان پر لازم ہے کہ وہ اس حکومت کی انتظار میں ہو اس حکومت کے مقاصد پر اس کا ایمان ہو، وہ اپنے مادی جسم کی حفاظت کرے اور ایسی چیزوں کے استعمال سے گریز کرے جو اس کے مادی جسم کو بیمار بنا دیتی ہیں جیسے سگریٹ نوشی، ایسی چیز کھانا جو نقصان دہ ہو، ایسا کام انجام دینا جو بدن کو نقصان دے، جیسے تیز گاڑی چلانا، تیز سائیکل چلانا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ کام جو اس کے بدن کو نقصان دے یا نقصان میں اضافہ کا سبب ہے، اذیت کا سبب ہو، جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے تو ایسے امور اس مبارک حکومت تک پہنچنے کے لئے رکاوٹ بنیں گے۔
جو بھی امام علیہ السلام کے منتظرین سے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اس بات کو اہمیت دیں کیونکہ یہ امر بہت سارے مسائل پر اثر چھوڑے گا، بیماری بہت ساری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں رکاوٹ بنے گی، مریض آدمی اجتماعی، سیاسی، تعلیمی، ثقافتی، اخلاقی حسن ، عباداتی ذمہ داریوں کو کیسے نبھا سکتا ہے۔یہ چیز ہمارے لئے صحت کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صحت اور امنیت دو ایسی نعمتیں ہیں جو غیر معروف(مجھول)ہیں۔(مسند الرضاءص۰۲۱)
خلاصہ یہ ہے کہ انسان صحت کا خیال رکھے اور اجتماعی بیماریوں سے بچاﺅ کی تدابیر کرے، ایسی بیماری جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کی تیاری کے لئے رکاوٹ بنے یہ بات تو ایک فرد کی صحت کے حوالے سے تھی۔
صحت مند ماحول، صحت افزاءفضا ایک معاشرہ کے لئے تو اس کی بھی بڑی اہمیت ہے یہ کتاب اس بارے بحث کے لئے نہیں ہے ہم اس جگہ اتنی بات کریں گے جو تیاری کے عمل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے مثلاًماحول کی آلودگی حد سے بڑھ جائے تو یہ بہت سارے کاموں کی انجام دہی کے لئےءرکاوٹ ہے جیسا کہ صحت بدنی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، ماحول کی آلودگی ایک فرد کی صحت پر اثرات چھوڑتی ہے اسے بیماربنا دیتی ہے اور بیماری کام سے رکاوٹ کا سبب ہے۔
بعض دفعہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ماحول کی آلودگی براہ راست فرد کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتی اگرچہ اس نظریہ پہ بات کہی جائے کہ فوری اس کے برے اثر فرد کی صحت پر مرتب نہیں ہوتے ۔تو ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے جو ہماری کتاب کا موضوع ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تمہیدی کاموں کو انجام دینا ہے اس حکومت میں ظلم اور جور نہ ہو گا ماحول کی آلودگی عوام کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے کچھ چیزیں تو ظلم اور جور سے پیدا ہوں گی مثلاً کیمیائی مواد کے اخراج سے، زہریلی گیسوں کی بہتات سے، جنگ کی تباہ کاری،اسی طرح طبیعی فضاءکو خراب کرنے والے استحصالی اقدامات، شہری فضاءکو خراب کرنے کے لئے آبادیوں کے قریب فیکٹریاں یہ سب صحت کو خراب کرنے کا ذریعہ ہیں ان کی اجازت نہیں ہے۔صحت افزاءمقامات کا خاتمہ، درختوں اور جنگلات کا خاتمہ یہ بھی صحت کے لئے نقصان دہ ہے، ہر وہ عمل جو ماحول کو آلودہ کردے، فضاءکو خراب کرے اس کی اجازت نہیں ہے، شرعاً حرام ہے، اس میں دھوئیں چھوڑنے والی گاریاں ہیں، گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر ہیں، صفائی کے انتظامات نہ ہونا، اس حکومت کی تیاری کے لئے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرنا ہو گا جو اس کے قیام میں تاخیر کا سبب ہوں ظلم اور جور کے تمام مظاہر کے خاتمہ کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی اور اس کے لئے ذہنی آمادگی پیدا کرنا ہوگی۔حضرت امام مہدی علیہ السلام نے ظلم کا خاتمہ کرنا ہے ان مظالم میں ایک ظلم کی شکل ماحول کو آلودہ کرنے کے اقدامات بھی ہیں اسے بھی ختم کر دیں گے ۔
جو شخص اس حکومت پر ایمان رکھتا ہے اس کے اہداف پر اسکا ایمان ہے تو اس پر لازم ہے کہ انفرادی طور پر کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھنے اور اجتماعی حوالے سے، ماحول و فضاءکے حوالے سے وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے دوسروں کی صحت خراب ہونے کا اندیشہ ہو، وہ اپنے گھر کے ماحول کو صحت افزاءبنائے اس میں بچوں کی صحت کے لئے ضروری اقدامات کریں، درخت لگائیں،پھلواری بنانے، کھیل کود کے میدان بنانے، ماحول کو صاف ستھرا رکھے۔
جب ہر شخص اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھے گا اور کوئی ایسا کام نہ کرے گا جس سے ماحول آلودہ ہو تو اس طرح وہ پورے معاشرہ اور سوسائٹی کو صحت مند بنانے میں کردارادا کرے گا ایک گھر کا کوڑا کرکٹ پھینک دینا، بچوں کو نالیوں پر پاخانہ کروانا، گندی نالیوں پر ڈھکنے نہ دینا، گٹروں کو کھلے چھوڑ دینا، بدبو کے خاتمہ کے لئے ضروری کیمیکل کا استعمال نہ کرنا، یہ سب گناہ ہے اور ایک مومن کو ایسانہیں کرنا چاہیئے۔
ماحول کو آلودگیوں سے بچانے کے لئے بلدیہ، حکومتی اداروں، رفاہی تنظیموں، این جی او،کا کام ہی نہیں بلکہ معاشرہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے، زمین کو خراب کرنے سے محفوظ رکھنا، شجرکاری اور ہر وہ کام جو ماحول کو صحت افزاءبنائے اور اسے آلودگی سے بچائے اسے انجام دینا انتہائی ضروری ہے۔حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عاشق خودبخود صاف ستھرے رہتے ہیں، صحت مند ہوتے ہیں، اپنا ماحول صاف ستھراءرکھتے ہیں، دوسروں کی صحت کا خیال رکھتے ہیں، پورے ماحول کو آلودگی سے بچاتے ہیں اور صحت افزاءماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔