آٹھویں ذمہ داری:امام زمانہ(عج) کی قیادت اور ولایت کو تسلیم کرنا
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مفصل حدیث آئمہ اطہار علیہم السلام کے ناموں کے متعلق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مروی ہے اور آپ سے آپ کے فرزندوں اور اس طرح حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس حدیث کو بیان کیا ہے اس حدیث میں امام زمانہ(عج) کے ذکر پر رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ”ومن احب ان یلقی اللہ وقدکمل ایمانہ وحسن اسلامہ فلیتول الحجة صاحب الزمان المنتظر“
جو شخص پسند کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ اس کا ایمان کامل ہو اس کا اسلام ٹھیک ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ حجت صاحب الزمان المنتظر علیہ السلام کو اپنا ولی قرار دے، ان کی ولایت میں ہو، اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا: فھولاءمصابیح الدجی، وآئمة الہدیٰ، واعلام التقیٰ، ومن احبھم وتولاھم کنت ضامنالہ علی اللہ تعالیٰ بالجنة(البحارج۶۳،باب ۱۴،۶۹۲ص۵۲۱)
پس یہ حضرات ہیںتاریکیوں کے چراغ اور یہ ہیں ہدایت کے آئمہ، تقویٰ کی علامات اور جو کوئی بھی ان سے محبت کرے گا اور ان سے تولا رکھے گاتو میں اللہ کے پاس اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔
نویں ذمہ داری: حضرت امام زمانہ (عج) کے لئے محبت
(سابقہ عنوان اور اس عنوان میں فرق یہ ہے کہ ولایت موالات، تولا کا معنی ہوتا ہے کسی کو اپنی مرضی سے اپنا سرپرست، رہبر، قائد ولی نعمت قرار دینا، اس معنی میں امام زمانہ علیہ السلام کی ولایت پر ایمان اہم فرائض سے ہے اور اسے بیان کیا گیاہے جبکہ اس عنوان میں محبت کے حوالے سے بات ہونی ہے درحقیقت وہ عنوان قیادت، رہبریت کے حوالے سے ہے جب کہ یہ عنوان پیار، عشق، محبت کے بارے ہے جو کہ عام مفہوم ہے ان الفاظ کے معنی سب کو معلوم ہیں....ازمترجم)
حضرت رسول خدا کا فرمان ہے کہ کوئی بندہ ایمان نہیں لائے گااور مومن نہیں بن سکتا مگریہ کہ میں اس کے لئے خود اس کی اپنی جان سے زیادہ محبوب ہوں اور میری عترت اس کے لئے اس کی اپنی اولاد سے زیادہ محبوب ہو اور میرے اہل البیت علیہ السلام اس کے لئے اپنے خاندان سے زیادہ اس کے نزدیک محبوب ہوں اور میری ذات جوہے اس کے لئے اس کی اپنی ذات سے زیادہ محبوب ہو، اسی طرح دین کی بنیاد محبت اہل بیت علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے۔حضرت رسول اللہ کا فرمان ہے: ہرچیز کی اساس اور بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیادہم اہل البیت علیہ السلام کی محبت ہے، محبت کو ایمان کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور قرآن مجید میںاجر رسالت کو محبت اہل البیت علیہم السلام قرار دیا گیا ہے امام صاحب الزمان علیہ السلام اہل البیت علیہ السلام کی آخری فرد ہیں جس طرح آپ علیہ السلام کی ولایت ، قیادت، رہبریت یعنی آپ علیہ السلام کی اطاعت سب پر فرض ہے اسی طرح اطاعت کے ساتھ ساتھ آپ کی قیادت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ آپ سے محبت بھی فرض ہے اور دین کی بنیاد ہے۔
غیبت کے زمانہ میں بھی اور ظہور کے زماہ میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے زمانہ کے امام سے محبت کرنے والوں سے قرار دے، ان کی نصرت کرنے والا بنائے اور ان کی رہبریت اور ولایت پر ثابت قدم رکھے ان کے خط پر ہمیں باقی رکھے ہمیں انحراف سے بچائے(آمین)(علل الشرائع باب ۷۱۱، ص۰۴۱ حدیث ۳)
دسویں ذمہ داری:انحراف سے امام مہدی علیہ السلام کے نظریہ کا دفاع کرنا
یہ مقالہ رہبر اسلام السید علی الخامنہ ای حفظہ اللہ کا ہے جس کا عنوان ہے ”نظریہ مہدویت کے سامراج پر اثرات“حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے ہمارایہ نظریہ مشکلات حل کرنے کی بہت بڑی طاقت سے بہرہ ور ہے جو لوگ اس عقیدہ والے ہیں اور اس عقیدہ کی طاقت اور صلاحیت سے برخوردار ہیں، دشمنوں نے کوشش کی ہے اور بعض نادان دوستوں نے بھی بعض اوقات اس میں کردار ادا کیا ہے کہ اس عقیدہ کو اس کے اصل مضمون اور معنی سے خالی کر دیں اس نظریہ کی جان نکال لیںاور یہ عقیدہ خالی ایک مقدس عنوان رہ جائے۔
بعض اوقات جو نقصان ایک نادان دوست سے پہنچتا ہے وہ عقلمند دشمن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے لیکن اس وقت ہم اپنی گفتگو کا دائرہ اس عقلمند دشمن تک محدود رکھیں گے جو اس عقیدہ کو بے اثر بنانا چاہتا ہے میںنے ایک دستاویز کا مطالبہ کیا جس کا تعلق دسیوں سال پہلے سے ہے یہ وہ زمانہ ہے جب شمالی افریقہ میں سامراج، استعماری طاقتیں، نئی نئی وارد ہو رہی تھیں اس علاقہ پر انہوں نے خصوصی توجہ اس لئے دی کہ اس خطہ کے لوگ اہل البیت علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے قطع نظر اس بات کے کہ اسلامی فرقوں میں ان کا کس فرقہ سے تعلق تھا اور اس لحاظ سے کہ مہدویت کا نظریہ بہت ہی واضح شکل میں وہاں پر موجود ہے جیسے سوڈان، مغرب جیسے ممالک ہیں جب گذشتہ صدی میں استعمار اس خطہ میں داخل ہوا اس نے دیکھا کہ مہدویت کا نظریہ اس خطہ میں موجود ہے جو اس کے نفوذ میں رکاوٹ بنے گا اس مضمون میں استعماری قیادت کی طرف سے اس نقطہ پر زور دیا جاتا ہے کہ تدریجی طور پر نظریہ مہدویت کا اس خطہ سے خاتمہ کیا جائے اور لوگوں کے اذہان کے لئے تصور مہدی علیہ السلام محو کر دیا جائے اس وقت فرانسیسی اور انگریزی استعمار اس خطہ میں چھایا ہوا تھا استعمار تو استعمار ہی ہوتا ہے جس کی جانب سے ہواور جس شکل و عنوان سے ہو۔اجنبی سامراجیوں نے یہ بات سمجھ لی کہ جب تک اس خطہ میں نظریہ مہدویت کی جڑیں مضبوط رہیں گی اور اس علاقہ کی عوام کے اذہان میں یہ عقیدہ راسخ رہے گا تو ان اقوام پر اس طرح تسلط اور غلبہ ممکن نہیں ہے جس طرح ان کی خواہش ہے، انہوں نے مہدویت کے عقیدہ کی اہمیت کو جان لیا اور انہوں نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ جو لوگ فکری وسعت، دین میں جدت کی تحریک چلا رہے ہیں وہ کتنی بڑی غلطی پر ہیں کہ بغیر سمجھ و آگہی اور جس کام کو وہ کر رہے ہیں اس بارے مکمل جائزہ لئے بغیر وہ خود ہی اسلامی عقائد کے بارے شکوک وشبہات پھیلائے جانے کے عنوان میں پھنستے جا رہے ہیں اور یہ لوگ بھی وہی کام کر رہے ہیں جو دشمن کی غرض تھی اس لحاظ سے انہیں ان مجددین، کھلی فکراور وسیع النظری کے عنوان سے اسلامی عقائد سے محبت کرنے والوں کو اپنے مقصد کے لئے بہترین معاون اور مددگار پایا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کا عقیدہ استعمار کے سامنے چٹان ہے
اس لئے استعماری منصوبوں میں اور ان کے ایجنٹوں کی ذمہ داریوں میں یہ بات بطور اصل شامل ہے کہ روشن کل کی امید اور جدوجہد کے عقیدہ کو ان سے چھین لیا جائے امت کے دلوں سے اس نظریہ کو باہر نکال دیا جائے اس نور کو بجھانے کے لئے انہوں نے بہت زیادہ کام کیا۔
لیکن انہوں نے اپنے ان تمام منصوبہ جات سے سوائے رسوائی اور ناکامی کے کچھ حاصل نہ کر پائے ہمیں یہ علم ہے کہ استعماراپنے مقاصد کے لئے زیادہ کوششیں کرتا ہے اور کتنا وقت لگاناہے اور کس قدر اموال خرچ کرنا ہیں وہ فقط ایران میں نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں ایسا ہی کر رہا ہے تاکہ وہ اس نور کی بجھا دے اور امام مہدی علیہ السلام کا نظریہ مسلمانوں سے چھین لے کیونکہ وہ اسی نظریہ کو اپنے اہداف تک جانے کے لئے سب سے بڑی چٹان اور رکاوٹ سمجھتا ہے۔
اس بیان سے جسے کئی سال گزر چکے ہیں یہ بات روشن ہوتی ہے کہ شمالی افریقہ میں یورپ سے آنے والے تبلیغی وفود(مشنری وفود)نے کس طرح استعمار کے لئے راستہ ہموار کیا تاکہ وہ آ کر اس خطہ پر اپنا قبضہ جمائیں ان امور میں سے ایک امر اور بات جو دین دار طبقہ کو تکالیف پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیحی حکومتوں نے مسیحیت کی تبلیغ کے وسیلہ سے استعمار کی گاڑی کے پہیہ کو حرکت دی ہے، تبشیری وفود جو ہیں وہ استعمار کے لئے راستہ ہموار کرتے ہیں، تبشیری وفود کو بظاہر یہ مقصد دے کر بھیجا جاتا کہ وہ مسیحی مذہب کی تبلیغ کے لئے جا رہے ہیں۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی اور وہ یہ تھی کہ یورپ سے مسیحیت کی تبلیغ کے لئے ان علاقوں میں آنے والی جماعتوں کے وسیلہ سے استعمار کے لئے ان علاقوں میں قدم جمانے کے لئے راستہ ہموار کرتا تھا کہ وہ اسلامی سرزمینوں پر داخل ہو سکیں اور اسلامی ممالک میں سیاسی اقتدار پر کنٹرول حاصل کر سکیں اور یہ پوری دنیا کے مختلف حصوں میں انجام پایا اور وہ اپنے اس پروگرام میں کامیاب ہوئے بہت ہی افسوس ہے کہ انہیں اپنی اس منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے بہت سارے اسلامی خطوں میں کامیابی نصیب ہوگئی۔
جس بیان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس میں شمالی افریقہ کی طرف مسیحیت کی تبلیغ کے لئے بھیجے گے مشنوں کے موضوع کوچھیڑاگیا ہے۔
اس بیان میں کاتب لکھتا ہے وہ رکاوٹیں جن کا مسیحت کے لئے تبلیغی جماعتوں کو سامنے اور شمالی افریقہ میں استعمار کی پیش قدمی میں مشکلات ہیں ان میں ایک بڑی رکاوٹ شمالی افریقہ اورمغرب میںرہنے والوں کا مہدی موعود بارے یہ عقیدہ ہے کہ انہوں نے تشریف لانا ہے اور وہ ایک دن ضرور آئیں گے اور آ کر اسلام کی بات کو سربلند کردیں گے اسلام کوسب نظاموںپر غلبہ دلائیں گے ۔
(آقای خامنہ ای کا خطاب بمناسبت ۵۱شعبان ۸۱۴۱ھ طھان)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہدی موعود کا عقیدہ ہی استعمار کے راستہ کی ایک بڑی رکاوٹ ہے جب کہ معلوم ہے کہ اس مسئلہ کے بارے ان علاقوں میں بسنے والے ہمارے بھائیوں کا عقیدہ ایسی وضاحت موجودنہیں جس کے آج ہم مالک ہیں، بلکہ ان برادران کے عقیدہ میں بہت سارے ابہامات موجود ہیں اوران پر اس کی جزئیات واضح نہیں ہیں اور اس مسئلہ میں کون مراد ہیں؟ ان کے لئے واضح نہیں، نام سے اور دوسری خصوصیات سے وہ واقف نہیں لیکن حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ بارے تمام تر ابہامات، جو اس خطہ کے عوام میں موجود تھے پھر بھی استعمار اس نظریہ سے خوفزدہ نظر آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کی تفصیلات سے قطع نظر، استعمار کواس عقیدہ سے بہت زیادہ خوف لاحق ہے اور وہ اس کے سادہ سے عنوان کو بھی اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور ہمارے اپنے ملک کی بات ہے جسے میرے لئے بزرگ علماءسے ایک نے بیان کیا ہے جو اس وقت زندہ ہیں اور ان کے وجود کی برکات سے ہماری عوام فیض یاب ہو رہے ہیں کہ رضا شاہ بہلوی کے اقتدار میں آنے کے ابتدائی ایام کی بات ہے جاہل، خودسر، ہر قسم کی مقبولیت اور معرفت سے فارغ شخص رضا شاہ نے درباری ملاں کو بلایا اور اس سے دریافت کیا کہ امام صاحب الزمان علیہ السلام کا قصہ کیا ہے جس نے ہمارے لئے یہ ساری مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں؟
اس درباری ملاں نے اسے ایسا جواب دیا جو شاہ کے لئے پسندیدہ تھا اور اس کی جاہلیت کا آئینہ داربھی تھا پھر اسے شاہ کہتا ہے تم جاﺅ اور اس قصہ کو تمام کر دو اور لوگوں کے دلوں سے اس عقیدہ کو باہر نکال پھینکو۔
درباری ملاں یہ سن کر اسے کہتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اس کام میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ہمارے اوپر لازم ہے اگر ایسا کرنا ہے تو اس کے لئے مقدمات کو فراہم کریں اور تدریجاً اس پر کام کریںچنانچہ اس غرض سے ان مقدمات کو اس زمانہ میں مہیا کیا گیا اور اس پر کام بھی ہوا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور علماءربانی، بیدار اور آگاہ مفکرین ،مجتہدین کی کوششوںسے وہ سارے مقدمات طشت ازبام ہوئے اور ناکام ہوئے اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں استعماری طاقتوں نے ایک خودسر غاصب شخص کو ہمارے ملک کا اقتدارتودے دیااوراسے ایران پر مسلط کیا اور اس ملک کی ساری ثروات اس کے قبضہ میں دے دیں اور پھر یہ تھا کہ وہ سب کچھ اپنے استعماری آقاﺅں کے سپرد کرے اس ملک کی عوام پر مکمل تسلط اور غلبہ کے لئے جو وسائل استعمال کیے جا رہے تھے ان میں ایک وسیلہ یہ تھا کہ امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کو لوگوں سے چھین لیا جائے اور لوگوں کے اذہان سے امام مہدی علیہ السلام موعود کا عقیدہ اور نظریہ محو ہو جائے۔(خطاب ۵۱ شعبان ۶۱۴۱تہران)
(ہماری ذمہ داریوں میں یہ بات آتی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کیا جائے اس عقیدہ بارے شکوک و شبہات دور کئے جائیں اس کی خصوصیت اور اصلیت سے لوگوں کو آگاہ رکھا جائے اور اس عقیدہ میں انحرافی رجحانات کو دور کیا جائے اور استعماری سازشیں جو اس عقیدہ بارے سابقہ ادوار میں ہوتی رہی ہیں اور جو آج بھی ہو رہی ہیں اس سے لوگوں کو آگاہ رکھا جائے اور اس کا توڑ کیاجائے....ازمترجم)
گیارہویں ذمہ داری۔ بامقصد انتظار
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے اور آپ علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے انتظار اہم ذمہ داری ہے یعنی ہم ہر وقت ظہور کے لئے تیار رہیں اور اس وقت کے لئے اپنے کو تیار رکھیں ہر آن ظہور کی توقع ہو۔
خحضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: ایک بندہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوگا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے سب سے زیادہ راضی ہوگا جب وہ لوگ اللہ کی حجت کو اپنے درمیان موجود نہ پائیں اور حجت خدا ان کے لئے ظاہر نہ ہو، حجت خدا ان سے حجاب میں ہو، وہ لوگ حجت خدا کی رہائش گاہ سے واقف نہ ہوں اور وہ اس دوران یہ یقین رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حُجج(دلائل اور اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کاسلسلہ) باطل نہیں ہوگا، ختم نہ ہوگااور نہ ہی خدا کی نشانیاں ختم ہوں گی تو وہ اس یقین کے ساتھ صبح، شام ظہور کی توقع رکھتے ہوں۔(ایسا شخص اللہ کے زیادہ قریب اور اللہ اس سے زیادہ راضی ہے)
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے دشمنوں پر سخت ترین غضب اس وقت ہو گا جب خدا اپنی حجت کو ان سے غائب کر دے گا یعنی حجت کی غیبت خدا کے دشمنوں پر خدا کے شدید غضب کی علامت ہے اور ان کے لئے خدا اپنی حجت کو ظاہر نہیں کرے گا جب کہ خدا کو یہ علم ہے کہ جو اولیاءاللہ ہیں جو خدا کے ہیں وہ شک نہیں کریں گے اگر اللہ تعالیٰ کو یہ علم ہوتا کہ اس کے اولیاءشک میں پڑ جائیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ پلک جھپکنے کی مقدار بھی اپنی حجت کو غائب نہ فرماتا یہ نہیں ہوگا مگر لوگوں میں بدترین حاکم ان کے سرپرہوگا شرپسندوں سے غیبت ہے۔(کمال الدین ج۲ص۹۳۳باب ۳۳حدیث۷۱)
حضرات اہل البیت علیہم السلام سے یہ روایت ہوئی ہے ”پس تم میں سے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اس طرح کا عمل بجالائے جو عمل اسے ہماری محبت کے قریب کر دے اور ایسے عمل سے دوری اختیار کرے جو عمل اسے ہم سے دور کر دے “۔(الزام الناصب ج۱ص۸۰۴)
انتظار کا ثواب
جناب عمار الساباطی سے ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے عرض کیا:
راوی: کون سی عبادت افضل ہے؟ وہ عبادت جو تمہارے میں سے جب امام پوشیدہ ہو، باطل کی حکومت ہو اور تمہارے لئے باطل حکومت خوف اور خطرہ ہو یا وہ عبادت افضل ہے جب امام حق ظاہر ہو، حق کی حکومت ہو؟
امام علیہ السلام:۔ اے عمار مخفیانہ صدقہ خدا کی قسم اعلانیہ صدقہ سے افضل ہے،اسی طرح خدا کی قسم! تمہاری عبادت مخفیانہ بجا لانا، جب کہ تمہاراامام باطل حکومت سے پوشیدہ ہو اور تمہیں باطل حکومت میں اپنے دشمن کا خوف لاحق ہو، صلح اور آرام اور سکون موجود نہ ہو تویہ عبادت افضل ہے اس عبادت سے کہ جب حق کا ظہور ہو جائے امام حق کے ہمراہ عبادت خدا انجام دی جائے حق کی حکومت ہو جو عبادت باطل حکومت میں خوف کی حالت میں انجام دی جاتی ہے وہ عبادت اس عبادت کی مانند نہیں ہے جو حکومت حقہ میں امن کی حالت میں انجام دی جائے۔(الکافی ج۱ص۳۳۳،باب نادر فی حال الغیبة حدیث۲)
ابن عباس سے روایت ہے کہ اس نے بیان کیا ہے :
ابن عباس: رسول اللہ نے فرمایا کہ: علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام میری امت کے امام ہیں اور میرے بعد میری امت پر خلیفہ ہیں اور علی علیہ السلام کی اولاد سے قائم منتظر علیہ السلام ہیں جن کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ زمین کو عدالت سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے کہ جو لوگ اس کی غیبت کے زمانہ میں اس کی امامت پر ثابت اور قائم رہیں گے تو وہ کبریت احمر سے زیادہ قدروقیمت والے ہوں گے۔
(فرائدالسمطین ج۲ص۵۳۳،۶۳۳، کمال الدین ص۸۸۴حدیث ۷)
بارہویں ذمہ داری:حضرت امام مہدی علیہ السلام کےلئے تیاری اور مقدمات
یہ سب سے زیادہ اہم ہے تمام واجبات سے برتر ہے بلکہ یہ ذمہ داری باقی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے والی ہے خاص کر اس زمانہ میں جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں جس میں انسان محسوس کر رہا ہے کہ وہ عصر ظہور کے بہت زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے جس قدر انسان عصر ظہور کے نزدیک ہوتا جائے گا تو وہ یہ محسوس کرے گا کہ تمہید اور تیاری کے لئے اس کے پاس وقت تنگ ہو گیا ہے یہ جدید زمانہ عجیب و غریب دور، منفرد زمانہ، بے مثال دور، ٹیکنالوجی کا زمانہ ایک مومن انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے جو اس کے پاس وقت ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے کیونکہ وقت کی مثال تلوار جیسی ہے اگر تو اسے نہیں توڑے گا تو وہ تجھے کاٹ دے گی جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایاتھا۔
اعتراض اور جواب
روایات میں ایک لمبے اور مہم مرحلے بارے بات کی گئی ہے جیسا کہ آپ بعد میں پڑھیں گے لیکن ان روایات میں جانے سے پہلے ایسی روایات کو ہم اس جگہ لاتے ہیں جن سے بعض لوگوں نے غیبت کے زمانہ میں رہنے یا مقدمات فراہم نہ کرنے یا آپ علیہ السلام کے ظہور سے تمہید اور تیاری نہ کرنے کا نظریہ اختیارکر رکھا ہے جوکہ غلط ہے۔
قائم علیہ السلامکے قیام سے پہلے ہر پرچم اور اس پرچم کو اٹھانے والا طاغوت ہے اس روایت کی مانند اور روایات کے مضامین سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نظریہ اختیار کر لیاگیا کہ آپ علیہ السلام کے ظہور کے لئے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت نہیں ہے بعض روایات سے اس قسم کا معنی سمجھنا خطاءاور غلطی ہے، اشتباہ ہے، ان روایات سے ۔
۱۔ عیص بن قاسم کی روایت صحیحہ اباابوعبداللہ سے ہے۔
۲۔ مرفوعہ ربعی کی روایت حضرت علی علیہ السلام ابن الحسین علیہ السلام سے ہے(مقدمہ صحیفہ سجادیہ)
۳۔ عمر بن متوکل الثقفی کی روایت امام ابوعبداللہ سے ہے۔
۴۔ صحیفہ ابوبصیر ہے۔(الوسائل الشیعہ ج۱۱ص۶۳،۶۳،۷۳، باب بارہ جدید ۱،۲۲)
علماءنے ان روایات سے غلط استفادہ کرنے والوں کو جواب دیا ہے کہ یہ روایات ہماری بحث سے اجنبی اور غیر متعلق ہیں ہم بھی اس جگہ علماءکے جوابات کو اس جگہ اجمالی طور پر ذکر کرتے ہیں ان کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے صحیحہ العیص میں جس جملہ کا سہارا لیا گیا ہے وہ یہ ہے ”فالخارج مناالیوم الی ای شی یدعوکم؟الی الرضا آل محمد، فنحن شہدکم انا لاترضی بہ وھو یعصینا الیوم ولیس معہ احدوھو اذکانت الرایات والا لویة اجدر الا یسمع منا الامن اجتمعت بنوفاطمة معہ فواللہ ماصالیکم الا من اجنتمعوا علیہ“
ترجمہ:۔تو آج جو شخص ہمارے میں سے خروج کر رہا ہے تو وہ تمہیں کس کی طرف دعوت دے رہا ہے؟ آل محمد کی رضا کی جانب تو ہم آپ کو گواہ بنا کر یہ بات کہتے ہیں کہ ہم اس خروج سے راضی نہیں ہیں وہ آج ہماری نافرمانی کر رہا ہے جب کہ اس کے ہمراہ کوئی بھی نہیں ہے، اگر بہت سارے پرچم اور جھنڈے موجود ہوتے تو اس قسم کے خروج کرنے کے لئے زیادہ لائق اور مناسب تھا تو کیا وہ ہم سے یہ بات سنتا نہیں ہے مگر اس کے ساتھ تو وہی ہیں جو بنو فاطمہ سے اکٹھے ہوئے ہیں تو خدا کی قسم تمہارا صاحب نہیں ہوگا مگر وہ جس پر وہ سب اکٹھے ہوں گے“۔
یہ گفتگو خروج کی مطلق اوراس حوالے سے حرمت اور ناجائز ہونے پر دلیل نہیں ہے جی ہان!خروج اس وقت حرام ہے جب انقلاب کے لئے ضروری شرائط موجود نہ ہوں امام علیہ السلام نے اس بات کی طرف اشارہ دے دیا ”ولیس معہ احد؟“ اور اس کے ساتھ تو کوئی ایک بھی نہیں ہے ناصر کی کمی اور نتیجہ کی ضمانت موجود نہ ہونے کی صورت میں خروج حرام ہے۔
اسی طرح آپ نے جو یہ فرمایا ہے ”وماصاحبکم الا من اجتمعوا علیہ“ کہ یہ تمہارا صاحب نہیں مگر وہ جس پر وہ سب اکٹھے ہوں تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے آپ نے ناصروں کی کثرت کی تائید فرمائی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے روایت نے اس بات کو سمجھایا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام سے پہلے انقلاب لانا اور خروج کرنا اگر آل محمد کی رضا کے لئے ہو جیسا کہ بنی عباس کی حکومت کے شروع میں تھا جائز نہیں ہے، لیکن اگر انقلاب، تحریک، قیام اور حکومت اس لئے ہو کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے زمین ہموار کرے مقدمات فراہم کرے تو ایسا خروج اور قیام حرام نہیں روایت اسے منع نہیںکررہی۔
حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام سے جو مرفوعہ بھی ہے تو اس میں ہے”واللہ لایخرج احد مناقبل، خروج القائم الاکان مثلہ کمثل فرج طارمن وکرہ قبل ان یستوی جناحاہ فاخذہ العبیان فعبثوا بہ“
خدا کی قسم! قائم کے خروج اور قیام سے پہلے کوئی بھی ہم میںسے قیام نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس کی مثال پرندے کے اس بچے کی ہو گی جو اپنے دونوں پَر مضبوط ہونے سے پہلے خود کو اپنے گھونسلے سے باہر نکال دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس سے کھیلتے ہیںاور اسے نقصان دیتے ہیں۔
اس روایت کی سند کو صحیح تسلیم کر لینے کی صورت میں یہ ہماری بحث اور گفتگوسے اجنبی ہے اس کا تعلق غیبت کے زمانہ میں خروج سے نہیں ہے کیونکہ یہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کے بعد بیان ہوئی ہے جو ایک ایسا شرعی اور طے شدہ خروج تھا اس کے اثرات کو آج تک ہم محسوس کر رہے ہیں یہ روایت حضرت قائم (عج) کے خروج سے متعلق نہیں ہے اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ خروج حرام ہے جو امام مہدی علیہ السلام کے خروج کے مقابل میں ہو امام مہدی علیہ السلام کا خروج حق کی حکومت، انبیاءکی حکومت قائم کرنے کے لئے ہوگا جس کا اللہ نے آخری زمانہ میں قیام کا وعدہ دیا ہے پس جو شخص بھی امام مہدی علیہ السلام سے پہلے ان کے خروج اور قیام کا اعلان کرے گااور ان والا کردار ادا کرنے کے لئے قیام کرے تو ایسا قیام باطل ہے۔
دوسری بات اس روایت میں یہ ہے کہ ”لایخرج منا“ یعنی ہم اہل بیت علیہ السلام سے کوئی خروج نہیں کرے گا“
درحقیقت یہ ایک سوال کا جواب ہے کہ جس نے آپ کے دور میں یہ سوال کیاکہ آپ اوراسی طرح باقی آئمہ خروج کریں گے تو آپ نے جواب دیا کہ قائم سے پہلے ہم میں سے کوئی بھی قیام نہیں کرے گاسارے ظالموں کے خلاف انقلاب لانا اور حکومت انبیاءکا قیام، حکومت حقہ کا قیام تو یہ حضرت قائم امام مہدی علیہ السلام کے وسیلے سے انجام پانا ہے، تو یہ بات اس سے اجنبی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے واسطے مقدمات فراہم کئے جائیں اس کے لئے تیاری کی جائے، صھیفہ سجادیہ کی روایت میں جو آیا ہے۔
”ما خرج ولا یخرج منا اھل البیت علیہ السلام الی قیام قائمنا، احد لیدفع ظلما اوینعش حقا الا اصطلمتہ البلیة وکان قیامہ زیادة فی مکروھنا وخیعتا“
ہمارے قائم علیہ السلام کے قیام سے پہلے اگر کسی ایک نے خروج کیا تاکہ وہ ظلم کو رد کرے اور حق کو تازہ کرے تو ایسے شخص کو مصیبت گھیر لے گی اور اس کا قیام ہماری تکالیف اور ہمارے شیعوں کے مصائب میں اضافہ کرے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کا راوی مجہول ہے اس میں متوکل بن ھارون ہے جس کے بارے معلوم نہیں وہ کیسا شخص ہے اس وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے اور اس میں محمد بن عبداللہ بن المطلب الشعبانی ہے اس کا ضعیف ہونابھی معلوم ہے اس لحاظ سے یہ روایت اعتبار سے ساقط ہے
(معجم رجال الحدیث ج۵۸ ،رجال النجاشی ۶۹۳فہرست الطوسی ص۶۱۲نمبر۹۰۶۔رجال الطوسی ص۷۴۴)
دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث بھی اس بحث سے اجنبی ہے جس میں ہم ہیں بلکہ پچھلی مرفوع سے زیادہ واضح بیان ہے کہ ہم اہل بیت علیہ السلام سے کوئی خروج نہیں کرے گامگروہ کامیاب نہ ہوگاتو اس روایت میں کسی کے سوال کا جواب دیاگیا ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص ہم آئمہ اہل البیت علیہ السلام سے حضرت قائم علیہ السلام کے قیام سے پہلے اگرخروج کرے گا تو اس کا نتیجہ سوائے ناکامی اور شیعوں کے مصائب میں اضافہ کے اور کچھ نہ ہوگا۔
تیسری بات اس میں یہ ہے کہ اس میں آیا ہے ”فَرَج “یعنی ہم اہل البیت علیہ السلام سے سابقہ زمانہ میں جس کسی نے خروج کیااور پھر ہے ”یخرج“ اور خروج کرے گا تو یہ جملہ امام حسین علیہ السلام اور حضرت زید کے انقلاب کو شامل ہے اس لحاظ سے اعتبار سے ساقط ہے۔
باقی رہ گئی صحیحہ ابوبصیر تو اس میں ہے ”کل رایة ترفع قبل قیام القائم (عج) فصاجھا طاغوت “
”کہ ہر وہ پرچم جو قائم کے قیام سے پہلے اٹھے گا تو اس پرچم والا طاغوت ہے“۔
”یعبد من دون اللہ“ وہ اللہ کے غیر کی عبادت کرتا ہے اس کا معبود غیر اللہ ہے۔تو یہ روایت بھی ہماری بحث سے اجنبی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرنا، ظلم سے دفاع کرنا، تو غیرخدا کی عبادت نہیں ہو سکتا کیونکہ روایت کہہ رہی ہے کہ اس پرچم والا طاغوت ہے اور اس کا معبود غیر اللہ ہے تو یہ اس تحریک چلانے والے کی صفت ہے جو امام مہدی علیہ السلام کے مدمقابل پرچم لا کھڑا کرے گا اور جس کا پرچم لوگوں کو امام مہدی علیہ السلام سے دور کرنے کے لئے ہوگا، گمراہی کا وسیلہ ہوگا۔
لیکن ایسا انقلاب جو امام مہدی علیہ السلام کے لئے تمہید کا کام دے ان کے پرچم کی تائید میں ہواور اس پرچم والا لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دینی احکام سے تمسک اللہ کے نبی کی سنت کو اپنائے اہل بیت علیہ السلام کی سیرت پرچلنے کے لئے ہو اور جو یہ چاہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور کلمہ طاغوت سرنگوں ہو تو پھر ایسا پرچم والا طاغوت نہ ہوگا اور نہ ہی اس کا معبود غیر اللہ ہوگا۔
ایران میں اسلامی حکومت
اسلامی حکومت اس بات کی بہترین دلیل ہے ، یہ اسلامی پرچم ہے، اللہ تعالیٰ کے شعائر، اہل البیت علیہ السلام کے شعائر کی سربلندی کے لئے ہے تاکہ دولت حقہ کے لئے حالات بنائے اور اس انقلاب کو لانے والی ہستی عبدصالح تھا جس نے رضائے آل محمد علیہم السلام کی دعوت دی ، قرآنی احکام کے نفاذ کی بات کی اور پورے عالم کے لئے یہ بات ثابت کر دی کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور قرآنی دستور کو نافذ کیا جا سکتا ہے ولایت فقیہ کی بنیاد پر مذہب اہل البیت علیہ السلام کے مطابق اسلامی حکومت قائم کی جا سکتی ہے جس کی بشارت امام ابوالحسن اول موسیٰ کاظم علیہ السلام نے دی تھی۔
”رجل من اھل قم یدعوالناس الی الحق یجتمع معہ فوم کنزیر الحدید لاتزلھم الریاح العواصف، ولا یملون من الحرب ولا یجبنون وعلی اللہ یتوکلون والعاقبة للمسقین“(بحارالانوار ج۰۶ص۶۱۲)
اہل قم سے ایک مرد ہو گا جو لوگوں کو حق کی دعوت دے گا ان کے ساتھ ایک قوم اکٹھی ہو جائے گی جو فولاد کے ٹکڑوں کی مانند مضبوط ہوں گے انہیں تندوتیز جکھڑ اپنی جگہ سے ہلائیں گے نہیں اور نہ ہی وہ جنگ سے اکتائیں گے اور نہ ہی وہ بزدل پڑیں گے وہ اللہ پر توکل رکھیں گے اور عاقبت متقین کے واسطے ہے۔
اس انقلاب کے نتیجہ میں ایسا ہوا ہے کہ اس مذہب کو بھی اسی طرح پڑھا جا رہا ہے جس طرح اسلام کے باقی چار مذاہب(حنفی،حنبلی،شافعی،مالکی)کو پڑھاجاتا ہے یہ سب کچھ اس انقلاب کے بعد ہوا جب امام خمینیؒ نے کلی طور پر ثابت کر دیا کہ فقہ جعفری معاشرہ اورسول سوسائٹی کی سیاسی اقتصادی قیادت کر سکتی ہے اور انہیں کمال اور عروج پر لے جا سکتی ہے۔
اگر اس اسلامی حکومت نے اس کے سوا اور کچھ نہ کیا ہوتا تو یہی کافی تھااس انقلاب کی حقانیت کے لئے جب کہ اس حکومت کے قیام کے تو بہت زیادہ اثرات اور فوائدحاصل ہوئے ہیں جن کو بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قیام سے پہلے کسی قسم کی تحریک اور انقلابی عمل کی مخالفت کرنے والوں نے جن روایات کا سہارا لیا ہے وہ یہی تھیں البتہ چند اور روایات بھی ہیں جو اس مضمون کے قریب قریب معنی رکھتی ہیںجن کا سہارا بھی لیا گیا ہے ملاحظہ ہو۔
۱۔ ”ہمارے قائم کے خروج سے پہلے جس نے تقیہ کو چھوڑ دیا تو وہ شخص ہم سے نہیں ہے ۔(الوسائل الشیعہ ج۵۱ص۱۱۲،باب وجوب التقیہ، کمال الدین ص۱۷۳، کفایة الاثرص۴۷۲)
۲۔ زمین گیر ہو جاﺅ، ہاتھ پاﺅں کو مت ہلانا، یہاں تک کہ تمہارے لئے وہ علامات جو میں بیان کرتا ہوں وہ ظاہر ہو جائیں۔
(الوسائل ج۵۱ص۶۵، باب جہاد العدد، غیبة النعمانی ص۹۷۲)
اسی طرح کی اور روایات میں ہے ان سے بھی جنہوں نے غلط معانی لئے ہیں ان کا جواب علماءنے دیا ہے جو اوپر بیان ہو چکا اسی سے ان روایات کا حال بھی روشن ہو جاتا ہے۔ (دیکھئے المرجعیة والقیادہ السیدالحائری ص۹۸،۹۸۱)
یہ روایات جو ہیں ان میں بعض کا تعلق امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ غیبت سے بالکل نہیں ہے مثلاً یہ جو کہا گیا ہے کہ لوگوں سے دور ہو جاﺅ، گھر میں بیٹھ جاﺅ، زمین گیر ہو جاﺅ تو یہ اس تناظر میں ہے کہ انسان بعض حالات میں اپنے شرعی واجبات کو ادا نہیں کر سکتے جس جگہ موجود ہوتے ہیںوہاں ان کے لئے حالات مساعد نہیں ہوئے کہ باہر نکلے تو اس کے لئے خطرہ ہے اسے اپنی جان و مال کا خطرہ ہے، عزت اور ناموس کا خطرہ ہے تو ایسی صورتحال میں اسے اپنی روش بدلنی ہوگی بعض لوگ گھربیٹھ کر ، بعض اس علاقہ کو چھوڑ کر، بعض دفعہ کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرکے، تقیہ بھی ان حالات کے حوالے سے ہے جیسا کہ نبی اکرم کی دعوت کے آغاز میں ہوا یا حضور پاک کی رحلت کے بعد والے حالات جو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے لئے درست ہے یا جو حالت باقی آئمہ علیہ السلام کے زمانوں میں موجود رہی، اسی طرح زمانہ غیبت بارے ہے یہ ایک عام بات ہے اس کا تعلق حالات سے ہے اس میں کوئی بھی عقلمند شک نہیں کر سکتا اگر انسان اپنی ذمہ داری اور واجب کو اس طرح ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو جس طرح اس کی ادائیگی کا حکم ہے تو اسے کسی بھی حالت میں پیچھے نہیں ہٹنا ہوگااگرچہ اس راستہ میں قابل برداشت کچھ تکالیف کا سامنا بھی ہو، اگر ایسا نہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعطیل لازم آئے گی اللہ تعالیٰ کی حدود کو مھمل چھوڑنے کی بات ہو گی۔امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کا ترک لازم آئے گا۔
ظہورکے مقدمات سے حکومت کا قیام
سورہ آل عمران آیت ۴۰۱”وَل تَکُن مِّن کُم اُمَّة یَّد عُو نَ اِلَی ال خَی رِ وَیَا مُرُو ن بِال مَع رُو فِ آپ میں سے ایک امت ایسی ہو جو خیر کی دعوت دے معروف کا حکم دے، منکر سے روکے اور ایسے لوگ ہی فلاح پا جانے والے ہیں“۔
چور اور چوری دونوں کے ہاتھ کاٹ دو”وَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاق طَعُو ا اَی دِیَھُمَا(سورہ مائدہ آیت ۸۳)
سورہ مائدہ آیت ۳۳”اِنَّمَا جَزَآئ ¿ُ االَّذِی نَ یُحَارِبُو نَ اللّٰہَ وَ رَسُو لَہُ وَ یَس عَو نَ فِی ال اَر ضِ فَسَادًا اَن یُّق تَلُو آ اَو یُصَلِّبُو آ اَو تُقَطِّعَ اَی دِیَہُم وَاَر جُلَہُم مِّن خِلَافٍ اَو یُنفَو امِنَ ال اَر ضِ، وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے، اللہ تعالیٰ کے رسول سے جنگ کرتے ہیں زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا انہیں پھانسی چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھوں اور پاﺅں کو کاٹ دیا جائے....یا انہیں زمین سے نکال دیا جائے۔(شہدبدر، ملک بدر)
سورہ حجرات آیت ۹”وَاِن طَآئفَتٰنِ مِنَ ال مُو ¿ مِنِی نَ اق تَتَلُو ا فَاَص لِحُو ا بَی نَہُمَا فَاِن بَغَت اِح دَا ھُمَا عَلیٰ ال اُخ ریٰ فَقَاتِلُوا الَّتِی تَب غِی حَتّٰی تَغِیٰ اِلیٰ اَم رِاللّٰہِ، اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو تم ان کے درمیان صلح کراﺅ اور ان دو میں سے جو بغاوت پر اتر آئے، جارحیت کرے تو پھر تم سب اس سے جنگ کرو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف وہ واپس آجائیں۔
سورہ بقرہ آیت ۰۹۱”وَقَاتِلُو ا فِی سَبِی لِ اللّٰہِ الَّذِی نَ یُقَاتِلُو نَکُم وَلَا تَع تَدُو ا“ میں ہے اور تم ان سے جنگ کر واللہ کی راہ میں جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور تم زیادتی مت کرو۔
پس جو شخص زمین میں فساد پھیلاناچاہتا ہے دوسروں کو قتل کرتا ہے ، چوری کرتا ہے ڈاکہ مارتا ہے ظلم کرتا ہے تو ان کے خلاف اقدام کرنا چاہیے جو اعتراض کر تاہے اس سے سوال ہے کہ ان سارے امور کو کون انجام دے گا ۔اس حکم کو کون سی سرکار نافذ کر ے گی ؟ جب کہ جنگ کرنے صلح کرنے، شہر بد ر کرنے کے طریقہ کا تعین کون کرے گا؟ بغاوت اور عدم بغاوت کا فیصلہ کون کرے گا؟ جنگ کے مقدمات کی فراہمی کے لئے اموال کون اکٹھے کرے گا؟موجودہ زمانوں مین جنگ کے جدید ترین طریقوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کون کرے گا؟ان سارے امور کی انجام دہی کے لئے حکومت کا قیام ضروری ہے اور جو اس کا انکار کرتے ہیں وہ اس کے مرتکب ہوں گے اللہ کی حدود اسی طرح معطل رہیں اور اللہ کے احکام کا نفاذ نہ ہو۔
بہرحال جو روایات امام مہدی علیہ السلام سے پہلے پرچم اٹھانے یا پارٹیاں بنانے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنے سے منع کرتی ہیں تو یہ اس پرچم سے روکتی ہیں جو گمراہی کا پرچم ہو، جو امام مہدی علیہ السلام سے تو....ہٹانے کے لئے ہو، جو پارٹی بنانے والوں کی اپنی ذاتی اغراض کے لئے ہو۔
اللہ تعالیٰ کے احکام کو معطل کرنے کا ذریعہ بنیں، کہیں وہ پرچم، ایسی جماعت جو حق کی دعوت دے اسلامی تعلیمات پر چلنے کی خاطر ہو، اہل البیت علیہ السلام کے خطہ پر رہنے کی تائید کرے تو ایسا پرچم اور ایسی جماعت گمراہ جماعت نہیں اور نہ ہی وہ پرچم طاغوت کا پرچم ہے بلکہ یہ حق کا پرچم ہے جو حق کی طرف دعوت دیتا ہے اور حق کا منتظر ہے۔
خاص کر آج کے دور میں انسان ایک کونے میں لگ کر نہیں ٹھہر سکتا اور نہ ہی لاتعلق رہ سکتا ہے۔یا تو اقتصادی مسائل کی وجہ سے یا امیت کے لئے خطرات کی خاطر، انسان پر لازم ہے کہ وہ زندگی کے معاملات میں مداخلت کرے، ایسا کردار ادا کرے اپنے لئے ایک موقف بنائے۔
پس جو شخص اس پرچم کے ساتھ نہیں آنا چاہتا جو حق کاپرچم ہے تو پھر اس مدمقابل دوسرے پرچم تلے چلا جائے جو باطل اور طاغوت کا پرچم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے کہ ہم طاغوت کی طرف میلان رکھیں۔ کیا تم نے ان کی جانب نہیں دیکھا کہ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے۔ تیرے اوپر اور ان پر جو تجھ سے پہلے تھے۔پھر وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کے فیصلوں کوپہنچائیں جب کہ ان کو حکم تو یہ دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں”اَلَم تَرَاِلَی الَّذِی نَ یَز عُمُو نَ اَنَّہُم اٰمَنُو ا بِمَا اُن زِلَ اِلَی کَ وَمَا اُن زِلَ مِن قَب لِکَ یُرِی دُو نَ اَن یَّتَحَاکَمُو آ اِلَی الطَّاغُو تِ وَقَد اُمِرُو ا اَن یَّک فُرُو ابِہ“۔(سورہ نساءآیت ۰۶)
تمہید کی اہمیت اور ضرورت
رہبر اسلام السید علی خامنہ ای نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا ہے،اس کاعنوان ہے” انبیاءعلیہ السلام اور اوصیاءعلیہ السلام کا پورے عالم کو پاک نہ کر سکنے کے اسباب “
اس کا کیا سبب ہے کہ انبیاءعلیہ السلام کی بہت بڑی تعداد جن میں اولوالعزم پیغمبر بھی شامل ہیں عالم(دنیا) کو فساد، کمینگی سے پاک نہ کر سکے؟
اس کاسبب یہ ہے کہ اس وقت حالات سازگار نہ تھے ۔حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے زمانہ میں فساد کی جڑوں کا صفایا کیوں نہ کر سکے باوجودیکہ آپ ربانی طاقت کے مالک تھے اور حکمت الٰہی سے متصل علم آپ کے پاس تھا ارادہ کی پختگی، فیصلہ کی جرات آپ کے اہم اوصاف سے تھا اتنے سارے مناقب و فضائل کے آپ مالک تھے اتنی زیادہ رسول اکرم نے آپ کے حق میں سفارشات کیں؟ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود آپ عالم کو فساد سے پاک کیوںنہ کر سکے؟
بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہوا بالآخر آپ کو راستہ سے ہٹا دیا گیا۔ آپ اپنے محراب عبادت میں شہادت پاتے ہیں آپ علیہ السلام اپنی عدالت میں سخت ہونے کی وجہ سے قتل کر دیئے گئے یہ اس وجہ سے کہ اس زمانہ کے حالات اور وہ ماحول سازگار نہ تھا، مخالفین نے حالات آپ کے خلاف بنا دیئے ،ان کے لئے دنیاوی محبت کے راستہ کو ہموار کیاگیا اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے آپ کے مدمقابل راستہ کا انتخاب کیا ۔وہ لوگ جو امیرالمومنین علیہ السلام کے مدمقابل صف آراءہوئے آغاز میں یا درمیانے دور میں یا آخری ایام میں تو سب وہ تھے جن میں دین سے لگاﺅ کی بنیاد کمزور تھی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر حالات سازگار نہ ہوں، ماحول مناسب نہ ہو تو اس طرح کے مصائب اور مشکلات آتے ہیں جن کا سامنا امیرالمومنین علیہ السلام کو کرنا پڑا۔
اگر حضرت امام زمانہ (عج) ایسے حالات میں ظہور فرمائیں کہ لوگوںمیںآمادگی موجود نہ ہو، ماحول سازگار نہ ہو تو پھر وہی نتیجہ ہو گا جو پہلے ہوتا رہا ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی آمد کے لئے تمہید ضروری ہے، حالات سازگار بنانا ضروری ہیں۔
لیکن یہ تمہید کیسے ہوگی؟
یہ اسی طرح ہی ہو گی جیسا کہ آپ اس کی مثالیں اپنے معاشرہ میں ایران کی اسلامی حکومت میں دیکھ رہے ہیں آج ایک معنوی رجحان موجودہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور حصہ میں نہیں پائی جاتی ان جوخبریں اور اطلاعات ہم تک پہنچتی ہیں ان کی روشنی میں جہاں تک ہمارا علم ہے اورجو کچھ پورے عالم میں ہو رہا ہے ہم اس سے غافل نہیں ہیں
آپ اس عالم میں کس جگہ ایسا پاتے ہیں کہ ایک نوجوان اپنی مادی خواہشات کو پاﺅں تلے رگڑ دے اور معنوی آفاق میں سیر کرنے لگ جائے۔
جی ہاں!وہاں کچھ ایسے جوان موجود ہیں جو اس قاعدہ کلی سے مستثنیٰ ہیں یہ پورے عالم کی ایک ظاہری اور طبعی صورتحال ہے اتنی بڑی تعداد اور وہ بھی ان صفات کے ساتھ آراستہ و پیراستہ ایک نسل سے؟ اس کی مثال موجود نہیں ہے اس پوری روئے زمین پر اس پورے عالم میں اتنی بڑی تعداد میں اس معنوی رجحان کے ساتھ ایک سرزمین پر ایک ہی نسل و قوم کے جوان کسی اور جگہ موجود نہیں ہیں۔جیسا کہ اس وقت بعض اسلامی خطوں میں ہے جیسے لبنان۔
بعض کا خیال تھا کہ یہ حالت فقط جنگ کے زمانہ میں تھی اور اسی زمانہ سے مخصوص تھی یہ بات درست ہے کہ جنگ کے ایام میں اس رجحان کے لئے بہت زیادہ مساعد اور مددگار تھے اور اس پہلو سے باہر آنے والے جوانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن یہ حالت ایام جنگ سے مختص نہیں بلکہ اسے آج بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔نیک، خیرخواہ، مومن، عبادت گزار حزب اللہ کے فرزندوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو پاﺅں تلے روند کر رکھ دیا ہے مال اور ثروت کی لالچ سے باہر نکل آئے ہیں اگرچہ بعض ایسے بھی موجود ہیں جو ان کودھوکہ دینے والے زرق برق کے ظاہری مناظر میں پھنسے ہوتے ہیں لیکن فرزندان حزب اللہ پورے ورع کے ساتھ، گناہوں کو خیرباد کہتے ہوئے، تقویٰ، زہد کو اپناتے ہوئے پوری ہمت اور قوت کے ساتھ بغیر کسی ملال اور اکتاہٹ اور دنیا کی تنگیوں اور مادی لذات سے دل اچاٹ کئے معنویات کے بے کراں سمندر میں غوطہ زن ہیں تو ان حالات کے سایہ میں بہتری کی طرف ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھانے کے امکانات پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔
خواتین میں معنویت کا رجحان مردوں سے کم نہیں
یہی صورتحال خواتین میں بھی پائی جاتی ہے ہمارے ملک میں عورت سیاسی عمل میں موجود ہے اجتماعی اور سیاسی سرگرمیاں اس کے لیے موجود ہیں ، وہ تنظیمی کاموں میں حصہ لے رہی ہیں اور جب جہاد کا وقت ہوتا ہے تو مائیں اپنے جگر گوشوں کو جنگ کے محاذ پر خود تیار کر کے روانہ کرتی ہیں اور پھر امورخانہ داری اور تربیت اولاد کے معاملات سے بھی غافل نہیں اس قسم کے مظاہر اور اس جیسے حالات کا وجود عمومی طور پر دنیا کے دیگر ممالک میں تائید ہے اس بات کی بڑی اہمیت ہے اور یہ سب کچھ صحیح اسلامی تربیت کے نتیجہ میں ہوا ہے اور یہی حالت جو دلوں میں امید کی کرن روشن کرتی ہے اور اس نے ان نتائج تک پہنچا دیا جس کا آج آپ مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس پر ہم نے ہمیشہ زور دیا ہے اور تاکید بھی کی ہے اور آج ہماری ایرانی عوام تدریجی طور پر ہماری عزت اور وقار کو پورے عالم میں مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ اسلام کی پابندی کرنے اور اسلامی تعلیمات کو اپنانے کے نتیجہ میں ہے اور جو قوم بھی اسلام کی پیروی کرے گی اسے یہی کچھ حاصل ہو گا جو ایرانی قوم کو اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہو کرملا ہے اور جو لبنانی مسلمانوں کے لئے موجود تھے۔
لہٰذا اوضاع، حالات کوسازگار بنانا ممکن ہے اللہ کے اذن سے جس وقت اس قسم کے حالات بنیں گے اور پورے عالم میں اس قسم کی آمادگی ہو جائے گی تو حضرت بقیة اللہ علیہ السلام کے ظہور کے لئے بھی حالات سازگارہوجائیںگے اوراس وقت یہ دیرینہ خواہش پوری ہو جائے گی جو مدتوں سے انسانوں کے اذہان میں بالعموم اور مسلمانوں کے اذہان بالخصوص جولان مار رہی تھی کہ کوئی ایسی صورتحال ہے کہ ہر طرف عدل ہو، امن ہو، خوشحالی ہو۔
تمہید:۔ دولت حق کے لئے بعض روایات
حضرت امام صاحب الزمان(عج) کی حکومت کے قیام کے لئے حالات بنانے ہیں، ماحول سازگار کرنا ، عمومی آمادگی پیدا کرنے کے لئے کوششیں کرنی ہیں اس کے لئے روایات میں تاکید ہوئی ہے اس جگہ چند روایات ملاحظہ ہوں۔
۱۔ ابوالحسن بن ھلال بن عمیر میں نے یہ بات حضرت علی علیہ السلام سے سنی کہ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے ”وراءنھر“سے ایک مرد خروج کرے گا اسے حرث(حارث بن حراث)کہا جائے گااس کے پیش ایک مرد ہو گا جسے منصور کہا جاتا ہو گا وہ حالات بتائے گا یا قدرت پیدا کرے گا حضرات آل محمد علیہم السلام کے اقتدار میں آنے کے لئے جس طرح قریش نے حضرت رسول اللہ کے لئے حالات پیدا کئے ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ اس کی نصرت کرے یا یہ فرمایا کہ اس کی دعوت کو قبول کرے۔(سنن ابی داﺅدج۲ص۱۱۳،ح ۰۹۲۳)
۲۔ کتاب الفتن میں آیا ہے کہ عبداللہ بن مروان نے ھیثم بن عبدالرحمن سے اس نے حضرت علی علیہ السلام سے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”مہدی علیہ السلام سے پہلے ایک مرد اٹھے گا جو آپ کے اہل بیت سے ہوگا اور مشرق کی سرزمین سے اس کا تعلق ہوگا وہ آٹھ ماہ تک تلوار اپنے کاندھے پر اٹھائے رکھے گا، قتل کرے گا، ٹکڑے ٹکڑے کرے گا اور وہ بیت المقدس کا رخ کرے گا تو وہ اس جگہ نہ پہنچ سکے گا کہ وہ مارا جائے گا“۔(کتاب الفتن نعیم بن حماد المروزی ص۸۹۱)
۳۔ المستدرک میں ابوالعباس محمد بن یعقوب نے حدیث بیان کی ہے، ان سے حسن بن علی بن عفان العامری نے ،ان سے عمروبن محمد العنقری نے حدیث بیان کی ان سے یونس بن اسحق نے یہ کہا کہ مجھے خبر دی ہے عمار دھنی نے ابوالطفیل سے اور اس نے محمد بن الحنفیہ سے یہ بیان نقل کیا ہے کہ” ہم حضرت علی علیہ السلام کے پاس تھے کہ کسی نے آپ علیہ السلام سے مہدی علیہ السلام کے بارے سوال کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ھیھات یہ بات دور کی ہے، پھر اپنے ہاتھ سے سات گرہیں بنائیں پھر فرمایا: وہ آخری زمانہ میں خروج کرے گا۔ اس آدمی نے سوال دہرایا کہ اگر وہ قتل کر دیئے گئے تو(لمحات النہج الصبان ص۲۰۱)اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک قوم کو اکٹھا کرے گا اس طرح جمع ہوں گے جس طرح بادل کی ٹکڑیاں جمع ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اکٹھا کر دے گا کسی ایک سے انہیں وحشت نہ ہو گی اور نہ ہی کسی ایک سے انہیں خوشی ہو گی ان میں اصحاب بدر کی تعداد برابر، افراد وارد ہوں گے اولین نے ان پرسبقت نہیں کی اور نہ ہی آخرین ان کا ادراک کریں گے طالوت کے اصحاب کی تعداد میں ہوں گے جنہوں نے اس کے ہمراہ نہر کو عبور کیا تھا۔
ابوالفضل:۔ ابن الحنفیہ نے کہا کیا تم اسے جانتے ہو؟
ابوالطفیل:۔ جی ہاں!
ابن حنیفہ:۔ وہ ان دو ٹکڑیوں کے درمیان سے خروج کریں گے۔
ابوالطفیل:۔ کوئی حرج نہیں، اللہ ان دونوں کومجھے نہ دکھائے مگر یہ کہ میں مر جاﺅں پس وہ مکہ میں مر گیا ، اللہ مکہ کی حفاظت فرمائے۔(المستدرک الحاکم نیشاپوری ج۴ص۴۵۵)
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور ان دونوں نے اس حدیث کا اخراج نہیں کیا۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: امر سارا ان کے لئے ہو گا یہاں تک کہ وہ ان کے مقتول کو قتل کریں گے اور آپس میں مقابلہ کریں گے جب ایسا ہو گا تو اللہ تعالیٰ مشرق سے ان پر ایسی اقوام بھیجے گاجو انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کریں گے اور انہیں شمار کر کے ماریں گے خدا کی قسم وہ ایک سال کے مالک نہ بنیں گے مگر ہم دو سال کے مالک بنیں گے وہ دو سال کا اقتدار نہ لیں گے مگر یہ کہ ہم چار سال کا اقتدار لیں گے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے ہے: میں اسباط سے سبط ہوں، حق پر میں جنگ کروں گا تاکہ میں حق قائم کروں لیکن حق ہرگز قائم نہ ہوگا اور اَمر اُن کے واسطے رہے گا پس جب وہ بہت ہو جائیں گے تو آپس میں مقابلہ پر اترآئیں گے تو وہ ان کے قتیل کو بھی مکمل کریں گے اللہ تعالیٰ ان پر اہل مشرق سے اقوام بھیجے گا تو وہ انہیں منتشر کر کے ماریں گے اور ان کی تعداد کا انہیں شمار ہوگا خدا کی قسم!وہ ایک سال اقتدار حاصل نہ کریں گے مگر یہ کہ ہم دو سال اقتدار لیں گے۔(الشریف بالمتن ج۴۸ص۰۳،۹۳۳،۸۴۴)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون آج عرب کے ایسے امر کو ضروربالضرور بیان کر دیا جائے گا جسے وہ چھپاتے رہے۔
راوی کہتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سخت غضب کی حالت میں تھے ۔
آپ نے فرمایا مجھے ان ضیاطرہ( ) کے بارے گفتگو کرنے سے کون معذور قرار دیتا ہے ان کا ایک جو ہے وہ اس حشایا( )پر چھٹا پڑا ہے ، پس وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اسے بھگا دوں اور میں ظالموں سے قرار پاﺅں جس نے دانا شگافتہ کیا اور نفس کو پیدا کیا،میں نے یہ بات جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی کہ آپ فرماتے تھے خدا کی قسم کہ وہ تمہیں دین پر واپس لانے کے لئے مارے گا جس طرح تم نے اسے شروع میں دین پر لانے کے لئے مارا ہے۔(نہج السعادة ج۲ص۳۰۷)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے ہے: میں عجمیوں کو دیکھ رہا ہوں ان کے مجمعے مسجد کوفہ میں لگے ہوئے ہیں وہ قرآن کو اس طرح تعلیم دے رہے ہیں جس طرح قرآن اترا ہے۔(الغیبة نعمانی ص۸۳)
الطبرانی نے ابن حیان سے اس نے معاویہ بن قرہ سے اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے جس وقت ملاحم واقع ہوں گے تو اللہ تعالیٰ موالیوں کی جماعت بھیجے گا وہ عربوں میں زیادہ کریم ہوں گے سواری کے اعتبار سے اور اسلحہ کے اعتبار سے زیادہ سخی ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے دین کی تائید فرمائے گا۔
ابی الحسن الربعی المالکی نے اپنی سند سے حدیث بیان کی ہے حضرت رسول اللہ نے فرمایا: جب ملاحم واقع ہوں گی اللہ تعالیٰ دمشق سے ایک گروہ کو اٹھائے گا جو موالی(غیرعرب)سے ہوں گے سواری کے لحاظ سے تمام عربوں سے زیادہ کریم ہوں گے اور اسلحہ کے لحاظ سے ان سے زیادہ اٹے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ دین کی تائید فرمائے گا جب خلیفہ کو عراق میں قتل کر دیا گیا تو ایک مربوع(چارشانوں والا مرد خروج کرے گا)(معجم احادیث المہدی ج۱ص۳۸۲، بحارالانوار ج۷۵ج۶ص۶۱۲ص۶۱۲)
مصنف کہتا ہے کہ یہ روایات اہل سنت کی کتابوں سے لی گئی ہیں ان کے مضامین سے جو بات اجمالی طور پر سمجھی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے کام کیا جائے گا اور آپ علیہ السلام کی حکومت کے لئے حالات بنانے کے واسطے کوششیں ہوں گے۔(مصنف نے ان روایات سے اجمالی یہ مطلب ا ¿خذ کیا ہے البتہ ان سے زیادہ وضاحت والی احادیث کا انتخاب کیا جاتا تو بہترتھا۔ مصنف بتانا یہ چاہتے ہیں کہ آخری زمانہ میں فتنے ہوں گے اسلام کے احیاءکے لئے تحریک اٹھے گی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے لوگ اسلام کے لئے قیام کریں گے کچھ ناکام ہوں گے اور یہ سلسلہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور تک جاری رہے گا مصنف نے یہ ساری روایات اہل سنت سے لی ہیں اس موضوع پر مزید جاننے کے لئے ہماری ترجمہ شدی کتاب”عصر ظہور“کا مطالعہ کریں....مترجم)
سیاہ جھنڈے اور اہل قم
۱۔ حضرت امام ابوالحسن اول کے حوالے سے حدیث پہلے بیان ہو چکی ہے جس میں اہل قم سے ایک مرد کے قیام کی بات کہی گئی ہے۔
۲۔ حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ قم کو کیوں قم کا نام دیا گیاہے؟
راوی : میں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول اور آپ علیہ السلام بہتر جانتے ہیں۔
امام ابوعبداللہ علیہ السلام: قُم کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اھل قُم قائم آل محمد علیہم السلام کے ساتھ اکٹھے ہوں گے ان کے ساتھ قیام کریں گے ان کے ہمراہ مستحکم رہیں گے اور ان کی مدد کریں گے۔(البحار ج۶ص۶۱۶،ص۸۳)
۳۔ ابوعبداللہ علیہ السلام: عنقریب کوفہ مومنوں سے خالی ہو جائے گا اور وہاں سے علم اس طرح غائب ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنی بل میں غائب ہو جاتا ہے، پھر علم ایک ایسے شہر میں ظاہر ہو گا جسے قم کہا جاتا ہو گا قُم علم و فضل کا مرکز بن جائے گا، یہاں تک کہ رُوئے زمین پر کوئی شخص دین کے حوالہ سے مستضف نہیں ہوگا حتیٰ کہ خواتین جو پردہ دار ہیں ان تک بھی پہنچے گا جیسا کہ آج خواتین میں علم دین کے حصول کا شوق اور لگاﺅ عام ہے....مترجم) اور یہ ہمارے قائم علیہ السلام کے ظہور کے قریب ہو گا اور اللہ تعالیٰ قُم اور اہل قُم کو حجت کے قائم مقام قرار دے گا اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین اپنے اہل سمیت دھنس جاتی اور زمین پر حجت اور دلیل باقی نہ رہتی پس وہاں سے علم سارے شہروں کوپہنچے گا مشرق اور مغرب میں یہ علم جائے گا اس طرح مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہو جائے گی کوئی روئے زمین پر ایسا نہ بچے گا مگر یہ کہ اس تک دین اور علم پہنچ جائے گا اس کے بعد قائم ظہور فرمائیں گے آپ علیہ السلام اللہ کا عذاب بن کر آئیں گے اور اللہ کی ناراضگی کا اظہار ہوں گے بندگان پر کیونکہ اللہ تعالیٰ بندگان سے انتقام نہیں لیتا مگر اس وقت جب وہ اللہ تعالیٰ کی حجت کا انکار کر دیتے ہیں۔(البحارج ۰۶ص۶۱۲،۶۳ص۸۳)
۴۔ ابوعبداللہ علیہ السلام:اللہ تعالیٰ نے کوفہ کے توسط سے سارے شہروں پر احتجاج کیا اور کوفہ میں رہنے والے مومنین کے ذریعہ ان پر احتجاج کیا جو دوسرے شہروں میں رہنے والے ہیں اور قُم شہر کے ذریعہ باقی شہروں پر احتجاج کیا اور قُم والوں کے ذریعہ مشرق اور مغرب میں رہنے والے سارے جنات اور انسانوں پر احتجاج کیا اللہ تعالیٰ نے قُم اور اہل قُم کوکمزورنہیں چھوڑا بلکہ انہیں توفیق دی اور ان کی تائید فرمائی پھر فرمایا: دین اور اہل دین قُم میں ذلیل ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو تیزی سے اس طرف آتے اور قُم ویران ہوجاتااور اہل قُم ختم ہو جاتے ہیں پھر سارے شہروں حجت و دلیل نہ رہتی اور اگر ایسا ہو جائے تو پھر زمین اور آسمان مستقرنہیں رہ سکتے اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی ان کی جانب نگاہ نہ کی جائے مصائب قُم اور اہل قُم سے دور ہیں ایک زمانہ عنقریب آئے گا کہ قُم اور اہل قُم تمام خلائق پر حجت ہوں گے اور یہ ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ہو گا کوئی بھی ان کی جانب برا ارادہ نہ کرے گا مگر یہ کہ فاصیم الحیارین انہیں توڑ کر رکھ دے گا اور انہیں کسی مصیبت اور ہلاکت میں تباہ و برباد کر دے گا یا کسی دشمن سے ان کا پالا پڑے گا ان جابروں کے ذہن سے قُم اور اہل قُم کی یاد کو بھلا دے گا جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بھول چکے ہیں۔
(البحارج ۶،ص۲۱۲،۳۱۳، باب ۶۳حدیث ۲۲، منتخب الاثرص۳۶۲،۴۶۳، باب ۷۲حدیث ۱۲)
امام علیہ السلام: اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے زیادہ بلند، کرامت والی، شان والی، عظمت والی ہستی ہے کہ وہ زمین کو بغیر عادل امام علیہ السلام کے چھوڑ دے ایسا کرنا اس کی شان، عظمت و جلالت کے منافی ہے۔
راوی:۔ میں آپ پر قربان جاﺅں کس طرح میں آرام و اطمینان حاصل کروں۔
امام علیہ السلام:۔ اے ابا محمد! امت محمد کبھی بھی راحت کو نہ پا سکیں گے جب تک فلاں کی اولاد ان پر حاکم ہے یہاں تک کہ ان کا ملک اور اقتدار ختم ہو جائے، جب ان کا اقتدار ختم ہو گا تو اللہ تعالیٰ امت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اہل البیت علیہ السلام سے ایک آدمی(مرد)عطا کرے گا جو انہیں تقویٰ اختیار کرنے کا کہے گا اور ہدایت پر عمل کرے گا اللہ تعالیٰ کے حکم میں رشوت نہ لے گا خدا کی قسم میں اس کا نام اور اس کے باپ کا نام جانتا ہوں پھر ہمارے پاس ایک موٹے جسم والا چھوٹے قد والا غلیظ القصرہ، آئے گا خال والا ہوگا، شامتین( )اس کے ہوں گے۔ قائم قیام کرنے والا ہوگا، عادل ہوگا، جو اسے سپرد کیا گیا ہے اس کی حفاظت کرنے والا ہوگا زمین کو عدل اور انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہے۔
(اقبال الاعمال ص۹۹۵،۰۰۶ اثبات الہداہ ج۳ص۱۸۵،۲۸۵، فصل ۹۵حدیث ۶۶۷، البحارج ۲۵ص۹۶۲،۵۲،حدیث ۸۵۱)
۵۔ ابن اعثم الکوفی نے الفتوح میں بیان کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
طالقان کے کیا ہی کہنے، اللہ تعالیٰ کے اس میں خزانے ہیں جو سونے چاندی کے نہیں ہیں لیکن اس میں ایسے مرد ہیں جو مومن ہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت اس طرح رکھتے ہیں جیسے ہونی چاہئے اور وہ آخری زمانہ میں مہدی علیہ السلام کے انصار بھی ہیں۔(البحار ج۱۵ ص۷۸، مستدرک سفینة البحار ج۶ص۷۵، الماوی للسیوطی ج۲ص۲۸، کنزالعمال ج۷ص۲۶۶، آخری دو حوالے اہل سنت سے ہیں)
طالِقان سے مراد
لام پر زیر پڑھنی ہے ، دو شہروں پر بولا جاتا ہے (۱)خراسان میں ہے جو مروالروذ اور بلخ کے درمیان واقع ہے اس کے ارامروالروذ کے درمیان تین مراحل فاصلہ ہے اور الاصطخری نے بیان کیا ہے طخارستان کا سب سے بڑا شہر طالِقان ہے اور یہ ایسا شہر ہے جو سطح زمین کے برابر ہے شہر اور پہاڑ کے درمیان ایک تیرکے چلانے کا فاصلہ ہے ان میں بڑا دریا ہے اور باغات اس میں ہیں طالِقان بلخ کا ایک تہائی ہے اس کے بعد جو شہر ہے وہ زوالین ہے بڑے ہونے کے لحاظ سے ۔(معجم البلدان الحموی ج۴ص۶)
(از مترجم....مصنف نے طالِقان کے بارے یہی بات لکھی ہے پھر یہ کہ دو جگہوں پر بولا جاتا ہے اس کی بھی پوری وضاحت نہیں ہے کہ دوسری جگہ کون سی ہے؟ جہاں تک میری معلومات ہیں تہران سے متصل کوہ ابرز کے علاقہ پر طالِقان کا لفظ بولا جاتا ہے اس نام کا کوئی خاص شہر آباد نہیں ہے۔عصر الظہور میں اس کے بارے تفصیل موجودہے)
مصنف کا بیان ہے کہ طالِقان کے جو خزانے ہیں اس سے مراد وہ افراد ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ نکلیں گے جیسا کہ روایت میں ہے ان کی تعداد بارہ ہزار ہوگی۔
عام طور پر اس لفظ کو اہل خراسان پر اس طرح سے نہیں بولا جاتا جس طرح اہل فارس اور اہل قُم کا لفظ ہے۔ اس کا استعمال اس انداز سے نہیں (مصنف نے طالقان کا تعین نہیں کیا کہ یہ کس علاقہ پر بولا جاتا ہے اور اس سے کون مراد ہیں)
حضرت ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اللہ کے فرمان ”ماختلف الاحزاب من بینھم “ بارے پوچھا گیا۔
امیرالمومنین علیہ السلام: تین میںظہورکی انتظار کرو۔
سائل: یا امیرالمومنین علیہ السلام وہ تین کون سے ہیں؟
امیرالمومنین علیہ السلام: شام والوں کا آپس میں اختلاف ہونا،خراسان سے سیاہ جھنڈوں کا نمودارہونا، ماہ رمضان میں فزعة کا ہونا ۔
سائل: اس فَزَعة سے کیا مرادہے؟
امیرالمومنین علیہ السلام: کیا تم نے قرآن مجیدمیں اللہ عزوجل کا یہ فرمان نہیں پڑھا ”اِن ± تَّشَا ±ءنُنَزِّل ± عَلَی ±ہِم ± مِّنَ السَّمَآئِ آیَةً فَظَلَّت ± اَع ±نَاقُہُم ± لَہَا خَاضِعِی ±نَ“(الشعراءآیت ۴)
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے نشانی اتاریں کہ اس نشانی کے آگے ساروں کی گردنیں جھک جائیں گی یہ ایک خوفناک دہلا دینے والی آسمان سے آواز ہو گی کہ جوان لڑکی اپنے پردہ سے باہر دوڑ آئے گی، سوئے ہوئے کو جگا دے گی اور بیدار جو ہے ڈر جائے گا۔(کتاب الغیبة باب علامات قبل قیام القائم علیہ السلام ص۱۵۲، اثبات الہداة ج۷ص۱۲۴)
پھر کوفہ سے ایک لاکھ نکلیں گے جو مشرک اور منافق ملے ہوں گے وہ پڑاﺅ دمشق میں ڈالیں گے کوئی روکنے والا انہیں منع نہیں کرے گا اور یہ ارم ذات العماد ہیں مشرقی سرزمین سے پرچم آئیں گے روئی، اون، ریشم کے نہیں ہوں گے نیزوں کے سروں پر السیدالاکرکی مہر سے نشان لگے ہوں گے آل محمد علیہم السلام کا ایک آدمی انہیں جلا رہا ہو گا جس دن وہ پرچم مشرق میں اڑے گا تو اس کی ہوا مغرب کو پہنچے گی مشک اذفر کی مانند، اس کے آگے رعب اور دبدبہ ایک ماہ کے فاصلہ سے چلے گا یعنی اس پرچم سے اتنا رعب ہوگا کہ ایک ماہ کی مسافت والے علاقہ جات پرچم کے پہنچنے سے پہلے ہی مرعوب ہو جائیں گے۔
(البحار ج۳۵ص۷۷حدیث۲۲، الایقاط من الحجة ص۹۸۲ج۰۰۱،۱۱۱)
۸۔ غیبت نعمانی میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے : پلان بنایا جا چکا ہے، فیصلہ ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بنی امیہ سے ظاہری تلوار سے اقتدار کو لے اور فلاں کا اقتدار لینا اچانک ہوگا۔امیرالمومنین علیہ السلام: اس چکی نے ضروری گھومنا ہے، جب وہ کہ اپنے قطب اور مرکز پر آگئی اور اپنی بنیاد پر برقرار ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک عبد عسف کومسلط کرے گا جس کی اصل ہو گی بھیجے گا،مدد اس کے ساتھ ہو گی اس کے اصحاب کے بال لمبے ہوں گے وہ اصحاب السبال( )ہوں گے ان کے لباس سیاہ ہوں گے وہ سیاہ جھنڈوں والے ہوں گے ان کے واسطے تباہی ہوگی جو ان کا مقابلہ کرے گا وہ بدامنی کے ساتھ قتل کریں گے خدا کی قسم!میں انہیں دیکھ رہا ہوں ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہوں ان کے فاجروں سے جو کچھ ہو گا اور عراب سے جو کچھ ہوگا ، ظلم ہو گا، زیادتی ہو گی ، اللہ ان پر بے رحم کو مسلط کر دے گا وہ انہیں بدامنی سے قتل کر دے گا ان کے شہر میں فرات کے کنارے پر، تری اور خشکی میں یہ بدلہ ہو گا اس عمل کا جو انہوں نے انجام دیا ہوگا اور تیرا رب ظلم کرنے والا نہیں ہے۔(الزام الناصب ج۲ص۶۳۱، غیبت نعمانی ص۷۵۲۱ج۴۱حدیث۴۱)
۹۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف منسوب باتوں سے یہ بھی ہے کہ سیاہ پرچم والوں کی جماعتوں میں ہیجان بپا ہو گا، بڑی آگ نصب کریں گے ، جسے سیارخ(عربی میں صاروخ، صارخ میزائل کو کہاجاتاہے)صارخ نام دیا جائے گا اور اللہ کے دشمنوں کو بہت ساری معدنیات سے دھمکائیں گے، دائرہ کی مانندمخلوط ہوں گے اور دوسری بہت ساری شکلیں ہوں گی، پہاڑوں کی لمبائی جیسے تیر ہوں گے ان تیروں کے دل میں بھڑکتی آگ ہو گی جو زمین کو پھاڑ کر رکھ دیں گے پانی اور ہوا کوفاسد کر دیں گے کسی کو زندہ نہ چھوڑیں گے مگر اسے چٹ کر دیں گے وہ حمحمہ جیسا اگر چھوڑے گا راکھ ہو جائے گا ہوا میں ذرات اڑ جائیں گے، اگر اسے دفن نہیں کرو گے، یہودی عورتیں شوہرمانگیں گی ان کو شوہر نہ ملیں گے مگر یہود سے باہر کی نسل سے بیس عورتوں کا ایک نگران ہوگایعنی یہود میں مرد کم پڑجائیں گے۔
وہ سب زمین کے ایک حصہ میں اکٹھے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل کرے گا ان پر اھانت، بیچارگی، رسوائی لکھ دی جائے گی ان کا کوئی پر بھڑکتا ہوا نہیں اٹھے گا مگر یہ کہ نیزے کی مانند وہ دجال کی انتظار کریں گے اور وہ جوشر غالب ہے وہ انتظار اس کی کریں گے ان میں سے ہزاروں ایمان لائیں گے ان کے لئے عقل اور دین ہوگا وہ دن اور رات مہدی علیہ السلام کے اقتدار میں بسر کریں گے۔(المناجاة لمحمد عیسی بن داﺅد ص۱۰۶)
۰۱۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلامکی طرف منسوب ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا،قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیاہے، ایک پرچم ہے کہ اس کے ساتھ اور بہت سارے پرچم ہیں، وہ پرچم ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے جس دن سے لہرایا گیا تو اسے ابھی لپیٹا نہیں گیا اور ایسے مرد ہیں کہ ان کے دل فولاد سے زیادہ سخت ، مضبوط اور ٹھوس ہیں اگر وہ پہاڑوں پر حملہ کردیں تو انہیں اپنی جگہ سے ہٹا دیں وہ یہودیوں کے کسی بھی شہر کا اپنے جھنڈوں اور اسلحہ کے ساتھ رخ نہ کریں گے مگر یہ کہ اسے ویران کر دیں گے گویا ان کی سواریوں کے اوپر عقبان ہیں جو اڑ رہے ہیں وہ مہدی علیہ السلام کو اپنی جانوں سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے اصحاب محبت رکھتے تھے وہ مہدی علیہ السلام کو گھیرے رکھیں گے اور اپنی جانوں کے ذریعہ ان کی حفاظت کریں گے انہیں اس بات کا یقین ہو گا کہ اللہ ان کے لئے فتح دے گا اور جو مہدی علیہ السلام نے ارادہ کر لیا ہے اللہ اس کے لئے المفاجاة لمحمدعیسیٰ فتح دے دے گا۔
(المغاجاءلمحمد عیسیٰ بن داﺅدص۱۰۶)
حضرت رسول اللہ: جس وقت تم خراسان سے سیاہ پرچموں کو آتے دیکھ لو تو پھر ان کی مدد کے لئے آگے بڑھنا، اگرچہ تمہیں برف پر گھٹنوں کے بل بھی چل کر کیوں نہ آنا پڑے کیونکہ ان میں خلیفة اللہ المہدی علیہ السلام موجود ہے۔(بحارالانوار ج۷۴ص۲۸ج۷۳)
حضرت رسول اللہ : ہم اہل البیت علیہ السلام ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن کے لئے آخرت کو ان کی دنیا پر منتخب کر لیا ہے میرے اہل بیت علیہ السلام میرے بعد بہت تکالیف دیکھیں گے انہیں بھگایا جائے گا دربدر پھرایا جائے گا، یہاں تک کہ مشرق سرزمین سے ایک قوم آئے گی ان کے ہمراہ سیاہ پرچم ہوں گے تو وہ حق کے متعلق سوال کریں گے تو انہیں وہ حق نہیں دیا جائے تو وہ اس حق کو لینے کے لئے جنگ کریں گے اور وہ کامیاب ہو جائیں گے انہیں ان کا حق دیا جائے گاجو وہ چاہتے تھے لیکن وہ اس صورت میں اتنے پر اکتفا نہ کریں گے یہاں تک کہ وہ اس پرچم کو میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک کے حوالے کریں گے جو آکر زمین کو عدل اور انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم اورجور سے بھرچکی ہو گی پس تم میں جس سے ہو سکے وہ اس کی مدد کے لئے آئے اگرچہ اسے برف پر گھٹنوں کے بل چل کر کیوں نہ آناپڑے۔(سابقہ حوالہ)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: تمہارے خزانے کے پاس جنگ ہو گی اور تین افراد جنگ کریں گے سارے خلیفہ کے بیٹے ہوں گے پھر نتیجہ ان میں سے کسی ایک کے حق میں نہ جائے گا پھر مشرق سے سیاہ پرچم نمودار ہوں گے تو وہ ان سے جنگ کریں گے ایسی جنگ کہ اس سے پہلے اس طرح کی جنگ نہ ہوئی ہو گی پھر رسول اللہ نے کوئی بات ارشاد فرمائی جو مجھے یاد نہیں ۔
پھر فرمایا: پس جب تم ان کے امیر کو دیکھو تو تم سب ان کی بیعت کرنا اگرچہ تمہیں اس تک جانے کے لئے برف پر گھٹنے کے بل چل کر کیوں نہ جانا پڑے کیونکہ وہی خلیفة اللہ المہدی علیہ السلام ہیںاسی روایت کو حافظ ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے ۔(کفایة الطالب ص۹۸۴)
ایک اور روایت میں اس پر اضافہ ہے، پھر خلیفة اللہ المہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے پس جب تم اس کے متعلق سنوتو اس کے پاس آنا اور اس کی بیعت کرنا کیونکہ وہی خلیفة اللہ المہدی علیہ السلام ہے۔(بحارالانوار ج۷۴ص۳۸حدیث ۷۳)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرق کی جانب سے سیاہ پرچم آئیں گے گویا ان کے دل لوہے کے ہیں پس جو ان کے بارے سنے تو وہ ان کے پاس آ جائے اور ان کی بیعت کرے اگرچہ برف پر گھٹنوں کے بل چل کر کیوں نہ آنا پڑے۔
(سابقہ حوالہ، ینابیع المودة ج۱ص۷۰۴)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مشرق سے کچھ لوگ نکلیں گے جو مہدی علیہ السلام کے لئے زمین ہموار کریں گے یعنی مہدی علیہ السلام کے اقتدار اور ان کی سلطنت کے لئے راستہ بنائیں گے یہ حدیث صحیح ہے اسے ثقہ اور ثابت راویوں نے روایت کیا ہے اس کا اخراج حافظ ابوعبداللہ ماجہ القزوینی نے کیا ہے ابن سنن میں(کفایة الطالب ص۰۹۴)
مصنف کہتے ہیں: یہ روایتوںکا ایک گروپ ہے جس میں مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈوں کی بات کی گئی ہے۔
پہلا مشرق ہی میں قُم، خُراسان، طالِقان، فارس آتے ہیں تو یہ ساری روایات جمہوریہ اسلامیہ ایران کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ جہاں کوفہ سے علم یا نجف سے علم منتقل ہوا تاکہ زمین کی ساری اطراف میں مبلغین کے توسط سے پہنچے جو ہر سال مختلف شہروں میں تشریف لے جاتے ہیں عدالت، دین، قیام کے رائج ہونے کے لیے نکلتے ہیں، عدالت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں یہ کشف کرتا ہے کہ یہ جھنڈے مقدمہ اورتمہیدہیں اور امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے ہیں۔
تمہید و مقدمات کی انواع
یہ وہ احادیث ہیں جو ایسے واقعات اور حالات پر اجمالی طور پر روشنی ڈال رہی ہیں کہ کچھ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے اور کوئی ظہور کے ہمراہ اور کچھ ظہور کے بعد کو بیان کر رہی ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ حالات ہیں جو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے مقدمات کو فراہم کرنے سے متعلق ہیں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے حوالہ سے تمہید کے معانی حیات کے حوالہ سے مختلف ذکر ہوئے ہیں۔
افراد کی تیاری
افراد کی تیاری یہ ہے کہ منکرات اور انحرافات عقائدی لحاظ سے یا عبادتی لحاظ سے ہوں ان کو اپنے وجود سے دور کیا جائے بدعملی اور انحرافات کے مراکز سے خود کو دور رکھا جائے اپنی اصلاح پر توجہ دی جائے اسلامی تعلیم پر عمل کیا جائے خود کو صالح اور نیک بنایا جائے۔
ادارہ جات کی سطح پر تیاری
ادارہ جات کی بنیاد پر تیاری کی جائے اجتماعی، ثقافتی، تبلیغی، خدماتی میدانوں میں کام کیا جائے اگر ایک آدمی امام مہدی علیہ السلام کے لئے تیاری کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے ایسے ادارہ جات بنانے ہوں گے کہ جن کے ذریعہ معاشرہ کے اندر جو بگاڑہے، خرابیاں ہیں، ان کا خاتمہ کیا جائے، اجتماعی مفاسد اور منکرات کے خاتمہ کے لئے کام کیا جائے، افراد کے درمیان پیار ، محبت کی فضاءقائم کی جائے، ہر وہ عمل جو معروف کے عنوان میں درج ہوتا ہے اسے انجام دیا جائے معاشرہ کے کمزور طبقات کے لئے کام کیا جائے، فکری انحطاط کو دور کیا جائے۔
اگر آپ نے کوئی تربیتی ادارہ اس کے لئے بنایا ہے تو ان میں بچوں کی صحیح اسلامی تربتیت پر خصوصی توجہ دی جائے انہیں ایسے منکرات سے بچایا جائے جو ان کی روحانی اور معنوی حالت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں جیسے حرام غذاکھانے سے روکاجائے، نجس غذا، نجس پانی پینے سے روکا جائے۔
اسی طرح بچے کو اسلامی آداب سکھائے جائیں اور ایسے کام اس کے ذمہ لگائے جائیں جس سے وہ شجاع بنے، بااخلاق بنے، بردبار بنے، سخی بنے،سنجیدہ بنے۔
اسی طرح ماحول اور خاندان کے اندر کام کرنے بارے ہے، اس کی کوشش ہو کہ خاندانی روابط کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں استوار کرے، خاندان پر بوجھ نہ بنے، ماحول کو آلودہ کرنے والی عادات سے بچے جیسے سگریٹ نوشی، ایسے کھانوں سے پرہیز جو صحت کے لئے نقصان دہ ہوں ، زراعت پر زور دے، شجرکاری مہم میں حصہ لے ہر وہ کام کرے جس سے فضاءاور ماحول سے آلودگی کا خاتمہ ہو، یہ ایسا امر ہے جو ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل میں مددگار ہوگا انسان خود کو ایسے کاموں کے لئے فارغ پائے گا اور ماحول کو نقصان بھی نہ دے گا۔
اجتماعی اور اخلاقی ادارہ جات اور تنظیموں کے لئے ایسے امور کی انجام دہی بارے زیادہ تاکید ہے اس پر لازم ہے کہ ایسے عمل سے روکے جو اخلاقی مفاسد کو وجود میں لانے کا سبب ہیں جیسے چوری، زنا، جنسی بے راہ روی، مردوزن کا اختلاط، رشوت، فحاشی، ان کے خاتمہ کے لئے ایسے پروگرام بنائے جائیں جس سے بے راہ روی انحرافی رجحانات کا خاتمہ ہو۔فکری اور عملی طور پر پاکدامنی، شرافت، شرعی طریقہ پرجنسی روابط استوار کرنے اور گھرانے کی اسلامی اصولوں پر تشکیل جیسے امور پر زور دیا جائے اور اس کے لئے اجتماعی انداز سے کام کیاجائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اجتماعی اداروں، دینی بنیادوں پر قائم انجمنوں، فلاحی ٹرسٹوں، رفاہی اداروں، تعلیمی اداروں کو چاہیئے کہ وہ اپنے عمل میں اپنے پروگراموں میںبامقصد ہوں، ان کی ساری سرگرمیوں کا محور اور مقصد ایک صالح معاشرہ کی تشکیل ہو، فرد کی سطح پر اور اجتماع اور سوسائٹی کی سطح پر، اگر ایک ادارہ اجتماعی وضع اور حالات کو پر سکون بنانے، مفیدقراردینے،گھرانوں، خاندانوں، یا افراد کے اندر کردار سازی کے عمل میں کامیابی حاصل کرلے تو گویا ایسے اداروں نے اسلامی ماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور یہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کےلئے مقدمات فراہم کرنے اور حالات بنانے میں اپنی ذمہ داری کو نبھاتا ہے(یہ انتہائی اہم ہے اسی ضمن میں اسلامی تعلیمات کےلئے دینی مدارس کا قیام، مستند کتابوں، ماہنامہ، ہفت روزوں کی اشاعت، راہنمائی کےلئے مراکز، جوانوں کی تربیت کے لئے ورزش گاہیں، تعلیم یافتہ طبقہ تیار کرنے اور جاہلیت کے خاتمہ کے لئے سکولوں و کالجوں، یونیورسٹیوں کا قیام، اخلاقی تربیت کےلئے دینی تربیت کے مراکز عبادت کےلئے مساجد، امام بارگاہوں کی تعمیر، دینی احکام کی تعلیم کےلئے مبلغین اور مبلغات کی تربیت، ہنرمند بنانے کے لئے فنی مراکز، معاشی ترقی کےلئے تجارتی مراکز، اقتصادی منصوبہ جات، سیاسی شعور اجاگر کرنے کےلئے لٹریچر، خصوصی لیکچروں کا اہتمام، سیاسی عمل کےلئے سیاسی جماعت کی تشکیل غرض ایک الٰہی، صالح، ترقی یافتہ، پیارومحبت پر مبنی، تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ، معاشرہ تشکیل دینے کےلئے اور وہ بھی الٰہی نظریہ کی بنیاد پر عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر جو کام اور جو عمل ضروری ہے اسے انجام دینا ہوگااور ایسا کرنا حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کےلئے حالات کو سازگار بنانا ہے اور ایسے عمل انجام دینے والے امام زمانہ علیہ السلام کے ناصران کہلائیں گے اور انکے معاونین سے شمار ہوں گے اور ایسے افراد ہی حقیقی منتظرین ہیں، کیونکہ انتظار جو سب سے افضل عبادت ہے، اللہ کے قرب کا وسیلہ ہے، امام مہدی علیہ السلام سے تعلق کا ذریعہ ہے اور کثیر ثواب والا عمل ہے، تو اس معنی میں یہ ہے کہ خود کو امام زمانہ (عج) کےلئے تیارکرنا تو یہ تیاری دو طرح کی ہے۔
انفرادی اور شخصی تیاری
اس میں انسان کو اسلامی احکام سیکھناہوں گے، قرآن پڑھناہوگا،اپنے اخلاق پر توجہ دینا ہوگی، خود کو اسلامی احکام کا پابند بنانا ہوگا، یہ خودسازی کی منزل ہے ، اسلام جس طرح کا انسان چاہتا ہے ویسا بننا ہوگا، واجبات ادا کرنا، محرمات سے بچنا۔
اجتماعی اور معاشرتی سطح پر
اس میں اجتماع سے متعلق معاشرہ اور سوسائٹی کے حوالے سے جتنے بھی کام ہیں وہ سب شامل ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے صالح معاشرہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کام کرنا....ازمترجم)
حکومتوں کی سطح پر تیاری
یہ تیاری انتہائی اہم ہے، اس کا اثر دوسرے کاموں سے زیادہ ہے کیونکہ حکومتوں کے پاس مادی اور معنوی صلاحیات اور اختیارات وقدرات زیادہ ہوتی ہیں ان اختیارات کے استعمال سے وہ ان تمام اہداف کو پورا کرتے ہیں جن کا ہم نے اجتماعی تیاری میں اشارہ کیا ہے یہ اختیارات ، ادارہ جات، انجمنوں اور تنظیموں کے پاس موجود نہیں ہوتے جو کچھ ہم نے تعلیمی، ثقافتی، تبلیغی، خدماتی ،رفاہی ادارہ جات کے لئے مثالیں دی ہیں اور ان کے کاموں کو بیان کیا ہے تو حکومتی سطح پر ان سب امور کو منظم انداز سے انجام دیا جا سکتا ہے اور اس میں نتائج کا حصول بھی یقینی ہوگا بلکہ حکومت ان ادارہ جات کے لئے میدان فراہم کرتی ہے اور ان کے عمل کو تقویت دیتی ہے اور اس کی کامیابیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتی ہے، کیونکہ حکومتیں ایسے قوانین وضع کر سکتی ہیں جو اخلاق سدھارنے اوراجتماعی بگاڑ سے بچنے اور تربیتی امور کو منظم انداز سے انجام دینے میں مددگار ہوتے ہیں ان قوانین کے ذریعہ منکرات فحاشی،مفاسد اور آوارہ گردی کا خاتمہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی امربالمعروف انجام پاتا ہے واجبات کی ادائیگی پرزور دیا جاتا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
حکومتوں میں ہی عسکری تربیت ہو سکتی ہے کیونکہ حکومتیں فوج کوتربیت دیں گے، اسلحہ تیار کریں گی، اسلحہ سازی کے لئے ضروری اقدامات کریں گی، اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اگر ایسی حکومت موجود ہو جو اسلامی اور قرآنی تعلیمات کی پابند ہو اور نبی اکرم کی سیرت اخلاقی اور سنت کو حکومتی اور انفرادی سطح پر لاگو کر دے گی تو ایسی حکومت اجتماعی اور اخلاقی قوانین کو عظمت اورقدر دے دے گی اور اس کے بہت ہی زیادہ اثرات ہوں گے یہ ایسا کام ہے جسے افراد اور پرائیویٹ ادارے، تنظیمات اور انجمنیں انجام نہیں دے سکتیں ایسی حکومت ماحول بنائے گی، حالات سازگار کرے گی، امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت کے لئے جورکاوٹیں ہیں انہیں دور کرے گی اور امام مہدی علیہ السلام کے لئے فورس اور فوج کو تربیت دے گی ۔
حضرت امام زمانہ(عج) کی حکومت کی تیاری میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ عالمی سطح پر اخلاقی اور اجتماعی فساد ہے، دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے، یہ فحاشی امیر ممالک سے غریب ملک میں داخل ہو چکی ہے، پوری دنیا کے اکثر گھروں پر اخلاقی فساد ٹیلی وژن، ریڈیو، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ویب سائیٹس کے ذریعہ پہنچ چکا ہے اس طرح پورے عالم میں اس وقت بڑی تیزی سے فساد پھیل گیا ہے فحاشی کے مناظر عام ہو چکے ہیں جو ایک فرد پر بھی اسی طرح اثر انداز ہیں جس طرح ایک سوسائٹی اور اجتماع پر ہے ۔ اس حالت سے تہذیبی انحطاط کو جنم دیا ہے، اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں، انسان کی انسانیت اور صالح معاشرہ کا وجود نا پید ہوتا جا رہا ہے اس کے لئے حکومتوں کو منصوبہ بندی کرنی ہو گی جو اسلامی ممالک کے حکمران ہیں ان کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ عالمی سطح پر اخلاقی فساد کا مقابلہ کریں اور اسلام کے اعلیٰ اخلاق کو پورے عالم کے لئے معاشرے میںمتعارف کرائیں اور ان کے لئے متبادل طریقے پیش کریں اس عمل سے وہ اس الٰہی فریضہ کو ادا کریں گے جو ان کی گردن پر ہے کہ پورے عالم میں امن کے قیام اور عدالت الٰہی کے نفاذ اور معاشی بحران کے خاتمہ اور اجتماعی اور انفرادی خوشحالی کے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے حالات سازگار کئے جائیں اور ضروری مقدمات فراہم کیے جائیں اس ذمہ داری کوایک فرد ادا نہیں کرسکتا۔اسلام کا اپنا نظام ہے اپنا طریقہ کار ہے، اس پر عمل کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور اس میں مسلمان حکمرانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے ۔
تیاری
اس بات کے بیان کر دینے کے بعد کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے فکری، عملی، شخصی، اجتماعی، معاشرتی طور پر افراد کی سطح اور حکومتی سطح پر نجی اداروں کی سطح پر کس طرح کرنا اور کیا کرنا ہے ہم نے اس بارے امام مہدی علیہ السلام کے لئے تیاری کرنے والی جماعتوں اور پرچموں اور افراد کا بھی روایات کی روشنی میں ذکر کر دیا ہے اب یہ مرحلہ آن پہنچا ہے کہ ہم کس طرح تیاری کریں اور اس تیاری کی انواع و اقسام کیا ہیں اور اس کی کیفیت کیا ہوگی۔
تیاری کا ثواب
علی بن ابراہیم القمی نے اپنی سند سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے صحیح روایت اس آیت سورہ آل عمران آیت ۰۰۲ کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ ”اصبرو“تم سب صبرکرو، علی المصائب، مصائب پر، صابروا علی الفرائض، فرائض کی ادائیگی پر قائم رہو، رابطوالائمة، آئمہ سے رابطہ میں رہو۔
البرھان اور دوسری تفاسیر میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ہے ”یا ایھاالذین امنوا اصبروا وصابروا ورابطوا“ تم فرائض ادا کرنے پر جو تکالیف کا سامنا کرو تو اس پر صبرکرو، اپنے دشمن کے مقابلہ میں ڈٹ جاﺅ اور سختیوں کو برداشت کرو اور اپنے امام منتظر سے رابط میں رہو۔(تفسیر القمی ج۱ص۸۱۱۔ البرھان ج۱ج۱۴۳۴)
روضة الکافی کتاب الدواجن میں ابن ابی الطیفور المطیب سے روایت ہے :
امام ابوالحسن علیہ السلام: تم کس چیز پر سواری کرتے ہو؟
ابن ابی الطیفور: گدھے پر
امام علیہ السلام: کتنے میں خرید کیا ہے؟
ابن ابی الطیفور:تیرہ دینار میں۔
امام علیہ السلام: بتحقیق یہ اسراف ہے توتیرہ دینار میں گدھا خرید کرتا ہے اور خچر کو چھوڑ دیتاہے۔
راوی: میرے سردار! خچرکا خرچہ گدھے کے خرچہ سے زیادہ ہے۔
امام علیہ السلام:جو ذات گدھے کا خرچہ پورا کردیتی ہے وہ ذات خچر کا خرچہ بھی پورا کر دے گی کیا تم اس بات کو نہیں جانتے ہو کہ جو شخص جانور کو اس نیت سے باندھے اور اپنے ہاں رکھے کہ اس کے ذریعہ وہ ہمارے امر کو انجام دے گا اور ہمارے دشمن کو اس کے ذریعہ ناراض کرے گا تو وہ ہماری طرف منسوب ہو جاتا ہے اور اس کا رزق فراوانی سے لے آتا ہے، اس کے سینہ کو کشادہ کردیتا ہے اور وہ شخص اپنی امیدکوپالیتاہے۔
تیاری میں عمومیت
ہم نے پہلے بیان کر دیا ہے کہ مہدویت کا نظریہ، ایک نجات دھندہ کا تصور آخر زمان کے لئے کسی خاص مذہب کا نہیں اور نہ ہی کسی خاص فرقہ کا ہے بلکہ کسی دین سے بھی مخصوص نہیں بلکہ سب کا اس پر ایمان ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ایک شخص خروج کرے گا جو انسانیت کی تمنا اور آرزو پر مبنی حقیقی عدالت کا نفاذ کرے گا، عدلیہ کو بالا دستی ہو گی، ظلم کا خاتمہ ہوگا تو وہی نجات دہندہ ہو گا وہ اس آرزو کوپورا کرے گا یہ آرزو اور طلب دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اس وقت عالمی سطح پر اس تصور نے مختلف شکلیں اختیار کر لی ہیں بنابرایں جیسا کہ مثل مشہور ہے جس کا ریوڑ ہے تو خرچہ بھی اس کا ہے، تمہید اور تیاری اپنی تمام انواع اور اقسام سمیت اور متفرق شکلوں اور صورتوں میں ضروری ہے کہ تمام فرقوں، تمام مذاہب اور تمام ادیان جو اس پر ایمان رکھتے ہیں میں اس کے لئے تیاری اور آمادگی پیداکی جائے۔
ہم اس نجات دہندہ کی تیاری کے لئے اور اس کی آمد کے واسطے ماحول بنانے اور حالات کو سازگار کرنے کے لئے جو کچھ پیش کرتے ہیں تو اس میں ہمارے مخاطب تمام وہ گروہ، جماعتیں، فرقے، مذاہب، ادیان ہیں جو ایک نجات دہندہ کی انتظار میں ہیں جس نے انسان کی اس تمنا کو پورا کر دینا ہے کہ پورے عالم میں عدل کی حکومت ہو، عدلیہ بالادست ہو، امت قائم ہو، ظلم ختم ہو خاص کر وہ جن پر بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے جہاں پر ستم گر زیادہ طاقت میں ہیں تو وہ اس بیان سے زیادہ مراد ہیں کہ وہ انسانی تعلیمات کی پابندی کریں کہ جن انسانی تعلیمات سے کوئی فرد جو ہے خالی نہیں انسانی تعلیمات کہتی ہیں کہ ہر حق دار کو اس کا حق ملنا چاہیئے اور انسان کو انفرادی اور اجتماعی خرابیوں سے پاک ہونا چاہیئے۔ انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح میں جو خرابیاں ہیں، معاشی بگاڑ ہے، اخلاقی بے راہ روی ہے، ہر عقلمند اس کا خاتمہ چاہتا ہے اور ہر انسان عدلیہ کی بالادستی امن کے قیام اور دولت کی عادلانہ تقسیم، طبقاتی رجحانات کا خاتمہ ایک متوازن ماحول کا خواہاں ہے اس کے لئے سب سے بہترین عبادت یہی ہے جو قرآن نے بیان کی ہے خاص کرمحروم طبقات کے لئے یہ پیغام ہے کہ:
”اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَو مٍ حَتّٰی یُغَیِّرُو ا مَا بِاَن فُسِہِم “(الرعد آیت ۱۱)
”بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو تبدیل نہیں کرتا جب تک خود اس قوم کے لوگ اپنی حالت کو خود تبدیل نہ کریں“۔
فساد کے خاتمہ کےلئے سب سے پہلے اپنی ذات سے پھر اپنے گھر سے ،پھر اپنے خاندان سے، پھر اپنے قبیلہ سے اور پھر اپنے ملک سے آغاز کرنا ہوگا اور ایسا کرنا ہی خود کو اس عالمی نجات دہندہ کی مدد کےلئے آمادہ اور تیار کرنا ہے پس یہ خطاب عام ہے جو بھی انسان زندگی کو اس کی حقیقت اور فطرت کے عین مطابق دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں مفاسد اور فتن کے تمام مظاہر کو ہر سطح پر ختم کرنے کےلئے جدوجہد کرنا ہو گی اور اپنی ذات سے ان کا آغاز کرنا ہوگا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس زمانہ میں تبلیغ کا انداز ایک نئی صورت اختیار کرے اس کی سابقہ شکل بدلنا ہوگی خاص کر اس شخصیت کے بارے تبلیغی عمل جس سے پورے عالم کا مستقبل وابستہ ہے، جس نے معاشرہ اجتماع، سوسائٹی، نفسیاتی اور انفرادی، سماجی، آلام و مصائب کو آ کر کم کرنا ہے، اس میں ایک جگہ اور دوسری جگہ میں فرق نہیں ایک قوم اور دوسری قوم میں فرق نہیں ایک دین اور دوسرے دین میں فرق نہیں، ایک ملک اور دوسرے ملک میں فرق نہیں، ایک خطبہ اور دوسرے خطبہ میں فرق نہیں یہ عالمی معاملہ ہے اور یہ سب کے لئے ہے، پھر یہ آمادگی اس فرق میں نہیں ہے کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے، اس شخصیت سے واقف ہیں یا نہیں جو اس کے ولادت کے قائل ہیں یا وہ جو اس کی ولادت کے منتظر ہیں کیونکہ اس وقت ہم آخری زمانہ میں ہیں، اسی زمانہ میں منجی بشریت کا ظہور متوقع ہے، کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، اس اعتبار سے ابھی سے تیاری کرنا واجب ہوگا ان پر بھی تیاری واجب ہے جو آپ کی ولادت کے قائل ہیں اور ان کے وجود کو سابقہ زمانہ سے نہیں سمجھتے۔
|