حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

چھٹی ذمہ داری:امام زمانہ علیہ السلام کی لوگوں کے دلوں میں محبت ڈالنا
روضتہ الکافی میں ہے، انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوعبداللہ صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:آپ علیہ السلام نے فرمایا:اللہ اس بندے پر رحم فرمائے جس نے لوگوں میں ہمیں محبوب بنایااور لوگوں میں ہمیں مبغوض نہیں بنایا یعنی لوگوں کے درمیان ہمیں اس طرح متعارف کروایا کہ وہ ہم سے محبت کرنے لگے اور اس طرح متعارف نہیں کروایا کہ وہ ہم سے بغض اور دشمنی شروع کریں، کیونکہ خدا کی قسم!ایسا ہے کہ اگر لوگوں کو ہماری گفتگو اور بیانات کی خوبیوں کا علم ہو جائے اور وہ جان لیں کہ ہم نے ان کے مفادات کے لئے کیا کچھ بیان کیا ہے تووہ ہر ایک سے زیادہ ہم سے تعلق و وابستگی قائم کر لیں اور اسے اپنے لئے عزیزو قیمتی جانیں اور کوئی ایک بھی کسی قسم کا حاشیہ ان پر نہ چڑھائے اور کسی قسم کا اعتراض نہ کرے لوگ ہمارے گرویدہ ہوجائیں۔
لیکن ان میں جب کوئی ایک آدھ جملہ سنتا ہے(وہ بھی ادھوراجملہ)توپھر اس پر دسیوں جملے اور جڑدیتے ہیںتو اس طرح معاملات بگر جاتے ہیں۔
(الکافی ج۸ص۹۲۲حدیث ۳۹۲، امالی شیخ الصدوقؒ ص۱۶)
خشیخ صدوقؒ نے اپنی سند سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ اس بندے پر رحم کرے جو لوگوں کی محبت اور مودت کو ہماری جانب کھینچ کر لے آئے اور ان سے ایسی گفتگو کرے جسے وہ جانتے ہیں جس کی انہیں معرفت ہے ان سے ایسی باتیں مت کرے جس کے وہ انکاری ہیں۔
(الکافی ج۸ص۹۲۲حدیث ۳۹۲، امالی شیخ الصدوقؒ ص۱۶)
یہ بات فقط حضرت امام مہدی علیہ السلام سے خاص نہیں ہے بلکہ سارے آئمہ اطہار علیہم السلام سے متعلق ہے لیکن حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے اس کی زیادہ تاکید ہوئی ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں۔
۱۔ اس لحاظ سے کہ وہ ہمارے زمانہ کے امام ہیں اور جو اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہیں رکھتا تو وہ شخص کفر اور جاہلیت کی موت مرا۔
(الکافی ج۸ص۹۲۲حدیث ۳۹۲، امالی شیخ الصدوقؒ ص۱۶)

معرفت سے مراد
یہ بات واضح ہے کہ امام زمانہ کی معرفت سے مراد فقط ان کے نام سے واقفیت حاصل کر لینانہیں ہے بلکہ ان کی صفات، ان کے اوصاف ان کی موالات، ان کی بیعت، ان کی خصوصیات سب کے بارے معرفت حاصل کرنا ضروری ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب ایک شخص امام علیہ السلام کی خوبصورت صفات کا تذکرہ کرے گاآپ کے وجود کی برکات بیان کرے گا، آپ کی وجہ سے لوگوں کوجو خیروبرکت مل رہی ہے اس کا ذکر کرے گا اور آپ کی آمد پر جو خوشحالی سب کو نصیب ہو گی اسے بیان کرے گا آپ جس طرح لوگوں سے محبت سے پیش آئیںگے جس طرح لوگوںکی مدد کریں گے جس طرح یتیموں، بیوگان کا سہارا بنیں گے جس طرح محروم طبقات کی فلاح اور ترقی کا سبب بنیں گے جس طرح غریبوں کو لٹیروں سے نجات دلائیں گے تو امام صاحب الزمان علیہ السلام کی ان صفات اور ایسے حالات کو جان کر یقینا لوگ آپ سے نہ فقط محبت کریں گے بلکہ چاہیں گے کہ آپ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیں بنا برایں امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کے وجوب سے ہی لوگوں کو آپ کے قریب کرنے اور آپ علیہ السلام کا محبوب بنانے کا وجوب بھی ثابت ہو جاتاہے۔
۲:۔ جن حالات میں امام زمانہ (عج)خروج فرمائیں گے آپ علیہ السلام کے راستہ پر ثابت قدم رہنے میں جو مشکلات وصعوبات درپیش ہوں گی ان کے چاہنے والوں، ان کے پیروکاروںپر آپ کے ظہور سے پہلے جو ظلم و ستم ہو گا اور جس طرح زیادتیاں ہوں گی کہ ان حالات بارے بعض روایات میں ہے ایسے حالات ہوں گے ان میں دین پر باقی رہنا اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا کہ انسان آگ دہکتے انگارے کواپنی ہتھیلی پر رکھے، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ غیبت کے زمانہ میں حضرت امام زمانہ(عج)کے بارے لوگوں کو اس طرح متعارف کروائیں کہ لوگ آپ کے عاشق بن جائیں اپنی ہرعزیز ترین متاع سے زیادہ امام زمانہ(عج) سے محبت کرتے ہوں اور ان کی خاطر سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہوں یہ اس لئے ضروری ہے کہ لوگ غیبت کے زمانہ میں دین پر باقی رہیں، امام زمانہ(عج)سے اپنے موالات کو برقرار رکھیں اور امام علیہ السلام کے ظہور کی شدت سے انتظار کریں اور غیبت کے زمانہ میں دین اور ایمان پر ثابت قدم رہیں ہر قسم کی مشکلات اور مصائب کو برداشت کرنے سے نہ گھبرائیں(افسوس ہے کہ ہمارے ہاںبعض اوقات امام زمانہ(عج) کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ آپ نے آ کر قتل کرنا ہے آپ نے خون کی ندیاں بہانا ہیںآپ کو ایک بے رحم انسان بنا کر پیش کیا جاتا ہے جب کہ امام کا نام ہی رحمت ہے آپ رﺅف ہیں آپ شفیق ہیں آپ رفیق ہیں ، آپ لطیف ہیں، آپ جمیل ہیں آپ حسین ہیں، آپ فریاد رس ہیں آپ محروموں کے ہمدرد ہیں، آپ مظلوموں کے ساتھی ہیں آپ موسم بہارہیں، آپ خوشحال ہیں، آپ عدل ہیں، آپ پیارے ہیں، آپ کودیکھنے والے آپ سے اس قدر متاثر ہوں گے کہ آپ کے گرویدہ ہو جائیں گے، آپ کو عالمین کے لئے رحمت زمین کو آباد کرنے والے،شہروں کو خوشحال بنانے والے قرار دیا گیا ہے، آپ اللہ کی تمام صفات جمالیہ و جلالیہ کے مظہر ہیں، آپ نے ظالموں سے محروم طبقات کو نجات دلانا ہے، آپ رحیم ہیں ، رﺅف ہیں، جمیل ہیں، منتقم بھی ہیں لیکن انتقام خدا کے منکروں سے خدا کے دشمنوں کے لئے سخت ہیں، آل محمد کے دشمنوں کے لئے آپ سخت ہیں محروم طبقات کے لئے آپ خیروبرکت ہیں آپ اتمام حجت کے بعد کسی کو قتل کریں گے عفوودرگذر آپ کی خاندانی روایت ہے البتہ اپنے آباءواجداد سے آپ کی عملی سیرت میں فقط اتنا فرق ہوگا کہ آپ کے دربار میں منافقوں کے لئے جگہ نہ ہوگی اور نہ ہی آپ کے دور حکومت میں روئے زمین پر کوئی کافر،ملحداور مشرک اور منکر خدا رہ سکے گا۔ آپ کی حکومت میں سب اللہ والے ہوں گے سب ایک دوسرے کے ہمدرد ہوں گے ایک مدینہ قاضلہ ہوگا جس میں امن ہو گا، سکون ہوگا، خوشحالی ہو گی سکھ و چین ہوگا، اللہ اللہ ہوگا، اہل بیت علیہ السلام کے شان کے قصیدے عام ہوں گے ہر ایک کی زبان پر سلامتی کے بول ہوں گے، اللہ کی زمین اسی دنیا میں حقیقت میںجنت نظیربن جائے گی، خداوند وہ وقت جلد لائے ”اَللّٰھُمَّ عَجِّل فَرَجَہُ وَسَہِّل مَخ رَجَہُ“....ازمترجم)

روایات کی روشنی میں لوگوں کو آپ علیہ السلام کو محبوب بنانے کا طریقہ
حدیث میں ہے کہ امام علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ کی گفتگو کی تفسیر فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خطاب کیا:
”اے موسیٰ علیہ السلام! مجھے لوگوں کا محبوب اور پیارا بناﺅ اور مخلوق کو میرا محبوب اور پیارا بناﺅ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام: یا رب! یہ کام کس طرح انجام دوں؟
اللہ کا فرمان:ان کے پاس میری پوشیدہ اور ظاہری نعمات کا ذکرکرو، انہیں میری ساری نعمتیں یاد دلاﺅ۔(بحارالانوار ج۸۲ص۷۴حدیث۹)
دارالسلام میں ہے قصص الانبیاءعلیہ السلام سے، اپنی سند سے نبی اکرم سے:
اللہ کا فرمان داﺅد کے نام: اے داﺅد تم مجھ سے پیار کرو اور مجھے میری مخلوق کا محبوب بناﺅ کہ وہ مجھ سے پیار کریں۔
داﺅد: اے اللہ! میں تو تجھ سے محبت کرتاہوں، میں کیا کروں کہ تیری مخلوق تجھ سے محبت کرے۔
اللہ کا فرمان : میری جو نعمات ان کے پاس ہیں وہ انہیں یاد دلاﺅ کیونکہ اگر تم انہیں ان نعمتوں کو یاد دلاﺅ گے جو میں نے انہیں دے رکھی ہیں تو وہ یہ جان کر مجھ سے محبت کریں گے ۔
شیخ صدوق نے اپنی سند سے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے۔
ابن عباسؓ: رسول اللہ نے فرمایا: تم سب اللہ سے اس وجہ سے محبت کرو کہ وہ تمہیں اپنی نعمتوں سے غذادیتا ہے اور مجھ سے محبت اس لئے کرو کہ میں اللہ کا محبوب ہوں، اللہ سے محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میرے اہل بیت علیہ السلام سے محبت اس لئے کرو کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو، میری محبت کی وجہ سے تم میرے اہل بیت علیہ السلام سے محبت کرو۔
(امالی الصدوق ص۹۱۳،ص۶۴۴)
پہلے بیان ہو چکا ہے اور بعد میں بھی ذکر ہو گا کہ جتنی اللہ کی نعمات ہیں جن میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اور جن نعمتوں کی برکات ہم کو مل رہی ہیں اتنی زیادہ نعمتیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں یہ سب کچھ مولا صاحب الزمان (عج) کے وجود کی برکات سے ہے اور آپ کے واسطہ سے یہ سب کچھ ہمیں مل رہا ہے یہ ذمہ داری جس طرح زمانہ غیبت کے لئے ہے اسی طرح یہ فریضہ ظہور کے بعد کے زمانہ میں بھی جاری رہے گا۔
اس جگہ چند امور کو بیان کرتے ہیں جو اس مقصد کو پورا کرنے میں مدد دیں گے جس کا ذکر ہوا ہے ان امور کو اس مقصد کے حصول کے لئے انجام دینا ضروری ہے۔
۱۔ امام زمانہ(عج) کی صفات کو بیان کرنا چاہئے۔
۲۔ امام زمانہ(عج) کی عدالت اور آپ کے انصاف کو بیان کرنا چاہئے۔
۳۔ جو آپ علیہ السلام کادیدار کریں گے جو آپ کی مدد کریں گے جو آپ کے لئے شہادت دیں گے جو آپ کے پرچم تلے جنگ کریںایسے لوگوںکوکیااجراورثواب ملے گااور ان کے واسطے اس عمل کا ثواب اور اجر بیان کرنا چاہیے۔
۴۔ امام زمانہ(عج) کی حکومت اور آپ کی عدالت کی بدنما تصویر اور خوفناک شکل پیش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایسے خوبصورت بنا کر پیش کیا جائے، اس کو اس طرح بیان کیا جائے کہ ہر شخص اس حکومت کے قیام کی شدت سے انتظار کرنے لگ جائے اور اس کے قیام کے لئے اپنا سب کچھ خرچ کرنے پر آمادہ ہو جائے اور اس کے قیام کے لئے ساری تکالیف برداشت کرنے پر آمادہ نظر آئے۔
۵۔ جو کچھ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے مربوط ہے جیسے یمانی کا وجود یا خراسانی کا وجود، تو ان دو ہستیوں کو اس انداز سے پیش نہ کیا جائے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے نظریہ پرشک ہو اور آپ کی حکومت اور آپ کے عادلانہ نظام کے قیام کا نظریہ زیر سوال آجائے۔
(ازمترجم....حضرت امام زمانہ (عج)کے وسیلہ سے، آپ کا توسل کرنے سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں، دعائیں قبول ہوتی ہیں، عبادات قبول ہوتی ہیں، اس توسل کے جودنیا میں فائدے حاصل ہوتے ہیں اسے بیان کیا جائے )
۷۔ حضرت امام زمانہ (عج)نے اپنی غیبت کے دوران جس طرح پریشان حال لوگوں کی مدد کی ہے اور کرتے ہیں اور جس طرح بھٹکے ہوئے قافلوں کی راہنمائی کی ہے جس طرح ہلاکت سے بعض کو بچایا ہے، جس طرح فریاد کرنے والے کی فریاد کو سنا ہے اور آپ علیہ السلام سے ملاقات کرنے والوں سے آپ نے جس پیارومحبت کا اظہار فرمایا ہے ان سب کو بیان کیاجائے

حضرت امام زمانہ (عج) کے لئے دعا کرنا
آپ علیہ السلام کی تحریر میں یہ بات آئی ہے ”واکثروالدعاءلتعجیل الفرج فان فی ذلک فرحکم“(الاحتجاج ج۲ص۳۲۳)
تم سب فرج(کشادگی، فتح و نصرت، ظہور، حکومت کے قیام) کی دعاءبہت زیادہ کیا کرو کیونکہ اسی میں تمہاری ساری مشکلات کا حل ہے، اسی میں تمہارے لئے فَرَج ہے۔ابومحمد ہارون نے ابوعلی محمد بن الحسین بن محمد بن جمہورالقمی سے اس نے اپنے باپ محمد بن خمہور سے اس نے احمد بن الحسین السری اس نے عباد بن محمدالمداینی سے روایت نقل کی ہے۔
راوی: میں امام ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں مدینہ میں حاضرہوا میں نے یہ دیکھا اور خود سنا کہ جب آپ فریضہ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ علیہ السلام نے آسمان کی جانب اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا اور اس طرح دعا مانگنا شروع کی۔
وہ دعا یہ ہے:
اے سامع کل صوت، اے جامع کل فوت، اے ہر آواز کو سننے والے، اے ہر چلے جانے والے کو اکٹھا کرنے والے، اے باری کل نفس بعدالموت، اے باعث، اے وارث، موت کے بعدہرنفس کو پیدا کرنے والے، اے مبعوث کرنے والے ، اے وارث، اے سیدالسادات، اے لاالہ الااللہ، اے جبار الجبابرہ، اے سرداروں کے سردار، اے معبودوں کے الہ، اے جابروں پر زبردست جابر، اے مالک الدنیاوالآخرہ، اے رب الارباب، اے مالک، اے آخرت اور دنیا کے مالک، اے سارے ارباب کے رب، اے ملک الملوک، اے ذالبطش الشدید، اے بادشاہوں کے بادشاہ، اے سخت گرفت اور پکڑ والے، اے فعال لمایرید،اے محصی عدد الانفایس، اے اپنے ارادوں کو انجام دینے والے، اے سانسوں کی تعداد کا شمار کرنے والے ، اے نقل الاقدام، اے من السرعندہ اعلانیہ، اے قدموں کی چاپ کو شمار کرنے والے، اے وہ جس کے پاس رات ظاہر ہے، اے مبدی ، اے معید، اے آغاز والے، اے واپس لوٹانے والے، اے پلٹانے والے،
اسالک بحقک علی خیرتک من خلقک
میں تجھ سے تیرے اس حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنی مخلوق میں سے اپنے منتخب کےلئے قرار دیاہے۔
وبحقھم الذی اوجبت لھم علی نفسک ان تصلی علی محمدواھل بیتہ
اور ان کے اس حق کا واسطہ جس کو تو نے ان کی خاطر اپنے اوپر لازم قرار دے رکھا ہے کہ اے اللہ تو محمد اور اہل بیت علیہ السلام محمد پر صلوات بھیج
وان تمن علی الساعة بفکاک رقبتی من النار
اور یہ کہ تو اسی گھڑی میں میری گردن کو آتش جہنم سے آزاد قرار دے
وانجزلولیک وابن نبیک الداعی الیک باذنک
اور اپنے ولی کے لئے اپنے نبی کے بیٹے کے لئے جو تیری جانب تیرے اذن سے دعوت دینے والا ہے اس کے اپنا وعدہ پورا کردے
امینک علی خلقک وعینک فی عبادک
لہٰذا وہ ولی جو تیری مخلوق میں تیرا امین ہے اور تیرے بندگان میں تیری آنکھ ہے
وحجتک علی خلقک علیہ صلواتک وبرکاتک وعندہ
اور وہ تیری حجت ہے تیری مخلوق پر اس پر تیری صلوات اور برکات ہوں
اللھم ایدہ ینصرک وانصر عبدک
اے اللہ اپنی نصرت سے اس کی تائید فرما، اپنے بندے کی مدد فرما
وقواصحابہ وحیرھم وافتح
اس کے اصحاب کو طاقتور بنا اور انہیں صبر عطا فرما اور تو
لھم من لدنک سلطانا نصیراً
اس کے لئے اپنی جناب سے کامیاب سلطانی کے راستے کھول دے
وعجل فرجہ، وامکنہ من اعدائک
اس کے ظہورمیں جلدی فرما دے اور انہیں اپنے دشمنوں سے آگہی دے اور ان پر رسائی دے دے۔
واعداءرسولک، یاارحم الراحمین
وہ جو تیرے رسول کے دشمن ہیں، اے ارحم الراحمین
راوی: میں نے سوال کیا کہ آپ نے اس دعا میں اپنے لئے دعا نہیں مانگی میں آپ پر قربان جاﺅں ۔
امام علیہ السلام: میں نے نور آل علیہ السلام محمد کے لئے دعا کی ہے جو ان پر سبقت لے جانے والا ہے اور اللہ کے امر سے ان کے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہے۔
راوی:ان کا خروج کب ہوگا اللہ مجھے آپ پرقربان کردے۔
امام علیہ السلام: جس وقت اس ذات کی مرضی ہوگی جس کے قبضہ میںحق ہے امر ہے۔
راوی: کیا ان کے خروج سے پہلے کوئی علامت اور نشانی بھی ہے۔
امام علیہ السلام: بہت ساری متفرق نشانیاں ہیں۔
راوی: مثال کے طور پر کچھ بیان کریں، کس قسم کی؟
امام علیہ السلام:مشرق سے پرچم کا خروج اور مغرب سے پرچم کا خروج، ایسا فتنہ جو اہل زورائ(بغداد) کو گمراہ کر دے گا، یمن سے میرے چچازید کی اولاد سے ایک کا خروج، کعبہ کے غلام کا لوٹا جانا اور اللہ کی جو مشیت ہوتی ہے اسی نے ہوناہے....
(النجم الثاقب ج۲ص۸۵۴)(بحارالانوار ج۶۸ص۲۶)
فلاح السائل میں سیدالاجل جناب علی بن طاﺅوس ؒ نے بیان کیا ہے ”نماز عصر کے بعد اہم دعا عروہ ہے جسے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پڑھتے تھے کہ ہم اپنے مولانا حضرت امام زمانہ(عج) کے لئے اس دعا کو پڑھاکریں۔
راوی: میں بغداد میں حضرت ابوالحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا، اس وقت آپ علیہ السلام نماز عصر سے فارغ ہوئے تھے آپ علیہ السلام نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی جانب پھیلا دیا میں نے سنا کہ آپ علیہ السلام یہ کلمات پڑھ رہے تھے
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السام کی نماز عصر کے بعد امام زمانہ کے لئے دعا
انت لا الہ الاانت الاول والآخر
تو اللہ ہے تو لاالہ الا توں ہے، اول بھی توں ہے آخر بھی توں ہے
والظاہر والباطن، وانت اللہ لاالہ الاانت
ظاہر بھی توں ہے باطن بھی توں ہے اور تو اللہ ہے ،سوائے تیرے کوئی اور الہ نہیں
الیک زیادة الاشیاءونقصانھا، وانت اللہ لاالہ انت
چیزوں کا بڑھنا بھی تجھ سے ہے ان کا گھٹنا بھی تجھ سے ہے اور تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں
خلقت خلقک بغیر معونة من غیرک ولاحاجة الیھم
تو نے اپنی مخلوق کو بغیر اپنے غیر سے مدد لئے خلق فرمایا ہے مخلوق سے تیری کوئی حاجت نہیں ہے
وانت اللہ لا الہ الاانت منک المشیة والیک البدائ
اور توں اللہ ہے تیرے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے، تجھ سے مشیت ہے اور تجھ سے واپسی ہے، مشیت بھی تیری اور مشیت سے واپسی بھی تیری ہے
انت اللہ لاالہ الاانت
تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے
بعدالبعد خالق البعد
تو بعد کے بعد ہے اور ہر بعد اور بعد کا خالق ہے
انت اللہ لا الہ الا انت
توں اللہ ہے اور تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے
تمحوماتشاءوتثبت وعندک ام الکتاب
تو جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جسے چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے تیرے پاس ام الکتاب ہے
انت اللہ لا الہ الا انت
توں اللہ ہے تیرے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے
غایة کل شئی و وارثہ
تو ہر چیز کی غایت ....ہے اور ہر چیز کا وارث ہے

انت اللہ لا الہ الا انت
توں اللہ ہے اور تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے
لایعزب عنک الدقیق والجلیل
تجھ سے نہ کوئی باریک چیز چھوٹتی ہے اور نہ ہی بڑی چیز
انت اللہ لا الہ انت
تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے
لاتخفی علیک اللغات ولاتشابہ عنک الاصوات
مختلف زبانیں تجھ سے پوشیدہ نہیں اور مختلف آواز میں نشابہ نہیں ہوتا
کل یوم انت فی شان لاتشغلک شان عن شان
ہر روز تو ایک ہی شان میں ہے اور کوئی حالت دوسری حالت سے تجھے مصروف نہیں کرتی
عالم الغیب واحفی
غیب اور مخفی ترین چیز کا توں عالم ہے
دیان یوم الدین
یوم حساب میں حساب لینے والا ہے
مدیر الامور
تمام امور کی تدبیر کرنے والا تو ہے
باعث من فی القبور
جو قبروں میں ہیں انہیں تو ہی اٹھانے والا ہے
مجی العظام وھی رمیم
ہڈیاں جب کہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی ان کو زندہ کرنے والا توں ہے
اسالک ان تصلی علی محمدوآل محمد وان تعجل فرج
میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمدوآل محمد پر صلوات بھیج اور یہ کہ اس کے ظہور
المنتقم من اعدائک وانجزلہ ماوعدتہ یاذالجلال والاکرام
میں جلدی فرما دے جو تیرے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہے اور تو نے اس سے جو وعدہ فرمایا ہوا ہے اسے توجلد پورا کر دے اے ذوالجلال والاکرام
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: آپ علیہ السلام نے اس کے بعد یہ جملے فرمائے۔
راوی:میں نے سوال کیا کہ آپ نے یہ دعا کس کے لئے کی ہے آپ کا مقصد کون تھے؟
امام علیہ السلام: مہدی آل محمدعلیہم السلام وعجل فرجہ و سھل مخرجہ ،مقصود تھے۔
اس کے بعد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے یہ جملے ارشاد فرمائے:
بابی المنتدح البطن المقرون الحاجبین اخمشی الساقین، بعید مابین المنکبین، سمراللون یعتورہ مع سمرتہ صفرة من سھراللیل، بابی من لیلہ یرعی النجوم ساجدا وراکعا، بابی من لایاخذہ فی اللہ لومة لائم، مصباح الدجی، بابی القائم بامراللہ۔(فلاح السائل ص۹۹۱)
ترجمہ:۔ میرے باپ قربان اس پر جو کشادہ بطن والے، دونوں ملے ہوئے حاجبوں والے، پتلی پنڈلیوں والے، جن کے دونوں کاندھوں کے درمیان فیصلہ ہے، بھورے، گندمی رنگ والے کہ بھوری رنگت کے ساتھ زرد چھائی ہے جو شب بیداری کی وجہ سے ہے میرے باپ اس پر قربان جائیں جس کی رات اس طرح گزرتی ہے کہ رات کے تارے انہیں سجدے اور رکوع کرتے ہوئے دھیان سے نظارہ کرتے ہیں میرے باپ ان پر قربان جنہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کٹھکا نہ ہوگااور نہ ہی پرواہ ہو گی ،تاریکیوں کے لئے چراغ، میرے باپ قربان قائم بامراللہ پر۔
خعلامہ مجلسیؒ نے المقیاس میں صبح کی نماز کے بعد ایک سو مرتبہ اس صلوات کو پڑھنے کا لکھا ہے ، وہ صلوات یہ ہے کسی سے گفتگو کئے بغیر یہ صلوات پڑھے۔
یارب صل علی محمد وآل محمد وعجل فرج آل محمد واعتق رقبتی من النار
اے رب!محمد وآل محمد پر صلوات بھیج اور آل محمد کے ظہور میں جلدی فرمااور میری گردن کو آگ سے آزاد کردے
خالبحار میں ایک لمبی دعا علامہ مجلسیؒ نے ذکر کی ہے جسے ہم نے اپنی کتاب ابواب الفات فی آداب، الجہات میں تحریر کیا ہے یہ دعا بہت ہی عمدہ مطالب پر مشتمل ہے اسے باقاعدہ پڑھنا چاہئے اس دعا میں درج ذیل جملے قابل توجہ ہیں
اللھم کن لولیک فی خلقک ولیا و حافظاوقائدا وناصراً حتی تسکنہ ارضک طوعا وتمتعہ منھا(فیھا) طویلا وتجعلہ وذ ریتہ فیھا الائمة الوارثین واجمع شملہ واکمل لہ امرہ والح لہ رعیتہ وثبت رکنہ وافر النصر(البصر) منک علیہ حتی ینتقم فیشتفی ویشفی حزازات نغلة وحرارات صدور وغرة وحسرات انفس ترجة، من دماءمسبغولہ وارحام مقطوعة، وطاعة مجہول قد احسنت الیہ ووسعت علیہ الا لاءواتممت علیہ النعماءفی حسن الحفظ منک لہ۔
اللھم آنقہ ھول عدوہ و انسھم ذکرہ و ا ¿ردمن الادہ، وکدمن کادہ، وامکربمن مکربہ، واجعل دائرة السوءعلیہم....دعا کے آخر تک
خحضرت امام ابوالحسن علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے ہے کہ آپ نے حضرت حجت صاحب الزمان علیہ السلام کے لئے درج ذیل دعا پڑھنے کا حکم دیا اور آپ خود اس دعا کو حضرت صاحب الزمان (عج)کے لئے پڑھتے تھے۔
دعا اس طرح ہے:
”اللھم صل علی محمد وآل محمد وادفع عن ولیک وخلیفتک
اے اللہ محمد وآل محمد پر صلوات بھیج اور توں اپنے ولی، اپنے خلیفہ
وحجتک علی خلقک، ولسانک المعبرعنک
اور وہ جو تیری مخلوق پر تیری حجت ہے اور تیری ترجمان زبان ہے
الناطق بحکمتک وعینک الناظرہ فی بریتک
جو تیری حکمت کو بیان کرنے والے ہیں اور جو تیری مخلوق کو دیکھنے والی تیری آنکھ ہیں
وشاہدک علی عبادک،الحججاج المجاہد المجتہد
اور تیرے بندگان پر تیراگواہ ہے، جو بہت ہی بڑے، محنت کرنے والے مجاہد ہیں
عبدک، العائذبک، العابد عندک(وادفع عنہ )واعذہ
تیرا بندہ ہے، جو تیری پناہ میں ہے، جو تیری جناب میں عابد ہے تو اپنے اس ولی سے دور کر دے اور اپنے اس ولی کو اپنی پناہ میں لے لے
من شرما خلقت وذرات و برات صورت
ہر اس شر سے جسے تو نے خلق کیا، جسے تو نے پیدا کیا، جسے تو نے بنایا، جسے تو نے قراردیا جس کی تو نے تصویر بنائی شر کی تمام اقسام کو اس سے دور کردے
واحفظہ من بین یدیہ ومن خلقہ
اے اللہ! اس کی اس کے سامنے سے حفاظت فرما، اس کی پیچھے سے حفاظت فرما
وعن یمینہ، وعن شمالہ
اس کی دائیں جانب سے حفاظت فرما، اس کی بائیں جانب سے حفاظت فرما
ومن فوقہ ومن تحتہ
اور اس کی اوپر سے حفاظت فرما اس کی نیچے سے حفاظت فرمایعنی ہرشش جہات سے تواے اللہ! ان کی حفاظت فرما
حفظک الذی لایضیع من حفظہ
اپنی اس قسم کی حفاظت کے ذریعہ کہ تو نے اس طرح جس کی حفاظت کی وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا
واحفظ فیہ رسولک
اور اس کی حفاظت سے اپنے رسول کی حفاظت فرما
ووصی رسولک وآبائہ آئمتک ودعائم دینک
اور ان کی حفاظت سے اپنے رسول کے وصی علیہ السلام اور اس کے آباءجو کہ تیرے آئمہ علیہ السلام ہیں اور تیرے دین کے ستون ہیں ان سب کی حفاظت فرما
صلواتک علیہ وعلیہم اجمعین
تیری صلوات اس پرہو اور ان سب پرہو
واجعلہ فی ودیعتک الوثیق الذی لایخذل
اور انہیں اپنی اس مضبوط امان گاہ میں قرار دے دے کہ جس سے کوئی اسے رسوا نہ کرے
من امنتہ بہ واجعلہ فی کنفک الذی
کیونکہ وہ امان جس کو ملے وہ رسوائی سے محفوظ رہا اور اے اللہ اسے اپنی اس مضبوط غار میںاورٹھکانہ میں
لایضام من کان فیہ والضرہ بنصرالعزیز
قرار دے دے کہ جو اس میں موجود ہو تو اس پر کوئی ظلم نہیں ہو سکتا اور اے اللہ اپنی اس
وابدہ بجندک الغالب وقوہ بقوتک
غلبہ والی مدد سے ان کی مدد کر دے کہ جس میں شکست نہیں اور اپنے اس غالب اور
واردفہ بملائکتک
کامیاب لشکر سے اس کی تائید فرما اور اپنی طاقت سے اسے قدرت مند بنا اوراپنے فرشتوں کو اس کے ساتھ قرار دے دے
اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ
اے اللہ! اس سے موالات رکھ جو اسے دوست رکھے جواس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ
البسہ ورعک الحصینہ
اور اسے اپنی مضبوط و مستحکم زرہ پہنا دے

وحفہ بالملائکة حقًا
اور سارے فرشتوں کو اس کے گرداگرد قرار دے دے
اللھم وبلغہ افضل مابلفت القائمین بالقسط
اے اللہ! اس کو ایسی بہتر حالت میں پہنچا دے کہ جس پر عدالت کے
من اتباع البنین
کے نفاذ کرنے والوں کو تو نے پہنچایا کہ وہ سارے نبیوں کی پیروی کرنے والے ہیں
اللھم اشعب بہ الصدع وارتق بہ الفتق
اے اللہ! ان کے وسیلہ سے فراغ کو بھر دے اور سازشوں کا ان کے ذریعہ سے توڑ کر دے
وامت بہ الجور
ان کے ذریعہ ظلم کو مار ڈال اوراس کا خاتمہ کر دے
واظہر بہ العدل
ان کے وسیلہ سے عدالت کا اظہار فرما دے
وزین بطول بقائہ الارض
ان کی لمبی بقاءسے زمین کوزینت عطا فرمایا، اسے بارونق فرما
وابدہ بالنصر، وانصرہ بالرعب
ان کی اپنی نصرت سے تائید فرما، رعب کے وسیلہ سے ان کی مدد فرما
وافتح لہ فتحا یسیرا
اس کے لئے آسان سی فتح قرار دے
واجعل لہ من لدنک سلطانا نصیرا
ان کے لئے اپنی جناب سے فتح و کامیابی و کامرانی عطا فرما دے
اللھم اجعلہ القائم المنتظر
اے اللہ!اسے قائم منتظر قرار دے
والامام الذی بہ تنتصر
اور وہ امام قرار دے جس کے ذریعہ تیری کامیابی ہو گی
وابدہ ینصر عزیر
اپنی غلبہ والی نصرت سے اس کی تائید فرما
و فتح قریب
اور نزدیکی فتح سے ان کی تائید فرما
وورثہ مشارق الارض و مغاربھا
اور انہیں زمین کے مشارق و مغارب کا وارث بنا دے
والارض التی بارکت فیھا
وہ زمینیں جن کو تو نے بابرکت بنایا ہے
واحی بہ ستة نبیک صلواتک علیہ وآلہ
ان کے وسیلہ سے اپنے نبی کی سنت کو زندہ کر دے محمدوآل محمد پر صلوات ہو
حتی لایخفی شئی من الحق مخالفة احد من الخلق
ایسا ہو جائے کہ حق کا کچھ بھی پوشیدہ نہ رہے مخلوق میں کسی کے ڈر کی وجہ سے یعنی سارا حق سامنے آجائے حق کسی کے ڈر سے مخفی نہ رہے
وقوناصربیہ واخذل جاذبیہ
اس کے ناصروں کو طاقتور بنا، اس سے بے وفائی کرنے والوں کو رسوا کر دے
علی من نصب لہ
اور جو ان کی دشمنی کرے ان پر خون کی بارش برسا دے
ودمر علی من غشہ
اور جو ان سے دھوکہ کرے اسے برباد کر دے
اللھم واقتل بہ جبابرة الکفر وعمدہ ودعامہ واقصم بہ
اے اللہ! ان کے وسیلہ سے کفر کے بڑے بڑے جابروں اور ان کے بڑے سپوتوں کو قتل کر دے ان کے لئے جو مضبوط سہارے ہیں انہیں برباد کر دے
واجتثث رو ¿وس الضلالة
اور ان کے وسیلہ سے گمراہی کے سروں کو رگڑ دے انہیں توڑ دے
وشارعة البدع وممیتة السنة و مقویة الباطل
اور وہ جنہوں نے بدعت شروع کی سنت کا خاتمہ کیا اور باطل کو مضبوط کیا
واذلل بہ الجبارین
ان کے ذریعہ سارے جابروں کو ذلیل و رسوا کر دے
وابربہ الکافرین والمنافقین وجمیع الملحدین
ان کے ذریعہ سارے کافروں کو، سارے منافقوں کو، سارے ملحدوں کو
حیث کانوا واین کانوا، من مشارق الارض
مار ڈال وہ جہاں بھی ہیں جس وقت میں ہوں زمین کے مشارق
ومغاربھا، برھا و بحرھا،سھلھا وجبلھا
مغارب سے ہوں خشکی و تری سے ہوں میدانوں اور پہاڑوں سے ہوں، ان کا صفایا کر دے
حتی لاتدع منھم دیارا
یہاں تک کہ ان سے کوئی بھی گھر باقی نہ رہے
ولاتبقی لھم اثاراً
اور ان کے نشانات سے کچھ باقی نہ رہے
اللھم طھرمنھم بلادک
اے اللہ! ان کے منحوس وجود سے اپنے شہروں کو پاک کر دے
واشف منھم عبادک
اپنے بندگان کو ان کے شر سے نجات دے دے
واعزبہ المومنین واح ¸ سنن المرسلین
انکے ذریعہ مومنوں کو عزت دار بنا دے اور انکے وسیلہ سے رسول کی سنتوں کو مضبوط کر دے
ودارس حکم النبین ،وجددبہ ما امتححی من
اور نبیوں کے حکم کو جاری کر دے اور ان کے ذریعہ اس چیزکی تجدید فرما دے جو تیرے دین سے محو ہو چکی ہیں
دینک، وبدل من حکمک
اور جو تیرے حکم میں تبدیلی آچکی ہے اس کی دوبارہ تجدید ہو جائے گی
حتی تعیددینک بہ وعلی یدیہ غضاجدید اصحیحیامحضاً
تاکہ تو اپنے دین کو ان کے ذریعہ دوبارہ اصلی شکل میں لے آئے
لاعوج فیہ ولابدعة معة
اس طرح کہ دین تروتازہ ہو، اس میں کوئی خرابی نہ ہو، ٹیڑھا پن نہ ہو کوئی بدعت باقی نہ رہے، خالص دین، صاف ستھرا دین، نیا اور تازہ دین، اصل دین ہو
حتی تنیز بعدلہ ظلم الجور،وتطفی بہ نیزان
تاکہ ان کے عدل سے ظلم اورتاریکیوں کو روشن کر دے اور ان کے
الکفر و توضیح بہ معاقد الحق بہ ومجہول العدل
وسیلہ سے کفر کی بھڑکتی آگ کو بجھا دے اور ان کی وجہ سے حق کے مراکز
وتحل مشکلات الحکم
کو ظاہر اور روشن کر دے اور نامعلوم عدل کو غلبہ دے دے بھولا عدل واپس لے آاور فیصلہ کرنے کی مشکلات ان کے ذریعہ حل کر دے
اللھم وانہ عبدک الذی استخلصتہ لنفسک
اے اللہ وہ تو تیرا بندہ ہے جسے تو نے اپنی ذات کے لئے خالص کر لیا ہے
واصطفیتہ من خلقک، واصطفیتہ علی عبادک
اور اپنی مخلوق سے اسے چن لیا ہے اور انہیں اپنے بندوں پر مصطفی بنایا ہے
وامنتہ علی غیبک
اور تونے اسے اپنے غیب پر امین قرار دیا ہے
وعصمتہ من الذنوب
اسے تو نے گناہوں سے معصوم بنایا ہے
وبرائة من العیوب
اسے تو نے عیبوں سے پاک بنایا ہے
وطہرتہ من الرجس
اور اسے ہر قسم کی ظاہری اور باطنی پلیدگی سے پاک بنایا ہے
وصرفتہ عن وسلمتہ من الانس
اور اس سے کثافت اور غلاظت کو دور رکھا ہے اور انہیں ہر پلیدگی سے ہر نقص سے صحیح وسالم بنایا ہے
وسلمتہ من الریب
اور اسے ہرشک سے محفوظ رکھا ہے
اللھم انا نشہدلہ یوم القیامة یوم حلول الطامہ
اے اللہ!ہم قیامت کے دن یہ گواہی دیں گے جو کہ بڑا دن ہوگا
انہ لم یذنب ذنباولم یات حوبا
کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیااور کسی بھی غلطی کا ارتکاب نہیں کیا
ولم یرتکب لک معصیة
اور یہ کہ اس نے تیری بالکل نافرمانی نہیں کی
ولم یضیع لک طاعة
اور اس نے تیری اطاعت کو ضائع نہیں کیا
ولم یھتک لک حرمة
اور تیرے کسی محترم کی ہتک اس نے نہیں کی
ولم یبدل لک فریضة ولم یغیریک شریعة
اور اس نے نہ تو تیرے کسی فریضہ کو بدلا ہے اور نہ ہی تیری شریعت کوتبدیل کیاہے
وانہ الامام التقی الھادی المھتدی الطاہر النقی الوفی الرض ¸ الزکی
اور یہ کہ وہ امام ہیں، جو نقی ہیں، ھادی ہیں،خود ہدایت یافتہ ہیں، طاہر ہیں، نقی ہیں، وعدہ وفاکرنے والے ہیں، پسندیدہ ہیں، زکی اورپاکیزہ ہیں
اللھم صل علی محمد وعلیٰ آبائہ
اے اللہ!اس پر اور ان کے آباءپرصلوات بھیج
واعطہ فی نفسہ وولدہ واھلہ وذریتہ وامتہ
اے اللہ اسے اپنی ذات کے حوالے سے،بیٹوں کے حوالے سے ،اپنے خاندان
وجمیع رعیتہ ماتقربہ عینہ وتسرہ بہ
کے حوالے سے اپنی ذریت کے حوالے سے اپنی امت اور رعیت کے حوالے وہ کچھ عطا کر دے جس سے انہیں سکون ملے، ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان حالات سے انہیں مسرت اور خوشحالی ملے
وتجمع لہ الملکات کلھا
اے اللہ!ساری مملکتیں ان کے لئے اکٹھی کر دے
قریبھا وبعیدھا عزیز ھا وذلیلھا
جو قریب ہیں وہ بھی، جو دور ہیں وہ بھی، جو طاقتور ہیں وہ بھی، جو کمزور ہیں وہ بھی
حتی یجری حکمہ علی کل حکم
تاکہ وہ اپنے حکم سارے احکام فوقیت دے دے اور سب پر حاوی کر دے
ویغلب بحقہ علی کل باطل
اور اپنے حق کو ہر باطل پر غلبہ دے دے
اللھم اسلک بنا علی یدیہ منہاج الہدیٰ
اے اللہ!ان کے ہاتھوں پر ہمیں ہدایت کے راستہ پر چلا
الحجة العظمی والطریقة الوسطی الٰہی یرجع الیھا
ہمیں حق کی بڑی شاہرہ پر چلا دے اور اس وسطانی راستہ پر لگا دے
المعالی ویلحق بھا التالی
کہ آگے بڑھ جانے والے اس پر پلٹ آئیں اور پیچھے رہ جانے والے بھی اس پر آئیں
اللھم وقونا علی طاعتہ
اے اللہ! ہمیں ان کی اطاعت کی طاقت عطا فرما
وثبتنا علی مشایعتہ
اور ہمیں اس کی پیروی پر ثابت اور مستحکم رکھ
وامنن علینا بمتابعتہ
اور ہمارے اوپر ان کی اتباع کرنے کا احسان کر دے
واجعلنا فی حزبہ
ہمیں ان کی پارٹی سے قرار دے
القوامین بامرہ
ان میں سے بنا جو ان کے حکم کو نافذ کرنے والے ہوں
الصابرین معہ
ان کے ساتھ صبر کرنے والوں سے بنا
والطالبین رضاک بمناصحة
اور ان سے بنا جو تیری رضا کو ان کی خیرخواہی کے وسیلہ سے حاصل کرنے والے ہیں
حتیٰ یحشرنا یوم القیمة من انصارہ واعوانہ ومقوبہ سلطانہ
تاکہ توں قیامت کے دن ہمیں ان کے ناصران سے قرار دے ان کے معاونت کاروں سے اور ان کی سلطنت کو مضبوط کرنے والوں سے قرار دے
اللھم صل علی محمد وآل محمد
اے اللہ! محمد و آل محمد پر صلوات بھیج
اللھمواجعل ذلک لناخالصا من کل شک وشبھة وریاءوسمعة
اور یہ سب کچھ ہمارے ہر قسم کے شک و شبہ، ریاکاری،شہرت کاروںسے خالص اور پاک عمل قرار دے
حتی لاتعتمدبہ غیرک
تاکہ ہم ان کے ذریعہ پھر تیرے غیرپر اعتماد نہ کریں
ولایطلب بہ الاوجھک
اور ان کے واسطے سے ہم تیری جناب تک رسائی کے لئے جائیں
حتی تحلنا محلہ وتجعلنا فی الجنة
تاکہ تو ہمیں ان کا قائم مقام بنا دے اور تو جنت میں ہمیں
معہ ولا تجعلناا فی امرہ بالسا ¿مة والکسل
ان کے ساتھ قرار دے اور توں ہمیں ان کے معاملہ میں سستی، کاہلی، بے رخی، بے توجہی، نالائقی اور
والفترة والغفلة
کمزوری جیسے امور میں مبتلا مت فرما
واجعلنا ممن تنتصربہ لدینک
اور تم ہمیں ان سے قرار دے جن کے ذریعہ تو اپنے دین کی مدد کرے گا
وتعزبہ نصرولیک
اور جن کے ذریعہ توں اپنے ولی کی نصرت کو مضبوط کرے گا
ولا تستبدل بنا غیرنا فان استبدالک بناغیرنا
اے اللہ! ہماری جگہ کسی اور کو قرار نہ دے کیونکہ ایسی تبدیلی تیرے لئے معمولی ہے
علیک یسیروھوعلینا کثیر، انک علی کل شی قدیر
جب کہ ہمارے واسطے یہ بڑی بات ہو گی اور توں تو ہرچیز پر قادر ہے
اللھم صل علی ولاة عہدہ
اے اللہ! ان کے زمانہ کے والیوں پر صلوات بھیج
وبلغھم آمالھم وزدفی آحالھم وانصرھم
اے اللہ! ان کی ساری امیدوں کو پورا کر دے، ان کی عمریں بڑھا دے
وتمم لھم مااسندت الیھم من امر دینک
ان کی مدد کر اور اپنے دین کے معاملہ میںجو تونے ان کے سپرد کیا ہے تو وہ سب کچھ ان کے لئے پورا کر دے
واجعلنا لھم اعوانا و علی دینک انصارا وصل
اور ہمیں ان کے لئے اعوان بنا اور اپنے دین کے ناصر قرار دے اور
علی آبائہ الطاہرین الآئمة الراشدین
ان کے آباءپرجو طاہرین ہیں ، آئمہ ہیں، راشدین ہیں صلوات بھیج
اللھم فانھم معادن کلماتک وخزان علمک
اے اللہ! وہ تو سب تیرے کلمات کے معادن ہیں تیرے علم کے خزانہ دار ہیں
وولاة امرک وخالصتک من عبادک
تیرے امر کے اولیاءہیں اور تیرے بندگان سے خالص ہیں اور
خیرتک من خلقک واولیائک وسلائل اولیائک
تیری مخلوق سے منتخب شدہ ہیں اور تیرے اولیاءہیں اور بڑے اولیاءکی نسل سے ہیں

وصفوتک واولاد اصفیائک
تیرے خالص چنے ہوئے ہیں تیرے اصفیاءکی اولاد سے ہیں
صلواتک و رحمتک وبرکاتک علیہم اجمعین
تیری صلوات ، تیری رحمت اور تیری برکات ان سب پر ہوں
اللھم وشرکائہ فی امرہ
اے اللہ! اور وہ افراد جو ان کے امر حکومت میں ان کے شریک ہیں
ومعاونیہ علی طاعتک
اور تیری اطاعت میں اس کے معاونین ہیں
الذین جعلتھم حصنہ وسلاحہ ومفزعہ وخیرالوسیلہ
جن کو تو نے اس کے واسطے مضبوط ڈھال بنایا اس کا اسلحہ قرار دیا ہے اس کی پناہ بنایا ہے اور اس کے خیرکا وسیلہ بنایا ہے
الذین سلواعن الاھل والاوالاد
جنہوں نے اپنے خاندان اور بچوں کو چھوڑ دیا
تجافوا الوطن وعطلوا الوتر من المہاد
جنہوں نے وطن کو چھوڑدیا اپنے آرام کو خیرباد کہہ دیا
قدر فضوا تجار اتھم واضروا بمعالیشھم
جنہوں نے اپنی تجارتیں ، کاروبار،سب کو داﺅ پر لگا دیا

فقد و امن اندیتھم بغیرغیبة عن معدھم
وہ کلبوںسے غائب رہے باوجودیکہ شہروں میں موجود تھے جب کہ وہ اپنے مرکز سے غائب نہ رہے
وحالفوا البعیدمن عاضدھم علی امرھم
انہوں نے نئے دور والوں سے تعاون کا پیمان باندھاجن کے بارے انہوں نے دیکھا کہ وہ اس کے لئے مضبوط سہارا ان کے پروگرام میں رہیں گے
خالفوا القریب ممن صدعن وجھتھم
انہوں نے اپنے قریبی مکی مخالفت کی اس وجہ سے کہ وہ انہیں ان کے مشن سے روکتے تھے
وابتلغوا بعدالندا بروالتقاطع فی دھرھم
انہیں اپنے زمانہ میں آگے پیچھے ہونا پڑاروابط جوڑنے اور توڑنے پڑے اس کے بعد ہی وہ یکجا ہو سکے
وقطعوا الاسباب المتصلہ بعاجل حطام الدنیا
دنیا سے متصل رکھنے والے اسباب ووسائل کو انہوں نے کاٹ ڈالا
فاجعلھم اللھم فی حرزک و فی ظل کنفک
اے اللہ!انہیں اپنی امان میں رکھ اور اپنی پناہ کے سایہ میں رکھ
وردعنھم با ¿س من قصدالیھم بالعداوة من خلقک
اور تیری مخلوق سے جو بھی ان سے دشمنی کا ارادہ رکھتا ہے اس کی سختی کو، اس کی سازش کو ان سے دور رکھ
واجزل لھم من دعوتک من کفایتک ومعونتک
اے اللہ! تیری جانب جو وہ دعوت دے رہے ہیں اس میں تیری مدد ان کے
لھم وتائیدک ونصرک ایاھم ما تکفیھم بہ
لئے کافی ہے اور تیری تائید، تیری مدد، فراوان ان کے لئے جاری رہے
علی طاعتک
کہ تو اس طرح اپنی اطاعت کے لئے ان کی مدد فرمائے
وازھق بحقھم باطل من اراداطفاءنورک
وہ باطل جو تیرے نور کو بجھانے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے حق کے وسیلہ سے اس باطل کو برباد کردے
وصل علی محمدوآل محمد، وآملاءبھم کل افق
محمد وآل محمد پر صلوات بھیج اور ان کے ذریعہ تمام آفاق میں
من الافاق و قطر من الاقطار قسطا وعدلاومرحمة وفضلا،
سارے خطوں میں عدل اور انصاف سے بھر دے اپنی رحمت اورفضل وکرم کا راج کر دے
واشکرلھم علی حبیب کرمک وجودک ومامننت بہ
اپنے کرم وجود کے مطابق اور جو کچھ تو نے اپنے بندگان میں سے انصاف
علی العالمین بالقسط من عبادک
نافذ کرنے والوں پر احسان کیا ہے ایسا ہی ان کے لئے کر دے

وادخرلھم من لوائک ماترفع لھم بہ الدرجات
اور ان کے لئے اس ثواب کو ذخیرہ کر دے جس کے ذریعہ تونے انہیں
انک تفعل ماتشاءوتحکم ماتریدا آمین رب العالمین
ان درجات تک پہنچایا کہ جس کے لئے توں چاہتا ہے ایسا کرتا ہے اور جو تیرا ارادہ ہوتا ہے اس کے مطابق حکم دیتا ہے خدایا یہ دعا قبول فرما۔(مکیال المکارم ج۲ص۱۱،۵۱،۸۳)

حضرت امام زمانہ (عج) کے ظہور کے لئے دعا مانگنے کا طریقہ
(علامہ الاصفہانی نے اپنی بہت ہی نفیس اور قیمتی کتاب جو انہوںنے خواب میں امام زمانہ علیہ السلام کی ہدایت ملنے پر تحریر کی اور یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے ساری کتاب دعا کے بارے میں ہے کہ امام زمانہ (عج) کے لئے دعا مانگنا کیوں ضروری ہے؟ اس کا کیا فائدہ ہے؟ دعا کا انداز کیا ہونا چاہیے اور کون سی دعائیںپڑھی جائیں حروف تہجی کے لحاظ سے احادیث روایات، اقوال علماءسے نقل کئے ہیںاس بحث کو بہت ہی تفصیل سے بیان کیا ہے یہ کتاب عربی میں ہے....ازمترجم)
علامہ اصفہانی صاحب امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی تعجیل کے لئے دعا مانگنے کی کیفیت کے بارے میں چند نقاط اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ سے واضح بیان کے ساتھ سوال کرے۔ فارسی میں،عربی میں یا کسی اور زبان میں اس طرح کہے ”اللھم عجل فرج مولانا صاحب الزمان “اے اللہ! ہمارے مولا صاحب الزمان علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما یاعجل اللہ تعالیٰ فرجہ وظہورہ
۲۔ اللہ تعالیٰ سے آل محمدعلیہم السلام کے ظہور کا سوال کرے کیونکہ آل محمد کے ظہور کا وسیلہ امام زمانہ علیہ السلام کاظہورہے جیسا کہ دعاﺅں اور مناجات میں آیا ہے۔
۳۔ سارے مومنین اور ساری مومنات یا سارے اولیاءکے کشائش کے لئے اللہ سے سوال کرے کیونکہ امام زمانہ (عج) کے ظہورسے ہی سب کی کشائش ہو گی۔جیسا کہ روایت میں ہے ۔
۴۔ جو بھی امام زمانہ(عج) کے لئے دعا کرے تواس دعا کوسننے والا آمین کہے اے اس دعا کو اللہ قبول فرما، لفظ آمین بھی دعا ہے اس میں دعا مانگنے والا اور دعا کی قبولیت کے لئے سوال کرنے والا دونوں دعا میں شریک ہو جاتے ہیں جیسا کہ روایت میں ہے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے، اے اللہ جو امام زمانہ(عج) کے ظہور کی تعجیل واسطے دعائیں کر رہے ہیں ان کی دعائیں قبول فرما، یہ سوال کرنے میں ضروری نہیں کہ انسان دعا پڑھنے والوں کی دعا سن رہا ہواور اس میں فرق یہ ہے کہ آمین وہاں بولا جائے گا جہاں پر انسان دعا پڑھنے والے کے ساتھ موجود ہو اور دعا کو سن رہا ہوں جب کہ دوسری صورت میں ایسا نہیں ہے۔
۶۔ اللہ سے سوال کرے اے اللہ!ان اسباب کو پورا کر دے جس سے ظہور میں جلدی ہو سکے۔
۷۔ اللہ سے ان رکاوٹوں کے دور کرنے کا سوال کرے جو آپ علیہ السلام کے ظہور میں حائل ہیں۔
۸۔ ان گناہوں کی معافی خدا سے طلب کرے جو گناہ دعاءمانگنے والے یا اہل ایمان سے سرزد ہوتے ہیں اور ظہور میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔
۹۔ اللہ سے سوا ل کرے کہ اللہ مجھے ایسے گناہوں سے بچا کر رکھ جو ظہور میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔
۰۱۔ امام زمانہ(عج) کے دشمنوں کی ہلاکت کا سوال کرے کہ جن کا وجود امام زمانہ (عج)کے ظہور میں تعجیل کے لئے رکاوٹ ہے۔
۱۱۔ اللہ سے سوال کرے کہ ظالموں کا ہاتھ مومنوں سے کاٹ دے، مومنوں کو ان کے شر سے بچائے کیونکہ یہ ان کے امام منتظر کے ظہور کی برکت سے ہی ہوگا۔
۲۱۔ زمین کے مشارق و مغارب میں عدالت عام ہو جانے کا اللہ سے سوال کرے کیونکہ یہ اسی وقت ہو گا جب حضرت صاحب الزمان (عج)کا ظہور ہوگا۔
۳۱۔ سوال کرے، اے اللہ!ہمیں سرور،خوشی،خوشحالی اور ہریالی دکھا دے“ یہ نیت رکھے کہ ایسا اسی وقت ہو گا جب حضرت کا ظہور ہو گا کیونکہ مکمل خوشحالی، ہر قسم کی ہریالی امن اور سکون مومن کے لئے حاصل نہ ہوگا مگر جب حضرت قائم آل محمد(عج) کا ظہور ہوگا۔
۴۱۔ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے کہ اے اللہ! میرے اعمال کا اجر اور ثواب میرے زمانہ کے امام کے ظہور کی تعجیل کو قرار دے۔
۵۱۔ اس دعا کی توفیق خداوند سے مانگے یعنی اپنے مولا صاحب الزمان (عج) اور ان کے ظہور کی تعجیل کے وسیلہ سے مومنین کی مشکلات کے حل کی دعا کیونکہ سارے مومنوں کا اس پر انفاق ہو کہ ظہور کے لئے جو مطلوبہ مقدمات ہیں ان کو آسان بنا دے گا اور وہ اس مطلوب کے حصول کے لئے حسب رغبت سعی کرنے والا ہوگا۔
۶۱۔ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے کہ اے اللہ! دین کو سب پر غلبہ دے دے، اہل ایمان کو غالب کر دے ، اسلام کو تمام ادیان پر نصرت دے دے اور یہ اسی وقت حاصل ہو گا جب حضرت صاحب الزمان (عج) کا ظہور ہوگا،اسی اللہ کا وعدہ ہے، جیسا کہ روایات میں آیا ہے جو سورہ توبہ آیت ۳۳ کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں(البرھان ج۲ص۱۲۱)
۷۱۔ اللہ سے سوال کرے کہ وہ دین کے دشمنوں سے انتقام لینے والوں سے ہو، اہل البیت علیہم السلام پرظلم کرنے والوں اور ان کے حقوق غصب کرنے والوں سے انتقام لینے والوں میں شامل ہو اور یہ اس وقت حاصل ہو گا جب حضرت امام منتظر علیہ السلام غائب عن الانظار کا ظہور ہوگا۔
۸۱۔ امام زمانہ(عج) پر صلوات پڑھے ان کے وسیلہ سے اللہ کی خاص رحمت طلب کرے کہ جس کی وجہ سے امام زمانہ(عج) کے لئے کشائش اور آپ کا ظہور جلدی ہو
کامل الزیارات میں جو صلوات آپ کے لئے روایت ہوئی ہے ان سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے باب میں ہے۔
آئمہ اطہار علیہم السلام میں سے ہر ایک پر صلوات پڑھنے کے بعد امام زمانہ(عج) کے لئے آیا ہے۔
اللھم صل علی حجتک وولیک القائم فی خلقک
اے اللہ! اپنی حجت پر اپنے ولی پر، جو تیری مخلوق میں قائم ہے ایسی
صلاة تامة نامیة تعجل بھافرجہ
صلوات بھیج جوپوری ہو بڑھنے والی ہو ایسی صلوات کے جس کی وجہ سے
تضیرہ بھا وتجعلنا معہ فی الدنیا والآخرة
تو ان کے ظہورمیں تعجیل فرما دے اور تو ان کی مغفرت فرما دے اور اے اللہ توں ہمیں دنیا اور آخرت سب میں ان کے ساتھ قرار دے۔
۹۱۔ یہ سوال کرے کہ اے اللہ امام زمانہ(عج) سے کرب، پریشانی، رنج و غم کو دور کر دے ان کے قلب مبارک کو خوش کر دے انہیں سرور نصیب فرما دے کیونکہ ایسا اس وقت ہو گا جب آپ سارے ظالموں پر غالب آئیں گے اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کریں گے۔
۰۲۔ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے کہ سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کے خون ناحق کا بدلہ چکانے کے ایام جلد لے یہ درحقیقت امام زمانہ(عج)کے ظہور پر نور سے ہی حاصل ہو گا آپ ہی خون حسین علیہ السلام کے انتقام کا نعرہ لے کر قیام کریں۔
(مکیال المکارم ج۲ص۳۶،۴۶)
(دعا مانگنے کے لئے انسان کااپنے شخصی حقوق اور اپنے امام سے عشق اور محبت کی نوعیت اور آپ کے حالات سے آگہی اور آپ کی صفات اور خصوصیات کی معرفت سے ہے آپ نے تمام ظالموں سے بدلا لینا ہے ابتدائے انسانیت سے لے کر ظہور کے وقت تک جو بھی روئے زمین پرخون ناحق گرا ہے آپ نے اس کا بدلہ لینا ہے خاص کر آپ نے اپنی دادی زہراءسلام اللہ علیہا کو اذیت دینے والوں اور مظلوم محسن علیہ السلام شہید کے خون ناحق کا بدلہ بھی لینا ہے لہٰذا دعا میں اس کا بھی سوال کیا جائے۔
دعا جتنی تفصیل سے مانگی جائے گی اتنی ہی انسان کی اصلاح ہو رہی ہو گی کیونکہ دعا کے الفاظ اور جو کچھ دعا میں اللہ سے طلب کیا جا رہا ہو گا اس کے تناظر میں دعا مانگنے والا اپنے بارے بھی جائزہ لے گا جہاں وہ یہ دعا مانگے کہ بی بی زہراء علیہ السلام کا خمس کھا جانے والوں کو سزا دینے کے ایام اے اللہ قریب لے آ۔تو اگر وہ خود خمس نہیں دیتا تو یہی دعا اسے خمس کا پابند بنا دے گی، جب ظلم کے خاتمہ اور ظالموں سے انتقام کی دعا مانگے گا تو پھر اگر اس کے اپنے اندر یہ مذموم صفت موجود ہے تو اسے اپنے سے دور کرے گا بہرحال دعا میں بہت سارے قریبی فوائد ہیں اس لئے اس امر کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔(مترجم)

ساتویں ذمہ داری :امام زمانہ (عج) کا قرب حاصل کرنا
دعائیں جو ذکر ہوئی ہیں یہ خود امام زمانہ (عج) سے قریب ہونے کا وسیلہ ہیں ان کے علاوہ کچھ اور اعمال بھی ہیں جو حضرت سے قرب کا ذریعہ بنتے ہیں انہیں انجام دینا چاہیے ان میں ایک دعادعائے توسل ہے، اسی طرح مخصوص زیارات ہیں جو کہ دعاﺅں اور زیارات کی کتابوں میں درج ہیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہوئی ہے بہرحال جو شخصیت حجت ہے تو اس سے تیرا تعلق اس طرح کا ہونا چاہیے کہ جیسے تلوار تیری گردن پر ذبح کے لئے رکھ دی گئی ہو تو تو اس حجت کو پکارے تو وہ تیری فریاد کو آئے۔
حجت زمانہ(امام صاحب العصر والزمان علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے)آپ ہی پریشان حال کے لئے مضبوط سہاراہیں اور جو بھی آپ کو پکارے آپ اس کی فریاد رسی کرتے ہیں۔(بکیال المکارم ج۲ص۳۶،۵۶)
ان اعمال میں سے جو آپ کے قرب کا ذریعہ بنتے ہیںچند ایک حسب ذیل ہیں۔
۱۔ آپ کی نیابت میں حج کرنا یا کسی کو آپ کی نیابت میں حج پر بھیجنا، اسی طرح عمرہ کے لئے بھیجنا یا خود کرنا۔
۲۔ آپ کی سلامتی کے لئے صدقہ دیناآپ کی سلامتی کے لئے دعا کرنا۔
۳۔ آپ کے ناموں کا ورد کرنا۔
۴۔ آپ کے نام سے محافل و مجالس کا انعقاد کرنا۔
۵۔ آپ کے نام پر ادارے ، کمیٹیاں بنانا۔
۶۔ اپنے بچوں کے ناموں کو آپ کے القاب سے موسوم کرنا۔
۷۔ آپ کی نیابت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا یا کسی کو زیارت کے لئے بھیجنا۔
۸۔ آپ کے نام پر خیراتی ادارے بنانا۔
۹۔ آپ کے نام پر تعلیمی ادارے، دینی مدارس قائم کرنا۔
۰۱۔ امام زمانہ(عج) کے شیعوں کی مشکلات حل کرنا، ایسے نیک کام انجام دینے، جس سے امام زمانہ(عج) کا قلب مبارک مسرور ہو۔
۱۱۔ غیبت کے زمانہ میں مومنین کی شرعی مسائل کے حوالے سے راہنمائی کرنا اور انہیں بھٹکنے سے بچانا۔
۲۱۔ مذہب حقہ اہل البیت علیہم السلام کے خلاف اعتراضات کا جواب دینا اور شیعوں کے عقائد کو مضبوط کرنا، انہیں دشمن کے جال میں پھنسنے سے بچانا۔
۳۱۔ اچھائی کے کاموں کا حکم دینا، امربالمعروف
۴۱۔ برائی کے کاموں سے منع کرنا، نہی عن المنکریہ سارے اعمال اور اسی طرح کے اور اعمال ایسے ہیں جو ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہیں اور ہمارے جو ولی نعمت ہیں وقت کے امام ہیں حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بھی قریب کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں۔
یہ ذمہ داری زمانہ غیبت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ علیہ السلام کے ظہور کے بعد بھی ایسے اعمال انجام دینے ہوں گے جس سے امام علیہ السلام کا قرب حاصل ہو۔
جب بھی کسی مجلس یا محفل میں بیٹھیں تو اس میں امام زمانہ(عج)کا ذکر ضروری کیا جائے اور امام زمانہ(عج) کی برکات سے دوسروں کو آگاہ کیا جائے اور اپنے اندر امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں رہنے کا جذبہ بیدار کیا جائے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں اور ہمارے لئے بہت بڑا درس چھوڑتے ہیں ، آپ علیہ السلام امام زمانہ (عج) کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”انی نوادرکتہ لخدمتہ ایام حیاتی“اگر میں انہیں پالوں تو اپنی زندگی کے سارے ایام ان کی خدمت میں گزاردوں۔(غیبت نعمانی ص۴۵۲)
جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس طرح کے جذبات ہوں تو ہمارے کیسے جذبات ہونے چاہیں اس کاہر ایک اپنے بارے خود فیصلہ کر لے۔

اہل البیت علیہ السلام کی ولایت کا واجب ہونا
بہت ساری حدیثیں موجود ہیں جن میں اہل البیت علیہ السلام کی ولایت کو واجب قرار دیا گیا ہے آپ حضرات کی رہبریت فرض ہے، اہل البیت علیہم السلام کا آخری فرد حضرت صاحب الزمان (عج) ہیں لہٰذا اس دور میں امام مہدی علیہ السلام کی ولایت رکھنا فرض ہے ، آپ سے ولایت اس بات کی نشانی ہو گا کہ ہم اہل البیت علیہم السلام کی ولایت کو قبول کرتے ہیں ان کا تولا ہمارے دلوں میں ہے اہل البیت علیہ السلام سے تولا اور ان کی ولایت کا اثر زیارت جامعہ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ”بموالاتکم علمنا اللہ معالم دیننا واصلح مافسد من دنیا“اور تمہاری ولایت اور موالات کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارے دین کے معالم بیان کئے اور ہمیں دین کی آگہی دی ہے اور ہماری دنیا کے جو امور خراب ہو رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان امور کو آپ کی ولایت و رہبریت کے ذریعہ درست کر دیا ہے۔
(معانی الاخبار ص۸۰۱، باب معنی الامانة التی عرفت ص۲۲۱، باب آل یٰسین ج۱، المختصر للجلی ص۰۲۲)
یہ ذمہ داری عام ہے زمانہ غیبت میں بھی اور زمانہ ظہور میں بھی بلکہ اس پر دین کی بنیاد قائم ہے۔آپ کی ولایت عامہ ہے اس سے کوئی ایک بھی مستثنیٰ نہیں ہے آپ ولی اعظم ہیں، ابن عربی نے اس حوالے سے بہت عمدہ اور دقیق کلام لکھی ہے اپنے مخصوص طریقہ پر ان کی کتاب سے پڑھیں(الفتوحات المکیہ ج۴ ص۵۷ یا۶۶۳ ایک چھاپ میں ج۱ص۶۲۳باب ۶۶۳)