تیسری فصل
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے ہماری ذمہ داری اور آپ علیہ السلام کی حکومت بارے
ہمارا موقف
ابتدائیہ:ضروری بات
سب سے اہم بات جو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے ہمارے ساتھ مربوط ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی معرفت ہونی چاہئے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے سلسلہ میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہئے آپ علیہ السلام کی حکومت کے قیام بارے، آپ علیہ السلام کے ذریعہ جو فتوحات ہوں گی اس بارے،حکومت کے قیام کے لئے مقدمات فراہم کرنا، آپ علیہ السلام کے خروج و قیام کی تعجیل کے واسطے کام کرنے کے حوالے سے دیکھنا ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟
ان سوالات کے جواب کی ہماری سرگرمیوںکے واسطے بہت ہی تاثیر ہوگی۔
یہ فصل ان سوالات کا جواب کسی حد تک ضرور دے گی، جب کہ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ جس طرح ان امور کے بارے جواب ہونا چاہیئے اسے میں پیش نہ کر سکا، لیکن اس مقولہ کے پیش نظر کہ اگرپورا مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو تو جو کچھ حاصل ہو رہا ہے اسے تو نہ چھوڑا جائے، ہم نے یہ سطور قلمبند کر دی ہیں اس کے علاوہ یہ بات بھی یہاں پر کرنا ضروری ہے کہ اس سے پہلے کسی نے اس بارے بحث نہیں کی تاکہ اس سے استفادہ کیا جاتا۔
اگر بحث میں وارد ہونے کی نیت سوائے اس کے کہ قاری اس تحریر سے کچھ باتیں اخذ کر سکے یا کچھ مطالب اسے مل سکیںکچھ اور نہیں ہے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ بہت سارے مصنفین جو امام مہدی علیہ السلام کے بارے مقالات، کتابیں تحریر کرتے ہیں وہ ان موضوعات کو چھوڑ دیتے ہیں یا پھر کچھ اور موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں جن کی اہمیت کمتر ہے بلکہ بعض ایسے مطالب بیان کیے جاتے ہیں کہ جن کا بیان کرنا ظہور کی تحریک کے معاملات کے لئے نقصان دہ بھی ہے، جیسے ان ظہور کی تفصیلی یا اجمالی علامات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے یا ظہور کی شرائط کو بیان کیا جاتا ہے ان امور کے بیان کرنے کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے انسان ان سے متاثر نہیں ہوتا سوائے چند امور کے جنہیں ہم آٹھویں فصل میں بیان کریں گے۔
وہ معاملہ جو تیاری سے مربوط ہے ہم اسے اس جگہ بیان کریں گے اسی طرح حضرت قائم علیہ السلام کے بعض اصحاب پربھی روشنی ڈالنے کا قصہ جیسے خراسانی اور یمانی“ اللہ ان دونوں کی حفاظت فرمائے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے فتوحات کوجلدلے آئے۔کے حوالے سے تفصیلات میں جانا یہ بھی زیادہ مفید نہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا امر ہے جس سے کوئی عملی فائدہ نہیں ہے مگر یہ کہ اس شخصیت سے ایک قسم کاجذباتی لگاﺅ پیدا ہوجاتا ہے جن کے بارے یہ کہا جائے کہ یہی خراسانی اور یمانی ہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں پھر بعض قائدین اور رہبروں کے لئے ان ناموں کا دے دینا اس میں چند خرابیاں ہیں، نقصانات ہیں جیسے:
۱:۔ یہ تعین کرنا کہ عصر ظہور میں ہماری ذمہ داری اور شرعی تکلیف کیا ہے اور مجھے اب کیا کرنا ہے تو اس قسم کے بیان میں نہ تو آگے بڑھاجا سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے رہا جا سکتا ہے جب تک خراسانی اور یمانی خود اس امر کی اپنی جانب دعوت نہ دیںاور خود یہ اعلان نہ کردیں۔
۲:۔ جن کوہم خراسانی یا یمانی کا نام دیں گے ان کی زندگی کے لئے بھی خطرہ ہو گا کیونکہ منکرین اپنی پوری قوت کو اس پر جھونک دیں گی کہ ہر وہ ہستی جس نے مستضعفین کو منکرین سے نجات دلانی ہے اس کی آمد میں رکاوٹ ڈالی جائے اور جو بھی ان کے عنوان سے سامنے آئے گا تواس کا خاتمہ کردیا جائے گاخاص کر اگر بعض تجزیے سچے ہوں کہ منکریں آخری جنگ چھیڑنے کی تیاری کر رہے ہیں یا جسے وہ ہرمجدون(اس بارے ہماری دوسری کتاب کا مطالعہ کریں....مترجم)کی لڑائی قرار دے رہے ہیں، وہ اس میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیںاس لحاظ سے بعض موجودہ اسلامی قائدین کی جانب یہ اشارہ دینا کہ وہ خراسانی ہے یا یمانی ہے یا ....شعیب بن صالح ہے تو اس میں منکرین کو ان کے خلاف جنگ بھڑکانے اوران کے خلاف مخالفین کواکسانے کے اور کچھ نہیں ہوگا۔
۳:۔ بعض شخصیات کو اس قسم کے القاب دینے سے موجودہ زمانہ میں بعض دوسری شخصیات کے تحفظات ہوں گے اگرچہ وہ منکرین سے نہ بھی ہوں، نسلی ، مذہبی، قومی، خاندانی قبائلی جیسے عناصر درمیان آجائیں گے خاص کر یہ ایک ایسا امر ہے جس کا عملی فائدہ کچھ بھی نہیں ہے بلکہ جس وحدت اور یکجہتی اور یکسوئی کی ضرورت ہے اس کو اس قسم کے بیانات سے دھچکا ضرور لگے گا۔
اس طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام جو کہ بشریت کےلئے نجات دہندہ ہیں، ان کے حوالے سے سوچ اور نظریہ کو نقصان ہوگا ہم اس بارے بعد میں کچھ بیان کریں گے۔
۴:۔ پھر بعض شخصیات کو معین کر دینا کہ وہ ہی امام مہدی علیہ السلام کے خواص ہیں اور ان کے نائبین ہیں خود ان شخصیات کے لئے نقصان دہ ہے ان کے وجود کی نفی کرنا ہو گی اور اگر یہ بات خدا نہ کرے سچ نہ ہوئی جیسا کہ سابقہ ادوار میں ہوتا رہا ہے کہ جب کچھ لوگ کسی خاص شخصیت سے محبت کر رہے تھے کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کے خواص ہیں یا جو لوگ امام خمینیؒ کے حوالے سے یہ عقیدہ بنا بیٹھے تھے کہ آپ ہی پرچم اسلام کو امام مہدی علیہ السلام کے سپرد کریں گے پھر ایسا نہ ہوا جس پرآپ کی وفات کے بعد کچھ نے ان خیالات پر حاشیہ چڑھایا، کچھ کا ایمان کمزور ہوا اور کچھ نے اس نظریہ کا مذاق اڑایا۔
اسی طرح آج اگر ایک اور شخصیت کے واسطے اسی قسم کی بات مشہور کر دی جائے کہ وہ اس پرچم کو امام زمانہ علیہ السلام کے سپرد کریں گے تو پہلی بات جو ہے کہ اس سے بعض لوگ ذاتی مفاد اٹھائیں گے اور بعض شک کریں گے دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کی شخصیت کا انکار کر دیا جائے گا ، اگر یہ نام اور عنوان سچ نہ ہوا اس طرح سے نظریہ مہدویت کے لئے یہ اقدام نقصان دہ ہوگا۔
۵:۔ سابقہ بات میں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے بعض شخصیات جو امام مہدی علیہ السلام کی منتظر تھیں اور ان کے بارے خیال تھا کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کی آمد تک زندہ رہیں گے جب یہ خیال جھوٹا ہو گیا، غلط ثابت ہوا، تو پھر اس سے مہدویت کا نظریہ بھی مشکوک ہو جائے گا اوراس سے بعض مفاد پرست اپنے مذموم ارادے پورے کریں گے اور اس بات کو اپنے باطل نظریات کی تقویت کاذریعہ بنائیں گے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مومن انسان پر لازم ہے کہ وہ اس بات پر پوری توجہ دے کہ اس کی شرعی تکلیف کیا ہے، جذباتی کیفیات، اندرونی احساسات اور بعض شخصیات سے انس اور محبت ،ان کے مقام و مرتبہ اور ان کی اسلامی خدمات کے حوالے سے جذبات کے اظہار جیسے امور کو ایک طرف رکھ دیا جائے اپنی جانب سے اس قسم کے خیالات کا اظہار نہ کیا جائے کہ فلاں امام مہدی علیہ السلام کے خاص ہیں اور فلاں خراسانی ہیں یا یمانی ہیں تاکہ وہ وقت آجائے جس کا انتظار ہے۔
خاص کر ان آخری ایام میں(یہ کتاب ۸۲۴۱ہجری میں لکھی گئی اور حزب اللہ کی اسرائیل پر فتح حاصل کرنے کے بعد تحریر کی گئی ہے، اس کامیابی کے بعد بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے جس کی طرف مصنف کا اشارہ ہے....مترجم)
جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور فرسودہ خیالات کو عام کیا جا رہا ہے ، خواب سنائے جا رہے ہیں، امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں، امام العصر علیہ السلام کے اصحاب کے بارے میں، امام العصر علیہ السلام کے لشکر کی قیادت کرنے والوں کے بارے میں یا جو یہ کہا جا رہا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کو چاند میں دیکھا گیا ہے یا ان کے نائبین کو دیکھا گیا ہے یا بعض تحریریں جو چھپ چکی ہیں جو واقعات کی بنیاد بتاتی جا رہی ہیں یا ان جیسے واقعات کی تائید کر رہی ہیں یہ یسا امر ہے جس سے عوام سے بہت سارے لوگ متاثر ہورہے ہیںاورمزیدانہیں ایسے حالات میں پہنچایاجارہاہے یا وہ اپنے اوپر کچھ ایسے حالات کو ٹھونس رہے ہیں کہ جن کی کوئی ضرورت نہ ہے۔
علاوہ ازیں اس قسم کے امور خود امام مہدی علیہ السلام کے مسئلہ کو مشکوک بنا رہے ہیں اور لوگوں کو امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے تیاری سے بھی روک رہے ہیں اس مبارک حکومت کے واسطے جو ضروری کام کرنے ہیں وہ اس طرح ادھورے رہ جائیں گے اور یہ بہت ہی نقصان دہ ہے، ہم اس جگہ ان فرائض اور ذمہ داریوں کو بیان کریں گے جو ہماری دانست میں ہے کہ ایک فرد کی کیا ذمہ داری ہے؟ ایک معاشرہ کی کیا ذمہ داری ہے اور ایک حکومت کی کیا ذمہ داری ہے، یہ ذمہ داریاں دو طرح کی ہیں۔
۱:۔ وہ ذمہ داریاں ہیں جو آپ علیہ السلام کی غیبت کے دورانیے سے متعلق ہیں اور آپ علیہ السلام کے ظہور سے پہلے کی ہے۔
۲:۔ آپ علیہ السلام کے ظہور کے وقت ، آپ علیہ السلام کے قیام کے وقت جو ذمہ داریاں عائد ہوں گی یا اس کے بعد جو ذمہ داریاں آئیں گی۔
دوسرا مرحلہ ایسا نہیں کہ اس میں امام زمانہ علیہ السلام پر کوئی ذمہ داری لازم کی جا رہی ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کے قیام کے ساتھ ہی ساری ذمہ داریاں، فرائض اور واجبات ختم ہو جائیں، وہی فرض اور واجب ہو گا جس کا آپ علیہ السلام حکم دیں گے لیکن ان امور کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
روایات میںجو آیا ہے کہ جب حضرت کا ظہور مبارک ہو جائے تو اس وقت ہمیں کیا کرنا ہے اور ظہور کے بعد کیا کرنا ہے ان روایات میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت مومنین اپنے امام علیہ السلام کا دیدار کریں گے اور آپ علیہ السلام کی آواز کو سنیں گے تو اس وقت عوام کو کیاکرنا چاہئے؟ یہ سب روایات میں بیان ہوا ہے، اسے ہم یہاں پر ذکر کریں گے۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں
دعائے ندبہ میں یہ جملہ موجود ہے اے اللہ! ہماری مدد فرما کہ ہم ان کے حقوق جو ہمارے اوپر ہیں ان کوہم وہ پورا کریں اور ان کی اطاعت کرنے کے لئے پوری کوشش کریں اور ان کی نافرمانی سے دوری اختیارکریں۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے کچھ حقوق ہیں کچھ ذمہ داریاں ہیں،فرائض ہیں کچھ آپ کی ذات کے حوالے سے اور کچھ آپ علیہ السلام کی حکومت کے حوالے سے، ان سب کو ادا کرنا ہمارے اوپرواجب ہے ہم ان میں سے کچھ کا تذکرہ ترتیب وار کررہے ہیں۔
پہلی ذمہ داری: حضرت امام مہدی علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا
یہ سب سے پہلی ذمہ داری ہے اور اہم واجبات سے ہے۔باقی تمام ذمہ داریاں اسی پہلی ذمہ داری پر مرتب ہوتی ہیں۔
جناب عثمان بن سعید العمری سے روایت ہے وہ کہتا ہے کہ:حضرت ابومحمد الحسن العسکری علیہ السلام سے سوال کیا گیا اور میں اس وقت آپ علیہ السلام کے پاس موجود تھا، سوال میںاس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ علیہ السلام کے آباءعلیہم السلام سے یہ حدیث بیان ہوئی ہے کہ:”اللہ کی زمین اللہ کی حجت(نمائندگی) سے خالی نہ ہوگی وہ حجت اللہ کی مخلوق پر ہوں گے اور یہ قیامت تک سلسلہ جاری رہے گااور اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے زمانہ کے امام کی معرفت اسے نہ ہو تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مر گیا“
خحضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:
”یہ بات اسی طرح برحق اور صحیح ہے جس طرح اس روشن دن کاوجود“
سوال کیا گیایابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ علیہ السلام کے بعد حجت اور امام کون ہیں؟
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام: میرے بیٹے محمد علیہ السلام ہیں، وہ امام ہیں، وہ ہی میرے بعد حجت ہیں، جو اس امر اور اپنے اس امام کی معرفت کے بغیر مرا تو وہ شخص جاہلیت اور کفر کی موت مر گیا، البتہ ان کے لئے ایک ایسی غیبت ہے کہ جس میں جاہل لوگ حیران ہوں گے اور باطل پر چلنے والے لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور ان کی آمد کا وقت معین کرنے والے جھوٹے ہوں گے پھر وہ خروج فرمائیں گے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے سر پر سفید رنگ کے پرچم لہرا رہے ہیں اور وہ کوفہ کے اوپر نجف میں موجودہےں“۔
(کمال الدین ج۲ص۹۰۴،باب ۸۳، ذیل ۹۔ الوسائل ج۱۱ص۱۹۴باب ۳۳حدیث ۳۲)
خحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث مروی ہے آپ نے فرمایا:
”جس نے میری اولاد سے قائم کے وجود کا انکار کر دیا تو اس نے خود میرے وجود کا انکار کیا“۔(کمال الدین ج۴ص۲۱۴باب ۹۳ حدیث ۸۲)
خحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے آباءعلیہم السلام سے نقل فرمایاہے:
”جو شخص رات کو اس حالت میں سو گیا کہ اسے اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہ تھی تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرا“۔(غیبت نعمانی ص۲۶، باب من بات لیلة)
خحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے آباءعلیہ السلام سے اور انہوں نے رسول اللہ سے بیان کیا:
”جس شخص نے میری اولاد سے قائم علیہ السلام کا انکار ان کی غیبت کے زمانہ میں کر دیا تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرا“(الکافی ج۲ص۲۱۲ باب ۹۳،حدیث ۲۱)
حضرت ابوعبداللہ صادق علیہ السلام سے حدیث صحیح میں آیاہے
راوی: میں نے پوچھا کہ رسول اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہ رکھتا تو وہ کفر کی موت مرا۔ کیا یہ حدیث ہے؟۔
امام علیہ السلام: جی ہاں! ایسے ہی ہے۔
راوی: جاہلوں والی جاہلیت یا ایسی جاہلیت کہ جس میں وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہیں رکھتا ہو۔
امام علیہ السلام: کفر و نفاق اورگمراہی کی جاہلیت(الکافی ج۱ص۷۷۳، باب من مات خبر۳)
(از مترجم....ان احادیث سے واضح ہو گیا ہے کہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کی جائے اور اس معرفت سے مراد آپ علیہ السلام کا نسب اور فضائل سے آگہی مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ جانتا ہو اور مانتا ہو کہ اس کے زمانہ کا امام علیہ السلام کون ہے؟ اوروہ کس کی رعیت ہے اور اس نے کس کی اطاعت کرنی ہے؟مزید تفصیل کے لئے مترجم کی کتاب”معرفت امام زمانہ علیہ السلام اور ہماری ذمہ داریاں“دیکھیں)
دوسری ذمہ داری: فقہاءاور مجتہدین سے مربوط رہنا
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت سے مربوط اور اس معرفت کا عملی نتیجہ یہ دوسری ذمہ داری ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے پتہ ہو کہ اس کے زمانہ کے جو امام علیہ السلام ہیں جن کی اطاعت اس پر فرض ہے جن کی رضایت اسے اپنے سارے اعمال میں حاصل کرنا ہے، کیونکہ سارے عبادتی اعمال کی قبولیت ان کے ذریعہ ہونی ہے اور جب تک اس کی طرف سے اعمال پر مہر رضایت ثبت نہ ہوگی کوئی عمل بھی قبول نہ ہوگا تواس کے لئے ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو کہ میرے زمانہ کے امام علیہ السلام کے اوامر کیا ہیں؟ نواہی کیا ہے؟ میرا امام مجھ سے کیا چاہتاہے؟اور کیا نہیں چاہتا؟ اور منہج اہل البیت علیہم السلام سے تمسک یہی ہے اہل بیت علیہم السلام کے منہج اور طریقہ کو سوائے ان کے اور کوئی نہیں جانتا جو سب سے زیادہ اپنے زمانہ کے امام کے قریب ہوں اور وہ ہردور اور ہر زمانہ میں علماءاور فقہاءہیں جو خود کو گناہوں کی آلودگیوں سے بچا کر رکھتے ہیں، ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کو بیان کرتے ہیں جو اس میں مخلوق میں ایسے علماءاور فقہاءکے سواکون اور ہوسکتا ہے جو ان ذوات مقدسہ کے سب سے زیادہ قریب ہو؟ اسی بات کو امام زمانہ(عج) نے اپنی تحریر میں اس طرح بیان فرمایاہے۔
خبہرحال جو بھی نئے واقعات اور حالات پیش آئیں اور اس حوالے سے مسائل پیدا ہوں تو ان کے لئے حل معلوم کرنے کے واسطے ہماری حدیث بیان کرنے والوں کی طرف تم سب رجوع کرو کیونکہ وہ میری جانب سے تمہارے اوپرحجت ہیں تمہارے اوپر ان کی اطاعت فرض ہے اور میں خود ان پر حجت ہوں وہ میری اطاعت میں ہیں اور میں ان پراللہ کی حجت ہوں۔(کمال الدین ج۲ص۴۸۴)
خحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”علماءانبیاءعلیہ السلام کے خلفاءہیں“۔(مجمع الزوائد ج۱ص۶۲۱، العفاوین الفقھیہ ج۲ص۶۶۵)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”اللھم ارحم خلفائی“ اے اللہ میرے خلفاءپر رحمت نازل فرما“۔
راوی: یا رسول اللہ آپ کے خلفاءکون ہیں؟
حضرت رسول اللہ:میرے خلفاءوہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے وہ میری حدیث اور میری سنت کو روایت کریں گے اور بیان میں ہے وہ ہیں جو میری سنت کو زندہ کریں گے اور میری سنت کو اللہ کے بندگان کے لئے تعلیم دیں گے۔(عیون اخبارالرضا ج۲ص۷۳، من لایحضرہ الفقیہ ج۴ص۲۰۳، امالی الصدوق ص۷۴۲حدیث ۶۶۲، معانی الاخبارص۵۷۳،کنزالعمال ج۱ص۱۳۲،حدیث ۷۶۱۹۲، المہود المجدیہ ص۷۲)
حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
”تمام معاملات کے انجام پانے کے مراکز اور احکام کو جاری کرنے کے ذرائع علماءباللہ ہیں، علماءہی نے یہ سب کچھ انجام دینا ہے، علماءہی تو ہیں جو اللہ کے حلال اور حرام پر امین ہیں اور تم ایسے لوگ ہو جنہوں نے علماءکے اس مرتبہ کو چھین لیا ہے جو کام علماءکا تھا وہ کام ان لوگوں سے تم نے لے لیا ہے اور تم عوام علماءسے محروم ہو گئے ہو، اس میں خود تمہارا قصور ہے کہ تم اپنے تفرقہ کی وجہ سے اس سے محروم ہو گئے ہو، حق کو تم نے چھوڑا ہے ،تم نے حق سے انحراف کیا ہے جس کے نتیجہ میں تمہاری باگ ڈور اور تمہاری زندگی کے معاملات غیر علماءنے سنبھال لئے ہیں۔
(تحف العقول ص۸۲۲، مستدرک الوسائل ج۷۱ص۶۱۳، حدیث۴۵۴۱۲، البحار ج۷۹ص۰۸)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”بہرحال ایسے فقہاءکہ جنہوں نے اپنے نفس کو بچا رکھا اپنے دین کی حفاظت کر رکھی ہو، اپنی خواہشات کے مخالف ہوں، اپنے مولا کے فرمان کی اطاعت کرنے والے ہوں تو عوام پر قرض ہے کہ وہ ایسے فقہاءکی تقلید کریں ان کی پیروی کریں“
(الاحتجاج ج۲ص۳۶۲،وسائل الشیعہ ج۸۱ص۵۹حدیث ۸۳۳۳،البحارج۲ص۸۸)
یہ فریضہ عوام کے لئے غیبت کے زمانہ سے مخصوص ہے جو بڑا ہی واضح ہے۔
(ازمترجم....ایک قانون ہے جس پر پوری انسانیت کے تمام کاروبار زندگی کا دارومدار ہے اور وہ قانون یہ ہے کہ جاہل عالم سے رجوع کرے یہ فطرت ہے، کبھی جاہل جاہل سے جا کر اپنا پرابلم حل نہیں کرائے گا، ایک ان پڑھ دیہاتی بھی جب کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے جب اسے کسی قسم کا مسئلہ اپنی کھیتی باڑی بارے، اپنے بچوں کی بیماری بارے، اپنے حیوانات کی بیماری بارے، اپنی زراعت کی بیماری بارے ہو تو وہ ایسے کے پاس جاتا ہے جو اس مشکل کو حل کرنے کی قابلیت رکھتا ہو، وہ ایسا کرنے کے لئے کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث کی تلاش میں نہیں نکلتا کہ وہ کہے کہ میں تو زراعت کے عالم کے پاس اپنا زرعی مسئلہ حل کرانے نہیں جاتا مجھے کوئی حدیث لا کر دکھاﺅ کوئی قرآن کی آیت دکھاﺅ جب وہ مریض ہوتا ہے تو اپنے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے کسی حدیث کا سہارا نہیں لیتا، اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے کسی ان پڑھ سے مشورہ لینے کی بجائے اپنے علاقہ کے پڑھے لکھے آدمی کے پاس جانے کے لئے کبھی اس نے کسی قرآن کی آیت یاحدیث کا سہارا نہیں ڈھونڈا، کیونکہ فطرت الٰہی ہے کہ جاہل نے عالم سے رجوع کرنا ہے، اس قانون پر رہتے ہوئے ہر مسلمان کو، ہر صاحب ایمان کو، دین اسلام کے احکام جاننے کے لئے ان سے رجوع کرنا ہوتا ہے جو دین کے بارے آگاہ ہیں اور ان ہی کو علماءدین اور فقہاءکا نام دیا جاتا ہے اور جاہل کے عالم کے پاس جا کراپنی مشکل حل کرانے کا نام تقلید ہے۔
مقام افسوس ہے کہ ہمارے پاکستان میں عوام کو اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام سے دور کرنے کے لئے یہ فکر عام کر دی گئی ہے کہ ہمارے ہاں تقلید نہیں ہے، تقلید کے لئے قرآن کی آیت یاحدیث لاﺅ اورسادہ عوام ان اجتہاد کے مخالفوں اور باطل خیالات میں پھنس کر خودکو اپنے زمانہ کے قفہاءو مجتہدین اورمراجع تقلید سے دور کر لیتے ہیں جو اس دور میں اسے اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام سے مربوط کرنے کا تنہا ذریعہ اور وسیلہ ہیں ، علماءرسول اللہ کے خلفاءہیں، علماءدین پر امین ہیں، علماءآل محمد کے یتیموں(شیعوں) کو بھٹکنے سے بچانے والے ہیں، علماءاہل بیت علیہ السلام کی منہاج اور طریقہ کے نگہبان ہیں،ان سے جا کر اہل بیت علیہ السلام کے احکام وصول کرنا اور امام زمانہ علیہ السلام کے اوامر و نواہی کو ان سے جا کر معلوم کرنا ہے، یہ غیبت کے زمانہ کا اہم فریضہ ہے اور اس بارے فقہاءاور علماءسے رجوع کرنا اور ان کی تقلید کے بارے احادیث بھی نقل کر دی گئی ہیں جو ایک فطری حکم کی تاکید مزید کرنے کاسبب ہیں۔
لہٰذا مومنین کرام کو ٹھگ بازوں سے بچنا چاہیئے، دین کے سوداگروں کے چنگل میں نہیں پھنسنا چاہئے، امریکیوں کو یہ پتہ چل گیا ہے اور اس کی سی آئی اے کا سربراہ اپنی خودنوشت میں لکھتا ہے کہ شیعوں پر اگر غلبہ حاصل کرنا ہے تو انہیں فقہاءو مجتہدین کی تقلید سے برگشتہ کرنا ہو گا کیونکہ علماءاور فقہاءکی تقلید کا نظریہ انہیں ایک زندہ اور موجود امام علیہ السلام سے مربوط کردیتا ہے جس کی اطاعت وہ اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں....بہرحال جو بھی فقہاءسے تمسک اور ان سے مربوط رہنے اور ان کی تقلید کی مخالفت کرتا ہے وہ امام زمانہ(عج)کا مخالف ہے وہ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پرامریکی لابی سے ہے، یہودیوں کا ایجنٹ ہے اسے ان سے ہوشیار رہنے کی ضروت ہے....ازمترجم)
تیسری ذمہ داری:آپ علیہ السلام کے نام مبارک کے حوالے سے ذمہ داری
یہ بات آپ علیہ السلام کے زمانہ غیبت کے متعلق ہے لیکن جب آپ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو پھر اس بارے جو آپ علیہ السلام کے ارشادات ہوں گے اس پر عمل کیا جائے گا” کنزالخواطر“ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام سے یہ سوال کیا گیا کہ جب آپ کا نام ”قائم“لیا جاتا ہے تو اس وقت احترام کے لئے کھڑا ہو جانا چاہئے، ایسا کس لئے ہے؟
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: کیونکہ آپ علیہ السلام کے لئے ایک بہت لمبی غیبت ہے، آپعلیہ السلام اس قدر اپنے چاہنے والوں اور محبت کرنے والوں پر مہربان ہیں کہ جب بھی آپ علیہ السلام کے چاہنے والوں سے کوئی آپ علیہ السلام کا یہ نام لیتا ہے جس میں آپ علیہ السلام کی حکومت کا اشارہ ہے، آپ علیہ السلام کی غربت کوبیان کرتا ہے، آپ علیہ السلام کی تنہائی کا ذکر کرتاہے، آپ علیہ السلام کی تعظیم کے لئے ایک عبد، غلام اپنے آقا کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ جب ایک غلام اپنے آقا کو سامنے دیکھتا ہے تو فوراً اس کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے اسی طرح جب لفظ ”قائم“زبان پر جاری ہو تو احترام میں اپنے امام کی تعظیم بجالاتے ہوئے کھڑا ہو جائے اور اللہ عزوجل سے یہ طلب کرے کہ وہ اس کے مولا علیہ السلام کے قیام کے وقت میں جلدی انتظام کر دے، وہ اسباب جلد پورے ہو جائیں جن کے پورے ہونے سے مولعلیہ السلام آجائیں گے“۔
خحضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے:آپ علیہ السلام خراسان میں ایک مجلس میں تشریف فرما تھے جب آپ علیہ السلام کے سامنے لفظ ”قائم “بولا گیا تو آپ علیہ السلام نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھ دیا اور فوراً کھڑے ہو گئے اور فرمایا”اللھم عجل فرجہ وسھل مخرجہ“اے اللہ! ان کے لئے جلد کشادگی فرما دے، ان کے خروج کو آسان کر دے، ان کی حکومت کا زمانہ جلد لے آ اورپھر آ پ نے ان کی حکومت کی خصوصیات کو آپ علیہ السلام نے بیان فرمایا۔(الزام الناصب ج۱ص۹۴۲)
محدث نوری نے اپنی کتاب ”نجم ثاقب “میں اس بارے جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے، مصنف نے عربی میں ترجمہ کیا ہے اور ہم عربی سے اردو میں دے رہے ہیں:امام زمانہ(عج)کو یاد کرنے کے وقت بالخصوص جب لفظ ”قائم“زبان پر آجائے، اس حالت میں قیام کرنا اور تعظیم کے لئے اٹھ کھڑا ہونا عرب،عجم، فارس، ہند، ترک،دیلم غرض دنیا کے ہرکونے میں بسنے والے شیعوں میں عام ہے اور ان کی سیرت کا حصہ ہے بلکہ اہل السنة والجماعة کے ہاں بھی یہ عمل رائج ہے۔
(النجم الثاقب ص۵۰۶باب۹فارسی نسخہ)(اعانة الطالبین ج۳ص۴۱۳،السیرة الجلبیہ ج۱ص۷۳۱)
جلیل القدر عالم جناب عبداللہ علامہ الجزائری مرحوم کے نواسے ہیں انہوں نے اس روش کو حضرت امام جعفر صادق علیہ اسللام سے روایت کیا ہے اور یہ کہ اہل سنت کے ہاں بھی ایسا رواج ہے۔
روایت نقل ہوئی ہے کہ”امام انسکی کے پاس ان کے زمانہ کے علماءکی ایک بڑی تعداد موجود تھی کسی نے ان اشعار کو پڑھا
قلیل لمدح المصطفی الخط الذہب....علی ورق من خط احسن من کتب
وان لفعن الاشراف عندسماعہ....قیاما صقوقا اوجثیا علی الرکب
سارے یہ سن کر تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔(النجم الثاقب ص۶۰۶)
(از مترجم....امام زمانہ (عج) سے عشق اور محبت کا اظہار اس میں ہے کہ جب بھی ان کا نام لیا جائے تو بڑے احترام سے لیا جائے، ان کے نام کے ساتھ جہاں ”علیہ السلام،علیہ الصلوة والسلام“بولا جائے وہاں پر دعائیہ جملے”اللھم عجل فرجہ وسھل مخرجہ“ کہے جائیں اور احترام کے لئے کھڑا ہوا جائے یا کم از کم نام سنتے ہی ایسی حالت میں آ جائے کہ محسوس ہو کہ اس نے اپنے امام علیہ السلام کا احترام بجالایاہے)
آپ علیہ السلام کو قائم کیوں کہا جاتاہے؟
علل الشرائع میں ہے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا گیا:
یابن رسول اللہ!کیا آپ علیہ السلام سب قائمین بالحق ، حق کی خاطر قیام کرنے والے نہیں ہیں؟
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: جی ہاں!
راوی: تو پھر (امام مہدی علیہ السلام)کو فقط قائم کیوں کہا گیا ہے ، یہ نام ان سے کیوں مخصوص ہے؟
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: جس وقت میرے جدحضرت امام حسین علیہ السلام قتل ہو گئے تو اللہ کے حضور فرشتے چیخے چلائے، بہت روئے اور عرض کی اے ہمارے اللہ!اے ہمارے سردار!کیا تیری ذات اس سے غافل تونہیںہے کہ تیرے منتخب بندوں، تیرے منتخب بندوں کے فرزندوں اور تیری مخلوق میں جو بہترین ہیں انہیں قتل کر دیا گیاہے؟فرشتوں نے تعجب اور حیرانگی کے عالم میں روتے ہوئے، چیختے چلاتے ہوئے غمناک حالت میں یہ عرض داشت پیش کی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو وحی فرمائی جس میں یہ ارشاد فرمایا:
”میرے فرشتو!آرام کرو، مجھے میری عزت کی قسم ہے، مجھے اپنے جلال کی قسم ہے، میں ان سب(قاتلوں) سے ضرور بالضرورانتقام لوں گا، اگرچہ یہ انتقام کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ہی کیوں نہ ہو،پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے اولاد سے آئمہ علیہ السلام کا فرشتو کو مشاہدہ کرایا پس فرشتے یہ دیکھ کر خوش ہو گئے کہ ان میں ایک قائم تھے جو نماز پڑھ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس قائم کے ذریعہ ان سب سے انتقام لوں گا۔(علل الشرائع ص۰۶۱، باب العلمہ علی امیرالمومنین علیہ السلام باب ۸۴۱حدیث ۱)
چوتھی ذمہ داری: امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت اور مدد کرنا
یہ مدد اس وقت پہنچانا ہو گی جس وقت آپ علیہ السلام قیام فرمائیں گے اور آپ علیہ السلام کے ظہور کا اعلان ہو جائے گا اس وقت ہر ایک پرواجب ہو گا کہ وہ امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہے جہاں ہو، جس حال میں ہو، جو وقت ہو ۔
روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آسمان سے نداءدیں گے اور سب لوگوں کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مدد کرنے کی دعوت دیں گے اور یہ کہ سب لوگ آپعلیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوجائیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ آپ علیہ السلام کی نصرت اور مدد کرنے کاآغاز اس وقت ہو گا جس وقت آسمان سے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی نداءکو سنا جائے گا۔ جیسا کہ روایات میں بیان ہوا ہے، آپ علیہ السلام کے جو موالی اور چاہنے والے ہیں ان سب پر آپ علیہ السلام کی نصرت کرنا شرعی طور پر واجب ہے اورآپ علیہ السلام کی عالمی اصلاحی تحریک میں جو حضرات قیادتی کردار ادا کریں ان پر یہ واجب تاکیدی ہے اور وہی آپ علیہ السلام کے خاص اصحاب ہوں گے۔
غیبت نعمانی ص۴۳۱، علائم الظہور کے باب میں ہے کہ حضرت امام ابوجعفر محمدباقرعلیہ السلام سے روایت ہے:
خ”یہ خاص نداءماہ رمضان میں آئے گی، اس کے علاوہ کوئی دوسرا مہینہ نہ ہوگا رمضان جو کہ ”شہراللّٰہ “(اللہ کا مہینہ)ہے یہ آواز جبرئیل علیہ السلام کی ہوگی اور یہ نداءمخلوق خدا کے لئے ہو گی گویا یہ ایک قسم کا اعلان ہوگا“
خپھر فرمایا:”آسمان سے آواز دینے والا قائم علیہ السلام کا نام لے کر اعلان کرے گا جسے اہل مشرق، اہل مغرب سب سنیں گے، کوئی سویا ہوا نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس آواز سے اٹھ جائے گا،کھڑا ہوا شخص یکدم بیٹھ جائے گا ،بیٹھا ہوا شخص خوف کے مارے کھڑا ہو جائے گا، پس اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے جو اس آواز کو معتبر قرار دے کر اس پر مثبت جواب دے، کیونکہ یہ آواز جبرئیل علیہ السلام امین کی آواز ہو گی“
خ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:”یہ آواز۳۲رمضان المبارک کو ہوگی اور وہ شب، شب جمعہ ہوگی اس آواز میں شک نہ کرنا، اس کی پیروی کرنا اس آواز پر لبیک کہنا، اس کو تسلیم کر لینا کیونکہ جس رات کے پچھلے حصہ میں جبرئیل امین علیہ السلام آواز دے گا اور حضرت قائم علیہ السلام کا نام بھی لے گا اور مخلوق کو ان کی اطاعت کرنے کاکہے گا تو اس سے اگلے دن ابلیس ملعون اعلان کرے گاجسے سب لوگ سنیں گے کہ فلاں شخص() مظلوم مارا گیا ہے اس کے لئے جمع ہو جاﺅ تاکہ اس کے خون کا بدلہ لیا جائے اس طرح وہ انہیں گمراہ کرے گا“۔
خجناب ابوبصیرحضرت ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں:
راوی: میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں،قائم علیہ السلام کا خروج کب ہوگا؟
حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام:اے ابامحمد!ہم اہل بیت علیہ السلام اس وقت کو متعین نہیں کرتے،آپ نے فرمایا کہ وقت مقرر کر دینے والے جھوٹے ہیں، لیکن اے ابومحمد قائم کے خروج سے پہلے پانچ کام ہوں گے ۔
۱۔ ماہ رمضان میں آسمان سے نداءآئے گی۔
۲۔ سفیانی کاخروج ہوگا۔
۳۔ خراسانی کا خروج ہوگا۔
۴۔ نفس ذکیہ کاقتل ہوگا۔
۵۔ بیداءمیں زمین دھنس جائے گی۔
راوی: میں نے پوچھا کس طرح نداءآئے گی؟
امام علیہ السلام:حضرت قائم علیہ السلام کا نام اور آپ کے باپ کے نام کےساتھ لیا جائے گا اور اسی طرح اعلان ہوگا۔
فلاں کا فلاں بیٹا قائم آل محمد علیہم السلام ہیں، ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو، اللہ کی کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں بچے گی کہ جس میں روح ہے مگر یہ کہ وہ اس آواز کو سنے گی سویا ہوا اس آواز سے جاگ جائے گا اور اپنے گھر کے صحن میں دوڑ کر آ جائے گا اور پردہ والی عورت اپنے پردے سے باہر نکل آئے گی، قائم علیہ السلامیہ آواز سن کر خروج فرمائیں گے یہ آوازجبرئیل علیہ السلام کی ہوگی۔(بحارالانوارج۲۵ص۹۱۱ص۸۴)
خزرارة:میں نے حضرت امام ابوعبداللہ جعفرالصادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا آوازکا آسمان سے آنابرحق ہے؟
امام علیہ السلام: جی ہاں! خدا کی قسم!آواز کا آنا برحق ہے ہر قوم اپنی اپنی زبان میں اس آواز کو سن کر اس کے معنی کو سمجھے گی۔
خعبداللہ بن سنان: میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام کے پاس موجود تھاکہ میںنے ہمدان کے ایک آدمی کی بات سنی کہ وہ امام کی خدمت میں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ لوگ(ہمارے مخالفین) ہمیں طعنے دیتے ہیں اور ہمارے اوپراعتراض کرتے ہیںاور ہمارا مذاق اڑاتے ہیں کہ تمہارا خیال ہے کہ آسمان سے آواز آئے گی جوصاحب الامر علیہ السلام کے نام کی آوازدے گاوہ جبرئیل علیہ السلامامام علیہ السلام تکیہ کی ٹیک لگا کر بیٹھے تھے آپ یہ سن کر غضب ناک ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے۔
امام علیہ السلام: یہ حدیث مجھ سے روایت نہ کرو میرے باپ سے روایت کرنا، اس میں تمہارے اوپر کوئی مانع نہیں ہے، میں یہ گواہی دے کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنے باپ سے یہ بات اسی طرح سے سنی کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
خدا کی قسم! یہ آسمانی نداءوالی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں واضح بیان ہوئی ہے جہاں اللہ فرماتاہے ”فَظَلَّت اَع نَاقُہُم لَھَا خَاضِعِی نَ“(سورہ الشعراءآیت ۴)
اور اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایک ایسی نشانی اتاریں کہ جس کے آنے پر ان سب کی گردنیں اس نشانی کے سامنے جھک جائیں گی ، اس دن زمین پر کوئی بھی نہیں بچے گا مگر یہ کہ اس نشانی کے آگے جھک جائے گا، ان کی گردنیں اس آواز کے سامنے ذلیل نظر آئیں گی زمین والے جب آسمان سے نداءسنیں گے تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: جو لوگ ایمان لائے ہیں تو اللہ انہیں حق بات پر ثابت رکھے گا....اور جن کے دلوں میں بیماری ہے تو وہ اس دن شک میں پڑ جائیں گے اور دلوں کی بیماری خدا کی قسم! ہماری دشمنی کا عنوان ہے اس میں وہ لوگ ہم سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور صاحبان ایمان ہمارا دامن پکڑیں گے....
پھر ابوعبداللہ علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی”وَاِن یَّرَو ا آیَةً یُّع رِضُو ا وَیَقُو لُو ا سِح ر µ مُّس تَمِرّ µ(سورہ القمر آیت ۲)
اس ذمہ داری کی ادائیگی کا وقت امام علیہ السلام کا ظہور ہے ۔
پانچویں ذمہ داری: امام علیہ السلام کی بیعت کرنا
بیعت دو قسم کی ہے۔
(۱) ایک بیعت غیبت کے زمانہ میں ہے اور وہ اس طرح ہے کہ ہر صبح آپ علیہ السلام سے تجدید بیعت کرنا ہے اور یہ عمل مستحبات سے ہے۔
(۲) بیعت کبریٰ ہے اور یہ آپ علیہ السلام کے ظہور اور خروج کے وقت ہو گی جس شخص نے امام زمانہ(عج) کی بیعت کی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کی”اِنَّ الَّذِی نَ یُبَایِعُو نَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُو نَ اللّٰہُ یَدُواللّٰہِ فَو قَ اَی دِی ہِم فَمَن نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَن کُثُ عَلیٰ نَف سِہ وَمَن اَو فیٰ بِمَا عَاہَدَ عَلَی ہُ اللّٰہَ فَسَیُئ وتِی ہِ اَج راً عَظِی ماً“(سورہ الفتح آیت ۰۱)
حضرت امام مہدی علیہ السلام سے بیعت کرنے کی شرط یہ ہے کہ اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرنا کہ امام علیہ السلام کی خاطر ہر قیمتی سے قیمتی چیز کو قربانی دے گا اور اس عزیز ترین متاع کو امام علیہ السلام کے لئے دے دے گاامام علیہ السلام کی نصرت کے لئے اپنی کسی شئی کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”اِنَّ اللّٰہَ اش تَریٰ مِنَ ال مُو مِنِی نَ اَن فُسَہُم وَ اَم وَالَھُم بِاَنَّ لَہُمُ ال جَنَّةَ“(سورہ التوبہ آیت۱۱۱)
توطین النفس:۔ اپنے آپ کو آمادہ کرنا، دل سے ارادہ اور فیصلہ کر لینا کہ اپنے امام علیہ السلام کا ساتھ دینا ہے اور عملی میدان میں جو مولا چاہے اور جس کا حکم دیں اس کے مطابق اقدام کرنا ہے۔
باقی آئمہ علیہ السلام اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت سے امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ بیعت دو حوالوں سے مختلف ہے۔
۱۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعوت کا اسلوب، طریقہ کار، آپ کے اہداف، آپ سے پہلے جو معصومین علیہم السلام گزرے ہیں ان سے مختلف ہوگا جیسا کہ بعد میں بیان ہوگاکیفیت اور انداز کا فرق ہوگا۔
۲۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی واقعیت اصلیت ہر شئی کی جس طرح ہو گی آپ اسی کے مطابق اس بارے حکم کریں گے ظاہری کیفیت اور حالت پر حکم جاری نہیں ہوگاہر فیصلہ حقیقت پر مبنی ہوگا اور ہر حکم باطن اور اصلیت کے مطابق ہوگا۔
یہ ایساامر ہوگا جسے بعض شیعہ برداشت نہ کر پائیں گے ، آپ علیہ السلام کے ظہور کے وقت ایسے مناظر دیکھنے میں آئیں گے کہ آپ علیہ السلام کے اقدامات کو دیکھ کر بعض ایسے افراد جو آپ علیہ السلام کے ساتھ ہوں گے یا آپ علیہ السلام کے شیعہ ہونے کا دم بھرتے رہے ہوں گے وہ آپ علیہ السلام کے اقدامات کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ہمیں اولاد فاطمہ علیہم السلام کی ضرورت نہیں ہے۔چہ جائکہ وہ لوگ جو آپ کے ہمراہ نہ ہوں گے یہ بہت ہی سخت مرحلہ ہوگا۔
(بحارالانوارج۲۵ص۸۳۳حدیث۱۸)
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے عجیب و غریب فیصلے
یہ اس وجہ سے ہوگا کہ جب وہ لوگ آپ علیہ السلام کی عدالت کا مشاہدہ کریں گے اور یہ کہ آپ علیہ السلام حقائق اور اصل واقعات کے مطابق فیصلے دے رہے ہیں، ظاہری صورتحال سے مختلف فیصلے آپ علیہ السلام کے ہوں گے مثال کے طور پر جب ہم سے امام علیہ السلام یہ فرمائیں گے کہ جو زمین تمہارے اختیار میں ہے ان سب کو چھوڑ دو، ہمارے گھروں کو خالی کر دو جن میں تم رہائش پذیر ہو، تمہارے جوبینکوں میں سرمایہ پڑاہے اس سے تم فارغ ہو اور نہ کہ ہم اپنی توجیہ کا اعلان کریں کیونکہ یہ ساری کمائی غلط وراثت کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی یا ہمارے اجداد سے کسی نے مال غصب کیا تھا جو ہم تک آگیا وغیرہ توسوچیے کیا ہم آمادہ ہو جائیں گے اور فوراً امام علیہ السلام کے فیصلہ کو تسلیم کر لیں گے اور دل میں کسی قسم کا فاسد خیال نہ لائیں گے۔
اگر ہمیں امام علیہ السلام یہ فرمائیں گے کہ یہ تمہاری بیوی درحقیقت تمہاری نہیں ہے تمہارا اس سے ازدواجی رشتہ حرام ہے یہ تمہاری رضاعی بہن بنتی ہے تو کیا ہم فوراً اس بیوی سے ہاتھ اٹھالیں گے اسے چھوڑ دیں گے(یا جب امام علیہ السلام یہ فرمائیں گے کہ تمہاری بیوی فلاں وجہ سے تمہارے اوپر حرام ہے فوراً اس سے الگ ہو جاﺅ تو کیا ایسا بغیر کسی چون و چرا کے کریںگے)اسی اطاعت محض کو قرآن مجید میںاللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
”فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُو مِنُو نَ حَتّٰی یُحَکِّمُو کَ فِی مَا شَجَرَبَی نَہُم ثُمَّ لَا یَجِدُو ا فِی اَن فُسِہِم حَرَجاً مِمَّا قَضَی تَ وَیُسَلِّمُو ا تَس لِی ماً“(سورہ نساءآیت ۵۶)
عبرت کے لئے ایک حکایت
یہ بات بیان کی گئی ہے کہ گذشتہ زمانوں کی بات ہے کہ بحرین کے شیعہ ظالموں کے ظلم و ستم سے اس قدر تنگ آ گئے کہ انہوں نے اپنے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی تمنا کی کہ آپعلیہ السلام تلوار لے کر آئیں اور پورے عالم کا نقشہ بدل کررکھ دیں تاکہ پورے عالم سے ظلم و ستم کی جڑیں اکھاڑ دی جائیں اورفقط ان کے شہروں میں امن و سکون نہ ہو بلکہ پورے عالم میں ایسا ہو۔ انہوں نے اپنے درمیان سے انتہائی نیک، پارسا، متقی اور عبادت گزاروں کی جماعت کا انتخاب کیا جو تقویٰ، علم، میں سب سے بہتر تھے پھر انہوں نے اپنے میں سے تین افراد کا انتخاب کیا اور انہوں نے پھر اپنے میں سے ایک کو چن لیا جسے وہ اپنے سے تقویٰ و فضل میں بہتر سمجھتے تھے۔
یہ منتخب آدمی صحرا میں چلا گیا اور اللہ کی عبادت شروع کر دی اور امام زمانہ علیہ السلام سے توسل کرنے میں مصروف ہو گیا کہ حضرت تشریف لائیں اور تلوار لے کر قیام کریں ظلم کا خاتمہ کریں، عدل و انصاف رائج کردیں جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہے، اس کے لئے اس نے شب و روز گریہ وزاری، عجزوانکساری، دعا و مناجات میں گزار دیئے۔
جب آخری رات ہوئی تو ایک شخصیت تشریف لے آئی اور انہوں نے اس منتخب آدمی سے کہا کہ میں تمہارا امام مہدی علیہ السلام ہوں جس کے تم منتظر ہو، تمہارا مطالبہ منظور کر لیا گیا ہے تم کس لئے آئے ہو اور کیا چاہتے ہو؟
منتخب آدمی: آپ کے موالی ، آپ سے عشق و محبت کرنے والے شدت سے آپ کے ظہور کی انتظار میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ قیام فرمائیں ، ظلم کے خاتمہ کے لئے اقدام کریں۔
امام مہدیعلیہ السلام: تم کل فلاں جگہ پر کچھ بکرے لے کر پہنچ جاﺅ، اس مکان کی دوسری منزل پر ان بکروں کو لا کر باندھ دو یہ کام صبح شروع کردو اور پھر لوگوں میں یہ اعلان کرو کہ امام مہدی فلاں وقت میں تشریف لائیں گے اور یہ کہ سب اس مکان کے سامنے آجائیں، امام نے اس شخص سے یہ بھی فرمایا کہ میں اس معین وقت میں چھت پرموجود ہوں گا۔
اس آدمی نے امام کے فرمان کے مطابق عمل کیا، معین شدہ وقت پر آن پہنچا، اس معین جگہ پر لوگوں کا جم غفیر موجود تھا، امام مہدی اس آدمی کے ہمراہ چھت پر موجود تھے اور بکرے بھی چھت پر موجود تھے۔
اس جگہ پر امام مہدی نے ایک شخص کا نام لیا اور اس آدمی سے کہا کہ اجتماع میں آواز دو اور اس شخص کو چھت پربلاﺅ اس نے اس ادمی کے نام کی آوازدی اور اسے چھت پر بلا لیا وہ آدمی چھت پر آ گیا اس کے چھت پر آتے ہی امام مہدی نے اس شخص سے کہا کہ فوراًایک بکرے کو پرناے(میزاب) کے سامنے ذبح کرو۔
جب لوگوں نے میزاب سے گاڑھا خون گرتے دیکھا تو لوگوں نے سمجھا کہ امام مہدی نے اس آدمی کے ذبح کرنے کا حکم دیاہے۔
اس کے بعد دوسرے آدمی کو اجتماع سے بلایا وہ بہت ہی نیک افراد سے تھا وہ اپنے کو قربانی کے لئے تیار کر کے چھت پر آگیا اس کے ذہن میں تھا کہ امام اسے میزاب کے سامنے ذبح کر دیں گے جیسے وہ چھت پر گیا تو میزاب سے پھر دوسرے بکرے کا خون بہنے لگا پھر اجتماع سے پہلے دو کی طرح تیسرے شخص کو بلایا گیا اس کے چھت پر آنے کے ساتھ پھر میزاب سے خون جاری ہو گیا پھر چوتھے کو بلایا گیا جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے چھت پر جانے سے انکار کر دیا اور انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ جو بھی چھت پر جائے گا اس کا خون بہا دیا جائے گا وہ ذبح کر دیا جائے گا۔
اس طرح انہوں نے امام کے حکم کے سامنے اپنی زندگی کو مقدم جانااور میدان سے آہستہ سے فرار شروع کر دیایہ منظر دیکھ کر امام مہدی علیہ السلام نے اس شخص کو سمجھایا کہ ظہور میں رکاوٹ یہ امر ہے جس کا تم نے مشاہدہ کیا ہے جب تک لوگوں کی حالت یہی رہے گی تو ظہورنہیںہوگا۔(تاریخ الغیبة ج۲ص۸۱۱،ص۹۱۱)
(یہ ایک حکایت ہے اس میں عبرت کے لئے بہت کچھ ہے اور ایسے واقعات آئمہ علیہ السلام کے ادوار میں ہی ملتے ہیں کہ ان میں ہارون مکی کا واقعہ مشہور ہے کہ جب حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام کے پاس خراسان کے شیعوں کا وفد آیا اور انہوں نے آپ علیہ السلام سے شیعوں کی تعداد کے بہت ہو جانے کی بات کی اور یہ درخواست کی کہ اتنے سارے شیعوں کی موجودگی میں آپ علیہ السلام قیام کیوں نہیں فرماتے؟
تو آپ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ تم ان ہی شیعوں سے ہو جو خراسان میں ہیں تو انہوں نے جواب دیا جی ہاں!تو آپ علیہ السلام نے ان میں سے ایک کو آگ کے جلتے ہوئے تنور میں کود جانے کا حکم دیاتووہ پریشان ہو گیا اور معافی مانگنے لگا کہ مجھے نہ جلائیں ، کیا مجھ سے کوئی گستاخی ہوگئی ہے؟....اتنے میں ہارون آ گیا آپ علیہ السلام نے اسے یہ حکم دیا تو وہ فوراً تنور میں کود گیا اور آگ اس کے لئے گلزار بن گئی....
امام علیہ السلام نے پوچھا اس قسم کے کتنے ہیں تو خراسانی شیعہ نے جواب دیا ایک بھی نہیں....تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ظالموں کے خلاف قیام نہ کرنے کی وجہ یہ ہے ۔ بات خالص شیعہ کی موجودگی ہے جو ابھی تک حاصل نہیں۔مترجم)
دعائے عہد اور دعائے بیعت
صبح کی نماز کے بعد روزانہ مستحب ہے کہ یہ دعا برائے تجدید بیعت امام زمانہ(عج) پڑھی جائے جو اس طرح ہے:
”اللھم بلغ مولای صاحب الزمان(عج) عن جمیع المومنین والمومنات فی مشارق الارض و مغاربھا وبرھا وبحرھا سھلھا وجبلھا ھیھم ومیتھم وعن والدی وولدی وعنی من الصلوات والتحیات زنة عرش اللہ ومداد کلماتہ ومنتہی رضاہ وعدد مآ احصاہُ کتابہُ و احاط بہ علمہ۔ اللھم انی اجدد لہُ فی ھذا الیوم وفی کل یوم عہدا وعقدا وبیعة فی رقبتی ۔ اللھم کما شرفتنی بھذا التشریف وفضلتنی بھذا الفضیلة وخصصتنی بھذہ النعمة فصل علی مولای وسیدی صاحب الزمان واجعلنی من انصارہ واشیاعہ والذآبین عنہ واجعلنی من المستشہدین بین یدیہ طائعا غیر مکرہ فی اصف الذی نعت اھلہ فی کتابک فقلت صفا کانھم بنیان مرصوص علی طاعتک وطاعة رسولک وآلہ علیہم السلام۔ اللھم ہذہ بیعة لہ فی عنقی الی یوم القیامة“
ترجمہ:۔ ”اے معبود!میرے آقا امام زمانہ علیہ السلام کو ان پر خدا کی رحمتیں ہوں تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کی طرف سے جو زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں ہیں خشکیوں اور سمندروں میں میدانوں اور پہاڑوں میں ہیں زندہ اور مردہ اور میرے والدین اور میری اولاد اور میری طرف سے بہت درود اور بہت سلام ہو ہم وزن ہو عرش الٰہی کے اور اس کے کلمات کی روشنی اور اس کی پوری رضا کی اس تعداد میں جو اس کی کتاب میں ہے اور جو اس کے علم میں ہے اے معبود میں تازہ کرتا ہوں آج کے دن میں اور ہر دن میں یہ پیمان یہ بندھن اور بیعت جو میری گردن پر ہے ۔ اے معبود!جیسے عزت دی تو نے مجھے اس عزت کے ساتھ بڑائی دی تو نے مجھے اس بڑائی کے ساتھ اور خصوصیت دی ہے اس نعمت کے ساتھ پس میرے مولا علیہ السلام میرے سردار امام زمان علیہ السلام پر رحمت کر اور مجھ کو ان کے مددگاروں ان کے ساتھیوں اور ان کا دفاع کرنے والوں میں قرار دے اور مجھے ان میں رکھ جو شہید ہوں گے ان کے روبرو فرمانبرداری سے نہ زبردستی سے اس صف میں جس صف والوں کی تو نے کتاب میں مدح کی پس فرمایا ایسی صف جیسے سیسہ پلائی دیوار ہو میرا یہ عمل تیری اطاعت تیرے رسول اور ان کی آل علیہ السلام کی اطاعت میں ہو ان سب پر سلام ہوں اے معبود! ان کی یہ بیعت روز قیامت تک میری گردن پر ہے“۔
علامہ مجلسیؒ نے اس دعا کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں نے بعض قدیمی کتابوں میں دیکھا ہے کہ اس دعا کو پڑھنے کے بعد دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر مارے۔
اس دعا کے علاوہ ایک اور دعا بھی ہے جو اس سے زیادہ لمبی ہے اور دعاﺅں کی کتابوں میں موجودہے۔(البحار ج۲۰۱،باب ۰۱۱،۱۱۱، مکیال المکارم ج۳۲۲،۲۲۲حدیث ۶۱۴)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہر نماز کے بعد امام زمانہ علیہ السلام سے بیعت کرنے کااستحباب وارد ہوا ہے البحار میں السیدالباقی کی کتاب الاختیار سے نقل کیا ہے امام صادقعلیہ السلام نے فرمایا جو شخص اس دعا کوہر واجب نماز کے بعد پڑھے گا تو وہ حضرت امام ”م،ح،م،د“
کی بیداری یا نیند کی حالت میں زیارت کرے گا۔دعا یہ ہے:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللھم بلغ مولانا صاحب الزمان“
اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے، اے اللہ ہمارے مولانا صاحب الزمان علیہ السلام کوجلد بھیج“
”اینما کان وحیثما کان من مشارق الارض و مغاربھاسھلھاو جبلھا“
جہاں پر وہ ہوں اور جس وقت میں ہو، زمین کے مشارق اور مغارب زمین کے میدانوں میں ہوں، زمین کے پہاڑوں میں ہوں۔
”عنی وعن والدی وعن ولدی واخوانی التحیة والسلام“
”اپنی طرف سے، میرے والدین کی طرف سے، میری اولاد کی طرف سے، میرے بھائیوں کی طرف سے، ان کی خدمت میں تحیت اورسلام ہو“
”عددخلق اللہ، وزنة عرش اللہ، وما احصاہ کتابہ وماحاط بہ علمہ
یہ تحیت و سلام اللہ کی مخلوق کی تعداد برابر، اللہ کے عرش کے وزن برابر اور اس کے برابر جسے اللہ کی کتاب نے شمار کررکھا ہے اور جسے اللہ کے علم نے احاطہ کر رکھاہے
اللھم انی اجددلہ فی صبیحة ھذا الیوم وماعشت
اے اللہ! بتحقیق میں صاحب الزمان علیہ السلام کے لئے آج دن کی صبح میں اور اپنی زندگی
فیہ من ایام حیاتی عہدا و عقدا و بیعة لہ فی
جو دن میں گزاروںاس میں تجدید کرتا ہوں، عہد، بیعت،معاہدہ کی
عنقی لاحول عنھا ولاازول ابدا
صاحب الزمان علیہ السلام کے لئے میری گردن میں یہ بیعت ہے کہ میں اس سے کبھی پھروں گا نہیں اور نہ کبھی اسے اپنی گردن سے الگ کروںگا یہ پکا وعدہ ہے۔
اللھم اجعلنی من انصارہ والذابین عنہ والممتثلین
اے اللہ! مجھے صاحب الزمان علیہ السلام کے انصار سے قرار دے اور ا نکا دفاع کرنے والا بنا دے
لاوامرہ ونواھیہ فی ایامہ واالمتشہد بین یدیہ
اور ان کے احکام کو پورا کرنے والا بنا، ان کے نواہی کو چھوڑنے والا بنااور ان کے ساتھ شہادت طلبی کے لئے پیش ہونے والا قرار دے۔
اللھم فان حال بینی وبینہ الموت الذی جعلتہ
اے اللہ! اگر میرے اور صاحب الزمان علیہ السلام کے درمیان موت آجائے جسے تو نے اپنے
علی عبادہ حتما مقضیا فاخر جنی من قبری موتزاراکفنی
بندگان پر حتمی فیصلہ قرار دے رکھا ہے تو اے اللہ تومجھے میری قبر سے باہر نکال لانا اس حالت میں کہ
شاھراًسیفی، مجرداقناتی، ملبیادعوة الداعی فی الحاضروالباد
کہ کفن میں لپٹا ہوا ہوﺅں، اپنی تلوار کو نیام سے نکال رکھا ہو، اپنے نیزے کو کمان میں لگا رکھا ہو، دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہہ رہا ہوﺅںآبادیوں میں یا دیہاتوں میں۔
اللھم ارنی الطلعة الرشیدہ والغرة الحمیدہ واکحل
اے اللہ! مجھے طلعہ رشیدہ اور غرہ حمیدہ(امام زمانہ علیہ السلام)کادیدار کرا دے
بصری بنظرة منی الیہ وعجل فرجہ وسھل مخرجہ
اور میری آنکھ کو ان کے دیدار کا سرمہ لگا دے اور ان کی آمد، ان کی حکومت، انکے خروج، ان کے ایام کو جلد لے آ
اللھم اشدد ازرہ وقوظہرہ، وطول عمرہ
اے اللہ! ان کے دامن کو مضبوط بنا دے، ان کی کمر کو طاقتور بنا اور انہیں لمبی عمر عطا فرما
واعمراللھم بہ بلادک واحی بہ عبادک فانک
اے اللہ!صاحب الزمان علیہ السلام کے وسیلہ سے اپنے شہروں کو آباد کر دے اور اپنے
قلت وقولہ الحق اظہرالفساد فی البرو البحر
بندگان کو خوشحال زندگی عطا فرما کیونکہ تیرا فرمان ہے اور تیرا فرمان برحق ہے
بماکسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوالعلھم یرجعون
زمین میں فساد ظاہر ہو چکا بوجہ ان اعمال کے جو لوگوں نے انجام دیئے ہیںیہ اس لئے تاکہ لوگ اس عمل کا مزہ چکھیں جس کاانہوں نے ارتکاب کیا تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں
فاظہراللھم لنادینک، وابن بنت نبیک المسمی باسم
اے اللہ! ہمارے واسطے اپنے ولی کو ظاہر فرما دے جو تیرے نبی کی بیٹی کا
رسولک حتی لایظفر بشی من الباطل
فرزند ہے اور تیرے رسول کاہمنام ہے اس طرح ظاہر ہوں کہ کسی باطل کو نہ پائیں مگر یہ کہ
الامزقہ ویحق اللہ الحق بکلماتہ ویحققہ
اس کا صفایا کر دیں اور اللہ ان کے بیان سے حق کو قائم کر دے
اللھم اکشف ھذہ الغمہ عن ھذا الامة بظہورہ انھم
اے اللہ! اس غم و اندوہ کو اس امت سے صاحب الزمان علیہ السلام کے ظہور کے ذریعہ
یرونہ بعیدا ونریہ قریبا
دور کر دے وہ لوگ(تیرے مخالفین)اس بات کو دورکی بات خیال کرتے ہیں اور ہم تو اس امر کے ہو جانے کو قریب سمجھتے ہیں
وصلی اللہ علی محمدوآلہ
اور اے اللہ محمد و آل محمد پر صلوات بھیج
ایک روایت یہ بھی موجود ہے کہ ہر جمعہ کو تجدید بیعت کی جائے(مکیال المکارم ج۲ص۵۲۲)
روزانہ صبح کی نماز کے بعد دعائے عہدپڑھنے کا حکم ہے یہ دعا معروف ہے پاکستان میں اس کا ترجمہ مولانا اسدعالم فاضل قم اور محمد جعفر الزمانؒ نے کیا اور دونوں ترجمے چھپے ہوئے ہیں یہ دعاءمفاتیح الجنان میں موجود ہے علامہ حافظ ریاض حسین نجفی اور علامہ ذیشان حیدرجوادی صاحب والا ترجمہ بھی ساتھ دیا ہے ۔
اَللّھُمَّ رَبَّ النُّورِال عَظیمِ وَرَبَّ ال کُر سِیّ الرَّفِی عِ وَرَبَّ ال بَح رِ ال مَس جُورِ وَمُن زِلَ التَّو راةِ وَال اِن جِی لِ وَالزَّبُو رِ وَرَبَّ الظِّلِّ وَل حَرُو رِ وَمُن زِلَ ال قُر آنِ ال عَظِی مِ وَرَبَّ ال مَلٓائِکَةِ ال مُقَرَّبِینَ وَال اَن بِیآئِ وَال مُر سَلِینَ۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَس ا لُکَ بِوَج ہِکَ ال کَرِی مِ وَبِنُو رِ وَج ہِکَ ال مُنِی رِ وَمُل کِکَ ال قَدِی مِ یَاحَیُّ یَا قَیُّو مُ اَس ا لُکَ بِاس مِکَ الَّذِی ا ش رَقَت بِہِ السَّمٰوَاتُ وَال اَرَضُو نَ وَبِاس مِکَ الَّذِی یَص لَحُ بِہِ ال اَوَّلُونَ وَال اٰخِرُونَ یَا حَیّاً قَب لَ کُلِّ حَیٍّ وَیَا حَیّاً بَع دَ کُلِّ حَیٍّ وَیَا حَیّاً حِی نَ لَا حَیَّ یَامُح یِیَ ال مَو تیٰ وَمُمِی تَ ال اَح یآئِ یَا حَیُّ لَآ اِلٰہَ اِلٓا ا ن تَ ۔
اَللّٰھُمَّ بَلِّغ مَو لانَا ال اِمَامَ ال ہادِیَ ال مَہ دِیَّ ال قائِمَ بِاَم رِکَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَی ہِ وَعَلٰی آبآئِہِ الطَّاہِرِی نَ عَن جَمِی عِ ال مُو مِنِی نَ وَال مُو مِنَاتِ فِی مَشَارِقِ ال اَر ضِ وَمَغَارِبِہَا سَہ لِھا وَجَبَلِھا وَبَرِّھَا وَبَح رِ ھَا وَعَنِّی وَعَن وَّالِدَیَّ مِنَ الصَّلَوَاتِ زِنَةَ عَر شِ اللّٰہِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ وَمَآ ا ح صَاہُ عِل مُہُ وَا حَاطَ بِہ کِتابُہُ۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی ا جَدِّدُ لَہُ فِی صَبِی حَةِ یَو مِی ھٰذَا وَمَا عِش تُ مِن ا یَّامِی عَہ دًا وَّعَق دًا وَّبَی عَةً لَّہُ فِی عُنُقِی لَا ا حُولُ عَن ہَا وَلآ ا زُولُ ا بَداً۔
اَللّٰھُمَّ اج عَل نِی مِن ا ن صَارِہ وَا ع وَانِہ وَالذَّآ بِی نَ عَن ہُ وال مُسَارِ عِی نَ اِلَی ہِ فِی قَضَآئِ حَوَآئِجِہ وَال مُم تَثِلِی نَ لِاَوَامِرِہ وَال مُحَامِی نَ عَن ہُ وَالسَّابِقِی نَ اِلیٰ اِرَادَتِہ وَال مُس تَش ہَدِی نَ بَی نَ یَدَی ہِ۔
اَللّٰھُمَّ اِن حَالَ بَی نِی وَبَی نَہُ ال مَو تُ الَّذِی جَعَل تَہُ عَلٰی عِبَادِکَ حَت ماً مَّق ضِیّاً فَا خ رِج نِی مِن قَب رِی مُو تَزِراً کَفَنِی شَاہِراً سَی فِی مُجرِّداً قَنَاتِی مُلَبِّیاً دَع وَةَ الدَّاعِی فِی ال حَاضِرِ وَال بَادِی ۔
اَللّٰھُمَّ ا رِنِی الطَّل عَةَ الرَّشِی دَةَ وَ ال حَمِی دَةَ وَاک حُل ناظِرِی بِنَظ رَةٍ مِّنِی اِلَی ہِ وَعَجِّل فَرَجَہُ وَسَہِّل مَخ رَجَہُ وَ ا و سِع مَن ہَجَہُ وَ اَس لُکَ بِی مَحَجَّتَہُ وَ ا ن فِذُ ا م رَہُوَاش دُد اَز رَہُ وَاع مُرِ ۔
اَللّٰھُمَّ بِہ بِلادَکَ وَا ح یِ بِہ عِبَادَکَ فَاِنَّکَ قُل تَ وَقَو لُکَ ال حَقُّ ظَہَرَ ال فَسَادُ فِی ال بَرِّ وَال بَح رِ بِمَا کَسَبَت ا ی دِی النَّاسِ فَا ظ ہِرِ۔
اللّٰھُمَّ لَنَا وَلِیَّکَ وَاب نَ بِن تِ نَبِی کَ ال مُسَمّیٰ بِاس مِ رَسُولِکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی ہِ وَّآلِہ حَتّٰی لَا یَظ فَرَ بِشَی ئٍ مِنَ ال بَاطِلِ اِلَّا مَزَّقَہُ وَیُحِقَّ ال حَقَّ وَیُحِقَقَہُ وَاج عَل ہُ۔
اَللّٰھُمَّ مَف زَعاً لِمَظ لُو مِ عِبَادِکَ وَناصِراً لِّمَن لَّا یَجِدُ لَہُ ناصِراً غَی رَکَ وَمُجَدِّداً لِّمَا عُطِّلَ مِن ا ح کَامِ کِتابِکَ وَمُشَیَّداً لِمَا وَرَدَمِن ا ع لَامِ دِی نِکَ وَسُنَنِ نَبِیِّکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی ہِ وآلِہ وَاج عَل ہُ ۔
اَللّٰھُمَّ مِمَّن حَصَّن تَہُ مِن بَا سِ ال مُع تَدِینَ۔ اَللّٰھُمَّ وَسُرَّنَبِیَّکَ مُحَمَّدًا صَلّٰی اللّٰہُ عَلَی ہِ وَآلِہ بِرُو یَتِہ وَمَن تَبِعَہُ عَلَیٰ دَع وَتِہ وَار حَمِ اس تِکَانَتَنَا بَع دَہُ۔اَللّٰہُمَّ اک شِف ھٰذِہِ ال غُمَّةَ عَن ھٰذِہِ ال اُمَّةِ بِحُضُورِہِ وَعَجِّل لَنَا ظُہُورَہُ اِنَّھُم یَرَو نَہُ بَعِیداً وَّنَرَاہُ قَرِیباً بِرَح مَتِکَ یَآا ر حَمَ الرَّاحِمِینَ پھر تین بار دائیں ران پر ہاتھ مارے اور ہر بار کہے اَل عَجَلَ ال عَجَلَ یَا مَو لایَ یَاصاحِبَ الزَّمانِ
ترجمہ:۔اے معبود!اے عظیم نور کے پروردگار اے بلند کرسی کے پروردگار اے موجیں مارتے سمندر کے پروردگار اور اے توریت اور انجیل اور زبور کے نازل کرنے والے اور اے سایہ اور دھوپ کے پروردگار! اے قرآن عظیم کے نازل کرنے والے! اے مقرب فرشتوں اور فرستادہ نبیوں اور رسولوں کے پروردگار! اے معبود بے شک میں سوال کرتا ہوں تیری ذات کریم کے واسطے سے تیری روشن ذات کے نور کے واسطے سے اور تیری قدیم بادشاہی کے واسطے سے اے زندہ اے پائندہ تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے جس سے چمک رہے ہیں سارے آسمان اور ساری زمینیں تیرے نام کے واسطے سے جس سے اولین و آخرین نے بھلائی پائی ۔ اے زندہ ہر زندہ سے پہلے اور اے زندہ ہر زندہ کے بعد اور اے زندہ جب کوئی زندہ نہ تھا اے مردوں کو زندہ کرنے والے اے زندوں کو موت دینے والے اے وہ زندہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ اے معبود! ہمارے مولا امام ہادی مہدی علیہ السلام کو جو تیرے حکم سے قائم ہیں ان پر اور ان کے پاک بزرگان پر خدا کی رحمتیں ہوں اور تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کی طرف سے جو زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں ہیں۔ میدانوں اور پہاڑوں اور خشکیوں اور سمندروں میں میری طرف سے میرے والدین کی طرف سے بہت درود پہنچا دے جو ہم وزن ہو عرش اور اس کے کلمات کی روشنائی کے اور جو چیزیں اس کے علم میں ہیں اور اس کی کتاب میں درج ہیں۔ اے معبود!میں تازہ کرتا ہوں ان کے لیے آج کے دن کی صبح کو اور جب تک زندہ ہوں باقی ہے یہ پیمان یہ بندھن اور ان کی بیعت جو میری گردن پر ہے نہ اس سے مکروں گا نہ کبھی ترک کروں گا ۔ اے معبود! مجھے ان کے مددگاروں ان کے ساتھیوں اور ان کا دفاع کرنے والوں سے قرار دے میں حاجت برآوری کے لئے ان کی طرف بڑھنے والوں ان کے احکام پر عمل کرنے والوں ان کی طرف سے دعوت دینے والوں ان کے ارادوں کو جلد پورا کرنے والوں اور ان کے سامنے شہید ہونے والوں میں قرار دے۔ اے معبود!اگر میرے اور میرے امام علیہ السلام کے درمیان موت حائل ہو جائے جو تو نے اپنے بندوں کے لیے آمادہ کر رکھی ہے تو پھر مجھے قبر سے اس طرح نکالنا کہ کفن میرا لباس ہو میری تلوار بے نیام ہو میرا نیزہ بلند ہو داعی حق کی دعوت پر لبیک کہوں۔ شہر اور گاﺅں میں اے معبود مجھے حضرت کارخ زیبا آپ کی درخشاں پیشانی دکھا ان کے دیدار کو میری آنکھوں کا سرمہ بنا ان کی کشائش میں جلدی فرما ان کے ظہور کو آسان بنا ان کا راستہ وسیع کر دے اور مجھ کو ان کی راہ پر چلا ان کا حکم جاری فرما ان کی قوت کو بڑھا اور اے معبود! ان کے ذریعے اپنے شہر آباد کر اور اپنے بندوں کو عزت کی زندگی دے کیونکہ تو نے فرمایا اور تیرا قول حق ہے کہ ظاہر ہوا فساد خشکی اور سمندر میں یہ نتیجہ ہے لوگوں کے غلط اعمال وافعال کا پس اے معبود! ظہور کر ہمارے لیے اپنے ولی علیہ السلام اور اپنے نبی کی دختر علیہ السلام کے فرزند کا جن کا نام تیرے رسول کے نام پر ہے یہاں تک کہ وہ باطل کا نام نشان مٹا ڈالیں حق کو حق کہیں اور اسے قائم کریں ۔ اے معبود!قرار دے ان کو اپنے مظلوم بندوں کے لئے جائے پناہ اوران کے مددگار جن کا تیرے سوا کوئی مددگار نہیں بنا ان کو اپنی کتاب کے ان احکام کے زندہ کرنے والا جو بھلا دیئے گئے ان کو اپنے دین کے خاص احکام اور اپنے نبی کے طریقوں کو راسخ کرنے والا بنا ان پر اور ان کی آل علیہ السلام پر خدا کی رحمت ہو اور اے معبود! انہیں ان لوگوں میں رکھ جن کوتو نے ظالموں کے حملے سے بچایا ۔ اے معبود!خوشنود کر اپنے نبی محمد مصطفی کو ان کے دیدار سے اور جنہوں نے ان کی دعوت میں ان کا ساتھ دیا اور ان کے بعد ہماری حالت زار پر رحم فرما۔ اے معبود!ان کے ظہور سے امت کی اس مشکل اور مصیبت کو دور کر دے اور ہمارے لیے جلد ان کا ظہور فرما کہ لوگ ان کو دور اور ہم انہیں نزدیک سمجھتے ہیں تیری رحمت کا واسطہ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔ جلد آئیے ، جلد آئیے اے میرے آقا اے زمانہ حاضر کے امام علیہ السلام “
کیا ظہور سے پہلے غیر امام کی بیعت جائز ہے
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے مفضل سے فرمایا اے مفضل!ہر بیعت جو قائم علیہ السلام کے ظہور سے پہلے لی جائے گی وہ کفر اور منافقت کی بیعت ہو گی دھوکہ دیہی کی بیعت ہو گی ایسی بیعت لینے والے پر لعنت ہے اور ایسی بیعت کرنے والے پر بھی لعنت ہے یعنی امام زمانہ(عج)کے ظہور سے پہلے بیعت لینے والا اور بیعت کرنے والا دونوں لعنتی ہیں۔(بحارالانوار ج۳۵ص۸)
اسی حوالے سے بعض شیعہ علماءنے یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ نبی اعظم اور آئمہ اطہارعلیہ السلام کے علاوہ دوسروں کی بیعت ٹھیک نہیں ہے۔(مکیال المکارم ج۲ص۸۲۲)
بعض شیعہ علماءکا نظریہ ہے کہ فقہاءکی بیعت کرنا مستحب ہے۔(مکیال المکارم ج۲ص۸۲۲)
میرا خیال یہ ہے اللہ ہی بہترآگاہ ہے کہ جو بات شیعہ علماءکے بیانات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ اس بیعت سے مراد ریاست مطلقہ اور ولایت مطلقہ کی بیعت ہے ظاہر ہے اس زمین پر ریاست مطلقہ اورولایت مطلقہ فقط امام زمانہ علیہ السلام حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے آج کے دور میں کسی اور کے لئے ایسانہیں تو اسی حوالے سے ایسی بیعت امام زمانہ علیہ السلام کے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔
بیعت سے مراد
نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی بیعت جس کا مفاد یہ ہو کہ جس کی بیعت کی جا رہی ہے اس کے لئے ریاست مطلقہ ہے اورولایت عامہ ہے ہر لحاظ سے حکومت اور اقتدار ان کے لئے ہے بیعت کرنے والے شخص پر بھی اور دوسروں پر بھی تو ایسی بیعت کسی غیر امام کے لئے انجام دینا کفر ہے یہ بیعت جائز نہیں ہے، البتہ ایسی بیعت کرنا جو معاہدہ کے معنی میں ہو کہ مخصوص شرائط کے تحت بیعت کرنے والا شخص بیعت لینے والے سے معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اس کی پابندی کرے گا تو ایسی بیعت کو مشروط بیعت کہا جائے یہ بیعت غیر امام کی ہو سکتی ہے، ایسی بیعت میں بیعت کرنے والے کے اختیارات سلب نہیں ہوتے اور نہ ہی امام زمانہ(عج)والے اختیارات بیعت لینے والے کے لئے قبول کئے جا رہے ہیں ایسی بیعت اگر شرعی موازین اور ضوابط کے تحت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ بات اسی طرح ہے جیسا کہ روایات میں آیا ہے”ان کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصاحبھا طاغوت یعبد من دون اللہ تعالیٰ“
ہر پرچم جو قائم کے قیام سے پہلے بلند کیا جائے گا تو اس پرچم والا شخص طاغوت ہو گا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو اپنا معبود بنائے گا“(الکافی ج۸ص۵۹۲حدیث ۲۵۳)
علماءشیعہ نے اس بارے بات کی ہے کہ اس سے ہر وہ پرچم ہے(ہروہ تحریک ہے) جس میں امام مہدی علیہ السلام کے لئے دعوت نہ دی گئی ہو، بلکہ اپنی ذات کی طرف دعوت ہو تو ایسی تحریک طاغوتی تحریک ہے اور ایسا پرچم طاغوت کا پرچم ہے، لیکن جس پرچم تلے حضرت قائم علیہ السلام کے لئے دعوت دی جا رہی ہو ان کی حکومت کے لئے مقدمات فراہم کرنے کے لئے اورحضرت قائم علیہ السلام کی پیروی کی دعوت دی جا رہی ہو اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیادت میںتو پھر ایسے پرچم کو بلند کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ایسی تحریک طاغوت کی تحریک نہ ہوگی۔
(بیعت اس معنی میں جس میں رسول اللہ کی تھی کہ ہر مسلمان اپنا سب کچھ اور سارے اختیارات رسول اللہ کے سپرد کرتا تھا جان، مال،عزت وناموس، سب کچھ رسول اللہ کے لئے یہ بیعت درحقیقت اللہ کے لئے بیعت ہے کہ اللہ کے سامنے بندے کا کوئی اختیار نہیں اسی طرح رسول اللہ کے سامنے بھی بندے کا کوئی اختیار نہیں سارے اختیارات رسول اللہ کے ہیں رسول اللہمومنین کے نفوس پر خود ان سے زیادہ اختیارات رکھتے ہیں،ان ہی اختیارات کا حوالہ رسول اللہ نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے جب بیعت لی تھی اور فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی علیہ السلام مولا ہے۔اور پھر یہی بیعت باقی آئمہ علیہ السلام کے لئے ہے اور اسی طرح یہ بیعت حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کے واسطے بھی ہے یہ بیعت کسی اور کے لئے نہیں ہے ، دوسرے کسی بھی شخص کے ساتھ شرعی حدود میں رہتے ہوئے معاہدے ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے معاہدات کو بیعت کا نام نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی بیعت اس قسم کے معاہدات کے معنی میں لے تو پھر امام زمانہ علیہ السلام کے علاوہ بیعت ہو سکے گی وگرنہ اس معنی میں کہ ریاست مطلقہ اور ولایت عامہ کے معنی میں بیعت فقط اور فقط آج کے دورمیں امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہے۔یہ بیعت اور عہد ہمیں غیبت کے زمانہ میں کرنا ہے جس کا معنی بیان ہو چکا اور جب آپ علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو اس وقت یہ بیعت اپنے پورے معنی اور مضمون سے عملی شکل میں سامنے آئے گی....ازمترجم)
یہ چوتھی ذمہ داری ہے روزانہ تجدید بیعت کرنے کا حکم ہے، گویا کہ روزانہ اپنے امام علیہ السلام سے انسان یہ عہد دہراتا ہے کہ وہ ان کی اتباع اور پیروی میں رہے گا۔
زمانہ ظہور کے لئے بھی یہی بیعت ہے اب ایسا کرنا روزانہ واجب ہوگا یا ایک دفعہ واجب ہوگا اورروزانہ ایسا عمل مستحب ہے تو اس کا معاملہ حضرت صاحب الزمان(عج) سے مربوط ہو گا کہ وہ ظہور کے بعد روزانہ بیعت چاہیں گے یا ایک ہی دفعہ کافی ہو گا بہرحال غیبت کے زمانہ میں روزانہ اس عمل کے دہرانے کااستحباب یقینی طور پر ثابت ہے۔
|