حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

دوسری فصل

امام زمانہ (عج) کے وجود مقدس کی تکوینی اور تشریعی برکات و فوائد


تمہید
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اول زمانہ میں ولادت اور آخری زمانہ میں ولادت ہونے کا فرق۔
بعض کا یہ خیال ہے کہ اس نظریہ کو اپنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت پہلے ہو چکی ہے کیونکہ پہلے زمانہ میں ولادت ہو جانا یا بعد میں آخری زمانہ میں ان کی ولادت ہونا ان دو نظریات میں عملی طورپر کوئی فرق موجود نہیں ہے کیونکہ جس بات کی اہمیت ہے وہ اس پر اجمالی ایمان لانا ہے اور یہ کہ جب وہ آخری زمانہ میں خروج کریں گے تو ان کی نصرت اور مدد کرنا ہے یہ گفتگو اس لحاظ سے کہ مسلمانوں کے درمیان وحدت سے مرتبط ہے اور نظریہ مہدویت پر اجماع مسلمین کی صورت بنتی ہے تو اس پہلو سے اس کا ایک عنوان بنتا ہے امام مہدی علیہ السلام کی نصرت کے لئے تمام کوششوں کا یکجا ہونا اور امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں مل کر دور کرنا اور آپ کی حکومت کے لئے مقدمات فراہم کرنا، مسلمانوں کی جانب سے عام لام بندی ہو تو یہ بہت ہی اہمیت والی بات ہے اس تصور کو مضبوط کیا جائے اور عام کیا جائے تاکہ سارے مسلمان تیاری کے عمل میں شریک ہو جائیں بلکہ پورے جہاں کے محروم اور کمزور طبقات کو بھی ساتھ لیا جائے۔
ہم اس بارے بعد میں بات کریں گے جس وقت ہم امام علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے سیاسی، علمی، ثقافتی، عسکری تیاری بارے گفتگو کرےںگے۔
لیکن بات یہ ہے کہ آپ کے لئے لمبی غیبت کبریٰ ہے یا آپ علیہ السلام اتنا لمبا عرصہ زندہ اور موجود ہیں اسی زمین پر موجود ہیں تو اس نظریہ اور عقیدہ کے بہت سارے فائدے اور عملی اثرات ہیں بعض کا تو آپ کی حکومت کے قیام سے متعلق مقدمات کی فراہمی سے بہت ہی گہرا تعلق ہے اور خود آپ کی جانب سے عمومی اور خصوصی تیاری اور آمادگی سے بھی اس کا تعلق ہے۔
کیونکہ تیاری جو ہے وہ یک دم اور ظہور کی گھڑی میں نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تیاری اس لمبی جدوجہد اور سالہا سال کی محنت کے نتیجہ میں ہو گی بلکہ صدیوں کی محنت کے نتیجہ میں ہو گی بلکہ صدیوں کی تیاری کا ماحصل ہوگا یہ بات فرق کرتی ہے اس صورت میں جب ہم یہ کہیں کہ امام مہدی علیہ السلام موجود ہیں جیسے حالات سازگار ہوں گے تو حکومت سنبھال لیں گے اور اس نظریہ کا اختیار کرنا ہے تاکہ ابھی انہوں نے پیدا ہونا ہے اور معلوم نہیں کب پیدا ہوں گے اور جب پیدا ہوں گے تو پھر تیاری کا عمل شروع ہو گا ان دونوں باتوں میں مثبت اور منفی حوالوں سے فرق بڑا واضح ہے جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا۔
ہم ذیل میں چند ایسے امور پر روشنی ڈالتے ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود مقدس کی برکات ہیں اور آپ کے مبارک وجود کے اثرات سے ہیں۔
اثرات اور برکات دو طرح کے ہیں۔
۱۔ تکوینی اثرات و برکات
۲۔ تشریعی اثرات و برکات

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے مقدس وجود کا غیبت کے باوجود فائدہ
الکلینی نے اسحق بن یعقوب سے روایت نقل کی ہے کہ محمد بن عثمان کے وسیلہ سے ان کے پاس ناحیہ مقدسہ سے یہ تحریر موصول ہوئی جس پہ درج تھا”باقی رہا یہ سوال کہ میری غیبت میں مجھ سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے گا؟ تو یہ اس طرح ہے جس طرح جب بادل سورج کے سامنے آجائیں اور اسے غیب کر دیں تو سورج فائدہ دے رہا ہوتا ہے اور یہ کہ میں زمین والوں کے لئے اس طرح امان ہوں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں۔(الاحتجاج ۳۶۲، کمال الدین ج۲ص۲۶۱)
امام علیہ السلام کے انوار کی سورج کی شعاﺅں سے شباہت کے پہلو مخفی ہیں ہر ایک اس تشابہ کو شاید نہ سمجھ پائے تو اس جگہ کوئی حرج نہیں کہ علامہ مجلسی نے جو آٹھ پہلو شباہت کے بیان کئے ہیں ان کو اس جگہ بیان کر دیا جائے اختصار کے پیش نظر باقی پہلوﺅں کو چھوڑ دیا ہے جو علامہ مجلسی نے بیان کئے ہیں۔(بحارالانوار ج۲۵ص۲۹)
پہلی وجہ:۔ وجود اور ہدایت کا نور امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے وسیلہ سے پہنچنا ہے کیونکہ آپ ہی بندگان اور ان کے رب رحمان کے درمیان واسطہ ہیں کیونکہ اگر آپ نہ ہوتے تو اللہ کے لطف و کرم اور فیضان رحمت کا سلسلہ بند ہوجاتا(اس بارے مزید تفصیل آگے بیان ہو گی)
دوسری وجہ:۔ آفتاب جو بادلوں کی اوٹ میں ہوتا ہے اس سے جو منفعت حاصل ہو رہی ہوتی ہے اس کے علاوہ لوگ بادلوں کے چھٹ جانے کی انتظار میں ہوتے ہیں تاکہ اس سے مزید استفادہ کر سکیں پس اسی طرح اہل البیت علیہم السلام کے شیعہ امام علیہ السلام کے خروج سے مزید استفادہ حاصل کرنے کی خاطر انتظار کر رہے ہیں(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تیسری وجہ:۔ امام علیہ السلام اور احنالہ الفداءکے وجود کا منکر تمام تر آثار اور نشانیوں کے باوجود ایسا ہے جس طرح کوئی سورج کی موجودگی کا انکار کر دے جو بادلوں کی اوٹ میں موجود ہوتاہے۔
چوتھی وجہ:۔ آفتاب کا بادلوں کی اوٹ میں چلے جانا آفتاب کے سامنے موجود ہونے سے زیادہ سود مند ہوتا ہے اگرچہ ایسا بعض اوقات کے لئے ہوتا ہے یا بعض جگہوں کے لئے اس کا بادلوں کے پیچھے چلا جانا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے اسی طرح امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت آپ کے ظہور سے بعض زمانوں میں جو گذر چکے ہیں زیادہ فائدہ مند ہے، بعض لوگوں کے حالات کے پیش نظر امام علیہ السلام کا غیبت کے پردہ میں رہنا خود ان لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے۔
پانچویں وجہ:۔ انسان بادل کے بغیر سورج کی جانب نہیں دیکھ سکتا وگرنہ سورج کی تیز شعائیں اسے اندھا کر دیں گی اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کے وجود مقدس سے براہ راست فیض یاب ہونا حق سے دور ہو جانے کا سبب بن رہا ہو تو پردہ غیبت میں رہنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ انسان غیبت کے دوران حق کی معرفت اس طرح حاصل کر لے کہ وہ امام علیہ السلام سے براہ راست استفادہ کر سکے۔
چھٹی وجہ:۔ امام علیہ السلام سورج کی مانند ہیں عام منفعت پہچان کے لحاظ سے جو اندھا ہوتا ہے وہ سورج کے وجود کی عمومی منفعت سے محروم رہتا ہے اسی طرح امام کے وجود کی برکت سے عقل کا اندھا ہی محروم رہے گا، جو عقل سلیم رکھتا ہے تو وہ اس کے وجود کے عمومی فوائد کو حاصل کر سکے گا۔
آٹھویں وجہ:۔ سورج کی شعائیں گھروں میں اتنی مقدارمیں داخل ہوتی ہیں جتنی مقدار میں اس گھر کے اندر سوراخ ہوتے ہیں، جتنی کھڑکیاں ہوتی ہیں اور جتنی رکاوٹیں دور ہوں گی اتنی مقدار میںشعائیں اندر داخل ہوتی ہیں، پس اسی طرح نور امام علیہ السلام ہے اور ارواح العالمین لہ الفدائ“ اس سے بھی لوگ اتنی مقدار میں فائدہ اٹھائیں گے جس قدر انہوں نے اپنے دلوں کو پاک و طاہر کر لیا ہو گا اور دل کے آئینہ سے گناہوں کی میل کچیل ہٹادی ہوگی۔
علامہ مجلسی کا بیان اس جگہ ختم ہوا۔
اس جگہ میں (مصنف)اپنے مہربان قاری کی آنکھوں کے سامنے کچھ اور پہلوﺅں کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں جو میری سوچ اور فکر میں آئے ہیں، اس تشابہ سے ان امور کو بھی سمجھا جا سکتاہے۔
پہلی وجہ:۔ سورج کی طرف بعض ایسے افراد دیکھ سکتے ہیں جن کی نگاہ مضبوط و قوی ہوتی ہے یا اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کچھ ایسے آلات لگا لئے ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ سورج کی طرف دیکھ سکتا ہے اسی طرح بعض افراد اپنی بصیرت کے مضبوط اور طاقتور ہونے یا بعض عبادتوں کے انجام دینے کی مدد سے امام علیہ السلام کے نور کا مشاہدہ کرسکتاہے۔
دوسری وجہ:۔ لوگ سورج سے اپنی اپنی ضروریات کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں، زرعی زمین کا مالک اپنی زمین کے لئے سورج کی انتظار میں ہوتا ہے( کوئی کپڑے خشک کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لئے انتظارمیں ہوتاہے ، ہر شخص اپنی ضرورت کو سورج سے پورا کرنے کے لئے سورج کے ظاہر ہونے اور بادل کی اوٹ سے باہر آنے کے لئے انتظار کر رہا ہوتا ہے، کچھ سن باتھ کرنے کے لئے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، کوئی اس کی شعاﺅں سے بجلی پیدا کر کے بڑا فائدہ لینے کے لئے انتظار میں ہوتا ہے....مترجم)
اسی طرح امام منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے اپنی ضروریات کے مطابق فائدہ اٹھانے کے لئے آپ علیہ السلام کے ظہور کی انتظار میں ہیں،کچھ بڑی حاجات رکھتے ہیں اور کچھ چھوٹی حاجات۔
تیسری وجہ:۔ علامہ مجلسی نے جو چھٹی وجہ بیان کی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ سورج کی منفعت عام ہے جو اندھا ہو وہ اس سے استفادہ نہیں کر سکتا اسی طرح امام غائب عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں۔
ہم اس پر مزید یہ کہتے ہیں کہ سورج کے دو قسم کے فائدے ہیں۔
۱۔ ایک فائدہ وہ ہے جس سے فقط وہ استفادہ کرتا ہے جس کی نگاہ سالم ہے کہ سورج کے نور سے اشیاءکو دیکھنے کا فائدہ اٹھاتا ہے۔
۲۔ دوسری قسم وہ ہے جس سے بینا اور نابینا دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں جیسا کہ سورج کی وجہ سے دونوں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔
اسی طرح امام علیہ السلام سے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی دو قسم کاہے، ایک خاص ہے جو ان کے لئے ہے جن کے دل کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور اپنے دل کی آنکھوں کو اس نے امام علیہ السلام کی ذات پر، امام علیہ السلام کے علوم پر اور امام علیہ السلام سے ہدایت لینے پر گاڑ رکھا ہو۔
ایک منفعت عام ہے جو سب کے لئے ہے، مومن کے لئے، کافر کے لئے، مسلمان کے لئے، منکر کے لئے، دشمن کے لئے، موالی کے لئے سب کے لئے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپعلیہ السلام اللہ اور اللہ کے بندگان کے درمیان فیضان رحمت کا واسطہ ہیں جس طرح آپ علیہ السلام مومن کے رزق کے لئے واسطہ ہیں اسی طرح کافر کے رزق کے لئے بھی واسطہ ہیں۔
چوتھی وجہ:۔ سورج جو ہے وہ ہاتھوں کی پہنچ سے منزہ اور پاک ہے کیونکہ اس کی جگہ بلند ہے اور اس کے نور کی قوت تیز ہے، اسی طرح امام علیہ السلام ”روحی لہ الفدائ“ عام ہاتھوں سے منزہ ہیں اور ہر ایک کی دسترس آپ علیہ السلام تک نہیں کیونکہ آپ علیہ السلام کی شان بلند ہے آپ کا نور قوی اور مضبوط ہے۔
پانچویں وجہ:۔ سورج غائب نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ظاہر ہوتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جاتا ہے تو اس طرح امام علیہ السلام غائب نہیں ہوتے بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
ساتویں وجہ:۔ سورج آسمان کے لئے امان ہے اور آسمانی ستاروں کے لئے امان ہے، اسی طرح امام علیہ السلام زمین اور زمین والوں کے لئے امان ہیں اگر امام علیہ السلام کا وجود زمین پر نہ ہو تو زمین اپنے اہل سمیت دھنس جائے گی اور برباد ہو جائے گی۔
آٹھویں وجہ:۔ سورج کا نور ذاتی ہے یہ دوسرے کو روشنی دیتا ہے ، اپنی نورانیت اور روشنی کو کسی اور سے نہیں لیتا جب کہ شمع کا نور اس کے برعکس ہوتا ہے امام علیہ السلام کا علم ذاتی ہے آپ نے یہ علم کسی فرشتہ یا کسی مخلوق میں سے کسی اور سے کسب نہیں کیابلکہ اللہ تعالیٰ سے لیاہے آپ علیہ السلام یہ علم دوسروں کو دیتے ہیں آپ کسی سے لیتے نہیں اور جس طرح سورج کا نور دینے سے ختم نہیں ہوتا اسی طرح امام علیہ السلام کا علم آگے دینے سے ختم نہیں ہوتا۔
نویں وجہ:۔ سورج ذاتی طور پر خود مخلوق سے غائب نہیں ہوتا بلکہ جو چیز سورج کو لوگوں سے غائب کر دیتی ہے وہ بادل ہوتے ہیں یا گاڑھے قسم کا گردوغبار ہوتا ہے جو سورج اور مخلوق کے درمیان حائل ہو جاتاہے، یا سمندر سے اٹھنے والے بخارات جو بعد میںگہرے اور بھاری بادل بن جاتے ہیں وہ بخارات حائل ہو جاتے ہیں اسی طرح امام علیہ السلام ہیں آپ خود غائب نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنے کسی کام کی وجہ سے غائب ہوتے ہیں بلکہ جو چیز آپ علیہ السلام کو بندگان سے غائب کرتی ہے وہ ان بندگان کے گناہ ہوتے ہیں جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں گناہوں کے گھنے بادل بندگان کو ان کے امام علیہ السلام سے غائب کر دیتے ہیں جیسا کہ امام علیہ السلام سے سابقہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے برے اعمال نے انہیں آپ سے پردہ میں پہنچا دیاہے۔(حاجب اور رکاوٹ مشاہدہ کے لئے بندگان کے برے اعمال ہیں)(البحار ج۳۵ص۱۲۳حدیث کا حوالہ)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے تکوینی اثرات اور فوائد

پہلا فائدہ:۔کائنات کا استقرار اور اثبات(زمین و آسمان)
روایات شریفہ سے یہ بات ثابت ہے کہ کائنات کا ثبات اور بقاءاہل بیت علیہم السلام سے مربوط ہے اگر وہ حضرات علیہ السلام نہ ہوں تو کوئی شئی باقی نہ رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوقات کو اس لئے خلق فرمایا کہ ان ذوات کو خلق فرمایا(اللہ تعالیٰ کمال مطلق ہے کمال لامتناہی ہے، وہاں سے نیچے تک فیض اور رحمت آنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت تامہ اور اپنے کمال مطلق کے اظہار کے لئے اہل بیت علیہم السلام کو خلق فرمایا اور انہیں اپنی تمام صفات کمالیہ اور جلالیہ اور جمالیہ کا مظہر بنایا اور پھر باقی مخلوقات کے مراتب اور مدارج کے مطابق انہیںخلق فرمایا جو درحقیقت ان ذوات مقدسہ کے کمالات کا پرتو اور سایہ کے مانند ہیں جب کہ خود یہ ذوات مقدسہ اللہ تعالیٰ کے کمال کا مکمل اثر ہیں۔
اسی تناظر میں اہل البیت علیہم السلام کے وجود سے ساری کائنات کے موجودات کا وجود ہے اور کائنات میں تمام زندگی کے آثار ان کی وجہ سے ہیں یہ سسٹم خداوند تبارک وتعالیٰ کا اپنا بنایا ہوا ہے اور اس کے کمال کا تقاضا ہی یہی تھا یہ اس کے جودوسخا و لطف و کرم اور رحمت اور کمال مطلق کا تقاضا تھا کہ اس نے اپنے تمام جمالات و کمالات وجلالیات کے اظہار کے لئے اہل البیت علیہم السلام کے وجودات کو خلق فرمایا۔
پس یہ نہ رہیں تو پھر کچھ نہ رہے گا، ساری مخلوقات ان کی وجہ سے خلق ہوئی ہے اس کا معنی یہی ہے اور امام علیہ السلام کا فرمان کہ ”ہم اپنے اللہ اور رب کی صفت و مصنوع و مخلوق ہیں جب کہ ہمارے بعد ساری مخلوقات ہماری پروردہ احسان ہیں، ان کی وجودی حیثیت کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ مربوط کر دیا ہے ہم ہوں گے تو وہ سب ہوں گے اگر ہم نہ ہوں گے تو پھر کوئی نہ ہوگا....ازمترجم)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث ہے، حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہیں: اے علی علیہ السلام! میں اور تم ایک درخت سے ہیں ہماری اصل ایک ہے، اگر ہمارا وجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنت اور جہنم کو خلق نہ فرمایا، نہ انبیاءعلیہ السلام کو خلق فرماتا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ فرشتوں کو خلقت وجود عطاءکرتا(بحارالانوار ج۶۲ص۹۴۳حدیث۳۲، الہدایہ الکبریٰ ص۱۰۱)
شاعر نے کیا خوب کہاہے:
لولا کم مااستدارت الاکر
ولا استشارت شمس ولاقمر
اگر آپ نہ ہوتے تو کرات کی چکی نہ گھومتی۔۔۔۔ اور نہ سورج و چاند کی روانی ہوتی
ولا تدلی عفن ولاثم
ولاتندی ورق ولاخضر
نہ ٹہنی جھومتی نہ پھل لگتا۔۔۔نہ پتے پر شبنم گرتی نہ سبزہ ہوتا
لا سری برق ولا مطر
نہ بجلی چمکتی نہ بادل برستا۔(مشارق انوار البیض ص۶۴۲،۷۴۲)
حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے حدیث میں آیاہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”ہم ہی تو وہ ہیں جن کے وسیلہ سے رحمت پہنچتی ہے ہمارے وسیلہ سے بارش سے تم سیراب ہوتے ہو اور ہم ہی وہ ہیں جن کے ذریعہ تم سے عذاب کو دور کر دیا جائے گا“۔
(بصائر الدرجات ص۳۶، باب انعم حجة اللہ وبابہ، بحارالانوار ج۶۲ ص۹۴۲، حدیث ۸۱ باب جوامع مناقبھم)
ایک اور روایت میں ہے:
”ہم زمین والوں کےلئے، آسمان والوں کے لئے امان ہیں، اگر ہم نہ ہوں تو سب کچھ تباہ ہو جاتا“۔(مشارق الانوار ص۶۵)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابر سے فرمایا:
”اے جابر!یاد رکھو جس شخص نے میرے خلفائ، میرے اوصیائ، میری اولاد اور میری عترت کی اطاعت کی تو اس نے بتحقیق خود میری اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی تو اس نے میری نافرمانی کی....اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے زمین والوں سے عذاب کوروک رکھتا ہے اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ نے آسمان کو روک رکھا ہے کہ وہ زمین پرنہ آ گرے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اذن سے گرے ،ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو روکا ہوا ہے کہ وہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل جائے۔
(الاختصاص ص۴۲۲، بحار الانوار ج۷۲ ص۰۲۱حدیث۹۹)
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے، اللہ ان کے وسیلہ سے ظلم کو دور کرتا ہے، ان کے ذریعہ رحمت کو بھیجتا ہے، ان کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور ان کے ذریعہ سے زندوں کو مارتاہے۔(التوحیدص۷۶۱تا۴۲ج۱)
آئمہ طاہرین علیہم السلام کے وصف میں آپ علیہ السلام نے مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین کے ارکان بنایا تاکہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل نہ جائے(اصول الکافی ج۱ص۷۹۱حدیث۲۰۳)
اسی طرح کی حدیث حضرت ابوجعفر امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی ہے امام ابوعبداللہ جعفر صادقعلیہ السلام سے ہے اگر زمین امام کے بغیر ہو تو زمین دھنس جائے ، برباد ہو جائے۔
(بصائرالدرجات ص۸۸۳،باب ان الارض لایبقی بلا امام، اصول الکافی ج۱ص۹۷۱، باب ان الارض لاتخلومنہ ج۱)
حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے ہے اگر امام علیہ السلام کو ایک گھڑی کے لئے زمین سے اٹھا لیا جائے تو زمین دھنس جائے، تباہ ہو جائے، اپنے اہل سمیت اور زمین اس طرح طوفانی شکل اختیار کر لے جس طرح سمندر بپھر جاتا ہے اور ہر شئی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔(بصائرالدرجات ص۸۸۴،اصول الکافی ج۱ص۹۷۱،حدیث ۲۱)
اس باب میں بصائرالدرجات اور اصول الکافی میں بہت ساری احادیث بیان ہوئی ہیں۔
الاصبغ بن نباتہ سے روایت ہے، اس نے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ السلام باہر آئے آپعلیہ السلام کا ہاتھ اس وقت اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں تھا اور آپ علیہ السلام اس وقت یہ فرما رہے تھے کہ ایک دن رسول ہمارے پاس آئے اور آپ نے فرمایا”اللہ تعالیٰ ان (اہل بیتعلیہ السلام)کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور ان کے ذریعہ شہروں کو آباد کرے گا۔(کمال الدین ص۹۵۲،۰۶۲حدیث۵)
(ازمترجم....اسی مناسبت سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت مطلقہ میں چندجملے ہیں جن کو میں یہاں پر محبان اہل بیت علیہم السلام کے لئے بیان کردینا اپنے لئے سعادت سمجھتاہوں اس زیارت کو شیخ الکلینی نے اپنی سند سے حسین بن تویر سے نقل کیاہے کہ اس نے بتایا کہ میں خود یونس بن طبیان،المفصل بن عمر، ابوسلمہ السراج حضرت ابوعبداللہ جعفر صادقعلیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے، یونس نے ہم میں سے بات چھیڑی، وہ ہم میں سِن کے لحاظ سے بڑا تھا۔
میں آپ پر قربان جاﺅں میں بہت دفعہ ان لوگوں کے پروگراموںمیں شریک ہوتا ہوں(یعنی بنی عباس، حکمرانوں کی محافل میں جاتاہوں)تو میں کیا کہوں؟تو آپ نے فرمایا تم یہ کہا کرو”اللھم ارناالرخاءوانسرور“ اے اللہ!ہمیں خوشحالی اور سکون نصیب فرما تاکہ تم کو وہ کچھ ملے جو تم چاہتے ہو اور رجعت بھی نصیب ہو، پھر اس نے اگلا سوال کیا، میں بہت مرتبہ امام حسین علیہ السلام کو یاد کرتا ہوں تو اس وقت میں کیا کہوں؟
تو آپ نے فرمایا:تین مرتبہ یہ جملے کہاکروں”صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ، صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ، صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ“تو آپ کو قریب اور دور دونوں حالتوں کا ثواب ملے گا۔
پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہو گئی تو پھرآپ پر سات آسمانوں نے سات زمینوں نے اور جو کچھ ان میں تھا اور جو کچھ ان کے درمیان تھا سب نے جنت اور جہنم نے اور جو کچھ جنت اور جہنم کے اندر کام کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو مخلوقات خلق کی ہیں چاہے وہ نظر آتی ہیں یا نظر نہیں آتیں سب نے گریہ کیاکوئی جگہ ایسی نہیں تھی جنہوں نے گریہ نہ کیا ۔
۱۔بصرہ، ۲۔دمشق،۳۔آل عثمان
اس کے بعد اس نے کہامام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتے وقت کیا پڑھا جائے ، تو امام علیہ السلامکی زیارت کے آداب بیان کئے اور پھر جو زیارت تعلیم فرمائی اس کے چند جملے ملاحظہ ہوں جو ہمارے سابقہ بیان کی تائید میں ہیں یہ زیارت صحیحہ ہے اس میں جو خطاب ایک امام علیہ السلام کو ہے تو یہ سب کے لئے ہے اور آج یہی خطاب امام زمانہ علیہ السلام کے لئے ہے۔اس زیارت میں زائر اس طرح اپنے امام علیہ السلام سے مخاطب ہوتاہے۔
جو شخص خدا تک جانے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس نے آپ سے ہی آغاز کرنا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے معیار پر جھوٹ کو واضح کرتا ہے آپ کے وسیلہ سے زمانہ کی چیرہ دستیوں کو دور فرماتاہے، اللہ تعالیٰ نے آپ سے (کائنات کا)آغاز کیا اور آپ ہی پر(کائنات ) کا اختتام کرے گا۔یعنی کائنات کا آغاز آپ سے اور کائنات کا اختتام آپ پر ہے، اللہ آپ کے معیار پر جس فیصلہ کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس فیصلہ کو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ہماری گردنوں میں پڑے ہوئے ذلت و رسوائی کے طوق کو دور فرمائے گا اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ہر مومن کے خون ناحق کا بدلہ چکائے گا آپ کے وجود کی برکت ہے کہ زمین درختوں کو نکالتی ہے اور پھلوں کو دیتی ہے، آپ ہی تو سبب ہیں کہ آسمان بارش برساتا ہے اور اپنے قطرات باران کو زمین پر گراتا ہے اور روزی کا وسیلہ فراہم کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کرب اور پریشانی کو آپ کے توسط سے دور فرماتا ہے اور اللہ آپ کی موجودگی کی وجہ سے بارش دیتا ہے آپ زمین پر موجود ہیں کہ زمین اللہ کی تسبیح کرتی ہے وہ زمین جس نے آپ کے اجسام کو اٹھا رکھا ہے اور زمین پر موجود پہاڑ اپنی جگہ پر آپ کی وجہ سے قائم ہیں اور برقرار ہیں اللہ تعالیٰ کا تمام معاملات میں فیصلہ اور ارادہ آپ کے پاس پہنچتا ہے اور پھر آپ کے گھروں سے نافذ ہونے کے لئے جاتاہے بندگان کے متعلق جو بھی فیصلہ جات ہوئے سب آپ کے دروازہ سے ہو کر جاتے ہیں۔(مفاتیح الجنان، باب زیارات، کامل الزیارات)
اس زیارت کے جملے بہت ہی واضح اور روشن ہیں جو امام زمانہ(عج) کی غیبت میں ہونے کے باوجود آپ کے جو فوائد اس پوری مخلوق کو مل رہے ہیں اس کو بیان کر رہے ہیں اس سے بڑا واضح بیان تکوینی اثرات جو امام علیہ السلام کے غیبت میں ہونے کے باوجود حاصل ہیںاور کوئی نہیں ہو سکتا، خداوند ہمیں ان باریک، دقیق، اسرار و رموز پر یقین کامل اور ایمان لانے کی توفیق دے۔(آمین)
مصنف کا بیان ہے: اس قسم کے مضامین پر مشتمل روایات کثرت سے موجود ہیں جو واضح کر رہی ہیں کہ کرہ ارض پر حیات اور اس کا استقرار و اثبات، اس کی بقاءاور اس زمین کے سارے ثمرات تو اس پر رہنے والی مخلوقات کو مل رہے ہیں سب کے سب امام مہدی علیہ السلام کے مبارک وجود سے ہیں ، یہ اثراور فائدہ جو تکوینی امور سے مربوط ہے اس کا انکار کوئی صاحب ایمان نہیں کر سکتا اور ان مضامین کی دلالت اپنے معانی پر واضح ہے اور اس میں کوئی تاویل بھی نہیں ہو سکتی۔

دوسرا فائدہ اور اثر:۔ آسمان سے بارش کا اترنا
حضرت امام علی ھادی نقی علیہ السلام سے جو زیارت جامعة روایت ہوئی ہے اس میں یہ جملہ موجود ہے....آئمہ کے وسیلہ سے آسمان بارش برساتاہے“۔
یعنی آپ اہل البیت علیہم السلام کے لئے اللہ کے ہاں یہ مقام و شان ہے کہ آسمان سے بارشیں آپ کی وجہ سے برستی ہیں۔حضرت ابوجعفر باقر علیہ السلام سے روایت ہے، ہم اس کے لئے سراج(چراغ) ہیں جو ہمارے ذریعہ روشنی لینا چاہے، ہم ہی راستہ ہیں جو ہمارے ذریعہ طے کرنا چاہے، ہم ہی وہ ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ رحمت اتارتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اتارنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہمیں قرار دیتاہے،ہمارے وسیلہ سے سب کو بارش سے سیراب کیا جاتاہے، ہم ہی تو وہ ہیں جن کی وجہ سے تم سے عذاب کوہٹالیا گیاہے۔
(روایت کمال الدین ص۹۵۲،۰۶۲ص۵اوردوسری الکافی ج۴ص۶۷۵حدیث۲)
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی علیہ السلام! آئمہ علیہ السلام تیری اولادسے ہیں میری امت کو ان کے وسیلہ سے بارش ملے گی اور ان کے توسل سے دعا قبول کی جائے گی اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے مصائب کو لوگوں سے دور کرے گا اور ان کے وسیلہ سے آسمان سے رحمت اترے گی اور آپ نے امام حسن علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: یہ ان آئمہ میں پہلا ہے اور حسین علیہ السلام کی جانب اشارہ کر کے فرمایا: باقی آئمہ علیہ السلام ان کی اولادسے ہوں گے(حسین علیہ السلام دوسرے امام علیہ السلام ہیں اور باقی نو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے ہیں)
(فرائد السمطین ج۲ص۴۵۲حدیث ۳۳۵،تفسیر البرہان ج۴ص۰۸حدیث۸۱)
الاصبغ بن نباتہ: ایک دن ہمارے پاس حضرت امیرالمومنین علیہ السلام باہر تشریف لائے آپ علیہ السلام کا ہاتھ اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلامکے ہاتھ میں تھا ، آپ علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ تشریف لائے اور آپ نے فرمایا”اور ان کے وسیلہ سے اللہ کے بندگان کو روزی دی جائے گی اور ان کی وجہ سے آسمان سے بارش کے قطرات گریں گے، یہ ہیں میرے اصفیائ، یہ ہیں میرے خلفائ، اور یہ سب مسلمانوں کے آئمہ علیہ السلام ہیں اور یہ ہیں مومنوں کے رہبران“(آپنے یہ جملے حضرت علی علیہ السلام ، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ سے نو آئمہ علیہ السلام اور اپنی بیٹی حضرت سیدة نساءالعالمین سیدہ فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہا کے لئے فرمائے جو کہ اہل بیت علیہ السلام ہیں اللہ کے نمائندگان ہیں اللہ کی زمین پراللہ اور اللہ کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں....مترجم) (کمال الدین ص۹۵۲،۰۶۲حدیث ۵)

تیسرا فائدہ:زمین سے سبزیوں،پھلوں اور اناج کا اگنا
زیارت جامعہ میں یہ جملہ موجود ہے ”اے اہل البیت علیہم السلام آپ کے ذریعہ زمین اگاتی ہے....یعنی زمین سے جو کچھ اگتا ہے اس کا ذریعہ آپ علیہ السلام ہی ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث ہے”آپ کے وسیلہ سے زمین درخت نکالتی ہے، آپ کے وسیلہ سے زمین اپنے ثمرات اور پھل دیتی ہے،آپ کے ذریعہ سے آسمان پانی برساتاہے اور آسمان روزی کے اسباب کو مہیا کرتا ہے، آپ علیہ السلام کے وسیلہ سے بارش اترتی ہے“(کامل الزیارات ص۰۰۲باب ۹۷)
اصبح بن نباتہ کی اوپر بیان کی ہوئی حدیث میں یہ جملہ بھی موجود ہے”ان کے وسیلہ سے زمین اپنی برکات باہر نکالے گی“زمین سے جو بھی برکات انسانوں کو حاصل ہیں وہ آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی وجہ سے ہیں۔(الکافی ج۴ص۶۷۵حدیث۲)

چوتھا فائدہ:۔ آپ علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں
آپ علیہ السلام نے خود یہ بیان فرمادیا ہے کہ آپ علیہ السلام کا وجود زمین پر سب رہنے والوں کے لئے امان ہے آپ علیہ السلام نے کسی خاص گروہ کو معین نہیں فرمایا اور نہ ہی کسی جگہ کو خاص کیا گیا ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ ساری زمین کے واسطے اور زمین پر سب رہنے والوں کے لئے رحمت ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”کُلًّا تُمِدُّ ھٰٓو لَآئِ وَھٰٓو لَآ ئِ مِن عَطَآئِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَائُ رَبِّکَ مح ظُو رًا“(سورہ الاسراءآیت ۰۲)
ترجمہ:۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے ”اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بندگان پر اپنی آنکھ قرار دیا ہے اور اپنے بندوں پر رحمت اور مہربانیوں سے بھرا ہوا سخاوت وجود کا ہاتھ قرار دیاہے“۔(التوحیدص۱۵۱باب ۲۱حدیث ۵)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے ”ہم وہ ہیں جن کے توسط سے رحمت اترتی ہے اور ہم ہی وہ ہیں جن کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ تم سے عذاب کو ٹال دیتاہے“۔(تفسیرالبرہان ج۴ص۰۸ذیل۷۱)

امان سے متعلق احادیث
توقیع الشریف جو محمد بن عثمان کے واسطہ سے روایت ہوئی ہے، امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے اس تحریر میں بیان فرمایا ہے:”بہرحال میری غیبت میں مجھ سے فائدہ اور منفعت اٹھاناایسے ہے جس طرح سورج جب بادلوں کی اوٹ میں چلا جاتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور بے شک میں حتمی طور پر زمین والوں کے لئے اسی طرح امان ہوں جس طرح سفارت آسمان والوں کے لئے امان ہیں۔
(الاحتجاج ص۳۶۲، کمال الدین ج۲ص۵۸۴ باب ۵۴توقیعات کے ذکر میں حدیث۴)
اس حدیث میں آپ نے فرمایا ہے کہ آپ زمین والوں کے لئے ان خطرات سے امان ہیں جو زمین پر رہنے والوں کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن سکتے ہیں اسی سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زمین پر بسنے والوں کے لئے جو بھی کوئی بڑا اورہولناک خطرہ بن سکتا ہو جس سے ان کی حیات و زندگی کا چراغ بجھ جائے تو میں اس خطرہ کے لئے امان ہوں۔
خحاکم نے اپنی مستدرک میں اس حدیث کو بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے کہ ابن عباس نے نبی اکرم سے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:”ستارے زمین والوں کے لئے امان ہیں اسی طرح کہ انہیں غرق ہونے سے بچاتے ہیں اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں کہ انہیں اختلاف اور انتشار سے بچاتے ہیں، اگر عربوں کے قبیلہ نے جس وقت بھی ان کی مخالفت کی تو وہ انتشار کا شکار ہوںگے اور ابلیس کی جماعت سے بن جائیں گے۔
(مستدرک الصحیحین ج۳ص۹۴۱، مناقب اہل بیت علیہ السلام من کتاب المعرفة، کنزالعمال ج۲۱ص۲۰۱حدیث ۹۸۱۴۳)
خحاکم نے محمد بن المتکدر سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے نبی اکرم سے قیامت کے بارے حدیث کے ضمن میں اسے نقل کیا ہے....پھر رسول اللہ نے اپنا سرمبارک آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا”ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں اگر آسمان سے ستارے محو ہو جائیں تو وہ گھڑی آجائے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے(قیامت)اور میں اپنے اصحاب کے لئے امان ہوں جب میں ان کے درمیان سے اٹھ جاﺅں گا تو ان پر وہ کچھ آئے گا جس کا انہیں وعدہ دیا گیا ہے اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں تو جب میرے اہل بیت علیہ السلام چلے گئے اورموجود نہ رہے تو میری امت پر وہ کچھ آئے گا جس کا وعدہ دیا گیا ہے(مستدرک الصحیحین ج۳ص۷۵۴، مناقب المنکدر کے ذکر میں نوادرالاصول نے اختصارج۳ص۶۶، الاصل ۲۲۲)
خالطبرانی نے ایاس بن سلمہ سے اور اس نے اپنے باپ سے اس نے نبی اکرم سے یہ بیان نقل کیا ہے ستاروں کو آسمان والوں کے لئے امان قرار دیا گیا ہے اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں۔(المعجم الکبری ج۷ ص۲۲حدیث ۰۶۲۶، ایاس کے حالات زندگی میں، مجمع الزوائد ج۹ص۴۷۱، البضیہ ج۹ ص۷۷۲، حدیث ۵۲۰۵۱)
خحضرت علی علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے رسول اللہ نے فرمایا:”ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں جب ستارے چلے جائیں گے تو پھر آسمان والے نہ رہیں گے، میرے اہل بیتعلیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں اور جب میرے اہل بیت علیہ السلام نہ رہیں گے تو پھر زمین والے بھی نہ رہیں گے، اس حدیث کو حاکم اور احمد نے المناقب میں، الدیلمی نے الفردوس میں اور قرشی نے بھی اسے نقل کیا اور اس میں یہ جملہ پڑھایا ہے اور بربادی ہے پھٹکار ہے ان کے واسطے جنہوں نے اہل البیت علیہ السلام کو چھوڑ دیا اوران سے دشمنی کی ہے“۔(فضائل الصحابہ احمد کی ج۲ص۱۷۶، حدیث ۵۴۱۱، مستدرک ج۲ ص۸۴۴، سورہ ....کی تفسیر میں الفردوس ج۴ص۱۱۳حدیث ۳۱۹۶، کنوز الحقائق ج۲ص۰۴۲ص۷۱۲۸ مجمع الزوائد ج۹ص۴۷۱ ، البغیہ ص۷۷۲حدیث ۵۲۰۵۱، دررقرشی کی مسند شمس الاخیار ج۱ص۷۲۱، باب ۴۱)
خابن المظفر نے انس سے اس نے نبی اکرم سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں میرے اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں اور اگر میرے اہل بیت علیہ السلام زمین پر نہ رہے تو پھر زمین والوں کے لئے وہ سب نشانیاں آجائیں گی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیاہے۔(جواہرالقعدین ص۰۵۲باب خامس)
خابوسعیدالحذری نے بتایا کہ رسول اللہنے فرمایا:”میرے اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کےلئے امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کےلئے امان ہیں“(کتابة الاثرص۹۲)
سوال کیا گیا یا رسول اللہ!کیا آپ کے بعد آئمہ علیہ السلام آپ کے اہل بیت علیہم السلام سے ہوں گے؟تو آپ نے فرمایا:جی ہاں!میرے بعد آئمہ علیہ السلام بارہ ہیں جو حسین علیہ السلام کی صلب سے ہیں وہ سب امانتدار ہیں معصوم علیہ السلام ہیں ہم ہی سے اس امت کے مہدی ہیں آگاہ رہو کہ یہ سب میرے اہل بیت علیہ السلام اور میری عترت ہیں“(کفایة الاثر، ص۹۲)
خحضرت امام حسن علیہ السلام نے اپنی بیعت کی تقریب کے بعد جو خطاب فرمایا اس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا”ہم مسلمانوں کے امام علیہ السلام ہیں اور تمام جہانوں پر اللہ کے صحیح(نمائندگان)ہیں، ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں، ہمارے وسیلہ سے بارش برستی ہے، ہمارے ذریعہ رحمت پھیلائی جاتی ہے، ہمارے ذریعہ سے زمین کی برکات حاصل ہوتی ہیں، اگر ہم میں سے کوئی بھی زمین پر نہ ہو تو زمین تباہ ہو جائے گی،ویران ہو جائے گی، آبادی کا خاتمہ ہو جائے گی(اہل البیت علیہ السلام لتوفیق۳۷)ثقة الصادی کے ص۵طبع مصر میں یہ اشعار دیئے ہیں۔
ھم الراقدون فی اوج الکمال....ھم اھل المعارف والمعالی
ترجمہ: وہ تو کمال کی بلندیوں پر ٹھہرے ہیں، وہ معارف والے اور بلند مرتبت ہیں
ھم سفن النجاة اذا ترامت....باھل الارض امواج الضلال
جب زمین والوں کو گمراہی کی تندوتیزلہریں اپنے گھیرے میں لے لیں تو اس وقت نجات کی کشتیاں آپ علیہ السلام ہی ہیں۔
امان الارض من غرق وجعت....وحصن الملة الصعب المنال
زمین کو غرق ہونے اور تباہ ہونے سے امان دینے والے ہیں اور اس مشکل گھری امت کے لئے سہارا اور دفاعی قلعہ ہیں۔

حدیث امان سے مراد اور مقصود
السیدالمسھودی نے ان احادیث کوذکر کرنے کے بعد یہ لکھا ہے اس جگہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام جو امت کے لئے امان ہیں اس سے مراد اہل بیت علیہ السلام سے جو علماءہیں وہ مراد ہیں کہ جن کے وسیلہ سے ہدایت اور رہنمائی لی جاتی ہے جیسا کہ آسمان کے ستاروں سے راہنمائی لی جاتی ہے اور یہ ذوات اگر زمین پر موجود نہ ہوں تو زمین والوں کے وہ ساری نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی جن سے ان کو ڈرایا گیا ہے اور زمین والے سب ختم ہو جائیں گے اور یہ اس وقت ہو گا جب حضرت مہدی علیہ السلام کی موت واقع ہو گی جس کے بارے نبی اکرم نے اطلاع دی ہے۔(جواہرالعقدین ص۲۶۲باب خامس)
ان روایات کے ذکر کرنے سے یہ فائدہ کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بعد زمین میں کوئی خیر نہیں ہے....
السمہودی اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتاہے”اس بات کا احتمال موجود ہے اور میرے نزدیک زیادہ بات یہی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ اہل البیت علیہ السلام امت کے لئے امان ہیں تو مطلق امان ہیں کیونکہ جب اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اس کے تمام لوازمات سمیت نبی اکرم کی خاطر خلق فرمایا ہے تو اس دنیا کے دوام کو اس کے دوام کے ساتھ وابستہ کیا ہے اور آپ کے اہل البیت علیہ السلام کیونکہ خود آپ سے ہیں اس لئے اہل البیت علیہ السلام کے دوام سے دنیا کا دوام ہے۔ جب تک اہل البیت علیہم السلام ہیں دنیا باقی ہے جب وہ نہ رہے تو پھر دنیا موجود نہ رہے گی اور اس کی ساری بساط کو الٹ دیا جائے گا شاید اس بات کا راز اور حکمت و فلسفہ بھی یہی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اہل البیت علیہم السلام کو بہت سارے امور میں نبی اکرم کے مساوی قرار دیا ہے۔
فخررازی نے وہ امور پانچ شمار کئے ہیں جیسا کہ ذکرنمبر۳ میں بیان ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُم وَ اَن تَ فِی ہِم “(سورہ الانفال آیت ۳۳)
ایسا تو بالکل نہیں ہو سکتا کہ جب تم ان میں موجود ہو تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے دے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے اہل بیت علیہ السلام کے وجود کو امت میں نبی کے وجود کا تسلسل قرار دیا ہے اور انہیں ان کے لئے امان قرار دیا ہے یہ اس فرمان کی روشنی میں ہے جو پہلے بیان ہو چکا کہ نبی اکرم نے فرمایا: ”اے اللہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“ اس بات کو اس سے مزید تقویت ملتی ہے کہ جناب فاطمہ علیہ السلام نبی اکرم کی نصف ہیں، ان کا ٹکڑا ہیں، انکا حصہ ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد نبی کے اس حصہ کی اولاد ہے جسے نبی نے اپنا ٹکڑا قرار دیا ہے تاکہ آپ کی اولاد بالواسطہ نبی اکرم کا حصہ ہوں گے اسی طرح ان کے باپ کی اولاد ہو گی اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھے گاپس ہرزمانہ میں جو بھی ان میں سے ہو گاوہ بالواسطہ رسول اللہ کا حصہ ہو گا پس ان کے وجود کو امت کے لئے امان ہونے میں نبی اکرم کے وجود کا قائمقام قرار دیا گیاہے۔(شیخ رفاعی کی بھی مفیدگفتگو اس بارے موجود ہے کہ اہل بیت علیہ السلام امت کے لئے امان ہیں دیکھیں(ضوءالشمس ج۱ص۲۲۱)السمہودی کی کلام ختم ہو گئی(جواہرالعقدین ص۲۶۲، ۳۶۲ باب خامس)
صاحب الذخائرالمجمدیہ والے نے اہل بیت علیہ السلام کے خصائص کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے آثار کو زمین میں عالم کی بقاءاور اس کی حفاظت کاذریعہ قراردیا ہے جب ان کے ارشاد موجود رہیں گے یہ عالم باقی رہے گا جب ان کے آثار ختم ہو جائیں گے تو یہ دنیا بھی ختم ہو جائے گی۔(الذخائرالمحمدیہ ص۳۴۳، خصائص اہل بیت علیہ السلام)
الحکم الترمذی نے امان والی حدیث کے بعد کہا ہے کہ ان کی ستاروں کے ساتھ شباہت اس حوالے سے ہے کہ ان کے ذریعہ ہی اطاعت و اقتداءکی جا سکتی ہے اور وہ اصھاب سے بھی ان کی تعداد کم ہے ستاروں کی طرح کیونکہ وہی بصیرت والے ہیں ان کے لئے اجتہاد بھی جائز ہے یقین اور بصیرت رکھنے کی وجہ سے....
وہ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے نبی اکرم کا یہ فرمان”میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں“ تو آپ علیہ السلام کے اہل بیت علیہ السلام آپ علیہ السلام کے بعد آپ کے طریقہ اور سنت پر ہیں وہی صدیقین ہیں وہی ابدال ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے روایت کی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابدال شام میں ہوں گے اور ان کی تعداد چالیس ہے سب مرد ہیں، جب ان میں ایک مرے گا تو اس کی جگہ دوسرا لے لے گا اللہ اس کے بدلے میں اور کو قرار دے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان ابدال کے ذریعہ بارش برساتا ہے ان کے ذریعہ دشمنوں پر مسلمانوں کی مدد کرتا ہے اور ان کی وجہ سے زمین والوں سے مصائب کو ٹالتاہے۔(الحدیث اومافی معقاہ فی الحاوی للفتادی ج۲ص۶۲۴،۸۴۴۔۰۳۴)
پس یہ اہل بیت علیہ السلام رسول اللہ ہیں اس امت کے لئے امان ہیں، اگر یہ مر گئے تو زمین فاسد ہو جائے گی دنیا ویران ہو جائے گی۔(نوادرالاصول ص۳۶۲، الاصل ۲۲۲)
ابن حجر نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ ”وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُم وَ اَن تَ فِی ہِم “ کے ذیل میں بیان کیا ہے۔حضرت نبی اکرم نے اس معنی کا اشارہ اہل بیت علیہ السلام کے وجود میں بھی دیا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں جس طرح خود رسول اللہ زمین والوں کے لئے امان تھے، اس مضمون کی بہت ساری اور احادیث بھی موجود ہیں جو اس کتاب میں آئیں گی۔(الصواعق المحرقہ ص۲۵۱ طبع مصر ص۳۳۲، طبع بیروتنمبر۷، المشرع الروی ج۱ص۷)
(از مترجم....یہ سب روایات اہل سنت کے علماءسے لی گئی ہیں جب یہ طے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل بیت علیہ السلام سے ہیں تو اس زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام ہی زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آپ نے خود اپنی تحریر میں بیان فرما دیا جیسا کہ گذر چکا ، اس ساری بحث سے بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک مسلمان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی زندگی کی رونقیں امام مہدی علیہ السلام کے وجود سے ہیں، اسے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے اپنا کردارادا کرناچاہیے“۔

پانچواںفائدہ:۔ امام مہدی علیہ السلام فیض الٰہی کاواسطہ ہیں
دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں”اے اللہ! ہماری نماز کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وسیلہ سے قبول کر لے، ہمارے گناہوں کو ان کے صدقہ سے معاف کر دے، ہماری دعا کو ان کے وسیلہ سے قبول فرمالے ہماری روزیاں ان کی خاطر وسیع کر دے، ان کے توسط سے ہماری پریشانیوں کو دور کر دے اور ہماری حاجات کو ان کے ذریعہ پورا کردے۔
بحارالانوار میں ابومحمد حسن العسکری علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا: جس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے اس امت کے مہدی کو عطا کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو بھیجا تو وہ دونوں مہدی کو ”سرادق عرش‘ میں لے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضورمیں انہیں پہنچا دیا۔تو اللہ تعالیٰ نے مہدی علیہ السلام سے اسی طرح خطاب فرمایا:میرے عبد، میرے بندے مرحبا، میرے دین کی نصرت کی خاطر، میرے امر کو غلبہ دینے کی خاطر اور میرے بندگان کو ہدایت دینے کی خاطر میں نے قسم اٹھا لی ہے کہ میں تیرے ذریعہ ہی ان کے اعمال کووصول کروں گا اور تیرے ذریعہ سے جو کچھ دینا ہے دنیا کو دوں گا تیری وجہ سے معافی دوں گا اور تیری وجہ سے عذاب دوں گا۔
(بحارالانوار ج۱۵ ص۷۲ باب ۱، ذیل ۷۳)
خحضرت ابوعبداللہ جعفر الصادق علیہ السلام سے روایت ہے”جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اسے رسول اللہ کے لئے بھیج دیتا ہے پھر وہ فیصلہ امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس جاتا ہے اسی طرح ایک کے بعد دوسرے امام علیہ السلام کے پاس جاتا ہے یہاں تک کہ وہ الٰہی ارادہ اور فیصلہ امام مہدی علیہ السلام کے پاس آجاتا ہے اور پھر امام مہدی علیہ السلام سے وہ دنیا میں نافذ ہونے کے لئے چلا جاتاہے اور جس وقت فرشتے کوئی عمل اللہ عزوجل کی خدمت میں لے جانے کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے صاحب الزمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں پھر ایک کے بعد دوسرے امام علیہ السلام کے پاس وہ عمل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ عمل رسول اللہ کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے اور پھر وہاں سے ہو کر وہ عمل اللہ کے پاس جاتا ہے ، بس اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ بھی اترتا ہے تو اس کے ہاتھوں پر اترتا ہے اور پھر آگے جاتا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس جاتا ہے تو وہ ان کے ہاتھوں سے ہو کر جاتا ہے اور وہ سب ایک آن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں ہیں۔(یعنی ہر لمحہ ہر آن وہ اللہ سے رابطہ میں ہیں اور اللہ کے محتاج ہیں اللہ سے کسی بھی حال میں مثتثنیٰ نہیں ہیں)پلک جھپکنے کی مقدار میں بھی بے نیازی اللہ سے نہیں۔
(غیبة الطوسی ص۸۸۳، النجم الثاقب ص۹۸۴)
حضرت رسول اللہ سے ایک طولانی حدیث میں یہ بات آئی ہے ”ہم اللہ کا یمین(دایاں ہاتھ)ہیں ہم اللہ کے اعضاءہیں....جو ہمارے اوپر ایمان لے آیا وہ اللہ پر ایمان لے آیاجس نے ہماری بات ٹھکرا دی تو اس نے اللہ کی بات کو ٹھکرا دیا جس نے ہمارے بارے شک کیا تو اس نے اللہ کے بارے شک کیا، جس نے ہمیں پہچان لیا تو اس نے اللہ کو پہچان لیا جس نے ہماری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ہم اللہ تک جانے کا وسیلہ ہیں، ہم اللہ کے رضوان سے جوڑنے کا ذریعہ ہیں، ہمارے لئے عصمت، خلافت اور ہدایت ہے۔(بحارالانوار ج۵۲، ص۲۲،۳۲، باب بدءخلقھم ص۳۸)
دعاءندبہ میں امام زمانہ علیہ السلام سے خطاب ہے ”وہ باب اللہ کہاں ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ کے پاس آیا جاتا ہے وہ سبب متصل کہاں ہیں جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔
(بحارالانوارج۲۰۱ص۴۰۱)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: ہم تمہارے اور اللہ کے درمیان سبب و ذریعہ اور واسطہ ہیں“۔(بشارة المصطفیٰ ص۰۹)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث روایت ہے” جس میں آل علیہ السلام محمد کی توصیف بیان کی گئی ہے، اورہم وجود کی علت ہیں، ہم معبود کی حجت ہیں جو شخص ہمارے حق سے جاہل رہا اللہ اس کا کوئی عمل بھی قبول نہیںفرماتا“۔(بحارالانوارج۶۲، ص۹۵۲حدیث۶۳)
حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے”ہم اللہ کی حجت ہیں ہم اللہ تک جانے کا دروازہ ہیں، ہم اللہ کے ترجمان زبان ہیں، ہم اللہ کی پہچان کا چہرہ ہیں، ہم اللہ کی مخلوق میں اللہ کی دیکھنے والی آنکھ ہیں، ہم اللہ کے بندگان میں اللہ کے والیان امر ہیں، پھر آپ نے راوی سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے اسودبن سعید!ہمارے اور ہر زمین کے درمیان ایک تعلق اور رابطہ کی زنجیر موجود ہے جس طرح ایک بلڈنگ کی بنیاد سے لے کر اس کے اختتام تک ایک مسلسل جوڑ، ربط اور اتصال ہوتاہے، جس وقت ہم کو کسی بات کا امر ہوتا ہے اور ہم نے کسی زمین پراسے لاگو کرنا ہوتا ہے تو ہم نے اس رابطہ والی لائن کو اپنی جانب کھینچنا ہوتا ہے اسی طرح وہ زمین اپنے اہل سمیت، بازاروں سمیت، گھروں سمیت ہماری طرف آ جاتی ہے اور ہم اس میں اپنا امر اور فیصلہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہوتا ہے جاری کر دیتے ہیں۔
(بحارالانوار ج۵۲ص۴۸۳، باب غرائب افعالھم حدیث ۰۴، بصائرالدرجات ص۱۶اختصار کے ساتھ)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے”بتحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے تحت ایک مخلوق کو خلق فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو اپنے نور اور اپنی رحمت سے خلق فرمایا ہے اور اس مخلوق کو اپنی رحمت کے لئے خلق فرمایا ہے پس وہ مخلوق اللہ کی دیکھنے والی آنکھ ہیں اور اس کے سننے والے کان ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ پر اس امر پر امناءہیں جو اللہ تعالیٰ نے حجت کے طور ، ڈرانے کے لئے عذر خواہی کے حوالے سے جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس پر وہ امناءہیں، اللہ کی مخلوق میں حجت ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ برائیوں کو مٹاتا ہے اور ان کے توسط سے ظلم کو دور کرتا ہے، ان کے وسیلہ سے رحمت کو اتارتا ہے ان کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور زندوں کو مارتا ہے، ان کے ذریعہ سے اپنی مخلوق کی آزمائش کرتا ہے اور ان کے وسیلہ سے اپنے مخلوق میں فیصلے فرماتا ہے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا! میں آپ پر قربان جاﺅں وہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا وہ اوصیاءہیں۔(التوحیدللصدوق ص۷۶۱باب ۴۲ص۱)
(ازمترجم....مصنف نے ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد حکماءاور فلسفیوں کے بیانات سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ ذوات مقدسہ مخلوق اور اللہ کے درمیان واسطہ فی الفیض ہیں۔ میرے خیالات میں اتنی واضح روایات اور احادیث کو بیان کرنے کے بعد کسی فلسفی یا عقلی بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ان کے لئے لکھی جا رہی ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو اپنا امام سمجھتے ہیں اور ان کی پیروی کو اپنا فریضہ قرار دیتے ہیں، لہٰذا اس بحث کا ترجمہ نہیں کیا،اگرچہ مختصر تھی۔ اصل کتاب کے ص۷۹،ص۸۹ سے دیکھ سکتے ہیں)
ابن عربی(عالم اہل سنت) کا بیان ہے، کائنات میں جو بھی رزق موجود ہے یہ سب بقیة اللہ کے ذریعہ سے ہے، اس بیان کے بعد اس نے اپنے طریقہ کے مطابق اس نظریہ کے اثبات پر دلائل دیئے ہیں۔(دیکھئے الفتوحات المکیہ ج۶ص۹۷)

چھٹافائدہ:۔ محتاجوں پریشان حالوں کی مددکرنا
میری جان ان پر قربان جائے آپ پسے ہوئے طبقات پر، محروموں پر، کمزوروں پر بہت ہی مہربان ہیں آپ ان کی مدد ہیں جن کا کوئی مددگار نہیں روایت بیان ہوئی ہے کہ جس کو کوئی حاجت ہو تو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق”جب کوئی شخص صحرا میں راستہ بھٹک جائے تو وہ اس اپنے امام علیہ السلام کو آواز دے“۔
”یا اباصالح ارشدتاعلی الطریق یرحمک اللہ تعالیٰ“
اے اباصالح! ہمارے لئے راستہ کی نشاندہی کردیں اللہ آپ علیہ السلام پررحمت فرمائے“۔
(من لایحضرہ الفقیہ ج۲ص۸۹۲حدیث ۶۰۵۲، مکارم الاخلاق ص۹۵۲، مجمع البحرین ج۲ص۶۲۶، اللمقہ البضیاءص۲۶۵)
یہ بات یاد رہے کہ خشکی پر ابوصالح مقرر ہے اور سمندروں پر حمزہ موکل ہیں۔
(الاداب الدینیہ ص۰۰۱)(شاید یہ دو نام امام زمانہ کے مراد لیے گئے ہوں کہ جب خشکیوں، صحراﺅں میںمسئلہ ہو تو ابوصالح پکاریں جب سمندروں میں مسئلہ ہو توحمزہ کہہ کرپکاریں....مترجم)
شیخ مفیدؒ کو جو آپ نے خط بھیجا اس میں یہ جملہ موجود ہے :”انا غیرمھملین لمراعاتکم ولاناسین لذکرکم لولاذلک لنزل بکم اللاواءواصطلمکم الاعدائ“
بتحقیق ہم نے تمہاری حفاظت کے معاملہ کو اسی طرح نہیں چھوڑ رکھا اور نہ ہی ہم نے تمہاری یاد کو بھلا دیا ہے اگر ایسا نہ ہو تو تمہارے اوپر تباہ کن مصائب آئیں گے اور دشمن تمہیں ختم کر دیں گے“۔بہت سارے واقعات اور حالات کتب میں موجود ہیں جو حاجت مندوں نے آپ سے توسل کیا، پریشانی کے وقت آپ کو آواز دی تو اس کی حاجات پوری ہوئیں، پریشانیوں کا ازالہ ہوا، محدث نوری نے بہت سارے واقعات نقل کیے ہیں۔(النجم الثاقب ج۲ص۱۲۴سے۶۲۴، مکیال المکارم ج۱ص۸۳،۹۳۱)
ان واقعات میں بحرین کے مومنوں کو استعماری ایجنٹوں اور کارندوں سے بچایا گیا۔(النجم الثاقب)
عنیزہ قبیلہ نے جب کربلا کاراستہ زواروں پر بند کیا تو اسے زائرین کے لئے کھول دیاگیا۔(مشخص الامال ج۲ص۶۲۳)
صحرا اسود کو اس کی اپنی جگہ رکھنے کا واقعہ۔(منتخب الاثر ص۶۰۴،الخرائج والجرائح ص۹۲)
مالی امداد کے واقعات بھی ہیں بیماروں کی شفایابی کے واقعات ہیں۔
(سابقہ حوالوں کے علاوہ، کشف الغمہ ج۳ص۷۸۲)
ابن عربی نے اس جگہ بہت ہی علمی اور فلسفی بحث کی ہے اور اس میں یہ تالیف کیا ہے کہ کس طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام محتاجوں کی مدد کرتے ہیں۔
(الفتوحات المکیہ ج۶ص۸۷،باب۶۶۳)
(ازمترجم....ہمارے زمانہ کے بہت سارے واقعات ہیں جس میں امام زمانہ(عج) کی امداد بڑی واضح ہے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، امریکی طیاروں کاطبس کے صحرا میں تباہ ہونا، ایران کے انقلاب کے خلاف تمام عالمی طاقتوں کی مشترکہ سازشیں اور علاقائی اسلامی ممالک کی بھرپورمخالفت اور عالمی طاقتوں کا ساتھ نہ دینے کے باوجودانقلاب کا باقی رہنا اور ہر آنے والے دن میںمضبوط سے مضبوط ترہونا، امام زمانہ علیہ السلام کی زندہ امداد کی مثالیں ہیں، افغانستان میں شیعوں کی حفاظت کا انتظام، دہشت گردوں کو ناکامی اور شیعوں کو ان کے حقوق ملنا، اپریل ۷۰۰۲ سے اکتوبر۸۰۰۲ تک تمام تر محاصرہ کے باوجود پارہ چنار ، کرم ایجنسی میں شیعوں کی فتوحات اور کامیابیاں اور ملک دشمن ، اسلام دشمن طالبان کی مسلسل ناکامی، جولائی ۶۰۰۲کی جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی اور اسرائیل کی بری طرح ناکامی اور پھر ۸۰۰۲ءمیں سیاسی میدان میں حزب اللہ کی کامیابی،اسی صدام کی۶۳سالہ حکومت کا خاتمہ اور عراق میں شیعوں کی کامیابیاں سعودی عرب میں شیعوں کا باقی رہ جانا اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کو تقویت ملنا، روس کی سلطنت عظمیٰ کا خاتمہ اور امریکی اقتدار کا روبزوال ہونا یہ سب ایسے واقعات ہیں کہ ان کے پیچھے امام زمانہ (عج) کی غیبی امدادشامل ہے، شیعہ اہل بیت علیہ السلام کے خلاف تمام عالمی طاقتیں ہیں، منافق حکمران ہیں لیکن ہر آنے والا دن شیعوں کی مضبوطی کی خبر لا رہا ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ منجی بشریت، عالمی مصلح، امن عالم کا داعی، موعود امم، عدل الٰہی کا نمائندہ، صاحب الزمان امام مہدی علیہ السلام کے اقتدار کا زمانہ قریب ہے، سوال یہ تھا کہ امام مہدی علیہ السلام پردہ غیبت میں رہ کر کیا فائدہ دے رہے ہیں تو اس بارے تکوینی فوائد اور اثرات احادیث کی روشنی میں بیان ہوئے اور ہم اپنے زمانہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ حاضر اور موجود آثار ہیں جو آپ کے وجودذیجود کی برکات سے ہیں، خداوند آپ کی برکات اور زیادہ ہمارے نصیب کرے اور ہم اسی زمانہ میں یہودیوں کے اقتدار کا خاتمہ اور آل علیہ السلام محمد کے اقتدار کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں۔(آمین)مصنف نے اس دور میں ظاہر ہونے والی کچھ غیبی امدادات کا تذکرہ کیاہے)

ساتواں فائدہ:۔ مجاہدوں کی مدد کرنا
حضرت امام زمانہ (عج) ہر اس کی مدد کو پہنچتے ہیں جو ان سے مدد کا طالب ہوتا ہے، بہت سارے اسلامی خطوں میں امام زمانہ (عج) کی مدد کی گواہی موجود ہے، جمہوری اسلامی ایران میں مجاہدین کے لئے امام زمانہ (عج) کی امدادبڑی روشن اور واضح ہے چاہے وہ انقلاب کے ابتدائی ایام ہوں یا صدام ملعون کی طرف سے مسلط کردہ جنگ ہو یا اس کے بعد والے امام ہوں۔
اسی طرح لبنان میں مجاہدین کے لئے آپ علیہ السلامکی مدد کسی پر مخفی نہیں چاہے اسلامی مزاحمتی تحریک کا ابتدائی زمانہ ہو یا اس کے بعد کا زمانہ ہو، یہ جنگ جس میں حزب اللہ کے مجاہدین داخل ہوئے جو ایک اسطورہ اور خیالی کہانی لگتی ہے۶۰۰۲ءمیں یہ تو ایک ایسا امر ہے جسے دنیا کا کوئی انسان انکار نہیں کر سکتا غیبی امداد کی انکار ناممکن ہے کہ چالیس ہزار مسلح افواج کا لشکر بے کراں تھا، ٹینکوں، توپخانہ، جنگی جہازوں اور ایسا اسلحہ جسے کسی نے اس سے پہلے دیکھا تک نہ تھا چوبیس گھنٹے مجاہدین کے اوپر دشمن کے جنگی طیارے پرواز کر رہے تھے اور بمباری میں مصروف تھے جب کہ مجاہدین کی تعداد۰۰۵۱ سے زیادہ نہ تھی اور ان کے پاس درمیانہ درجہ کے ہتھیار تھے۔
جو مجاہدین بالفعل میدان میں لڑ رہے تھے انہوں نے جو واقعات اور حکایات بیان کی ہیں اور جو آپ بیتی ہر ایک مجاہد نے سنائی ہے وہ سب غیبی امداد پر دلیل ہے۔
اسی طرح جو کچھ دشمن کے سپاہیوں، عسکری کمانڈروں نے واقعات اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بیان کیے ہیں کہ جنگ کے دوران انہوں نے سفید لباس والے سپاہی، سفید گھوڑوں پر سوار افراد، تلواریں اٹھائے ہوئے دیکھے ہیں، تلوار سے ایک کمانڈر نے اپنا کٹا ہوا ہاتھ بھی ٹیلی ویژن کی سکرین پر انٹرویو کے دوران دکھایا یہ سب کچھ غیبی امداد کی نشانیاں ہیں یہ سب واقعات و حالات ہمیں بتاتے ہیں کہ اس جنگ میں غیبی ہاتھ مجاہدین کے سرپر موجود تھا اور امام زمانہ (عج) کی خصوصی عنایات شامل تھیں جس وجہ سے مجاہدین کو حیرت انگیز کامیابی ہوئی اسرائیل کو ایسی شکست ہوئی کہ جس سے اس کا وجود خطرہ میں پڑچکاہے۔”والحمدللہ ولہ اشکرعلی انعمہ“۔

آٹھواں فائدہ:۔ امام زمانہ علیہ السلام(عج) ہمارے ولی نعمت ہیں
اور ہمارے رزق کے ولی بھی ہیں
زیارت جامعہ میں ہے ....وقادة الامم واولیاءالنعم وعناصرالابرار“
(بحارالانوار ج۷۹ص۴۷۱)
سلام ہو آپ پر اے اقوام کی قیادت کرنے والے رہبروں اور اے نعمتوں کے اولیاءاور وارثان، اے ابرار، نیکوکاروں کے لئے بنیادون،عناصر“
دعاءندبہ میں ہے....اے اللہ!ہماری روزیوں کو ان کے وسیلہ سے وسیع کر دے، پھیلا دے، ان کے ذریعہ ہماری پریشانیوں کو ٹال دے، ان کے وسیلہ سے ہماری حاجت کو پورا کردے“۔
الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے بیان نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا....”ہم اللہ تعالیٰ تک لیجانے کا دروازہ ہیں، ہم اللہ کے آسمانوں میں خزانہ دار ہیں، اللہ کی زمین میں اللہ کے خزانہ دار ہیں، ہمارے ذریعہ سے درختوں کو پھل لگتے ہیں اور پھل پکتے ہیں، دریا بہتے ہیں، آسمان سے پانی برستا ہے، زمین گھاس اگاتی ہے، ہماری عبادت کے ذریعہ اللہ کی عبادت ہوئی یعنی لوگوں نے ہماری عبادت کودیکھ کر سیکھا اور اللہ کی عبادت کی، اگر ہم موجود نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی ہے۔
(الکافی ج۱ص۴۴۱، باب النوادر حدیث۵)
الخرائج میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”اے داﺅد ! اگر ہم موجود نہ ہوتے تو دریاﺅں کو نہ بہایا جاتا،پھلوں کو نہ پکایا جاتا، اور درختوں پر سبزہ نہ ہوتا“۔(مکیال المکارم ج۱حدیث ص۱۴حدیث ۷۳)
الکافی میں حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام کی طرف سے حدیث کو نسبت دی ہے کہ آپ نے بیان کیا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا اور دنیا کا ایک ٹکڑا اس کے لئے مخصوص کردیا، جو آدم علیہ السلام کے لئے ہے وہ سب کچھ رسول اللہ کے لئے ہے اور جو رسول اللہ کے لئے ہے وہ آل محمد علیہم السلام سے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے لئے ہے۔(الکافی ج۱ص۹۰۴، باب ان الارض کلھا للامام حدیث۷)
حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ دنیا کا آخری دور اور جو کچھ دنیا میں موجود ہے اس کا آخری مرحلہ، اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اللہ کے رسول کے لئے ہے اور ہمارے لئے مخصوص ہے، پس جو کوئی دنیا سے کچھ پالیتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اپنے بھائیوں پر احسان کرے، ان سے نیکی کرے اور جو دنیا سے حاصل شدہ مال دنیا میں حاصل ہونے والے اختیارات کا استعمال اس طرح نہ کرے گا تو ہم ان سے بری اور بیزار ہیں، وہ ہم سے دور ہے۔(الکافی ج۱ص۸۰۴حدیث ۲)
دارالسلام میں کتاب بصائرالدرجات سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ:
امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا:
اے اباحمزہ تم طلوع آفتاب سے پہلے ہرگز نہ سویا کرو، کیونکہ اس وقت میں سونے کو میں تیرے لئے پسند نہیں کرتا ہوں، تمہیں اللہ تعالیٰ اس وقت میں رزق اور روزی تقسیم فرماتا ہے اور اس رزق کو ہمارے ہاتھوں سے جاری فرماتا ہے۔
(مکیال المکارم ج۱ص۲۴حدیث ۴)
مکیال المکارم کی ج۱ص۷۷۲ میں اشعار اس معنی میں ذکر کیے گئے ہیں جن کو یہاں پر لانے کی چنداں ضرورت نہ ہے۔
مذکورہ احادیث اور بیانات سے واضح ہو گیاکہ ہمارے ولی نعمت امام زمانہ علیہ السلام ہیں اور ہمارے رزق کا ذریعہ امام زمانہ علیہ السلام ہیں....مترجم
تکوینی آثار بیان ہو چکے ان کی مزید تفصیل بھی دی جا سکتی ہے جو کچھ بیان ہو چکا یہ ایک غیرمتعصب کے لئے کافی ہے اور صاحب ایمان کے یقین کو بڑھانے کا وسیلہ یہ بیانات ہیں۔