حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بقاءکا مسئلہ
لمبا زمانہ گزر جانے کے باوجود حضرت امام مہدی علیہ السلام کا موجود ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں اور نہ ہی یہ کوئی ان ہونا امر ہے۔کیونکہ یہ بات اللہ کی قدرت سے باہر نہیں اور کسی بھی وجہ سے ایسا ہو سکتاہے اور وہ سبب ابلیس کی بقاءسے زیادہ برا تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جس کی بقاءمیں عالمین کے لئے گمراہی ہے مگر یہ کہ جنہیں اللہ تعالیٰ بچالے۔
اس کے علاوہ روایات و اخبار نے بیان کر دیا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے غیب ہونے کی مصلحت ہدایت مطلقہ ہے اور یہ کہ ظلم اور تاریکیوں کا بالکل ختم کیا جا سکے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بقاءپر دلیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت الیاسعلیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی بقاءاولیاءاللہ سے ہے اور اللہ کے دشمنوں میں ابلیس اور دجال کی بقاءہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”وَاِن مِّن اَھ لِ ال کِتَابِ اِلَّا لِیُو ¿ مِنَنَّ بِہ قَب لَ مَو تِہ“(النساءآیت ۹۵۱)
ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ اہل کتاب ان کی موت سے پہلے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے)ان پر ایمان لے آئیں گے اور ابھی تک سب اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے پس ضروری ہے کہ ایسا آخری زمانہ میں ہو۔
ابونعیم الطبری اور دوسروں نے روایت کی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام(السیع) زندہ اور باقی ہیں اور یہ کہ دونوں اللہ کی زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔(البیان الکنجی الشافعی ۹۴۱، الباب الخامس والعشرون، الطبری سے دلائل النبوة ج۲ص۹۴۵، الفضل ص۳ طبع ہند، دکن، الفردوس ج۲ص۲۰۲ حدیث ۰۰۳، طبع دارالکتب العلمیہ اور ص۰۲۳حدیث ۲۲۸۲، المطالب العالیہ ج۳ص۸۷۲ص۴۷۴۳)
الزمحشری نے لکھا ہے: انبیاءسے چار زندہ ہیں دو آسمانوں پر ہیں ،عیسیٰعلیہ السلام اور ادریس علیہ السلام دو زمین پر ہیں الیاس علیہ السلام اور خضر علیہ السلام (ربیع الابرار ج۱ص۷۹۳، مشارق الانوار ص۱۲فصل نمبر۳باب۱)
اشعار اس بارے ملاحظہ ہوں۔
منظوم کلام، آئمہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام عقیدت
والمرتضی قول الحیاة فکم لہ
حجج تجل الدھر عن احصائ
خضر و الیاس بارض مثل ما
عیسیٰ و ادریس بقوا بسمائ
ھذا جواب ابن السیوطی
یرجومن الرحمن خیر جزائ
ابونعیم نے عامر بن الفھر اور العلاءبن الحضرمی کے بارے بیان کیا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور عیسیٰعلیہ السلام کی مانند انہیں آسمان پر ااٹھا لیا گیاہے۔(۲)
بہرحال دجال کی بقاءکا مسئلہ تو اس پر سب کا اتفاق ہے اور اس بارے بہت ساری روایات موجود ہیں۔(۳)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ الایر میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کنوئیں میں موجود ہے۔(۴)
ابلیس کی بقاءپر تو قرآن کی نص ہے ”وَقَالَ اَن ظِر نِی اِلیٰ یَو مِ یُب عَثُو نَoقَالَ: اِنَّکَ مِنَ ال مُن ظَرِی نَ“(الاعراف ۵۱)
یاجوج اور ماجوج کی بقاءبھی بعید از قیاس نہیں ہے۔(۶)
مزید برآں جو کچھ انبیاءکی عمروں اور ان کی لمبی زندگی بارے بیان موجودہے۔(۷)اس کے علاوہ بھی ہر زمانہ میں اس زمین پر لمبی عمر رکھنے والے لوگ موجود رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں کبھی کبھار ان کا تذکرہ ہو جاتا ہے ان کی عمر ہی عام انسانوں کی عمر سے زیادہ اور لمبی ہوتی ہیں۔(۸)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بقاءکے دلائل
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حجة الوداع کے موقع پر:
”ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ....“اس کے بعد پورا خطبہ ہے جس میں آپ نے فرمایا....کیا میں نے تمہیں یہ سب کچھ پہنچا دیا، اے اللہ تو گواہ رہنا! تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا اور ایک دوسرے کی گردنوں کو نہ کاٹنا، بتحقیق میں نے تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ اگر تم نے ان کو لے لیا اور ان سے مربوط رہے تو میرے بعد گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب ہے اور میرے اہل البیت علیہ السلام ہیں، اے اللہ تو گواہ رہنا! اور بتحقیق لطیف و خبیر نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے یہاں تک کہ دونوں اکٹھے میرے پاس حوض پر آئیں گے پس تم ان دونوں پر تقدم نہ کرنا وگرنہ تم سب ہلاک ہو جاﺅ گے اور نہ ہی ان کے حق میں کوتاہی کرنا کیونکہ ایسا کرنے سے بھی تم ہلاک ہو جاﺅ گے اور تم ان کو کچھ تعلیم نہ دینا کیونکہ یہ دونوں تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔(مجمع الزوائد ج۹ص۳۶۱،۴۶۱، البغیہ ج۹ ص۸۵۲حدیث ۳۶۹۴۱)السیوطی نے اس روایت کو ابن اخطب سے اخراج کیا ہے(احیاءالمیت ص۰۴۲)اور ایفاءنے المختارہ میں اور ابن عقدہ نے حذیفہ سے اسے روایت کیا ہے(ینابیع المودة ص۷۳ طبع اسلامبول، ج۱ص۱۴ طبع نجف، جواہرالعقدین باب رابع ص۵۳۲)
ابونعیم اور ابن عقدہ نے ابوالطفیل سے نقل کیا ہے(ینابیع المودة ص۷۳ طبع اسلامبول، ج۱ص۱۴ طبع نجف، جواہرالعقدین باب رابع ص۵۳۲)ابن عقدہ نے عامر بن ابی ضمرہ سے اور ام سلمہ سے، جابر سے، ابی رافع سے نقل کیا ہے(ینابیع المودة ص۷۳ طبع اسلامبول، ج۱ص۱۴ طبع نجف، جواہرالعقدین باب رابع ص۵۳۲)ابرار نے اپنی مسند میں اور ابن عقدہ نے ام ھانی سے اسی کو امام زید نے علی سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس وقت رسول اللہ کی مرض شدید ہو گئی اورآپ کاحجرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا میرے پاس حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کو لے آﺅ....ان دونوں کے لئے میرے بعد تکلیف ہو گی، پھر آپ نے فرمایا اے لوگو! آگاہ رہو میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب، اپنی سنت اور اپنی عترت اہل بیت علیہ السلام کو پیچھے چھوڑ کر جا رہا ہوں جس نے اللہ کی کتاب کو ضائع کردیا تو اس نے میری سنت کو ضائع کر دیا اور جس نے میری سنت کو ضائع کر دیا تو اس نے میری عترت کو ضائع کر دیا آگاہ رہو کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میں ان سے حوض پر ملاقات کروں گا۔(مسندالامام زیدص۶۳ باب فضل العلمائ)
اس کا اخراج ابن عقدہ نے جناب فاطمة الزہراءعلیہ السلام سے کیا ہے(ینابیع المودة ص۰۴ طبع اسلامبول، ج۱ص۴۴طبع نجف)
اس حدیث کو حدیث الثقلین کہا جاتا ہے اور یہ حدیث مشہور احادیث سے ہے اور احادیث متواترہ سے ہے اسے بہت سارے حفاظ احادیث نے اپنی اپنی کتب میں روایت کیاہے(سابقہ حوالے کے علاوہ دیکھیں کنزالعمال ج۱ص۶۸۱ص۰۵۹ اور۳۵۹، ترجمة الامیرمن تاریخ دمشق ج۲ص۶۳،۶۴حدیث ۶۳۵،۷۴۵، الفصول المھمہ ص۰۴ ، مصابیح السنہ ج۴ص۵۸۱حدیث ۰۰۸۴ ، المستدرک ج۳ص۳۵، کتاب المغازی)
حدیث ثقلین کی امام مہدی علیہ السلام کی بقاءپر دلالت
المسعودی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ثقلین کا لغوی معنی تحریر کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ طے شدہ امر ہے کہ قرآن مجید اور عترت طاہرہ دونوں دینی علوم کا مصداق و منبع ہیں اور شریعت کے نفائس کا خزانہ ہیں، شرعی رازوں کاخزینہ ہیں، شریعت کی باریکیوں کا مرکز ہیں اور اس سے شریعت کے دقیق نقطوں کا اخراج کرنے کا منبع ہیں، رسول اللہ نے ان دونوں پرثقلین کا لفظ بولا ہے(الرشفة الصادی رشفة ۸۲۱) (مترجم: ثقل وزنی شئے،قیمتی شئے اہمیت والی چیز،قدرت شان والی چیزثقلین کا لفظ دونوں جہانوں پر بھی بولا گیا۔اس حدیث میں پہلا معنی مرادلیا گیا ہے۔اس معنی کو لغث میں بیان کیا گیا ہے۔رسول اللہ نے امت کو یہ راہنمائی دی اوراس پرتاکیدفرمائی اورانھیں شوق بھی دلایا کہ وہ ان دونوں سے علم حاصل کریں یہ دونوں ہدایت کا مرکز ہیں ۔انکی پیروی کریں اوران دونوں سے تمسک رکھیں۔
امام احمد کی حدیث میں آیا ہے ”الحمداللہ الذی جعل فیناالحکمة اہل البیتعلیہ السلام،،تمام حمداللہ کے لیے ہے کہ جس نے ہم اہل البیت میں حکمت ودانائی کو قراردیا ہے۔(فضائل الصحابہ لاحمدج۲ص۴۵۶حدیث۳۱۱۱ذخائرالعقبی صفحہ۰۲،۰۸)اس کے بعدیہ حدیث بھی پڑھیں گے کہ اہل البیتعلیہ السلام امت کے لیے امان ہیں۔(الصواعق المحرقہ میں ابن حجر کی گفتگو اس امر سے شباہت رکھتی ہے اس میں دیکھیں ص۱۵۱طبع مصر ص۱۳۲،۲۳۲ طبع بیروت)
اس کے بعد المسعودی کہتاہے: اس سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ ایسی شخصیت اہل البیت علیہ السلام سے قیامت کی آمد تک موجود رہے گی جو اس بات کی اہلیت رکھتی ہو کہ اس سے تمسک کیا جائے اور اس سے ہدایت لی جائے اور وہ تاکید کرتا ہے کہ ان سے تمسک کیا جائے جس طرح قرآن کریم بھی اسی طرح ہے اسی لئے یہ دونوں امت کے لئے امان ہیں جیسا کہ آگے آئے گا۔اگر یہ دونوں چلے گئے تو پھر زمین ہی نہ رہے گی۔
(جواہر العقدین ۵۴۲،۳۴۲،۷۵۲،۲۶۲باب الرابع، ینابیع المودة ص۳۷۲طبع استمبول اور طبع النجف ص۷۲۳ باب ۷۵)
الخوارزمی نے اللہ تعالیٰ کے قول کو لوامع الصادقین کے ضمن میں اس بات کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ ذات علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں(مناقب الخوارزمی ص۰۸۲،حدیث ۳۷۲۱فصل ۷۱)
جناب رفاعی، ابن حجر، الخفاجی جیسے معروف مورخین نے بھی اسی طرح کی بات انہی کتابوں میں لکھی ہے(دیکھیں المشروع الروی: ج۱ص۰۲،۱۲۔ الصواعق ص۱۵۱ طبع مصر ، طبع بیروت ص۰۳۲،۱۳۲، آیت مودة کی تفسیر میں)
توفیق ابوعلم نے لکھا ہے اس حدیث کے مختلف اسناد کو بیان کرنے کے بعد یہ بات طبعی اور واضح ہے کہ کوئی اقدام جو دینی احکام کے مخالف ہو گا وہ کتاب سے جدائی تصور کیا جائے گا اور نبی پاک نے فرمایا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک اکٹھے حوض پر وارد ہوں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل بیت علیہ السلام سے کوئی عمل ایسا سرزد نہ ہو گا جودینی احکام کے مخالف ہو، اسی طرح یہ حدیث اہل البیت علیہ السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے اور یہ بڑی واضح اور روشن ہے۔(دیکھیں، الاعتصام ج۳ص۴۵۱)
نبی اکرم نے اس حدیث کا متعدد جگہوں پر تکرار فرمایا ہے جس سے آپ یہ چاہتے تھے کہ امت انحراف سے بچی رہے اور صحیح راستہ پر قائم رہے عقائدی اور دینی احکام کے میدانوں میں منحرف نہ ہو۔ اسی لئے بار بار تاکید کی گئی کہ اگر تم قرآن اور اہل بیت علیہ السلام سے میرے بعد تمسک رکھو گے تو پھر تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔
اس کے بعد وہ لکھتاہے: اسی حدیث سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ اہل البیت علیہ السلام سے ہر زمانہ میں کوئی فرد ضرور موجود رہے گااگر کوئی ایک زمانہ بھی اہل البیت علیہ السلام سے خالی ہو گیا تو اس کے نتیجہ میں اہل البیت علیہ السلام کی قرآن مجید سے جدائی ثابت ہو جائے گی جب کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے ساتھ ساتھ ہوں گے، قرآن مجید موجود ہے تو اہل البیت علیہ السلام کے فرد بھی جو قرآن کے ہم پلہ ہیں وہ بھی موجود ہیں دونوں نے اکٹھے حوض کوثر پر وارد ہونا ہے(اہل البیت علیہ السلام لتوفیق ص۸۷،۹۷)
ابن ابی شیبہ نے زین بن حارث سے روایت بیان کی ہے ”انی تارک فیکم الثقلین من بعد کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی وانھمالن یفترقا حتی یردا علی الحوض“
بتحقیق میں تمہارے میں دو خلیفے چھوڑ کر جا رہا ہوں، اپنے بعد، اللہ کی کتاب ہے اور میری عترت اہل البیت علیہ السلام ہے اور یہ کہ دونوں ہرگزایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ دونوں اکٹھے میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔
(المصنف ج۶ص۳۱۳ حدیث ۰۷۶۱۳ کتاب الفضائل باب مااعطی اللہ محمداور جواہرالعقدین ص۶۳۲ الباب الرابع المعجم الکبیرج۵ ص۳۵۱حدیث ۱۲۹۴، مسند احمد ج۵ ص۲۸۱، طبع مصر اور طبع بیروت ج۶ص۲۳۲ حدیث ۸۶۰۱۲،۵۴۱۱۲)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اس حدیث کا معنی کیاہے؟”اور عترت سے مراد کون ہیں؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا میں خود حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی اولاد سے آئمہ علیہ السلام کہ ان کا نواں مہدی علیہ السلام ہو گا یہ سب کتاب اللہ سے جدا نہیں ہوں گے اور کتاب اللہ ان سے جدا نہیں ہوگی یہاں تک کہ دونوں رسول اللہ کے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔(النجم الثاقب ج۱ص۹۰۵)
ان سب بیانات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نبی اکرم کا ہدف یہ تھا کہ آپ امت کو قرآن اور عترت کی فضیلت و عظمت ان کے واسطے بیان کر دیں اور یہ کہ امت ان کے اقوال کو لے ان سے دستورات حاصل کرے، اپنے تمام معاملات میں انہیں مقدم قرار دے، خاص کر الٰہی خلافت کے جو معاملات ہیں، اللہ کی زمین میں کہ خلافت الٰہی کے منصب کے لئے شرط یہ ہے کہ اس منصب پر ایسا شخص ہو جس سے غلطی نہ ہو، بھول چوک سے وہ مبرا ہو، تاکہ امت صحیح راستہ پر باقی رہے اور اسے استحکام ملے، رسول اللہ نے وضاحت کر دی کہ اس صفت کے حاملین فقط قرآن اور اہل بیت علیہ السلام ہیں اور یہ دونوں اکٹھے حجت ہیں ، معصوم ہیں، ہر زمانہ میں یہ دونوں ہوں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ حدیث جو صحیح ہے، متواتر ہے، مسلم ہے، اس کا معنی اور مفہوم صحیح نہیں بنتا مگر اس صورت میں جب ہم اس بات پر ایمان لے آئیں اور یقین کر لیں کہ قرآن کا ہم وزن اور ہم پلہ اس زمانہ میں بھی موجود ہے اور وہ عترت سے ہے اور وہی امام مہدی علیہ السلام ہیں قرآن مجید کی طرح معصوم ہیں اور غلطی سے پاک ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح باقی رہے گا۔ان دونوں کی ذمہ داری مشترکہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر دور میں اسلام کی حمایت کرنا، اسلام کی برتری کوثابت کرنا، اسلام کو تحریف سے محفوظ رکھنا اور وہ ذات سوائے امام مہدی علیہ السلام محمد بن الحسن عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف علیہ وآلہ وآبائہ الاف التحیة والسلام کے کوئی اور نہیں ہے (مترجم:امام مہدی علیہ السلام کے موجود ہونے پر حدیث معرفت امام زمانہ علیہ السلام بھی دلالت کرتی ہے، حدیث متواتر سے ہے کہ آپ نے فرمایا بتحقیق جواس حالت میں مر جائے کہ وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہ رکھتا ہو تو وہ کفر کی موت مرا، یا ہر مسلمان پر ایک امام کی بیعت فرض ہے۔
اسی مضمون کی بہت ساری احادیث ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرے اس کی بیعت کا طوق اپنی گردن میں ڈالے ،اس کے پیچھے چلے، اس کی پیروی کرے یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ہر دور میں امت اپنے لئے امام کا انتخاب کرے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ امام کی معرفت حاصل کرے، معرفت اس کی حاصل کی جاتی ہے جو موجود ہو اور پھر امت کو اس کی پیروی کے لئے حکم دیا گیا ہے پیروی اس کی واجب ہو گی جو معصوم ہو۔
اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آسانی سے آ جاتی ہے کہ اس دور میں بھی امام علیہ السلام موجود ہیں اور وہ معصوم ہیں ان کی معرفت ہر مسلمان پر واجب ہے اگر معرفت حاصل نہ کریں گے تو کفر کی موت مریں گے ۔یہ مفہوم اور معنی اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب اس بارے ایمان لائیں اور یقین کر لیں کہ اس دور کے امام حضرت امام مہدی علیہ السلام بن الحسن العسکری علیہ وعلی آبائہ الاف التحیة والسلام و عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں ، ان کی معرفت حاصل کرنا سب پر واجب ہے اور وہی صاحب الزمان علیہ السلام ہیں، حجت ہیں خلیفة اللہ ہیں، بقیة اللہ ہیں، صاحب العصر ہیں، ولی اللہ ہیں، خاتم الائمہ ہیں، خاتم الخلفاءہیں، سید ہیں۔حدیث معرفت امام، حدیث بیعت اولی الامر، تمام کتب احادیث میں موجود ہے۔مترجم
غیبت کیوں اور کس لئے؟
اس جگہ ایک سوال سامنے آتا ہے کہ امام علیہ السلام اپنے وقت سے پہلے خروج کیوں نہیں کریں گے؟ اور غیبت کا مقصد کیا ہے؟
ہم اس جگہ غیبت کے بارے عملی بحث نہیں چھیڑنا چاہتے بلکہ اس جگہ کچھ اور واقعات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر جواب دینا چاہتے ہیں ۔
غیبت کے جواز کے لئے چند امور پیش کئے جا سکتے ہیں۔
۱۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت جس نے پورے عالم پر حکم چلانا ہے اس کے پورے کارندے اور اسے چلانے والی شخصیات کے مکمل ہو جانے کی خاطر غیبت اختیار کی گئی جو ابھی مردوں کی پشتوں میں موجود تھے جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے، مومنوں کی امانتیں کافر اقوام کی صلبوں میں موجود ہیں اسی طرح حضرت قائم علیہ السلام ہرگز ظہور نہ فرمائیں گے مگر یہ کہ کافروں کی پشتوں میں اور ان کی صلبوں میں جتنے بھی مومنین ہیں وہ سب وجود میں آ جائیں۔ جب تک ایک مومن بھی کسی کافر کی پشت میں موجود ہے اس وقت تک امام تشریف نہ لائیں گے۔ اللہ کی امانتیں جو کافروں کی پشتوں میں رکھ دی گئی ہیں ان سب کا وجود میں آجاناضروری ہے پس جب یہ سب کافروں کی پشتوں سے نکل آئیں گے تو اس وقت آپ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اور سارے کافروں کو قتل کر دیں گے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے، آپ کی آمد سے قبل سب پر حجت تمام ہو چکی ہو گی (کمال الدین ص۱۴۶، بحارالانوار ج۲۵ ص۷۹حدیث ۹۱۔ علل الشرائع ص۷۴۱،۲۲۱ حدیث ۲)
اس کے لئے ایک لمبے زمانہ کی ضرورت ہے۔
۲۔ امت کی چھان پھٹک، انسان اپنی زندگی میں جتنی مشکلات اور پریشانیوں سے گزرتا ہے ان میں گذرکر ایمان پر قائم رہے، اس امت کو بہت ساری آزمائشوں سے گذرنا ہے یہ مصائب کی بھٹی میں کندن ہو کر نکلے اور اس میں یہ صلاحیت سامنے آ جائے کہ وہ عادلانہ حکومت کا استقبال کر سکتی ہے اور عادلانہ حکومت کے سربراہ کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو چکی ہے کیونکہ جب وہ آئیں گے تو انہیں عدل مطلق کو نافذ کرنا ہے جس کی مثال اس سے پہلے دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس کے لئے امت کی تربیت، اس کی آزمائش، اس کی پرکھ ضروری ہے؟
حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں انہیں اس دھرتی پر اس طرح توڑا جائے گا جس طرح سونے کو توڑا جاتا ہے یعنی جیسے خالص سونے کو ناخالص سونے سے جدا کرنے کے لئے اسے آگ میں ڈالا جاتا ہے اسی طرح اس امت کے سامنے بھی کیا جائے گا تاکہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف پلٹ آئے۔
(مختصر البصائر ص۸۲ص۳۳۱، البحارج ۳۵ص۴۴)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”یَو مَ ھُم عَلَی النَّارِ یُف تَنُو نَ“وہ ایسا دن ہو گا کہ انہیں آگ پر آزمایا جائے گا، آگ کی بھٹی میں ڈال کر ان کی آزمائش ہوگی، انہیں پرکھا جائے گا(الذاریات آیت ۳۱)
”اَحَسِبَ النَّاسُ اَن یُّت رَ کُو ا اَن یَّقُو لُو ا اَمَنَّا وَھُم لَا یُف تَنُو نَo“ ”کیا لوگوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ انہیں اسی طرح چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور پھر انہیں آزمائش میں نہیں ڈالاجائے گا۔(سورہ العنکبوت آیت۲)
اس کے ضمن میں بیان ہوا ہے انہیں اس طرح صاف و شفاف کیا جائے گا جس طرح سونے کو صاف و شفاف و چمکیلا اور خالص بنایا جاتاہے....امام نے اس کے بعد مزید فرمایا انہیں اس طرح خالص کیا جائے گاجس طرح سونے کو ملاوٹ سے خالص کیاجاتاہے۔(غیبت نعمانی ص۰۱۲،حدیث ۲)
پرکھنا،چیک کرنا،چھان پھٹک کرنا جس طرح ایک فرد کی ہو گی اسی طرح پوری امت کی بھی من حیث المجموع ہو گی؟ اور وہ کیسے ہوگی؟ امت کی تمحیص کا مطلب امت کی پرکھ نسل درنسل مختلف اداروں، دفتروں، سرکاری ذمہ داریوں اور حکومتی عہدوں، حکومتوں کی تشکیل میں شرکت اور اس میں کام کرنے اور اس کی حمایت یا عدم حمایت کرنے کے ذریعہ ہو گی تاکہ اس لمبی مدت میں جو نقائص سامنے آتے جائیں گے ان کے متبادل سامنے آتے جائیں گے اور نظام احسن اور اجمل اکمل کی طرف امت بڑھتی جائے گی مزید تفصیل آگے آئے گی۔
۳۔ افکار کا کامل ہونا، ذہنی ارتقاءہونافکری ارتقاع حاصل ہوجانا، انسانی علوم کا اتنی ترقی کو پانا کہ وہ عادلانہ اور سائنسی و علمی بنیادوں پر قائم حکومت کی حقیقت کا ادراک کر سکیں اور یہ سائنسی اور علمی اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تبدیلی اور ترقی کرنے سے ہی ہو گا ۔
اللہ تعالیٰ انہیں یہ ساری صلاحیتیں دے گا، ترقی کے اسباب ان لوگوں کے لئے مہیا ہوں گے، خفیہ رازوں سے پردے اٹھیں گے کہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت میں رہنے والوں کے لئے آپ کی غیبت اس طرح ہو جائے گی جس طرح وہ لوگ ان کا مشاہدہ کر رہے ہیں جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے بعد میں ذکر ہوگا۔
۴۔ تمام سیاسی اور اجتماعی منصوبہ جات انسان کی مشکلات حل کرنے کے لئے آزما لئے جائیں، کوئی بھی پلان انسانی فکر اور سوچ میں باقی نہ رہ جائے کہ جس کے متعلق وہ انسان یہ کہہ سکے کہ اگر فلاں شکل یا نظام اپنایا جانا تھا تو انسانی مشکلات کو حل کیا جا سکتا تھا یہ اس لئے تاکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد پر ان کی قیادت بارے کسی کے لئے کوئی اعتراض باقی نہ رہے جیسا کہ حدیث میں اشارہ ملتا ہے۔
امام علیہ السلام فرماتے ہیں”ہماری حکومت آخری حکومت اپنی نوع کے لحاظ سے ہو گی کوئی بھی ایسا خاندان، قبیلہ، گھرانہ ، قوم و ملت اس روئے زمین پر نہ رہے گا مگر یہ کہ ان کی حکومت قائم ہو چکی ہو گی اور وہ سب ہمارے سے پہلے اپنے نظاموں کو اپنا چکے ہوں گے تاکہ جب وہ لوگ ہمارے نظام حکومت کو دیکھیں اور حکومتی معاملات میں ہماری روش کا مشاہدہ کریں تو وہ یہ نہ کہیں کہ اگر ہمیں حکومت ملی ہوتی تو ہم بھی ایسا ہی نظام اپناتے اور اس طرح حکومت چلاتے، یعنی جو بھی اس روئے زمین پر حکومت کر سکیں گے وہ ہم سے پہلے حکومت کر لیں گے ہماری حکومت سب کے لئے نئی ہو گی اور اس کی مثال پہلے موجود نہ ہو گی اور کوئی بھی اس قسم کے دعویٰ کرنے والا موجود نہ ہو گا کہ وہ یہ کہہ دے کہ ہمیں حکومت ملتی تو ہم بھی ایسا کرتے سارے اپنا اپنا دور پور کر چکے ہوں گے۔(بحارالانوار ج۲۵ص۲۳۲،حدیث۸۵)اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔
امام حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دیدار کا امکان
فرقہ امامیہ کے ہاں یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ امام غیب کو دیکھنا ممکن ہے غیبت صغریٰ میں تو اجماع ہے اور غیبت کبریٰ کے بارے بھی مشہور نظریہ یہی ہے۔
پہلا دیدار
بظاہر پہلا دیدار جو غیبت صغریٰ میں حاصل رہاوہ آپ کے چار سفراءرحمھم اللہ تھے اسی طرح کچھ اورافراد کو بھی یہ سعادت حاصل ہوتی رہی ۔
جب کہ دوسری قسم کا دیدار تو یہ کسی ایک فرد کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر شخص آپ سے ملاقات کر سکتا ہے لیکن یہ دیدار اورملاقات اس صورت میں حاصل ہو گی جب وہ ساری شرائط موجود ہوں جو امام غائب سے ملاقات کے لئے ضروری ہیں۔
امام غائب سے ملاقات اور آپ کے دیدار کی شرائط
پہلی شرط
آپ علیہ السلام کا دیدار کرنے والا شخص آپ علیہ السلام کے خاص موالیوں سے ہو جیسا حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے ۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا:”قائم کے لئے دو غیبتیں ہیں ایک دوسری سے مختصر اور چھوٹی ہو گی اور دوسری لمبی غیبت ہو گی، پہلی غیبت میں آپ علیہ السلام کی رہائش کے بارے کسی کو آگہی نہیں ہو گی مگر آپعلیہ السلام کے خاص شیعوں کو معلوم ہو گاکہ آپ کس جگہ رہائش پذیر ہیں جب کہ دوسری غیبت میں آپعلیہ السلام کے خاص موالیوں(موالیوں کا مقام و درجہ اس روایت کے مطابق آپ علیہ السلام کے خاص شیعوں سے زیادہ ہے اور موالیوں میں سے بھی سب سے زیادہ قرب والے افراد جو بہت ہی خاص ہوں گے ان کے لئے یہ سعادت حاصل ہو گی)کے سوا کوئی بھی آپعلیہ السلام کی رہائش سے آگاہ نہ ہوگا۔
(اصول الکافی ج۱ص۰۴۳ حدیث۹۱، باب الغیبة الغیبت نعمانی ص۹۸)
دوسری شرط
کوئی مصلحت موجود ہو کہ جس کا حصول ملاقات کے بغیر ممکن نہ ہو، جیسے اسلام کی حیثیت خطرہ سے دوچار ہویاکوئی ایسا واقعہ درپیش ہو جس میں مسلمانوں کی ہلاکت اور تباہی کا خطرہ ہو یا کوئی اور اہم مسئلہ ہو کہ جس کی حقیقت کو واضح کرنا اسلام کی حقانیت،حیثیت اور شان بچانے کے واسطے ضروری ہو۔
جب ہم ان لوگوں کے حالات پڑھتے ہیں کہ جنہوں نے امام غائب علیہ السلام سے ملاقات کی ہے تو اس سے یہی کچھ معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی لوگوں کی زندگی بچانے کا مسئلہ درپیش ہوا جیسے بحرین کے شیعوں کا واقعہ ہے یا کوئی شرعی مسئلہ تھا یا اسی سطح کے کچھ اور امور تو اس میں امام علیہ السلام نے ملاقات فرمائی اور وہ اس خاص مصلحت کی خاطر جس کا حصول ضروری سمجھا گیاایسی ملاقات ہوئی۔
تیسری شرط
بعض لوگوں کی حاجت روائی کے حوالے سے ملاقات کا ہونا، کسی شخص کو اپنی ذات کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش رہا یا کسی اور کوکوئی مسئلہ درپیش تھا اور وہ شخص امام علیہ السلام سے اس کا حل چاہتا ہے کہ امام علیہ السلام سے ملاقات کے بغیر اس حاجت کے پورے ہونے کا امکان نہ ہو تو پھر دیدار ہوتا ہے اور ایسے واقعات بھی تاریخ کے اوراق میں موجودہیں۔
چوتھی شرط
غیبت کے زمانہ میں دیدار اور ملاقات کرنے والاشخص اس بات کا پابندہو کہ اس نے اس ملاقات کا اعلان نہیں کرنا نہ ہی اس واقعہ کو مشہور کرنا ہے، یہ بات اس تحریر سے ثابت ہوتی ہے جو امام علیہ السلام نے شیخ مفیدؒ کو لکھی ہے جس میں آپ علیہ السلام کا یہ فرمان موجود ہے”اس بات کو محفوظ کر لو اور کسی کو ہمارا یہ خط مت دکھاﺅ جو ہم نے تحریر کیاہے جو کچھ اس خط میں موجود ہے اور جس کی ہم نے کسی ایک کے لئے ضمانت اس خط میں دی ہے“۔(الزام الناصب میں لفظ بمالہ کی جگہ بمافیہ ہے، دیکھیں بحارالانوار ج۳۵ ص۶۷)
(مترجم:اس شرط سے مراد یہ ہے کہ دیدار کرنے والا اپنی زندگی میں ایسا نہ کرے کیونکہ امام علیہ السلام نے اپنے آخری نائب کے ذریعہ تمام شیعوں کے لئے یہ حکم دے دیا ہے کہ میری غیبت کے زمانہ میں اگر کوئی شخص مشاہدہ اور دیدار کا دعویٰ کرے تو اس کو جھٹلا دو، اس طرح دعویٰ کرنے والے کی توہین ہو گی اگرچہ وہ سچ بول رہا ہوگا، دوسرا امراس قسم کے اعلان میں اور بہت ساری خرابیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے امام علیہ السلامنے منع فرما دیا البتہ اس شخصیت کی وفات کے بعد اس کی تحریروں سے اس واقعہ کا ثابت ہو جانا اس بات پر دلیل ہے کہ امام علیہ السلام نے اس سے منع نہیں کیا)
ایک سوال: اس جگہ یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ شرط شیخ مفیدؒ کے زمانہ کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن یہ ہمارے زمانہ کے لئے شاید ایسا نہ ہو، ہمارے زمانہ میں یہ پوچھا جا سکتا ہے امام علیہ السلام کے خط کو دیکھنا یا اس خط سے کسی رائے کولینا خاص امورکے بارے میں تو اس بارے کیا مانع اور کون سی رکاوٹ ہے یہ درست ہے کہ شیخ مفیدؒ کے زمانہ کے بعد ان کے پاس جو خطوط آئے اس سے کسی رائے کو اخذ کرنا اور اس سے استفادہ تو اس میں مانع نہیں ہے۔
جی ہاں! یہ بات معین مصلحت کے مطابق ہو گی اور دقیق اہم خصوصیات کی روشنی میں جو زیارت کرنے والے کو حاصل ہیں ہر ایک کے لئے ایسا نہیں ہے۔
پانچویں شرط
علامہ طباطبائی نے شیخ مفیدؒ کے حالات زندگی میں جو کچھ لکھا ہے اس سے جو استفادہ ہوتا ہے۔ آپ نے شیخ مفیدؒ کے لئے جو توقیعات جاری فرمائی ہیں ان کو ذکر کرنے کے بعد علامہ کی بات سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ دیدار کرنے والاشخص جس وقت امام علیہ السلام سے ملاقات کر رہا ہوتا ہے تو اس حالت میں وہ اس ملاقات کا اعلان نہ کرے(البتہ ملاقات ختم ہو جانے کے بعداور امام علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد اگر اس ملاقات بارے بیان کرے تو اس سے ممانعت موجود نہیں ہے)
بعد والے صفحات میں ایسی روایات بیان ہوں گی کہ جن سے ان پانچ شرائط کو سمجھا جا سکتاہے۔ البتہ یہ پانچ شرائط علت تامہ کے عنوان سے نہیں ہیں اور نہ ہی اس لحاظ سے ہیں کہ یہ پانچ شرائط علت نامہ کے اجزاءہیں جب سارے پورے ہو جائیں تودیدار ہوجانا ہے اور یہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ کچھ ایسے معیار ہمارے پاس موجود ہوں کہ جن کی روشنی میں جو شخص امام علیہ السلام سے ملاقات کا دعویٰ کر رہا ہے اسے پرکھا جا سکے کیونکہ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بے وزن اور بے حیثیت بات ہے کہ ہرایک جب چاہے اس قسم کا دعویٰ کر دے اگر ملاقات کا مسئلہ اتنا آسان اور مکمل ہوتا اور ہر ایک کی دسترس میں یہ بات ہوئی تو پھر غیبت کی حکمت ہی ختم ہو جاتی ہے بلکہ امام علیہ السلام کا دیدارایک لطف الٰہی ہے جس کسی کو یہ نصیب ہو اور یہ توآئینہ دل کی پاکیزگی اور ثقافیت کو سامنے رکھ کر تقویٰ کی منزلوں کو طے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندگان میں سے بھی جس پر اپنا لطف و کرم فرما دے اورپھر اس شخص کواپنے امام علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو جائے۔(مترجم۔۔اللھم ارزقنا رویتہ وزیارتہ و دعائہ، اللھم ارنا الطلعة الرسیدہ والفرة الحمیدہ)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دیدار واسطے شرعی ذرائع
جو شرائط زیارت اور دیدار کے لئے بیان کی ہیں ان کے علاوہ بعض ایسے وسائل اوراعمال اہل البیت علیہم السلام کی زیارت اور دیدار کے لئے آئمہ اہل البیت علیہم السلام سے وارد ہوئے ہیں کہ جو شخص ان اعمال کو باقاعدگی سے انجام دے تو اس کےلئے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا دیدار اور آپ کی زیارت ممکن ہو جائے گی اور باقی آئمہ علیہم السلام کی زیارت بھی ممکن ہو گی مزید استفادہ کے لئے ان وسائل اوراعمال کوبیان کرتے ہیں جن کے ذریعہ آئمہ اطہار علیہم السلام کے چلے جانے کے بعد یا ان کی غیبت کے زمانہ میںزیارت اورملاقات کا امکان حاصل ہو جاتا ہے ممکن ہو جاتاہے۔
پہلا طریقہ:
اہل البیت علیہم السلام کی زیارت کے لئے
یہ روایت ہے جسے شیخ مفیدؒ نے اپنی کتاب ”الاختصاص میں ابوالمصری کے ذریعہ سے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت کیا ہے ۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے جس شخص کے لئے اللہ کی جناب میں کوئی حاجت ہو اور وہ ہمارا دیدار چاہتا ہو اور یہ کہ وہ اپنی جگہ اور مقام جاننا چاہے تو اس پر ہے کہ وہ مسلسل تین رات غسل کرے اور ہمارے وسیلہ سے مناجات کرے تو وہ ہمیں دیکھے گا، ہماری زیارت اسے ہو گی اور ہمارے وسیلہ سے اسے بخش دیا جائے گا اور اس پر اس کا مقام پوشیدہ نہ ہوگا۔(الاختصاص ص۰۹)
دوسرا راستہ:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپعلیہ السلام نے فرمایا:جو شخص ہر فریضہ کے بعد حسب ذیل دعا کو باقاعدگی سے پڑھے گا تو وہ حضرت امام محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام کی زیارت سے شرفیاب ہوگا بیداری میں اور خواب میں بھی وہ دعا یہ ہے:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم اللھم بلغ مولاناصاحب الزمان اینما کان وحیثما کان، من مشارق الارض و مغاربھا سھلھا و جبلھا عنی وعن والدی واخوانی التحیة والسلام، عددخلق اللہ وزنة عرش اللہ و مااحصاہ کتابہ و احاط علمہ، اللھم انی اجد فی صبیحة یومی ھذا الیوم وما عشت فیہ من ایام حیاتی، عہدا وعقدا و بیعة لہ فی عنقی، لا احول عنھا ولا ازول، اللھم اجعلنی من انصارہ والذابین عنہ، والممتثلین لاوامرہ و نواھیہ فی یامہ، و من المستشہدین بین یدیہ، اللھم ان حال بینی وبینہ الموت الذی جعلتہ علی عبادک حتما مقضیا، فاخرجنی من قبری موتز راکفنی، شاہرا سیفی، مجرد اقناتی، دعوة الداعی فی الحاضر و البادی، اللھم ارنی الطلعة الرشیدہ، والغرة الحمیدة، واکحل بصری بننظرة الیہ، وعجل فرجہ، وسھل مخرجہ، اللھم اشدد ازرہ وقوہ ظہرہ، وطوّل عمرہ، اللھم اعمر بہ بلادک، واح ¸ بہ عبادک فانک قلت و قولک الحق ظہر الفساد فی البرو البحر بما کسبت ایدی الناس، فاظہر اللھم لناولیک، وابن بنت نبیک، المسمی باسم رسولک، صلواتک علیہ وآلہ حتیٰ لا یظہر بشی من الباطل الامزّقہ، ویحق اللہ الحق بکلماتہ و یحققہ اللھم اکشف ھذہ اکفمہ عن ھذہ الغمة بظہورہ، انھم یرونہ بعید او نراہ قریباً وصلی اللہ علی محمدوآلہ“۔(بحارالانوار ج۶۸ص۱۶ص۹۶، ابن الباقی کی کتاب سے نقل کیا ہے، باب سائرہ مایستحب عقیب کل صلاة)
تیسرا طریقہ
اسے جنتة الواقعیہ میں شیخ ابراہیم الکفعمی نے نقل کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے اپنے اصحاب کی بعض کتابوں میں یہ پڑھا ہے کہ جو شخص انبیاءعلیہم السلام سے کسی ایک کو یا اپنے والدین کو نیند میں ملنا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ ”سورہ والشمس، القدر، الحجہ، الاخلاص، المعوذتین“ کو پڑھے اس کے بعد سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور محمد وآل محمد پر صلوات سو مرتبہ پڑھے۔وضو کی حالت میں دائیں جانب سو جائے تو وہ جسے چاہتا ہے اس کا دیدار کرے گا اللہ تعالیٰ اور ان سے جو بھی سوال کرنا چاہتا ہے ۔ بات چیت اور گفتگو بھی کر سکے گا اور سوالات کے جوابات بھی لے سکے گا۔
(بحارالانوار ج۳۵ص۹۲۳)
چوتھا طریقہ:
یہ وہی تیسرا طریقہ ہی ہے لیکن اس میں اضافہ یہ موجود ہے کہ اس عمل جواوپر بیان ہوا ہے سات رات انجام دے لیکن ان اعمال کو اس دعا کے بعد انجام دے گا، وہ دعا یہ ہے۔
”اللھم اتت الح ¸ الذی لا یوصف والایمان یعرف منہ، منک بدئت الاشیاءوالیک تعود، فما اقبل منھا کنت ملجاہ ومنجاہ، وما ادیر منھا لم یکن لہ ملجا ولا منجاءمنک الاالیک، فاسالک،
بسم اللہ الرحمن الرحیم و بحق حبیبک محمد و بحق علی خیرالوصیین علیہمالسلام و بحق فاطمہ سیدة نساءالعالمین سلام اللہ علیہا، و بحق الحسن علیہ السلام و الحسین علیہما السلام اللذین جعلتھما سیداشباب اہل الجنة اجمعین، ان تصلی علی محمد وآلہ واہل بیتہ وان ترینی میتی“(اس جگہ اپنے مرحوم کا تصور کرے جس سے ملاقات چاہتا ہے یا پھر میتی کی جگہ جس نبی کی یا امام کی زیارت چاہتا ہے اس کا نام لے مترجم)
اس دعا کو علی بن طاﺅوس نے فلاح السائل میں یہ کہتے ہوئے نقل کیا ہے کہ جس وقت تم اپنے میت کی ملاقات کا ارادہ کرو تو باوضواور طہارت کے ساتھ سوﺅ۔ اور اپنی دائیں جانب لیٹ جاﺅ اور بی بی زہراءسلام اللہ علیہا کی تسبیح پڑھو۔(بحارالانوار ج۳۵ص۹۲۳)
پانچواں طریقہ:
شیخ الکفعمیؒ نے اپنی کتاب جنة الماوی میں بیان کیا ہے، سونے سے پہلے دعاءالمجیر کو سات دن مسلسل روزے رکھنے کے بعد ہر رات سات مرتبہ با طہارت ہو کر پڑھنے سے زیارت نصیب ہو گی۔(بحارالانوار ج۳۵ص۰۳۳)
چھٹا طریقہ:
روایت کی گئی ہے کہ جو شخص جمعہ کی شب، شام کی نماز پڑھنے کے بعد(با نماز تہجد کے بعد.... از مترجم)سورہ الکوثر کو ہزار مرتبہ پڑھے اور ہزار مرتبہ درود شریف پڑھ لے تو نیند کی حالت میں نبی اکرم کی زیارت کرے گا۔(بحارالانوار ج۳۵ص۱۳۳)
ساتواں طریقہ:
فلاح السائل میں ابن طاﺅوس نے امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت نیند کی حالت میں کرنے کے لئے روایت کیا ہے، جب تم اس بات کا قصد کر لو تو سونے کے لئے آمادہ ہو جانے پر یہ پڑھو۔
”اللھم انی اسئلک یا من لطفہ خف ¸، و ایادیہ باسطة لا تنقضی، اسالک بلطفک الخفی، الذی ما لطفت بہ احدا الاکفی، ان ترینی مولا ¸ علی بن ابی طالب علیہ السلام “
آٹھواں طریقہ :
اسے مجمع الدعوات میں بیان کیا گیا ہے، جو شخص یہ چاہے کہ خواب میں نبی اکرم کی زیارت کرے تو وہ شب جمعہ نماز مغرب پڑھے اور اس کے بعد مسلسل درود کو ورد کرتا رہے یہاں تک کہ نماز عشاءکا وقت ہو جائے اور وہ نماز عشاءپڑھے اور کسی سے بات نہ کرے۔ پھر دو رکعت نماز ادا کرے، ہر رکعت میں سورہ الحمد ایک مرتبہ اورسورہ اخلاص تین مرتبہ پڑھے، جب نماز سے فارغ ہو جائے تو اٹھ جائے پھر دو رکعت نماز پڑھے ۔ان میں سورہ فاتحہ پڑھے ایک دفعہ اور سورہ قل ھواللہ احد سات مرتبہ پڑھے۔ سلام کے بعد سجدہ کرے اور سات مرتبہ درود شریف پڑھے اور یہ تسبیحات اربعہ کو پڑھے۔”سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوة الا باللہ“
ان کلمات کو سات مرتبہ پڑھے، پھر سجدہ سے سر اٹھا لے اور سیدھا بیٹھ جائے اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کرے اور پڑھے:
”یاحی یا قیوم یا ذوالجلال والاکرم یا الہ الاولین والاخرین یا رحمان الدنیا والآخرة ورحیمھا، یا رب یا رب“
پھر کھڑا ہو جائے اور دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دے اور یہ دعا پڑھے:
یارب، یا رب، یا رب، یاعظیم الجلال، یا عظیم الجلال، یا عظیم الجلال، یا بدیع الکمال، یا کریم الفعال، یا کثیرالنوال، یا دائم الافضال ، یا کبیر یا متعال، یا اول بلامثال، یا قیوم بغیر زوال، یا واحد بلا انتقال، یا شدیدالمحال، یا رازق الخلائق علی کل حال، ارنی حبیبی و حبیبک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی منامی، یا ذوالجلال والاکرام“
پھر اپنے بستر پر جا کر سو جائے قبلہ رخ ہو، دائیں پہلوسوئے، مسلسل درود شریف کا ورد جاری رکھے، یہاں تک کہ اسے نیند آ جائے۔
(بحارالانوار ج۱۹، ص۰۸۳، حدیث ۳ باب الصلاة و الدعاءعندالنوم)
نواںطریقہ:
بحار میں ہے(ج۸۶ ص۷۷ باب ۹۳حدیث ۱۱) جنة الاماں سے نقل کیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخص صبح اور ظہر کی نماز کے بعد یہ پڑھے”اللھم صل علی محمدوآل محمدو عجل فرجھم“باقاعدگی کے ساتھ تو قائم آل علیہ السلام محمد کو پا کر مرے گا یعنی اسے زیارت نصیب ہو گی۔
دسواں طریقہ:
الشیخ الجلیل الحسن بن الفضل الطبرسیؒ نے روایت بیان کی ہے مکارم الاخلاق میں ہر فریضہ نماز کے بعد اس دعا کو پڑھے اور اس میں باقاعدگی کرے زندگی بھر کا ورد بنائے تو اسے صاحب الامر علیہ السلام کی زیارت نصیب ہو گی۔
اللھم صل علی محمدوآلہ محمد اللھم ان رسولک الصادق المصدق....آخر تک دعا (مکارم الاخلاق ص۹۴۱ )
گیارہواں طریقہ:
بحارالانوار ج۶ ص۱۶باب ۸۳، حدیث ۹۶، از ادالمعاد ص۳۸۴ میں بیان ہوا ہے اور کتابوں میں بھی آیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے انوار النعمانیہ کی روایت ہے۔
اسی دعا کوچالیس صبح پڑھا جائے تو وہ شخص حضرت قائم علیہ السلام کے انصار سے ہوگا اگر پہلے مرگیا تو اسے دوبارہ زندہ کیاجائے گا امام علیہ السلام کے ساتھ مل کر دشمنوں کے خلاف جہاد کرے گا۔
ہر کلمہ کے بدلے ایک ہزار نیکی درج ہو گی اور ایک ہزار گناہ معاف ہوں گی یہ دعا معروف دعا ہے اور دعائے عہد کے نام سے پڑھی جاتی ہے جو کہ مفاتیح الجنان میں حضرت امام زمان (عج)کے بارے زیارات اور دعاﺅں کے باب میں موجود ہے”یارب النور العظیم....“سے شروع ہوتی ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات آپ کے دیدار کی کیفیت کے حوالے سے تحقیقی بحث
یہ بات تو گذر چکی کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کادیدار ممکن ہے لیکن اس دیدار اور ملاقات کی کیفیت کیا ہو گی؟کیا یہ ملاقات نیند کی حالت میں ہو گی یا بیداری کی حالت میں یا دونوں حالتوں میں، دونوں صورتیں ممکن ہیں، پھر کیا یہ امر امام مہدی علیہ السلام اور باقی آئمہ علیہ السلام اور انبیاءکرام کے حوالے سے ایک ہی ہے یا اس میں فرق موجود ہے؟اس بارے کافی ساری صورتیں ہیں جن بارے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بارے تفصیلی بحث شروع کرنے سے پہلے دیدار کے متعلق بعض دلائل کا ذکر کرنا ضروری ہے اور یہ کہ ان سے کیا استفادہ ہوتاہے؟!
پہلی دلیل:
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دیدار اور آپ سے ملاقات کے حوالے سے جو دلیل ہے وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ فرمان ہے ”قائم علیہ السلام کے واسطے دو غیبتیں ہیں ایک غیبت چھوٹی اور مختصر ہے دوسری غیبت طولانی ،لمبی ہے پہلی غیبت میں آپکی رہائش کا علم نہ ہو گا مگر آپکے خاص شیعوں کو، اور دوسری غیبت میں آپکی رہائش اور ٹھہرنے کی جگہ کا علم نہیں ہو گامگر آپ کے خاص موالیوں کو(اصول الکافی ج۱ص۴۳حدیث۹۱)
دوسری دلیل:
ابوبصیر کی روایت ہے کہ حضرت ابوعبداللہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا” اس امر کے صاحب کے لئے ایک غیبت ضروری ہے اور اس غیبت میں تنہائی کا ہونا بھی ضروری ہے، بہترین جگہ ان کے لئے طیبہ ہے(طیبہ سے مراد مدینہ ہے لیکن میں نے ایک روایت دیکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طیبہ امام صادق علیہ السلام کی ایک زمین(زرعی زمین) کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھی ہو سکتا ہے وہ جگہ مرادہو۔مترجم)(البصائر ۴۲۲۱، باب فی ان الامام یرای ملک الموت و جبرئیل)
اور تیس افراد میں رہنے سے کوئی وحشت اور پریشانی نہیں ۔
(اصول الکافی ج۱ ص۴۲ حدیث ۶۱ باب الغیبة)
آپ کے اس قول کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ تیس افراد کے ساتھ رہنے میں کوئی وحشت و ڈر نہیں تو اس سے مراد یہ لی جا سکتی ہے کہ تیس افراد آپ سے رابطہ میں ہوں گے کیونکہ لوگوں کی عمریں تو اتنی طولانی نہیں ہوں گی تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مختلف زمانوں میں سے ہر زمانہ میں آپ کے ساتھ تیس افراد سے ملاقات رہے گی اور تیس افراد آپ سے رابطہ میں ہوں گے۔
تیسری دلیل:
یہ روایت ہے جسے شیخ صدوقؒ نے اپنی کتاب کمال الدین میں اس جوان کے حوالے سے نقل کیا ہے جس نے کعبہ کے دروازے کے پاس امام علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔
امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
اے ابوالحسن! تم کیا چاہتے ہو؟
جوان کہتا ہے: اس امام کو چاہتا ہوں جو اس عالم میں محبوب ہے اور پردہ میں ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ تم سے محجوب نہیں ہے لیکن تمہارے اعمال نے انہیں تمہیں سے محجوب کر رکھا ہے اوروہ پردے کے پیچھے ہیں۔(بحارالانوار ج۳۵ص۱۲۳)
چوتھی دلیل:
جو شرعی اعمال اور ذرائع امام کی روایت اور دیدار واسطے بیان کیے گئے ہیں تو یہ سب آپ کی زیارت کے امکان پر دلالت کرتے ہیں اور ان کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔
پانچویں دلیل:
علماءکرام کے آپ کی زیارت کے ممکن ہونے پر اقوال و بیانات ہیں۔ شیخ الطوسیؒ نے فرمایا ”ہم اس بات پر یقین نہیںرکھتے کہ آپ اپنے سارے اولیاءسے پردہ میں ہیں، بلکہ یہ بات درست ہے کہ آپ اپنے اولیاءمیں سے بہت ساروں کے واسطے ظاہر ہوںگے اور ہر شخص اس کو نہیں جان سکتا مگر ہر ایک کو خود اپنے بارے پتہ ہے۔
(کتاب غیبت ص۵۷)
علامہ السید مرتضیٰ نے اپنی کتاب تنزیہ الانبیاءمیں فرمایا ہے: یہ بات ممتع نہیں ہے کہ امام علیہ السلام اپنے بعض اولیاءکے لئے ظاہر ہوں گے جس سے ملاقات کرنے میں وہ خوف اور ڈر موجود نہ ہو جس کی بناءپر غیبت اختیار کی گئی ہے اور اس ملاقات میں دین کے لئے کوئی خطرہ بھی نہ ہو اور نہ ہی آپ کی اپنی جان کواس سے کوئی خطرہ ہو۔
ابن طاﺅوس نے اپنی کتاب ”کشف الحجة ، عن ثمرة المحجة“ میں لکھا ہے غیبت آئمہعلیہ السلام کے لئے دلیل اور حجت ہے اور آپ کے جو مخالفین ہیں ان پر آپ کی حقانیت پر بھی دلیل ہے اور آپ کی امامت کاعقیدہ نبوت پر دلیل ہے اور آپ کی غیبت کے صحیح ہونے پر بھی دلیل ہے، جب کہ آپ اللہ تعالیٰ عزوجل کی مشیت سے حاضر اور موجود ہیں، بات دراصل یہ ہے کہ وہ تو غائب ہیں ان لوگوں سے جو ان کی غیبت کی وجہ سے آپ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ ایسے افراد رب العالمین کی پیروی اور اتباع کرنے سے خود غائب ہیں۔
آپ کی یہ گفتگوبہت ہی متین اور دقیق ہے اور بہت بڑی بات آپ نے کی ہے؟یہ بات حق اور سچ ہے اور بالکل درست ہے ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام غائب نہیں ہیں ولادت کے وقت سے لے کر اب تک وہ تو موجود ہیں ہم ان کی خصوصیات اور اور حضوری سے غائب ہیں۔ ہم غائب ہیں وہ تو موجود اور حاضر ہیں، ہمیں ہمارے برے اعمال نے ان سے غائب کیا ہے ہماری بری عادتوں نے ہمیں ان کی حضوری سے محروم رکھا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت اور رحمانیت والی رحمت کے صدقہ میں ہماری فریاد سن لے اور ہمیں اپنے سردار، امام، آقا، امام مہدی روحی و ارواح العالمین لہ الغداءعجل اللہ فرجہ الشریف، کی زیارت کا شرف عطا فرمائے۔
(مترجم....آپ ایک آئینہ فرض کریں، جو زنگ آلودہو اس کے سامنے آپ کھڑے ہوں تو اس میں آپ نظر نہیں آئیں، اگر اسپر گرد پڑی ہے تو پہلے اس گردکو آپ صاف کریں تب اس میں اپنا چہرہ دیکھ سکیں گے، اسی طرح ہمارے دل کا حال ہے دل آئینہ کی مانند ہے اور دل رحمان کا گھر ہے، دل رحمان کے نمائندوں کا گھرہے، دل اہل البیت علیہ السلام کے لئے ہے ان کے اغیار کے لئے نہیں ہے، لیکن اگر دل تزکیہ شدہ نہ ہو، صاف شفاف نہ ہو،تواس دل میں رب رحمان ملے گا نہ ہی اس کا نمائندہ صاحب الزمان ملے گا، ظاہری آنکھوں سے دیدار کا تعلق دل کی صفائی سے ہے، گناہوں کی وجہ سے جب انسان کا آئینہ دل کثیف اور زنگ آلود ہو جائے تو اس میں امام کا نورانی چہرہ نہیں دیکھا جا سکتا، امام تو حاضر اور موجود ہیں اور ہر وقت موجود ہیں، ان کے لئے کائنات کاعلمی احاطہ ہے اللہ تعالیٰ کے اذن و ارادہ سے پوری کائنات پر ان کا تسلط ہے اور احاطی علم بھی پوری کائنات پر ان کاہے۔ہمارے دل کی سکرین پر ان کی آمداس وقت ہو گی جب شرط پوری ہو گی دنیا کے کسی کونے میں ایک واقعہ ہوتا ہے تو وہ حالت اور واقعہ وہ فضاءمیں موجود ہے کیمروں کی آنکھوں نے اسے محفوظ بھی کر لیاہے۔
ممکن ہے میرے گھر سے ہزاروں میل دور کا فاصلہ ہو میں گھر میں بیٹھ کر ٹی وی کی سکرین پر اسے دیکھ سکتا ہوں لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ میرے پاس ٹی وی موجود ہو، بجلی ہو، اس چینل کوکیچ کرنے والی ڈش موجود ہو پھر بٹن اور سوئچ آن کرنے کا طریقہ آتا ہو اور پھر سوئچ آن بھی کرے اور اس خاص نمبر پر لگائے تو وہ پورا واقعہ جو ہزاروں میل دور ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے اسی طرح امام جو مرکز و محور کائنات ہیں تو اللہ رب العالمین ان کے لئے غیب نہیں بلکہ اللہ ان کے لئے حاضر وموجود ہیں وہ جلی ہیں، روشن ہیں،تووہ پاکیزہ دل میں آتے ہیں،دل صاف کر لیں، ارادہ کر لیں اپنے اندر دیدار کی ساری شرائط پوری کر لیں تو پھر ہر آن زیارت اور ملاقات ہو سکتی ہے یہ امر نہ عجیب ہے اور نہ ہی ممنوع ہے شرعاً اس کے جواز پر دلائل موجود ہیں عقلی کوئی قباحت موجودنہیں۔ خرابی دیکھنے والے میں ہے جیسے وہ خرابی دور ہو گی اور جو بھی اس خرابی کو دور کر لے گا جو دیدار کے لئے رکاوٹ ہے تو پھر دیدارہوناممکن ہی نہیں بلکہ بالفعل ہو بھی جائے گ
اعتراض اور جواب
ان روایات اور اقوال اور بیانات کے بعد جو اوپر ذکر ہوئے ہیں ان بیانات کی حیثیت نہیں رہتی جو امام مہدی علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کے عدم جواز پر ہیں شاید ان سب دلائل میں سب سے اہم دلیل وہ بیان ہے جسے شیخ الطوسی نے اپنی کتاب غیبت میں اور علامہ الطبرسی نے اپنی کتاب احتجاج میں نقل کیا ہے کہ:
جو توقیع ناحیہ مقدسہ سے آپ کے آخری نائب جناب ابی الحسن السمری کے نام جاری ہوئی اس میں امام علیہ السلام نے تحریر فرمایا”یا علی بن محمد السمری، یہ بات غور سے سن لو، کہ تیرے حوالے سے جو مصیبت تیرے بھائیوں پر آنے والی ہے اللہ تعالیٰ اس کا انہیں بڑا اجر عطا فرمائے، کیونکہ بتحقیق تم نے مرنا ہے چھ دن کے اندر اندر تیری موت واقع ہو گی۔
تم اپنے معاملے کو مخفی رکھو اور کسی کو وصیت نہ کرو جو تمہارا قائم مقام بنے کیونکہ اب سے مکمل غیبت شروع ہو گئی ہے اب ظہور نہیں ہو گا مگر اللہ تعالیٰ کے اذن ملنے کے بعد اور اس لمبی مدت گزرنے کے بعد دلوں کے سخت ہو جانے کے بعدعنقریب میرے شیعوں سے کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو یہ دعویٰ کریں گے کہ انہوں نے میرے ساتھ حضوری میں ملاقات کی ہے، تو آگاہ رہو جو شخص بھی سفیانی کے خروج سے پہلے اور آسمانی آواز آنے سے پہلے مشاہدہ اور حضوری ملاقات کا دعویٰ کرے تو وہ شخص بڑا جھوٹا ہے اور افتراءپرداز ہے۔”ولاحول ولاقوة الا باللہ العلی العظیم“
(غیبت شیخ طوسی ۷۵۲، کمال الدین ج۲ص۲۹۱)
تبصرہ
یہ روایت میری کوتاہ علمی کے باوجود اس موضوع سے غیر متعلق ہے جس کی ہم اوپر بات کر آئے ہیں کیونکہ اس میں اس قسم کے دیدار اور ملاقات کی نفی کی جا رہی ہے جو غیبت صغریٰ میں بعض خاص شیعوں کے لئے حاصل رہی اور باقاعدگی سے نمائندگی کا ایک سلسلہ تھا اور اس شخص کا امام علیہ السلام سے رابطہ تھا اور لوگ اس کے ذریعہ اپنے مسائل امام علیہ السلام تک پہنچاتے اور ان کا جواب دیتے تھے کیونکہ اس تحریر کے ذریعہ اس خصوصی سفارت اور نیابت کا سلسلہ بند کیا جا رہا ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ کچھ شیعوں سے ایسے لوگ ہوں گے جو اس قسم کا دعویٰ کریں گے کہ وہ امام علیہ السلام سے رابطہ میں ہیں اور خود کو امام کا نمائندہ خصوصی ظاہر کریں گے تو ایسے شخص کو جھٹلایا جائے وہ افتراءپرداز ہے کیونکہ اس کے بعد آپ کااس قسم کا رابطہ کسی سے نہ ہو گا خصوصی نمائندگی کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس بیان سے کسی بھی طرح امام علیہ السلام کی زیارت یا آپ کے دیدار کی غیبت کبریٰ میں نفی نہیں کی جا رہی اور نہ دور و نزدیک سے اس تحریر سے یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ امام علیہ السلام کا دیدارناممکن ہے۔ جس دیدار اور زیارت کے امکان اور جواز کے بارے اوپر دلائل دیے گئے ہیںاوروہ بھی ٹھوس شرائط اور قواعد کی روشنی میں تو اس بیان میں اس بارے کوئی بات موجود نہیں ہے اس روایت شریفہ کے مضمون بارے دو احتمال موجود ہیں۔
پہلا احتمال
امام علیہ السلام اس قسم کی ملاقات کی نفی فرما رہے ہیں جو چار نائبین کو یکے بعد دیگر غیبت صغریٰ کے زمانہ میں حاصل رہی تو اس کی روشنی میں اس کا معنی اس طرح ہوگا۔اے ابوالحسن علی بن محمد سمری، تیرے بعد جو کوئی اس طرح کے مشاہدہ کا دعویٰ کرے جیسا کہ تجھے حاصل تھا تو ایسا شخص بڑا جھوٹا ہے اور افتراءپرداز ہے( ساتھ امام علیہ السلام نے یہ خبر بھی دے دی کہ شیعوں سے کچھ ایسا کریںگے)اس قسم کی ملاقات اور مشاہدہ کاوجودنہیں ہے۔
یہ ممنوع اور حرام ہے اس قسم کے مشاہدہ میں عمومی اور خصوصی احکام تھے جو شخص چاہتا تھا وہ اپنے امام علیہ السلام سے خط و کتابت کرتا تھا۔ امام علیہ السلام اسے جواب دیتے تھے اور وہ شخص جو درمیان میں واسطہ بنتا تھا لوگ اس کے بارے آگاہ تھے یہ معلوم تھا کہ امام علیہ السلام اپنے سفراءاورخصوصی نمائندگان سے ملاقات فرماتے تھے اور ان کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل فرماتے تھے میری جان اپنے امام پر فدا ہو جائے اس تحریر میںامام علیہ السلام اس قسم کی ملاقات کی نفی فرما رہے ہیں۔
یعنی کوئی بھی خصوصی نیابت اور سفارت کا دعویٰ کرے تو وہ بڑا جھوٹا ہے، افتراءپرداز ہے اس کی بات قبول نہ کی جائے لیکن امام علیہ السلام اپنے خالص اولیاءسے کسی بھی مصلحت یا دینی مقصد کی خاطر یا اس خاص ولی کے کسی اپنے مسئلہ کی خاطر آپ سے ملاقات کا شرف دیناتو اس کی نفی نہیں کی گئی البتہ اس کے لئے خاص شرائط ہیں جن کا ذکر کیا جا چکا، ایسے دیدار کی نفی نہیں کی گئی اسی لئے امام علیہ السلام نے اس روایت میں یہ بھی فرمایا کہ تم اپنے بعد کسی کے لئے وصیت نہ کرو جو آپ کا قائم مقام آپ کی وفات کے بعدہو، کیونکہ اب مکمل غیبت شروع ہو چکی ہے اب ظہور نہ ہو گا مگر اللہ تعالیٰ کے اذن سے، پس آپ ایسے شخص کی نفی فرما رہے ہیں جو آپ کے چوتھے نائب کے بعد ہو اور اس کی جگہ لے اور اسی طرح کا نمائندہ ہو اوراسی قسم کے کاموں کو انجام دے۔
دوسرا احتمال
امام علیہ السلام نے روایت اور زیارت کی جو نفی فرمائی ہے تو یہ ایسے مشاہدہ کی نفی کی ہے کہ جو مکمل ظہور کے وقت ہوتا ہے اس کا معنی یہ ہو گا کہ جب آسمانی آواز سے پہلے ظہور کا دعویٰ کر دے اور اعلان کر دے کہ میںنے امام علیہ السلام سے ملاقات کر لی ہے اور ظہور ہو گیا تو یہ شخص بڑا جھوٹا ہے۔
میری جان آپ علیہ السلام پر قربان جائے‘ آپ علیہ السلام اس ظہور کی نفی فرما رہے ہیں اس بات پر خود اس روایت میں جو بات موجود ہے وہی دلیل ہے آپ نے فرمایا ہے عنقریب کچھ لوگ آئیںگے جو مشاہدہ کا دعویٰ کریں گے تو آگاہ رہو جو بھی مشاہدہ کا دعویٰ سفیانی کے خروج اور آسمانی آواز سے پہلے کرے تو وہ بڑا، جھوٹا اور افتراءپرداز ہے“۔
تو آپ اس طرح اس مشاہدہ کی نفی کر رہے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ آسمانی آواز سے پہلے یہ خبر دینا کہ ظہور ہو گیااور کہنے والا یہ دعویٰ کرے کہ میں نے امام علیہ السلام کا مشاہدہ کیا ہے تو ایسا کہنے والا بڑا جھوٹا ہے اورافتراءپرداز ہے۔
اس بات پر دو قرینے موجود ہیں۔
پہلا قرینہ :۔ آپ علیہ السلام نے پہلے فرمایا ہے ”فلا ظہور“مکمل غیبت شروع ہو گئی ہے اب ظہور نہیں ہوگا آپ اپنے ظہور کی نفی کے بعد فرما رہے ہیں کہ کچھ لوگ میرے شیعوں سے ایسے آئیں گے جو مشاہدہ کا دعویٰ کریں گے ظاہر ہے کہ اس مشاہدہ سے آپ کے ظہور کی اطلاع دینے والا مشاہدہ مراد لے رہے ہیں، پھر آگے فرماتے ہیں ایسی خبر دینے والا بڑا جھوٹا ہے ، افتراءپرداز ہے کیونکہ سفیانی کے خروج اور آسمانی آواز سے پہلے مشاہدہ کا دعویٰ غلط ہے یہ دونوں حتمی علامات سے بھی ان علامات کے بعد ظہور ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس جگہ مشاہدہ سے مراد وہ روایت اوردیدار نہیں جسے ہم بیان کر رہے ہیں اورجس کو ثابت کرنے کے درپے ہیں بلکہ یہ ایسا مشاہدہ ہے جو ظہور امام علیہ السلام کے ساتھ منسلک ہے۔
خاص موالیوں کے لئے امام علیہ السلام کی ملاقات
لیکن آپ کا دیدار خاص موالیوں کے لئے ہونا شرعی ضوابط کے تحت تو آپ اس کی نفی نہیں فرما رہے، ان دونوں احتمالات سے جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام ایسے مشاہدہ کی نفی کر رہے ہیں جو ظہور سے ملا ہوا ہے۔ آپ اس دیدار کی نفی نہیں فرما رہے جو ظہور کے دعویٰ سے خالی ہو، یا ایسا مشاہدہ جس میں امام کے ظہور کی خبر نہ ہو، تو ان دو حالتوں میں فرق بڑا واضح ہے ایسا مشاہدہ جو ظہور کے مساوی ہے اور ایسا دیدار اورزیارت جس میں ظہور کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ ہماری جانب سے دومفاہیم کے درمیانی خلط ملط کر دیا گیاہے اور اگر روایت اس روئت اور دیدار کی نفی میں ہے کہ جسے ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں تو سابقہ بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے اور اس روایت کے ظاہر کو لے کر اور جو کچھ دعاﺅں اور شرعی اعمال سے ملتا ہے تو پھر ہم کو اس روایت کی تاویل اور توجیہ کرتا ہوگی کیونکہ اس روایت سے اس مفہوم کو اسی طرح سابقہ روایات جو معصومین علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نہیں لے سکتے یعنی اگر ہم اس روایت کے ظاہری معنی کو اس طرح لیں کہ غیبت کے دوران امام علیہ السلام کے دیدار اور ملاقات اور زیارت کی بالکل نفی کر دی ہے تو اس کے مقابلہ میں وہ بہت ساری روایات اور عقلی دلائل اور مشاہداتی بیانات ہیں جو ملاقات اور دیدار کو ثابت کر رہے ہیں تو پھر ہمیں اس روایت کے ظاہری معنی کی توجیہ پیش کرنا ہو گی ، ایسی توجیہ جو باقی روایات کے مفہوم و مضمون سے نہ ٹکرائے۔
تو ہم اس کی توجیہ میں چند امور اس جگہ بیان کرتے ہیں تاکہ اگر اس روایت سے عام دیدار اور روایت کی نفی مراد لیں تو سابقہ روایات کو بھی سامنے رکھیں تو پھر اس کی توجیہ حسب ذیل کی جائے گی۔
پہلی توجیہ:۔ جس ملاقات اور دیدار کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ زیارت سے مشرف ہونے والا شخص اس کی شہرت کرے اور لوگوں میں جا کر بیان کرے اس بات کو امام علیہ السلام کی ایسے شخص پر لعنت بھیجنے سے اخذ کی جا سکتی ہے کیونکہ اس وجہ سے لوگوں میں انتشار اور پریشانی پھیل جائے گی اور وہ حکمت منتفی ہو جائے گی جس کی بنا پر امام علیہ السلام غائب ہو گئے اسی لئے امام علیہ السلام نے ملاقات اور دیدار کا دعویٰ کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔
دوسری توجیہ:۔ اس روایت سے امام علیہ السلام کی ذات کا مشاہدہ مراد ہودیکھنے والا امام علیہ السلام کے نور کو دیکھ سکتا ہے امام علیہ السلام کی آواز کو سن سکتا ہے اس کی نفی روایت سے نہیں سمجھی جا سکتی۔
تیسری توجیہ:۔ اس روایت و دیدار کی نفی جو بیداری کی حالت میں ہو لیکن روایت اس دیدار کی نفی نہیں کرتی جو نیند کی حالت میں ہو یہ وجہ اس بنا پر ہے کہ دونوں روایتوں اور دیداروں میں فرق ہے امام علیہ السلام اور اہل البیت علیہم السلام سے خواب کی حالت میں ملاقات اور ہے اور بیداری کے عالم میں ملاقات اور ہے اس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔
چوتھی توجیہ:۔ جسے علامہ مجلسی نے بیان کیا ہے کہ جس دیدار کی نفی کی گئی ہے وہ ایسا دیدار جس میں امام علیہ السلام کی نمائندگی اور نیابت کا عنوان شامل ہو۔
پانچویں توجیہ:۔ علامہ طباطبائی نے شیخ مفید کے حالات زندگی میں بیان کیا ہے کہ دیدار اور زیارت کے دوران امام علیہ السلام کو پہچان لینااور ان سے امام علیہ السلام سمجھ کر ملاقات کرنا تو اس قسم کے مشاہدہ کی نفی کی گئی ہے۔ ملاقات ہو جانے کے بعدآثار اور قرائن سے یہ جان لینا کہ جن سے شرف ملاقات ہورہے تھے اور جنہوں نے میرے مسائل حل کئے یا مجھے ہدایات دیں وہ تو میرے امام زمانہ(عج)تھے تویہ ٹھیک ہے۔
چھٹی توجیہ:۔ ایسی ملاقات کہ جس میں امام علیہ السلام کے حالات بارے آگہی ہو جائے اور اس کی رہائش کا پتہ چل جائے تو ایسی ملاقات کی نفی کی گئی ہے ایسی ملاقات کا دعویٰ کرنے والالعنتی ہے اورجھوٹاہے۔
ملاقات کے احتمالات کا جائزہ
ہم نے بیان کیا ہے کہ دیدار اور ملاقات کے بارے چند احتمالات دیئے جا سکتے ہیں۔
۱۔ کہ امامعلیہ السلام کا دیدار جو ہے خواب کی حالت میں ہو بیداری کی حالت میں نہ ہو
۲۔ مقامات کی مناسبت سے امام علیہ السلام کا دیدار اور آپ علیہ السلام کی ملاقات بیداری اور نیند دونوں حالتوں میں ہو، یہ تینوں احتمالات اس صورت میں ہیں جب خواب کی حالت میں ہونے والی ملاقات بیداری میں ہونے والی ملاقات سے مختلف ہو، لیکن اگر دونوں ایک ہی ہوں مفہوم میں یا مصداق میں تو پھر یہ احتمالات درست نہیں ہیں۔
جی ہاں!حضرت امام مہدی علیہ السلام اور باقی آئمہ علیہم السلام کی زیارت اور روئت کے درمیان فرق موجود ہے یہ اس صورت میں ہے کہ ہم ان احادیث کو صحیح تسلیم کریں جن میں بیان ہوا ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام نے فرمایا ”وہ شخص جھوٹا ہے جو غیبت کبریٰ کے زمانے میں یہ دعویٰ کرے کہ اس نے ہم سے ملاقات کی اورہمارا دیدار کیا ہے“ اور اسی طرح اس مضمون کی احادیث کو بھی صحیح قرار دیا جائے جن میں ہے کہ جس نے خواب میں ہمیں دیکھا تو اس نے ہمیں ہی دیکھا کیونکہ شیطان ہماری صورت میں نہیں آ سکتا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زیارت سے شرفیاب ہونا
جس وقت ہم سابقہ بیان شدہ روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کچھ روایات میں امام علیہ السلام کی زیارت کو بیداری کی حالت میں جائز قرار دے رہی ہیں جیسا کہ امام علیہ السلام سے ملاقات کے لئے دوسرے شرعی طریقہ میں بیان ہوا ہے ۔
مزیدبرآں کہ خواب کی حالت میں بھی زیارت کے بارے میں خود اسی حدیث میں بیان ہوا ہے اسی بنا پر حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات بیداری اور خواب دونوں حالت میں ہو سکتی ہے اس صورت میںہے جب ہم یہ کہیں کہ خواب اور بیداری میں زیارت اور ملاقات کرنے کا مفہوم اور معنی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
البتہ اس اعتبار سے کہ بیداری کی حالت میں شرف ملاقات اشرف اور افضل ہے تو بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ مقام اور منزلت کے اعتبار سے اور امام حجت سے قربت کے لحاظ سے دونوں حالتوں میں زیارت اور ملاقات کا جواز موجود ہے ۔
البتہ باقی اہل البیت علیہم السلام کی زیارت کے متعلق تو سابقہ روایات اس بارے خاموش ہیں ان سے یہ بات بالکل نہیں سمجھی جاتی کہ بیداری کی حالت میں ملاقات ہو گی سب روایات خواب کی حالت میں ملاقات کو بیان کر رہی ہیں۔
حضرت آئمہ اہل البیت علیہم السلام سے حالت خواب میں ملاقات کرنا
بہرحال یہ حدیث کہ جس کسی نے خواب میں ہمیں دیکھا تو اس نے ہمیں ہی دیکھا ہماری صورت میں شیطان نہیں آ سکتا تو اس حدیث بارے چند احتمالات ہیں:۔
پہلا احتمال:۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ جس نے ہمیں خواب میں دیکھا تو گویا اس نے حقیقت میں ہمیں ہی دیکھا ہے جیسا کہ کوئی بیداری کی حالت میں دیکھے، اس بناءپر یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ اہل البیت علیہم السلام کو بیداری کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے اور خواب کی حالت کو دیکھنے والے کے لئے بیداری کی طرح قراردیا جائے۔
دوسرا احتمال:۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ جس نے ہمیں نیند کی حالت میں دیکھا تو اس کی یہ نیندحقیقی ہے یہ خواب حقیقت پر مبنی ہوگا شیطانی وسوسہ یا خیال نہ ہوگا کیونکہ شیطان ہماری تصویر بن کر نہیں آ سکتا اس احتمال کی بنا پر اور جو حدیث کی ساخت اور انداز بیان سے بھی موافق ہے روایت اور زیارت جو ہے خواب کی صورت میں ہو گی ظاہری اور بیداری میں نہیں اور احادیث میں یہ ہے کہ جس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے غیبت کبریٰ کے زمانہ میں ہمیں دیکھا ہے ، ہم سے ملاقات کی ہے ،تو اس نے جھوٹ بولاہے تو اس سے مراد بھی یہ ہے کہ جو یہ کہے کہ میںنے بیداری کی حالت میں آئمہ علیہم السلام میں سے کسی ایک سے ملاقات کی ہے۔انہیں دیکھا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فقط حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دیدار کے ساتھ مختص ہو باقی آئمہ علیہم السلام کے لئے نہ ہو تو تاویل کی جو پہلے وجوہ بیان کی گئی ہیں ان سے رجوع کیا جائے گا اس پر نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زیارت خواب کی حالت میں اور بیداری کی صورت میں، دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے البتہ باقی آئمہ اہل البیت علیہم السلام کی ملاقات اور زیارت خواب اور نیند میں ہو سکتی ہے بیداری میں نہیں۔
تیسرا احتمال :۔ اس سے مراد یہ ہوا کہ جو شخص ہمیں بیداری کے عالم میں دیکھے تو پھر اس نے خود ہم ہی کو دیکھا ہے کیونکہ شیطان ہماری شکل میں ظاہر نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں تاویل کی صورت باقی نہیں رہتی بس امام علیہ السلام کے دیدار کا امکان نیند کی حالت میں بھی اور بیداری کی حالت میں بھی دونوں صورتوں میں موجود ہے۔
چوتھا احتمال:۔ یہ مراد ہو کہ خواب میں جو دیکھا جائے گا اور نیند میں جو زیارت ہو گی تو وہ ایسے ہے جیسے بیداری کی حالت میں زیارت کی گئی ہویہ تشبیہ ہے بنابرایں آئمہ اطہار علیہم السلام کو دیکھنا یہ ڈھکوسلا نہیں اور نہ ہی ابلیسی خیالات ہیں اور نہ ہی ایسی تصاویر شیطان کی ہو سکتی ہیں کیونکہ شیطان کسی بھی حالت میں آئمہ اہل البیت علیہم السلام کی شکل نہیں اپنا سکتا یہ طے ہے لیکن اس صورت میں آئمہ علیہم السلام کا دیدار فقط نیند کی حالت ہی میں منحصر ہو گا بیداری میں نہیں لیکن اس نیند کی حالت کو بیداری کے قائمقام سمجھا جائے گا ۔
دیدار کی صورت میں امام علیہ السلامکے اوامر کی حیثیت
جس کسی نے ایک امام کو خواب میں دیکھا یا بیداری کی حالت میں دیکھا تو امام علیہ السلام نے اسے کوئی خاص کام کرنے کا حکم دیا تو اس حکم کی تعمیل کے حوالے سے کیا حکم ہے؟ تو اس بارے کچھ اس طرح کی تفصیل ہے:
اگر تو اس نے امام علیہ السلام کو بیداری اور ظاہر بظاہر دیکھا تو اس صورت میں واجب ہے کہ وہ امام علیہ السلام کے تمام اوامر اور احکامات پر عمل کرے ۔اگر اس نے حضرت امام مہدی علیہ السلام یا ائمہ اہل البیت علیہ السلام سے کسی کو خواب کی حالت میں دیکھااور اس میں اسے حکم دیا گیا تو اگر امام علیہ السلام کسی کام کرنے کے بارے حکم فرمائیں یا کسی کام کے بارے میں کہیںنہیں کہ اسے کرنا تم پر واجب ہے تو اس صورت میں معاملہ آسان ہے۔
لیکن اگر امام علیہ السلام اسے کسی حرام کام کرنے کا حکم دیں تو اگر یہ حرام کام اس طرح کا ہو کہ امام علیہ السلام فرمائیں تم نماز نہ پڑھو تو اس صورت میں اصل امام سے ملاقات ہی مشکوک ہو جائے گی کیونکہ اس قسم کا حکم امام نہیں دے سکتے تو اس وقت اس خواب کو اس شخص کا اپنا خیال قرار دیا جائے گا اور یہ حقیقی دیدار نہ ہو گا اور اگر خواب میں کسی مسلمان انسان کے قتل کا حکم دیا گیا ہو تو جیسے کہ ہمارے زمانہ میں بعض معتمد افراد سے نقل ہوا ہے تو اس میں توقف اور احتیاط لازمی ہے لیکن سب سے بہتر بات اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جب اس قسم کی صورت پیش آئے تو خواب دیکھنے والا شخص اس بارے میں باخبر افراد علماءعاملین سے رابطہ کرلے اور خود سے کچھ اقدام نہ کرے ۔
لوگوں کے حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات کرنے کے اسباب
بعض دفعہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ غیبت کے زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات کا کیا معنی ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے کیونکہ غیبت کا معنی تو یہ ہے کہ وہ غائب ہیں اور نظر نہیں آتے جب غائب ہیں تو غیبت کے زمانہ میں ملاقات کیسی؟ اور یہ دیدار کیسا؟اور کس لئے؟
اس سوال کے جواب میں چند امور کو بالترتیب بیان کرتے ہیں جو غیبت کے زمانہ میں دیدار کا محور بن سکتے ہیں اور اس دیدار کے فوائد ہو سکتے ہیں اور یہ دیدار غیبت کے منافی بھی نہ ہوگا۔
۱۔ امام علیہ السلام کے وجود کا براہ راست اثبات کہ آپ زندہ موجود ہیں اور روزی لے
رہے ہیں۔
۲۔ امام علیہ السلام کے خروج کو یاد دلانا تاکہ لوگوں کو اس واسطے تیاری کرلیں۔
۳۔ حاجت مندوں کی حاجات کو پورا کرنا ان کے بیماروں کو شفاءدینا۔
۴۔ اپنے چاہنے والوں سے رابطہ برقرار رکھنااور ان کے استحکام کے لئے ایسا کرنا۔
۵۔ علماءکو خطا سے بچانا تاکہ امت کی صحیح راہنمائی ہو۔
۶۔ لوگوں کو مناجات، دعاﺅں اور اذکار کی تعلیم دینا۔
۷۔ دشمنوں کی سازشوں، ان کی مکاریوں کو طشت از بام کرنا، ان کی سیاسی
چالوں کا توڑ کرنا(جیسا کہ امام علیہ السام کے ان خطوط سے واضح ہوتا ہے جو آپ نے شیخ مفید کی طرف غیبت کبریٰ میں بھیجے.... (دیکھیں،تاریخ ما بعد الظہور ج۲ص۱۴۱)
اس کتاب میں ایسے مطالب بیان ہوں گے جن سے ایسے امور کی مزید وضاحت ہو گی۔
(مترجم....جب ہم کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام غائب ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ اس طرح غائب ہیں کہ انہیں دیکھا نہ جا سکے، ان کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن دیکھنے والے انہیں پہچانتے نہیں ہیں اور امام علیہ السلام کو اس بات کا اذن نہیں ہوتا یا وہ خود مصلحت نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی پہچان کروائیں جیسا کہ حضرت موسیٰعلیہ السلام فرعون کے دربارمیں موجود تھے ان کی قوم ظلم کی چکی میں پس رہی تھی وہ موسیٰعلیہ السلام کوفرعون کے دربار میں دیکھتے تھے وہ کوڑوں کی ضربوں کے نیچے چیختے چلاتے موسیعلیہ السلام کی آمد کی دعا بھی کرتے تھے لیکن موسیٰعلیہ السلام کو دیکھنے کے باوجود نہ پہچانتے تھے موسیٰعلیہ السلام کو اس کی اجازت نہ تھی اور موسیٰعلیہ السلام نے اس زمانہ میں کچھ علماءسے ملاقات بھی کی اور انہیں اپنی آمد کے لئے خصوصی دعا کرنے کا حکم دیا اس طرح محتاجوں کی مدد بھی کرتے تھے اور بازار میں اپنی قوم کے آدمی کو فرعونی کے شر سے بھی بچایا لیکن خدا کے اذن ملنے تک وہ ایسی حالت میں رہے اسی طرح حضرت یوسفعلیہ السلام کا مصر میں اپنے سگے بھائیوں سے معاملہ تھا وہ سب یوسفعلیہ السلام سے بات کر رہے تھے معاملہ کر رہے تھے مدد لے رہے تھے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ خود ہی یوسف علیہ السلام ہیں اور ان کے بھائی ہیں۔ لیکن جب یوسف علیہ السلام نے اپنی پہچان کروا دی تو پھر حیرانگی سے وہ سب بول اٹھے تو اچھا آپ علیہ السلام ہی یقینی طور پر یوسف علیہ السلام ہیں؟(دیکھیں سورہ قصص ، سورہ یوسف)
امام زمانہ علیہ السلام کا معاملہ بھی اسی طرح ہے مصنف جس دیدار کی بات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا امام علیہ السلام غیبت کے زمانہ میں اپنے موالیوں کو شیعوں کو ملاقات کا شرف بخشتے ہیں بیداری کی حالت میں یا خواب کی حالت میں تو مصنف نے یہ نظریہ اپنایا ہے کہ جی ہاں! بالکل شرف ملاقات ہوتا ہے کیونکہ ملاقات آپ کی غیبت کے تب منافی ہو جب اس کا علان عام ہو اور پھر ملاقات کرنے والے کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ اس کا چرچا کرے یا ملاقات کرنے والے شخص کو آپ کے اصلی ٹھکانا اور رہائش بارے علم ہوتو ایسی کوئی بات نہیں ہے اب یہ ملاقات کس لئے ہو گی؟ امام علیہ السلام کیوں ملیںگے؟ تو اس بارے سات پوائنٹ اور نقاط بیان کیے گئے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام اللہ کے اذن سے کسی مصلحت اور فائدہ کے لئے اپنے خاص موالیوں کو ملاقات کا شرف بخشتے ہیں یہ فوائد بعض شخصی ہوتے ہیں اور بعض اجتماعی ہوتے ہیںبعض دفعہ دین کی بقاءکا معاملہ درپیش ہوتا ہے اور بعض دفعہ اپنے خاص موالیوں کے اطمینان قلب واسطے ایسا ہوتا ہے بہرحال ملاقات کا امکان بھی ہے اورآپ اپنے خاص موالیوں سے ملتے بھی ہیں اور یہ غیبت کبریٰ کے طولانی زمانوں میں ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے لیکن وہ خواص کون ہیں؟ان کا علم نہیں ہے، وہ بھی ان ہی عوام میں چھپے ہوئے ہیں اور وہی امام علیہ السلام کے کارندے بھی ہیں اور امام علیہ السلام کی خاص عنایات انہیں حاصل ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے خاص موالیوں سے محبت کرنے والا بنائے اور ان کی پہچان کی توفیق دے اور ہمیں بھی ان کے ذریعہ یہ توفیق ملے کہ ہم بھی اپنے امام علیہ السلام کے قدموں کے نشانات کا بوسہ لے سکیں اور ان کے قدموں کی مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرما بنا سکیں
”اللھم ارنی الطلعة الرشیدة والعزة الحمیدہ لنکحل ناظرنا بروینہ“
|