حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

پہلی فصل

قائم مہدی علیہ السلام کا شناسنامہ
خضرت امیرالمومنین علیہ السلامنے فرمایا ہے ”مہدی علیہ السلام ہم سے ہی ایک مرد ہو گاجو فاطمہ علیہ السلام کی اولاد سے ہے“۔(کنزالعمال حدیث ۵۷۶۹۳)
خآپ علیہ السلام نے مزید فرمایا”ہمارے مہدی علیہ السلام کی آمد سے تمام دغابازیاں ختم ہو جائیں گی ہر قسم کے دلائل ٹوٹ جائیں گے اور وہی قائم الائمہ ہیں امت کا نجات دھندہ وہی ہے، نورانی سلسلہ کا اختتام ان پر ہے وہی منتہی النور ہیں۔(نہج السعادة ج۱ص۲۷۴)
خآپ علیہ السلام نے مزید فرمایا ہے”اس نے حکمت اور دانائی کی ڈھال کو پہن رکھا ہے اور حکمت و دانائی کو اس کی تمام شرائط سے لے رکھا ہے اللہ کی نمائندگیوں اور حجج سے آپ ہی اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی آخری اورباقی نمائندگی اور حجت ہیں اور آپ اللہ کے انبیاءکے خلفاءسے آخری خلیفہ ہیں۔(شرح نہج البلاغہ الابن ابی الحدید ج۰۱ص۵۲)
خارشاد شیخ مفید میں آیا ہے”امام قائم علیہ السلام جو ہیں ابومحمد علیہ السلام کے بعد آئیں گے آپ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بن حضرت امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے فرزند ہیں جن کا رسول اللہ والا نام ہے (محمد) اور رسول اللہ کی کنیت سے آپ علیہ السلام کو پکارا جائے گا(ابوالقاسم)آپ علیہ السلام کے باپ نے اپنے پیچھے آپ علیہ السلام کے علاوہ ظاہری اور پوشیدہ کوئی دوسرا بیٹا نہیں چھوڑا آپ کی ولادت ۵۱ شعبان کی رات کو ہوئی ۵۵۲ہجری قمری کا سال تھا۔
خآپ علیہ السلام کی والدہ ام ولد(کنیز) ہیں جنہیں نرجس علیہا السلام کہا جاتا تھا۔
آپ کے باپ کی وفات کے وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی اللہ تعالیٰ نے اسی عمر میں آپ کو علم و حکمت عطا کیاآپ کوفیصلہ کن خطاب عطافرمایا اور تمام جہانوں کے واسطے آپ کوآیت قرار دیا جس طرح یح ¸ٰ علیہ السلام کو بچپن میں حکمت دی اسی طرح آپ کو بھی عطا فرمائی آپ کو ظاہری بچپن میں امامت کا منصب عطا کیا جس طرح اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہ السلام کو گہوارے میں نبی بنایا۔
خآپ کے لئے ، آپ کے قیام کرنے سے پہلے دو غیبتیں ہوں گی ایک غیبت دوسری غیبت سے زیادہ لمبی ہو گی جیسا کہ اس بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں۔
خایک غیبت صغریٰ ہے جس کا زمانہ آپ علیہ السلام کی ولادت سے شروع ہوتا ہے اور آپ کے اور آپ کے شیعوں کے درمیان سفارت کے منقطع ہونے تک رہتا ہے آپ کے آخری سفیر کی وفات پر یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے آپ کی طولانی غیبت، پہلی غیبت کے اختتام سے شروع ہوتی ہے اور اس غیبت کے آخر میں آپ تلوار لے کر قیام کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے”وَنُرِی دُ اَن نَّمُنَّ عَلَی الَّذِی نَ اس تُض عِفُو ا فِی ال اَر ضِ وَ نَج عَلَھُم آئِمَّةً وَّنَج عَلَھُمُ ال وَارِثِی نَ“(سورہ القصص آیت ۵)
اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے ”وَلَقَد کَتَب نَا فِی الزَّبُو رِ مِن بَع دِ الذِّک رِ اَنَّ ال اَر ضَ یُرِثُھَا عِبَادِی الصَّالِحُو نَ“(سورہ الانبیاءآیت ۵۰۱)
خحضرت رسول اللہ نے فرمایا”دن اور راتیں ختم نہ ہوں گی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد کو مبعوث فرمائے گا جس کا نام میرے نام جیسا ہو گا وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔
(الارشاد باب ذکر الامام القائم ص۶۴۳

قائم علیہ السلام منتظر کے اسماء
الزام الناصب میں ایک سو چھیالیس نام اور القاب آپ علیہ السلام کے ذکر کیے گئے ہیں۔ بعض کا ثبوت واضح ہے، کچھ روایات اور زیارات سے لئے گئے ہیں کچھ تورایت و انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں سے لئے گئے ہیں اور بعض اسماءایسے ہیں جو آپ علیہ السلام کے شیعوں کی جانب سے ہیں، ان القاب و اسماءمیں کچھ اس طرح ہیں۔
ابوالقاسم علیہ السلام ، ابوعبداللہ علیہ السلام ، ابوجعفر علیہ السلام ،ابومحمد علیہ السلام ، ابوابراہیم علیہ السلام ، ابوالحسن علیہ السلام ،ابوتراب علیہ السلام ، ابوصالح علیہ السلام ، الاصلعلیہ السلام ، احمد علیہ السلام ، امیر الامراءعلیہ السلام ،ایدی علیہ السلام ، یہ ”ید“ کی جمع ہے جس کا معنی نعمت ہے(ایزدستاش، ایزدنشان، ایستادہ یہ نام مجوسیوں کے ہاں موجودہیں) احسان علیہ السلام ، بقیة اللہ علیہ السلام ،بقیة الانبیاءعلیہ السلام ،برہان اللہ علیہ السلام ،الباسط علیہ السلام ، بقیة الاتقیاءعلیہ السلام ،بندہ یزدان علیہ السلام ،(عبداللہ) الثالی علیہ السلام ، الثائر علیہ السلام ،الجعفر علیہ السلام ،الجابر علیہ السلام ، جنب علیہ السلام ، حجة اللہ علیہ السلام ،حجة اللہ الحقعلیہ السلام ، الجلیل علیہ السلام وغیرذلک(الزام الناصب ج۱ ص۶۲۴)
مترجم کہتا ہے کہ بعض محققین نے آپ علیہ السلام کے چھ سو اسماءذکر کیے ہیں اور میں نے ان اسماءاور القاب کوزیارات اور دعاﺅں سے یکجا بھی جمع کیا ہے۔ بہرحال آپ علیہ السلام کے اسماءکثیر تعداد میں ہیں آپ علیہ السلام کا ہر نام آپ علیہ السلام کے ایک عملی کردار پر روشنی ڈالتا ہے اور آپ علیہ السلام کی کسی نہ کسی صفت یا حالت یا عمل کو بیان کرتاہے۔(دیکھیں اسماءالقائم علیہ السلام ج۱ تالیف جعفر الزمان، مرحوم)
حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت یا شہادت
خالکافی میں ہے آپ علیہ السلام کی ولادت ۵۱ شعبان ۵۵۲ ہجری قمری میں ہوئی اور احمد بن محمد نے کہا ہے کہ آپ علیہ السلام کی ولادت کا سال ۶۵۲ ہجری قمری ہے۔
خشیخ صدوقؒ نے اپنے استاد سے سیدہ حکیمہ بنت محمد بن علی بن موسیٰ علیہم السلام سے روایت بیان کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا”ابومحمد الحسن بن علی علیہ السلام نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا: پھوپھی جان! آج رات آپ علیہ السلام کا افطار ہمارے پاس ہوگا کیونکہ آج ۵۱ شعبان کی رات ہے۔
اللہ تعالیٰ اس رات حجت کو ظاہر فرمائے گا اور وہی اللہ کی زمین میں اللہ کی حجت ہوں گے اور یہ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی ولادت کا دن جمعہ تھا اور ۶۵۲ہجری کا سال تھا۔
خکمال الدین میں ہے:علان رازی سے نقل کیا ہے کہ اس نے بیان کیا کہ ہمارے بعض اصحاب نے ہم سے یہ بات بیان کی ہے کہ جس وقت ابومحمد علیہ السلام(امام حسن عسکری علیہ السلام) کی جاریة(آپ علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ)کے لئے حمل ٹھہر گیا تو آپ علیہ السلام نے انہیں خبر دی آپ ایسے جلیل القدرمرد کی حامل ہیں جن کا نا محمد علیہ السلام ہے اور وہی میرے بعد قائم علیہ السلام ہیں“۔(کمال الدین ص۸۰۴حدیث ۴، کفایة الاثرص۴۹۲)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت پر طعام تقسیم کرنا
جناب ابوجعفر العمری سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے بیان کیا :
”جس وقت السید(امام زمانہ علیہ السلام ) کی ولادت ہو چکی تو ابومحمد علیہ السلام(امام حسن عسکریعلیہ السلام ) نے فرمایا کہ میرے پاس ابوعمرو کو لے آﺅ، پس انہیں بلوایا گیا اور وہ آپ علیہ السلام کے پاس آ گئے تو آپ علیہ السلام نے ان سے یہ فرمایا:
”آپ دس ہزارر طل روٹی خرید کر لیں اور دس ہزاررطل( )گوشت خرید کر لیں اور اسے بنی ہاشم(سادات) میں تقسیم کر دیں اور ان کی جانب سے اتنی تعداد میں بکروں کا عقیقہ کریں۔(کمال الدین ص۱۳۴حدیث۶، البحار ج۱۵،ص۵حدیث۹

جناب سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا کی حضرت امام زمانہ (عج) کی ولادت بارے روایت
البحار میں محمد بن عبداللہ المطہری سے یہ بیان نقل ہوا ہے کہ انہوں نے بتایا کہ میں سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا کے پاس ابومحمد علیہ السلام(امام حسن عسکری علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد حاضر ہوا تاکہ میں آپ علیہ السلام سے حجت کے بارے پوچھوں اور جس حیرانگی اور پریشانی میں اس وقت لوگ سرگرداں ہیں اس بارے جواب معلوم کرو۔
حضرت سیدہ حکیمہ خاتون سلام اللہ علیہا: ادھر بیٹھ جاﺅ
پس میں بیٹھ گیا، پھر آپ علیہ السلام نے اس طرح مجھ سے فرمایا:
”اے محمد یہ بات جان لو، اللہ تبارک وتعالیٰ زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑتا یا تو حجت ناطقہ(بولنے والی) ہو گی یا حجت صامت(خاموش) ہو گی حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ نمائندگی دو بھائیوں میں قرار نہیں دی، یہ حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کی فضیلت ہے اوران کو باقی سے جدا کرنے کے لئے کہ پوری کائنات میں ان دوبھائیوں جیسا کوئی نہیں ہے۔
البتہ اللہ تعالیٰ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولاد پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد کو فضیلت عطاءفرمائی( اوراپنی نمائندگی ان میں رکھ دی)جس طرح حضرت ھارون علیہ السلام کی اولاد کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد پر فضیلت و برتری عطا کی گئی اگرچہ حضرت موسیٰعلیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام پر حجت تھے ۔ لیکن حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد کو قیامت تک کے لئے یہ فضیلت حاصل ہے۔
امت کے لئے حیرت قرار ہو گی سرگردانی میں وہ ضرور پڑیں گے اس میں باطل والے بھٹک جائیں گے اور حق والے چھٹکارا پالیں گے تاکہ لوگوں کی جانب سے رسولوں کے گذر جانے کے بعد ان پر کوئی حجت عذراور بہانہ موجود نہ ہو۔ ابومحمدعلیہ السلام کے گذر جانے کے بعد حیرت اور پریشانی یقینی ہوئی تھی۔
راوی: کیا حضرت امام حسن علیہ السلام کے لئے بیٹا تھا؟
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: مسکرا دیں پھر فرمایا:اگرحسن علیہ السلام کا بقیہ نہ ہوگا تو پھر آپ علیہ السلام کے بعد حجت کون ہوں گے؟اور میں نے تو تمہیں یہ بات بتا دی ہے کہ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے بعد دو بھائیوں میں حجت اور نمائندگی خدااکٹھی موجود نہ ہو گی۔
راوی: میں نے عرض کیا، میری سردار بی بیعلیہ السلام ، مجھ سے میرے مولا علیہ السلام کی ولادت اور ان کی غیبت بارے بیان کریں؟
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: جی ہاں! بیان کرتی ہوں۔
بات کچھ اس طرح سے ہے کہ میرے لئے ایک کنیز تھی جسے نرجس پکارا جاتا تھا ایک دن میرے بھائی کے بیٹے(میرے بھتیجے امام حسن علیہ السلام ) مجھ سے ملنے تشریف لے آئے تو آپ علیہ السلام نے اس کنیز کی طرف بہت ہی دلچسپی اور توجہ سے نگاہ فرمائی اور اسے غور سے دیکھا اور ان پر پیار کی نظرڈالی،تو میں نے ان سے کہا کہ اے میرے سردار علیہ السلام !آپ علیہ السلام نے اس کنیز کو لینے کا قصد کر لیا ہے؟ تو کیا میں انہیں آپ علیہ السلام کے پاس بھیج دوں؟
توآپ علیہ السلام نے میرے جواب میںفرمایا:”نہیں پھوپھی جان! لیکن مجھے اس کو دیکھ کو تعجب ہو رہا ہے “۔
میں نے پوچھاوہ کیسے ؟
تو آپعلیہ السلام نے فرمایا”اس سے ایک کریم فرزند ہو گا جو اللہ کے نزدیک بڑی شان والا ہے، زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی“۔
میں نے پھر پوچھا تو کیا پھر میں اس کنیزکو آپ علیہ السلام کے پاس بھیج دوں؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”اس بارے میں میرے باپ سے اجازت لے لیں“۔
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: میں نے اپنا لباس پہنا اور تیار ہو کر ابوالحسن علیہ السلام (امام علی نقی علیہ السلام ) کے گھر آ گئی ۔ میں نے آپ علیہ السلام کو سلام کیا اور بیٹھ گئی تو آپ علیہ السلام نے خود ہی بات کا آغاز کر دیا اور فرمایا:”اے حکیمہ علیہ السلام !تم نرجس علیہ السلام کو میرے بیٹے ابومحمد علیہ السلام (امام حسن عسکری علیہ السلام)کے پاس بھیج دو“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام : میں نے عرض کیا: میرے سردارعلیہ السلام !میں اسی ارادہ سے آپ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئی تھی کہ آپ علیہ السلام سے اس بارے اجازت لے لوں اور انہیں ابومحمد علیہ السلام کے پاس بھیج دوں۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام: اے مبارکہ! اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کو اس ثواب میں شریک کرے اور آپ علیہ السلام کے لئے اس خیروبرکت میں حصہ قرار دے“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام : میں وہاں نہ رکی اور فوراً اپنے گھر آ گئی میں نے نرجس علیہ السلام کو بتایااور اس کا ہارسنگھارکیا اور اسے ابومحمد علیہ السلام کے لئے ہدیہ کر دیااور انہیں میں نے اپنے گھر میں ہی ایک کمرہ دے دیا اور اس میں ان کے لئے آرام وسکون کا پوراپورا انتظام کردیا۔
ابومحمد علیہ السلام میرے گھر میں کچھ دن تک موجود رہے۔ اس کے بعدآپ اپنے والد کے گھر تشریف لے گئے اور نرجس علیہ السلام کو میں نے ان کے ساتھ بھیج دیا۔
السیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا:۔ ابوالحسن علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ابومحمد علیہ السلام ان کی جگہ پر بیٹھے تو میں ان کی زیارت کے لئے اس طرح جایا کرتی تھی جس طرح میں ان کے والد کی زیارت کے لئے جایا کرتی تھی۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ نرجس علیہ السلام میرے پاس آئی اور انہوں نے میرے پاﺅں سے جوتے اتارنے کا ارادہ کیا اور یہ فرمایا کہ میری سردار اپنے جوتے مجھے دیں میں انہیں رکھ دیتی ہوں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے نرجس علیہ السلام سے جواب میں کہانہیں توں میری سردار ہے، توں میری مولا اور آقا ہے ، خدا کی قسم!میں اپنے پاﺅں تیری جانب نہیں بڑھاﺅں گی کہ تم میرے پاﺅں سے میرے جوتے اتارو اور اس بات کی اجازت بھی نہیں دوں گی کہ تم میری خدمت کرو بلکہ میں تمہیں اپنی آنکھوں پر بٹھاﺅں گی میں تمہاری خدمت کروں گی تم میری سردار ہو۔
سیدہ حکیمہ علیہ السلام کی اس بات کو حضرت ابومحمدعلیہ السلام (امام حسن عسکری علیہ السلام) نے سن لیا اور آپ علیہ السلام نے یہ بات سن کر فرمایا:
پھوپھی جان!اللہ آپ علیہ السلام کو جزائے خیر دے میں غروب آفتاب تک آپ کے پاس موجود رہی میں نے وہاں پر موجود ایک کنیز کو آواز دی کہ میرے کپڑے لے آﺅ تاکہ میںاپنے گھر جاﺅں۔
ابومحمد علیہ السلام :۔ ابومحمد علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا:”اے پھوپھی جان!آج رات آپ علیہ السلام ہمارے پاس ٹھہریں گی، کیونکہ آج رات مولود کریم کی ولادت ہے جس کی اللہ کے ہاں شان ہے، اللہ عزوجل ان کے ذریعہ زمین کو ویرانی کے بعد آباد کردے گا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ اے میرے سردار!میں نرجس علیہ السلام میں تو حمل کا کوئی اثر نہیں دیکھتی؟
ابومحمد علیہ السلام :۔ نرجس(سلام اللہ علیہا)سے،کسی اور سے نہیں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں دوڑ کر نرجس کے پاس گئی میں نے ان کے آگے پیچھے سب دیکھا میں نے حمل کا کوئی اثر و نشان تک موجود نہ پایا۔میں واپس ابومحمد علیہ السلام کے پاس آ گئی اور ان کو اس عمل بارے بتایا جو میں نے انجام دیا۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ آپ علیہ السلام مسکرا دیے پھر میرے لئے فرمایا:جس وقت فجر کا وقت ہو گا توآپ علیہ السلام کے لئے نرجس ہی سے حمل ظاہر ہوگا، کیونکہ ان کی مثال موسیٰ علیہ السلام کی ماں جیسی ہے کہ ان کا حمل ظاہر نہ ہوااور ولادت کے وقت کسی ایک کو اس کا علم نہ ہو سکا کیونکہ فرعون ان تمام خواتین کے شکم چاک کروا دیتا تھا جن میں حمل کے آثار موجود ہوتے تھے تاکہ وہ موسیٰعلیہ السلام کو تلاش کر سکے اور اسے ولادت سے پہلے ہی ختم کردے۔تو اس مولود کی مثال بھی موسیٰعلیہ السلام کی جیسی ہے۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں طلوع فجر تک بڑی توجہ سے سیدہ نرجس علیہ السلام کو دیکھتی رہی اوران پر میری نظر رہی جب کہ آپ علیہ السلام آرام سے میرے سامنے سو رہی تھیں اورآپ نے اپنا پہلو تک نہ بدلا۔ جب رات کا آخری پہر ہوا اور طلوع فجر قریب ہوا تو یکدم وہ اپنی جگہ سے اُٹھ بیٹھیں خوفزدہ تھیں میں نے انہیں اپنے سینہ سے چپکا لیا اور میں نے اس پر ”بِس مِ اللّٰہِ الرَّح مٰنِ الرَّحِی مoپڑھا۔
ابومحمد علیہ السلام :۔ آپ علیہ السلام نے مجھے آواز دے کر فرمایا”اس پراِنَّا اَن زَل نٰاہُ فِی لَی لَةِ ال قَد رِپڑھو
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے نرجس علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ علیہ السلام کاحال کیساہے؟
سیدہ نرجس علیہ السلام :۔ وہ امر ظاہر ہو چکا ہے جس کے بارے میرے سردار نے آپ کو خبر دی تھی۔
السیدہ حکیمہعلیہ السلام :۔ جیسے مجھ سے ابومحمد علیہ السلام نے فرمایا:میں نے نرجس علیہ السلام پر ”سورہ اِنَّا اَن زَل نَاہُ فِی لَی لَةِ ال قَد رِ....“کوپڑھنا شروع کر دیاتوبچے نے نرجس علیہ السلام کے شکم سے مجھے جواب دیا جس طرح میں پڑھ رہی تھی اسی طرح اس بچے نے بھی پڑھنا شروع کر دیا اور میرے اوپر سلام بھی کیا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ جب میں نے یہ سنا تو میں گھبرا گئی۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ ابومحمد علیہ السلام نے مجھے زور سے آواز دے کر فرمایا:”اللہ عزوجل کے امر بارے حیران مت ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بچپن میں ہم سے حکمت بلواتا ہے اور بڑے ہونے پر اپنی زمین پر ہمیں حجت بنا دیتاہے۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ ابھی ابومحمد علیہ السلام کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ نرجس علیہ السلام مجھ سے غائب ہو گئیں اس طرح کہ میں ان کو نہ دیکھ سکی گویا میرے اور ان کے درمیان حجاب قرار دے دیا گیا، تو میں دوڑتی ہوئی ابومحمد علیہ السلام کے پاس آ گئی جب کہ میں چلا رہی تھی ۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ ابومحمد علیہ السلام نے مجھے اس حالت میں دیکھ کرفرمایا: پریشان نہ ہوں واپس لوٹ جائیں ابھی آپ علیہ السلام نرجس علیہ السلام کو اپنی جگہ پرموجود پاﺅ گی۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں واپس آ گئی تھوڑی دیر ہی گذری ہو گی کہ میرے اور نرجس علیہ السلام کے درمیان جو پردہ آ گیا تھا وہ ہٹا دیا گیا میں نے اچانک انہیں اپنے سامنے موجود پایا تو ان کے پورے وجود پرنورکااثرتھااور یہ نور اس قدر روشن تھا کہ میری آنکھوں کے نور پر چھا گیا اسی کے ساتھ ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بچہ سجدہ کی حالت میں موجود ہے پھر اپنے دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اپنی صبابہ(انگشت شہادت) کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا”لَا اِلہٰ اِلَّا اللّٰہَ وَح دَہُ لَا شَرِی کَ لَہُ وَاَنَّ جَدِّی رَسُو لُ اللّٰہُ وَاَنَّ اَبِی اَمِی رُال مُو مِنِی نَ“اس کے بعد ایک ایک کر کے سارے اماموں کا نام لیا اور جب اپنے نام پر پہنچے تو فرمایا”اَللّٰھُمَّ اَن جِز لِی وَع دِی ، اَت مِم لِی اَمرِی وَثَبِّت وَطَاتِی وَام لَا اَل اَر ضَ بِی عَد لاً وَّقِس طاً“
ترجمہ:۔ اے اللہ میرا وعدہ پورا کر دے، میرے امر کو پورا کر دے میری چاپ کو مضبوط بنا دے اور میرے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے۔
ابومحمد الحسن علیہ السلام :۔ آپ علیہ السلام نے بلند آواز دے کر فرمایا: اے پھوپھی جان! بچے کو اٹھا لو اور اسے میرے پاس لے آﺅ پس میں نے بچے کو اٹھالیا اور میں اسے ابومحمد علیہ السلام کے پاس لے آئی پس جب میں آپ علیہ السلام کے باپ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور آپ علیہ السلام میرے ہاتھوں میں موجود تھے، تو آپ علیہ السلام نے اپنے بابا پرسلام کیا، اس کے ساتھ ہی ابومحمد الحسن علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو مجھ سے لے لیا میں نے دیکھا کہ کچھ پرندے ہیں جو آپ علیہ السلام کے سر مبارک پرمنڈلارہے ہیں۔پس ابومحمد الحسن علیہ السلام نے ان پرندوں سے ایک کوآواز دی وہ آپ علیہ السلام کے پاس آ گیاآپ علیہ السلام نے اس پرندے سے فرمایااس کو اٹھالو اس کی حفاظت کرو اور ہر چالیس دن بعد اس بچے کو ہمارے پاس واپس لے کر آیاکرو اس پرندے نے آپ کو لیا اور آسمان کی جانب فضا میں اڑ گیا اور باقی سارے پرندے اس کے پیچھے پیچھے اڑ کر چلے گئے۔میں نے یہ سنا کہ ابومحمد علیہ السلام فرما رہے تھے : © میں نے تجھے اس کے سپرد کردیاہے جس کے سپرد موسیٰعلیہ السلام کی ماں نے موسیٰعلیہ السلام کو کیا تھا۔
سیدہ نرجس علیہ السلام :۔ یہ دیکھ کرسیدہ نرجس علیہ السلام روپڑیں تو ابومحمد علیہ السلام نے ان سے فرمایا: خاموش رہو، روﺅنہیں ان پر دودھ کسی اور کا حرام ہے اس نے دودھ آپ علیہ السلام کے سینہ سے ہی لینا ہے اسے تیرے پاس واپس لایا جائے گا جس طرح موسیٰعلیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس لوٹا دیا گیا تھا اور اس بارے اللہ عزوجل کا یہ قول ہے ”فَرَدَد نَاہُ اِلیٰ اُمِّہِ کَی تَقَرَّعَی نُھَا وَلَا تَح زَن “(سورہ القصص آیت۳۱)
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے ابومحمد علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ پرندوں کا قصہ کیاہے؟ اور یہ پرندہ کون تھا؟ جس کے سپرد اس مولودکو کیا گیا ہے؟
ابومحمد علیہ السلام:۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا”یہ پرندہ روح القدس تھا جس کی ڈیوٹی آئمہ علیہ السلام کے لئے لگائی گئی ہے وہ ان تک فقہ پہنچاتا ہے علم کی غذا ان کے لئے لاتا ہے اور انہیں محفوظ رکھتا ہے ، ان کی دیکھ بھال رکھتا ہے ان کاخیال رکھتاہے؟
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ جب چالیسواں دن آیا تو اس بچے کو واپس ان کے باپ کے پاس لایا گیا تو آپ علیہ السلام نے مجھے بلوا بھیجا جب میں آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے ایک بچے کو آپ علیہ السلام کے سامنے چلتے دیکھتا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے ابومحمد علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیاکہ یہ بچہ تو دو سال کا لگ رہا ہے؟
ابومحمد علیہ السلام:۔ یہ سن کر مسکرا دیئے اور فرمایا:انبیاءعلیہ السلام اور اوصیاءعلیہ السلام کی اولاد جب کہ وہ آئمہ علیہ السلام سے ہوں تو ان کی نشوونمادوسرے افرادسے مختلف ہوتی ہے ہمارے بچوں پر جب ایک ماہ گزرتا ہے تو وہ دوسروں کی بہ نسبت ایک سال کے ہو جاتے ہیں اور ہمارے بچے جو ہیں وہ ماں کے شکم میں باتیں کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، اپنے رب کی عبادت ماں کے شکم میں کررہے ہوتے ہیں، دودھ پیتے وقت فرشتے ان کی اطاعت کررہے ہوتے ہیں اورفرشتے ان پر صبح کے وقت اور شام کے وقت اترتے ہیں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ تو میں ہر چالیس دن بعد اس بچے کودیکھا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ میں نے آپ علیہ السلام کو مکمل جوان دیکھا اور یہ ابومحمد علیہ السلام کے جانے سے چند ہی دن قبل کی بات ہے۔ میں نے پہلے تو آپ علیہ السلام کو نہ پہچانا اور ابومحمد علیہ السلام سے پوچھ لیا یہ کون ہیں؟ جن کے سامنے آپ مجھے بیٹھنے کاحکم فرما رہے ہیں تو آپ علیہ السلام نے میرے جواب میں فرمایا:
”یہ نرجس علیہ السلام کافرزند ہے، میرے بعد میرا خلیفہ ہے، تھوڑی مدت بعد تم مجھے اپنے درمیان نہ پاﺅ گی تو آپ علیہ السلام اس کی بات کوسننا اور ان کی اطاعت کرنا“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ پس تھوڑے دنوں بعد ابومحمدعلیہ السلام گذر گئے اور لوگ متفرق ہو گئے جیسا کہ تم اس وقت دیکھ رہے ہو، خدا کی قسم! میں تو انہیں صبح بھی دیکھتی ہوں اور شام کے وقت بھی دیکھتی ہوں اور صحیح بات یہ ہے کہ تم جو کچھ مجھ سے سوال کرتے ہو وہ مجھے اس کے بارے میں جواب دیتے ہیں اور اس کی خبرپہلے ہی دے دیتے ہیں۔
خدا کی قسم! جب میں کسی بات کے بارے دریافت کرنے کاارادہ کرتی ہوں تو وہ خود سے ہی میرے سوال سے پہلے مجھے اس کا جواب دے دیتے ہیں اور جب کوئی معاملہ میرے درپیش ہوتا ہے تو فوراً اس کا جواب اسی وقت میرے پاس آجاتا ہے بغیر اس کے کہ میں ان سے سوال کروں، آپ علیہ السلام نے کل رات مجھے تمہارے آنے کی خبر دی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ میں حق کے بارے تمہیں آگاہ کروں۔
محمد بن عبداللہ :۔ خدا کی قسم! جناب سیدہ حکیمہ علیہ السلام نے مجھے ایسے امور کے بارے آگاہ کیا کہ جن کے متعلق اللہ کے سوا کسی کو علم نہ تھا تو میں اس سے سمجھ گیا کہ یہ اللہ کی جانب سے سچ اور عدل ہے اور اس بات کا مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان امورپر مطلع کیا ہے کہ جن کے بارے اس نے اپنی مخلوق سے کسی اورکو مطلع نہیں کیا۔
(کمال الدین ص۹۲۴ ، مدینة المعاجزج۸ص۸۶، البحار ج۱۵ ص۲۱ حدیث ۴۱

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کرنے والی تاریخ اسلام کی بعض معروف شخصیات
شیعہ کے علاوہ مسلمانوں کی تاریخ میں بعض بہت ہی معروف شخصیات ہیں جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے۔ ان میں چند ایک ذیل میں ہیں:

پہلی شخصیت:ابوسالم کمال الدین محمد بن طلحہ بن محمد بن الحسن الفرش النصیبی
کوئی ایک بھی اہل السنت سے ایسا ہم نہیں پاتے جو اس عالم کی شخصیت کامنکر ہو یا ان کی کتاب ”مطالب السﺅل“کا انکار کرے اس کتاب کا بارہواں باب ہے”الباب الثانی عشر فی ابی القاسم”م ح م د بن الحسن علیہ السلام الخالص بن علی المتوکل بن محمد القانع بن علی الرضا بن موسیٰ الکاظم علیہ السلام بن جعفر الصادقعلیہ السلام بن محمد الباقر علیہ السلام بن علی علیہ السلام زین العابدین علیہ السلام بن الحسین علیہ السلام الزکی بن علی المرتضیٰعلیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام، المہدی الحجة الخلف الصالح المنتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ورحمة اللہ وبرکاتہ“
اس عنوان میں امام مہدی علیہ السلامکا نام آپ علیہ السلام کا پورا نسب نامہ اور آپ علیہ السلام کے القاب کا ذکر کیا ہے اس کے بعد مصنف کتاب ” مطالب السﺅل“ عربی میں امام مہدی علیہ السلام کی مدح میں قصیدہ لکھا ہے جو اس طرح ہے۔

فھذا الخلفہ الحجة قدایدہ اللہ

ھدانا منھج الحق واناہ سجایاہ
واعلاہ ذری العلیا و بالتایید رقاہ

وآتاہ حلی فضل عظیم فتحلاہ
وقد قال رسول اللہ قول قدرویناہ

وذوالعلم بماقال اذا ادرکت معناہ
یری الاخبار فی المہدی جات بمساہ

وقد ابداہ بانسبة والوصف وسماہ
ویکفی قولہ: منی لاشراق محیاہ

ومن بضعتہ الزہراءمجراہ ومرسھاہ
ولن یبلغ ما اوتیہ امثال واشباہ

فان قالوا ھوا ماما توابماخاھا

اس کے بعد وہ لکھتاہے:
آپ کی ولادت کی جگہ: آپ علیہ السلام کی ولادت کی جگہ سرمن رائے ہے اور آپ ۳۲رمضان ۵۸۲ ہجری قمری کے ہاں پیدا ہوئے آپ کا باپ اور ماں کی جانب سے نسب نامہ آپ کے بارے الحسن الخالص ہیں جو علی المتوکل کے بیٹے ہیں اوروہ محمد النافع کے اور اسی طرح اسنے آپ کے آباءکوشمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ امیرالمومنین بن ابی طالب علیہ السلام کے بیٹے ہیں آپ کا نام محمد علیہ السلام ہے آپ کی کنیت ابوالقاسم ہے آپ کا لقب، الحجت، الخلف الصالح ہے اور منتظر بھی کہا گیا ہے۔(مطالب السﺅل باب ۲۱ کشف الغمہ ج۳ ص۳۳۲)

دوسری شخصیت: ابوعبداللہ محمد بن یوسف الکنجی الشافعی
جسے ابن الصباغ المالکی نے اپنی کتاب الفصول المہمہ میں لکھا ہے”آپ علیہ السلام امام ہیں حافظ ہیں سارے علماءنے ان کی تجلیل و بزرگی کو بیان کیا ہے اور انہیںبااعتماد قرار دیاہے۔ اہل السنة والجماعة میں اس کا معارض و مخالف کوئی ایک بھی موجود نہیںہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”کفایة الطالب“ میں ابومحمد علیہ السلام کی تاریخ ولادت اور آپ علیہ السلام کی تاریخ وفات لکھنے کے بعد بیان کیا کہ انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیٹا چھوڑا جو کہ امام منتظر ہے۔(کفایة الطالب ص۸۵۴آٹھویں باب کے ذیل میں)

تیسری شخصیت: نور الدین علی بن محمد بن الصباغ المالکی
بہت سارے بزرگ علماءنے ان کی توثیق کی ہے ان کی بزرگی کو بیان کیا ہے ان علماءمیںبھی ایک محمد بن عبدالرحمن السخاوی البصری ہیں جو حافظ بن حجر العسقلانی کے شاگرد ہیں، ابن الصباغ المالکی نے اپنی کتاب الفصول المھمہ میں لکھا ہے، بارہویں فصل ابوالقاسم الحجة الخلف الصالح بن ابی عہد الحسن الخالص کے متعلق ہے اور وہی بارہویں امام ہیں اور اسی فصل میں ان کی ولادت کی تاریخ اور ان کی امامت کے دلائل تحریر کئے ہیں۔(الفصول المہمہ ذکرالمہدی)

چوتھی شخصیت: شمس الدین یوسف بن قزعلی بن عبداللہ البغدادی الحنفی
یہ عالم، واعظ، ابوالفرج عبدالرحمن بن الجوزی کے نواسے ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب تذکرة الخواص الامة میں حضرت العسکری علیہ السلام کے حالات زندگی کے بعد ان کی اولاد کے ذکر میں لکھتے ہیں:”م ح م دہیں جو کہ امام علیہ السلام ہیں پھر فرمایا: ”م ح م د“حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام بن جعفر علیہ السلام بن محمد علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن الحسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں آپ علیہ السلام کی کنیت ابوعبداللہ اور ابوالقاسم ہے اور وہی الخلف، الحجة، صاحب الزمان، القائم، المنتظر ہیں اور وہ آخرالائمہ ہیں۔(تذکرة الخواص ص۵۲۳ فصل فی ذکر المہدی علیہ السلام)

پانچویں شخصیت:الشیخ الاکبر مح ¸ الدین العربی
انہوں نے اپنی کتاب الفتوحات کے باب ۶۶۳میں لکھا ہے یہ بات تم سب لوگ جان لو کہ مہدی علیہ السلام کا خروج ضروری ہے لیکن وہ اس وقت تک خروج نہیں کریں گے مگر یہ کہ زمین ظلم و جور سے مکمل طور پر بھر جائے گی۔
پس آپ آ کر اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے، اگر دنیا سے سوائے ایک دن کچھ باقی نہ بچے تو اللہ اس دن کو طولانی کر دے گا، یہاں تک کہ خدا اس خلیفہ کو ولایت دے گا وہ رسول اللہ کی عترت سے ہیں فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد سے ہیں ان کے جد حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں، ان کے والد الحسن العسکری علیہ السلام بن الامام علی النقی علیہ السلام بن الامام محمد التقیعلیہ السلام بن الامام علی الرضعلیہ السلام بن الامام موسیٰ الکاظم علیہ السلام بن الامام جعفر الصادقعلیہ السلام بن الامام محمد الباقر علیہ السلام بن الامام علی زین العابدین علیہ السلام بن الامام الحسین علیہ السلام بن الامام علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ان کا نام رسول اللہ کے نام جیسا ہے مسلمان، رکن اور مقام کے درمیان ان کی بیعت کریں گے آپ علیہ السلام شکل و صورت یعنی خلقت میں رسول اللہ سے مشابہ ہوں گے اخلاق میں ان سے کم درجہ پرہوں گے کیونکہ رسول اللہ کے اخلاق میں کوئی ایک بھی ان جیسا نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِی ±مٍ“(سورةالقلم آیت ۴)
بتحقیق بلا شک و شبہ تو تو یقینی طور پر خلق عظیم پر ہے۔ آپ کی آنکھیں کھلی ابھری ہوئی چوڑی پیشانی ہوگی باریک بینی والے ہوں گے ۔کوفہ والے سب سے زیادہ ان کے وسیلہ سے سعادت مند ہوں گے مال کو برابر تقسیم کریں گے رعیت میں عدل قائم کریں گے حضرت خضر علیہ السلام آپ کے آگے چلیں گے آپ پانچ یا سات یا نو سال زندگی کریں گے رسول اللہ کے نشانات پر چلیں گے ان کے لئے ایک فرشتہ ہوگاجو ان کی تائید کرے گا جودیکھا نہ جا سکے گا۔یعنی ایک فرشتہ ان کی راہنمائی کے لئے موجود ہوگا جو ان کی حفاظت پر مامور ہوگا رومی اس شہر کو سترہزار مسلمانوں کے ہمراہ ایک تکبیرسے فتح کریں گے اللہ ان کے وسیلہ سے اسلام کو عزت دےگا جب کہ ان سے پہلے اسلام ذلیل ہو چکا ہوگا اسلام مرچکا ہوگا اسے آپ زندہ کریں گے جزیہ ختم کر دیں گے اللہ کی طرف تلوار کے ذریعہ دعوت دیں گے جو انکار کرے گا اسے قتل کر دیں گے جو بھی اس سے جھگڑے گا وہ رسوا ہو گا ہر قسم کی برائی سے پاک دین خالص کی حکومت قائم کریں گے(آخر تک اس گفتگو کو انہوں نے جاری رکھاہے)(الفتوحات المکیہ ج۳ص۹۱۴یا۶۶۳ طبع بولاق مصری، الیواقبت والجواہرص۲۲۴،۳۲۴)

چھٹی شخصیت:الشیخ العارف عبدالوھاب بن احمد بن علی الشعرانی
اپنی کتاب الیواقیت کی ج۲ میں بحث نمبر۵۶میں تحریر کیاہے”تمام وہ شرائط جن کو شارع مقدس(رسول اکرم) نے بیان کیا ہے وہ سب برحق ہیں اور قیامت کے بپا ہونے سے پہلے وہ سب کی سب پوری ہوں گی اور اس طرح سے ہے کہ مہدی علیہ السلام کا خروج ہونا پھر دجال کا آنا پھر عیسیٰعلیہ السلام کا نزول....اس کے بعد تحریر کرتا ہے وہ ہزار سال تک کے واقعات لکھتا ہے پھر تحریر کرتا ہے دین مٹ جائے گا، دین غریب ہو جائے گا اور یہ گیارہویں صدی ہجری سے تیس سال گذر جانے کے بعد سے ہوگا۔
اس وقت مہدی علیہ السلام کے خروج کا بڑی شدت سے انتظار ہوگا اور آپ امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد سے ہیں آپ علیہ السلام کی ولادت ۵۱شعبان ۵۵۲ہجری قمری کے سال میں ہوئی ہے اور وہ اب تک باقی اور موجود ہیں یہاں تک کہ وہ عیسیٰعلیہ السلام بن مریم علیہ السلام کے ساتھ اکٹھے ہوں گے اور ان کی عمر اس وقت(۵۸۹ہجری قمری میں)سات سوتین سال ہے۔
(الیواقبت والجواہرص۲۲۴بحث ۵۶)

ساتویں شخصیت:نورالدین عبدالرحمن بن قوام الدین الاشتی الجامی الحنفی
شواہدالنبوة میں لکھا ہے(مقدمہ غیبة النعمانی ص۴۱)

آٹھویں شخصیت: الحافظ ابوالفتح محمد بن ابی الفوارس
انہوں نے اپنی کتاب اربعین میں لکھاہے۔(منتخب الاثرص۲۱)

نویں شخصیت :ابوالمجدعبدالحق الدھلوی البخاری
انہوں نے اپنے کتابچہ المناقب میں لکھا ہے: ابومحمد العسکری علیہ السلام کا بیٹا(م ح م د)ہے جس کے بارے ان کے معتمدین اور خاص اصحاب کو معلوم تھا(کشف الغمہ ج۲ص۸۹۴)

دسویں شخصیت: السید جمال الدین عطاءاللہ بن السیدغیاث الدین فضل اللہ بن السید عبدالرحمن
مشہور محدث جس کی کتاب فارسی روضة الاحباب مشہور ہے اس میں وہ لکھتاہے:
بارہویں امام ”م ح م د“ہیں حسن علیہ السلام کے بیٹے ہیں آپ کا مبارک و مسعود تولد۵۱شعبان ۵۵۲ ہجری قمری کے سال میں سامرہ کے اندر ہوا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کا تولد۳۲ رمضان المبارک ۸۵۲ ہجری قمری کے سال ہوا آپ گوہر نایاب کی والدہ ام ولد(کنیز)تھیں جس کا نام صیقل یا سوسن تھا۔
(غیبت مقدمہ نعمانی ص۴۱، مقتضب الاثرص۲۱)

گیارہویں شخصیت:الشیخ العالم الادیب الدولہ
ابومحمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن الحشاب
انہوں نے صدقہ بن موسی سے اس بات کو نقل کیاہے
(تاریخ موالیدالائمہ لابن الخشاب ص۵۴، کشف الغمہ ج۳ص۵۶۲)

بارھویں شخصیت: عبداللہ بن محمد المطری
انہوں نے امام جمال الدین السیوطی کے حوالے سے احیاءالمیت بفضائل اہل البیت علیہ السلام، رسالہ میں بیان کیا ہے حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام کی اولاد سے مہدی علیہ السلام ہیں جو آخری زمانہ میں مبعوث ہوںگے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں ان کے گیارہویں فرزندمحمد القائم المہدی علیہ السلام ہیں اور ان کے بارے میں نبی اکرم کا واضح بیان گذر چکا ہے کہ ملت اسلام میں مہدی علیہ السلام ہوں گے جو صاحب السیف ہوں گے قائم منتظر ہوں گے(سیوطی کا رسالہ احیاءالمیت الاتحاف بحب الاشراف کتاب کے حاشیہ پر چھپا ہوا موجود ہے لیکن اس میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے کلام موجود نہیں ہے۔یہ نقطہ قابل غور ہے....مصنف) مترجم کہتا ہے ہو سکتا ہے عبداللہ بن محمد الطبری نے اس کو مخطوط رسالہ سے پڑھا ہو لیکن بعد میں چھاپنے والوں نے اس بیان کو نکال دیا ہو)

تیرہویں شخصیت : شہاب الدین
یہ ملک العلماءشمس الدین کے نام سے معروف ہیں، ابن عمرالہندی، البحرالمواج تفسیر کے مصنف ہیں انہوں نے اپنی کتاب ”ہدایة السعدائ“ میں جابر بن عبداللہ انصاری سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جابر کہتے ہیں میں سیدہ فاطمةالزہراءعلیہ السلام بنت رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوا ان کے سامنے تختیاں موجود تھیں جن میں ان کی اولاد سے آئمہ کے نام درج تھے ان میں پہلے زین العابدین علیہ السلام تھے یعنی حسین علیہ السلام سے نو امام جو ہیں ان میں پہلے، دوسرے امام محمدباقرعلیہ السلام ہیں پھر ترتیب وار لکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں نویں امام حجت قائم امام مہدی علیہ السلام ان کے بیٹے ہیں، وہ غائب ہیں، ان کی لمبی عمر ہے، جس طرح حضرت عیسیٰعلیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام مومنین سے اور کافروں سے دجال اور سامری ہیں۔(غیبت نعمانی کے مقدمہ میں اس کانام شہاب الدین آبادی لکھا ہے ص۵۱ اسی طرح الغدیر میں ج۶ص۶۳۱ حدیث ۲۳۴)
حدیث اللوح کو بہت سارے علماءنے ذکر کیا ہے دیکھیں کشف الغمہ ج۳ص۶۴۲ ، فرائدالسمطین ج۲ص۶۳۱حدیث ۲۳۴)

چودہویں شخصیت:مشہور عالم فضل بن روزبھان
انہوں نے الشمائل للترمذی کی شرح لکھی ہے آئمہ کی شان میں اس کا منظوم کلام ہے(مترجم کہتا ہے کہ انہوں نے بارہ آئمہ علیہ السلام کے نام بنام صلوات بھی لکھی ہے جس کا ترجمہ ماہنامہ پیام زینب علیہ السلام میں شائع ہواہے)

منظوم کلام، آئمہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام عقیدت
سلام علی المصطفیٰ المجتبیٰ

سلام علی السیدالمرتضیٰعلیہ السلام
سلام علی ستا فاطمہعلیہ السلام

من اختارھا اللہ خیرالنسائ
سلام من المکہ الفاسہ

علی الحسن الالمعی الرضعلیہ السلام
سلام علی الاورعی الحسینعلیہ السلام

شہید بری جسیمہ کربلا
سلام علی سیدالعابدینعلیہ السلام

علی بن الحسین المجتبیٰعلیہ السلام
سلام علی الباقر علیہ السلام المہتدی

سلام علی الصادقعلیہ السلام المقتدی
سلام علی الکاظمعلیہ السلام الممتحن

رضی السیجایا امام التقیعلیہ السلام
سلام علی التامن الموتمن

علی الرضعلیہ السلام سید الاصفیائ
سلام علی المتقی التقیعلیہ السلام

محمد الطیب المرتجی
سلام علی الاریحی النقیعلیہ السلام

علی المکرم ھادی انوری
سلام علی السید العسکریعلیہ السلام

امام یجھز جیش الصفا
سلام علی القائمعلیہ السلام المنتظر

ابی القاسم العرم نور الہدیٰ
لیطلع کاشمس فی عاسق

ینجیہ من سیفہ المنتقی
قوی یملاءالارض من عدلہ

کما ملئت جوراھل الھوی
سلام علیہ و آبائہ

وانصارہ ما تدوم السمائ
(کتاب چہاردہ معصوم کے مقدمہ میں ص۱۳)

پندرھویں شخصیت: العالم العابدالعارف الاورع الباع الالمی الشیخ سلیمان بن خواجہ کلان الحسین القندوزی البلخی
صاحب کتاب ینابیع المودة، اس نے بہت زیادہ اس بات پر زور دیا ہے اور اسے ثابت کیا ہے اپنے ذرائع سے، کہ مہدی علیہ السلام موعود وہی حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں، بہت سارے ابواب میں جس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
(ینابیع المودة ج۱ص۹۸باب۳۷)

سولہویں شخصیت: العارف المشہدی شیخ الاسلام احمد الجامی
انہوں نے بیان کیا ہے کہ عبدالرحمن الجامی نے اس بارے میں اپنی کتاب النفحات میں لکھاہے۔(ینابیع المودة ج۳ص۹۴۳، نفحات الانس ۷۵۳حاشیہ پر)

سترہویں شخصیت: ابن خلکان
انہوں نے اپنی تاریخ میں دیا ہے کہ ابن الازرق نے مبافارقین کی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ یہ حجت مذکورہ کی ولادت ۹ ربیع الاول ۸۵۲ہجری قمری کے سال میں ہوئی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت ۸شعبان ۶۵۲ھجری میں ہوئی ہے دوسرا قول زیادہ صھیح ہے اور یہ کہ جس وقت آپ سرداب میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر چار سال تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی عمر پانچ سال تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام سرداب میں ۵۷۲ہجری قمری کے سال میں گئے، اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر۷۱سال تھی اللہ ہی بہترجانتا ہے کہ کیا تھا، اللہ کا ان پر سلام ہو اور اللہ کی ان پر رحمت ہو۔
(الصواعق المحرقہ ص۴۱۳،ص۷۴۲،۲۱)

اٹھارہویں شخصیت: الشیخ شمس الدین محمد بن یوسف الزیدی
انہوں سے مواج الاصول الی معرفة فضل آل الرسول میں نقل کیا ہے ۔
بارہویںامام مشہور کرامات والے ہیں ان کی منزلت علم کے ذریعے بلند ہے حق کی پیروی میں اور قیام کرنے کے حوالے سے وہ بلندمرتبے والے ہیں جیسا کہ شیعوں نے بیان کیا ہے ان کی ولادت ۵۱شعبان شب جمعہ ۵۵۲ہجری قمری کے سال ہے۔ وہ قائم بالحق، الداعی الی منہج الحق، الامام ابوالقاسم محمد بن الحسن ہیں۔ آپ المعتمد کے زمانہ میں سرمن رائے میں موجود تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ نرجس بنت قیصر اور رومیہ ہیں اور ام ولد تھیں۔

انیسویں شخصیت: الشیخ محمد بن المحمود الحافظ البخاری
ان سے ان کی کتاب میں یہ بیان نقل ہوا ہے ابومحمدالحسن العسکری کے بیٹے محمد ہیں اور یہ بات ان کے خاص اصحاب کے لئے معلوم تھی۔(ینابیع المودة ج۳ص۴۰۳)

بیسویں شخصیت: الشیخ عبداللہ بن محمد المطہری الشافعی
ان سے الریاض الزاہرہ فی فضل آل بیت النبی و عترتہ الطاہرہ میں نقل ہوا ہے ابوالقاسم محمد الحجة بن الحسن الخالص کی ولادت سرمن رائے میں ۵۱شعبان کی رات ۵۵۲ ہجری قمری کے سال ہوئی۔
الحائری نے اس پورے بیان کو الزام الناصب میں نقل کیا ہے اور الشیخ النوری نے النجم الثاقب میں بھی اسی طرح کا بیان نقل کیا ہے یعنی ان تمام شخصیات کا تذکرہ ان دونوں کتابوں میں موجود ہے۔