بسم اللہ الرحمن الرحیم
4- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت
از: مولانا محمد آصف رضا
علماءاسلام کا اعتراف ثابت و واضح ہو گیا کہ امام مہدی علیہ السلام کے متعلق جو عقائد اہل تشیع کے ہیں وہی غیر متعصب و منصف مزاج اہل سنت علماءکے بھی ہیں اور مقصد اصل کی تائید قرآن کی آیات مبارکہ سے کر دی ہے اب رہی غیبت امام علیہ السلام کی ضرورت اس کے متعلق عرض ہے کہ خداوندمتعال نے ہدایت خلق کے لیے ایک لاکھ تیئس ہزار نو سو ننانوے انبیاءکے حضور اکرم تشریف لائے یعنی کل ایک لاکھ چوبیس ہزار ہو گئی اور کثیر التعداد ان کے اوصیاءبھیجے لہذا تمام انبیاءو اوصیاءکے جملہ صفات و کمالات و معجزات حضرت محمد میں جمع کر دیئے بلکہ اللہ نے خود اپنی ذات کا مظہر بنایا اور چونکہ آپ کو بھی اس دنیائے فانی سے ظاہری طور پر جانا تھا اس لیے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی علیہ السلام کو ہر قسم کے کمالات بھر پور کر دیا تھا یعنی حضرت علی علیہ السلام اپنے ذاتی کمالات کے علاوہ نبوی کمالات سے بھی ممتاز ہو گئے۔
سرورکائنات کے بعد خلق عالم میں صرف ایک علی علیہ السلام کی ہستی تھی جو کمالات انبیاءکی حامل تھی آپ علیہ السلام کے بعد یہ کمالات اوصیاءمیں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی علیہ السلام تک پہنچے۔
بادشاہ وقت امام مہدی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا اگر وہ قتل ہو جاتے تو دنیا سے انبیاءو اوصیاءکا نام و نشان مٹ جاتا اور سب کی یادگار بیک ضرب شمشیر ختم ہو جاتی اور انہیں انبیاءکے ذریعہ سے خداوندعالم متعارف ہوا تھا لہذا یہ ذکر بھی ختم ہو جاتا اس لیے ضرورت تھی کہ ایسی ہستی کو محفوظ رکھا جائے جو جملہ انبیاءو اوصیاءکی یادگار اور تمام کمالات کی مظہر ہو۔
خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا وجعلھا کلمة باقیہ فی عقبہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل اس کلمہ باقیہ قرار دے دیا ہے لہذا نسل ابراہیم علیہ السلام دو فرزندوں سے چلی ہے ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام اسحاق علیہ السلام کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ باقی قرار دے کر آسمان پر محفوظ کر دیا اب یہ مقتضائے انصاف ضرورت تھی کہ نسل اسماعیل علیہ السلام سے بھی کسی ایک کو باقی رکھے اور وہ بھی زمین پر کیونکر آسمان پر ایک باقی موجود تھا لہذا امام مہدی علیہ السلام جو نسل اسماعیل علیہ السلام سے ہیں زمین پر زندہ اور باقی و قائم رکھا اور انہیں بھی اسی طرح اعداد کے شر سے محفوظ فرمادیا جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو محفوظ کیا گیا تھا۔
یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا اور امام زمانہ علیہ السلام سے خالی نہیں رہ سکتی یہ بات تقریباً منصف مزاج اہل سنت کے ہاں مسلم ہے چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہ تھا اور انہیں بادشاہ وقت معتمدین متوکل عباسی جو اپنے آباءو اجداد کی طرح ظلم و ستم کا خوگر اور آل محمد کا جانی دشمن تھا اس کے کانوں میں امام مہدی علیہ السلام کی ولادت بھنک پڑ چکی تھی اس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین و تدفین سے پہلے حضرت کے گھر پر چھاپہ ڈلوایا اور چاہا کہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتار کر کے قتل کر دیا جائے لیکن چونکہ وہ بحکم خدا ۳۲ رمضان ۹۵۲ہجری کو سرداب میں جا کر غائب ہو چکے تھے پھر معتمد نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی تمام بیبیوں کو گرفتار کرا لیا اور حکم دیا کہ اس امر کی تحقیق کی جائے کہ ان میں کوئی حاملہ ہے تو حمل ضائع کر دیا جائے کیونکہ سرورکونین کی پیشن گوئی سے خائف تھا کہ مہدی علیہ السلام کائنات عالم کے انقلاب کا ضامن ہو گا اس لیے معتمد آپ علیہ السلام کے قتل پر تلا ہو اتھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ و ستور فرما دیا۔
حدیث میں ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے اور انہیں کے ذریعہ رزق تقسیم ہوتی ہے۔
یہ مسلم ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام جملہ انبیاءکے مظہر تھے اس لیے ضروری تھی کہ انہی کی طرح ان کی غیبت بھی ہوتی جس طرح بادشاہ وقت کے نظام کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد اپنے عہد حیات ہی مناسب مدت تک غائب رہ چکے ہیں اسی طرح یہ بھی غائب رہتے۔
قیامت کا آنا مسلم ہے اور واقعہ قیامت میں امام وقت کا ذکر بتایا ہے کہ آپ علیہ السلام کی غیبت مصلحت خداوندی کی بناءپر ہوئی ہے۔
سورہ قدر سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول ملائکہ شب قدر میں ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ نزول ملائکہ انبیاءو اوصیاءہی پر ہوا کرتا ہے اس لیے امام علیہ السلام کو باقی رکھا کہ نزول ملائکہ کی مرکزی غرض پوری ہو سکے حدیث میں ہے کہ شعب قدر میں سال بھر کی روزی وغیرہ امام مہدی علیہ السلام تک پہنچا دی جاتی ہے اور آپ علیہ السلام اسے تقسیم کرتے ہیں۔
یہ دوسری بات ہے کہ عام لوگ اس حکمت و مصلحت سے واقف نہ ہوں غیبت امام مہدی علیہ السلام اسی طرح حکمت و فلسفہ خداوندی کی بناءپر عمل میں آتی ہے جس طرح طواف کعبہ رمی جمرہ وغیرہ۔
جس کی اصل حکمت خداوندمتعال کو معلو ہے۔
چونکہ آپ علیہ السلام کو اپنی جان کا خوف تھا اور یہ طے شدہ ہے کہ جسے آپ نے نفس و جان کا خوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کو لازمی جانتا ہے و من خاف علی نفسہ احتاج الی الاستتار۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان پرشان ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کو اس لیے غائب کیا جائے گا تا کہ خداوندعالم اپنی ساری مخلوقات کا امتحان کر کے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اور باطل پرست کون لوگ ہیں۔
باقی وجوہات اور مصالح کے علاوہ یہ بھی امر خالی از حکمت و مصلحت نہیںہے کہ آپ علیہ السلام کی غیبت اس لیے واقع ہوئی ہے کہ خداوندعالم ایک وقت معین میں آل محمد پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کا بدلہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ سے لے گا یعنی آپ علیہ السلام عہد اول سے لے کر بنی اُمیہ اور بنی عباس کے ظالموں سے بدلہ لیں اس لیے حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا تقریباً یہی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت کی بناءپر پردہ غیبت میں رکھا اور غیبت ہی میں ہونے کے باوجود آپ علیہ السلام سے دنیا کے مسائل چند اصحاب خاص کی وجہ سے حل ہوتے ہیں اور آپ علیہ السلام بحکم خدا ایک وقت مقررہ پر ظہور پر نور فرما کر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ وہ فسق و جور سے بھر چکی ہو گی اور کل کائنات میں صرف ایک ہی دین محمدی ہو گا آپ علیہ السلام کی حکومت بروایت چالیس سال تک ہو گی علی ولی اللہ کا بول بالا ہو گا اور کفر کا منہ کا ہو گا۔
لہذا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کا جلد ظہور فرمائے۔
|