امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے
 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ
از: رخسانہ بتول
غیبت کے لغوی معنی نظروں سے پوشیدہ ہونے کے ہیں اس لحاظ سے لفظ غیبت کوئی نیا لفظ نہیں ہے غائب خدا کی ذات سمیت اکثر اشیاءجو ہر انسان کے ساتھ ساتھ وابستہ ہیں غائب ہیں مثال کے طور پر خدا خود ہی غائب ہے جناب آدم علیہ السلام جناب ادریس علیہ السلام، جناب ابراہیم علیہ السلام، جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب عیسیٰ علیہ السلام خود اپنے پیغمبر محمد اپنے زمانہ نبوت میں کچھ عرصہ غیبت میں رہے تو یقینا ان کے وجود سے ان کے ماننے والوں کو فائدہ پہنچتا رہا اس کے علاوہ جنت بھی غائب ہے دوزخ بھی غائب ہے عقل غائب روح غائب ملائکہ غائب جنات غائب۔
غرض یہ کہ جس شخص کا غیب پر ایمان نہ ہو وہ مسلمان ہی نہیں جہاں تک ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کے غیبت کا سوال ہے تو عرض یہ ہے کہ ہمارے امام علیہ السلام کی غیبت دو دور گزرے ہیں۔

غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ
شعبان معظم کی ۵۱ مقدس تاریخ تھی کہ نور پھر آج محمد کا دوبارہ چمکا بارہویں برج امامت کا ستارہ چمکا آغوش نرجس علیہ السلام میں گل امامت قیامت کی خوشبو لے کر آی تابش انوار محمدی سے کون و مکاں جمگمگا اُٹھا نور ازل سے سرحد ابد سے جا ملا ڈوبتی دنیانے سکون کا سانس لیا قیام عالم کو قائم آل محمد آیا عدل آیا اورباطل گیا آخری بنٹی کا آخری جانشین وارثین کی تلاوت کرتا ہوا آیا خاتم المرسلین کا خاتم الوارثین جاءالحق زھق الباطل کی تفسیربن کر رسالت کی تصویر بن کر دین کی تقدیر بن کر رسالت کی تصویر بن کر اسلام کی توقیر بن کر آیا مشرکین و منافقین کے لیے مہلت کا پیغام لایا رحمت کا تقاضا تھا کہ ابھی ظالموں کو کچھ اور وقت دے کر انتظار لیا جائے ابھی یہ نور عمر کی پانچویں منزل ہی میں پہنچا تھا کہ اس نور کو بجھانے کی پھر کوششیں شروع ہوئیں۔
رشیق حاجت کا بیان ہے کہ ایک روز بعد شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام معقدباللہ خلیفہ نے مجھے طلب کیا اور حکم دیا کہ دوسو سواروں کے ہمراہ ابھی جا کرخانہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا محاصرہ کرو اس میں جس بچے یا بڑے کو پاﺅ فوراً قتل کر کے اس کا سر میرے پاس لے آﺅ میں نے دو سو سواروں کو لے کر خانہ حسن عسکری علیہ السلام کا محاصرہ کیا اور داخل ہو کر کسی نہ پایاایک دروازے پر پردہ پڑا ہوا تھا میں اندر داخل ہوا تو ایک سراب تھا اور ایک طرف دریا نظر آیا جس پر چٹائی بچھائے ہوئے ایک بچہ مصروف عبادت تھا میرا ایک ساتھی پانی میں اترا تا کہ بچہ تک پہنچے مگر ڈوبنے لگا ہم نے بڑی مشکل سے اس کی جان بچائی دوسرا گیا تو اس کا بھی یہی حال ہوا میں نے کنارے پر کھڑے ہو کر معافی چاہی یہیں سے امام علیہ السلام کی غیبت صغریٰ کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں نائبین امام علیہ السلام ہی زیارت سے مشرف ہوتے رہے آپ علیہ السلام عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہو گئے صرف چار بزرگ جو علم و فضل زہد و تقویٰ میں بے مثل و بے نظیر تھے حضرت نے ان کو اپنا وکیل مقرر فرمایا تھا وہی لوگوں کے مسائل اپ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے تھے آپ علیہ السلام کسی کو زبانی اور کسی کو لکھ کر جوابات پہنچا دیتے تھے وہ بزرگ جن کو امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل تھا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
عثمان بن سعید، ابوجعفر محمد ابن عثمان، ابوالقاسم بن روح، ابوالحسن علی بن محمد سمری یہ وکلاءستر سال تک امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔
غیبت بارہویں امام علیہ السلام ہی کے ساتھ کیوں مخصوص ہوتی اور امام بارگاہ ہی کیوں ہوتے؟
نظام عالم کی بقا اور قیام کے لیے قدرت نے اسی بارے کے عدد ہی سے کام لیا نظام شمسی کے بقا اور قیام کے لیے گیارہ یا تیرہ نہیں بارہ برج قرار دیئے جن پر بقائے عالم کو موقوف رکھا نظام ارض کے لیے شب و روز خلق فرمائے جن کا مدار بارہ گھنٹوں پر رکھا سال کو بارہ مہینوں پر تقسیم کر کے زمانہ کی پیمائش سے روشناس کیا اور یہ عدد کس قدر قدرت کو پسند آیا کہ اپنے کلمے لا الہ الا اللہ میں بارہ ہی حرف رکھے حبیب کا نام آتا تو محمد الرسول اللہ کہہ کر بارہ ہی حرف کا مجموعہ بنا علی اعلی علیہ السلام نے جب علی علیہ السلام کو نوازا تو علی علیہ السلام خلیفة اللہ کہہ کر بارہ ہی حرف عطا کیے جب آدم علیہ السلام صفی اللہ کو وصی عطا ہوتے تو بارہ ہی وصی عطا کیے نوح نجی اللہ کو بارہ خلیفہ اور وصی عطا ہوئے ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کو بھی بارہ ہی وصی دیئے موسیٰ کلیم اللہ کے بھی بارہ ہی وصی تھے عیسیٰ روح اللہ کو بھی بارہ ہی حوارتین عطا ہوئے پھر خاتم المرسلین علیہ السلام کو کیوں نہ بارہ وصی ملتے اس لیے کہ یہ ہے مختصر زمانہ کا بارہ ہی پر نظام بارہ ہی برج بارہ ہی گھنٹے ہیں صبح و شام ہے سال کا بھی بارہ مہینوں پہ اختتام اس پر یہ اعتراض ہے بارہ میں کیوں امام علیہ السلام۔
قدرت کو اپنے حبیب کی نبوت کو تاقیامت قائم اور باقی رکھنا تھا اس لیے ضروری تھا کہ آپ کا کوئی وصی قائم علیہ السلام آل محمد دنیا میں تا قیامت تک رہے تا کہ کوئی غلام دعویٰ نبوت نہ کر سے ختم نبوت سے یہ مطلب نہیں کہ نبوت ختم ہو گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت تک محمد کی نبوت اب ختم ہی نہیں ہو گی اور آپ کی نبوت سے قیامت تک کوئی زمانہ خالی ہی نہیں رہے گا اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب اپ کا کوئی وصی دنیا میں موجود ہو چنانچہ حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول خدا نے ہم سے فرمایا کہ دنیا ختم نہ ہو گی جب تک ایک شخص میرے فرزندوں سے جو میرا ہمنام ہو گا پیدا نہ ہو لے سلمان فارسیؓ نے کھڑے ہو کر سوال کیا یارسول اللہ آپ کے فرزندوں میں سے وہ کون ہو گا؟ امام حسین علیہ السلام اس وقت آغوش رسول اللہ مں تھے رسول اللہ نے اپنے نواسہ حسین علیہ السلام کے شانہ پر دست مبارک رکھ کر فرمایا میرے اس فرزند کی اولاد سے آپ ہی نے ارشاد فرمایا میرے وصی بارہ ہوں گے اول علی علیہ السلام اور آخر قائم علیہ السلام امام حسین علیہ السلام نے فرمایا نواں میری نسل میں سے وہ امام علیہ السلام ہے جو قائم علیہ السلام ہو گا جس کے ذریعہ دین حق تمام ادیان عالم پر غالب ہو گا اس کی طولانی غیبت کبریٰ کی وجہ سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے جو ایمان پر بر قرار ہوں گے ان کو رکاب جہاد کرنے کا ثواب حاصل ہو گا کسی فرقہ نے آپ علیہ السلام کی ولادت سے انکار نہیں کیا اور کوئی قول کسی مورخ کا اور کسی فرقہ کے علماءکا ایسا نہیں جس میں آپ علیہ السلام کے انتقال کی خبر دی گئی ہو۔
لہذا جب تک کسی کا مرنا معلوم نہ ہو اس کو زندہ ماننا ضروری ہے اور امام علیہ السلام کا وجود اس لیے بھی ضروری ہے کہ وجود امام علیہ السلام پر ایمان نہ ہونے سے مسلمان مسلمان ہی نہیں رہتا اور اپنے امام علیہ السلام زمانہ کی معرفت کے بارے میں سیدالمرسلین صادق و آمین رسول کائنات کی معتبر حدیث ہے ”جو شخص مر جائے اور اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت نہ رکھتا ہو وہ کافروں کی موت مر جائے گا“
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی جس نے اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کو نہ پہچانا وہ کفر کی موت مرا لہذا سنو میرے بعد میرا جانشین پیغمبر اسلام کا ہم نام ہے جس کی طولانی غیبت ہے ہمارے تو ایمان کی ابتداءہی غیبت سے ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام کو جب ہم نے دیکھا ہی نہیں تو کیسے مان لیں ان سے کہہ دو۔
نہیں دیکھا ہم نے یہ عذر باطل امامت کا اقرارد کرنا پڑے گا اگر ضد یہی ہے کہ دیکھیں تو مانیں خدا بھی انکار کرنا پڑے گا۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ ایک انسان کی اتنی طویل عمر کیسے ہو سکتی ہے اور اگر طویل عمر ہے بھی تو غائب کیوں ہیں حقیقت کو مخالفین بھی سمجھتے ہیں مگر بارہویں امام علیہ السلام کے وجود کو اس وقت اس لیے نہیں مانتے کہ کہیں کڑی کڑی مل کر بارہ کا سلسلہ مکمل نہ ہو جائے ان لوگوں سے اگر پوچھا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام، خضر علیہ السلام، الیاس علیہ السلام زندہ ہیں اور غائب ہیں تو فوراً جواب ملے گا کہ ہاں زندہ ہیں قرآن شاید ہے اور خدا قادر ہے جس کو چاہے اور جب تک چاہے زندہ رکھے مگر جب اس بارہویں ہادی علیہ السلام کا سوال آئے گا تو کہا جائے گا کہ اتنی عمر ایک انسان کی ہو ہی نہیں سکتی کبھی کہا جاتا ہے کہ اگر موجود ہیں اور غائب ہیں تو غائب ہدایت کیا کر سکتا ہے اور جب ہدایت نہیں تو موجود ہونے کا کیا فائدہ میں عرض کروں گی۔
بے فائدہ غیبت ہے غلط ہے گمان اللہ بھی پردہ میں ہے خود فیض رساں شیطان پہ ایمان ہے جو بہکاتا ہے مہدی علیہ السلام کی ہدایت پہ نہیں ہے ایمان شیطان اگر پردہ میں بیٹھا ہوا بہکا رہا ہے تو ہمارا ایک امام علیہ السلام بھی پردہ غیبت میں رہ کر راہ ہدایت دکھا رہا ہے خدا کا شکر ہے ہمارا امام علیہ السلام موجوود ہے قیامت ان کی ہے جن کا کوئی امام نہیں اب یہ سوال کے کب ظاہر ہوں گے تو ابھی کچھ انتظار ہے باقی حکم پروردگار ہے باقی کیسے آجائے آفتاب نظر جب فضا میں غبار ہے باقی ارشاد پروردگار عالم ہے:
مت سوال کرو ان چیزوں کا جن کا سوال نہیں کرنا چاہیے۔
۹۲۳ہجری سے حضرت کی غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا اس کے بعد پھر کوئی آپ علیہ السلام کے پاس نہ جا سکا لہذا کوئی نہیں بتا سکتا کہ آپ علیہ السلام کہاں ہیں اور کب تک پردہ غیبت میں رہیں گے اور اس کا علم سوائے خداوندعالم کے کسی کو نہیں اور جہاں تک غیب کا سوال ہے تو اسلام کی بنیاد ہی غائب پر ایمان لانے سے شروع ہوتی ہے۔