بسم اللہ الرحمن الرحیم
13-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں
از:بی بی آسیہ حیدری
سلسلہ گفتگو امام علیہ السلام کے زمانے میں ہماری ذمہ داریاں کے بارے میں ہے یہ بہت ہی اہم وسیع ترین اور گہرائی طلب موضوع ہے میں یہ کوشش کروں گا کہ اس حوالے سے ہمارے ذمہ داریوں پر مفصل روشنی ڈالوں اسی موضوع پر گفتگو کروں گی آج بہت ضروری ہے اور یہ ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے بالخصوص ہم مولوی صاحبان جنہوں نے امام زمانہ علیہ السلام کا مال کھایا ہے اور ان کے مال سے ہمارا گوشت پوست بنا ہے تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جو ہمارے ولی نعمت ہےں اور جن کے صدقے میں ہم ہیں جن کے صدقے میں ہمارا سارا عنوان ہے ہم اپنی مضمون میں کچھ ان کے بارے میں بھی بیان کریں جو کہ عام طور پر بیان نہیں کیا جاتا یہ افسوس کا مقام ہے کہ جس چیز کو ہم سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہم اسے سب سے کم اہمیت دیتے ہیں اور اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے سب کو معلوم ہے کہ ہم کتنا اپنے امام علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں اور اپنی امر میں علماءغیر علماءسب ہی ذمہ دار ہیں اور انشاءاللہ جب ذمہ داریاں بیان ہو گی تو ہم سب دیکھیں گے کہ ہم میں سے کون سی ذمہ داری ادا کر رہا ہے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے ہماری تکلیف شرعی یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہو کہ ہمارے امام علیہ السلام کا نسب کیا ہے؟ وہ پیدا کب ہوئے ہیں؟ ہمارے امام علیہ السلام کے نام کیا ہیں ان کے اوصاف کیا ہیں؟ اب ہمارے امام علیہ السلام کہاں ہیں ان کی ذمہ داری کیا ہے؟ اور پھر ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اس کا ہمیں مکمل پتہ ہونا چاہیے اگر ہمیں ان کا ہمیں پتہ نہیں ےہ تو ہم مجرم ہیں یہ وہ چیز ہے جس کو مکمل معرفت کہتے ہیں ایک روایت میں ہے مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی اطاعت کرو اس کی بیعت کرو اس کے پیچھے چلو اسی میں تمہاری کامیابی ہے روایت میں ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ظہور قریب آتا جائے گا اتنا ہی یہ نام عام ہوتا جائے گا کہ دوست دشمن سب کی زبان پر ہو گا دشمن ڈر کی وجہ سے اس نام کو یاد رکھے گا اور اس نام کو لے کر کہے گا کہ اسے نہیں آنا اور مومن اسی نام مبارک کو اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچائیں گے اپنے دل کو تسکین، سکون اور راحت پہنچائیں گے معرفت کی دو اقسام ہیں ایک اجمالی و ابتدائی معرفت اور وہ یہ ہے کہ انسان میں امام علیہ السلام کے بارے میں یہ جانتا ہوں کہ ان کا خاندان کیا ہے؟ ان کی ولادت کب ہوئی؟ ان کے فضائل کیا ہیں؟ ان کے اسمائے مبارکہ کیا ہیں؟ معرفت کی دوسری قسم جو کہ انتہائی اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری ذمہ داریاں اس امام علیہ السلام کے حوالے سے کیا ہےں؟ کیونکہ فقط یہ جان لینا کافی نہیں ہے کہ امام علیہ السلام کا حسب و نسب کیا ہے؟ یا ان کے فضائل کونسے ہیں؟ کونکہ وہ معرفت جو انسان کو ہلاکت سے بچائے گی وہ کونسی معرفت ہے یہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ جو اس حالت میں مر جائے اور اپنے زمانے کی امام علیہ السلام کی معرفت نہ رکھتا ہو وہ جہالت اور کفر کی موت مرا یعنی اگر حجت خدا کی پہچان نہیں رکھتا اور اس پہچان کے بغیر مر گیا وہ کفر کی موت مرا کیا اس معرفت سے مراد یہ ہے کہ وہ کس خاندان کا بیٹا ہے؟ ان کی جائے ولادت کہاں ہے؟ ان کے فضائل کا پتہ ہو وہ جو اعمال سر انجام دیتا ہے ان کا پتہ ہو اگر یہی معرفت ہے تو پھر میں کہتا ہو کہ حضور پاک مکہ میں پیدا ہوئے مکہ والے ان کو جانتے تھے آپ نے چالیس سال تک اپنے اخلاق کی عظمت ان سے منوائی وہ آپ کو اچھی صفات کے لحاظ سے بھی پہچانتے تھے وہ آپ علیہ السلام کی مشکل و صورت سے بھی واقف تھے اور خاندان کے لحاظ سے بھی آپ کو پہچانتے تھے انہوں نے دیکھا کہ آپ علیہ السلام کے ہاتھ پر سنگ ریزے کلمہ پڑھ رہے ہیں انہوں نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ کے اشارے سے چاند دو نیم ہو رہا ہے انہوں نے دیکھا آپ چل رہے ہیں اور بادل آپ کے سر پر سایہ کر رہا ہے کون سی چیز ہے جو انہوں نے نہیں دیکھی ہو؟ تو مکہ والے رسول کو پہچانتے تھے اگر معرفت سے یہی مراد ہے تو یہ معرفت تو وہ رکھتے تھے تو کیا اس معرفت نے ان کو بچا لیا یا کفر سے بچایا اس سے پہلے کی بات کریں حضرت عبدالمطلب بھی حجت خدا تھے اپنے زمانے میں ان کے دور میں ابرہہ ہمن سے ہاتھیوں کا ایک غول لے کر کعبة اللہ کو ڈھانے کے لیے آیا اس دور میں ہاتھ اور ان کے فوجی حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے اونٹ اور اونٹیناں چوری کر کے لے گئے حضرت عبدالمطلب علیہ السلام جو مکہ کے بھی سب سے بڑے سردار ہیں اور بنی ہاشم علیہ السلام کے بھی بڑے ہیںکعبہ کی تولیت بھی ان کے ذمہ ہے زمزم کے بھی آپ علیہ السلام انچارج ہیں حاجیوں کے لیے انتظامات آپ علیہ السلام کے ذمے ہیں یعنی اس علاقے کے سربراہ آپ علیہ السلام ہیں آپ علیہ السلام ابرہہ کے پاس جاتے ہیں اس کے فوجیوں نے ابرہہ کے پاس جا کر اطلاع دی کہ مکہ کے سردار آئے ہیں اس نے بڑا احترام کیا اور پوچھا کیسے تشریف لائے ہیں؟ کہا آپ کے سپاہی ہماری اونٹنیاں اور اونٹ چوری کر لائے ہیں وہ ہمیں واپس کر دیں تو اس نے یہ کر کہا ہم تو آئے ہیں آپ کا کعبہ گرانے آپ علیہ السلام آئے ہیں اپنی اونٹنیاں واپس کرانے چھوٹا سوال کیا ہے تو حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے اطمینان سے فرمایا کہ میں اونٹ اور اونٹنیوں کا مالک ہوں اور کعبہ کا مالک و رب موجود ہے میرے اونٹ مجھے واپس کر دو اس کعبہ کا ایک مالک ہے جب جاﺅ گے تو وہ خود ہی اپنے گھر کو بچائے گا اسی وقت تو ان کو یہ بات سمجھ نہ آئی میں کہتا ہوں کہ اے مسلمانوں تم آج رسول پاک کے آباﺅ اجداد کے ایمان میں شک کرتے ہو اور کہتے ہو کہ وہ مسلمان نہیں تھے آﺅ دیکھو اور حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کی بات سنو کس قدر خدا پر اعتماد ہے ظاہر ہے یہ کسی ابوجہل نے تو یہ بات نہیں بولی اور نہ کوئی اور ہیں بلکہ رسول پاک جو علی علیہ السلام کی زبان سے یہ جملے نکلے ہوئے ہیں کہ کعبہ کا رب موجود ہے تاریخ گواہ ہے کہ ابرہہ کے لشکریوں کے ساتھ کیا ہوا؟ ایک ایک ہاتھ کو تباہ کر نے کے لیے ابابیل کا لشکر خدا کی طرف سے آیا اور ہر ایک ابابیل تین بم اپنے ہمراہ لے آیا ہاں چھوٹا سا دانہ چنے سے کم اور سور کی دال سے تھوڑا سا زیادہ۔
سجیل جہنم کا نچلا طبقہ ہے سجیل اس کی کنکریاں ہیں وہ ایسے مخصوص قسم کے بم تھے کہ ایک ایک ابابیل نے تین تین کوفی النار کیا اور ایسا کیا کہ بھسم ہو گئے سورہ الفیل گواہی دے رہی ہے میں کہتا ہوں کہ حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کو سب مانتے تھے ان کا اتنا بڑا معجزہ بھی دیکھا تھا بلکہ یہ مسلمانوں کی بد بختی ہے کہ سورہ الفیل گواہی ہی دے رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں تھے کیسے مسلمان ہیں؟ عجب ہے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے بارے میں دیکھو ان کے متعلق کیسی باتیں کرتے ہیں تاریخ میں لکھا ہے بارش نہیں آرہی تھی پانی ختم ہو گیا حیوان مر رہے تھے خشک سالی بہت تھی حضرت ابو طالب علیہ السلام کے پاس آئے حضرت علیہ السلام کی دعا سے بارش ہوئی اور قحط دور ہوا اس کا مطلب یہ ہوا کہ مکہ والوں کو پتہ تھا اس لےے تو انہوں نے دعا کا کہا چاہیے تو یہ تھا کہ وہ دعا کے لیے عتبہ کو کہتے ولید کے دادا کو کہتے یزید کے پردادا کو کہتے اور عتبہ کے دادا پردادا کو کہتے وہ سب اپنے زمانے کے بڑے بنے ہوئے تھے مکے والے کسی دادا کو کہہ دیتے جو بعد میں مسلمان ہو گئے ان کے دادا کو کہتے پھر حضرت ابوطالب علیہ السلام بھی آپ علیہ السلام کے نو بھائی تھے حضرت حمزہ علیہ السلام کو کہہ دیتے حضرت عباس کو کہہ دیتے بنی ہاشم کے اور تھوڑے افراد تھے کسی اور کو کہہ دیتے اب سارے مکہ والے کس کے پاس آئے حضرت ابو طالب علیہ السلام کے پاس آتے ہیں کہ بارش نہیں ہو رہی دعا مانگو اب دیکھو یہ واقعات ہے جو تاریخ کے حقائق ہیں جو لکھے ہوئے ہیں اور تاریخ میں حضرت ابوطالب علیہ السلام کی دعا بھی لکھی ہوئی ہے تاریخ میں ہے حضرت ابوطالب علیہ السلام کوہ ابو قبیس پر گئے ساروں کو ساتھ لے کر گئے اور دعا کی دعا میں آپ علیہ السلام یہ جملے فرماتے ہیں کہ الہیٰ بحق محمد و آل محمد و علی علیہ السلام و فاطمہ علیہ السلام یعنی ان تین ذوات مقدسہ کا نام لیتے ہیں حضرت علی علیہ السلام و بی بی فاطمہ علیہ السلام کا نام لیتے ہیں جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے اور کہتے ہیں کہ اے اللہ اس وادی کو بارش سے مالا مال کر دے ابھی یہ جملہ بولا ہی تھا دعا کے جملے ختم ہی ہوئے تھے کہ ہر طرف سے بادل امڈ آئے اور بارش شروع ہو گئی ساری وادی جلاتھل ہو گئی اب میں کہتا ہوں کہ وہ سارے لوگ حضرت ابوطالب علیہ السلام کے اس اعجاز کو دیکھتے ہیں اس کی خوبیوں سے واقف ہیں جانتے ہیں ان کے بارے میں اعتراض نہیں کرنا یعنی وہ جو مکہ والے بدو ہیں ابو طالب علیہ السلام کے بارے میں وہ کوئی بات نہیں کرتے جو بھی مشکل پڑے ابوطالب علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں لیکن ان کا یہ جاننا اور ان کا اسی طرح واقف ہونا اس بات نے کیا ان کو بچانا ظاہر ہے اس بات نے ان کو کفر سے نہیں بچایا بات یہ ہو رہی ہے کہ معرفت سے کیا مراد ہے؟ کیا معرفت سے یہی مراد ہے؟ کہ ہمارے امام علیہ السلام کا خاندان کونسا اور کیسا ہے؟ ہمارے امام علیہ السلام کے فضائل کیا ہیں؟ ہمارے امام علیہ السلام کے اوصاف کیا ہیں یہ ہمیں پتہ چل گیا تو ہم نے معرفت حاصل کر لی بس یہی معرفت ہے یہ ایک سوال ہے معاف رکھنا شیعوں کی آج کل بات ہے کہ وہ اس میں کوئی شک نہیں کہ علی علیہ السلام کا ذکر عبادت ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کے فضائل سن لیں گے ان پر خوشی کا اظہار کر لیں گے اور نعرہ لگا دیں گے اور جنت بھی حاصل کر لیں گے اور میں کہتا ہوں اگر جنت اتنی سستی ہے تو ہم کتنے نعرے لگائیں گے اور خوشی کا اظہار کریں گے ذرا غدیر خم کی میدان کی طرف دیکھو کہ ایک لاکھ چالیس ہزار حاجیوں کا مجمع ہے سخت کڑکتی دھوپ سے ظہر کا وقت ہے حضور نے حکم خدا سے سب کو بٹھایا ہے سب بیٹھے ہوئے ہوں گے میں کہتا ہوں کہ ایسے سر جھکا کے بیٹھے ہوں گے کوئی اپنے سر پر سایہ کر رہا ہو گا سخت دھوپ ہے اور ایک لاکھ چالیس ہزار کا مجمع ہے اور بعض نے دو لاکھ سے زیادہ بھی لکھا ہے تو ایک لاکھ چالیس ہزار خود سوچیں کتنا مجع ہو گا یہ سب حج کر کے آ رہے ہیں اور بڑے بڑے صحابی رسول کے ساتھ بیٹھے ہیں اور رسول پاک نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور اتنا بلند کیا کہ ایک نور جب دوسرے نور کے ہاتھ میں پہنچا تو زمین و آسمان کے فاصلے ختم ہو گئے اور ایک ایسی روشنی ظاہر ہوئی اس وقت ٹیلی ویژن تو نہیں تھے لیکن خدائی نظام تھا کہ ان دونوں نوروں کے ملنے سے ایسی روشنی ظاہر ہوئی کہ آخری کونے میں بیٹھے ہوﺅں کو بھی علی علیہ السلام نظر آیا اور علی علیہ السلام کا آقا محمد بھی نظر آیا اور یہاں تک کہ دونوں ذروں کی نورانیت کا بھی سب نے مشاہدہ کیا وہ دیکھو علی علیہ السلام مجھے بتاﺅ کہ جب ایک لاکھ چالیس ہزار کہہ رہے ہوں گے کہ علی علیہ السلام تو ہر طرف علی علیہ السلام علی علیہ السلام نہیں ہو گا جب رسول نے فرمایا من کنت مولاہ فھذا علی علیہ السلام مولاہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی علیہ السلام مولا ہےں اے اس کو دوست رکھے جو علی علیہ السلام کو دوست رکھے اس کی مدد کرو جو علی علیہ السلام کی مدد کرے اسی سے دشمن رکھ جو علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے اسی کو رسوا کرو جو علی علیہ السلام کو چھوڑ دے اس وقت بڑے بڑے اصحاب سب سے پہلے آئے اور مبارک باد دیتے ہیں اور بعض نے با آواز بلند کیا کہ مبارک ہو اے ابوالحسن مبارک ہو آپ علیہ السلام پر بھی مول علیہ السلام بن گئے ہیں اور ہر مومن مرد کے بھی مولا بن گئے ہیں اور میرے مولا ہوئے اور ہر مومن عورت کے بھی مولا ہوئے وہاں پر پڑاﺅ لگا دیا خیمے لگے رہے اور رات دن بیعت ہوتی رہی۔
مردوں نے بھی عورتوں نے بھی بیعت کی اور عورتیں جو ہیں وہ پانی میں آ کر ہاتھ ڈالتی تھیں ہاں یہ تو اسی وقت سب نے مولا علی علیہ السلام کے فضائل دیکھے یا نہیں کیا خیال ہے ہم سے زیادہ وہ مولا علی علیہ السلام کو جانتے تھے اور ہم تو محروم دیدار ہیں وہ تو دیدار بھی کر رہے تھے کیا اس معرفت نے انہیں فائدہ دیا مدح تو وہ مولا علی علیہ السلام کی کر رہے تھے تو گویا جنہوں نے رسول خدا کی مدح کی اور بعد میں گڑ بڑ ہو گئی تو کیا مدح والے شعران کو جنت میں لے جائیں گے وہ کیوں نہیں جائیں گے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقیقی معرفت نہیں رکھتے ہیں ہم اس قسم کی معرفت کو ابتدائی معرفت کہتے ہیں یہ معرفت کافی نہیں ہے بلکہ یہ مقدمہ ہے اگلی معرفت کا اصل معرفت یہ ہے کہ آپ کو پتہ ہو کہ جو حجت خدا پہنچا وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ میرے ذمے کیا کام ہے؟ یعنی پہلے معرفت ہو اور پھر اس پر عمل ہو اگر وہ جانتا ہی نہیں ہو گا کہ مول علیہ السلام کیلئے کیا کرنا ہے؟ مول علیہ السلام کی اطاعت کیسے کرنی ہے تو وہ کفر کی موت مرے گا یہی مرحلہ کافی سخت ہے اسی پر آکر سب بھٹک جاتے ہی اگلے بھی یہیں آکر بھٹک گئے اور آج بھی یہاں بھی معاملہ اسی جگہ پر گڑ بڑ ہے پس ہر دور میں امام علیہ السلام رہے ہیں اس دور کے لوگ آئمہ علیہ السلام کے بارے میں ابتدائی معرفت رکھتے تھے بلکہ اس دور کے اکثر لوگ اور اسی زمانے کے جابر اور ظالم حکمران تھے البتہ حکمران کو یہ پتہ تھا کہ یہ جو ہستیاں ہیں ان کو کائنات پر تصرف حاصل ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کاربند ہے اور فضل کی اپنی منزل پر فائز ہیں کہ اس وقت انتقام پر نہیں آئیں گے اسی لیے تو وہ ان پر ظلم و زیادتی کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس جو تصرف کائناتی ہے اسے وہ استعمال نہیں کریں گے اور کئی دفعہ ایسا ہوا مثلاً منصوردوانقی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو بڑھاپے کے عالم میں بلایا وہ ملعون بہت غصہ میں ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے ہی امام علیہ السلام آئیں گے میں ان کو قتل کر دوں گا مگر جیسے ہی مول علیہ السلام اندر داخل ہو جاتے ہیں یہ تخت سے اُتر جاتا ہے اور ہاتھ نیچے کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یا سیدی یا مولای اے میرے سید حکم کرو اے میرے مولا حکم کرو نوکر ہوں اور اپنی جگہ پر بٹھاتا ہے اور وہ آپ کی ڈاڑھی کو خوشبو لگاتا ہے۔
ہتھیار دے کر اور بڑے احترام سے مول علیہ السلام کو دروازے پر رخصت کرنے کے لیے آتا ہے جب مول علیہ السلام چلے جاتے ہیں تو وزراءنے کہا تم تو آج کہہ رہے تھے کہ میں آج امام علیہ السلام کا کام تمام کرتا ہوں اور غصے میں بھرے ہوئے تھے پھر تمہیں کیا ہوا تو اس نے کہا بھئی دیکھتے نہیں ہو جیسے ہی وہ اندر آئے سامنے سے ایک اژدھا آگیا اور مجھے کھانے لگا میں نے بھاگ کر جان بچائی بادشاہ وقت ہے منصور دوانقی لیکن اس خاندان کے اعجازات کو جانتا ہے یہ چند مثالیں بیان کی ہیں کہ یہ کیا ہی یہ سب باتیں معرفت میں تو آتی ہیں لیکن یہ معرفت بخشش کا تو وسیلہ نہیں ہے یہ معرفت کی ابتدائی معلومات ہیں یہ ہر کوئی لے سکتا ہے ہندو بھی لے سکتا ہے کافر بھی لے سکتا ہے عیسائی بھی لے سکتا ہے ایک مسلمان بھی لے سکتا ہے یہ معلومات تو غیر رشتہ دار کو بھی ہیں جس دن معرفت امام زمانہ علیہ السلام ہمارے دل میں آگئی جس دن معرفت کا نور ہمارے دل میں آگیا اور ہمارا دل اور ہمیں یقین ہو گیا کہ میرا امام علیہ السلام موجود ہے تو پھر بات کچھ اور ہو گی لیکن حقیقت میں ہمیں اس کا یقین نہیں ہے اگر مجھے امام علیہ السلام کا یقین ہے تو مجھے بتاﺅ دیکھیں اگر ایک بچہ دیکھ رہا ہے کہ مجھے میرا بابا دیکھ رہا ہے تو کیا وہ غلط کام کرے گا؟ ظاہر ہے وہ بابا کے ڈر سے یا اس کے حیاءسے غلط کام نہ کرے گا آپ کے دوستے ہیں سب چاہتے ہیں کہ دوستوں میں ان کی عزت ہو اور پتہ چلتا ہے کہ یہ کام میں نے کیا تو میرے دوستوں تک اطلاع پہنچ جائے گی دوستوں میں شرمندہ نہ ہو جاﺅں اس وجہ سے میں وہ کام نہیں کرتا کتنا افسوس ہے ہم کتنے بے حیاءاور بے شرم ہو گئے ہیں کہ سارے اعمال میرے امام علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں میرا امام علیہ السلام میرے اعمال پر گواہ ہیں میرے امام علیہ السلام میرے اعمال پر ناظر ہیں پھر کیسے کیسے کہ دیا تھا کہ میں امام علیہ السلام کی معرفت رکھتا ہوں تو معرفت کی بات ہے جب حاصل ہو جائے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تو پھر ایک عارف امام علیہ السلام کہتا ہے میں دکان پر بیٹھا چیزیں دیا کرتا تھا میرے تصور میں یہ بات بیٹھ گئی کہ لینے والے کسی دن خود امام علیہ السلام نہ آجائیں میں یہ چیزیں دے رہا ہوں کسی دن سودا لینے والے امام علیہ السلام نہ ہوں اسی بات پر میں نے طے کیا کہ کسی قسم کا سودا دینے میں خیانت نہیں کروں گا اصل تو تصور کی بات ہے دل میں ایمان ہو، یقین کی منزل پر انسان فائز ہو، لیکن ہم یقین کی منزل پر فائز نہیں ہےں لہذا یقین حاصل کرنے کے لیے کچھ کریں امام خمینی نے اس بارے میں بڑی علمی بحث کی ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ ہم مسلمان ہی مومنین نہیں ہیں ایمان ہم میں نہیں ایمان ہم میں آجائے لہذا ایمان لانے کے لیے انہوں نے ایک نسخہ بتایا ہے کہ اگر یہ انسان اپنا لے تو کوئی حرج نہیں ہے یعنی اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو تو دوسرا کام پھر شروع کرنا اور وہ نسخہ سورہ.... کی آیت نمبر اٹھارہ سے آخر تک ہے ان آیات کو پڑھو پڑھنے تو ہم قرآن اتنا پڑھا ہمارے اوپر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا جب کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اگر قرآن پڑھا جائے تو پہاڑ اپنی جگہ سے چل پڑیں گے قرآن پڑھیں تو شفاءمل جائے گی قرآن پڑھو تو غائب کی چیزیں ملیں گی قرآن پڑھو تو یہ نور ہے آپ کو روشنی دے آپ کے لیے بند دروازے کھولے ہمارے لیے تو نہیں کھلے روز ہی پڑھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اسے زبان سے پڑھتے ہیں دل سے نہیں پڑھتے کوئی آیت ہمارے دل میں نہیں اترتی۔
امام خمینی فرماتے ہیں کہ دن کا آخری حصہ انتخاب کر لو طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیان کا وقت ہو تو بہتر ہے فقط آدھ گھنٹہ ان آیات کو دیکھتے رہو اور ان کے معنی کو پڑھو آخر قبر میں بھی تو جانا ہے سب ادھر ہی جا رہے ہیں ہمیں بھی تو جانا ہے تو کل کے لیے کچھ کر لو لیکن قرآن ہمارے دل میں نہیں ہے دل میں تو اتارنا ہے اس کے لیے پریکٹس کر لو جس طرح ماں ایک بچے کو بولنا سکھاﺅ تا کہ دل کی زبان حرکت پر آئے اس کی زبان چلے خود دل بولے جب دل میں ایمان کا نور آگیا تو پھر سب راستے کھلتے جائیں گے اور گناہ سے بھی بچتے جائیں گے خوف بھی آتا جائے گا پھر نور ایمان بھی ہمارے دلوں میں آجائے گا خدا ہمارے دلوں کو معرفت کے نور اور ایمان سے بھر دے بحث سے بحث نکلتی ہے کوشش کرتا ہوں کہ بحث کو سمیٹیں مگر باتیں درمیان سے نکل آتی ہیں معرفت کے بارے میں عرض کر رہا تھا کہ اصل معرفت کیا ہے تو ہم نے جان لیا کہ معرفت کیا ہے سنیں اس کے بارے میں اپنے بچوں کو بھی سنائیں شاید ہمیں اپنی گمشدہ میراث مل جائے مومن تلاش میں رہتا ہے مومن کی نشانی ہی یہی ہے حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے وہ اسے جہاں بھی ملے لے لیتا ہے چاہے بدکار فاجر اور فاسق کے پاس ہی کیوں نہ ہو۔
روایت میں ہے اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ ایک زرگر کو اگر پتہ چلے کہ وہاں گند میں کوہ نور کا ایک ہیرا پڑا ہے تو وہ اپنے سفید لباس کی پرواہ کیے بغیر وہاں سے جائے گا اپنے آپ کو اس گند اور کثافت سے گندہ کرے گا اور ہیرا حاصل کرے گا اسی طرح حکمت بھی مومن کی گمشدہ میراث ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اچھی بات ہے اگرچہ وہ ایک یہودی کے پاس ہی کیوں نہ پڑی ہو وہ اسے وہاں سے نکال کر لے آتا ہے مومن مومن کے لیے ہمدرد ہوتا ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ ایک اچھی بات اس کے پاس ہے تو وہ چاہتا ہے کہ دوسروں تک اسے پہنچائیں تو آپ بھی یہ کوشش کریں کہ ان باتوں سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں اور یہ فرض چند افراد تک محدود نہ رہے اور ہمیں بھی اپنی دعاﺅں میں یاد رکھیں بہر حال ہمیں یہ بتاﺅ کہ ہمارے امام علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہمیں اس دور میں کیا کرنا چاہیے اور ہم کہاں کھڑے ہیں کیا ان ذمہ داریوں میں سے کوئی ایک ذمہ داری ہم ادا کر رہے ہیں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جاہل کہہ اُٹھیں گے کہ اللہ کو آل محمد کی ضرورت ہی نہیں ہے اگر ہوتی تو ان کے کچھ حالات ٹھیک کر دیتا اس قدر مایوسی اور بغاوت کے اندر لوگ چلے جائیں گے۔
پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کہ فرج تو ہو گی لیکن لمبی غیبت کے بعد تا کہ اللہ کے علم میں آجائے یعنی اللہ کو علم ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ وہ جان لے کون ہے جو اطاعت کرتا ہے غیبت میں اور کون ہے جو غائب پر ایمان رکھتا ہے سورہ الملک کی آیت ستر ہے امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب تمہارا خوشگوار اور لذیز حیات بخش پانی جو ہے وہ غائب ہیں پس وہ کون ہے جو سامعین کو رائے دے دیکھی پانی جو ہے وہ حیات کا ذریعہ ہے ظاہری حیات کا اور امام علیہ السلام حقیقی زندگی کا وسیلہ ہیں اس لیے یہ روایت میں ہے کہ ہر آیت امام علیہ السلام کے بارے میں اتری ہے اور یہ آیت تمہارے امام علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ جب تمہارا امام علیہ السلام غائب ہو گئے تو کون ہے جو تمہارے امام علیہ السلام کو لائے گا جو آسمان اور زمین کی خبریں دیں گے حلال و حرام کی باتیں گے پھر مول علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسی آیت کی تاویل ابھی نہیں آئی کب آئیں گے جب حضرت حجت علیہ السلام کا لقب ہے (مائ) معین، خوشگوار پانی خوشگوار، ہمیشہ علم کا چشمہ، ہدایت کا چشمہ، نورانیت کا چشمہ اور اس چشمہ نے ضرور ظاہر ہونا ہے اور وہ موجود ہیں لیکن ہمارا ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ ہم خود کثیف ہیں گندے ہیں اور جب کوئی کثیف آدمی ہو تو کثافت کو صاف کرنے کے لیے کہاں جاتا ہے صاف چشمے کی طرف جاتا ہے پانی تو موجود ہے لیکن ہم اپنے آپ کو پاکیزہ بنانے کے لیے اس کی طرف جاتے نہیں ہیں اس طرح امام علیہ السلام کے القاب میں ہے البئر المعطلہ ایسا شاداب اور خوشگوار کنواں، جس کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اس سے پانی بھرنا اس سے فیض لینا چھوڑ دیا ہے وہ موجود ہیں لیکن ہم اس سے فیض لینا نہیں چاہتے اپنے دل کی بیماریوں کی شفا طلب کرنے اس کی خدمت میں نہیں جاتے اس کی خدمت میں حاضر ہونا چاہےے لیکن ایسا ہم نہیں کر رہے امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا شیعہ نہیں بنتا مگر وہ جو اللہ کی اطاعت کرے اللہ کی اطاعت کے راستے سے ہمارے پاس آﺅ جس نے اللہ کی اطاعت کی وہ ہمارا دوست اور ولی ہے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی وہ ہمارا دشمن ہے اور وہ ہمارے ساتھ بغض رکھنے والا ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں فرج اور کشادگی اور حضرت حق کی آمد اور عدل و انصاف کے قیام کی انتظار کرو اور مایوسی نہ ہو پھر فرماتے ہیں جو ہمارے امر کو لیتا ہے ہم سے آڈر لیتا ہے ابلیس سے نہیں لیتا ہمارے وجود پر ہمارے امام علیہ السلام کی حکومت نہیں ہے ہمارے نفس کی حکومت ہے کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا ہے جس نے اپنا معبود اپنے خواہشات کو بنا لیا ہے یعنی اس کا نفس اس پر حکومت کر رہا ہے اس پر ابلیس کی حکومت ہے جب امام علیہ السلام کی حکومت ہو گی تو بات بھی امام علیہ السلام کی ہی چلے گی مول علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو ہمارا اثر لیتا ہے وہ قیامت کے دن ہمارے ساتھ ہو گا حظیرہ القدس میں ہو گا یہ جنت میں ایک جگہ ہے جو آئمہ علیہ السلام سے منصوب ہے پھر فرماتے ہیں کہ اللہ علیہ السلام کے نزدیک ہمارا بہترین عمل انتظار فرج ہے اللہ کے نزدیک ہمارا محبوب ترین ہمارا سب سے پسندیدہ اور محبوب ترین عمل کونساہے © ©؟ انتظار فرج، اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قیام اللہ کی زمین پر عدل و انصاف کی حکومت اللہ کی زمین پر ظلم و ستم کا خاتمہ پھر فرماتے ہیں اور جو اس دن کے انتظار میں ہے اور حضرت حق علیہ السلام تشریف لائیں گے اور ہر طرف امن اور سلامتی کا دور ہو گا جو اس کی انتظار میں ہے اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے وہ راہ خدا میں اپنے خون سے لت پت ہو اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بیداری دے ہمیں خواب غفلت سے جگائے۔
امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کے بغیر نہ اعمال قبول ہیں اور ہی اسلام قبول ہے جو شخص اس حالت میں مرتا ہے کہ وہ امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت نہیں رکھتا تو وہ جہالت کی موت مرتا ہے ہماری اب گفتگو ہو رہی ہے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں سب سے اہم ذمہ داری اور بنیادی ذمہ داری یہ علم ہونے کے بعد کہ زمانے کے امام علیہ السلام موجود ہیں وہ حضور پاک کے بارہویں جانشین ہیں ان کے یہ القاب ہیں، یہ اسماءمبارک ہیں اور زندہ ہیں اسی جہاں میں موجود ہے اسی زمین پر موجود ہے وہ ہمارے پروگراموں میں تشریف لاتے ہیں وہ برحق مومنین کے نماز جنازے میں شریک ہوتے ہیں وہ قبرستانوں میں تشریف لاتے ہیں وہ حج کے موسم میں حج پر تشریف لے جاتے ہیں ہر شب جمعہ کربلا میں تشریف لے جاتے ہیں آئمہ علیہ السلام کے مزاروں پر پہنچتے ہیں اس طرح امام علیہ السلام زادگاہوں کے مزاروں پر پہنچتے ہیں یہ سب علم ہو گیا اس کے بعد یہ اہم فریضہ ہے یہ فریضہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ واجب سمجھیں جو ہماری ذمہ داری بنتی ہے وہ یہ ہے کہ جو ہمارا علم ہے جو ہماری واقفیت ہے اور جو معلومات ہیں ہم اس علم کو اور ان معلومات کو یقین میں تبدیل کریں اس علم کو ہم ایمان میں تبدیل کریں کیونکہ کسی بات کا علم ہونا اور ہے اور اس پر ایمان لانا اور ہے دونوں میں فرق ہے بعض اوقات انسان کو کسی چیز کا علم ہوتا ہے مگر اس پر اس کا ایمان نہیں ہوتا ایمان کا تعلق دل سے ہے رسول پاک کے پاس کچھ بدو آئے اور ان بدوﺅں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں رسول پاک کی طرف اللہ کا حکم ہوا اے رسول ان سے کہہ دو کہ یہ کہیں ہم اسلام لے آئے ہیں ابھی تک ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا یعنی ایمان کا دل سے تعلق ہے اور اسلام کا تعلق زبان سے ہے جو بھی آپ زبان سے اقرار کریں گے وہ اسلام ہے اسلام کیا ہے؟ زبان سے اقرار ہے توحیدکا، رسولوں کا، فرشتوں کا، کتابوں کا، قیامت کا، قبر میں سوال و جواب کا یہ سب عقائد ہیں ان کا اقرار کرنا اسلام ہے اور یہی جو ہم اقرار کرتے ہیں اور اگر یہی اقرار دل تک پہنچ جائے جن کو یہ زبان ادا کر رہی ہے اس کو دل کی زبان بھی ادا کرے تو وہ ایمان ہے الایمان ھوا الا یقان فی القلب یعنی دل سے یقین پھر جب اس بات پر یقین ہو جائے تو اس پر عمل کیا جاتا ہے میں آپ کو ایک مثال دوں کہ آپ جانتے ہیں کہ خود کشی کرنا حرام ہے مشرعاً جرم ہے یہ گناہ کبیرہ ہے ہم یہ جانتے بھی ہیں اور اس پر ہمارا یقین بھی ہے کوئی ایسا کرے گا کہ چالیسویں منزل سے نیچے چھلانگ لگائے گا اس لیے نہیں لگائے گا کہ اس کا یقین ہے اگر میں نے چھلانگ لگائی تو میں مر جاﺅ گا اور مشرعا بھی خود کشی حرام ہے کوئی اپنے سینے پر پسٹل رکھ کر نہیں چلائے گا کیونکہ اس کو یقین ہے کہ گولی سیدھی میرے سینے سے گزر جائے گی کیونکہ اس اقدام کا نتیجہ ہے اس پر یقین ہے اب آیت قرآن ہے قرآن کہہ رہا ہے کہ تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کریں کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے کہتے ہیں کہ مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے جب تم مردہ بھائی کا گوشت پسند نہیں کرتے ہو تو غیبت بھی تو مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے اور امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جہنمی کتوں کی غذا ہے یعنی باتوں کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ قرآن میں ہے جو صریح طور پر فرما رہے ہیں اور آئمہ علیہ السلام کے فرامین ہیں اور پھر جو کچھ قرآن مجید میں غیبت کے بارے ہے اس پر یقین نہیں ہے چونکہ یقین نہیں ہے لیکن ہم کرتے ہیں غیبت کے مزے لے کر کرتے ہیں غیبت کیا ہوتی ہے کہ ایک مومن میں ایک عیب موجود ہے اور وہ عیب جو موجود ہے اس کا تذکرہ نہیں کرنا فرض کیا غلام حیدر میں ہوں ایک عیب ہے اور جعفر کو علم نہیں ہے غلام حیدر اُٹھے اور انہوں نے جا کر جعفر کو بتا دیا غلام حیدر نے اس سے کہا یہ کیا کہہ رہے ہو تو اس نے کہا میں سچ بول رہا ہوں یہ واقعاً ایسا ہے۔
خدا کہتا ہے کہ میں اسی سچ سے روکا ہے اس سچ کو نہیں بولنا، کیوں نہیں بولنا؟ یہ تو خدا کو پتہ ہے وہی مالک ہے مالک کہتا ہے کہ میرے بندے کا عیب جو ہے جس پر میں نے پردہ ڈالا ہو اسے اگر کسی وجہ سے آپ کو پتہ چل جائے تو حرام ہے کہ آپ میرے بندے کے عیب کو دوسروں کو جا کر بتائیں یہ حرام ہے ایسا کرو گے تو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاﺅ گے جہنمی کتوں کی غذا بنو گے اور بہت ساری روایات ہیں مثلاً رسول خدا کی خدمت میں کوئی آیا تو رسول خدا نے فرمایا کہ اس کو کھانا دو اس نے کہا میں تو روزے سے ہوں رسول خدا نے فرمایا تمہارے منہ سے گوشت کھانے کی بو آرہی ہے اس نے کہا میں نے تو گوشت نہیں کھایا کہا ابھی ایک مومن بھائی کی غیبت کر کے آئے ہو یہ تو اللہ نے پردہ رکھا ہوا ہے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کا فرمان ہے اور غیبت کے بارے میں تو فرمایا گیا کہ زنا سے بھی زیادہ سخت جرم ہے لیکن ہم میں کہ ساری روایتیں جانتے ہیں مولوی سے سنتے ہیں قرآن میں پڑھتے ہیں کتابوں میں دیکھتے ہیں لیکن کیا بات ہے پھر بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس پر یقین نہیں ہے اپنے سینے پر پسٹل کی گولی نہیں چلاﺅں گا کیونکہ خود کشی حرام ہے بھئی اس کا یقین ہے لیکن یہاں مجھے غیبت والے نظر آنے لگے منہ میرا مردہ بھائی ہے اور میں اس کا گوشت نوچ رہا ہوں یعنی یہ یقین مجھے نہیں ہے اب امام زمانہ علیہ السلام کا وجود حتمی اور یقینی ہے یہ سب معلومات ہیں اب اس کو یقین کی طرف بدلنا ہے۔
مومنین کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے وہ اللہ پر توکل کرتا ہے یعنی توکل کرنے کا مطلب کسی کو وکیل کرنا یعنی وہ اللہ کو وکیل کرتا ہے اچھا ذرا سوچیں یہ وکیل بنانا کیا ہوتا ہے کسی کو وکیل کب بنایا جاتا ہے جب اس میں چار شرائط ہوتی ہیں جب کہ آپ کے کاروباری جھگڑے ہوتے ہیں اور اس میں آپ کسی کو وکیل بناتے ہیں تو اس میں چار خصوصیات دیکھتے ہیں پہلی بات تو یہ دیکھتے ہیں کہ یہ جو وکیل رکھنا ہے اس کے مسائل سے آگاہ ہے یعنی وہ مہارت رکھتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو علم رکھتا ہے اس کے استعمال کے بھی قدرت رکھتا ہے کہ اس کیس کو ثابت کر سکے دلائل دینے کی اس میں طاقت ہو اور تیسری بات یہ ہے کہ جو قدرت اس کے پاس ہے عدالت میں جا کر وہ اسے استعمال کرے گا یا کوئی چیز رکاوٹ بن جائے گی یا وہ اس قدرت اور صلاحیت کو استعمال نہیں کر سکے گا ایسا وکیل آپ نہیں کریں گے جو جج کے سامنے اپنی صلاحیت استعمال نہ کر سکے چوتھی بات یہ ہے کہ وکیل جو آپ کر رہے ہیں دیکھیں گے وہ کنجوس تو نہیں ہے یعنی اپنی صلاحیت کے استعمال کرنے میں کنجوسی تو نہیں کرے گا بلکہ بھر پور تیاری کر کے جائے گا جب یہ چار شرائط پوری ہوں گی تو پھر آپ ایسے شخص کو وکیل کریں گے یعنی جب ہم دنیاوی کاموں کا وکیل بناتے ہیں تو اس میں چار شرائط کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
لیکن جب کسی کو وکیل بنا لیا جاتا ہے تو پھر اس پر کیسا بھروسہ کرتے ہیں پورا پورا بھروسہ کرتے ہیں سب کچھ اسے دے دیتے ہیں پورا اختیار اسے دیتے ہیں بھئی کتنا افسوس ہے کہ اللہ کو ہم اس عام وکیل جتنا بھی نہیں سمجھتے خدا میرا وکیل ہے خدا کو وکیل بناﺅ جس نے اللہ کو وکیل بنا لیا اللہ اس کے لیے کافی ہے اللہ عالم ہے قادر ہے اپنی قدرت استعمال کر سکتا ہے کرتا بھی ہے اور بخیل بھی نہیں ہے وکیل بنانے والی ساری شرائط موجود ہیں شرائط تو چاروں بدرجہ اتم موجود ہیں مگر ہماری حالت یہ ہے کہ شفا لیتے ڈاکٹر سے، پیسے لیتے ہیں تاجر سے اور سیر ہونے کے لیے روٹی سے سیر ہوتے ہیں قرآن مجید میں انبیاءکی بات سنو وہ کہتے ہیں کہ اللہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اللہ مجھے پانی پلاتا ہے اللہ مجھے روزی دیتا ہے مزدوری تو وہ خود کرتا ہے لیکن کہتا ہے روزی اللہ دیتا ہے حقیقت بھی یہی ہے قرآن مجید میں ہے کہ اللہ ہی ہے جو پھول میں خوشبو دیتا ہے اللہ ہے جو پھل کو رونق دیتا ہے ہم میں یہ توفیق نہیں ہے کہ ہم ان سب نعمتوں کی نسبت خدا کی طرف دیں یعنی یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں ہم ان کی نسبت خدا کی طرف نہیں دیتے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم منزل یقین پر فائز نہیں جو علم ہے وہ ہمارا علم ہی ہے ایمان میں تبدیل نہیں ہوا ہم ابھی اسلام پر کھڑے ہیں ایمان کی طرف نہیں گئے امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں جتنی معلومات ہیں وہ ہمارا علم ہے اسی علم کو ہمیں یقین میں بدلنا ہے تا کہ ایمان حاصل ہو جائے جب مول علیہ السلام کے بارے میں ایمان حاصل ہو جائے گا تو پھر میںداڑھی نہیں منواﺅں گا کیونکہ مجھے خیال آئے گا کہیں میرا مول علیہ السلام دیکھ نہ رہے ہوں کہیں مول علیہ السلام کی پکڑ میں نہ آجاﺅں ناراض ہو کر مجھے بد دعا ہی نہ دے دیں کہ بد بخت میرا ہو کر کم از کم چہرے کو تو خوبصورت رکھ مرد کی داڑھی مرد کے لیے خوبصورت ہے اسی طرح پھر جھوٹ نہیں بولوں گا کسی کو اذیت نہیں دوں گا خمس کا مال نہیں کھاﺅں گا کہتے ہیں کہ بعض بندگان خدا ان میں سے کسی کے گھر دعا مانگ رہے تھے اور بڑے واسطے دے رہے تھے بعد میں ان دعا مانگنے والوں مین سے کسی نے دیکھا کہ مول علیہ السلام تشریف لے آئے ہیں لیکن اندر تشریف نہیں لا رہے۔
مول علیہ السلام باہر کھڑے ہیں اس نے مول علیہ السلام سے اسی گریہ کی حالت میں عرض کیا مول علیہ السلام آپ علیہ السلام اندر کیوں نہیں تشریف لاتے تو مول علیہ السلام نے فرمایا اس گھر میں نقص ہے خرابی ہے یہ غصبی مکان ہے میں اس گھر میں نہیں آ سکتا تو اس نے عرض کیا کہ پھر مول علیہ السلام ہم اُٹھ کر باہر آجائیں تو پھر مول علیہ السلام نے فرمایا آپ کو آنے کی اجازت نہیں ہے تا کہ گھر کا مالک رسوا نہ ہو جائے تو دیکھیں مول علیہ السلام تو مومنین کا استقبال کرتے ہیں اور اس سے فرماتے ہیں کہ جب محفل ختم ہو جائے تو اس کو بتا دینا مومن کہتا ہے کہ پروگرام کے بعد جب میں اس کو بتایا تو پتہ چلا کہ اس نے غیر خمس مال سے یہ مکان خریدا تھا خلاصہ یہ ہے کہ جب یقین ہو جائے کہ میرے امام علیہ السلام موجود ہیں اور میرے اعمال پر گواہ ہے تو پھر میرے اعمال یہ نہیں ہوں گے جو اس وقت ہے پس علم اور ہے اور یقین اور ہے جب یقین آجائے تو عمل اس کالازمہ ہے ایمان کے ارکان بتائے گئے الایمان فی القلب والعمل بالحوارج واقرار بالسان اور الایقان فی القب اور العمل بالجوارح اسلام کے لیے کوئی شرط نہیں ہے اس میں زبان کا اقرار کافی ہے مثلاً ہمیں پتہ ہے کہ وہاں پر آگ جل رہی ہے تو ہم اس میں پاﺅں نہیں رکھیں گے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ آگ ہے اور آگ جلاتی ہے لیکن ایک شخص ہے جو وہاں پاﺅں رکھ دے گا کیوں جب کہ اس کو علم ہے کہ آگ جلاتی ہے لیکن اسے یقین نہیں ہے جب یقین ہو گا تو یقین کا لازمہ عمل ہے جب کسی کو آگ کا یقین ہو تو وہ آگ پر ہاتھ نہیں رکھتا اپنی انگلی تک نہیں رکھتا جب کسی کو پتہ ہو کہ تار میں بجلی ہے اور مجھے پکڑے گی اور جلا دے گی وہ بجلی کی ننگی تار کو ہاتھ نہیں لگائے گا لیکن جس کو علم نہیں ہے وہ بجلی کی تار پر اپنا ہاتھ رکھ دے گا کیونکہ وہ بجلی سے نا واقف ہے اس کے نتیجہ سے نا واقف ہے اسی طرح ہمیں یہ علم ہے کہ ہمارے امام علیہ السلام موجود ہیں آپ کا وجود عقل دلائل سے ثابت ہے نقل دلائل سے ثابت ہے قرآنی آیتوں سے ثابت ہے حدیثوں سے ثابت ہے اب یہ علم حاصل ہو گیا ہے تو اس کو یقین میں بدل دیں۔
ہم بحث کر رہے ہیں کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ قیامت کے دن ہمیں ہمارے زمانہ کے امام علیہ السلام کے ساتھ پکاراجائے گا قیامت کے دن حوض کوثر پر جب انشاءاللہ ہم جائیں گے تو گویا ہم اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کی قیادت میں ہوں گے ہمیں انشاءاللہ امام علیہ السلام کے ہاتھ سے کوثر پیش کیا جائے گا دعائے ندبہ میں اگر آپ نے تو جہ کی ہو تو یہ جملے موجود ہیں کہ اے امام زمانہ علیہ السلام ہمیں اپنے جد امجد کے کاسہ سے کوثر پلانا اے مول علیہ السلام ہمیں اپنے ہاتھ سے حوض کوثر پر کوثر پلانا میں نے عرض کیا تھا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں معلوم ہے اس پر ایمان لے آئیں ایسی معلومات کو اپنے دل کی طرف منتقل کریں اور یہ سب سے اہم فریضہ ہے اس کے لیے ہم مسلسل مشق کریں پریکٹس کی ضرورت ہے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے یہ تھی پہلی ذمہ داری۔
اب ہم دوسری ذمہ داری کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں دوسری ذمہ داری ہے صبر کرنا، صبر کا مطلب ہے جو ہم نے نظریہ بنایا ہے جو عقیدہ ہم نے بنایا ہے اس پر عمل کرنے میں مشکل کا سامنا ہو گا اور خاصر کر ایسے حالات میں جب ایک ایسا نظریہ اپنایا ہے اور اس نے اپنا ایک ایسا عقیدہ بنایا ہے کہ اس عقیدے کے مخالفین بہت زیادہ ہیں ایسے وقت میں اس نظریہ پر قائم رہنے پر بڑی مشکلات کا سامنا ہو گا آخری امام علیہ السلام کے بارے میں جو ہمارا نظریہ اور عقیدہ ہے خدا کرے یہ ہمارے دلوں میں راسخ ہو جائے اور نور ایمان ہمیں نصیب ہو جائے جو کہ ہم چاہے بد بختوں کو ابھی تک حاصل نہیں ہوا لیکن ہم کوشش کریں کہ ایسا ہو جائے اورمایوس بھی نہ ہوں اور اگر مول علیہ السلام نظر کرم فرما دیں تو مسئلہ حل ہے لیکن یہ طلب دہی چاہیے اور ہمیں اپنی بیماری کا علوم ہونا چاہیے کیونکہ بیماری ہم میں ہے اور ہم نے اس کو دور کرنا ہے دور تب کر سکیں گے جب اس کی طرف توجہ ہوں ایک اور بات میں اس جگہ کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام شیعوں کے ہاں اس امام علیہ السلام کے بارے میں اس جگہ کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام شیعہ اپنے امام علیہ السلام کے متعلق عجیب و غریب خیالات رکھتے ہیں۔
انہیں ایسا ثواب ملے گا جس طرح انہوں نے جنگ بدر اور خندق میں رسولخدا کے پرچم تلے جہاد کیا ہو اور اس دور کی سختیاں برداشت کی ہوں ایسا اجر ملے گا جیسے رسول خدا کے ہمراہ مصائب برداشت کیے ہوں خداوندعالم ہمیں صابرین سے قرار دیں آئمہ علیہ السلام کی کوشش رہی ہے کہ لوگوں کو سمجھائیں اصل دین کیا ہے اور پھر اس پر صبر کرنا اور بڑے واضح انداز میں اس بات کو بتاتے رہے اور پہلے بھی میں نے عرض کیا ہے کہ جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ مسئلہ ولایت ہے کیونکہ تمام عقائد کا مرکز ولایت ہے اگر اس نکتے سے انحراف کیا جائے گا تو باقی نکات کو چھوڑ دیا جائے گا اس سلسلے میں کچھ حدیثیں ہیں تو جہ فرمائیں۔
ہم تھوڑی سی گفتگو آئمہ علیہ السلام کی ذمہ داریوں کے بارے میں کرتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرا دین، میرے آباﺅ اجداد کا دین جو آپ کو اختیار کرنا چاہیے وہ یہ ہے یہ بات اپنے ایک صحابی سے آپ علیہ السلام نے کہی اور جو کچھ حضرت محمد لائے ہیں اس کا اقرار کرنا اور پھر فرماتے ہیں کہ ہمارے ولی سے ولایت رکھنا ہے یعنی جو ہمارا دوست ہے اس سے محبت کرنا اور جو ہمارا دشمن ہے اس سے بیزاری رکھنا اس کا مطلب فقط زبان سے برائت کرنا کافی نہیں کہ میرا فلاں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور سارے کام ہم اس والے کرتے رہیں ہم یزید پر لعنت بھیجتے ہیں جب مسئلہ عمل کا آتا ہے تو یزید بھی بے نماز اور ہم بھی نے نماز یزید بھی خدا کے احکام کا مذاق اُڑاتا تھا ہم بھی مذاق اُڑاتے ہیں یزید کے خاندان کی عورتیں بے پردہ بازاروں میں گھومتی تھیں ہماری عورتیں بھی بے پردہ بازاروں میں گھومتی ہیں اور یزید پر لعنت بھیجتے ہیں یزید کے نام پر لعنت بھیجنے سے کچھ ہوتا یزید کے عمل پر لعنت بھیجو۔
اس لیے ہمیں ان کے کردار سے نفرت کرنی چاہیے فرمان معصومین علیہ السلام ہے کہ حضرت حجت زمانہ علیہ السلام کے امر میں سے ایک امر ہے اس امر کو قبول کرنا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم بھی کرنا اور آئمہ علیہ السلام سے جو احکام آتے ہیں اگر ان کی مصلحت ان کی حکمت کا علم ہو جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ فرمان امام علیہ السلام سن کر خاموشی اختیار کریں مثلاً غیبت طولانی کیوں ہو رہی ہے؟ ظہور کیوں نہیں ہو رہا؟ تو ہمیں اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہو گا اور بولنا نہیں ہو گا اس روایت میں مول علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہماری ولایت کو فرض نہ کیا ہوتا ہماری مودت کو واجب قرار نہ دیا ہوتا خدا کی قسم جو کچھ بھی ہم کہتے ہیں جو ہم بولتے ہیں وہ وہی ہوتا ہے جو کہ خدا نے فرمایا ہوتا ہے یہی تو فرق ہے ہماری آئمہ علیہ السلام میں اور دوسروں کے آئمہ میں دوسروں کے آئمہ جو کہتے ہیں وہ اپنی رائے سے کہتے ہیں جب کہ ہمارے آئمہ علیہ السلام جو کچھ کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہتے ہیں اس روایت سے صبر کے متعلق بیان ہوا ہے امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آخری امام علیہ السلام کی امامت کا ایمان نہیں ہو گا فقط اقرار نہ ہو اس امام علیہ السلام کے وجود کا علم ہونا کافی نہیں ہے بلکہ آخری امام علیہ السلام کے وجود کا مکمل یقین ہو ایسی آخری امام علیہ السلام کی امامت پر کوئی ثابت نہیں رہے گا مگر وہ جن کا یقین مضبوط ہو گا جس کی معرفت درست ہو گی پھر مول علیہ السلام اپنے شیعوں کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں اور آپ کی رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو بھی مشکلات آتی ہیں پہلے ہم پر آتی ہے پھر آپ پر آتی ہیں ہم بھی تمہارے ساتھ ان مشکلات میں شریک ہوتے ہیں پہلے مصائب ہم پر آتے ہیں پھر آپ پر آتے ہیں پہلے خوشی ہمیں ملے گی پھرتمہیں ملے گی یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس میں آپ لوگ تنہا ہوں ایک ایسا پیغام ہے جس میں مول علیہ السلام فرماتے ہیں رحمت کرے اللہ اس پر جو ہمیں لوگوں کا محبوب بنائے یعنی لوگوں کے سامنے ہمارے فضائل، ہماری خوبیاں، ہماری انسانیت کے لیے، دین کے لیے اسلام کے لیے جو خدمات ہیں بیان کرو ہمارا کردار ان کے سامنے بیان کرو تا کہ وہ ہم سے پیار کرنے لگے یعنی لوگوں میں ہمیں محبوب بناﺅ اور رحمت ہو۔
اگر کوئی شخص حضرت نوح علیہ السلام کی عمر پائے اور اس پوری عمر میں دنوں میں روزے رکھے اور راتوں میں عبادت کرے اور وہ بھی رکن اور مقام کے درمیان پھر وہ خدا کے پاس جائے یعنی مر جائے اگر ہماری ولایت اس کے پاس نہیں تو وہ اس سسکے پاس کچھ بھی نہیں اور یہ ولایت اس وقت تک کامل نہیں ہے جب تک وہ آخری امام علیہ السلام کی ولایت نہ رکھے ولایت کا اقرار کافی نہیں ولایت پر ایمان ضروری ہے یقین کے حصول کے لیے کام کریں تا کہ وہ منزل یقین ہمیں مل جائے اور ہمارا اپنے امام علیہ السلام پر ایمان ہو جائے آخری امام علیہ السلام پر ہمارا اس طرح ایمان ہو جس طرح ہمیں اپنے وجود پر ایمان ہے جس طرح ہمیں اپنے بچوں کے وجود پر ایمان ہے جس طرح ہمیں اپنی گاڑی کے ہونے پر یقین ہے یہ سب آپ کے مشاہدے کی باتیں ہیں اس حد تک ہمیںیقین ہونا چاہیے اور اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہیے کیا اپنے وجود کے بارے میں کبھی کسی کو شک ہوا ہے؟ یعنی جب اس یقین کی منزل پر پہنچ جاﺅ اور یہ جان لو گے کہ وہ موجود ہیں اور ہمارے اعمال پر نظر رکھتے ہیں ہمارے اعمال پر گواہ ہیں تو پھر ہم خمس بھی نہیں کھائیں گے کسی کو اذیت بھی نہیں دیں گے پھر کسی کو گالی بھی نہیں دیں گے پھر نماز بھی ترک نہیں کریں گے پھر جھوٹ بھی نہیں بولیں گے کیونکہ ہم اس یقین کی منزل پر فائز نہیں ہیں یعنی ہمارا ایمان ہی نہیں ہے ہمارا علم ہے ہمیں ایمان حاصل کرنے کی ضرورت ہے ایمان آگیا تو مسئلہ بڑا آسان ہو جائے گا خدا کرے ہمیں وہ ایمان مل جائے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اسی حوالے سے فرماتے ہیں جو ہمارے قائم علیہ السلام ہیں امام علیہ السلام کو اپنے امام قائم علیہ السلام کے بارے میں بہت شوق تھا آپ ان سے بہت محبت کرتے تھے آپ سے ہر امام علیہ السلام کو محبت تھی اس بارے میں کتابیں بھری پڑی ہیں ہر امام علیہ السلام نے کسی نہ کسی طرح ان کی تعریف فرمائی ہے اور اپنے بیٹے کی مدح فرمائی ہے یہی روایت آپ دیکھیں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں جو ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت میں ہماری ولایت پر ثابت قدم رہیں گے اور اسی راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کریں اور اس راستہ سے مشکلات اسے نہ ہٹائیں تو اللہ اسے ستر ہزار شہیدوں کا درجہ عطا فرمائے گا اوراحد کے شہداءمیں مقام دے گا ان لوگوں کی اپنی عظمت ہے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے کتنا اجر و ثواب ان کا ہم روک ہی نہیں سکتے ایسے لوگ سب سے افضل لوگ ہیں جو غیبت پر ایمان رکھتے ہیں۔
اسلام کی تکمیل ولایت علی علیہ السلام ابن طالب علیہ السلام کے اعلان سے ہوئی ہے اور ہمارے آخری امام علیہ السلام اسی ولایت کی بارہویں کڑی ہیں انسان کا ایمان کامل اس وقت ہو گا جب اسے یقین ہو کہ بارہواں امام علیہ السلام موجود ہیں وہ خاتم اوصیاءہیں اسلام کے رہبر ہیں اسلام کی تاریخ ان کی ذمہ داری ہے وہ قرآن کریم کے محافظ ہیں انہوں نے اسلام کو پوری دھرتی پر نافذ کرنا ہے انہوں نے توحید کا بول بالا کرنا ہے کفر و نفاق کا خاتمہ کرنا ہے عدل و انصٓف کو رائج کرنا ہے جب یہ ہماری معلومات یقین کی صورت اختیار کرلیں اور ایمان حاصل ہو جائے نور ایمان ہمارے دلوں میں آجائے تو پھر جس بات کا ایمان ہے اس پر قائم رہنے سے جو مشکلات آئیں گی ان کو برداشت کرنا دوسری ذمہ داری تھی یعنی صبر کرنا اس عقیدے پر قائم رہنے کے لیے بہت سی مشکلات برداشت کرنا ہوں گی اس کے لیے مومنین کامل الایمان ہر وقت تیار ہے۔
اب ہم تیسری ذمہ داری کا ذکر کرتے ہیں جب ہم امام علیہ السلام موجود ہیں ہمارے رہبر موجود ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے احکام کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ جب انسان کسی کو اپنا امام علیہ السلام مانتا ہے اور کسی کو اپنا بڑا تصور کراتےا ہے کسی کو اپنا رہبر سر تسلیم کرتا ہے تو پھر اسے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس کی رضائیت کیا ہے اس کی طرف احکام کونسے ہیں یعنی احکام کا پتہ ہمیں ہونا چاہیے اگر ہم اس آخری امام علیہ السلام کی رعیت ہیں ہم اس امام علیہ السلام کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے کیونکہ قیامت کے دن ہر گروہ کو ان کے اپنے امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ پکارا جائے گا اور ہم انشاءحجت حق بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام کی رہبری اور قیادت میں میدان حشر میں پہنچیں گے اور حوض کوثر پر انشاءاللہ اس امام علیہ السلام کی قیامت میں حاضر ہوں گے تو ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے احکام کیا ہیں ہمارے امام علیہ السلام آخری پیغمبر کے بارہویں وصی ہیں ان کے احکام پیغمبروں کے احکام ہیں ان کے احکام حضور پاک کے احکام سے مختلف نہیں ہیں وہی احکام جو رسول پاک نے دیئے ہیں ہمارے امام علیہ السلام اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ان کی زبان ترجمان اللہ ہے ان کا بیان خدا کا بیان ہے وحی خدا جو رسول پاک پر اترتی رہی اس کے ترجمان ہوتے ہیں ظاہر کہ ان کے احکام وہی اسلام کے احکام ہیں تو ہمیں ان احکام کا پتہ ہونا چاہیے تا کہ ہم ان احکام کو بجا لا سکیں۔
محبت کا معیار جو امام علیہ السلام بتا رہے ہیں وہ اللہ کی اطاعت ہے اور اسلامی احکام کی پیروی ہے اگر اہم اسلامی احکام کی پیروی نہیں کریں گے تو آئمہ علیہ السلام ہمیں اپنی ولایت کے دائرے سے باہر نکال دیں گے اور فرمائیں گے تم ہماری حکومت کے دائرے میں نہیں ہو تم پر حکومت نہیں ہے تم پر کسی اور کی حکومت ہے کیونکہ ہماری حکومت کا جو تصور ہے ہماری حکومت کا نظام نامہ ہے وہ اسلام ہے اور وہ قرآن کی شکل ہی موجود ہے اور وہ حدیث کی شکل میں موجود ہے لہذا ہمیں ان کے احکام معلوم کرنے ہوں گے اب سوال یہ ہے کہ احکام معلوم کرنے کا طریقہ کار کیا ہے پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ براہ راست امام علیہ السلام سے معلوم کریں اوراس کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے احکام وصول کریں جس طرح باقی آئمہ علیہ السلام کے دور میں تھا اور آخری امام علیہ السلام کی غیبت صغریٰ میں بھی تقریباً یہی معاملہ تھا جتنے بھی مسائل کسی کو پیش آتے تھے وہ مسائل اپنے امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے تھے بالخصوص نئے پیش آنے والے مسائل میں نے ایک بات کی طرف آپ کی توجہ دلائی کہ ہر امام علیہ السلام نے آ کر اسلام کی تشریح کی ہے یعنی اسلام کے وہ گوشے بیان کیے ہیں کہ جو اس سے پہلے بیان نہیں ہوئے ہوتے تھے قرآن کی اس حصے کی تفصیل بیان کی جو پہلی نہیں ہوئی یہاں تک کہ یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور آخری امام علیہ السلام کا زمانہ آگیا غیبت صغریٰ کے بعد غیبت کبریٰ کا دور آیا ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کا دور اس قت شروع ہوا جب اسلام کی تشریح مکمل ہو چکی تھی قرآن کی تفسیر مکمل بیان کی جا چکی تھی کیونکہ اگر اس سے پہلے اللہ تعالیٰ شارح قرآن مفسر دین کو غائب کر دیتا اور آئندہ آنے والے سالوں میں چاہےے صدیوں بعد ہی کیوں نہ ہو گا اگر کوئی مسئلہ پیش آ جاتا جس کا جواب قرآن و حدیث سے نہ مل سکتا اور لوگ اس کے خلاف عمل کرتے اور خدا جب اس شخص کو سزا دینے لگتا تو وہ کہتا یا خدا اپنی حکم کا تو بیان ہیں نہیں آ رہا تھا میں اس پر عمل کیسے کرتا اس لیے خدا نے اس وقت تک اپنے نمائندے کو غیبت کبریٰ میں نہیں بھیجاجب تک کہ قرآن کی تشریح دین کی تفسیر مکمل نہیں ہو چکی اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ دین نام ہے احکام اور احکام قرآن میں ہیں اور قرآن جس کی تشریح احادیث کی شکل میں موجود ہے اس میں ۳۲ سالہ دور جو نبوی دور کہلاتا ہے یہ دور قرآن کے نزول کا زمانہ ہے اور قرآن کی تعلیم اور تشریح کا دور ہے۔
لہذا اب احکام ہمیں خود معلوم کرنے ہیں اس کاطریقہ کار ایک تو یہ ہے کہ خود امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں اور امام علیہ السلام سے مسائل پوچھیں جو بھی ہمیں مسائل پیش آئیں جو بھی حالات پیش آئیں فرض کریں ہمیں ایک مسئلہ در پیش ہے کہ ہم چاند پر پہنچ جائیں تو نماز کیسے پڑھیں گے؟ جہاں چھ مہینے کی رات اور چھ مہینے کا دن ہوتا ہے وہاں پہنچ گئے تو ہمارے لیے احکام کیا ہوں گے اگر تو امام علیہ السلام موجود ہوں تو ہم براہ راست امام علیہ السلام سے معلوم کریں گے اور اگر امام علیہ السلام موجود نہیں ہیں اور غائب ہیں تو ہمارا عقیدہ ہے انسان جتنی ترقی کر چکا ہے اس سے سو گنا زیادہ ترقی کر لے اور اس سے بھی زیادہ مسائل در پیش آ جائیں تو ہر مسئلے کاجواب مکتب اہل بیت علیہ السلام میں موجود ہے کوئی اپنی رائے اور اپنی مرضی سے جواب نہیں دے گا بلکہ جو قران اور حدیث کی روشنی میں جواب دےا جائے گا۔
احکام معلوم کرنے کا دوسرا طریقہ جو آئمہ علیہ السلام نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان قرآ ن اور حدیث کا ماہر بن جائے مجتہدبن جائے مجتہد کون ہوتا ہے مجتہد اس شخص کو کہتے ہیں جو عربی علوم و فنون یعنی عربی زبان سمجھنے پر قادر ہو اس طرح قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیے جتنے بھی علوم درکار ہو ان سب پر اس کی دسترس ہو ان میں مکمل مہارت رکھتا ہو اور یہ تمام علوم پڑھنے کے بعد اس میں ایسی استعداد اور صلاحیت آجائے کہ جب چاہے یا جب اس سے پوچھا جائے کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں فلاں مسئلہ کا حکم کیا ہے اس کا جواب دے سکے۔
چوتھی ذمہ داری مول علیہ السلام کی جو رعیت ہے اس سے محبت کرنا اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں کہ آپ ایک بڑے آدمی ہیں آپ کے ماتحت کافی سارے لوگ ہیں جن کو آپ روزگار مہیا کرتے ہیں جن کی کفالت آپ کے ذمہ ہیں غذا کی فراہمی، ان کے لباس کی فراہمی، مکان کی فراہمی یہ تمام امور آپ انجام دے رہے ہیں وہ سب آپ کے دستر خوان پر کھاتے ہیں وہ سب گویا کہ آپ کے نوکر ہیں اب ان سے آپ کو کونسا غلام اچھا لگتا ہے ظاہر ہے وہ غلام جو آپ کی رعیت سے پیار کرتا ہو گا اب دیکھیںہم سب امام زمانہ علیہ السلام کے دستر خوان سے کھا رہے ہیں کوئی کم کھا رہا ہے کوئی زیادہ کھا رہا ہے کوئی نا سمجھی میں کھا رہا ہے کوئی سمجھ کے کھا رہا ہے لیکن دستر خوان عام ہے سب کو روزی امام زمانہ علیہ السلام کی وسیلہ سے مل رہی ہے سب کے سب امام علیہ السلام کے نمک خوار ہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مول علیہ السلام کی رعیت سے محبت کریں ہم ہی ہیں محبت کرنے والے دین نام ہی محبت کا ہے جہاں نفرت ہے وہ دین نہیں لہذا ہمیں چاہےے کہ ہم امام علیہ السلام کی رعیت کے ساتھ محبت کریں۔
ہماری جو پانچویں ذمہ داری بنتی ہے وہ ہے انتظار یہ سب سے افضل عمل ہے یہ خدا کا پسندیدہ ترین عمل ہے حدیث میں وارد کیا گیا ہے کہ ہمارے شیعوں کا سب سے اچھا عمل یہ ہے کہا گیا ہے کہ ہمارا دین انتظار کرنا ہے۔
چھٹی ذمہ داری جو ہیں وہ امام علیہ السلام سے تعلق قائم کرنے کی ہے۔
پہلی یہ کہ صبح سویرے ہمیں روزانہ اپنے امام علیہ السلام کے ساتھ بیعت کرنی چاہیے امام علیہ السلام کی سلامتی کے لیے صدقہ دینا چاہیے اور امام علیہ السلام کی زیارت روزانہ پڑھنی چاہیے مشکلات میں امام علیہ السلام سے توسل کریں امام علیہ السلام کی نیابت میں مخصوص عبادتی اعمال کرنے چاہیے امام علیہ السلام کے مشن میں خود مبلغ ہیں اور دوسروں کو مبلغ بنائیں۔
ہم نے آخری ذمہ داریاں مختصراً بیان کی تھیں اب چاہتا ہوں کہ ان پر مفصل روشنی ڈالوں ہم ذکر کرتے ہیں چوتھی ذمہ داری کا چوتھی ذمہ داری جو ہے وہ مول علیہ السلام کی جو رعیت ہے ان سے محبت کرنا ہے میں نے پہلے بھی ایک مثال سے واضح کیا تھا اب آگے بڑھنا چاہتا ہوںہم امام علیہ السلام کے نمک خوار ہیں انہی کے دسترخوان سے ہم کھا رہے ہیں سب کو روزی امام زمانہ علیہ السلام کے وسیلہ سے ہی ملتی ہے لہذا ہمیں امام علیہ السلام کی رعیت سے محبت رکھنا چاہیے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام حضرت امام مہدی علیہ السلام کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے جمعہ کے خطبے میں فرماتے ہیں بیمن رزق الوریٰ بیمن کا معنی برکت اور وجہ کے ہیں بمینہ بڑا ہی لطیف لفظ مول علیہ السلام نے استعمال کیا ہے مثلاً آپ فرض کریں مجھے کسی نے دعوت دی اور میرے لیے سارا اہتمام ہوا اور میرے پاس بندہ بیس حورای ہیں وہ بھی پہنچ گئے اور صاحب خانہ سے کہنے لگے کہ ماشاءاللہ آپ کی بڑی مہربانی آپ ہمارے گھر تشریف لائے ہیں وہ کہیں گے کہ بھئی ہم تو شاہ صاحب کے صدقے آئے ہیں ہم تو ان کے طفیلی ہیں یہ تو ان کی عنایت اور برکت ہے اور ان کی برکت سے سب کچھ مل رہا ہے اور ایسا کہتے بھی ہیںتو دسترخوان کائنات ہے اس میں قسم قسم کی نعمتیں ہیں، ہوا، فضائ، یہ پانی، یہ لہلہاتے کھیت، روشن ستارے، سورج، چاند، سب کچھ جمال حیات سے ہے فقط انسان کو ان کے طفیل میں رزق نہیں مل رہا بلکہ پوری کائنات فیض یاب ہو رہی ہے اس لیے مول علیہ السلام نے لفظ وریٰ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ما سوائے اللہ کے ہے اللہ کے سوا بھی ہے وہ وریٰ ہے یعنی جو بھی مخلوق ہے وہ بمینہ رزق الوریٰ میں آ جاتی ہے وہ وریٰ ہے یعنی جو بھی اللہ کی طرف سے جو روزی دی جا رہی ہے یہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی برکت سے ہے جتنی بھی اللہ کی مخلوق ہیں حتیٰ کہ فرشتے، رضوان حورالعین ارواح ذرہ سے مسجری تک خاک سے عرش تک یہ جو جراثیم کی کائنات ہے یہ حشرات الارض کی جو کائنات ہے حیوانات کی کائنات ہے درندوں کی کائنات اور سب پہاڑ جمادات نباتات یہ ہوائیں یہ سب کہکشائیں یہ نورانیت یہ چمک دمک یہ سب بمینہ ان کی برکت سے ہے امام زمانہ علیہ السلام کے انتظام میں ہے اور ہم اس کے طفیل ہیں۔
صحراﺅں کو جیسے چاہو اپنے استعمال میں لے آﺅ حتیٰ کہ سیاروں تک جو اپنی ہمت سے جانا چاہےے جس طرح چاہےے ان سے فائدہ اُٹھائے کوئی رکاوٹ نہیں ہے سب کچھ آپ کے اختیار میں دے دیا ہے یہ سب کچھ آپ کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے تو اس میں میری قابلیت اور لیاقت نہیں ہے اور نہ ہی میں اس لائق ہوں نہ ہی میں اس شان والا ہوں یہ سب کچھ مجھے دیا جائے یہ سب کچھ اس شان والے کی وجہ سے ہے اور ہم سب ان کے طفیل ہیں اس کے صدقے میں اور اس کی برکت سے اس کے وجود کی وجہ سے کھا رہے ہیں وبوجودہ تبتت الارض والسماءیہ جملہ پہلے سے زیادہ وسعت رکھتا ہے اس میں ہے کہ یعنی آسمان کا جو ثبات ہے ستارے جو آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں یہ نظام ایک دوسرے سے الجھتا نہیں ہے چاند اور زمین کا جتنا فاصلہ ہے اگر اس سے تھوڑا کم ہو جائے تو سب کچھ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے یہ جو نہیں ہوتا کیوں نہیں ہوتا کیونکہ حجت خدا موجود ہے حدیث ہے کہ اگر حجت خدا کائنات میں نہ ہو تو ہر چیز تباہ و برباد ہو جائے وہ ذات ہے جس کی وجہ سے ہر چیز اپنی جگہ پر ہے اگر حجت خدا نہ ہو تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا ریزہ ریزہ ہو جائے اس کے وجود سے کائنات میں ثبات ہے جو وہ چاہیں وہی ہوتا ہے ان کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کا تصرف اور کنٹرول دیا ہے اور وہ جناب علیہ السلام اسی کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ رسول خدا نے انشقاق العمر کیا تھا آپ سب کا عقیدہ ہے یا نہیں ہے؟ ظاہر ہے یہ ایک اسلامی عقیدہ ہے کیونکہ رسول اللہ نے چاند کی تصویر کے دو ٹکڑے نہیں کیے تھے بلکہ اصل چاند کے دو ٹکڑے کیے تھے کوئی جادو تو نہیں تھا قرآن کہہ رہا ہے کہ انشق القمر یہ آیت کریمہ ہے ابھی سائیسندان کیا کہتے ہیں انسان کی تحقیق کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ چاند جس جگہ پر کھڑا ہے اس کا ایک فاصلہ زمین سے ہے سورج سے ہے یہ سب ایک سسٹم ہے ہمارا چھوٹا سا نظام شمسی ہے ورنہ اس کے علاوہ اور بھی نظام ہائے شمسی موجود ہیں اور وہ اس ہمارے نظام شمسی سے کئی گنا بڑا ہے اور پتہ نہیں کتنے سورج اور ہیں۔
اسے دو نیم کر دیا نہ زمین برباد ہو ئی نہ سورج کو کچھ ہوا نہ کہکشاﺅں کو کچھ ہوا حضور پاک نے اس کو وہاں سے اُٹھایا دو نیم کیا آدھا ادھر سے گزر گیا آدھا اُدھر سے گزر گیا اس سے سمجھو کہ یہ حجت خدا ہےں جن کے پاس کائنات کاسارا کنٹرول ہے نظام اپنی جگہ پر چلتا رہے وہ جس سیارے کو اپنی جگہ سے اُٹھانا چاہیں وہاں سے اُٹھالیں اب لوگ شک کرنے لگتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ مولا علی علیہ السلام کے ازدواج کے وقت ایک ستارہ جناب کے گھر اترا یہ ایسے ہوا جیسے چاند دو نیم ہوا وہ مکہ کی سر زمین پر اترا تو اس حجت امام علیہ السلام کی بیٹی کی جب شادی ہو رہی ہے تو ایک ستارہ مدینہ کی سرزمین پر اُترا میں کہتا ہوں سلامی دینے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ یہ تمام نظام ان کے کنٹرول میں ہے کسی اور کے کنٹرول میں نہیں ہے بحث سے بحث نکل آتی ہے اصل بات تو ہم نے یہاں سے چلائی تھی کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی رعیت سے محبت کریں ہم میں محبت کرنے والے ہیں دین نام سے محبت کا ہے جہاں نفرت ہے وہ دین نہیں ہے المومنون لمرکیون شیعتنا حلویون لفظی ترجمہ میں کرتا ہوں کہ شیعہ حلوہ کھانے والے ہیں حلوہ پوری روز کھاتے ہیں شیعہ کھجوریں کھانے والے ہیں دراصل یہ تشبیہہ دی گئی ہے یعنی شیعہ آپس میں اس طرح لشکر ہو کر رہتے ہیں کہ ان کو کھجوروں کی مٹھاس اور حلوے کی مٹھاس سے تشبیہ دی گئی ہے یعنی پیار اور محبت کے اس منزل پر فائز ہیں جب کوئی مومن مومن کی ملاقات کے لیے جاتے ہیں جب مومن ایک دوسرے کو ملیں تو مومن کو چاہےے کہ وہ دوسرے مومن کو سلام کریں آپس میں مصافحہ کریں اور پھر اللہ تعالیٰ نے لالچ بھی بڑی دی ہے تا کہ میرے بندے اس سے فائدہ اُٹھا لیں فرماتا ہے اگر سلام کرو گے تو ۹۶ نیکیاں تمہاری لکھی جائیں گی اور جواب دینے والے کو ایک نیکی ملے گی البتہ جواب دینا تم پر واجب ہے کہتے ہیں کہ جب اپنے مومن بھائی کی ملاقات کرنے کے لیے جاﺅ تو ہر قدم پر تمہارے گناہ جھڑتے جائیں گے اور تمہاری نیکیاں بڑھتی جائیں گی ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ جو تمہارے ساتھ قطع رحمی کرے تو تم اس کے ستھ رشتہ جوڑو اور پھر رشتے داروں کے ساتھ تو یہ صلہ رحمی کی بات کی اور زیادہ تاکید کی گئی ہے ہمارے ہاں کیا ہے ہمارے ہاں تو جیسے جیسے قریب زمانہ آتا جا رہا ہے رشتے داروں کا اتنا پتہ ہی نہیں ہوتا بچوں کو حالانکہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی بہت تاکید کی گئی ہے جس کا حساب ہی نہیں روایت میں صلہ رحمی کا فائدہ بیان کیا گیا ہے۔
فرماتے ہیں صلہ رحمی سے شہر آباد ہوں گے صلہ رحمی سے دوری بڑھے گی صلہ رحمی سے عمر بڑھے گی آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ ایک دوسرے کو جا کر سلام کرآئیں آپ یہاں تو یہ ہے کہ باپ بوڑھا ہو گیا ہے تو بیٹا بابا کو ملنے نہیں جانتا سلام کرنے ہی نہیں یہ بھی ایک موضوع ہے کہ والدین کی اطاعت پر بچوں کو بالکل توجہ بھی نہیں ہے ماں باپ کا خیال نہیں ہے تو بات یہ تو ہو رہی تھی کہ جہاں محبت نہیںہے وہاں پر دین نہیں ہے جنتیوں کی خصوصیات میں آیا ہے جب وہ ایک دوسرے کو ملیں گے تو سلام سلام ماشاءاللہ ماشاءاللہ ایک دوسرے خوش و خرم خوش آمدید کہیں گے ہنستے ہوئے سب سے ملیں گے کہیں لڑائی نہ ہو گی جھگڑا نہ ہو گا گالی گلوچ نہ ہو گی اور جہنمیوں کی خصوصیات سے ہے کہ جہنمی ایک دوسرے سے اس طرح لڑ رہے ہوں گے جس طرح کتنے کسی مردار گوشت پر لڑتے ہیں ایک کہے گا تو مجھے جہنم میں لے آیا وہ کہے گا تو میرا برا ساتھی تھا ایک کہہ رہا ہو گا تو مجھے سینما لے کر جاتا تھا اس نے کہا تو نے مجھے خمس نہیں نکالنے دیا اس نے کہا کہ تو نے مجھے برباد کر دیا ایسے ہی انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہوں گے ایک کہے گا تو مجھے فلاں کے پاس لے گیا تھا تو نے مجھے فلاں کے ایمان کے بارے میں کہا تھا ایسے لگے ہوں گے جل رہے ہیں سڑ رہے ہیں خدا ان کو بولنے کی قدرت دے گا آپ دعائے کمیل پڑھ کر دیکھیں جس میں ہے اے خدا اگر ہم جہنم میں پہنچ گئے تو مومن دل والے کہیں گے یااللہ تو ہم پر رحم فرما تو تو کریم رب ہے میں تجھ پر ایمان رکھتا ہوں تو مجھے جہنم سے نکال دے بہر حال وہاں لڑائی ہو گی جنت میں کیا ہو گا امن و سکون ہو گا پس جو جنتی ہیں وہ لڑتے نہیں اور یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ جنتی کون ہے جہنمی کون ہے گھر میں بیوی اور شوہر ہوتے ہیں اگر قرآنی آیتوں پر عمل کریں تو سکون ہو گا عام دیکھا جاتا ہے کہ گھر میں سکون ہی نہیں ہے گھر برباد ہو گیا اس کی وجہ یہ ہوئی ہے پہلے تو ماں جا کر بیٹے کے لےے ایک لڑکی لے کر آتی ہے بیٹے کو پسند ہی نہیں کرنے دیتی ماں خود ہی جا کر پسند کر آتی ہے تھوڑے ہی دن گزرتے ہیں اب ماں دیکھتی ہے محبت تقسیم ہو گئی ہے تھوڑی سی محبت بیٹے کی بیوی کو بھی ملنے لگتی ہے تو ماں کو تکلیف ہوتا ہے لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور گھر جہنم بن گیا حالانکہ شوہر اور بیوی کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے لیے سکون کا وسیلہ بنایا ہے گھر کو تو امن کی مثال ہونا چاہیے لیکن ایسا ہوتا جہنمی لوگ آپس میں لڑتے ہیں جنتی نہیں لڑتے۔
مومنین اگر آپس میں ناراض بھی ہو جائیں تودوسرے مومن کی ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان صلح کروائیں نماز کے ثواب کا تو پتہ ہے آپ کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے نماز مومن کی معراج ہے نماز خدا تک پہچانے کا وسیلہ ہے ہر نبی کی آخری وصیت نماز ہے آئمہ علیہ السلام کی شفاعت حاصل کرنے کا ذریعہ نماز ہے ایمان اور کفر کا امتیازی نشان نماز ہے دین کا ستون نماز ہے یہ قول تو سب قبول اسی طرح روزہ کی عبادت ہے روزہ آتش جہنم سے ڈھال ہے خدا کے تقرب کا وسیلہ ہے یہ دونوں کتنے بڑے عمل ہیں ان کی بزرگی انسان کے تصور میں ہے یہ دونوں سب سے زیادہ ثواب والے عمل ہیں اب ایک عمل ایسا بھی ہے جس کا ثواب نماز و روزہ کے عمل سے بھی زیادہ ہے امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی وصیت میں فرماتے ہیں فلاں شخص بڑا نمازی اور پرہیز گار ہے ہر جمعہ کو روزہ سے ہوتا ہے ہر سوموار کو بھی روزہ سے ہوتا ہے ساری رات کھڑے ہو کر عبادت کرتا ہے لیکن اس کا مومنین سے تعلق ہے نہ ہی اپنے بھائیوں سے تعلق ہے ہر مومن سے اس کی لڑائی ہے ہاں وہ بڑا نمازی ہے بڑا روزہ دار ہے لیکن مول علیہ السلام اپنی وصیت میں فرماتے ہیں کہ اگر وہ مومن آپس میں لڑ پڑیں تو باقی مومنین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان میں سے جا کر صلح کرا دیں کیونکہ مصالحت کا ثواب نماز سے بھی زیادہ ہے اور عام روزہ سے بھی زیادہ ہے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو مومنوں میں لڑائی ہو جائے تو مومنین کے درمیان ایک گروپ ایسا ہو نا چاہیے جو ہمیشہ اس تلاش میں رہیں کہ اگر دو مومنین میں لڑائی یا اختلاف ہو جائے تو وہ جا کر اپنی اختلاف کو ختم کریں اسی طرح تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ بات نہ کرے زیادہ سے زیادہ تو یہ جھگڑا تین دن سے زیادہ نہ ہو تو ہم سب کی رعیت کے ہر فرد سے محبت ہونی چاہیے حتیٰ کے غیر مسلموں سے بھی ہمدردی اسی حوالے سے ہونی چاہیے کہ ان کو ہدایت مل جائے کوشش کی جائے کہ وہ اسلام کو قبول کر لیں کیونکہ وہ بھی تو مول علیہ السلام کے دسترخوان سے کھا رہے ہیں ان سے ہمدردی ہو اسلام میں نفرت تو حیوان سے بھی نہیں ہونی چاہیے حیوان کو بھی جا کر دانہ ڈالو بعض اعمال میں ہے کہ اگر کوئی پریشان ہے اور اس کی حاجت پوری نہیں ہو رہی تو وہ تین ہزار ایک سو پچیس مرتبہ لفظ اللہ کو کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ لے پھر ان تمام ٹکڑوں کو آٹے کی گولیاں بنا کر ہر ایک گولی میں کاغذ کا ایک ٹکڑا دے دے اور پھر آٹے کی گولیاں دریا میں ڈال دے جب دریا کی مخلوق اس آٹے کو کھائیں گے تو وہ دعا دیں گے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسی وجہ سے اس کی روزی کا جو دروازہ بند ہے اس کو کھول دے گا لیکن دیکھیں اصل بات اس میں یہ ہے انسان کا خدا کی مخلوق سے محبت کرنا ہے خدا نے سارا نظام ہی محبت پر بنایا ہے پوری کائنات محبت کی بنیاد پر کھڑی ہے کائنات کی ہر شئے ایک دوسرے کے لیے کشش لیے کھڑے ہے اب سوال ہے کہ محبت کس سے ہوئی چاہیے ظاہر ہے عقلی فیصلہ ہے محبت اس سے ہونی چاہیے جو قطب دائرہ امکان ہے جو مرکز دائرہ امکان ہے جس کے گرد ہر شئے آ کر مجتمع ہوتی ہے اور وہ مرکز دائرہ محبت ہے حضرت حجت حق علیہ السلام امام زمانہ علیہ السلام ہم سب امام علیہ السلام کے نوکر ہیں ہم امام علیہ السلام زمانہ کے دسترخوان سے کھا رہے ہیں کوئی فرمانبردار نوکر ہے اور کوئی نافرمان نوکر ہے لیکن مول علیہ السلام کو اچھا کون لگے گا جو ان کی رعیت سے محبت کرنے گا جو نفر ت نہیں کرے گا خاص کر ان سے محبت کرے گا جو مول علیہ السلام کے فرمانبردار ہیں وہ مول علیہ السلام کو اچھا نہیں لگے گا جو مخلوق خدا سے امام زمانہ علیہ السلام کی رعیت سے نفرت کرے گا وہ مول علیہ السلام کے لیے اچھا نہیں لگے گا اس لیے بھٹکے ہوئے کی ہدایت کے لیے جاننا حکم ہے آپ کہتے ہیں کہ ایک مومن بھٹک رہا ہے تو دوسرے مومن کی ذمہ داری ہے کہ اس کو جا کر صحیح کرے اگر آپ احترام دیتے ہیں کسی کو تو اس سے مول علیہ السلام خوش ہوں گے کہ آپ نے فلاں کو احترام دیا ہے روایت میں آیا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں توجہ نہ دیتا ہو وہ مسلمان نہیں ہے اسلام کا اس کے پاس جو شناخت نامہ ہے اس کی جو اسلامی شہرت ہے وہ ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اسے ہر وقت اپنی فکر ہے مومن اسے کہتے ہیں جسے سب کی فکر ہو آپ کو فقط اپنی ہی فکر کیوں ہو مجھے فقط اپنی فکر نہیں ہونی چاہیے مجھے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہاں سے دور کسی افریقی ملک میں مول علیہ السلام کے ماننے والے کسی تنگی میں تو نہیں ہیں کسی فلاں ریاست میں پریشان تو نہیں ہےں میں سنتا ہوں کہ کسی پر ظلم ہو رہا ہے تو محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مول علیہ السلام کے ایک غلام پر مول علیہ السلام کی رعیت پر مول علیہ السلام کے رعیت کے کسی غلام پر اگر ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے میں اور کچھ نہیں کر سکتا تو ان میں اس ظلم سے نفرت تو کر سکتا ہوں اس دکھ کا اظہا تو کر سکتا ہوں کہ فلاں جگہ فلاں کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور یہ کام سب سے بڑی عبادت ہے امام علیہ السلام سے عشق اور محبت کا تقاضا یہی ہے پھر محبت کا ایک معیار ہے محبت لمبا ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارے یہاں تو پورا دین ہی محبت کا ہے یہاں نفرت نام کی کوئی چیز نہیں نماز جماعت بھی محبت کا ایک مظہر ہے کیونکہ نماز جماعت کا بہت ثواب لکھا گیا ہے اگر نماز جماعت میں دس سے زیادہ آدمی ہو جائیں تو اس کا ثواب گنا بھی نہیں جا سکتا عزاداری بھی محبت ایجاد کرنے کا اور مرکز سے محبت اور اپنے آپ کو وصل کرنے کا ذریعہ ہے پھر اسی حوالے سے جو چیز مول علیہ السلام سے منسوب ہے ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے اگر ایک سید ہے جو ان سے منسوب ہے کیونکہ نسبت ادھر ہے اس لیے ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے ان کے نام کا ہم نے علم نکالا ہے ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے ان کی نام کی فرض کرو کسی جگہ تختی لگی ہوتی ہے ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے سب سے زیادہ محبت کس انسان سے ہونی چاہیے جو آپ کی امت کا قائل ہے جو اپنے آقا کو تسلیم کرتا ہے جو آپ کی آقائی کو تسلیم کرتا ہے اس سے محبت تو انتہا درجہی کی ہونی چاہیے اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف کہیں اس کے بخار کو اپنا بخار کہیں اگر وہ بھوکا سوئے تو ساری رات اسے چین نہ آئے اس لیے حکم ہے اگر مومن کے پاس دو جوڑے کپڑے ہیں اور اس کے بھائی کے پاس ایک جوڑا کپڑا ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ دوسرا جوڑا اپنے بھائی تک پہنچائے ایک صحابی نے پوچھا مول علیہ السلام یہ واجب ہے یا ایثار ہے مول علیہ السلام نے فرمایا یہ ہے واجب ہے ایثار یہ ہے اپنا بھی اسے دے دے ایک جوڑا دینا اس پر کوئی احسان نہیں یہ واجب ہے اگر نہیں کرے گا تو خود ہی گناہگار ہو گا اس کے پاس ایک نوکر ہے اور گھر کا کام کرے مول علیہ السلام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام پوچھتے ہیں کیا تم میں سے ایسا کوئی ہے جو اپنا ہاتھ دوسرے مومن کی جیب میں ڈالے اور اپنی ضرورت کے مطابق نکال لے اور تمہار وہ بھائی اس کو محسوس نہ کرے مول علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے افراد سے پوچھا کہا آپ کے ہاں ایسا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے مول علیہ السلام ایسا تو نہیں ہوتا مول علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر چیز بھی نہیں ہے جو مول علیہ السلام کے ماننے والے تھے(حبیب ابن مظاہر، میثم تمار، رشید حجری، کمیل اور قیصر، مالک اشتر، مسلم بن عوسجہ اور ابوذر غفاری اور سلیمان فارسی) ان میں ہر ایک اس منزل پر فائز تھا اس لیے ہمیں بھی ایسا بننا چاہیے ہر عمل اہم واجبات میں سے ہے کہ امام علیہ السلام کی رعیت سے محبت کی جائے تو اس لیے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارا شیعہ وہ ہے جو غیبت کبریٰ کے زمانے میں ایک دوسرے سے پیار کرے ہمارے دوست وہ ہیں جو دوسروں کو ہمارا دوست بنائیں اور پھر دوست کی تلاش میں رہیں اور خود بھی دوست بنے ایسا شخص امام زمانہ علیہ السلام کا کیوں دوست نہ بنے مجھے بتاﺅ اگر آپ کو کسی سے پیار ہوتا ہے تو کس وجہ سے اس کی جمال کی وجہ سے اس کے حسن صورت کی و جہ سے اس کے مال کی و جہ سے کسی سے پیار ہے اس کی اچھی عادات کی وجہ سے کسی کو پیار کرنے کو دل کرتا ہے اس کی صفات کی وجہ سے تو مجھے بتاﺅ یہ سب چیزیں یوسف زہرائ علیہ السلام میں نہیں ہیں کسی اور سے کوئی نسبت دی جا سکتی ہے تو پھر کسی اور سے عشق کیوں ہو یہاں فقط کسی سے عشق کیوں ہو فقط اس سے کیوں نہ ہو کیونکہ وہ مرکز محبت ہے روزی تو وہاں سے آئے جمال تو وہاں سے آئے اس کے سامنے دنیا کے تمام حسن ماند پڑ جاتے ہیں یوسف زہرائ علیہ السلام کے زمانے میں کسی اور سے محبت کیوں ہو کسی اور سے محبت ہو تو اس حوالے سے کہ اس کا تعلق امام زمانہ علیہ السلام سے ہے کیونکہ یار اور محبوب کی ہر شئے سے پیار ہوتا ہے اس کے لباس سے اس کے انداز سے اگر اس سے محبت ہے تو اس لیے کہ وہی حق ہے اور ہمیں حضرت حجت سے عشق ہے بقیة اللہ سے محبت ہے امام علیہ السلام سے محبت ہے کیونکہ وہ ہمارے محسن ہے وہ ہم تک رحمت خدا پہچانے کا وسیلہ ہے وہ کائنات کی بقاءہیں وہ مقصود کائنات ہیں وہ قطب کائنات ہیں وہ مظہر صفات ذات ہیں وہ خدا کا جلال و جمال ہیں وہ خلاصہ انبیاءہے وہ خاتم الاوصیاءہیں وہ محبوب انبیاءہیں محبوب اولیاءہیں وہ محبوب کبریاءہیں وہ محبوب حضورسرورکائنات ہیں تو ہمیں ان سے محبت کیوں نہیں ہونی چاہیے محبت کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ جس کو مول علیہ السلام سے پیار ہو ہمیں ان سے پیار ہونا چاہیے جو مول علیہ السلام سے منسوب ہیں ہمیں ان سے پیار ہونا چاہیے ہمارا معیار یہ ہونا چاہیے ہمارا معیار ذاتی نہیں ہونا چاہیے ہماری ذات کیا ہے کچھ بھی نہیں ہے اگر ہمیں یہ لمحہ زندگی کاملا ہوا ہے تو ان کے صدقے میں ملا ہوا ہے ہماری روزی حیات و برکت ان سے ہے اپنے مریم اور مہربان امام علیہ السلام جو فرماتے ہیں اے ہمارے شیعو! تم نے جو وعدہ کیا تھا ہمارے ساتھ اس کو نبھایا نہیں لیکن ہم تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اگر تم نے وعدہ پورا کیا ہوتا تو تمہیں بہت برکتیں نصیب ہوتیں امام علیہ السلام صبح و شام آپ کے لیے دعا کرتے ہیں اگر ہم مول علیہ السلام کے ہو جائیں وگرنہ مول علیہ السلام تو ہماری ہر مصیبت پر فوراً تڑپ اُٹھتے ہیں ہمیں بھی ان کے شیعوں کی تکلیف سن کر تڑپنا چاہیے۔
|