امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے
 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
12-امام زمانہ کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں
از: سیدہ تعزین فاطمہ موسوی
اس وقت جب کہ ظلم و ستم کی سیاہ گھٹائیں پوری دنیا کے آسمان پر چھائی ہوئی ہیں سامعراجی طاقتیں اور عالمی غنڈے اپنے خونخوار دانتوں سے مستفیض جہاں کو جھنجھوڑ رہے ہیں اور اپنے خونخوار پنجوں سے دنیا کے ستم رسیدہ عوام کا گلا گھونٹ رہے ہیں نامہربانیوں، زیادتیوں، تنگ نظریوں، نفرتوں اور تفرقوں نے ایک ایسی نفسا نفسی کا عالم بنا رکھا ہے اسی نفسا نفسی کے عالم میں اکثر امت یہ آرزو کرتی ہے کہ کاش وہ آج سے چند صدی قبل پیدا ہوئے ہوتے تو بہتر تھا جب امن کا دور تھا اور جب اخلاقی قدروں کا وجود موجود تھا۔
اسی طرح بہت سے شیعہ یہ آرزو کرتے ہیں کہ کاش وہ میدان کربلا میں ہوتے اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ داد شجاعت دیتے ہوئے اسلام پر قربان ہو جاتے یا اکثر انسان سوچتا ہے کہ کاش وہ آئمہ طاہرین علیہ السلام کے دور میں پیدا ہوتا لیکن یہ سوچتے ہوئے ہم ایک نہایت اہم نکتہ بھول جاتے ہیں اسی پر شاید کبھی غور سمجھا ہی نہیں یا پھر اسے لائق غور سمجھا ہی نہیں وہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے امام علیہ السلام دوسرے امام علیہ السلام یا تیسرے امام علیہ السلام کی امامت کا دور ختم ہو چکا ہے اسی وقت ہم جس امام علیہ السلام کی امامت میں زندگی گزار رہے ہیں ان کا دور امامت سن ۰۲۲ ہجری ۸ ربیع الاول سے شروع ہو چکا ہے اور یہ دور امامت کب ختم ہو گا کوئی اس وقت معین نہیں کر سکتا۔
ہم اپنی بد قسمتی سمجھتے ہیں کہ ہم پہلے امام علیہ السلام دوسرے امام علیہ السلام یا تیسرے امام علیہ السلام یہاں تک کہ گیارہویں امام علیہ السلام کی زندگی میں پیدا نہیں ہوئے اور یہ سوچتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم بارہویں امام علیہ السلام کو امامت میں زندگی گزار رہے ہیں جب کہ ہمارے بارہویں امام علیہ السلام کی امامت جس دن سے شروع ہوئی ہے اسی دن سے لیکن آج تک ہمارے امام علیہ السلام نے ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا جب آپ علیہ السلام غائب نہ ہوئے تھے تو دنیا کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ حاضر رہے۔
جب حکم الہیٰ سے غیبت صغریٰ کا وقت آیا تو چار خاص نائب مقرر کر دیئے اور یہ چار نائب ۸۶ سال تک دنیا کی رہنمائی کرتے رہے اس کے بعد سے غیبت کبریٰ شروع ہو چکا ہے اللہ اسی وقت سے لے کر آج تک ایک لحظہ کے لیے آپ کے نائبین سے دنیا خالی نہیں رہی اور وہ دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔
آپ علیہ السلام غائب ضرور ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ آپ کسی تنہا گوشے میں ہم سب کے نامہ اعمال پر روز آپ کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں تمام دنیاوی امور آپ کے توسط سے انجام پاتے ہیں شرف قبولیت دعا آپ کے توسط سے انجام پاتی ہے لہذا یہ ایک حقیقت ہے کہ آج جو ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ کسی زندگی گزار رہے ہیں کیا جو ذمہ داریاں ہمارے اوپر ہیں انہیں ہم نبھا رہے رہیں یا نہیں اور کیا اپنا کردار اسی آخری زمانہ کو تاریخ میں ادا کر رہے ہیں؟
کیا ہم رضائے امام علیہ السلام کے مطابق زندگی کے دن گزار رہے ہیں؟ کیا ہم وہی تو نہیں ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی امامت کے دور میں پیدا ہونا چاہتے تھے لیکن آخری امام علیہ السلام کے دور امامت میں بھی زندگی گزارتے ہوئے بھی حقیقتاً اسی امر کو تسلیم نہیں کرتے اور عصلاً ہم کسی نہ کسی طرح سے مخالفین امام زمانہ علیہ السلام میں شامل ہیں کیا ہم اسی طرح سے بیگانہ رہیں گے اور امام علیہ السلام تشریف لے آئیں گے؟
کیا ہمارے امام علیہ السلام کا ظہور ہونے میں قلیل عرصہ نہیں رہ گیا اور ہم نے اسی عظیم انقلاب امام علیہ السلام کی تیاریوں کے لیے کچھ نہیں کیا؟ کیا ہم نے انہیں اپنی ذمہ داریاں محسوس کیں اور انہیں نبھانے کی کوشش کی کیا ہماوری ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ روز ولادت جشن منا لیا جائے اور بس۔
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے دو گروہوں میں بٹ رہے ہیں ایک حق پرستوں کا گروہ اور دوسرا باطل پرستوں کا گروہ اور یہ دونوں گروہ ساتھ جاتے ہیں۔
آئیں اسی دور کو یاد کریں جب ایک طرف امام حسین علیہ السلام کا گروہ تھا اور دوسری طرف یزید اور اس کے ساتھیوں کا گروہ جن چیزوں کا وہ دلدادہ تھا وہ جھوٹ بولتا، غیبت کرنا، دھوکہ دیتا، گانا بجاتا، رقص و سرور کی محفلیں سجاتا، شراب پیتا، مکرو فریب، حکمران کی بے جاءمدح و ثنا چاپلوسی، دینی قوانین اور احکام میں اپنی مرضی سے تبدیل کرنا حلال و حرام کا فرق مٹا دیتا یعنی حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیتا خوف خدا سے دوری اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے دوری وغیرہ وغیرہ۔
جو برائیاں بیان کی گئی اور جن کے خاتمہ کے لیے امام حسین علیہ السلام نے نذرانہ شہادت پیش کیا وہ کسی نہ کسی صورت ہم میں بھی موجود ہیں ساری نہ سہی کچھ ہی سہی لیکن ہیں تو سہی جھوٹ بولنا ہمارے لیے عام سی بات ہے
غیبت کرتے ہوئے ہم نہیں ڈرتے دھوکہ دینا ہمارا معمول نہیں لیکن کسی نہ کسی شکل میں کبھی نہ کبھی یہ بھی کر جاتے ہیں گانا بجانا اور گانا سننا معمول کی بات ہے رقص و سرور کی محفلیں صبح و شام گھر کی زینت ہیں ٹی وی اور وی سی آر کی شکل میں حکمران یا بڑے افسر کی بے جا مدح و ثناءیا چاپلوسی کوئی بات نہیں خوف خدا ایک لفظ کی حد تک موجود ہے اس سے آگے نہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کتنا دور ہیں سب کو معلوم ہے ظلم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور خاموش تماشائی بن کر ظلم کی حمایت کرتے ہیں اور یہ سب کرتے ہوئے بھی اس پر راضی ہیں یہ معمولات ہمارے ہیں اور ان سب خدافات کے ساتھ دعویٰ دار بھی ہیں کہ کاش کربلا میں ہوتے یا کاش ہم ظہور امام علیہ السلام کے وقت موجود ہوں اگر کوئی کہے کہ ہم نماز بھی پڑھتے ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں تو یہ سب لشکر یزید بھی کرتا تھا دیکھنا تو یہ ہے حقیقتاً ہم کسی گروہ کے ساتھ ہیں اور ہماری ذمہ داری کیا ہے ہمیں کس راستے کا تعین کرنا ہے ہمارے آخری امام علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں اسی زمانہ میں ہم کس طرح سے زندگی کے دن گزار رہے ہیں کہ کل ہمیں سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ہم کیا کریں کہ امام علیہ السلام ہم سے راضی ہو جائیں؟
اب بھی ہم خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو کب ہوں گے کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم انقلاب امام علیہ السلام کے لیے تیار ہو جائیں عصلاً ہمیں کیا کرنا چاہیے اور وہ کون سے عوامل ہیں جن پر عمل کر کے کے ہم لشکر امام زمانہ علیہ السلام میں شامل ہو سکتے ہیں اور ہمارا شمار بھی حقیقتاً حق پرستوں کے گروہ میں ہو؟
پیروکار محمد و آل محمد بننا بہت مشکل کام ہے ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہے کہ دوچار چیزیں تو سیرت آل محمد سے لے لی جائیں اور باقی خرافات یزید سے اور یوں مخلوط زندگی گزارتے رہیں اور خوش فہمی مں مبتلا رہیں کہ ۰۳ فیصد محمد و آل محمد کی سیرت پر عمل پیرا ہیں اور ۰۷ فیصد یزید کی اور پھر بھی شیعان علی علیہ السلام میں ہونے کا دعویٰ شیعان علی علیہ السلام میں سے اگر ہونا ہے تو پھر لازم ہے کہ ہم جو بھی زندگی گزاریں وہ سیرت محمد و آل محمد کے تابع ہو اور جو برائیاں یزید میں یا اس کے گروہ میں تھیں ان سے لازماً بچا جائے اور ایسا کرنے کے لیے ہم جس امام علیہ السلام کی امامت میں زندگی گزار رہے ہیں ان سے مربوط ہونا بہت ضروری ہے۔
روایات میں کثرت سے آیا ہے کہ کوئی اس وقت تک صحیح معنوں میں آپ کا چاہنے والا نہیں بن ہی نہیں سکتا جب تک کم از کم سات امور بجا نہ لائے جو کہ یہ ہیں۔
غمگین کرانا، صدقہ حج کرنا، دعا مانگنا، عریضہ انتظار امام، علیہ السلام دعائے ظہور امام علیہ السلام غمگین رہنا:
امام علیہ السلام کے چاہنے والوں کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں آپ کے غم میں آپ کے ہجر میں گزارے یہ کتنے غم اور دکھ کی بات ہے کہ امام علیہ السلام موجود ہیں لیکن ان کی زبارت نہیں کر سکتے عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کا عزیز کوئی عالم لیڈر اگر غائب ہو جائے یا غائب کر دیا جائے تو کتنا غم ہوتا ہے اور جس سے جتنی محبت ہو گی اماموں کے دور میں تو پیدا نہ ہوئے محروم رہے ان کی زیارت سے مگر بارہویں امام علیہ السلام کی امامت میں تو زندہ ہیں لیکن امام علیہ السلام ہم میں ہوتے ہوئے بھی ہم سے کتنا دور ہیں اس پر جتنا بھی دکھ محسوس کیا جائے کم ہے ذرا چند لمحوں کے لیے تصور تو کریں؟ بخدا دل کی رگیں ٹوٹتی ہوئی لگیں گی اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان سارا سال غم سناتا رہے اور ایک گوشے میں پڑا رہے کہ امام علیہ السلام غائب ہیں بلکہ ہر شخص کو چاہیے کہ دن میں ایک مرتبہ ضرور سوچے کہ اس کے امام علیہ السلام امامت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

صدقہ:
ہر مومن کو چاہیے کہ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کے نام پر صدقہ دیا کرے حکم یہ ہے کہ ہفتے میں ایک دفعہ یا مہینے میں ایک دفعہ صدقہ دیا جائے اور نیت کی جائے کہ میں صدقہ دیتا ہوں حفاظت امام زمانہ علیہ السلام کے لیے اور یہ نہ سوچا جائے کہ ہمارے صدقے کی امام علیہ السلام کو کیا ضرورت ہے دیکھنا تو یہ ہے کہ رسول اکرم نے کیا فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ کوئی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک مجھے اور میرے اہل بیت علیہ السلام کو اپنے جان و مال سے زیادہ عزیز نہ رکھے تو جہاں بھی اپنی جان اور اپنے عزیزوں کی جان و مال بہت عزیز ہے وہاں امام علیہ السلام کی حفاظت کے لیے صدقہ دینا چاہیے ویسے بھی امام علیہ السلام کے ان گنت دشمن ہیں ذرا تصور تو کریں کہ اگر آج آپ علیہ السلام کا ظہور ہو جائے تو آپ کے دوست کتنے ہوں اور دشمن کتنے؟

حج کرنا:
اگر کسی نے اپنا واجب حج کر لیا ہے اور وہ حج کرنے کی استدعا رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے نام پر حج کرے یا کسی کو بھیجے یہ سب اہتمام اپنے امام علیہ السلام سے تعلق قائم کرنے کا ہے۔

دعا مانگنا:
یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت پڑتی ہے یا کوئی حاجت ہوتی ہے تو خدا کے آگے وسیلے سے دعا کرتے ہیں ہر امام علیہ السلام کو پکارتے ہیں پکارنا بھی چاہےے لیکن کبھی بھول کر بھی امام زمانہ علیہ السلام کے توسط سے دعا نہیں مانگتے سچ تو یہ ہے کہ ہم نے ہر مقام پر ہر جگہ اپنے امام علیہ السلام کو چھوڑ رکھا ہیے تو جو صاحب امر ہے جس کے توسط سے تمام دعائیں قبول ہوتی ہیں اس کو بھی یاد رکھنا چاہیے ہر مومن کو چاہیے کہ اپنے ہر امام علیہ السلام کو پکارے اور امام زمانہ علیہ السلام کو کبھی نہ بھولے لہذا جب بھی دعا مانگتے جائیں ہر نماز میں یا اس کے علاوہ تو امام علیہ السلام کے توسطہ سے بھی دعا مانگی جائے۔

عریضہ:
عریضہ کے بارے میں یہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ صرف پندرہ شعبان کے لیے مخصوص ہے عام طور پر اس مبارک شب کو لوگ عریضہ لکھتے ہیں اور پانی میں بہا دیتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ امام علیہ السلام صرف پندرہ شعبان ہی کو آپ کی درخواستوں پر غور فرماتے ہیں بلکہ ہر وقت آپ عریضہ لکھتے ہیں جب بھی آپ گرفتار بلاہوں اور کوئی راہ نظر نہ آئے تو اپنے امام علیہ السلام کو پکاریں اور عریضہ لکھیں اور پانی میں بہا دیں یا زمین میں دفن کر دیں آپ کے امام علیہ السلام تک پہنچ جائے گی۔

انتظار امام علیہ السلام:
یہ سب سے اہم بات ہے اور اس پر زیادہ سے زیادہ غور و فکر اورعمل کرنا چاہیے ہر شخص کو چاہیے کہ انتظار امام علیہ السلام میں اپنی زندگی گزارے یہ اتنا آسان کام نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے لوازمات کے کچھ لوازمات ہوتے ہیں مثلاً اگر مہمانوں کا انتظار ہو تو ظاہر ہے کہ کچھ انتظام کرنے ہوتے ہیں تو اپنے امام علیہ السلام کے لیے بھی اہتمام کرنا ہو گا اور زندگی کے ایام انتظار میں گزارنا بے حد ثواب کا باعث بھی ہے ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جو شخص آئمہ طاہرین علیہ السلام کی ولایت کا قائل ہو اور حکومت حق کا انتظار بھی کرتے کرتے چل بسے تو اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا ایسا شخص اس آدمی کے مانند ہے جو اس انقلاب کے رہبر کے ساتھ ساتھ اس کے خیمہ میں ہو پھر امام علیہ السلام نے تھوڑی دیر سکوت فرمایا اور پھر ارشاد کیا وہ اس شخص کی مانند ہے جو رسول خدا کے ہمراہ جنگ میں شریک رہا ہو۔
روایات میں ہے کہ جو شخص آپ کے انتظار میں زندگی گزارے اور اس دنیا سے کوچ کر جائے تو یقینا وقت ظہور اس کو پھر اُٹھایا جائے گا البتہ یہاں ایک نقطہ بہت قابل غور ہے اگر یہی خود بدکارو گنہگار اور بد اخلاق ہو گا تو کیوں کر ایسے شخص کا انتظار کر سکتا ہے جس کے شعلوں کی لپیٹ میں سب سے پہلے گناہگاروں کا دامن آئے گا اگر میں خود ہی ظالم ہوں تو کیسے اس شخص کا انتظار کر سکتی ہوں جو ظالموں سے جنگ کرے گا لہذا انتظار امام علیہ السلام کریں لیکن تزکیہ نفس کے ساتھ۔
ہر شخص کو چاہیے کہ کم از کم دن میں ایک مرتبہ ضرور اس بارے میں سوچے اور عملاً انتظار امام زمانہ علیہ السلام کرے انتظار امام علیہ السلام ہم کیا جائے انتظار امام علیہ السلام تو کوئی اہل نجف و کربلا سے پوچھے جہاں سسکیاں ابھی سسک رہی ہوں گی۔

دعائے ظہور امام زمانہ علیہ السلام:
امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کے واسطے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دعائے ظہور امام زمانہ علیہ السلام کم از کم دن میں ایک بار ضرور پڑھے اور اپنے امام علیہ السلام کو پکارے اس طرح سے دعائے سلامتی امام زمانہ علیہ السلام بھی کم از کم ہر روز ایک مرتبہ ضرور پڑھی جائے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
پروردگار اپنے ولی حضرت حجت ابن الحسن العسکری علیہ السلام ان پر اور ان کے آباﺅ اجداد پر صلوٰة و رحمت کے لیے اس وقت اور ہمیشہ کے لیے ولی و محافظ و قائد و مددگار و رہنما و نگران بن جاتا کہ انہیں تیری زمین پر سکونت حاصل ہو اور تو انہیں طویل مدت تک بہرہ مند و اندوز فرماتا ہے۔
اس وقت میں یہ چاہتی ہوں کہ جب مسلمانوں کے تقریباً تمام فرقے آپ علیہ السلام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کو ہی اپنا نجات دہندہ سے جانتے ہیں تو پھر کیوں نہ آپ سے ایسا ربط قائم کیا جائے جو ہمیں عملی طور پر فکری طور پر اور روحانی طور پر آپ علیہ السلام کے قریب کر دے اور ہم صحیح معنوں میں آپ کے چاہنے والے بن جائیں۔