امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں چند مقالے
 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
5-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں
از:سید احمد علی شاہ رضوی
الحمد للہ کما ھو اھلہ والصلوٰة والسلام علیٰ خاتم النبیین ابی القاسم محمد واٰلہ الطاہرین۔
امابعد!
وہ سعادت مند افراد جنہوں نے اپنی جبین نیاز اللہ کی آخری حجت کے آستانہ کی چوکھٹ پر خم کر دی ہے، جو آپ کے دستر خوان احسان کے خوشہ چین ہیں، جو حضرت ولی العصرعلیہ السلام کے مبارک وجود کو تمام تر نعمات الہیہ اور فیوضات لا متناہیہ کا منبع سمجھتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں آپ علیہ السلام کی ذات با برکت کو وسیلہ قرار دیتے ہیں ان پر آپ علیہ السلام کی ذات گرامی کے حوالے سے کچھ فرائض بجا آوری لازم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم اپنے آپ کو ان خوش قسمتوں کے دائرہ میں شامل گردانتے ہیں جنہوں نے اطاعت امام عصرعلیہ السلام کا جوا اپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے تو ہمیں ان ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا لازم ہے جو آپ کی اطاعت و احترام کے حوالے سے ہم پر عائد ہوتی ہیں یہ ذمہ داریاں کتاب نجم الثاقب باب نمبر۰۱ سے اخذ کی گئی ہے جو کہ کل تعداد میں آٹھ ہیں ان کا مقصد بھی دینی و دنیاوی سرخوتی اور بارگاہ امام علیہ السلام میں قربت و باریابی اور آپ کی رضا و دعا حاصل کرنا ہے ساتھ ہی ساتھ دنیاوی مصائب و آفات سے آپ کے دامن میں پناہ حاصل کرنا ہے یہ دنیاوی آفات کچھ تو قلبی ہیں اور کچھ جسمانی، کچھ زبانی ہیں اور کچھ مالی پہلو رکھتی ہیں ان میں سے چند ایک آپ کے سامنے بیان کرنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے۔

پہلی ذمہ داری:
سب سے پہلی ذمہ داری ہے غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں مغموم و محزون رہنا اور ہم کیوں نہ غمگین ہوں جب ہماری آنکھیں اس آفتاب عدالت اور نور ولایت کو دیکھنے سے قاصر ہوں کان ان کی شیریں آواز سننے کو ترس رہے ہوں دل ان کی جدائی و دوری سے بے تاب ہو اور آنجناب کے دیدار کا کوئی وسیلہ ہاتھ نہ آتا ہو ہمارے دل سوز جدائی سے تپاں ہوں جیسے محب اپنے محبوب کی جدائی میں گریاں ہوتا ہے کیونکہ رسول اکرم کا فرمان ہے جسے شیخ صدوق نے اور شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی میں نقل کیا ہے فرمایا کوئی شخص ایمان نہیں لایا جب تک میں اس کے جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جاﺅ اور میرے گھر والے اس کے گھر والے سے زیادہ عزیز نہ ہوں میری عترت اس کی عترت (یعنی اولاد) سے زیادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے یہی بات امام حاضرعلیہ السلام پر بھی صادق آتی ہے ہر معرفت حق رکھنے والا شخص اس سلسلہ معظمہ علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کو دنیا میں قابل محبت و ستائش نہ جانے گا اور کسی کو جانے تو وہ بھی اتنی معظم ہستیوں کی نسب کے حوالے سے۔
اگر کسی شخص نے حقیقتاً اپنے امام علیہ السلام کی محبت کا جام شیریں نوش کیا ہو اور دل سے رشد محبت کو آپ علیہ السلام کے ساتھ استوار کیا ہو تو اس قدر آپ علیہ السلام کی فرقت میں غمگین ہو گا کہ آنکھوں سے نیند دل سے قرار اور خورد نوش سے لذت جاتی رہے گی اس غم کا کیا بیان ہو کہ وہ با جلالت و عظمت ہستی جو منبع ہے تمام تر رافت و لطف و احسان کا مگر حجاب الہیٰ میں اس طرح پوشیدہ ہے کہ نہیں جانتے کہ دست طلب ان تک کیسے پہنچے؟ یہ آنکھیں ان کے جمال سے کیسے سیراب ہوں؟ نہ ان کے پایہ تخت ولایت کا کوئی پناہ نہ ان کے مسکن با شرافت کی کوئی خبر ہر کس و ناکس کو یہ آنکھیں دیکھتی ہیں سوائے اس ہستی کے جس کے سوا کسی کو دیکھنا نہیں چاہتیں ہر لغو و نا پسندیدہ بات کو کان سنتے ہیں سوائے اس کی آواز کے جس کے سوا کچھ سننا نہیں چاہتے۔
غمزدہ ہونے کے لیے یہ کیا کم ہے کہ وہ خلعت خلافت و ولایت و سلطنت جو آپ علیہ السلام کے قامت زیبا کے لیے تیار کی گئی تھی آپ علیہ السلام ہی کو اس سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ لوگ اس کو پہنتے ہیں جو ظالم و جابر فاسق و گنہگار حدود سے تجاوز کرنے والے اور ہر طرح کی معصیت میں گرفتار ہیں یہ غم بھی کمر توڑ دینے والا ہے کہ راہ مستقیم کی طرف ہدایت نا ممکن و مشکل ہو چکی ہے آپ علیہ السلام کے حد تک پہنچنے والی تاریک راہوں میں چور کمین گاہوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور مسلسل شکوک و شبہات کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کر رہے ہیں اور شیعیان اہلبیتعلیہ السلام کی جو مختصر جماعت رہ گئی وہ ایک دوسرے کے درپئے آزار ہے لوگ مسلسل دین خدا کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور علمائے حق بے بس دیکھ رہے ہیں اور اپنے علم کے اظہار سے عاجز ہیں۔
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت پر امام جعفر صادقعلیہ السلام بھی محزون و غمگین ہیں:
کتاب ینابیع المودة میں ص۴۵۴ پر شیخ سلیمان قندوزی حنفی رقمطراز ہے کہ سدیر الصیرفی کا بیان ہے میں مفضل بن عمر ابوبصیر اور ابان بن تقلب حضرت امام جعفر الصادقعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا حضرتعلیہ السلام زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں اور بہت رو رہے ہیں اور فرما رہے ہیں میرے سردار! آپ کی غیبت نے میری نیند اُڑادی ہے اور دل کا چین چھین لیا ہے۔
فضل بن روز بیان شافعی نے اپنی کتاب وسیلة النحارم الی المخدوم فارسی کی آخر فصل ص۴۹۲ پر حضرت امام مہدیعلیہ السلام کی طویل غیبت پر رنج و غم بھرے اشعار لکھتے ہیں جو واقعاً پڑھنے اور سننے کے قابل ہیں ہم یہاں اختصاراً دو شعر کا ذکر کرتے ہیں۔(تفصیل کے لیے کتاب ھذا کی طرف رجوع کریں)۔
۱۔ می فزاید مہر اوھر روز در خاطر را
گرچہ من کاھیدہ ام از دردمی کا ھم ھنوز
۲۔ انتظار شاہ مہدیعلیہ السلام می کشد عمری این
رفت عمر و در امید طلعت شاہم حنوز
ترجمہ: ۱۔ہر روز میرے دل میں اس کی محبت بڑھتی ہی جاتی ہے
اگرچہ درد جدائی نے مجھے مضمعل اور توڑ دیا ہے
۲۔ شاہ مہدیعلیہ السلام کا انتظار زندگی بھر کیا عمر
عمر گزر گئی لیکن اب بھی اپنے بادشاہ کو جلوہ افروز ہونے کا منتظر ہوں۔

دوسری ذمہ داری:
غیبت امام علیہ السلام میں ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ جو قلبی ہے یعنی انتظار فرج آل محمد جو ہر لمحہ، ہر پل پر محیط ہے امام علیہ السلام کے ظہور کا انتظار ان کے خلافت سلطنت پر متمکن ہونے کا انتظار زمین میں عدل و انصاف قائم ہونے کا انتظار دین الہیٰ کے کل ادیان پر غالب ہونے کا انتظار جس کی خبر خود اللہ سبحانہ نے نبی اکرم کو دی اور یہ وعدہ فرمایا کہ ایک روز آئے گا جب اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے گی اور دین میں سے کوئی چیز پردہ میں نہ رہے گی اور حق کے پروانوں سے رنج و الم و بلا دور کر دی جائے گی۔
حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا کہ ”جو شخص چاہے کہ حجت آخرعلیہ السلام کے اصحاب میں شامل ہو اسے چاہیے کہ ہر لمحہ انتظار کرے اور تقویٰ اور حسن اخلاق کے ساتھ عمل کرتا رہے اسی انتظار کی حالت میں اگر مر جائے اور ہماری حجت قائم علیہ السلام اس کے مرنے کے بعد ظہورکریں تو اس شخص کے لیے ویسا ہی اجر ہے جیسا اس شخص کے جو امام علیہ السلام آخر کو پا لے “۔
حضرت امام رضعلیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ ”میری امت کے لیے بہتر عمل انتظار فرج ہے“۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”ہمارے امر کا انتظار اس طرح ہے جو راہ خدا میں خون میں غلطان ہو“۔
شیخ صدوق کمال الدین میں امام جعفر صادقعلیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ دین آئمہعلیہ السلام تقویٰ، عفت و پاکدامنی، نیک عمل اور فرج آل محمد کا انتظار کرنا ہے۔
کتاب السنن ترمذی باب نمبر ۶۱۱ میں جناب عبداللہ بن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا خدا سے اس کے کرم کا سوال کرو، خدا چاہتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور سب سے برتر عبادت ظہور کا انتظار ہے۔
ابو بصیر کا بیان ہے کہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا اے ابو بصیر! جنت کی بشارت ہے ہمارے قائم علیہ السلام کے چاہنے والوں، غیبت میں ان کے ظہور کا انتظار کرنے والوں اور ظہور کے وقت ان کی اطاعت کرنے والوں کے لیے۔(ینابیع المودة ج۳ ص۶۶)

تیسری ذمہ داری:
غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یوسف زہرائعلیہ السلام امام زمانہ علیہ السلام کے لیے دعا کریں امام علیہ السلام کی سلامتی کی دعا کریں امام علیہ السلام کی سلامتی کی دعا، ہر شر سے نجات کی دعا، تمام شیاطین جن و انس سے حفاظت کی دعا اور سب سے بڑھ کر جناب کی نصرت و اعداءپر غلبہ کی تعجیل فرج کی دعا ہے دعا تو ہمارا اپنے رب کے ساتھ اہم ترین رابطہ ہے خصوصاً اپنے دینی بھائیوں کے لیے دعا کی بہت تاکید کی گئی ہے اس کی ترغیب اور تشویق دلائی گئی ہے جب اپنے دینی برادران کے لیے دعا کی اتنی فضیلت ہے تو پھر زمین پر اس حجت خدا اور سبب ہدایت و وجہ تخلیق کائنات کے لیے دعا کرنا جس فضیلت کا حامل ہو سکتا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے امام عالی مقامعلیہ السلام کے لیے دعا آپ کی بزرگی اور جلالت کے بموجب ہم پر آپ کا ایک حق ہے جس کی ادائیگی ہماری آپ سے محبت و عقیدت کا ثبوت ہے۔
جب ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے پیاروں اور عزیزوں کے لیے دعا کرتے ہیں اسی طرح چاہیے کہ آنحضرت کے لیے دعا کو مقدم کریں اور پہلے آنجناب کی سلامتی اور فوج کے لیے دعا کریں اور پھر آپ کے وسیلے سے اپنی حاجات پیش کریں ایک طرف تو اس سے بندگی اور محبت کا حق ادا ہو گا آپ کے جو عظیم احسان ہم پر ہیں ان کا شکر ادا ہو اور امید ہے کہ قبول دعا کے لیے وہ دروازے جو ہم اپنے گناہوں کے سبب بند کر چکے ہیں اپنے مولعلیہ السلام کے لیے دعا کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان دروازوں کو ہم پر کھول دے اور آپ کے وجد پر نور کی برکت سے ہمار دعائیں مستجاب ہو جائیں۔
یہ بات نہیں کہ ہمارے آقا و مولعلیہ السلام ہماری دعاﺅں کے حاجتمند ہیں بلکہ یہ ہماری عقیدت اور محبت کا تقاضا ہے اور ہماری دعاﺅں کی قبولیت کا باعث بھی ہے۔
پس چاہیے کہ آپ علیہ السلام کی ذات بابرکت کو اپنے نفس پر مقدم کریں اور پہلے آنجناب اور پھر اپنی ذات اور حاجات کے لےے دعا کریں آپ علیہ السلام ذات اور ظہور با برکت کے لیے بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں وقتاً فوقتاً انہیں بھی پڑھتے رہنا چاہیے جو بہت زیادہ عظیم معنوی و دنیاوی فیوض و برکات کی حامل ہیں۔

چوتھی ذمہ داری:
ہماری چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ امام علیہ السلام کے لیے صدقہ دیں آپ علیہ السلام کی حفاظت و سلامتی کی خاطر روزانہ جو کچھ میسر ہو اس میں صدقہ نکالنا بھی ہماری محبت و عقیدت کا تقاضا ہے صدقہ کئی ایک مقاصد سے نکالا جاتا ہے اپنے عزیزوں کی سلامتی و حفاظت کے لیے اپنی ذات کی سلامتی کے لیے اس کے علاوہ سفر میں یا مرض میں سلامتی کے لیے غرض جو جتنا بھی عزیز ہو تو وہ ہستی جو ہر چیز سے زیادہ محبوب و عزیز ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی سلامتی و حفاظت کے لیے صدقہ دیں چاہے کم ہو یا زیادہ۔
اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارے مولعلیہ السلام و آقعلیہ السلام ہمارے صدقہ (ان کی ذات کے لیے) دینے کے حاجت مند نہیں ہی مگر یہ خیال ہمیں اس عمل نیک سے باز نہ رکھے ہم خود حاجتمند ہیں کہ آپ کی حفظ و سلامتی کو اپنے اور اپنے عزیزوں کی سلامتی پر مقدم کریں تا کہ اللہ سبحانہ آنجناب کو ہر شر جن و انس اور مصائب ارضی و سماوی سے محفوظ رکھے۔
روایات میں آیا ہے حضرت رسولخدا اور آئمہ طاہرینعلیہ السلام اپنے وجود مقدس کو آفات ارضی و سماوی سے اور جن و انس بلات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور دنیا و اخروی نفع کے لیے صبح و شام، آدھی رات اور سفر سے پہلے اور ان کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر صدقہ دیاکرتے تھے اور اس کا خاص اہتمام کرتے تھے چنانچہ کلمہ طیبہ میں ذکر ہوا ہے کہ تمام آئمہ معصومینعلیہ السلام حوادث و واقعات وبلایا کے لےے ایک دوسرے کے لیے صدقہ دیا کرتے تھے چنانچہ اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ حضراتعلیہ السلام خود صدقہ دیں یا آپ علیہ السلام کی امت اور پیروکاروں میں سے کوئی بلاﺅں اور آفات کو ان کے وجود اقدس سے دور کرنے کے لیے صدقہ دیں بلکہ یہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے موجود محبت و عقیدت اور عزت و احترام کا ثبوت ہے اور ان حضرات کے ہم پر احسان و اکرام اور لطف و عنایت کا شکر نہ ہے بالکل جیسا کہ دعا کے بارے میں ہے۔

پانچویں ذمہ داری:
پانچویں ذمہ داری بہت اہم ہے ہمیں چاہےے کہ زمانہ غیبت کے ان اندھیروں میں خدائے تعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے دعا کریں جو کفارہ زناد دیق ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ طویل ترین غیبت بعض مومنوں کے دل میں شک و شبہ کا بیج بو رہی ہے اس صورتحال میں خدا سے ہر وقت ایمان پر برقرار رہنے کی اور دین پر ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے اس مقصد کے لیے بہت سی دعائیں روایات میں آئمہ معصومینعلیہ السلام سے وارد ہوئی ہیں شیخ نعمانی نے غیبت میں اور کلینی نے کافی میں مختلف اسناد سے زرارہ سے روایت کی ہے اس نے کہا کہ میں ابوعبداللہ علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا خلاصہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا غیبت ہمارے منتظر کی طولانی ہوگی یہاں تک کہ لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے شبہات میں پڑ جائیں گے اور اس کے ذریعے سے خدا ہمارے شیعوں کے قلوب کی آزمائش کرے گا۔
زرارہ کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان ہو جاﺅں اگر میں اس زمانے کو پالوں تو کیا عمل کروں آپ علیہ السلام نے فرمایا اے زرارہ اگر تو اس زمانے کو پالے تو اس دعا کو پڑھا کرو۔
اللھم عرفنی نفسک........ضللت عن دینی۔
شیخ صدوق نے کمال الدین میں عبداللہ بن سنان سے روایت کی ہے کہ ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا جلد ہی تم لوگ شبہہ میں پڑ جاﺅ گے بغیر کسی رہنما و پیشوا اور مقصد کی طرف ہدایت کرنے والے کے ار اس شبہہ سے نجات صرف وہی پا سکے گا جو دعائے غریق کو پڑھتا رہے میں نے عرض کیا کہ یہ دعائے غریق کس طرح ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:
یااللہ یارحمن یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔

چھٹی ذمہ داری:
چھٹی ذمہ داری یہ ہے کہ امام علیہ السلام کی نیابت میں حج کرنا اور حج کروانا ہے چنانچہ پرانے زمانے میں شیعیان اہلبیتعلیہ السلام کے درمیان رائج تھا خود بھی امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت میں حج کرتے تھے اور قسم دے کر دوسروں سے حج کرواتے تھے۔

ساتویں ذمہ داری:
ساتویں ذمہ داری یہ ہے کہ آنحضرت کا مخصوص نام مبارک ”قائمعلیہ السلام “ مہدیعلیہ السلام ، حجتعلیہ السلام سنیں تو تعظیم کے لےے کھڑے ہو جائیں روایت میں ہے ایک روز امام جعفر صادقعلیہ السلام تشریف فرما تھے کہ آپ علیہ السلام کی مجلس میں یہ نام مبارک ذکر کیا گیا پس آپ علیہ السلام اس کے احترام و تعظیم میں کھڑے ہو گئے۔
اسی ذمہ داری کا ایک فرع ہے کہ امام عالی مقام کا نام نہیں لینا چاہیے جیسا کہ کتاب وسیلة النجاة (مطبوعہ لکھنو) کے ص۶۱۴ پر مولوی محمد حسین نے امام رضعلیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے امام رضعلیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ علیہ السلام کے قائم علیہ السلام کا نام کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے جواب فرمایا: ان کی ولادت پہلے نام لینے کی اجازت نہیں۔
نام لینے کی ممانعت غیبت کے ابتدائی دنوں سے متعلق ہے اس کی وجہ وہ زبرت خطرات تھے جو حضرت کے چاروں طرف منڈلا رہے تھے اس بناءپر ممانعت کا تعلق اگرچہ بظاہر اس زمانے سے نہیں ہے لیکن پھر بھی نام نہ لینا بہتر ہے اور القاب سے یاد کرنا زیادہ بہتر ہے اور حضرتعلیہ السلام کا نام وہی ہے جو حضرت رسول خدا کا اسم گرامی ہے۔

آٹھویں ذمہ داری:
امام زمانہ علیہ السلام کے شیعہ و پیروکار ہونے کے حوالے سے یہ بھی ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان سے استمداد و استعانت طلب کریں مصائب و آلام و شدائد، بیماریوں اور شک و شبہات کے فتنہ سے حفاظت کے لیے آپ کی بارگاہ میں استفات کریں ضروری ہے کہ ہم اعتقاد رکھیں کہ آپ علیہ السلام ہمارے لیے ہر طرح کی خیر و برکت کا وسیلہ ہےں ہماری حاجات برلانے اور مشکل کشائی کے لیے اللہ کی طرف سے مامور ہیں لہذا آپ علیہ السلام سے حاجت و مشکل کشائی طلب کریں روایات بتاتی ہیں کہ قدیم زمانے سے لوگ آپ علیہ السلام کے وجود اقدس سے طلب استمداد کرتے رہے ہیں اور آپ کے وجود پر نور سے رہنمائی پاتے رہے ہیں اور آپ علیہ السلام کے فیوض و برکات کا چشمہ آج تک جاری و ساری ہے اس لیے روایات میں آپ علیہ السلام کے وجود کو سوچ سے تشبیہہ دی گئی ہے جو بادلوں میں چھپا ہوا ہو مگر اس کے باوجود خلق خدا اس سوچ سے فائدہ اُٹھاتی ہے اور اس کے فیوض و برکات جاری رہتے ہیں۔خلاصہ کلام (یہاں تک جو کچھ میں نے تحریر کیا)
یہ ہے کہ ہم شیعہ حیدر کرارعلیہ السلام ہونے کے حوالے سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی غیبت میں محزون و مغموم ہوں اپنے دین کی اور ایمان کی حفاظت کے لیے خدا کے حضور دعاگو ہوں امام کی نیابت میں حج کریں یا حج کرائیں امام کے لیے صدقہ دیں امام علیہ السلام کی سلامتی کے لیے دعا کریں، امام علیہ السلام کے نام مبارک نہ لیں اور اس سنیں تو تعظیما کھڑے ہوں کا انتظار کریں انتظار بھی وہ انتظار جس کے لیے کہا گیا ہے ”الانتظار اشد من الاحتضار“
آخر میں دعاگو ہوں کہ خدایا! ہم سب کو ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اللھم عجل فرجہ الشریف و سہل فخرجہ الشریف۔
اللھم کن لولیک الحجة بن الحسنعلیہ السلام صلوٰتک علیہ و علیٰ آبائہ فی ھذا الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظاً و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتیٰ تسکنہ و ارضک طوعا و تمتعہ فیھا طویلا۔