بسم اللہ الرحمن الرحیم
4-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں
از:سید عمران عباس نقوی ولد سید عابد حسین نقوی
رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے اعمال میں سب سے بہتر عمل اللہ کی طرف سے فرج و کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔(عیون الاخبار)
رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے عطا کردہ کم رزق پر راضی رہے گا اللہ یہ اس کے قلیل عمل پر راضی ہو جائے گا اور انتظار کشادگی بھی عبادت ہے۔
تمام امتوں یعنی تمام لوگوں سے ظہور امام علیہ السلام کے منتظر سب سے افضل ہیں حضرت علی بن الحسینعلیہ السلام سے روایت کہ آپ نے فرمایا رسول اللہ کے اوصیاءمیں بارہویں وصی اور ولی خدا کی غیبت طویل ہوگی ان کی غیبت کے زمانے میں جو لوگ ان کی امامت کے قائل ہوں گے ان کے ظہور کے منتظر ہوں گے وہ ہر زمانے کے لوگوں سے افضل ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ایسی عقل و فہم اور معرفت عطا فرمائے گا کہ ان کے نزدیک غیبت بھی بمنزلہ شہود ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں بھی وہی درجہ عطا فرمائے گا جو درجہ رسول کائنات کی مصیت میں رہ کر تلوار سے جہاد کرنے والوں کو حاصل ہے وہ لوگ واقعی مخلص اور ہمارے سچے شیعہ ہوں گے وہ لوگ در پردہ اور علانیہ دونوں طرح اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہوں گے اور پھر فرمایا انتظار فرج و کشادگی تو از خود سب سے بڑی فرج و کشادگی ہے۔(احتجاج طبری)
جابر کہتے ہیںکہ ہم لوگ مناسک حج ادا کرنے کے بعد رخصت ہونے کے لیے حضرت امام ابو جعفر محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا فرزند رسول ہمیں کچھ نصیحتیں فرمائیے تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں جو قوی ہے وہ ضعیف و کمزور کی مدد کرے تم میں جو دولتمند ہے وہ اپنے فقیروں پر توجہ دے۔
تم میں سے ایک شخص جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لیے چاہیے تم لوگ ہمارے اسرار کو پوشیدہ ہی رکھنا اور لوگوں کو اپنی گردنوں پر مت سوار کرنا ہمارے ظہور امر کا انتظار کرنا اور جو روایت ہماری نسبت سے تم لوگوں تک پہنچے اگر وہ قرآن کے مطابق ہو تو اسے قبول کر لینا اور اگر قرآن کے مخالف ہو تو اسے رد کر دینا اور اگر مشتبہ ہو پتہ نہ چلے کہ موافق ہے یا مخالف ہے تو توقف کرنا اور ہم سے دریافت کرنا تا کہ ہم اس کی تشریح کر دیں۔
اگر تم لوگ ہمار ی نصیحتوں پر عمل کرتے رہے تو ہمارے قائم کے ظہور سے قبل تک جو بھی تم میں سے ان نصیحتوں پر عمل کرتا ہوا مرے گا وہ شہید ہو گا اور جس نے امام علیہ السلام قائم کا زمانہ پا لیا اور ان کی معیت میں قتل ہو گیا اس کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا اور جس نے ان کی معیت میں ہمارے ایک بھی دشمن کو قتل کیا اس کو بیس شہیدوں کا اجر ملے گا۔(امالی شیخ)
امام زمانہ علیہ السلام کا انتظار جہاد فی سبیل اللہ ہے ان مومنین کے لیے جو حقیقی مومن ہیں کتاب خصال پر مرقوم ہے حضرت امیر المومنینعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا ظہور امام علیہ السلام کا انتظار کرو اور رحمت الہیٰ سے مایوس نہ ہو جاﺅ کیونکہ اللہ بزرگ و بر تر کے نزدیک بہترین عمل ظہور صاحب امر کا انتظار کرنا ہے۔
پھر فرمایا: پہاڑ کھودنے کا کام زیادہ آسان ہے اس سلطنت کے لیے کوشش کرنے سے جس کا ایک وقت معین ہے اور اللہ سے مدد کی درخواست کرو اور صبر کرو یہ زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہے اس کا مالک بنائے اور عاقبت متقین کے لیے صاحب امر کے آنے سے پہلے ان کے لیے جلدی نہ کرو ورنہ ندامت و پیشمانی کا شکار ہو جاﺅ گے اور اس مدت (وقت ظہور امر) کو طویل نہ سمجھو ورنہ تمہارے دل سخت ہو جائیں گے۔
پھر فرمایا ہمارے صاحب امر کو ماننے والا ہمارے ساتھ حظیرہ (حباغ) قدس میں ہو گا اور ہمارے صاحب امر کا انتظار کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص راہ خدا میں جہاد کر کے اپنے خون میں لت پت ہو کر لوٹ رہا ہو۔
ابن معروف نے حماد بن عیسیٰ سے انہوں نے ابو جارود سے انہوں نے ابو بصیر سے اور ابو بصیر نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ایک دن حضرت رسول اکرم کی خدمت میں آپ کے اصحاب کا ایک گروہ حاضر تھا آنحضرت نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا۔
اللھم یقینی اخوانی اللھم یقینی اخوانی
اے اللہ مجھے میرے بھائیوں سے ملادے اے اللہ مجھے میرے بھائیوں سے ملا دے یہ سن کر حاضرین نے عرض کیا یارسول اللہ کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں۔
آپ نے ارشاد فرمایا نہیں تم لوگ تو میرے اصحاب ہو میرے بھائی تو وہ لوگ ہوں گے جو آخر زمانہ میں پیدا ہوں گے وہ بغیر مجھ کو دیکھے ہوئے مجھ پر ایمان لائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے نام اور ان کے آباءکے صلبوں اور اپنی ماﺅں کے شکموں سے نکلے بھی نہیں ہیں اور ان بیچاروں کے لیے اپنے دین پر قائم رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہو گا جتنا اندھیری رات میں کانٹوں پر چلنا یاآگ کے انگارے ہاتھ سے اُٹھانا اور وہی لوگ تو درحقیقت اندھیری رات کے چراغ ہوں گے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہر قسم کے گبھیر(تاریک) فتنوں سے نجات دے گا۔(بصائر الدرجات)
سب سے بڑے صاحب یقین غیب پر ایمان لانے والے ہیں۔
محمد بن علی بن شاہ نے احمد بن محمد بن حسن سے انہوں نے احمد بن خالد خالدی سے انہوں نے محمد بن احمد بن صالح تمیمی سے انہوں نے محمد بن خاتم قطان سے انہوں نے حماد بن عمرو سے حمد نے حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام سے اور آپ علیہ السلام نے اپنے آبائے کرام سے روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرمایا یا علیعلیہ السلام ! و اعلم ان اعظم الناس قومن یکونون فی آخر الزمان۔لم یلحقو النبی و حجب عنھم الحجة فامنوا بسواد فی بیاض۔
فرمایا: اے علیعلیہ السلام : تمہیں معلوم ہو کہ لوگوں میں سب سے بڑا صاحب یقین ایک گروہ ہو گا جو آخری زمانہ میں پیدا ہو گا انہوں نے اپنے نبی کو نہ دیکھا ہو گا اور حجت امام بھی پردہ غیبت میں ہو گا مگر اس کے باوجود ہر سیادہ و سفید پر ایمان رکھتے ہوں گے جو انتظار میں مر گیا وہ شہید ہو گا۔
ابن فضلا نے علی بن عقبہ سے انہوں نے عمر بن ابان کلبی سے انہوں نے عبدالحمید واسطی سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ میں امام ابو جعفر صادقعلیہ السلام امام محمد باقرعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مولا خدا آپ کا بھلا کرے ہم لوگوں نے تو حضرت صاحب امر کے انتظار میں اپنے بازاروں میں جانا ترک کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اس سلسلے میں سوال کر بیٹھے! آپ نے ارشاد فرمایا۔
اے عبدالحمید! کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کر کے ضبط سے کام لے گا اللہ اس کے لیے کوئی راستہ نہ پیدا کرے گا نہیں خدا کی قسم بلکہ وہ ضرور اس کے لیے راستہ پیدا کرے گا اللہ اس بندے پر رحم فرمائے جو ہمار ی محبت پر ثابت قدم رہے اللہ رحم کرے اس بندے پر جو ہمارے امر کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
میں نے عرض کیا مولا اگر میں امام قائم علیہ السلام کا دور آنے سے پہلے ہی مرجاﺅں! آپ نے ارشاد فرمایا اگر تم میں سے کوئی اس کا قائل ہو کہ اگر میں قائم آل محمد کا زمانہ پاﺅں گا تو میں ان کی مدد کروں گا تو وہ بھی اسی شخص کے مانند ہو گا جو ان کی معیت میں رہ کر تلوار چلائے اور شہید ہو جائے تو اس کے لیے دو شہادتیں ہیں۔
حضرت سلمان فارسی کا وارد کوفہ ہونا۔
احمد بن ادریس نے علی بن محمد سے انہوں نے فضل بن شاذان سے انہوں نے ابن ابو عمیر سے انہوں نے حسین بن ابو علاءسے انہوں نے ابوبصیر سے ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب حضرت سلمان فارسی وارد کوفہ ہوئے تو آپ نے اس پر ایک نظر ڈالی اور اس پر جو کچھ بلائیں اور حوادث رو نماز ہونے والے تھے ان کا ذکر کیا یہاں تک کہ سلاطین بنی امیہ اور ان کے بعد آنے والے ادوار کا بھی تذکرہ کیا اس کے بعد کہا کہ جب یہ سب کچھ ہو چکے تو تم لوگ اپنے گھروں میں گوشہ نشین ہو جانا یہاں تک کہ حضرت صاحب امر امام قائم علیہ السلام طاہر ابن طاہر و مطہر صاحب غیبت ظہور فرمائیں۔(غیبت طوسی)
دور غیبت کے مومنین کا عمل زمانہ ظہور کے مومنین کے عمل سے افضل اور بہتر ہے مظفر علوی نے ابن عیاشی اور حیدر بن محمد سے انہوں نے عیاشی سے انہوں نے قاسم بن ہشام نوادی سے انہوں نے ابن محبوب سے انہوں نے ہشام بن سالم سے انہوں نے عمار سا باطی سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادقعلیہ السلام سے دریافت کیا کہ مولا ان باطل حکومتوں کے دور میں آپ امام علیہ السلام غائب کے دامن سے متمسک رہتے ہوئے چھپا چھپا کر عبادت کرنا افضل ہے یا ظہور امام علیہ السلام کے بعد آنجناب کے عہد حکومت میں آنجناب کے ساتھ علانیہ عبادت کرنآپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اے عمار پوشیدہ خیرات خدا کی قسم علانیہ خیرات سے افضل و بہتر ہے اسی طرح باطل حکومتوں کے دور میں اپنے اما وقت کے دامن سے وابستہ رہتے ہوئے چھپا چھپا کر عبادت کرنا جس میں دشمنوں کا خوف بھی لا حق ہو، ان لوگوں کی عبادتوں سے افضل ہے جو امام قائم علیہ السلام کے عہد حکومت میں ان کے ساتھ رہ کر بے خوف و خطر عبادت کریں گے کیونکہ خوف کے عالم میں عبادت اور بے خوفی کے ساتھ عبادت میں بڑا فرق ہے۔
تمہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آج کل اسی دور میں بھی اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دشمنوں سے پوشیدہ طور پر فرادیٰ ایک نماز فریضہ بھی اس کے وقت پر ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے پچیس فرادیٰ نماز فریضہ کا ثواب لکھ دے گا اور جو شخص اس حال میں ایک نیکی بجا لائیے گا اللہ بزرگ و برتر اس کے لیے بیس نیکیوں کا ثواب لکھ دے گا اور جو شخص قربةً الی اللہ اپنے دین اپنے امام علیہ السلام اور اپنے نفس کے تحفظ کے لیے تقیہ پر عمل پیرا ہو گا اور اپنی زبان بند رکھے گا تو اللہ عزت و بزرگی والا اس کے حسنات میں کئی گنا اضافہ فرما دے گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ عزت و جلال والا بڑا کریم ہے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا اے فرزند رسول میں آپ پر قربان یہ فرما کر تو آپ نے میرے جذبہ عمل میں اور اضافہ فرما دیا مگر یہ بھی ارشاد فرمائیے کہ اس زمانہ ہم لوگوں کا عمل امام قائم علیہ السلام کے عہد حکومت میں ان کے ساتھ رہنے والوں کے عمل سے افضل کیسے ہو سکتا ہے۔
جب کہ ہمارا اور ان کا دین ایک ہے یعنی دین الہیٰ۔
آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بات یہ ہے کہ تم لوگوں کو ان پر سبقت حاصل ہے تم لوگ ان سے پہلے دین خدا میں داخل ہوئے نماز و روزہ و حج سے فرائض بجا لائے مسائل فقہ پر عمل کیا کارخیر انجام دیئے اپنے دشمنوں کے خوف سے چھپا چھپا کر اللہ کی عبادت کی اپنے امام علیہ السلام کے دامن سے وابستہ رہے ان کی اطاعت کرتے رہے ان کے ساتھ صبر کیا ان کے ساتھ حکومت حقہ کے منتظر رہے تمہیں سلاطین وقت سے اپنے امام علیہ السلام کے متعلق اور اپنے بارے میں ہمیشہ خطرہ لا حق رہا ا ور دیکھتے رہے کہ تمہارے امام علیہ السلام کا حق اور تمہارا حق ظالموںکے ہاتھوں میں ہے تمہیں تمہارا حق نہیں دیا گیا اور مجبور کر دیا گیا کہ تم لوگ اپنے دین پر صبر کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اللہ کی عبادت اور اطاعت کرتے ہوئے اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہوئے حصول دنیا اور کسب معاش کرتے رہے لہذا یہ فضیلت تمہیں مبارک اور بہت مبارک ہو میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان یہ بھی فرمائیے کہ پھر ہم لوگ اسی امر کی تمنا کیوں کرتے ہیں کہ کاش امام قائم علیہ السلام کے ظہور کے وقت ہم لوگ ان کے ساتھ ہوتے جب کہ آج عمل سے افضل ہے جو امام قائم علیہ السلام کے عہد میں ان کے ہوں گے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا سبحان اللہ کیا تم لوگ یہ نہیں چاہتے کہ اللہ عزت و جلال والا دنیا میں حق اور عدل ظاہر فرمائے عامة الناس کو خوشحال نصیب ہو سب لوگ این دین پر جمع ہو جائیں مختلف قلوب آپس میں متحد ہو جائیں روئے زمین پر اللہ کی نا فرمانی نہ ہو دنیا میں قانون الہیٰ نافذ ہو۔
اور حقداروں کو ان کے حقوق ملیں اور وہ اس حق کو ظاہر کریں انہیں دنیا میں کسی شخص کا خوف نہ ہو۔
اے عمار! تمہیں بشارت ہو، خدا کی قسم جس حال میں تم لوگ اس وقت اپنی زندگی گزار رہے ہو اگر اسی حال میں تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اللہ جل جلالہ کے نزدیک وہ شخص بد رو احد کے اکثر شہیدوں سے افضل ہو گا۔(اکمال الدین)
اس کے بعد کشادگی آتی ہے انہی اسناد کے ساتھ عیاشی سے انہوں نے خلف بن حامد سے انہوں نے سہل بن زیاد سے انہوں نے محمد بن حسن سے انہوں نے بزنطی سے روایت کی ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا صبر اور انتظار فرج کتنی اچھی چیز ہے کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا اور تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ ہی منتظر ہوں نیز اللہ تعالیٰ کا یہ قول اور تم انتظار کرتے رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں لہذا تم لوگوں کو لازم ہے کہ صبر سے کام لو اس لیے کہ اسی کے ذریعے سے یاس کے بعد فرج و کشادگی آتی ہے اور وہ لوگ جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں وہ تو تم سے بھی زیادہ صابر تھے۔(اکمال الدین)
امام قائم علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کے فضائل:
علی بن احمد نے اسدی سے انہوں نے نخعی سے انہوں نے نوافلی سے نوافلی نے ابو ابراہیم کوفی سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادقعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کچھ دیر کے بعد حضرت ابو الحسنعلیہ السلام امام موسیٰ بن جعفر جو ابھی کم سن تھے وہاں تشریف لے آئے میں نے اُٹھ کر آپ علیہ السلام کی پیشانی کو بوسی دیا اور پھر بیٹھ گیا تو حضرت ابو عبداللہعلیہ السلام نے فرمایا اے ابو ابراہیم میرے بعد یہی تمہارے امام ہوں گے مگر ان کے بارے میں ایک گروہ (ان کا منکر) گمراہ و ہلاک ہو گا اور ایک گروہ ہدایت پائے اور سعادت حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ اس فرزند کے قاتل پر لعنت کرے گا اور اس پر کئی گنا عذاب بڑھا دے گا اور یہ سن لو ان ہی کے صلب سے وہ بھی پیدا ہو گا جو روئے زمین پر اپنے زمانے میں سب سے بہتر ہو گا خواہ مشرکین کتنا ہی نا پسند کریں اللہ تعالیٰ اپنے امر کو پورا کرے گا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ میرے اس فرزند کے صلب سے ایسے متعدد لوگوں کو پیدا کرے گا جو آئمہعلیہ السلام کی تعداد بارہ کو پورا کریں گے جو سب کے سب ہادی ہوں گے اللہ تعالیٰ کو اپنی کرامت سے مخصوص فرماتے اور انہیں پاکیزہ مقام پر جگہ عنایت فرمائے اور وہ لوگ جو بارہویں امام علیہ السلام کا انتظار کریں گے وہ ایسے ہی ہوں گے جیسے کوئی شخص حضرت رسول اللہ کی معیت میں جہاد کریں اور تلوار چلائیں ابھی آپ یہ فرما ہی رہے تھے بات نا مکمل تھی کہ ایک شخص موالیان بنی امیہ میں سے آگیا اور سلسلہ کلام منقطع ہو گیا پھر میں آپ کی خدمت میں پندرہ مرتبہ حاضر ہوا اور ہر مرتبہ یہی چاہتا رہا کہ مولا اپنے کلام کی تکمیل فرما دیں لیکن اس کا موقع ہی نہ مل سکا پھر جب میں ایک روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ علیہ السلام تنہا تشریف فرما ہیں تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا اے ابو ابراہیم وہ بارہواں امام اپنے شیعوں کے تمام آلام و مصائب دور کر دے گا خوش قسمت ہو گا وہ جو بارہویں کا زمانہ پائے گا اے ابو ابراہیم پس تمہارے لیے انتا ہی کافی ہے۔ (اکمال الدین)
امام قائم علیہ السلام کے ماننے والوں کا مقام آنحضرت کی نظر میں بہت بلند ہو گا فضل نے اسماعیل بن مہران سے انہوں نے ایمن بن محزر سے انہوں نے رفاعہ بن موسیٰ سے اور معاویہ بن وہب سے انہوں نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ حضرت رسول اللہ نے ارشاد فرمایا خوش نصیب ہے وہ شخص جو میرے اہلبیتعلیہ السلام کے امام قائم علیہ السلام کا زمانہ پائے گا اور ان کے قیام و ظہور سے پہلے ان کی حکومت و اقتدار میں ہو گا ان کے دوستوں کو دوست رکھے گا اور ان کے دشمنوں سے برات کا اظہار کرے گا ان سے پہلے گزرے ہوئے آئمہ ہدایت سے تولا رکھے گا یہی لوگ میرے رفیق میرے دوست میرے محب ہیں اورمیرے نزدیک میری امت کے سب سے زیادہ مکرم ہیں۔
اور رفاعہ کہتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وہ لوگ میرے اللہ کی مخلوق میں میرے نزدیک سب سے زیادہ مکرم ہیں۔ (غیبت طوسی)
امام قائم علیہ السلام کے ماننے والوں کا مرتبہ فضل نے ابن محبوب سے انہوں نے عبداللہ بن سنان سے انہوں نے حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت رسول نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کے بعد ایک قوم عنقریب پیدا ہو گی جس میں سے ایک شخص کو تم لوگوں کے پچاس اشخاص کے برابر ثواب ملے گا۔
لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم لوگ تو آپ کے ہمراہ بدر اور حنین کی جنگوں میں حصہ لیتے رہے ہیں اور ہمارے ہی زمانے میں آپ پر قرآن مجید بھی نازل ہواہے۔
آپ نے ارشاد فرمایا جتنی مصیبتیں وہ لوگ برداشت کریں گے اگر وہ مصائب تم پر پڑیں تو تم برداشت نہیں کر سکو گے۔(غیبت طوسی)
رشید ہجری کی روایت عثمان بن عیسیٰ نے ابو جارود سے انہوں نے قنوہ بنت رشید ہجری سے روایت کی ہے کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ اتنی سخت جدوجہد کیوں کر رہے رہےں کیا وجہ ہے؟
انہوں نے کہا بیٹی ہم لوگوں کے بعد ایک قوم آئے گی جن دینی بصیرت اگلے لوگوں کی جدوجہد سے افضل ہو گی فضل نے ابن ابو نجران سے انہوں نے محمد بن سنان سے انہوں نے خالد عاقولی سے روایت بیان کی ہے عاقولی نے حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام سے ایک حدیث کو نقل کیا ہے جس میں یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ۔
تم لوگ کیوں نگاہیں لڑائے ہوئے ہو؟ تمہیں اس قدر عجلت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تم لوگ امن و امان میں نہیں ہو؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی ضرورت کے لیے نکلے تو پھر گھر واپس آجائے گا اسے راستے میں کوئی اچک لے گا جب کہ اس سے پہلے تو یہ حال تھا کہ تمہارے مذہب میں کوئی شخص گھر سے نکلتے ہی پکڑ لیا گیا پھر اس کے دونوں ہاتھ قطع کر دیئے جاتے دونوں پاﺅں کاٹ دیئے جاتے کھجور کے درخت پر اسے سولی دی جاتی اسے آری سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیئے جاتے اور اس غریب کو یہ بھی نہ بتایا جاتا کہ آخر اس کا جرم کیا ہے؟ پھر آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت فرمائی۔
ترجمہ: کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاﺅ گے حالانکہ تم پر وہ آزمائش نہیں آئیں جیسی کہ تم سے پہلے لوگوں پر وارد ہوئیں ان پر سختیاں اور تکالیف آئیں (جیسی کہ تم سے پہلے لوگوں پر وارد ہوئیں) اور وہ یہاں تک متزلزل ہوئے کہ رسول اور ان لوگوں نے جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاﺅ کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔(غیبت طوسی)
معرفت امام زمانہ علیہ السلام ضروری ہے فضل نے ابن فضال سے انہوں نے ثعلبہ بن میمون سے روایت کی ہے انہوں نے کہا اپنے امام کی معرفت حاصل کرو اگر تم نے ان کی معرفت حاصل کر ل؛ی تو پھر ان دور حکومت پہلے آئے یا کچھ عرصے کے بعد اس میں کوئی ہرج نہیں واقع ہوتا اگر کسی نے اپنے امام کی معرفت حاصل کر لی اور امام کا عہد اقتدار دیکھنے سے پہلے ہی مر گیا اور اس کے بعد امام قائم علیہ السلام کا ظہور ہوا تو اس کو بھی اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو امام علیہ السلام کے ساتھ امام علیہ السلام کے خیمے میں رہتا ہے۔(غیبت طوسی)
معرفت امام علیہ السلام زمانہ کیوں ضروری ہے:
فضل نے ابن فضال سے انہوں نے مثنی حناط سے انہوں نے عبداللہ بن عجلان سے انہوں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادقعلیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جس شخص نے امام قائم علیہ السلام کے امر کو پہچان لیا تو اگر وہ امام قائم علیہ السلام کے ظہور سے قبل ہی مر گیا تو اسے بھی ان کے ساتھ قتل ہونے والے شہداءکا درجہ ثواب ملے گا۔
جنگ نہروان میں امیر المومنینعلیہ السلام نے فرمایا:
محمد بن حسن بن شمون نے عبداللہ بن عمرو بن اشعث سے انہوں نے عبداللہ بن حماد انصاری سے انہوں نے صباح مزنی سے انہوں نے حارث بن حصیرہ سے انہوں نے حکم بن عینیہ سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ جب حضرت امیر المومنینعلیہ السلام نے یوم نہروان خوارج کو قتل کیا تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا یا امیر المومنینعلیہ السلام ! خوش نصیب ہیں ہم لوگ جو اس جنگ میں آپ علیہ السلام کے ساتھ رہے اور ہم نے آپ کی معیت میں ان خوارج کو قتل کیا امیر المومنینعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔
اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ہر زی حیات کو پیدا کیا ہم نے اس جنگ میں ایسے لوگوں کو بھی شریک ہوتے ہوئے دیکھا ہے کہ جن کے آباﺅ و اجداد کو ابھی تک اللہ نے پیدا ہی نہیں کیا ہے اس شخص نے کہا وہ کیسے شریک معرکہ ہو سکتے ہیں جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں ہاں وہ ایک قوم ہے جو آخری زمانے میں آئے گی اور ہماری اس جنگ میں شریک ہو گی ہمارے موقف کو تسلیم کرے گی اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس میں حقیقتاً وہ ہماری شریک ہو گی۔
ظہور میں تاخیر کا سبب تم لوگ ہو فضل بن ابی قرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادقعلیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ نے حضرت ابراہیمعلیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ تمہارے یہاں لڑکا پیدا ہو گا یہ بات انہوں نے اپنی زوجہ حضرت سارا کو بتائی تو انہوں نے کہا میں تو بوڑھی ہو چکی ہوں کیا اب میرا بچہ پیدا ہو گا تو اللہ تعالیٰ نے پھر وحی فرمائی کہ ہاں تمہارے یہاں لڑکا پیدا ہو گا اور اس کی اولاد چونکہ میرے کلام کو مسترد کر دے گی اس لیے چار سو سال تک معذب رہے گی۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا چنانچہ جب بنی اسرائیل پر عذاب ایک طویل عرصے تک ہو چکا تو وہ لوگ چالیس روز تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ و زاری کرتے اور روتے رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعلیہ السلام اور حضرت ہارون کی طرف وحی فرمائی کہ اچھا اب ان لوگوں کو فرعون کے عذاب سے نجات دلادو اور ان لوگوں کی آہ و زاری کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے عذاب کی موت میں ایک سو ستر سال کی کمی کر دی۔
پس حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا:
بس ایسے ہی تم لوگ ہو اگر تم بھی ایسا ہی کرتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرج اور کشادگی آجاتی مگر لوگوں نے ایسا نہیں کیا اس لیے وہ موت تو پوری ہو کر رہے گی۔(تفسیر عیاشی)
ایک آیت کی تفسیر محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ جب ان سے کہا گیا کہ قتال سے ہاتھ روک لو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو۔ اس میں امام علیہ السلام کی اطاعت ہے تو انہوں نے امام سے قتال و جدال کا مطالبہ کیا مگر جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی معیت میں قتال کو ان پر فرض کیا گیا تو۔
(سورة النسائ)
ترجمہ: انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے قتال و جدال کو ایک مدت قریب کے لیے موخر کر دے تو اس وقت ہم تیرے اس حکم قتال پر عمل کریں گے اور رسولوں کا اتباع کریں گے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ اس حکم کو امام قائم علیہ السلام کے عہلد تک کے لیے موخر کر دے۔(تفسیر عیاشی)
دور غیبت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے:
ابن عقدہ نے قاسم بن محمد بن الحسین بن حازم سے انہوں نے عباس ابن ہشام سے انہوں نے عبداللہ بن جبلہ سے انہوں نے علی بن حارث بن مغیرہ سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادقعلیہ السلام سے دریافت کیا فرزند رسول کیا کوئی ایسا دور فرت بظاہر خالی زمانہ از حجت الہیٰ بھی آئے گا کہ جس میں اہل اسلام اپنے امام کو نہ پہچان سکیں گے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا! ہاں یہ کہا جا سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا پھر ایسے وقت میں ہم لوگ کیا کریں؟ جب ایسا ہو تو تم لوگ پہلے ہی آئمہ سے متمسک رہو جب تک کہ واضح نہ ہو جائے کہ ان کے بعد اب امام کون ہے محمد بن ہمام نے حمیری سے انہوں نے محمد بن عیسیٰ اور حسین بن طریق نے حماد بن عیسیٰ سے انہوں نے عبداللہ بن سنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد دونوں حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
تم لوگ اس وقت کیا کرو گے جب تم اس حال میں ہو گے کہ جب نہ ہدایت کرنے والا کوئی امام ہو گا اور نہ کوئی علم ہی ہو گا اور نہ تمہیں نجات کی کوئی راہ نظر آئے گی اور تم حیرت میں پڑے ہوئے ہو گے۔
|