بسم اللہ الرحمن الرحیم
1-امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں
از: حب علی مہرانی
علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے دور غیبت امام علیہ السلام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام علیہ السلام اور انتظار امام علیہ السلام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ علیہ السلام میں شمار کیا جا سکتا ہے ان آٹھ فرائض کی مختصر تفصیل یہ ہے۔
محزون و رنجیدہ رہنما:
حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت امام علیہ السلام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت وابنماج ناپید ہو جائے زمانے کے بد ترین حالات اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کے بربادی، تعلیمات الہیہة کا استمزاءاور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیب امام زمانہ علیہ السلام کے نقصانات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے کافی ہے پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام علیہ السلام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے تو کسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اورعاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔
زمانے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اسی لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت امام علیہ السلام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کرے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی بروز عید قربان، روز عید غدیر اورروز جمعہ جسے بعض اسلامی احکام کے اعتبار سے عید تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کی فرقت پر آنسو بہائے تا کہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیسا کہ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب کوئی عید کا دن آٹا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت الہیة کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے آئمہ معصومینعلیہ السلام میں مولائے کائنات کے دور سے امام عسکریعلیہ السلام تک ہر امام علیہ السلام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہو گا جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تا کہ انسان مومن بد ترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سبب سے بڑا ذریعہ ہو گا۔
اس مقام پر سدیر کی اس روایت کا نقل کرنا نا مناسب نہ ہو گا کہ میں (سدیر) اور مفض بن عمر اور ابو بصیر اور ابان بن تکلب امام صادقعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تہاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب اشک جاری کر دیا ہے میں نے حیرت زدہ ہو کر عرض کی کہ فرزند رسول! خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدانخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہوگئی ہے؟ تو فرمایا کہ میں نے کتاب جعفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بد ترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبان ایمان کا کیا حشر ہو گا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔
عزیزان گرامی! اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سینکڑوں سال پہلے امام صاد ±علیہ السلام کو بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کر کے کم از کم روز جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کر کے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ علیہ السلام کا جذبہ پیدا ہو جائے اور ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح کہ خود انہوں نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتبار ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داسری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔
انتظار حکومت و سکون آل محمد:
اس انتظار کو دور غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کو واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔
اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟
یہ ایک رازالہیٰ ہے جو کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینعلیہ السلام کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہا کیا ہے؟
تو فرمایا کہ ۰۷ ہجری تک عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اورغش کھا گئے۔
اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا فرمایا بے شک ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے اس کے بعد ابوحمزہ شمالی نے امام باقرعلیہ السلام سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۰۷ہجری تو گزر چکا ہے لیکن بلاﺅں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت امام حسینعلیہ السلام کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہوا تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے یہی سوال امام صادقعلیہ السلام سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب الہیٰ نے اس مدت کو دو گنا کر دیا تھا اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاشق کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے کہ اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ اور انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔
امام علیہ السلام کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے پروردگار احدیت میں دست بدعا رہنا:
ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور غیبت میں امام علیہ السلام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ احدیت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں ”اللھم کن لولیک الحجة بن الحسنعلیہ السلام “ جسے عام طور سے اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے امام علیہ السلام کے وجود کی حفاظت ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے جس سے صاحبان ایمان کو کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔
امام علیہ السلام کی سلامتی کے لےے صدقہ دینا:
صدقہ در حقیقت خواہش سلامتی کا اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے کوئی بھی بہتر نہیں دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام علیہ السلام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہیں کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہیں کے طفیل میں اور انہیں کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔
امام عصرعلیہ السلام کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا:
جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم ہے کہ لوگ اپنے امام عصرعلیہ السلام ان کے اعمال کی قدردانی بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ابو محمد دعلجی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرعلیہ السلام کی طرف سے نیابتہً حج کے لیے پیسے دیئے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اور شرابی فرزند کو حج نیابت امام علیہ السلام کے لےے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدان عرفات میں ایک انتہائی خوبصورت نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی ہے کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہی تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہو گئی جس کی طرف اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔
امام عصرعلیہ السلام کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا:
باالخصوص اگر آپ کا ذکر لفظ قائم سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت، عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضیٰ ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔
دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لےے دعا کرتے رہنا:
امام صادقعلیہ السلام نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام علیہ السلام میں مصروف رہے اور عبداللہ بن سنان کی امام صاد ±علیہ السلام سے روایت کی بناءپر کم سے کم ”یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک“ کا ورد کرتا ہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔
اما زمانہ علیہ السلام سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا:
کہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے اور پروردگار عالم نے آئمہ طاہرینعلیہ السلام کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیسا کہ ابو طاہر بن بلال نے امام صادقعلیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخرعلیہ السلام تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہنچانا چاہتا ہے تو امام زمانہ علیہ السلام سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہ جلالت پناہ تک پہنچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرعلیہ السلام نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔
علامہ مجلسی نے تحفة الزائر میں نقل کیا ہے کہ صاحبان حاجت کو چاہےے کہ اپنی حاکت کو کسی کاغذ پر لکھ کر آئمہ طاہرینعلیہ السلام کی قبور مبارک پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریایا نہر وغیرہ کے حوالہ کر دیں کہ امام زمانہ علیہ السلام اس حاجت کو پورا فرما دیں گے اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے انشاءاللہ وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو انجام دیا کرتے تھے اور امام علیہ السلام اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کیا کرتے تھے۔ انشاءاللہ
|