حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  چوتھی فصل

اقتصاد
اگر حکومت؛ خدا وند عالم کی تائیدسے الٰہی احکام و قوانین کامعاشرہ (سماج)میں اجراء کرے تو لوگ بھی اس کی برکت سے تبدیل ہو کر تقویٰ و پر ہیز گاری کی راہ پر لگ جائیں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا وند عالم کی نعمتیں ہر طرف سے بندوں پر برسنے لگیں گی۔
قرآن کریم میں ہم پڑھتے ہیں :<وَلَوْ اَنَّ اَہْل الْقُریٰ اَمَنُوْا وَ اتَّقُوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرْکَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَ الْاَرْضِ>(۱)”اگر اس بستی کے لوگ ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم زمین و آسمان کی بر کتیں ان کے اختیار میں دیدیں ۔“
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں لوگ خدا کی طرف مائل اور حجت خدا کے حکم کے سامنے تسلیم ہوں گے ،پھر کوئی زمین و آسمان کی بر کتوں کے درمیان حائل نہیں ہوگا اس لحاظ سے موسم کے اعتبار سے بارش ہونے لگے گی دریاسے پانی لبریز ہوگا زمینیں زرخیز ہو جائیں گی اور کھیتی لہلہا اٹھے گی باغات سر سبزا ور میووٴں سے بھر جائیں گے مکہ و مدینہ جیسے صحرا جہاں کبھی ہر یالی کا نام و نشان نہیں تھا یکبارگی نخلستان میں تبدیل ہو جائیں گے اور منڈی وسیع ہو جائے گی۔
معاشرہ کا اقتصاد بہتر ہوگا فقر و تنگدستی ختم ،ہر طرف آبادی نظر آئے گی۔ تجارت میں خاطر خواہ رونق آجائے گی خصوصا حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں اقتصاد بہتر ہوگا اس سلسلے
-------
(۱)سورہٴ اعراف آیت ۹۵
میں روایات بہت ہیں ہر مورد میں چند روایات کے ذکر پر اکتفاء کریں گے ۔

الف)اقتصاد اور اجتماعی رفاہ میں رونق
اس سلسلے میں جو روایات سے استفادہ ہوتا ہے وہ یہ کہ اقتصادی حالت کی بہتری کی وجہ سے سماج فقر و فاقہ میں پھرمبتلا نہیں ہوگا اورایک ضرورت مند انسان کو اتنی دولت و ثروت دی جائے گی کہ وہ لیجانے سے معذور ہوگا عمومی اقتصادی حالت اتنی بہتر ہو جائے گی کہ زکات نکالنے والے مستحق و ضرورت مند کی تلاش میں پریشان رہیں گے ۔

۱۔مال و دولت کی تقسیم
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب قائم اہل بیت (علیہ السلام) قیام کریں گے، تو بیت المال کو لوگوں کے درمیان عادلانہ طور پر تقسیم کر دیں گے ،زمین کے اوپر کی دولتیں (جیسے خمس و زکوة ) اور زمین کے اندر چھپی ہوئی (جیسے خزانے و معادن و)حضرت کے پاس جمع ہو جائیں گی ،پھر اس وقت حضرت لوگوں سے خطاب کریں گے: ”آوٴ جس کے لئے تم لوگوں نے اپنی رشتہ داریاں منقطع کر دی تھیں اور خون ریزی و گناہ پر آمادہ ہوگئے تھے لیجاوٴ ،آپ اس طرح سے مال تقسیم کریں گے کہ ان سے پہلے کسی نے اس طرح نہیںتقسیم کیا ہوگا “(۲)
رسول خدا فرماتے ہیں :” آخر زمانہ میں ایک خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو بے شمار مال عطا کرے گا“(۳)
--------
(۱)علل الشرائع، ص۱۶۱؛نعمانی ،غیبة، ص۲۳۷؛عقد الدرر ،ص۳۹؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۹۰؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۹۷
(۲)ابن حماد، فتن، ص۹۸؛ابن ابی شیبہ، مصنف، ج۱۵،ص۱۹۶؛احمد ،مسند ،ج۳،ص۵ابن بطریق ،عمدہ، ص۴۲۴
(۳)شافعی ،بیان ،ص۱۲۴؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۲۴۸؛الشیعة والرجعہ،ج۱،ص۲۰۷
رسول خدا فرماتے ہیں :” نا امیدی اورفتنوں کے زمانہ میں مہدی نامی شخص ظہور کرے گا کہ اس کی دادو دہش لوگوںپرخوشگوارہوگی“(۱)
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی بخشش مہربان باپ کے عنوان سے اور بغیر احسان کے ہوگی اس لحاظ سے دوسروں کی بخشش کے مقابل جو لوگوں کو غلام بناتے ہیں ،دین فروشی اور آبرو ریزی پر موقوف ہو لوگوں کے لئے پسندیدہ و خوشگوار ہوگی ۔
نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”ایک شخص قریش سے ظاہر ہو گا جو لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرے گا اور پیغمبروں کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا“(۲)
ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :” مہدی زمین کے خزانوں کو باہر نکالیں گے اور لوگوں کے درمیان مال تقسیم کریں گے اور اسلام کی گئی شان وشوکت دوبارہ لوٹ آئے گی “(۳)
اسی طرح فرماتے ہیں :” میری امت کے آخری دور میں ایک خلیفہ ہوگا جو اموال لوگوں کو مٹھی مٹھی بے شما ر مال و دولت عطا کرے گا“(۴)
عبد اللہ بن سنان کہتے ہیں: میرے والد نے امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے کہا : میرے پاس ٹیکس کی کچھ زمین ہے جس پر میں نے کھیتی کر دی ہے حضرت کچھ دیر خاموش رہے ؛پھر کہا: اگر ہمارے قائم قیام کریں تو تمہارا حصہ اس سر زمین سے زیادہ ہوگا“(۵)
---------
(۱)شافعی، بیان، ص۱۲۴احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۴۸؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۰۷
(۲)ابی داوٴد، سنن، ج۴،ص۱۰۸
(۳)ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۶۹
(۴)عبد الرزاق ،مصنف ،ج۱۱،ص۳۷۲؛ابن بطریق ،عمدہ،ص۴۲۴؛الصواعق المحرقہ، ص۱۶۴؛بغوی ،مصابیح السنہ، ج۲،ص۱۳۹؛شافعی، بیان، ص۱۲۲؛ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۶۹
(۵)کافی ،ج۵،ص۲۸۵؛التہذیب، ج۷، ص۱۴۹
امام محمد باقر(علیہ السلا م) فرماتے ہیں :” جب ہمارے قائم قیام کریں گے، تو لوگوں کے درمیان مساوات و برابری سے اموال تقسیم کر کے عادلانہ رفتار بر قرار کریں گے“(۱)
رسول خدا فرماتے ہیں:” آخری امام ہمارا ہمنام ہے وہ ظاہر ہو کر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا مال کا انبار لگا ہوگا جب کوئی مال و دولت کی درخواست کرے گا تو اس سے کہیں گے : تم خود ہی اپنی مر ضی سے جتنا چاہو لے لو“( ۲)

۲۔سماج سے فقر وتنگد ستی کا خاتمہ
رسول خدا فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور کے وقت لوگ اموال و زکوة گلی کوچے میں ڈال دیں گے ؛لیکن اس کا دریافت کرنے والا نہیں ملے گا“(۳)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) میری امت میں ہوں گے ان کی حکومت میں مال کا ڈھیر لگ جائے گا “(۴)
یہ حدیث معاشرہ کی ضرورت بر طرف ہو جائے گی سے کنایہ ہے چونکہ مال و دولت مصرف سے زیادہ ہوگا دوسری لفظوں میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) بجٹ میں کمی نہیں کریں گے بلکہ بجٹ سے اضافی در آمد ہوگی۔امام جعفرصادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت قائم کے قیام کے وقت زمین اپنے دفینہ اُگل دے گی اس طرح کہ لوگ! اپنی آنکھوںسے زمین پر پڑا دیکھیں
--------
(۱)نعمانی، غیبة، ص۲۳۷؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۲۹
(۲)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۰؛بحار الانوار، ص۳۷۹؛ملاحظہ ہو:احمد، مسند، ج۳، ص۲۱؛ احقا ق الحق، ج۱۳، ص ۵ ۵
(۳)عقد الدرر، ص۱۶۶؛المستجاد، ص۵۸،روایت میں اسی طرح آیا ہے،مال کو محلے کے گھروں میں گھوماتے رہے، ایک دوسرے سے متصل گھروں اور محلہ کو ”حواء “کہتے ہیں
(۴)حاکم ،مستدرک، ج۴،ص۵۵۸؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۴
گے صاحبان زکوٰةمستحق کی تلاش کریں گے لیکن کوئی لینے والا نہیں ملے گا اور لوگ خدا وند عالم کے فضل وکرم سے بے نیاز ہو جائیں گے“(۱)
علی بن عقبة کہتے ہیں : اس زمانے میں صدقے دینے اور راہ خدا میں پیسہ خرچ کرنے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی ؛چونکہ سبھی موٴمنین بے نیاز ہوں گے “(۲)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :”لوگ ٹیکس اپنے کاندھوں پر رکھے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی طرف جائیں گے خدا وند عالم نے ہمارے شیعوں کو عیش و عشرت کی زندگی عطا کی ہے وہ لوگ بے نیا زی سے زندگی بسر کریں گے اور اگر خدا وندعالم کا لطف ان کے شامل حال نہ ہو تو پھر وہ لوگ بے نیازی کی وجہ سے سرکشی و طغیانی پر آمادہ ہو جائیں گے“(۳)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت سال میں دوبار لوگوں کو عطا کریں گے آنحضرت ہر ماہ دوبار تنخواہ و حقوق دیں گے نیز لوگوں کے درمیان یکساں رفتار اس طرح رکھیں گے کہ پھر معاشرہ میں کوئی زکوة لینے والا نہیں ملے گا زکوة نکالنے والے فقراء کا حصہ ان کی خدمت میں پیش کریں گے لیکن وہ قبول نہیں کریں گے مجبوراً پیسوں کی مخصوص تھیلی میں اسے رکھ کر شیعوں کے محلوں میں پہنچا دیں گے لیکن وہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے “(۴)
--------
(۱)مفید ،ارشاد،ص۳۶۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۷
(۲)مفید، ارشاد، ص۳۴۴؛المستجاد، ص۵۰۹؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۳۳۹؛ملاحظہ ہو:احمد، مسند ،ج۲،ص۵۲، ۲۷۲، ۳۱۳وج۳،ص۵؛مجمع الزوائد ،ج۷، ص۳۱۴؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۴۹۶
(۳)بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۴۵
(۴)نعمانی، غیبة، ص۲۳۸؛حلیة الابرار، ج۲،ص۶۴۲؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۹۰؛ملاحظہ ہو:بحار الانوار،ج۵۲، ص۵۲ ۳؛ابن ابی شیبہ، مصنف ،ج۳،ص۱۱۱؛احمد، مسند، ج۴، ص ۶ ۰ ۳ ؛ بخاری ،صحیح ،ج۲،ص۱۳۵؛مسلم ،صحیح، ج۲،ص۷۰
مذکورہ بالا روایت سے دو نکتہ نکلتا ہے : پہلا یہ کہ لوگ حضرت مہدی کی حکومت میں ایسی راٴی و نظر کے مالک ہوں گے کہ بغیر کسی دباوٴ کے اپنے وظیفہ پر تمام جوانب سے عمل کریں گے ۔
انھیں وظائف میں، ایک اسلامی حکومت کو آمدنی کا ٹیکس دینا بھی ہے ۔
اگر تمام مسلمان اپنی اپنی آمدنی کا خمس اور اموال کی زکوة دیدیں تو ایک بہت بڑی رقم ہوگی اور حکومت ہر طرح کے اصلاحی اقدامات اور رفاہی خدمت پر قادر ہوجائےگی ۔
دوسرے یہ کہ ہر چند حضرت کی دادودہش اس زمانے میں بے حساب ہے اور لوگ مختلف طریقوں سے در آمد کریں گے لیکن جو چیز زیادہ قابل توجہ و جاذب نظرہے طبیعت کی بلندی اور روح کی بے نیازی ہے،اس لئے کہ بہت سارے دولت مند افراد پائے جاتے ہیں لیکن طبیعت میں سیری نہیں روح میں حرص وہوس کے جذبے بعض لو گ ایسے بھی ہیں جو فقرو فاقہ میں بسر کرنے کے باوجود ان کے دل غنی ،روح بے نیاز ہوتی ہے ۔لوگ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور حکومت میں روحی بے نیازی کے مالک ہوں گے یہی اس زمانہ کی معنوی دگر گونی ہے ۔

۳۔محرومین و مستضعفین کی رسیدگی
رسول خدا فرماتے ہیں :” اس زمانے میں مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے اور وہ اِس شخص (حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی نسل سے ہوں گے۔
خدا وندعالم ان کے ذریعہ جھوٹ کا خاتمہ ،بُرے ایام ،اورغلامی کی زنجیروں سے تمہیں نجات دے گا “(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)
---------
(۱)طوسی، غیبة، ص۱۱۴؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۰۲؛بحار الانوار،ج ۵۱،ص۷۵
ظہور کریں گے، توکوئی مسلمان غلام نہیں ہوگا مگر یہ کہ حضرت اسے خرید کر آزاد کر دیں گے نیز کوئی قرضدار باقی نہیں بچے گاکیونکہ حضرت اس کے قرض کو ادا کردیں گے “(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :جب مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، تو سب سے پہلے مدینہ جائیں گے اور وہاں ہاشمی قیدیوں کو آزاد کریں گے ،(۲)پھر ابن ارطاة کہتا ہے :-وہ کوفہ جائیں گے اور وہاں جاکر بنی ہاشم کے قیدیوں کو آزاد کریں گے ۔
طاوٴوس یمانی کہتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے حکام و کار گذار وں کی بہ نسبت سخت اور بخشش اموال میں ہاتھ کھلے ،اور بے چارہ ،بے نوا و مسکین افراد کی بنسبت مہربان و کریم ہیں(۳)
ابو روبہ کہتا ہے :حضرت بینواوٴں کو اپنے ہاتھوں سے عطا کریں گے۔( ۴)
احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ حضرت محرومین و بے چارہ افراد پر بخشش کرنے میں خصوصی توجہ رکھیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ مال عطا کریں گے ،جو بیت المال میں ہر مسلمان کا حق ہے اس کے علاوہ بھی صلاح کے مطابق عطا کریں گے ۔

ب)آبادی
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے کی آبادی کی اہمیت و عظمت سمجھنے کے لئے
-----------
(۱)عیاشی، تفسیر ،ج۱،ص۶۴؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۲۲۴
(۲)ابن حماد، فتن، ص۸۳؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۷؛متقی ہندی، برہان، ص۱۱۸
(۳)عقد الدرر، ص۱۶۷
(۴)ابن طاوٴ س، ملاحم، ص۶۸؛عقدالدرر، ص۲۲۷
ضروری ہے کہ ظہور سے قبل ویرانی و تباہی نظر میں ہو یقینا جب دنیا تباہ کن جنگوں ، متعدد افراد کی ہواو ہوس کا لقمہ بنی ہو اور مدتوں آتش جنگ میں جلی اور کشتوں پہ کشتے د یا ہو تو اسے آبادی کی زیاد ہ ضرورت ہے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)اسے آباد کرنے کے لئے آئیں گے اور پوری دنیا میں آبادی کو قابل دید بنا دیں گے ۔
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”اپنے دوستوں کو مختلف سر زمینوں کی جانب روانہ کریں گے جو حضرت کی بیعت کر چکے ہوں گے انھیں شہروں کی طرف بھیج کر عدل و احسان کا حکم دیں گے ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی سر زمین کا حاکم ہوگا پھر اس کے بعد دنیا کے تمام شہر عدل و احسان کے ساتھ آباد ہو جائیں گے“(۱)
امام محمدباقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت میں غیرآباد و ویران جگہیں نہیں ہوں گی “(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کو فہ میں وارد ہونے کے بعد ایک گروہ کو حکم دیں گے کہ امام حسین(علیہ السلام) کے روضہ مبارک کی پشت سے(شہر کربلا کے باہر)غریین کی طرف نہر کھودیں تاکہ شہر نجف تک پانی پہنچے اور اس نہر پر پُل بنائیں گے“(۳)
امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں:کہ جب ہمارے قائم(علیہ السلام) قیام
---------
(۱)الشیعہ والرجعہ ،ج۱،ص۱۶۸
(۲)کما ل الدین ،ج۱،ص۳۳۱؛الفصول المھمہ، ص۲۸۴؛اسعاف الراغبین، ص۱۵۲؛وافی، ج۲،ص۱۱۲؛ نورالثقلین ، ج۲،ص۱۲۱؛احقا ق الحق ،ج۱۳،ص۳۴۲
(۳)مفید ،ارشاد، ص۳۶۲؛طوسی، غیبة، ص۲۸۰؛روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۳؛الصراط المستقیم ،ج۲،ص۲۶۲؛ اعلام الوری، ص۴۳۰؛المستجاد، ص۵۰۹؛کشف الغمہ، ج۳،ص۲۵۳؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۳۳۱؛وج۹۷،ص۳۸۵
کریں گے، تو کوفہ کے مکانات کربلا اور حیرہ کی نہر سے متصل ہو جائیں گے“(۱ )
یہ روایت شہر کوفہ کی آبادی میں وسعت کی خبر دیتی ہے ایک طرف حیرہ ،جو فی الحال کوفہ سے ۶۰/ کیلو میٹر دور ہے اور دوسری سمت سے کربلا سے متصل ہوگا جس کا فاصلہ اتنا ہی ہے۔
حبہ عرنی کہتے ہیں : ”حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) حیرہ شہر کی جانب روانہ ہوئے تو وہاں پر شہر کوفہ کی طرف اپنے ہاتھوں سے اشارہ کر کے کہا: قطعی طور پر شہر کوفہ حیرہ شہر سے متصل ہو جائے گا اور اتنا قیمتی و گراں شہر ہوگا کہ یہا ں کی ایک میٹر(۲)زمین، مہنگی و گران قیمت پر خرید و فروش ہو گی“(۳)
شاید کوفہ کی وسعت اور اس کی زمینوں کی گرانی اس وجہ سے ہوگی کہ وہاں اسلامی حکومت کا مرکز(پایہ تخت ) بنے گا روایات کے مطابق مومنین وہاں چلے جائیں گے ۔
اسی طرح حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت راستے کشادہ ہو جائیں گے اور خاص قوانین اس سلسلے میں وضع کئے جائیں گے ،امام محمد باقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
”جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے، تو شہر کوفہ جائیں گے اس وقت کوئی مسجد مینار،اورگنگرہ والی نہیں ہوگی سب کو حضرت ویران و خراب کر ڈالیں گے اور اسے اس طرح بنائیں گے کہ بلندی نہ ہو نیز راستے کشادہ کر دیں گے“(۴)
--------
(۱)طوسی، غیبة، ص۲۹۵؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۳۳۰،۳۳۷وج۹۷،ص۳۸۵ارشاد، مفید، میں اسی طرح آیا ہے ”اتصلت بیوت الکوفہ بنھری کربلا “ملاحظہ ہو:روضةا لواعظین، ج۲، ص۲۶۴؛ اعلام الوری ،ص۴۳۴؛خرائج ، ج۳،ص۱۱۷۶؛صراط المستقیم ،ج۲،ص۲۵۱؛المحجہ، ص۱۸۴
(۲)ہر ذراع ۵۰/اور ۷۰/ سینٹی میٹر کے درمیان ہے
(۳)التہذیب ،ج۳،ص۲۵۳؛ملاذالاخیار ،ج۵،ص۴۷۸؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۷۴
(۴)مفید ،ارشاد، ص۳۴۵؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۹
امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے وقت آگاہ افراد سواری لے کر پہنچیں گے تاکہ راستے اور جادوں کے درمیان راستہ چلیں جس طرح لوگوں کو حکم دیں گے کہ سڑکوں کی دونوں طرف پیادہ چلیں اس کے سڑ ک کے کنارہ چلنے سے اگر کسی کو کوئی نقصان ہوگا تو اسے دیہ اور خون بہا دینے پر مجبور کریں گے اسی طرح کوئی سڑکوں کے درمیان پیادہ چل رہا ہو اور اسے کوئی نقصان ہو جائے تو دیة لینے کا حق نہیں ہوگا“(۱)
ہم اس روایت سے یہی سمجھتے ہیں کہ شہروں میں کشادگی اور عبور و مرور کے وسائل میں فراوانی ہوگی صرف نقل و انتقال کے ذرائع کے لئے قانون گذاری نہیں ہوگی بلکہ پیدل چلنے والوں کے لئے بھی قانون وضع ہوں گے یقینا جو حکومت علم و دانش اور صنعت و ٹکنالوجی سے اسفتادہ کرے گی اورراستوں کو کشادہ ،اور سڑکوں کو چوڑا کرے گی قطعا ً وہ ڈرائیوری اور جانوں کی ضمانت کا بھی قانون بنائے گی۔

ج)زراعت
امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت جو چیز شایان ذکر و قابل توجہ ہے وہ کھیتی اور جانوروں کی تجارت ہے اس کے بعد جن لوگوں نے بارش کی کمی، پے در پے قحط و خشکسالی، اشیاء خورد ونوش کی قلت کھیتوں کی بربادی ،سے کبھی ایک لقمہ روٹی کے لئے گراں قیمت چیزوں کو فدیہ بنایا ہو یعنی ناموس و آبرو ،وہی افراد حیرت انگیز ، خیرہ کن کسانی اورجانوروں کی تجارت میں تبدیلی محسوس کریں گے معاشرہ میں اشیاء خورد ونوش کی فراوانی ہو جائے گی ۔
اگر امام کے ظہور سے پہلے کبھی بارش ہوئی، بھی تو زمین نے اسے قبول نہیں کیا اور کبھی
---------
(۱)التہذیب ،ج۱۰،ص۳۱۴؛وسائل الشیعہ، ج۱۹،ص۱۸۱؛ملاذ الاخیار، ج۱۶،ص۶۸۵؛اثبا ت الہداة، ج۳، ص۴۵۵
قبول کیا تو بارش نہیں ہوئی کسانی کی محصولات (نتیجہ) بر باد ہوئیں تو کبھی نا وقت بارش نے کھیتیوں اور حاصل کو بر باد کر ڈالا حضرت کے دورمیں بارش کی حالت بدل جائے گی پہلی ہی جیسی بارش ہوگی اور اس درجہ کہ لوگوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ہوگی اس کے بعد رحمت الٰہی کاانسان پر نزول ہوگا نتیجہ کے طور پر انسانوں پر رحمت الٰہی کی فراوانی ہوگی اس طرح سے کہ دسیوں سال کا حاصل ایک سال میں جمع کر لیں گے اور روایات میں آیا ہے کہ ایک من (تین کیلوگرام ) گیہوں سے سو من نتیجہ حاصل ہوجائے گا۔
روایات چو بیس بارش کی خبر دیتی ہیں کہ ظہور کے بعد آسمان سے نازل ہوں گی اسی کے پیچھے بہت ساری بر کتیں لوگوں کے شامل حال ہوں گی ، پہاڑ ،جنگل، بیابان سر سبز ہو جائیں گے بے آب و گیاہ ،خشک و بنجر بیابان ہرے بھرے ہو جائیں گے اور نعمت الٰہی اسقدر فراوان ہوجائے گی کہ لوگ اپنے مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی تمنا کریں گے ۔

۱۔بارش کی زیادتی
رسول خدا فرماتے ہیں :” ان پر آسمان سے مو سلادھار بارش ہوگی “(۱)
دوسری روایت میں فرماتے ہیں : خدا وند عالم ان کے لئے (مہدی) آسمان سے بر کت نازل کرے گا “(۲)نیز فرماتے ہیں:” زمین عدل وانصاف سے پُر ہو گی اور آسمان بر سے گا نتیجہ کے طور پر زمین اپنا حاصل ظاہر کردے گی اور میری امت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں اس درجہ نعمتوں سے بہرہ مند ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی ہوگی “(۳)
--------
(۱)مجمع الزوائد ،ج۷،ص۳۱۷؛حقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۳۹
(۲)عقدالدرر، ص۱۶۹؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۱و۱۴۱
(۳)المطالب العالیہ ،ج۴،ص۲۴۲؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۳۹؛اثبات الہداة،ج۳،ص۵۲۴؛احقا ق الحق، ج۱۹، ص۶۵۵؛ملاحظہ ہو:احمد، مسند، ج۲،ص۲۶۲ ؛بحا رالانوار، ج۵۲، ص۳۴۵؛احقاق الحق ،ج۱۹،ص۱۶۹،۶۶۳
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں : کہ خداوند عظیم واکبر،نے ہمارے وجود سے خلقت کی ابتداء کی اور ہم ہی پر ختم کرے گا جو چاہے گا میرے ذریعہ نیست و نابود کرے گا اور جو چاہے گا میرے ذریعہ ثابت و باقی رکھے گا میرے وجود سے بُرے دن ختم ہوں گے اور بارش نازل کرے گا لہٰذ ا تمہیں دھوکہ دینے والا راہ خدا سے دھوکہ دے کر نہ ہٹا سکے گا جس دن سے خدا وند عالم نے آسمان کے دروازے بند کئے ہیں اس دن سے ایک قطرہ نہیں برسا اور جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو آسمان سے رحمت الٰہی کی بارش ہوگی ۔(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور کا زمانہ آئے گا تو جمادی الثانیہ اور رجب میں دس روز ایسی بارش ہوگی کہ لوگوں نے کبھی ایسی بارش نہیں دیکھی ہوگی“(۲)
سعید بن جبیر کہتے ہیں :جس سال حضرت قیام کریں گے ۳۲۴ دن بارش ہوگی جس کے آثار و بر کتیں آشکار ہوں گی۔(۳)
حضرت قائم( (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانہ میں بارش کی کثرت کے بارے میں رسول گرامی فرماتے ہیں : ”ان(مہدی) کی حکومت میں پانی کی زیادتی ہوگی نہریں چھلک اٹھیں گی“(۴)
دوسری روایت میں فرماتے ہیں ”نہریں پانی سے بھری ہوئی ہوں گی چشمے جوش کھائیں گے اور زمین کئی گنا حاصل دے گی ۔(۵)
-------
(۱)منن الرحمن ،ج۲،ص۴۲
(۲)بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۷؛وافی، ج۲،ص۱۱۳
(۳)احقا ق الحق ،ج۱۳،ص۱۶۹
(۴)عقدالدرر ،ص۸۴
(۵)مفید، اختصاص ،ص۲۰۸؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۰۴

۲۔کا شتکاری کے نتیجوں میں برکت
رسول خدا فرماتے ہیں : ”وہ زندگی مبارک ہو جس کے بعد حضرت مسیح (علیہ السلام) دجال کو قتل کریں گے ؛اس لئے کہ آسمان کو بارش اور زمین کو اگانے کی جازت دی جائے گی اگر کوئی دانہ صاف چٹیل پہاڑ پر ڈال دیا جائے گا تو یقینا اُگے گا اس زمانے میں کینے ،حسد ختم ہو جائیں گے اس طرح سے کہ اگر کوئی شخص شیر کے پاس سے گذرے گا تو وہ اسے گزند نہیں پہنچائے گا اور اگر سانپ پر پیر پڑجائے گا تو اسے نہیں ڈسے گا“(۱)
نیز فرماتے ہیں : ”میری امت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت ایسی نعمتوں سے بہرہ مند ہوگی کہ ویسی کبھی نہیں ہوئی ہوگی آج تک کوئی مومن یا کافر ایسی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہوا ہے آسمان سے مسلسل بارش اور زمین سے اپج ہوگی “(۲)
رسول خدا عصر مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) میں زمین کی آمادگی کے بارے میں فرماتے ہیں:”زمین چاندی کے مانند جو جوش کھانے کے بعد درست ہوئی ہے کھیتی کے لئے آمادہ ہوگی پودے اگائے گی جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا ۔(۳)
نیز آنحضرت پیداوار کی برکت اور بہتر حاصل کے بارے میں فرماتے ہیں:
ایک دانہ انار کئی لوگوں کو سیر کرے گا(۴) نیز ایک انگور کا خوشہ کئی افراد کھائیں گے اور سیر بھی ہو جائیں گے“(۵)
---------
(۱)فردوس الاخبار، ج۳،ص۲۴
(۲)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۴۱؛ملاحظہ ہو:طوسی، غیبة، ص۱۱۵؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۰۴
(۳)ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۱۵۲؛ابن ماجہ، سنن، ج۲،ص۳۵۹؛ابن حماد، فتن، ص۱۶۲؛عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱، ص۳۹۹،فرق کے ساتھ
(۴)ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۵۲؛الدرالمنثور، ج۴،ص۲۵۵؛فرق کے ساتھ ؛عبد الرزاق، مصنف، ج۱۱،ص۴۰۱
(۵)ابن طاوٴس، ملاحم ،ص۱۵۲؛الدرالمنثور، ج۴،ص۲۵۵؛فرق کے ساتھ ؛عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۴۰۱
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) مشرق ومغرب کو اپنے زیر اثر قرار دیں گے برائیوں اور اذیتوں کو بر طرف کردیں گے خیر اور نیکی اس کی جاگزیں ہو جائےگی ؛اس طرح سے کہ ایک کسان ایک من (۳کیلو گرام ) گیہوں سے سو۱۰۰/ من حاصل کرے گا جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے :(۱)ہر خوشہ میں سو دانے نکلیں گے نیز خدا وند عالم نیک ارادہ رکھنے والوں کے لئے اضافہ کر دے گا “(۲)
نیز فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنے کار گزاروں کو شہروں میں لوگوں کے درمیان عادلانہ رفتار و رویہ کا حکم دیں گے اس زمانہ میں کسان ایک مد (۳)(یعنی تین سیر) لگائے تو سات مد در آمد کرے گا جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :اسی طرح خدا وند عالم اس مقدار سے زیادہ کردے گا“(۴)
درختوں کے ثمر دینے کے بارے میں فرماتے ہیں :” حضرت مہدی کے زمانے میں درخت بارآور و پھلدار ہو جائیں گے نیز برکت فراوان ہو جائے گی“(۵)
امیر الموٴ منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”جب ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو آسمان برسے گا اور زمین گھاس اُگائے گی اس درجہ کہ ایک عورت شام سے عراق پیدل جائے گی تو پورے راستہ میں سبزہ ہی سبزہ نظر آئے گا اور اسی پر چلے گی “(۶)
--------
(۱)سورہٴ بقرہ آیت ۲۶۱
(۲) الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۶۷
(۳)مد ایک پیمانہ ہے جو عراق میں ۱۸ /لیٹر کے برابر ہے فرہنگ فارسی عمید، ص۹۵۳
(۴)عقد الدرر، ص۱۵۹؛ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۹۷؛القول المختصر ،ص۲۰
(۵)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۲۵؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۱؛متقی ہندی، برہان، ص۱۱۷
(۶)تحف العقول، ص۱۱۵؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۴۵
شاید حضرت اس علاقہ کو مثال کے طور پر بیان کر رہے ہوں غور کرنا چاہئے کہ اس کی جغرافیائی حالت اس طرح ہے کہ اس راستے میں جنگلی کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا ،شاید اس علاقہ کا عصر حضرت مہدی میں اس لئے نام لیا گیا ہے کہ تمام بنجر زمین کاشتکاری میں بدل جائے گی ۔
اسی سلسلے میں حضرت رسول خدا فرماتے ہیں : جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہمارے امت کے درمیان ظاہر ہوں گے ؛زمین حاصل ، میوہ ، پھل اُگائے گی او ر آسمان بر سے گا“(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) آیہ شریفہ <مدھامتان >دو سبز پتے کی تفسیر فرماتے ہیں: ”مکہ و مدینہ خرمے کے درختوں سے متصل ہو جائےگا“(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”خدا کی قسم دجال کے خروج کے بعد کا شتکاری ہوگی اور درخت لگائے جائیں گے“(۳)
کتاب تہذیب میں شیخ طوسی ۺکی نقل کے مطابق ((ہم کھیتی کریں گے اور درخت اُگائیں گے ‘ ‘(۴)

۳۔حیوانوں کے پالنے کا رواج
رسول خدا فرماتے ہیں :” میری امت کی زندگی کے آخری دور میں ، حضرت
-------
(۱)المناقب والمثالب، ص۴۴؛احقا ق الحق ،ج۱۹،ص۶۷۷؛ملاحظہ ہو:ابن ماجہ، سنن ،ج۲ ،ص۱۳۵۶؛حاکم، مستدرک، ج۴،ص۴۹۲؛ الدرالمنثور، ج۲،ص۲۴۴
(۲)تفسیر ،قمی ،ج۲،ص۳۴۶؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۴۹؛سورہٴ رحمن کی آیت ۶۴ ہے
(۳)کافی ،ج۵،ص۲۶۰؛من لایحضرہ الفقیہ، ج۳،ص۱۵۸؛وسائل الشیعہ، ج۱۳،ص۱۹۳؛التہذیب ،ج۶، ص۳۸۴
(۴)التہذیب ،ج۶،ص۳۸۴
(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے اورجانوروں کی کثرت ہوجائے گی ۔(۱)
نیز فرماتے ہیں :” اس زمانے میں جانوروں کے گلے موجود ہوں گے اور اپنی زندگی کو جاری رکھیں گے“(۲) رسول خدا کے قول میں نکتہ ہے۔ وہ یہ کہ گویا ظہور سے پہلے پانی اور چارہ کی کمی اور بیماریوں کے عام رواج سے جانور زندہ نہیں رہ سکیں گے ۔
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” دجال کے قتل کے بعد گلوں میں اس درجہ برکت ہوگی کہ ایک اونٹ کابچہ ( جو حاملہ ہونے کے قابل ہوگا) لوگوں کے ایک گروہ کو سیر کر دے گا اور ایک گوسالہ ( گائے کابچہ)ایک قبیلہ کی غذا فراہم کرے گا نیز ایک بکری کا بچہ ایک گروہ کو سیر کرنے کے لئے کافی ہوگا “(۳)

۴۔تجارت
ملک و سماج میں تجارت میں اضافہ و زیادتی ہوگی جو اقتصاد کے بہتر ہونے اور سماج کے ثروتمند ہونے کی علامت ہوگی جس طرح بازاروں کی بندی اور بازار کا مندا ہونا سماج کے فقیر و نادار ہونے کی علامت ہے حضرت امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے عصر میں لوگوں کی اقتصادی حالت بہتر سے بہتر ہو جائے گی اور تجارت میں رونق اور بازاریں بروی کار آجائیں گی ۔
رسول خدا اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ”قیامت کی علامت (حضرت مہدی (عج ) کے ظہور کی ) یہ ہے کہ مال و دولت لوگوں کے درمیان باڑھ کی طرح رواں ہوں گے علم و دانش
---------
(۱)حاکم، مستدرک، ج۴،ص۵۵۸؛عقد الدرر ،ص۱۴۴؛متقی ہندی، برہان، ص۱۸۴؛کشف الغمہ، ج۳، ص۶۰ ۲ ؛ احقاق الحق، ج۱۳،ص۲۱۵؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۸۱؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۲۱۴
(۲)جامع احادیث الشیعہ، ج۸،ص۷۷؛احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۱۵وج۱۹،ص۶۸۱
(۳)ابن حماد، فتن، ص۱۴۸
ظاہر ہوں گے تجارت کو عام رواج ملے گا اور بازار کی رونق بڑھ جائے گی “(۱)
عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں:کہ لوگ دجّال کے خروج کرنے کے بعد چالیس سال زندگی گذاریں گے ،کھجوریں با ر آور ہوں گی اور بازار قائم ہو گا۔(۲)
------
(۱)ابن قتیبہ، عیون الاخبار، ج۱،ص۱۲
(۲)ابن ابی شیبہ ،مصنف ،ج۱۵،ص۱۲۴؛الدرالمنثور، ج۵،ص۳۵۴؛متقی ہندی، برہان، ص۱۹۳