حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  تیسری فصل

امنیت
جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے نا امنیت و غیرسا لمیت کا ماحول پوری دنیا پر محیط ہوگا تو حضرت کا سب سے بنیادی کا م معاشرہ میں امن و سکون پیدا کرنا ہے، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں دقیق پروگرام جو بنائےء جائیں گے کوتاہ مدت میں امنیت ، سماج میں قائم ہو جائے گی اور لوگ پرسکون انداز سے دنیا میں زندگی بسر کریں گے ایسی امنیت قائم ہوگی کہ انسان نے کسی زمانے میں نہیں دیکھا ہوگا۔
راستے اس طرح پر امن ہو جائیں گے کہ جوان عورتیں بغیر کسی محرم کو ہمراہ لئے ہوئے سفر کریں گی اور ہر طرح کی چھیڑ چھاڑ او رسوٴ استفادہ سے محفوظ رہیں گی۔
لوگ بھرپور قضاوت کے ساتھ امنیت میں زندگی بسر کریں گے اس طرح سے کہ کسی کا معمولی حق کبھی پایمال نہیں ہوگا قوانین و پروگرام اس طرح اجراء ہوں گے کہ لوگ مالی و جانی اعتبار سے مکمل امنیت میں ہوں گے چوری سماج سے ختم ہو جائے گی اور اس درجہ کے اگر کوئی جیب میں ہاتھ ڈالے گا تو چوری کا تصور نہیں ہوگا بلکہ اس کی توجیہ ہو جائے گی۔
ایسی امنیت و سا لمیت ہوگی کہ اس کے دائرے میں حیوانات و جاندار سبھی آجائیں گے اور گوسفند و بھیڑ ئے ایک جگہ زندگی گذاریں گے نیز بچے بچھو اور ڈسنے والے جانوروں سے کھلیں گے اور انھیں کوئی گزند بھی نہیں پہنچے گا۔

الف)عمومی امنیت
رسول خدا اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” جب عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام)آسمان سے زمین پر آئیں گے تو دجّال کو قتل کریں گے ، چرواہے اپنی گوسفندوں سے کہیں گے چرنے کے لئے فلاں جگہ جاوٴ اور اس وقت لوٹ آوٴ ،گوسفند کے گلے دو کھیتوں کے درمیان ہوں گے مگر اس کے ایک خوشے سے تجاوز نہیں کریں گے نیز اس کی ایک شاخ بھی اپنے پیروں سے نہیں روندیں گے ۔( ۱ )
رسول خدا فرماتے ہیں : ”زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا تاکہ لوگ اپنی فطرت کی جانب باز گشت کریں نہ کوئی ناحق خون بہے گا اور نہ ہی کسی سوئے ہوئے کو جگایا جائے گا“(۲)
ابن عباس حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں امنیت کے محیط ہونے کے بارے میں کہتے ہیں کہ حتی اس زمانے میں بھیڑیا گو سفند پر حملہ نہیں کرے گا نیز شیر ،گائے کو نہیں کھائے گا سانپ انسان کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا ،چوہا ذخیرہ نہیں کھائے گا نہ ہی اسے بر باد کرے گا۔(۳)
امیر الموٴ منین(علیہ السلام)فرماتے ہیں : ”جب قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)ہمارے قیام کریں گے تو آسمان سے پانی برسے گا، درندے و چوپائے ایک درسے صلح و آشتی کے ساتھ داخل ہو ں گے نیز انسانوں سے انھیں کوئی سرو کار نہ ہوگا اور اتنا امن و سکون ہوگا کہ ایک عورت عراق سے شام چلی
---------
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۹۷
(۲)ابن حماد، فتن، ص۹۹؛متقی ہندی،برہان، ص۷۸؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۰؛ملاحظہ ہو:عقدالدرر، ص۱۵۶ القول المختصر ،ص۱۹؛سفارینی ،لوائح، ج۲،ص۱۲؛طوسی ،غیبة، ص۲۷۴؛خرائج ،ج۳،ص۱۴۹؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۱۴ ؛ بحار الانوار،ج ۵۲،ص۲۹۰
(۳)بحار الانوار، ج۱،ص۶۱؛بیہقی ،سنن ،ج۹،ص۱۸۰
جائے گی نہ کوئی درندہ اسے پریشان کرے گا اور نہ ہی وہ کسی درندہ سے خوفزدہ ہوگی “(۱)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا لشکر (کانے دجال کی فوج ) کو نیست ونابود کرے گا زمین اس کے منحوس وجود سے پا ک ہو جائے گی پھر حضرت شرق و غرب عالم کی فرمانروائی کریں گے اور جابلقا سے جابرسا تک کو فتح کریں گے بلکہ تمام شہروں پر محیط حکومت ہوگی اور آپ کی حکومت کو استقرار و دوام ملے گا “(۲)
آنحضرت لوگوں کے ساتھ عادلانہ رفتار رکھیں گے حدیہ ہو گی کہ گوسفند بھیڑئے کے نزدیک چرنے میں مشغول ہوگی اور بچے بچھو سے کھیلیں گے بغیر اس کے کہ انھیں کوئی گزند پہنچے برائیاں ختم اور نیکیاں باقی رہیں گی ایک روایت میں آیا ہے کہ” حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کی آمد سے پہلے قیامت برپا نہیں ہوگی(گرگ) بھیڑیاگوسفند کے گلہ میں گلہ کے کتے کے مانند ہوگا شیر اونٹ کے گلے میں اونٹ کے بچے یا اس کے جوڑے کے مانندہوگا“(۳)
حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر کو فرماتے سنا : ”حضرت قائم کے ظہور کے وقت پرندے اپنے آشیانے و مچھلیاں دریا میں تخم گذاری کریں گی“( ۴)
شاید اس سے مرادیہ ہو کہ وہ امنیت کا احساس کریں گی اور بغیر دغدغہ اپنے آشیانہ و ٹھکانہ پر تخم گذاری کریں گی۔ابو امامہ باہلی کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا نے ہمارے لئے خطبہ دیا اور اس کے آخر میں کہا اُس زمانے میں لوگوں کا پیشوا ایک نیک و صالح انسان ہے اس زمانے
------
(۱)صدوق ،خصال ،باب ۴۰۰،ص۲۵۵؛الامامة والتبصرہ،ص۱۳۱؛اثبات الہداة،ج۳،ص۴۹۴؛بحار الانوار ، ج۵۲ ، ص۳۱۶
(۲)ینابیع المودة، ص۴۲۲؛المحجہ، ص۴۲۵؛احقاق الحق، ج۱۳،ص۳۶۱
(۳)عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۴۰۱؛ملاحظہ ہو:احمد،مسند ،ج۲ ،ص۴۳۷،۴۳۸؛ابن حماد، فتن، ص۱۶۲
(۴)اختصاص ،ص۲۰۸؛بحارالانوار،ج۵۲،ص۳۰۴
میں بھیڑ، گا ئے پر ظلم نہیں ہو گا، دلوں سے کینے ختم ہو جائیں گے جانوروں کے منھ سے لگام ہٹالی جائے گی (اور حیوانات دوسرے کے حقوق سے تجاوز نہیں کریں گے چہ جائیکہ انسان ایک دوسرے کے حقوق سے تجاوز کریں ) بچہ درندہ کے منھ میں اپناہاتھ ڈال دے گا لیکن حیوان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، حیوا ن کا بچہ شیر اور درندوں کے سامنے ڈال دیا جائے گا لیکن اسے کوئی گزند نہیں پہنچے گا شیر اونٹ کی قطار میں اور بھیڑیا ،گوسفند کے گلہ میں حفاظتی کتے کی طرح ہو گا“(۱)
شاید یہ روایت بھر پور امنیت اور اطمینان بخش فضا کی حکایت کر رہی ہو ۔
نیز آنحضرت فرماتے ہیں:”جب حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام)آسمان سے زمین پر آئیں گے اور دجّال کو قتل کریں گے تو سانپ ،بچھو ظاہر ہوں گے لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے “(۲)
اس حدیث سے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں جانی ومالی حفاظت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے؛ اس لئے کہ چرواہا جو اپنے چوپایوں کو جنگل میں بھیجے گا تو انسانوں اور درندوں کی تعدی سے آسودہ خاطر ومطمئن ہوگا جو انسان سفر کر رہا ہو یا موذی جانوروں کے درمیان زندگی گذارتا ہو ان کی ایذا رسانی سے محفوظ ر ہے گا ، اس طرح سے کہ گویا احترام کا قانون دوسرے کے حق میں حتی کہ حیوانات کے درمیان میں مورد قبول ہوگاسب ہی اس کے سامنے سر اپا تسلیم و مطیع ہوں گے شاید کچھ امنیت اس وجہ سے ہو کہ اس زمانہ میں نعمت الٰہی وافر ہو گی اورجب تمام جاندار اس سے فیضیاب ہوں گے تو امنیت کا احساس کرتے ہوئے کوئی کسی کو ایذا نہیں پہنچائے گا ۔
حضرت امام عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانے میں امنیت کا دور دورہ اس طرح
--------
(۱)طیالسی ،مسند ،ج۱۰،ص۳۳۵؛ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۵۲
(۲)ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۹۷
سے ہوگا کہ اگر کوئی سوئے گا تو اس اطمینان سے کہ کوئی اس کی نیند میں خلل انداز نہیں ہوگا اور کوئی اسے بیدار نہیں کرے گا ۔
رسول خدا اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی امت آنحضرت سے پناہ حاصل کرے گی، جس طرح شہد کی مکھیاں اپنی شہزادی کے پاس پناہ لیتی ہیں آنحضرت زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ جیسا کہ اس سے پہلے ظلم وجور سے پُر ہوگی؛ اس حد تک کہ لوگ اپنی اصلی فطرت کی جانب لوٹ آئیں گے سوئے ہوئے انسان کو کوئی بیدار نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کاناحق خون بہے گا “(۱)

ب)راستے کی امنیت
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت راستوں کی سا لمیت و امنیت سے متعلق بہت ساری روایتیں ہیں مگر یہاں ہم چند روایت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانہ میں عورت ظلم و ستم ،ناانصافی سے بے خوف و خطر ہو کر شب کو سفر کرے گی“(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” یقینا خدا وند عالم اس امر (اپنے دین ) کو تمام کر کے رہے گا اس طرح سے کہ شخص رات کو صنعا سے حضرموت تک مسافرت کرے گا تو اسے خدا کے علاوہ ،کسی کا خوف نہیں ہوگا“ (۳)ان دو جگہوں کا نام شاید اس لئے لیا گیا ہے کہ یہ خوفناک بیابان ہیں کہ کبھی انھیں مفازہ سے تعبیر کیا جاتا تھا اس لئے کہ کامیابی اور سلامتی سے تفال کیاجاتا تھا۔
---------
(۱)الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۷۷؛ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۷۰؛او رصفحہ ۶۳ پر تھوڑے سے فرق کے ساتھ ؛احقا ق الحق، ج۱۳،ص۱۵۴
(۲)المعجم الکبیر ،ج۸،ص۱۷۹
(۳)المعجم الکبیر ،ج۴،ص۷۲؛جامع الاصول ،ج۷، ص۲۸۶؛بیہقی، سنن، ج۹،ص۱۸۰
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” خدا کی قسم، مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصر اس حد تک جنگ کریں گے کہ لوگ صرف اور صرف خدا ئے وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو شریک قرار نہ دیں حتی کہ بوڑھی سن رسیدہ عورت اس سمت سے اس سمت جائے اور کوئی معترض نہ ہو“(۱)
ایک شخص نے حضرت امام جعفر صاد ق(علیہ السلام) سے سوال کیا: ہم کیوں حضرت قائم کے ظہور کی تمنا کریں ؟ کیاہم غیبت کے زمانہ میں بلند مرتبہ ہوں گے ؟ حضرت نے کہا: سبحان اللہ! کیا تم نہیں چاہتے کہ امام اپنی عدالت پوری دنیا میں عام کردیں اور راستوں کو پر امن بنادیں اور اپنے منصفانہ فیصلے سے ستم دیدہ کی نصرت فرمائیں ؟“(۲)
امام جعفر صادق(علیہ السلام) کے ایک ناصر کہتے ہیں کہ ایک دن ابو حنیفہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) کے پاس آئے حضرت نے اس سے مخاطب ہو کر کہا :”یہ آیت کہتی ہے <سِیْرُوْا فِیْھَاْ لِیَاْلِی وْاَیَّامًاآمِنِیْن>(۳)”زمین میں شب و روز امن و سلامتی کے ساتھ حرکت کرو یہ کس زمین کے متعلق ہے ؟“
ابو حنیفہ نے کہا :میرا خیال ہے کہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہو۔
حضرت اپنے چاہنے والوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگے :”کیا تم لوگ جانتے ہو کہ لوگ اس راستے میں ڈاکو وٴں کا سامنا کریں گے اور ان کے اموال لوٹ لئے جائیں گے اور امنیت نہیں ہوگی اور مارڈالے جائیں گے ۔
--------
(۱)عیاشی، تفسیر، ج۲،ص۶۲؛نعمانی، غیبة، ص۲۸۳؛تفسیر برہان، ج۱،ص۳۶۹؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۳۴۵؛ ینابیع المودة، ص۴۲۳؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۳۸۰
(۲)مفید ،اختصاص، ص۲۰؛عیاشی ،تفسیر ،ج۱،ص۶۴؛نعمانی، غیبة، ص۱۴۹؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۱۴۴؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۵۷؛بحار الانوار، میں ینصر المظلوم کے بجائے ینف المظلوم (آیا ہے )ملاحظہ ہو:الفائق ، ج۴،ص۱۰۰
(۳)سورہٴ سباء آیت ۱۸
اصحاب نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے اور ابو حنیفہ خاموش رہے ۔
حضرت نے دوبارہ اس سے پوچھا : یہ آیت جس میں خدا وند عالم فرماتا ہے : <وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِناً>(۱)”جو اس میں داخل ہو گیا محفوظ ہو گیا “کس زمین کے بارے میں ہے ،ابو حنیفہ نے کہا : کعبہ ۔
امام (علیہ السلام) نے کہا :” کیا تم نہیں جانتے کہ حجاج بن یوسف ثقفی ابن زبیر کی سر کوبی کے لئے کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا اور اسے مار ڈالا ،کیا وہ محفوظ جگہ پر تھا؟
ابو حنیفہ خاموش ہو گیا پھر کچھ نہیں بولا ۔
جب وہ وہاں سے چلا گیا ؛تو ابو بکر حضرمی نے آپ سے عرض کیا : میں آپ پر فدا ہو جاوٴں! ان دو سوالوں کا جواب کیا ہے ؟
امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے کہا:”اے ابو بکر ! پہلی آیت سے مراد ہمارے قائم کی ہمراہی ہے نیز خدا وند عالم کے قول کا مطلب کہ اس نے کہا :” جو اس میں داخل ہو گیا محفوظ ہو گیا “ یعنی جو بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائے اور حضرت کی بیعت کر لے تو حضرت کے ناصرو یاور میں قرار پائے گا اور امان میں ہوگا“
علی بن عقبہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ جس وقت حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، توعدالت بر قرار کریں گے نیز آپ کے دوران حکومت میں ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا اور آپ کے وجود ذی جود سے راستے ،سڑکیں پُر امن ہو جائیں گی ۔(۲)
قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سب سے اچھے انسان ہیں آپ
-----
(۱)سورہٴ آل عمران آیت ۹۷
(۲) علل الشرائع ،ج۱،ص ۸۳نورالثقلین ،ج۳،ص۳۳۲؛تفسیر برہان ،ج۳،ص۲۱۲؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۳۱۴
کے زمانے میں زمین اتنی پُرامن ہوگی کہ ایک عورت دیگر پانچ عورتوں کے ہمراہ بغیر کسی مرد کے حج پر جائے گی اور ذرہ برابر خوفزدہ نہیں ہوگی ۔(۱)
عدی بن حاتم کہتے ہیں : یقینا ایک زمانہ آئے گا کہ ضعیف وناتواں عورت؛ تنِ تنہا حیرہ (نجف سے نزدیک ) سے خانہ خدا کی زیارت کو جائے گی اور خدا کے علاوہ کسی سے خائف نہیں ہوگی۔(۲)

ج)فیصلوں پر اعتماد
امام کے ظہور کے بعد ایک کام یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں بے چینی و اضطراب پیدا کیا ہے اور لاکھوں افراد کو زخمی ،معلول ،اورقتل کر کے مادی و معنوی بے سرو سامانی ایجاد کی ہے انھیں سزا دی جائے گی کیونکہ وہ ایسے جرائم پیشہ افراد ہیں جنھوں نے دنیا کو ہلاکت و تباہی کے دہانے پر لگادیاہے۔
حضرت کے ظہور کے بعد ان کا تعاقب ،گرفتاری،محاکمہ ایک ضروری امر ہے ؛ اس لئے کہ حدود الٰہی کا اجراء کرنا واجب ہے؛ خصوصا امام معصوم (علیہ السلام) اور حضرت بقیة اللہ کی موجودگی میں کتاب خدا وندی کے مطابق ہر طرح کی ہو او ہوس سے، بری ہو کر حدود الٰہی کا اجراء ہو گا ۔
اس زمانہ میں اس اہم وظیفہ کی ادائیگی کے لئے ان افراد کو جو فقہی و اسلامی مبانی پر مسلط ہونے کے علاوہ گذشتہ میں ان پر معمولی اشکال و اعتراض بھی نہ ہواہو۔
روایات میں ان کے قضائی تسلط اور گذشتہ خوبیوں کا تذکرہ ہے ہم اس سلسلے میں چند روایات کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
-------
(۱)ابن حماد، فتن ،ص۹۸؛ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۶۹؛عقدالدرر ،ص۱۵۱؛القول المختصر، ص۲۱
(۲)فردو س الاخبار، ج۳،ص۴۹۱
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب قائم آل محمد قیام کریں گے، تو پشت کعبہ سے ۳۱۷ افراد کو باہر نکالیں گے ۵/ جناب موسیٰ(علیہ السلام) کی قوم سے جو حق فیصلہ کرتے ہیں اصحاب کہف کے سات ،یوشع و صی موسیٰ (علیہ السلام) ، مومن آل فرعون ،سلمان فارسی، ابو دجانہ انصاری ، مالک اشتر نخعی۔( ۱)
ابو بصیر امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے سوال کرتے ہیں : کیا اس گروہ (۳۱۳ افراد) کے علاوہ دوسرے لوگ پشت کعبہ پر نہیں ہیں ؟ امام نے کہا:” کیوں نہیں، دوسرے مومن بھی ہیں ؛ لیکن وہ فقہاء ،چیدہ چیدہ افراد ،حکام و قضاة ہوں گے جن کے سینے اور پشت پر حضرت ہاتھ پھیریں گے اس کے بعد ان کے لئے کوئی فیصلہ مشکل نہیں ہوگا“(۲) بحار الانوار میں ہے کہ وہ لوگ حضرت کے ناصر و یاور اور زمین کے حاکم ہوں گے ۔(۳)
صادق اہل بیت (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو ہر محاذ اورباڈر پر ایک حاکم معین کریں گے، اور ان سے کہیں گے:” تمہارے کاموں کا پروگرام تمہارے ہی ہاتھ میں ہے اور اگر کبھی وظیفہ کی ادائیگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو اپنی ہتھیلیوں پر نظر کرنا اور جو اس پر تحریر ہو اس کے مطابق عمل کرنا“(۴)
ہتھیلیوں سے مشکلات کا سمجھنا ممکن ہے کنایہ ہو مرکزی حکومت سے فوری ارتباط اور رفع مشکل کے وظیفہ کی تعیین ہو یا اشارہ ہو کہ ذمہ دار و عہد دار اپنے کاموں میں انتہائی حیرت انگیز
--------
(۱)اثبات الہداة، ج۳، ص۵۵؛نقل از:عیاشی روضة الواعظین ص۲۶۶؛امام ۲۷/ آدمیوں کو پست کعبہ سے باہر لائیں گے
(۲)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۲۰۲؛دلائل الامامہ، ص۳۰۷/تھوڑے سے فرق کے ساتھ
(۳)دلائل الامامہ، ص۲۴۹؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۵
(۴)نعمانی ،غیبة، ص۳۱۹؛دلائل الامامہ، ص۲۴۹؛اثبات الہداة،ج۳، ص۵۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۵و ج۵۳، ص۹۱
مہارت کے مالک ہوں گے کہ ایک آن میں اپنی فکر و نظر کا اظہار کر دیں یا معجزہ کے ذریعہ مشکل حل ہو جائے جس سے عقل انسان عاجز ہے ۔
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”حضرت مہدی کے ظہور کے بعد کسی کا کوئی حق کسی کے ذمہ باقی نہیں رہے گاکیونکہ حضرت اسے واپس لے کر صاحب حق کو واپس کر دیں گے“(۱ )
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو داوٴد پیغمبر کے فیصلوں اور حکم پر عمل کریں گے انھیں شاہد و گواہ کی احتیاج نہیں ہوگی خدا وند عالم احکام الٰہی ان پر الہام کرے گا وہ بھی اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے اور اسی کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے“(۲)
سیار شامی کے فرزند جعفر کہتے ہیں کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں پایمال حقوق کی واپسی اس درجہ ہے کہ اگر کسی کا کوئی حق کسی کے دانتوں کے نیچے ہوگا تو بھی اسے واپس لے کر صاحب حق کو لوٹا دیں گے(۳) البتہ یہ رفتار حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں ہی مناسب ہے اس کے قاضی : سلمان فارسی ،مالک اشتر ،جناب موسیٰ کی قوم کے سربرآوردہ افراد ہوں گے لیکن اس کی قیادت و رہبری خود آنحضرت کے ہاتھ میں ہوگی فطری ہے کہ پھر حقوق کی پامالی کا سوال نہیں ہوگا جیسا کہ (دانتوں کے نیچے والا) جملہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے۔
-------
(۱)عیاشی، تفسیر ،ج۱،ص۶۴؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۲۲۴
(۲)روضة الواعظین، ص۲۶۶؛بصائر الدرجات ،ج۵، ص۲۵۹
(۳)ابن حماد، فتن، ص۹۸؛عقد الدرر، ص۳۶؛ابن طاوٴس ،ملاحم، ص۶۸؛القول المختصر ،ص۵۲