حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  دوسری فصل

علم و دانش اور اسلامی تہذیب میں ترقی
جس حکومت کا راہبر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) جیسا ہو جن پر علم و دانش کے دروازے ا ن پر کھلے ہیں نہ اس حدتک کہ جیسا پیغمبروں اور اولیاء خدا پر کھلے تھے بلکہ تیرہ گنا سے بھی زیادہ علم و دانش سے بہرہ مند ہوں گے، قطعی طور پر علمی ترقی حیرت انگیز ہوگی اور دنیائے علم و دانش میں خیرہ کر دینے والے تبدیلی واقع ہوگی۔
علم و دانش کاا دراک و شعورامام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور میں آج کی ترقی سے قابل مقایسہ نہیں ہے نیز لوگ بھی اس ترقی پذیر دانش کا خیر مقدم کریں گے حتی عورتیں جن کا سن ابھی زیادہ گذر ا نہیں ہوگا اس طرح کتاب خدا وندی ومذہب کے مبانی سے آشنا ہوں گی کہ آسانی سے حکم خدا قرآن سے نکال لیں گی۔
نیز صنعت وٹکنالوجی کے لحاظ سے بھی حیرت انگیز ترقی ہوگی اگر چہ ان جزئیات کو روایات نے بیان نہیں کیاہے، ان تمام روایات سے جو اس سلسلے میں بیا ن ہو ئی ہیں حیرت انگیز دگر گونی و تغیرکا پتہ چلتا ہے ،جیسے وہ روایات جو بتاتی ہیں ایک شخص مشرق میں ہونے کے باوجود مغرب والے برادر کو دیکھے گا ،حضرت تقریر
کے وقت تمام دنیا والوں کو دیکھیں گے، حضرت کے چاہنے والے دوری کے باوجود ایک دوسرے سے باتیں کریں گے، اور ایک دوسرے کی بات سنیں گے، تعلیمی لکڑی(چھڑی) اور جوتے کے بند و فیتے انسان سے گفتگو کریں گے گھر کے اندر موجود چیزیں انسان کو خبردیں گی ،اور بادل پر سوار ہو کر اس سمت سے اس سمت پرواز کرے گابہت سارے نمونے ہیں اگرچہ بعض کا اشارہ اعجاز کی طرف ہو لیکن روایات کی جانب توجہ کرنے سے، ان دگر گونی کو دریافت کیا جا سکتا ہے ۔
روایات امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور میں دنیا کو مہذب و متمدن ، طاقتور،علمی اعتبار سے ترقی یافتہ بتاتی ہیں کلی طور پر آج کی صنعتی ترقی اس زمانہ کی ترقی سے کوسوں دور تصور کی جائے گی جس طرح آج کی صنعت اورٹکنالوجی گذشتہ سے قابل مقایسہ نہیں ہے۔
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اور آج کے دور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آج ہمارے دور میں علم و صنعت کی ترقی معاشرہ انسانی کی اخلاقی و ثقافتی گراوٹ پر مبنی ہے جتنا انسان علمی ترقی کرتا جا رہا ہے اتنا ہی انسانیت سے دور ہوتا جارہا ہے اور تباہی و بر بادی ،فتنہ و فساد کی طرف مائل ہے لیکن حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں بالکل بر عکس شرائط ہوں گے باوجودیکہ انسان علم اور ٹکنالوجی کے اعتبار سے بلندی کی طرف جارہا ہے لیکن اخلاقی گراوٹ ،کج رفتاری سے ہٹ کر اسے اخلاق کی بلندی و انسانی کمال کی اعلیٰ منزل پر ہونا چاہئے ۔
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت میں خدا وند ی پروگرام کے اجراء سے اتنا انسان کی شخصیت کی تربیت ہوگی کہ گویا وہ لوگ انسانوں کے علاوہ تصور کئے جائیں گے جو سابق میں زندگی گذارچکے ہیں۔وہ لوگ جو کل تک درہم و دینار کی خاطر اپنے نزدیک ترین شخص کا خون بہاتے تھے، حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور حکومت میں مال و دولت ان کی نظر میں اتنی بے قیمت ہو جائے گی کہ ان کا سوال اور مانگنا پستی و گرواٹ کی علامت بن جائے گا۔اگر کل تک ان کے دلوں میں بغض وحسد،کینہ و کدورت حاکم تھے تو حضرت کے زمانے میں دل ایک دوسرے سے نزدیک ہو جائیں گے گویا د و قالب ایک جان ہو جائیں گے جن لوگوں گے دل سست اور کمزور تھے اتنے محکم و مضبوط ہوں گے کہ لوہے سے بھی سخت و قوی ہوجائیں گے ۔
ہاں آنحضرت کی حکومت عقلوں کے کمال و اخلاقی بلندی،رشد و آگہی کا سبب ہوگی وہ دورکمال و ترقی کا دور ہوگا جو کچھ کل تک ہوا وہ انسانی تنگ نظری کا نتیجہ تھا لیکن حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے الٰہی نظام میں انسان عقل و خرد ،اخلاق و کردار ، فکرونظر ،آرزو وتمنا کے اعتبار سے اعلیٰ منزل پر فائز ہوگا یہ وہی بڑا وعدہ ہے جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور حکومت میں پورا ہوگا جسے کسی حکومت نے انسانیت کو ایسا ھدیہ نہیں پیش کیا ۔

الف)علم و صنعت کی بہار
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” علم و دانش کے ۲۷/ حروف ہیں اور اب تک جو کچھ پیغمبروں نے پیش کیا ہے وہ دو حرف ہے اور بس ۔لوگ آج دوحرف کے علاوہ (حرفوںسے) آشنا نہیں ہیں جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے، تو باقی ۲۵/ حروف کو پیش کریں گے اور لوگوں کے درمیان رایج و نشر کریں گے نیز ان دو حرفوں کو ضمیمہ کر کے مجموعا ً ۲۷/ حروف لوگوں کے درمیان پیش کریں گے“(۱)
خرائج میں راوندی کی نقل کے مطابق ”جزاٴ ً“صرفا کا بدل ہے (صِرفاً کی جگہ پر ہے۔)
اس روایت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسان علم و دانش کے لحاظ سے جتنا بھی ترقی کر لے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں بارہ گنا بڑھ جائے گا اور معمولی غور و فکر سے معلوم ہو جائے گا کہ انسان حضرت کے زمانہ میں کس درجہ حیرت انگیز اور خیرہ کر دینے والی ترقی کرے گا۔
------
(۱)خرائج، ج۲، ص۸۴۱؛مختصر بصائر الدرجات، ص۱۱۷؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۲۶
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : علم و دانش کتاب خدا وندی و سنت نبوی کے اعتبار سے ہمارے مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دل میں اس طرح اُگے گا جس طرح گھاس عمدہ کیفیت کے ساتھ اُگتی ہے تم میں سے جو بھی حضرت کا زمانہ درک کرے اور ان سے ملاقات کرے ،تو ان پر میرا سلام کرے کہ تم پر سلام ہو اے خاندان رحمت و نبوت ،علم و دانش کے خزانہ، جانشین رسا لت ۔ ( ۱ )
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :”یہ امر، (ہمہ گیر اسلامی حکومت) اس کی شان میں ہے جو (امامت کے وقت) سن و سال کے اعتبار سے ہم سب سے کم ہوگا لیکن اس کی یاد ہم سب سے زیادہ دلنشین ہوگی خدا وند عالم علم و دانش انھیں عطا کرے گا ، اور کبھی انھیں خود پر موکول نہیں کرے گا۔(۲)
آنحضرت دوسری حدیث میں فرماتے ہیں :” جس امام کے پاس قرآن،علم اور اسلحے ہوںوہ مجھ سے ہے “(۳)
یہ روایات بشریت کے کمال و ترقی کے بارے میں بتا تی ہیں اس لئے کہ ایسا پیشوا سماج کو ترقی و خوش بختی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے جس میں تین چیز پائی جائے:( ۱)ایسا قانون الٰہی جو انسانیت کو کمال کی سمت ہدایت و راہنمائی کرے(۲)ایسا علم و دانش جو انسانی زندگی کو رفاہ و عیش کی جہت دے(۳) اور قدرت و اسلحے جو بشریت کے کمال و ترقی کے لئے سد راہ و رکاوٹ ہیں راستے سے ہٹادے اور حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) ان چند چیزوں کے مالک ہیں اس بناء پر دنیا میں حکومت کریں گے اور علمی وٹکنالوجی کی ترقی کے علاوہ، اخلاقی و انسانی ترقی کی بھی راہ پر گامزن کریں گے۔
------
(۱)کما ل الدین ،ج۲،ص۶۵۳؛العدد القویہ ،ص۶۵؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۹۱؛حلیة الابرار، ج۳، ص۶۳۹؛ بحار الانوار،ج ۵۱، ص۳۶وج۵۲، ص۳۱۷
(۲)عقدالدرر، ص۴۲
(۳)مثالب النواصب ،ج۱،ص۲۲۲
یہاں پر ہم بعض ان روایات کو بیان کریں گے جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں علمی و صنعتی ترقی پر دلالت کرتی ہیں ۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) حضرت امام عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں ارتباط کی کیفیت سے متعلق فرماتے ہیں :” حضر ت کے زمانے میں مشرق میں رہنے والا مومن مغرب میں رہنے والے بھائی کو دیکھے گا اسی طرح مغرب میں رہنے والا مشرقی مومن کو مشاہدہ کرے گا“(۱)
یہ روایت تصویری ٹیلفون کی اختراع و ایجاد کے باوجود زیادہ قابل فہم وادراک ہے واضح نہیں ہے کہ یہی روش اس طرح سے دنیا میں رائج ہو گی کہ تمام لوگ اس سے استفادہ کریں گے یا یہ کہ ترقی یافتہ سیسٹم (System)اس کا جاگزیں ہوگا یا ان سب سے بالا تر کوئی دوسرا مطلب ہوگا۔
نیز آنحضرت ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :” جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے، تو خدا وند عالم ہمارے شیعوں کی قوت سماعت وبصارت میں اضافہ کردے گا ؛اور اتنا کہ حضرت کا قاصد چار فر سخ سے آپ کے شیعوں سے گفتگو کرے گا اوروہ لوگ ان کی باتیں سنیں گے اور حضرت کو دیکھیں گے ؛جب کہ حضرت اپنی جگہ پر قائم و موجود ہوں گے “(۲)
مفضل بن عمر نے امام جعفر صاد ق(علیہ السلام) سے سوال کیا: کس جگہ اور کون سی سر زمین پر حضرت ظہور کریں گے ؟
حضرت نے فرمایا :” کوئی دیکھنے والا نہیں ہے جو حضرت کو ،ظہور کے وقت دیکھے، لیکن
---------
(۱)بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۹۱؛حق الیقین، ج۱،ص۲۲۹؛بشارة الاسلام، ص۳۴۱
(۲)کافی ،ج۸ ،ص۲۴۰؛خرائج ،ج۲،ص۸۴۰؛مختصر البصائر، ص۱۱۷؛الصراط المستقیم ،ج۲،ص۲۶۲؛منتخب الانوار المضیئہ، ص۲۰۰؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۶
دوسرے لوگ اسے نہ دیکھیں (یعنی ظہور کے وقت سبھی اس کو دیکھیں گے)اگر کوئی اس کے علاوہ مطلب کا اثبات کرے تو اس کی تکذیب کرو“(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”گویا حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کو رسول خدا کی زرہ پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں ہر جگہ کا رہنے والا حضرت کو اس طرح دیکھے گا کہ گویا آپ اس کے ملک و شہر میں ہیں “(۲) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانے میں موجودہ وسائل کے علاوہ سے حضرت کو دیکھیں گے اس لئے کہ روایت میں ہے کہ لوگ آنحضرت کو اس طرح دیکھیں گے کہ گویا حضرت ان کے ملک و شہر میںموجود ہیں اس سلسلے میں دو احتمال ہے ۱۔سہ جانبہ تصویر کے نشر کا سیسٹم اس زمانے میں پوری دنیا میں پھیل چکا ہوگا ۔ترقی یافتہ سیسٹم اس کی جگہ پر ہوگا جس کے ذریعہ حضرت کو دیکھیں گے یا یہ کہ حدیث امام (علیہ السلام) کے اعجاز کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
رسول خدا اس زمانے میں حمل و نقل کی کیفیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ”ہمارے بعد ایسا گروہ آئے گا جسے طی الارض (یعنی زمین اس کے قدموں تلے سمٹے گی)کی صلاحیت ہوگی اور دنیا کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے زمین کی مسافت ایک پلک جھپکنے سے پہلے طے ہو جائے گی اس طرح سے کہ اگر کوئی مغرب و مشرق کی سیر کرنا چاہے تو ایک گھنٹہ میں ایسا ممکن ہو جائے گا“(۳)
-------
(۱)بحار الانوار، ج۵۳،ص۶
(۲)کامل الزیارات، ص۱۱۹؛نعمانی،غیبة، ص۳۰۹؛کما ل الدین، ج۲،ص۶۷۱؛بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۳۲۵؛ اثبات الہداة، ج۳،ص۴۹۳؛نورالثقلین،ج۱،ص۳۸۷؛مستدرک الوسائل، ج۱۰،ص۲۴۵؛جامع احادیث الشیعہ ،ج۱۲، ص۰ ۷ ۳
(۳)فردوس الاخبار ،ج۲،ص۴۴۹؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۳۵۱
حضرت کی حکومت اور ظہور کے زمانے میں ذرائع ابلاغ کی ترقی کے بارے میں روایات ہیں ہم یہاں پر صرف دو روایت کے ذکر کرنے پراکتفاء کرتے ہیں ۔
رسول خدا نے فرمایا : ”اس ذا ت کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تعلیمی لکڑی (چھڑی)،جوتے ، عصا(لاٹھی) خبر دینے لگیں کہ ہمارے گھر سے نکلنے کے بعد گھر والوں نے کیا کیا“(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں اخبار و اطلاعات سے متعلق فرماتے ہیں: ”حضر ت کو مہدی اس لئے کہتے ہیں کہ پوشیدہ امور کو جان لیں گے توپھر انھیں ایسی جگہ بھیجیں گے جہاں لوگ مجرم و گناہ گار کو قتل کر تے ہیں ۔
حضرت کی اطلاع لوگوں کے بنسبت اتنی ہوگی کہ گھر میں بات کرنے والا ڈرے گا کہ کہیں گھر کی دیوار حضرت سے کہہ نہ دے اور اس کے خلاف گواہی نہ دیدے “(۲)
یہ روایت ممکن ہے کہ حضرت کے زمانے میں متحیر و چکا چوندکردینے والی اطلاعات کی جانب اشارہ ہو البتہ عالمی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ تشکیلات اور مخفی خبر دینے والے سیسٹم بھی ہوں ممکن ہے کہ مراد وہی ظاہری عبارت ہو یعنی گھر کی دیواریں خبر دیدیں ۔

ب)اسلامی تہذیب کارواج
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں لوگ بے سابقہ اسلام کی طرف مائل ہوں گے،نیزاضطراب،گھٹن ، دینداروں کے کچلنے اور مظاہر اسلامی پر پابند ی لگانے دور ختم ہو چکا ہوگا
-------
(۱)احمد، مسند ،ج۳،ص۸۹؛فردوس الاخبار، ج۵،ص۹۸؛جامع الاصول، ج۱۱،ص۸۱
(۲)نعمانی، غیبة، ص۳۱۹؛بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۶۵
ہر جگہ اسلام کا راگ بج رہا ہو گااور مذہبی آثار جلوہ فگن ہوں گے بعض روایات کی تعبیر کے مطابق اسلام ہر گھر ، خیمے،و محل میں پہنچ چکاہوگا جس طرح سردی و گرمی نفوذ کرتی ہے اس لئے کہ سردی و گرمی کا نفوذ اختیاری نہیں ہے ہر چند اس سے بچاوٴ کیا جائے پھر بھی نفوذ کرکے اپنا اثر دیکھا ہی دیتی ہے اسلام اس زمانے میں بعض لوگوں کی مخالفت کے باوجود شہر ،دیہات،دشت و صحرا بلکہ دنیا کے چپہ چپہ میں نفوذ کر کے سب کو اپنے زیر اثر لے لے گا۔
ایسے ماحول میں فطری طور پر مذہبی شعار و مظاہر اسلامی سے لوگوں کی دلچسپی ، بے سابقہ ہوگی لوگوں کا قرآنی تعلیمات ،نماز جماعت اور نماز جمعہ میں شریک ہونا قابل دید ہوگا نیز موجود ہ مساجد یا جو بعد میں بنائی جائیں گی، لوگوں کی ضرورتیں بر طرف نہیں کر پائیں گی جو روایت میں ہے وہ یہ کہ ایک مسجد میں بارہ۱۲/ دفعہ نماز جماعت ہوگی یہ خود ہی مظاہر اسلامی کے حددرجہ قبول کرنے کی واضح و آشکار دلیل ہے، یہ مطلب قابل توجہ ہے جب امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے دور والی روایت کو دیکھیں کیوں کہ دنیا قتل و کشتار سے کم ہو جائے گی ۔
ان حالات میں ادارے ،وزارتخانوں جن کی ذمہ داری دینی اورمذہبی ہے کا بڑا کردار ہے اور آبادی کے لحاظ سے مسجدیں بنائی جائیں گی حتی بعض ایسی جگہ پربھی مسجد بنانا لازم ہوگا جہاں پانچ سو دروازے ہوں گے یا روایت میں ہے کہ ُاس زمانے میں سب سے چھو ٹی مسجد آج کی مسجد کوفہ ہے جب کہ یہ مسجد آج دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
یہاں پر قرآن کی تعلیم ،معارف دینی ، مساجد ،رشد معنوی و اخلاق کریمانہ روایت کی نظر میں دوران حکومت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) بیان کریں گے ۔

۱۔اسلامی معارف و قرآن کی تعلیم
امیر الموٴ منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں : گ”ویا ہم اپنے شیعوں کو مسجد کوفہ میں اکٹھا دیکھ رہے ہیں کہ وہ( چادریں بچھا کر) چادروں پر لوگوں کو قرآن کی تنزیل کے اعتبار سے تعلیم دے رہے ہیں “(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” گویا میں علی کے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ قرآن ہاتھ میں لئے لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں “(۲)
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں :میںنے حضرت علی (علیہ السلام) کو کہتے ہوئے سنا : ”گویا غیر عرب (عجم) کو دیکھ رہا ہوں کہ مسجد کوفہ میں اپنی چادریں بچھائے تنزیل کے اعتبار سے لوگوں کو تعلیم دے رہے (۳)ہیں“ یہ روایت تعلیم دینے والوں کا نقشہ کھینچ رہی ہے کہ وہ سب عجم (غیر عرب) ہوں گے، و لغت دان، حضرات کے مطابق یہاں عجم سے مراد اہل فارس و ایرانی ہیں ۔
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں تمہیں اتنی حکمت و فہم و فراست عطا ہوگی کہ ایک عورت اپنے گھر میں کتاب خدا و سنت پیغمبر کے مطابق فیصلہ کرے گی “(۴)

۲۔تعمیر مساجد
حبہ عرنی کہتے ہیں کہ جب امیر الموٴ منین(علیہ السلام) سر زمین ”حیرہ“(۵ ) کی طرف روانہ ہوئے تو کہا:”-یقینا حیرہ شہر میں ایک مسجد بنائی جائے گی جس میں پانچ سو در ہوں گے اور بارہ۱۲/ عادل امام جماعت اس میں نماز پڑھائیں گے میں نے کہا:یا امیر الموٴ منین!(علیہ السلام)
------
(۱)نعمانی، غیبة، ص۳۱۹؛بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۶۵
(۲)نعمانی ،غیبة، ص۳۱۸؛بحارالانوار،ج ۵۲، ص۳۶۴
(۳)نعمانی، غیبة، ص۳۱۸؛بحارالانوار،ج ۵۲، ص۳۶۴
(۴)الارشاد، ص۳۶۵؛کشف الغمہ، ج۳،ص۲۶۵؛نور الثقلین ،ج۵،ص۲۷؛روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۵
(۵)مجمع البحرین ،ج۶، ص۱۱۱
جس طرح آپ بیان کر رہے ہیں کیا مسجد کوفہ میں لوگوں کی اتنی گنجائش ہوگی؟توآپ نے کہا: وہاں چار مسجد بنائی جائے گی کہ موجود ہ مسجد کوفہ ان سب سے چھوٹی ہوگی اور یہ مسجد (مسجدحیرہ جو پانچ سو در والی ہے)اور دو ایسی مسجدیں کہ شہر کوفہ کے دو طرف میں واقع ہوں گی بنائی جائیں گی اس وقت حضرت نے بصرہ اور مغرب والوں کے دریا کی طرف اشارہ کیا “(۱)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)اپنی تحریک جاری رکھیں گے تاکہ قسطنطنیہ یا اس سے نزدیک مسجدیں بنادی جائیں “(۲)
مفضل کہتے ہیں کہ امام جعفرصادق(علیہ السلام)نے فرمایا:” حضرت قائم(عجل اللہ فر جہ ) قیام کے وقت شہر کوفہ سے باہر ایک ہزار در کی مسجدبنائیں گے“(۳)
شاید (ظھرالکوفہ)سے مراد روایت میں شہر نجف اشرف ہو، چونکہ دانشمندوں نے شہر نجف کو ظہر الکوفہ سے تعبیر کیا ہے۔جناب طوسیۺ کی صریح یا ظاہر روایت جو امام محمد باقر سے منقول ہے ایساہی ہے۔(۴)

۳۔اخلا ق و معنویت میں رشد اور ترقی
امیر الموٴ منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ: لوگ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں عبادت و دین کی طرف مائل ہوں گے اور نماز جماعت سے پڑھیں گے“(۵)
--------
(۱)بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۵۲
(۲)حیرہ کوفہ سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر ایک شہر تھا ساسانیوں کے زمانے میں ملوک لخمی وہاں حکومت کرتا تھا وہ لوگ ایران کی سر پرستی میں تھے لیکن خسرو پرویز نے ۶۰۲ئم میں اس سلسلے کو توڑ ڈالا اور وہاں حاکم معین کیا اور حیرہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں آنے کے بعد بنای کوفہ کی علت سے زوال پذیر ہوا اور دسیوں صدی م سے اور چوتھی صدی ہجری سے قبل کلی طورپر نابود ہو گیا معین، ج۵،ص۴۷۰
(۳)التہذیب، ج۳،ص۲۵۳؛کافی، ج۴،ص۴۲۷؛من لایحضرہ الفقیہ، ج۲،ص۵۲۵؛وسائل الشیعہ، ج۹، ص۱۲ ۴ ؛ مراٴة العقول ،ج۱۸، ص۵۸؛ملاذ الاخیار، ج۵، ص۴۷۸؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۵
(۴)غیبت طوسی،ص۴۶۹اثبات الھداة؛۳،ص۵۱۵؛بحا رالانوار؛ج۵۲،ص۳۳۰
(5)احقاق الحق، ج۱۳،ص۳۱۲؛
امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” کوفہ کے گھر کربلا و حیرہ سے متصل ہوجائیں گے اس طرح سے کہ ایک نماز گذار نما ز جمعہ میں شرکت کے لئے تیز رفتار سواری پر سوار ہوگا، لیکن وہاں تک نہیں پہنچ سکے گا “(۱)
شایدیہ کنایہ آبادی کی زیادتی اور لوگوں کے اژدہام کی جانب ہو جو نماز جمعہ میں شرکت سے مانع ہو اور جو یہ کہا گیا ہے کہ تمام نماز گذار یکجا ہو جائیں گے اور ایک نماز جمعہ ہوگی شاید اس کی وجہ تین شہروں کا ایک ہو جانا ہو ، اس لئے کہ شرعی لحاظ سے ایک شہر میں ایک ہی نماز جمعہ ہو سکتی ہے۔
فیض کاشانی نے ابن عربی کی بات نقل کی ہے جس کے بارے میں احتمال ہے کہ شاید کسی معصوم سے ہو:” حضرت قائم کے قیام کے وقت ایک شخص اپنی رات نادانی ،بزدلی کنجوسی میں گذارے گا لیکن صبح ہوتے ہی سب سے زیادہ عاقل ،شجاع ، جو ادانسان ہو جائے گا اور کا میابی حضرت کے آگے آگے قدم چومے گی“(۲)
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم کے قیام کے وقت لوگوں کے دلوں سے کینے ختم ہو جائیں گے “(۳)
نیز پیغمبر اکر م اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” اس زمانے میں کینے اور دشمنی دلوں سے ختم ہو جائے گی “(۴)
شیعوں کے دوسرے پیشوا اخلاقی فسادو انحراف کے بارے میں فرماتے ہیں : ”خداوندعالم
-------
(۱)الارشاد، ص۳۶۲؛طوسی، غیبة، ص۲۹۵؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۳۷؛وافی،ج۲، ص۱۱۲؛ بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۰،۳۳۷
(۲)عقدالدرر، ص۱۵۹
(۳)طوسی ،غیبة، ص۲۹۵؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۳۷؛وافی، ج۲،ص۱۱۲؛بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۳۰،۳۳۷
(۴)وافی، ج۲،ص۱۱۳بہ نقل از: فتوحات مکیہ
آخر زمانہ میں ایک شخص کو مبعوث کرے گا کہ کوئی فاسد و منحرف نہیں رہ جائے گا مگر یہ کہ اس کی اصلاح ہو جائے“(۱)حضرت کے زمانہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ حرص و طمع لوگوں کے درمیان سے ختم ہو جائیں گی اور بے نیازی پیدا ہو جائے گی ۔
رسول خدا فرماتے ہیں:” جس وقت حضرت قائم قیام کریں گے، تو خداوند عالم لوگوں کے دلوں کو غنی و بے نیازی سے بھر دے گا ،اس درجہ کہ حضرت اعلان کریں گے جسے مال و دولت چاہئے وہ میرے پاس آئے لیکن کوئی آگے نہیں بڑھے گا“(۲)
اس روایت میں ،قابل غور و توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس حدیث میں لفظ”عباد“کا استعمال ہوا ہے؛ یعنی روحی دگر گونی و تغیر کسی گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اندرونی تغیر و تبدیلی تمام انسانوں کے لئے ہے۔
اسی میں آنحضرت فرماتے ہیں :”تم کو مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی خوشخبری دے رہا ہوں ، جو لوگوں کے درمیان مبعوث ہوں گے، جب کہ لوگ آپسی کشمکش اور اختلاف و تزلزل میں مبتلا ہوں گے پھر اس وقت زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی نیز زمین و آسمان کے ساکن اس سے راضی و خوشنود ہوں گے۔
خدا وند عالم امت محمد کے دل بے نیازی سے بھر دے گا اس طرح سے کہ منادی ندا دے گا جسے بھی مال کی ضرورت ہے آجائے (تاکہ اس کی ضرورت بر طرف ہو)لیکن ایک شخص کے علاوہ کوئی نہیں آئے گا اس وقت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کہیں گے : ”خزانہ دار کے پاس جاوٴ اور اس سے کہو کہ مہدی نے حکم دیا ہے کہ مجھے مال و ثروت دیدو“خزانہ دار کہے گا :دونوں ہاتھوں سے پیسہ جمع کروو ہ بھی پیسے اپنے دامن میں بھرے گا؛ لیکن ابھی وہاں سے باہر نہیں نکلے گا کہ پشیمان
-------
(۱)خصال ،ج۲،ص۲۵۴،ح۱۰۵۱
(۲)عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۴۰۲؛ابن حماد، فتن ،ص۱۶۲؛ابن طاوٴ س، ملاحم، ص۱۵۲
ہوگا اور خود سے کہے گا کیا ہو ا کہ میں محمد کی امت کا سب سے لالچی انسان ٹھہرا !کیا جو سب کی بے نیازی و غنا کا باعث بنا ہے وہ ہمیں بے نیاز کرنے سے ناتواں ہے پھر اس وقت واپس آکر تمام مال لوٹا دے گا ؛لیکن خزانہ دار قبول نہیں کرے گا اور کہے گا ہم جو چیزدیدیتے ہیں وہ واپس نہیں لیتے۔(۱) روایت میں( یملاء قلوب امة محمد) کا جملہ استعما ل ہوا ہے تو شایان غور و دقت ہے اس لئے کہ غناء و بے نیازی کا ذکر نہیں ہے بلکہ روح کی بے نیازی مذکور ہے ممکن ہے کہ ایک انسان فقیر ہو لیکن اس کی روح بے نیازو مطمئن ہوگی اس روایت میں(یملاٴ قلوب امة محمد) کے جملے کااستعمال یہ بتا تا ہے کہ ان کے دل بے نیاز و مطمئن ہیں اس کے علاوہ مالی اعتبار سے بھی بہتر حالت ہوگی۔
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں اخلاقی کمال ،قلبی قوت، عقلی رشد و اضافہ کے بارے میں چند روایت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب قائم(علیہ السلام) قیام کریں گے، تو اپنا ہاتھ بندگان خدا کے سروں پر پھیریں گے ان کی عقلوں کو جمع کریں گے (رشد عطا کریں گے اورایک مرکز پرلگا دیں گے)ان کے اخلاق کو کامل کریں گے“(۲)
بحار الانوار میں (احلامھم)کا استعمال ہوا ہے یعنی ان کی آرزوٴ ں کو پورا کریں گے۔ ( ۳ )
امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) جب اسلامی قوانین کو بطور کامل اجراء کریں گے تو لوگوں کی رشد فکری میں اضافہ کا باعث ہوگا نیز رسول خدا کا ہدف کہ آپ کہتے تھے :” میں لوگوں کے اخلاق کامل کرنے کے لئے مبعوث ہوا ہوں “محقق ہوگا۔(عملی ہو جائے گا)
رسول خدا حضرت فاطمہ( سلام اللہ علیہا) سے فرماتے ہیں : ”خدا وند عالم ان
----------
(۱)منن الرحمن ،ج۲،ص۴۲؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۲۴نقل از :امیر الموٴ منین علیہ السلام
(۲)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۱؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۸۶؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۷
(۳)احمد ،مسند ،ج۳،ص۳۷،۵۲؛جامع احادیث الشیعہ، ج۲،ص۳۴؛احقا ق الحق ،ج۱۳، ص۱۴۶
دونوں (حسن وحسین علیہما السلام ) کی نسل سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو گمراہی کے قلعوں کو فتح اور سیاہ دل،کور باطن، مردہ ضمیروں کو تسخیر کرے گا ۔“(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : امیر الموٴ منین (علیہ السلام) نے فرمایا : ”ایک شخص میرے فرزندوں میں ظہور کرے گا اور اپنے ہاتھ بندگان خدا کے سرپر رکھے گا اس وقت ہر مومن کا دل لوہے سے زیادہ مضبوط اور سندان(جس پر لوہار لوہا کوٹتے ہیں)سے زیادہ محکم تر ہو جائے گا اور ہر شخص چالیس مرد کی قوت کا مالک ہوگا“(۲)
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور حکومت کے افراد دنیا کے فریب کا یقین کرتے ہوئے تمام مصیبتوں و گناہوں کو جان لیں گے نیز تقویٰ و ایمان کے لحاظ سے ایسے ہو جائیں گے کہ پھر دنیا انھیں فریب نہیں دے پائے گی۔
رسول خدا فرماتے ہیں : ”زمین اپنے سینے میںمحفوظ بہتر سے بہتر چیزوں کو باہر نکال دے گی جیسے سونے چاندی کے ٹکڑے ،اس وقت قاتل آئے گا اور کہے گا ہم نے ان چیزوں کے لئے قتل کیا ہے جس نے قطع رحم کیا ہے کہے گا یہ قطع رحم کا باعث ہوا ہے چور کہے گا اس کے لئے میرا ہاتھ قطع ہوا ہے پھر سب سونے کو پھینک دیں گے اورکوئی بھی اس سے کچھ نہیں لے گا“(۳)
زید زراء کہتے ہیں میں نے امام صادق(علیہ السلام) سے عرض کی: مجھے خوف ہے کہ کہیں میں مومنین میں نہ رہوں آپ نے کہا:” کیوں؟“میں نے کہا : چونکہ میں اپنے درمیان، کوئی ایسا شخص نہیں پا رہا ہوں جو درہم و دینا ر پر اپنے دینی بھائی کو مقدم کرے بلکہ دیکھ رہا ہوں کہ درہم و
--------
(۱)کافی ،ج۱،ص۱۵؛خرائج، ج۲،ص۸۴۰؛کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۵
(۲)بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۶
(۳)عقد الدرر ،ص۱۵۲؛حقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۱۶؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۴۸،۴۹۵
دینارہمارے نزدیک اُن براد ر دینی وا یمانی پر اہمیت رکھتے ہیں جو امیر الموٴ منین (علیہ السلام) کی ولایت و دوستی کا دم بھرتے ہیں ۔
حضرت نے کہا : ”نہیں، تم ایسے نہیں ہو بلکہ تم مومن ہو؛ لیکن تمہارا ایمان ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور سے قبل کامل نہیں ہوگا اس وقت خدا وند عالم تمہیں برد باری ،وصبر عطا کرے گا پھر اس وقت کامل مومن بن جاوٴ گے“(۱)
-------
(۱)کما ل الدین ،ج۲،ص۶۵۳؛دلائل الامامہ، ص۲۴۳؛کامل الزیارات، ص۱۱۹