حصہ سوم
پہلی فصل
حکومت حق
دنیا کی وسعت اور گسترش کے باوجوداس کا ادارہ کرنا ایک دشوار و مشکل کام ہے جو صرف الٰہی راہبر اور دلسوز و ہمدرد کار گذار، الٰہی نظام اور اسلامی حکومت کے اعتقاد کے ساتھ ہی امکان پذیر ہے ۔(ممکن ہے)
امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) دنیا کا ادارہ کرنے کے لئے ایسے ایسے وزراء بھیجیں جو جنگی سابقہ رکھتے ہوں گے اور تجربہ و عمل کے اعتبار سے اپنی پایداری و ثبات قدمی کا مظاہرہ کریں گے۔
صوبہ کا مالک اپنی بھاری بھر کم شخصیت کے ساتھ صوبوں کی اداری ذمہ داری قبول کرے گا جو صرف اسلامی حکومت اور خوشنودی خدا وندی کا خواہش مند ہوگا ظاہر ہے کہ جس ملک کے ذمہ دار ایسے ہوں گے وہ مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں نیز گذشتہ حکومتوں کی تباہی، کامیابی میں تبدیل ہوجائے گی اور ایسی حالت ہو جائے گی کہ زندہ افراد مردوں کی دوبارہ حیات کی آرزو کریں گے۔
توجہ رکھنا چاہئے کہ حضرت (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت امور کی باگ ڈور ہاتھ میں لیں گے جب دنیا بے سر سامانی اورلاکھوں زخمی ،جسمی و روحانی اورذ ھنی بیماریوں سے بھری ہوگی دنیا پر تباہی و بربادی سایہ فگن ناامنی و بے چینی عالم پر محیط ہوگی شہر، جنگ کی وجہ سے ویران ہو چکے ہوں گے کھیتیاں آلودہ فضا کی وجہ سے خراب اور روزی میں کمی ہوگی۔
دوسری طرف دنیا والوں نے احزاب، پارٹیاں، کمیٹیاں حکومتیں دیکھی ہیں جو دعویدار تھیں اور ہیں، کہ اگر حکومت مجھے مل جائے، تو دنیا اور اہل دنیا کی خدمت کریں اور چین و سکون ،راحت و آرام اقتصادی حالت کو بہتر بنادیں گے لیکن ہر ایک عملی طورپر ایک دوسرے سے بُرا ہی ثابت ہوتا ہے سوائے فتنہ و فساد ، قتل و غارت گری ، ویرانی کے کچھ نہیں دیتے ۔کمیونسٹ نے تلاش کی ۔مالوٴیزم اپنے راہبروں کی نظر میں معتوب ٹھہرا ۔ مغربی ڈیموکراسی نے انسان فریبی کے علاوہ کوئی نعرہ نہیں لگایا۔
آخر میں ایک ایسادن آئے گا کہ عدل و عدالت ایک قوی خدا رسیدہ الٰہی انسان کے ہاتھ میں ہوگی اور ظلم و جور سے مردہ زمین پر عدالت قائم ہوگی وہ اس شعار کے اجرا کرنے میں ((یَمْلَا ءُ الْاَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلاً ))”زمین کو عدل و انصاف سے بھردیں گے “مصمم ہوں گے جس کے آثار ہر جگہ ظاہر ہوں گے۔(۱)
حضرت، حکومت اس طرح تشکیل دیں گے اور لوگوں کو ایسی تربیت کریں گے کہ ذہنوں سے ستم مٹ چکا ہوگا بلکہ روایات کی تعبیر کے اعتبار سے پھر کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا حدیہ کہ حیوانات بھی ظلم و تعدی سے باز آجائیں گے گوسفند ،بھڑیئے ایک ساتھ بیٹھیں گے۔
ام سلمیٰ کہتی ہیں :رسول خدا نے فرمایا : ”مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) سماج میں ایسی عدالت قائم کریں گے کہ زندہ افراد آرزوکریں گے ،کہ کاش ہمارے مردے زندہ ہوتے اور اس عدالت سے فیضیاب ہوتے“
امام محمد باقر(علیہ السلام) آیہ شریفہ<وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ یُحِْیْ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَاْ>(۲)
------
(۱)مجمع الزوائد، ج۷، ص۳۱۵؛الاذاعہ، ص۱۱۹؛حقاق الحق ،ج۱۳،ص۲۹۴ (۲)سورہٴ بقرہ آیت ۲۵۱
”جان لو کہ خداوندعالم زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرے گا“ کی تفسیر فرماتے ہیں : خدا وند عالم زمین کو حضرت قائم کے ذریعہ زندہ کرے گا آنحضرت زمین پر عدالت برپا کریں گے اور اسے عادلانہ انداز سے زندہ کریں گے جب کہ ظلم و جور سے مردہ ہو چکی ہوگی “(۱)
نیز امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : خدا کی قسم یقینی طور پر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی عدالت گھروں کے اندر بلکہ کمروں میں نفوذ کر چکی ہوگی جس طرح سردی و گرمی کا اثر ہوتا ہے“(۲)
ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ بعض گروہ کے چاہنے اور مخالفت کے باوجود، عدالت پوری دنیا میں بغیر استثناء قائم ہوگی ۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) آیہ شریفہ <اَلَّذِیْنَ اِنْ مَکَّنَّاھُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَاْمُوْا اْلصَّلٰوةّ َ >(۳)”اگر زمین میں ان لوگوں کو حاکم بنادیں تو وہ نماز قائم کریں گے وغیرہ ‘ ‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :یہ آیت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے ناصروں کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔خدا وند عالم ان کے ذریعہ اپنے دین کو ظاہر کرے گا اس طرح سے کہ ظلم و ستم کا خاتمہ اور بدعت کا نشان تک مٹ جائے گا “(۴)
امام رضا(علیہ السلام) اسی سلسلے میں فرماتے ہیں : ”جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)
--------
(۱)کما ل الدین، ص۶۶۸؛المحجہ، ص۴۱۹؛نور الثقلین ،ج۵،ص۲۴۲؛ینابیع المودة، ص۴۲۹؛ بحار الانوار ،ج۵۱، ص۵۴
(۲)نعمانی ،غیبة، ص۱۵۹؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۴۴؛بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۶۲
(۳)سورہٴ حج آیت ۴۱
(۴)تفسیر صافی، ج۲،ص۸۷؛المحجہ، ص۱۴۳؛احقا ق الحق، ج۱۳،ص۳۴۱
ظہور کریں گے تو معاشرہ میں ایسی میزان عدالت قائم کریں گے جس کے بعد پھر کوئی ظلم نہیں کرے گا ۔ (۱)
نیز حضرت امیر الموٴمنین (علیہ السلام)فرماتے ہیں:”حضرت کسانوں اور لوگوں کے درمیان عادلانہ رویہ اپنائیں گے“(۲)
جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے امام محمد باقر(علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیاکہ یہ پانچ سو درہم بابت زکات ہیں اسے لے لیجئے ! امام نے کہا:”اسے تم خود ہی اپنے پاس رکھو اور اپنے پڑوسیوں ،بیماروں ،ضرورت مندمسلمانوں کو دیدو“ پھر فرمایا: جب ہمارے مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو برابر سے مال تقسیم کریں گے اور عدالت کے ساتھ ان سے رفتار رکھیں گے جو ان کی پیروی کرے گا، گویااس نے خدا کی پیروی کی ہے اور جو نافرمانی کرے ،خدا کا نافرمان شمار ہوگا اسی وجہ سے حضرت کا نام مہدی رکھا گیا ہے کہ پوشیدہ امور ومسائل سے آگاہ ہوتے ہیں ۔(۳)
حضرت مہدی کی عدالت زمانے میں اتنی وسیع ہوگی کہ شرعی اولویت کی بھی رعایت ہوگی یعنی جو لو گ واجبات انجام دیتے ہیں، ان پر مستحبات انجام دینے والوں کو، مقدم رکھا جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت قائم کے زمانے میں اسلام اور الٰہی حکومت کا پوری دنیا میں بول بالا ہوگا،تو فطری ہے کہ الٰہی نعروں کی ناقابل وصف شان و شوکت ظاہر ہو
حج ابراہیمی شعار الٰہی کا ایک جز ہے جو حکومت اسلامی کی وسعت سے پھر کوئی حج پر جانے سے مانع و رکاوٹ نہیں ہوگی اور لوگ باڑھ کی مانند کعبہ کی سمت روانہ ہوں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ کعبہ کے اردگردایک بھیڑ اژدہام ہوگا اور اتنا کہ حج کرنے والوں کے لئے کافی نہ ہوگا پھر امام(علیہ السلام)
-------
(۱)کمال الدین، ص۳۷۲؛کفایة الاثر، ص۲۷۰؛ اعلام الوری، ص۴۰۸؛کشف الغمہ، ج۳، ص۳۱۴؛فرائد السمطین ، ج۲،ص۳۳۶؛ینابیع المودة ،ص۴۴۸؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۲۱؛ احقاق الحق، ج۱۳، ص۳۶۴
(۲)اثبات الہداة، ج۳،ص۴۹۶
(۳)عقدالدرر، ص۳۹ ؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۸۶
حکم دیں گے اولویت ان کو ہے جو واجب ادا کرنے آتے ہیں امام صادق(علیہ السلام) کے بقول یہ سب سے پہلی عدالت کی جلوہ گاہ ہوگی۔
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”سب سے پہلے حضرت (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی عدالت سے جو چیز آشکار ہوگی وہ یہ کہ حضرت اعلان کریں گے کہ جو لوگ مستحبی حج ،مناسک اور حجر اسود کو چومنے اورمستحبی طواف انجام دینے جارہے ہیں وہ واجب حج ادا کرنے والوں کے حوالے کردیں “(۱)
الف) دلوں پر حکومت
واضح ہے کہ کوئی حکومت مختصر مدت میں دشواریوں پر حاکم ہو اور بے سرو سامانی کا خاتمہ اور دلوں سے یاس و نا امیدی کو ختم کرے اوران دلوں میں امید کی لہر دوڑ ائے تو یقینا لوگ اس کی حمایت کریں گے نیز ایسا نظام جو جنگ کی آگ بجھا دے امنیت و آسایش کی راہ ہموار کردے حتی کہ حیوانات اس سے بہرہ مند ہوں یقینا لوگوں کے دلوں پر حاکم ہوگا نیزلوگ ایسی حکومت کے خواہشمند بھی ہیں اس لحاظ سے روایات میں امام سے لگاوٴ اور تمسک کو پسندیدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔
رسول خدا فرماتے ہیں : تم لوگوں کو مہدی قریشی کی بشارت دیتا ہوں جس کی خلافت سے زمین و آسمان کے رہنے والے راضی ہیں“(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” میری امت کا ایک شخص قیام کرے گا جسے زمین و آسمان والے دوست رکھیں گے“(۳) صباح کہتا ہے کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں
-------
(۱)کافی، ج۴،ص۴۲۷؛من لایحضرہ الفقیہ، ج۲،ص۵۲۵؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۷۴
(۲)ینابیع المودة ،ص۴۳۱؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۲۴
(۳)فردوس الاخبار ،ج۴،ص۴۹۶؛اسعاف الراغبین، ص۱۲۴؛احقاق الحق ،ج۱۹،ص۶۶۳؛ الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص ۶ ۱ ۲
بزرگ خرد ہونے اور خرد بزرگ ہونے کی تمنا کریں گے“(۱) شاید اس لئے چھوٹے ہونے کی آرزو ہو کہ وہ زیادہ دن تک حضرت مہدی کی حکومت میں رہنا چاہتے ہوں اور خرد بڑے ہونے کی آرزو اس لئے کریں گے کہ وہ مکلف ہونا چاہتے ہوں گے تاکہ حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی الٰہی حکومت کے پروگرام کو اجراء کرنے میں خاص نقش و کردار پیش کرسکیں اور اخروی جزا کے مالک ہوں۔ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت اس درجہ موثر ہوگی کہ مردے زندہ ہونے کی آرزو کریں گے ۔
حضرت علی(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” میرے فرزندوں میں سے ایک شخص ظہور کرے گا جس کے ظہور اور حکومت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مردے قبر میں رہنا نہیں چاہیں گے مگر یہ کہ وہی تمام سہو لتیں و فوائد انھیں قبر میں حاصل ہوں وہ لوگ ایک دوسرے کے دید ار کو جائیں گے اور حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے قیام کی خوشخبری دیں گے “(۲)
کامل الزیارات میں،(۳)”الفرحة “خوشی و شادمانی کے معنی میں استعما ل ہوا ہے اور لفظ میت کا روایت میں استعما ل قابل غور ہے ،اس لئے کہ یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ عیش و عشرت عمومی و نوعی ہے اور ارواح کے کسی گروہ سے مخصوص نہیں ہے ،اگر اس روایت کو اُن روایات سے ضمیمہ کر دیں جو کہتی ہیں : ”کافروں کی روح بد ترین حالت اور زنجیرو قید خانوں میں زندگی بسر کریں گی “تو اس روایت کے معنی روشن ہو جاتے ہیں ،اس لئے کہ امام کے ظہور کے ساتھ ہی انھیں عذاب سے رہائی
--------
(۱)ابن حماد ،فتن ،ص۹۹؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۷۸؛القول المختصر ،ص۲۱؛متقی ہندی، برہان، ص۸۶؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۰
(۲)کمال الدین ،ج۲،ص۶۵۳؛بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۲۸؛وافی، ج۲، ص۱۱۲ (۳)کامل الزیارات ،ص۳۰
ممکن ہے کہ صباح سے مراد ابن عبد الرحمان مرسی ہوں یا محارب تمیمی کوفی یا ان دونوں کے علاوہسیر اعلام النبلاء،ج۱۴،ص۱۲
کا حکم مل جائے گا یا حالت (گشایش و رحمت کہ فرشتوں کی رفتار کے مطابق عذاب نہیں ہے) دگرگون ہو جائے گی ایک مدت کے لئے خواہ کوتاہ کیوں نہ ہو زمین پر الٰہی حکومت کے تشکیل پانے کے احترام میں کافروں ، منافقوں کی روح سے شکنجہٴ عذاب ختم ہو جائے گا۔
ب)حکومت کا مرکز (پایہٴ تخت)
ابو بصیر کہتے ہیں :امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے فرمایا :” اے ابو محمد! گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ قائم آل محمد اپنے اہل و عیال کے ساتھ مسجد سہلہ میںوارد ہوئے ہیں ‘ ‘ میں نے کہا: کیا ان کا گھر مسجد سہلہ ہے ؟ امام نے کہا:”ہاں؛وہی جگہ جو حضرت ادریس کا ٹھکانا تھی کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہو ا،جب تک وہاں اس نے نماز نہیں پڑھیجو وہاںٹھہرے ایسا ہی ہے کہ رسول خدا کے خیمہ میں ہو ۔کوئی مومن مرد و عورت ایسا نہیں ہے جس کا دل وہاں نہ ہو ہر روز وشب فرشتہ الٰہی اس مسجد میں پناہ لیتے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں اے ابو محمد ! اگر میں بھی تمہارے قریب ہوتا تو میں نماز اسی مسجد میں پڑھتا۔
اُس وقت ہمارے قائم قیام کریں گے ،اورخدا وند عالم اپنے رسول اور ہمارے تمام دشمنوں سے انتقام لے گا “(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مسجد سہلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:” وہ ہمارے صاحب (حضرت مہدی ) (عجل اللہ تعالی فرجہ)کا گھر ہے ،جس وقت وہ اپنے تمام خاندان سمیت وہاں قیام پذیر ہوں گے “(۲)
-----
(۱)کافی،ج۳،ص۴۹۵؛کامل الزیارات، ص۳۰ ؛راوندی، قصص الانبیاء، ص۸۰؛التہذیب، ج۶، ص۳۱؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۸۳؛وسائل الشیعہ، ج۳،ص۵۲۴؛بحارا لانوار،ج ۵۲، ص۳۱۷،۳۷۶؛مستدرک الوسائل ،ج۳،ص۴۱۴
(۲)کافی، ج۳،ص۴۹۵؛ارشاد، ص۳۶۲؛التہذیب، ج۳،ص۲۵۲؛طوسی، غیبة، ص۲۸۲؛وسائل الشیعہ،ج۳، ص۳۲ ۵؛ بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۱ملاذ الاخیار، ج۵،ص۴۷۵
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو کوفہ کی سمت روانہ ہوں گے اور وہیں قیام پذیر ہوں(۱)گے“ نیز آنحضرت فرماتے ہیں:” جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کریں گے تو کوفہ کی سمت جائیں گے، تو ہر مومن حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے آس پاس اُس شہر میں مقیم ہونا چاہے گا یا حد اقل اس شہر میں آئے گا“ (۲)
حضرت امیر (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” ایک روز آئے گا کہ یہ جگہ (مسجد کوفہ)حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کا مصَلیّٰ قرار پائے گی “(۳)
ابو بکر حضرمی کہتے ہیں امام محمد باقر یا امام جعفر صادق (علیہما السلام) سے میں نے کہا: کونسی زمین اللہ اور رسول خدا کے حرم کے بعد زیادہ فضیلت رکھتی ہے؟ تو آپ نے کہا:”اے ابو بکر ! سر زمین کوفہ پاکیزہ جگہ اور اس میں مسجد سہلہ ہے ایسی مسجد ہے جس میں تمام پیغمبروں نے نماز پڑھی ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں سے عدالت الٰہی جلوہ گر ہوگی نیز ا للہ کے قائم اور تمام قیام کرنے والے وہیں ہوں گے یہ پیغمبروں اور ان کے صالح جانشینوں کی جگہ ہے “(۴)
محمد بن فضیل کہتا ہے کہ اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک تمام مومنین کوفہ میں جمع نہ ہوجائیں(۵) رسول خدا فرماتے ہیں:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ۹/۱۰/ سال حکومت کریں گے اور لوگوں میں سب سے زیادہ خوش بخت کوفہ کے لوگ ہیں“( ۶ )
--------
(۱)راوندی، قصص الانبیاء ،ص۸۰ ؛بحار الانوار،ج ۵۲، ص۲۲۵
(۲)بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۸۵؛طوسی ،غیبة، ص۲۷۵تھوڑے سے فرق کے ساتھ
(۳)روضة الواعظین ،ج۲،ص۳۳۷؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۵۲
(۴)کامل الزیارات ،ص۳۰ ؛مستدرک الوسائل ،ج۳،ص۴۱۶
(۵)طوسی ،غیبة، ص۲۷۳؛بحارا لانوار، ج۵۲، ص۳۳۰
(۶)فصل الکوفہ ،ص۲۵ ؛اثبات الہداة، ج۳،ص۶۰۹ ؛حلیة الابرار ،ج۲ ،ص۷۱۹؛اعیان الشیعہ، ج۲،ص۵۱
تمام روایات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شہر کوفہ (امام زمانہ) کی کار کردگی و فعالیت نیز فرمانروائی کا مرکز ہوگا ۔
ج)حکومت مہدی کے کارگذار۔
فطری ہے کہ جس حکومت کی رہبری حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہاتھ میں ہوگی، اس کے عہد یدار و کار گذار بھی امت کے نیک اور صالح افراد ہوں گے اس لحاظ سے، ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ روایات حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت، پیغمبروں ،ان کے جانشینوں، صاحبان تقوا،زمانہ کے نیک افراد ، گذشتہ امتوں اور بزرگ اصحاب پیغمبر کے ذریعہ تشکیل کو بیان کرتی ہیں جن میں بعض کا نام درج ذیل ہے۔
حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)۔اصحاب کہف کے سات آدمی ،یوشع و صی موسیٰ (علیہ السلام) ، مومن آل فرعون ،سلمان فارسی ،ابو دجانہ انصاری،مالک اشتر نخعی و قبیلہٴ ہمدان۔
حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کے بارے میں روایات متعدد الفاظ سے یاد کرتی ہیں کبھی وزیر، جانشین ،کمانڈر، حکومت کے مسوٴل و ذمہ دار وغیرہ۔(۱)
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے وزیر ،راز دار، جانشین ہیں۔ (۲)
اس وقت حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے تو حضرت کے اموال دریافت کرنے کے مسوٴل ہوں گے نیز اصحاب کہف ان کے پیچھے ہوں گے۔(۳)
-------
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۸۳ ؛ابن حماد، فتن، ص۱۶۰
(۲)غایة المرام، ص۶۹۷؛حلیة الابرار ،ج۲،ص۶۲۰
(۳)غایة المرام، ص۶۹۷؛حلیة الابرار، ج۲،ص۶۲۰
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو ۱۷/ افراد کو کعبہ کی پشت سے زندہ کریں گے وہ سترہ/ ۱۷ افراد یہ ہیں پانچ قوم موسیٰ (علیہ السلام) سے وہ لوگ جو حق کے ساتھ فیصلہ کرتے ہوئے عادلانہ رفتار رکھیں گے ،۷/ آدمی اصحاب کہف سے یوشع وصی موسیٰ(علیہ السلام)۔ مومن آل فرعون ، سلمان فارسی، ابودجانہ انصاری ،مالک اشتر نخعی۔ ( ۱ )
بعض روایات میں ان کی تعداد ستائیس تک بیان کی گئی ہے نیز قوم موسیٰ (علیہ السلام) سے چودہ کی تعداد مذکور ہے(۲) اور ایک دوسری روایت میں مقداد کا بھی نام مذکور ہے۔(۳)
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں ”سپاہی حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے
------
(۱)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۳۲؛دلائل الامامہ ،ص۲۷۴؛مجمع البیان ،ج۲،ص۴۸۹؛ارشاد، ص۳۶۵کشف الغمہ، ج۳ ،ص۲۵۶؛روضة الواعظین ،ج۲،ص۲۶۶؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۵۰؛ بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۴۶
(۲)اثبا ت الہداة، ج۳،ص۵۷۳
(۳)مقداد،رسول خدا اور حضرت علی کے اصحاب میں ہیں ان کی عظمت شان کے لئے یہی کافی ہے کہ ایک روایت کے مطابق ،خدا وندعالم نے سات آدمیوں کی وجہ سے کہ ان میں ایک مقداد بھی ہیں ہمیں روزی دیتا ہے اور تمہاری مدد کرتااور بارش نازل کرتا ہے اس نے حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی خلافت و امامت کے موضوع سے بہت ہاتھ پیر مارا اور انتھک کوشش کی ہے ۔
رسول خدا ان کے بارے میں فرماتے ہیں :(کہ خدا وند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں چار شخص کو دوست رکھوں : علی ، مقداد ۻ ،ا بوذرۻاور سلمان فارسی “دوسری روایت میں ہے کہ بہشت مقداد کی مشتاق ہے۔(معجم رجال الحدیث، ج۸، ص۳۱۴)
اس نے دوبارہ ہجرت کی اور مختلف جنگوں میں شرکت کی جنگ بدر میں رسول خدا سے عرض کیا :کہ ہم بنی اسرائیل کی طرح حضرت موسی سے گفتگو نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے پہلو اوہمرکاب دشمن سے لڑیں گے، مقداد حضرت امیر کے شرطة الخمیس کا ایک جز تھے
مقداد نتیجةً۷۰/سال کی عمر میں ۳۳ ء ھ کو”جرف “نامی سر زمین جو ۳۰/میل مدینہ سے دور ہے سرای جاودانی کی سمت کوچ کر گئے ، لوگوں نے بقیع تک آپ کے جنازہ کی تشییع کی اور وہیں سپرد لحد کردیا ۔
آگے آگے ہوں گے اور قبیلہٴ (۱)ہمدان کے لوگ آپ کے وزیر ہوں گے۔(۲)
پھر بھی اس سلسلے میں یوں بیان کیا گیا ہے: -”خدا ترس لوگ حضرت مہدی کے ساتھ ہوں گے، ایسے لوگ جنھوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہی ہے وہی لوگ حضرت کی نصرت کریں گے اور آپ کے وزیر اور امور حکومت کو سنبھالیں گے جو کہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے“(۳)
-------
(۱)ہمدان یمن میں ایک بڑاقبیلہ ہے انھوںنے جنگ تبوک کے بعد حضرت رسول خدا کی خدمت میں ایک نمایندہ بھیجا اور حضرت نے ۹ ئھ میں حضرت امیر الموٴمنین کو یمن روانہ کیا تاکہ ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں رسول خدا کا پیغام پڑھے جانے کے بعد سارے کے سارے مسلمان ہوگئے حضرت علی نے ایک خط میں رسول خدا کو ہمدانی طائفہ کے اسلام کا تذکرہ کیا اور اس خط میں ہمدان پر تین بار دورد بھیجا رسول خدا خط پرھنے کے اس خبر کے شکرانہ کے طور پر سجدہ ٴ شکر بجالائے حضرت علی نے ان کی مدح میں اس طرح بیان کیا ہے :”ہمدان والے دیندار اور نیک اخلاق ہیں، ان کا دین ،ان کی شجاعت اور دشمن کے مقابل ان کے غلبہ نے انھیں زینت بخشی ہے اگر میں جنت کا دربان ہواتو ہمدانیوں سے کہوں گا سلامتی کے سے اس میں داخل ہو جا وٴ ۔
آنحضرت نے معاویہ کی دھمکیوں کے جواب میں ،قبلیہٴ ہمدان کی توانائی و قوت کو اس پر ظاہر کیا اور کہا:”جب ہم نے موت کو سرخ موت پایا ،تو ہمدان طائفہ کو آمادہ کیا، ایک شخص نے حضرت پر اعتراض کیا بہت ممکن تھا کہ لشکر اکٹھا کرنے میں خلل واقع ہو جائے حاضرین واقعہ نے اسے لات گھونسا مارکر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا اور حضرت نے اس کا دیہ دیا ۔
ہمدان کا طائفہ ان تین طائفہ میں ایک تھا جو حضرت کے لشکر کی بھاری اکثریت کو تشکیل دیتا تھا صفین کی ایک جنگ میں داہنا بازو بن کر اپنی بے مثال ثبات قدمی اور پایداری کا مظاہرہ کیا خاص کر ۸۰۰/سو ہمدانی جوانوں نے آخر دم تک استقلال و پایداری دیکھائی اس میں ۱۸۰/ افراد شہید اور زخمی ہوئے اور گیارہ کمانڈر شہید ،اگر پرچم ان میں سے کسی کے ہاتھ سے زمین پر گر جاتا تھا تو دوسرا ہاتھ میں اٹھا لیتا تھا اور اپنے رقیب ”ازد “اور ”بجیلہ “سے جنگ کرنے میں ان کے تین ہزار کو مار ڈالا۔
جنگ صفین کی کسی ایک شب کے موقع پر معاویہ نے چار ہزار افراد کے ساتھ حضرت علی کے لشکر پر شب خون کا ارادہ کیا تو ہمدان کا قبیلہ اس ناپاک ارادہ سے آگاہ ہواتو صبح تک پوری آمادگی کے ساتھ نگہبانی کرتا رہا ،ایک دن معاویہ نے اپنے لشکر سمیت اس قبیلہ سے جنگ شروع کر دی ،لیکن ان سے قابل دید شکست کے ساتھ میدان جنگ سے فرار کر گیامعاویہ نے ”عک“نامی قبیلہ کو ان سے جنگ کے لئے روانہ کیا ہمدانیوں نے ان پر اس طرح حملہ کیا کہ معاویہ کو پیچھے ہٹنے کا حکم دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ۔
حضرت علی نے ان سے فرمائش کی کہ سر زمین حمص کے سپاہیوں کو سرکوب کریں ہمدانی لوگ ان پر بھی حملہ ور ہوئے اور دلیرانہ جنگ کے بعد انھیں شکست دیدی اور معاویہ کے خیمے سے پیچھے ہٹا دیا، ہمدان کا گروہ ہمیشہ حضرت کا مطیع و فرمانبردار تھا اور جب نیزہ پر قرآن بلند کرنے سے حضرت علی کے لشکر کے درمیان اختلاف ہواتو اس قبیلہ کے رئیس نے حضرت سے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے آپ جو حکم دیں گے ہم اجراکریں گے ۔
(۲)عقد الدرر، ص۹۷
(۳)نور الابصار، ص۱۸۷؛وافی، ج۲،ص۱۱۴؛نقل از ”فتوحات مکیہ “
ابن عباس کہتے ہیں : اصحاب کہف حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ناصر ومدد گارہیں۔(۱)
حلبی کہتے ہیں : تمام اصحاب کہف عرب قبیلہ سے ہیں وہ صرف عربی بولتے ہیں اور وہی لوگ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے وزیر ہیں ۔(۲)
مذکور ہ بالا روایات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت کی اتنی بڑی ذمہ داری اور وسیع و عریض اسلامی سر زمین کی مدیریت ہر کس وناکس کو نہیں دی جا سکتی، بلکہ ایسے افراد اس ذمہ دار ی کو قبول کریں گے کے جو بارہا کہ آزمائے ہوئے ہوں اور اپنی صلاحیتوں کو مختلف آزمایشوں میں ثابت کر چکے ہیں۔ اسی لئے ،دیکھتا ہوں کہ، حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت کے وزراء میں حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) سر فہرست ہیں اسی طرح حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت کے لائق و قابل اہمیت افراد میں سلمان فارسی، ابو دجانہ انصاری، مالک اشتر نخعی ہوں گے یہ لوگ رسول خدا اور حضرت امیر الموٴ منین(علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی اپنی استعداد و صلاحیت ظاہر کر چکے ہیں نیز قبیلہٴ ہمدان نے تاریخ اسلام میں حضرت علی(علیہ السلام) کے دور میں نمایاں کام انجام دیئے ہیں لہٰذا اس حکومت کے وہ لوگ بھی منصب دار ہوں گے۔
د)حکومت کی مدت
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت کی کتنی مدت تک ہے اس سلسلے میں شیعہ و سنی کی متعدد روایات ہیں۔ بعض روایات ۷/سال معین کرتی ہیں تو بعض ۹/۱۰/ اور ۲۰/ سال بیان کرتی ہیں بلکہ بعض روایات ہزار سال تک بیان کرتی ہیں، لیکن جو مسلّم اور قطعی ہے وہ یہ کہ آپ کی حکومت
-------
(۱)الدر المنثور، ج۴،ص۲۱۵؛متقی ہندی، برہان، ص۱۵۰؛العطر الوردی، ص۷۰
(۲)السیرة الحلبیہ، ج۱،ص۳۳؛منتخب الاثر، ص۴۸۵
۷/ سال سے کم نہیں ہے نیز بعض ائمہ( علیہم السلام )سے مروی روایات اسی کہ زیادہ تاکید بھی کرتی ہیں ۔
شاید یہ کہا جا سکے کہ مدت حکومت ۷/ سال ہے؛ لیکن اس کے سال اس زمانے کے سالوں سے متفاوت ہوں گے جیسا کہ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ
حضرت مہدی کی حکومت ۷/ سال ہے لیکن ہر سال تمہارے سالوں کے دس سال کے برابر ہے لہٰذا تمہارے اعتبار سے حکومت ۷۰/ سال تک ہوگی“(۱)
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) سات سال حکومت کریں گے کہ ہر سال تمہارے سال سے دس گنا ہوگا“(۲)
حضرت رسول خدا فرماتے ہیں : کہ” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)ہم سے ہیں اور سات سال تک جملہ امور کی دیکھ بھال کریں گے“(۳)
نیز فرماتے ہیں : ”آنحضرت اس امت پر سات سال تک حکومت کریں گے ۔“ ( ۴ )
اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت سات سال تک ہے، اگرکم ہو ورنہ ۹/۱۰ / سال تک ہوگی“(۵) نیز مذکور ہے:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ۹/ سال اس دنیا میں حکومت کریں گے“(۶)
------
(۱)مفید، ارشاد،ص۳۶۳؛طوسی، غیبة، ص۲۸۳؛روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۴؛الصراط المستقیم، ج۲،ص۲۴۱؛ الفصول المھمہ، ص۳۰۲؛الا یقاظ، ص۲۴۹؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۹۱؛ نور الثقلین ، ج۴،ص۱۰۱
(۲) عقدالدرر، ص۲۲۴،۳۲۸؛اثبا ت الہداة، ج۳،ص۶۲۴
(۳)الفصول المھمہ، ص۳۰۲؛ابن بطریق ،عمدہ،، ص۴۳۵؛دلائل الامامہ ،ص۲۵۸؛حنفی ،برہان، ص۹۹؛مجمع الزوائد، ج۷، ص۳۱۴؛فرائد السمطین، ج۲،ص۳۳۰؛عقد الدرر، ص۲۰، ۲۳۶؛شافعی ،بیان، ص۵۰؛حاکم ،مستدرک، ج۴، ص۷ ۵ ۵؛کنزل العمال، ج۱۴، ص۲۶۴؛ کشف الغمہ، ج۳،ص۲۶۲؛ینابیع المودة، ص۴۳۱؛غایة المرام، ص۶۹۸؛بحار الانوار ، ج ۱ ۵ ، ص ۲ ۸
(۴)عقد الدرر، ص۲۰ ؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۸۲
(۵)ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۴۰؛کشف الا ستار، ج۴،ص۱۱۲؛مجمع الزوائد، ج۷، ص۳۱۴
(۶)ابن طاوٴ س، طرائف ،ص۱۷۷
جابر بن عبد اللہ انصاری ۻ نے امام محمد باقر(علیہ السلام) سے سوال کیا:” امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کتنے سال زندگی کریں گے ؟حضرت نے کہا: قیام کے دن سے وفات تک ۱۹/ سال طولانی ہوگی“(۱)
رسول خدا نے فرمایا:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ۲۰/ سال تک حکومت کریں گے اور زمین سے خزانے بر آمد کریں گے، نیز سر زمین شرک کو فتح کریں گے “(۲)
نیز حضرت فرماتے ہیں : مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) میرے فرزندوں میں ہیں اور ۲۰/ سال حکومت کریں گے“(۳)
اسی طرح روایت میں ہے آنحضرت ۱۰/ سال حکومت کریں گے ۔ ( ۴ )
حضرت علی(علیہ السلام) اس سوال کے جواب میں کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کتنے سال حکومت کریں گے ؟ آپ نے فرمایا:” ۳۰/یا ۴۰/ سال حکومت کریں گے “(۵)
امام جعفر صاد ق(علیہ السلام) نے فرمایا:”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہمارے فرزندوں میں ہیں اور اور ان کی حضرت ابراہیم خلیل کی عمر کے برابر عمر ہوگی ۸۰/ سال میں ظہور کریں گے اور چالیس سال حکومت کریں گے “(۶)
-------
(۱)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۳۲۶؛نعمانی، غیبة، ص۳۳۱؛اختصاص، ص۲۵۷؛بحار الانوار،ج ۵۲، ص۲۹۸
(۲)فردوس الاخبار، ج۴،ص۲۲۱؛العلل المتناہیہ، ج۲،ص۸۵۸؛دلائل الامامہ، ص۲۳۳؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۹۳؛بحار الانوار،ج ۵۱، ص۹۱؛ملاحظہ ہو:طبرانی، معجم، ج۸، ص۱۲۰؛اسد الغابہ ،ج۴،ص۳۵۳؛فرائد السمطین، ج۲، ص۳۱۴؛ مجمع الزوائد ،ج۷، ص۳۱۸؛لسان المیزان، ج۴،ص۳۸۳
(۳)کشف الغمہ، ج۳،ص۲۷۱؛ابن بطریق ،عمدہ، ،ص۴۳۹؛بحارا لانوار، ج۵۱، ص۱؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۲ ۵ ۱ ؛ فردوس الاخبار، ج۴،ص۶؛دلائل الامامہ، ص۲۳۳؛عقدالدرر، ص۲۳۹؛ینابیع المودة، ص۴۳۲
(۴)نورا لابصار، ص۱۷۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۲۵؛ملاحظہ ہو:فضل الکوفہ، ص۲۵؛اعیان الشیعہ، ج۲،ص۱ ۵ ؛ ینابیع المودة، ص۴۹۲
(۵)ابن حماد ،فتن ،ص۱۰۴؛کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۹۱
(۶)اثبات الہداة، ج۳،ص۵۷۴
نیز آنحضرت نے فرمایا:” ۱۹/ سال و کچھ مہینے حکومت کریں گے “(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ۳۰۹/ سال حکومت کریں گے؛ جس طرح اصحاب کہف غار میں اتنی مدت رہے ہیں ‘وٴ‘(۲)
مرحوم مجلسی ۺ فرماتے ہیں: جو روایات حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت کی تعین کرتی ہیں ان کی درج ذیل توجیہ کی جا سکتی ہے :بعض روایات تمام مدت حکومت پر دلالت کرتی ہیں بعض حکومت کے ثبات و بر قراری پر بعض سال اور ایام کے اعتبار سے ہیں جن سے ہم آشنا ہیں ۔ بعض احادیث حضرت کے زمانے میں سال و روز پر دلالت کرتی ہیں جو طولانی ہوں گے اور خدا وند عالم حقیقی مطلب سے آگاہ ہے۔(۳)
مرحوم آیة اللہ طبسیۺ(میرے والد بزرگ )ان روایات کو بیان کرنے کے بعد ۷/ سال والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں؛ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ اس معنی میں کہ ہر سال ہمارے سالوں کے مطابق دس سال کے برابر ہوگا ۔(۴)
-------
(۱)نعمانی ،غیبة، ص۳۳۱؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۹۸وج ۵۳، ص۳
(۲)طوسی ،غیبة ،ص۲۸۳؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص ۳۹۰؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۸۴
(۳)بحارالانوار، ج۵۲، ص۲۸۰
(۴)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۲۵
|