حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  ساتویں فصل
سنت محمدی کا احیاء( زندہ کرنا)
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی قضاوت ،جدید احکام نیز جو آپ اصلاح کریں گے، اس کے متعلق بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں؛ ایسے احکام جو موجودہ فقہی متون اور کبھی ظاہر روایات و سنت کے موافق نہیں ہیں بھائی کی میراث کا قانون عالم ذر میں شرابخور، بے نمازی کا قتل،جھوٹے کی پھانسی ، مومن سے سود لینا حرام ہے معاملات میں، مسجدوں کے مناروں کا خاتمہ مساجد کی چھتوں کو توڑدینا انھیں میں سے ہے، جو روش حضرت اپنے کاموں اور امور میں اختیار کریں گے جس کا بیان گذشتہ فصل میں ہو چکا ہے اس طرح ہے۔
روایات میں اس طرح عبارت کی تبدیلی سے جیسے جدید فیصلے ،نئی سنت ،نئی دعائیں ،نئی کتاب کے اسماء کا ذکر ہے کہ ہم اسے صرف سنت محمدی کو زندہ کرنے کانام دیتے ہیں ؛
لیکن دگر گونی و اختلاف کچھ اتنا ہوگا کہ دیکھنے والے لوگ دین جدید سے تعبیر کریں گے۔
جب ایسی روایتوں کا معصومین( علیہم السلام )سے صادر ہونا ثابت ہو جائے ،تو چند نکتوں کی جانب توجہ لازم و ضروری ہوگی :
۱۔بعض احکام الٰہی اگر چہ ان کا سر چشمہ خدا وند عالم ہی ہے لیکن اعلان و اجراء کے شرائط حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے زمانے میں فراہم ہوں گے اور ہی ہیںجو ان احکام کا اعلان اور اجراء کریں گے۔(۱)
------
(۱)کتاب الخمس ،موسوعة الفقہیہ،ایة الخوئی،ج۵،ص۲۰
۲۔مرور زمانہ سے طاقتوروں اور تحریف کرنے والوں کی جانب سے احکام الٰہی میں دگر گونی و تحریفیں واقع ہوئی ہیں حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کے بعد اسے صحیح و درست کردیں گے ۔
کتاب القول المختصر میں ہے کہ کوئی بدعت اور سنت ایسی نہیں ہوگی جس کا پھر سے احیاء نہ کر یں ۔(۱)
۳۔اس لئے بھی کہ جو فقہا ء نے حکم شرعی حاصل کیا ہے قواعد و اصول سے حاصل کیا ہے کبھی حاصل شدہ حکم شرعی واقع کے مطابق نہیں ہو تا، اگرچہ اس استنباط کا نتیجہ مجتہد اور مقلد کے لئے حجت شرعی ہے؛ لیکن امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنی حکومت میں حضرت احکام واقعی کو بیان کریں گے۔
۴۔بعض احکام شرعی خاص شرائط و اضطراری صورت اور تقیہ کے عالم میں غیر واقعی صورت میں بیان ہوئے ہیں جب کہ حضرت کے زمانہ میں تقیہ نہیں ہوگا اور احکام واقعی کی صورت میں بیان ہوں گے۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”جب ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تقیہ ختم ہو جائے گا اور حضرت، تلوار نیام سے باہر نکالیں گے تو لوگوں سے تلوار کا لین دین کریں گے اور بس“(۲)

مذکور بالا موارد سے متعلق چند روایت بیان کرتے ہیں :
امام جعفرصادق(علیہ السلام)ایک مفصل حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: تم مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہمارے امر کے سامنے تسلیم رہو اور تمام امور کی بازگشت ہماری جانب کرو
-------
(۱)قیل -”لایترک بدعة الا ازالھا ولا سنة الاا حیاھا“القول المختصر، ص۲۰
(۲)تاویل الآیات الظاہرہ، ج۲،ص۵۴۰؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۶۴
نیز ہماری اور اپنی حکومت اور فرج کے منتظر رہو جب ہمارے قائم ظہور کریں گے اور ہمارا بولنے والا بولے گا نیز قرآن کی تعلیم دین و احکام کے قوانین نئے سرے سے تمہیں دیں جس طرح رسول خدا پر نازل ہوئے ہیں تو تمہارے علماء حضرت کی اس رفتار کا انکا ر کریں گے اور تم خدا کے دین اور اس کی راہ پر ثابت نہیں رہو گے، مگر تلوار کے ذریعہ جو تمہارے سروں پر سایہ فگن ہوگی۔
خدا وند عالم نے اس امت کے لئے گذشتہ امتوں کی سنت قرار دی ہے لیکن ان لوگوں نے سنت کو تبدیل کر دیا اور دین میں تحریف کر ڈالی کوئی لوگوں کے درمیان رائج حکم نہیں ہے مگر یہ کہ وحی شدہ کے احکام میں تحریف کر دی گئی ہے خدا تم پر رحمت نازل کرے جس چیز کی تمہیں دعوت دی جائے اسے قبول کرو تاکہ مجدددین آجائے “(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب حضرت قائم ظہور کریں گے، تو لوگوں کو نئے سرئے سے اسلام کی دعوت دیں گے اور انھیں اسلام کی راہنمائی کریں گے،جب کہ لوگ پرانے اسلام سے برگشتہ اور گمرا ہ ہو چکے ہوں گے۔(۲) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کسی نئے دین کی پیشکش نہیں کریں گے بلکہ چونکہ لوگ واقعی اسلام سے منحرف ہو چکے ہیں دوبارہ اسی دین کی دعوت دیں گے جس طرح رسول خد ا نے اس کی دعوت دی ہے ۔
امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے برید سے کہا:”اے برید خدا کی قسم کوئی حریم الٰہی ایسی نہیں ہوگی جس سے تجاوز نہ کیا گیا ہو اور اس دنیامیں کتاب خدا وندی و سنت رسول خدا پر کبھی عمل نہیں ہوا اور جس دن امیر الموٴ منین(علیہ السلام) نے رحلت کی ہے اس کے بعد سے لوگوں کے درمیان حدود الٰہی کا اجراء نہیں ہوا“ اس وقت فرمایا:”قسم خدا کی روزو شب ختم نہیں ہوں گے مگر
-------
(۱)کشی ،رجال، ص۱۳۸؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۶۰؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۴۶؛العوالم، ج۳، ص۵۵۸
(۲)مفید ،ارشاد ،ص۳۶۴؛روضةالواعظین، ج۲،ص۲۶۴؛اعلام الوری، ص۴۳۱؛بحار الانوارج، ۵۱ ، ص۳۰
یہ کہ خداوند عالم مردوں کو زندہ ،زندوں کو مردہ کرے گا اور حق اس کے اہل کو لوٹا دے گا اور اپنے آئین کو جو اپنے اوررسول خدا کے لئے پسند کیا ہے باقی رکھے گا۔ تمہیں مبارک ہو مبارک، کہ حق صرف اور صرف تمہارے ہاتھ میں ہے “(۱)
یہ روایت بتاتی ہے کہ دگر گونی و تغیرزیادہ تر شیعوں کے علاوہ ان کے مخالفین کے لئے ہے لیکن بعض موارد میں شیعوں کے لئے بھی۔
اس فصل میں تغیرات ،اصلاحات ،کا امام زمانہ کے زمانے میں تین حصہ میں : احکام جدید، اصلاحات اورعمارتوں کی تجدید اور نئے فیصلوں کا بیان کریں گے۔
الف) احکام جدید
۱۔زنا کار اور زکوة نہ دینے والوں کو پھانسی
ابا ن بن تغلب کہتے ہیں : کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے مجھ سے کہا: ”اسلام میں حکم خدا وندی کے مطابق دو خون حلال ہے، نیز اس وقت تک اس کا کوئی حکم نہیں دے گا جب تک کہ خداوند عالم ہمارے قائم کو نہ بھیج دے وہ خدا کے حکم کے مطابق حکم دیں گے اور کسی سے گواہ و شاہد کے طالب نہیں ہوں گے ۔حضرت زنائے محصنہ کرنے والوں (زن دار مرد،اور شوہر دار عورت) کو سنگسار کریں گے اور جو زکوة نہیں دے گا اس کی گردن مار دیں گے “(۲)
امام جعفر صادق و امام موسیٰ کاظم( علیہما السلام) فرماتے ہیں : ”جب حضرت مہدی
-------
(۱)التہذیب، ج۴،ص۹۶؛ملاذ الاخیار، ج۶، ص۲۵۸
(۲)کافی، ج۳،ص۵۰۳؛الفقیہ، ج۲،ص۱۱؛کمال الدین، ج۲،ص۶۷۱؛وسائل الشیعہ، ج۶، ص۱۹؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۲۵
(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو تین ایسا حکم دیں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے ایسا حکم نہ دیا ہوگا ۔ آنحضرت بوڑھے زنا کار مرد کو پھانسی دیں گے اور زکوة نہ دینے والوں کو قتل کردیں گے ایک برادردینی کی میراث دوسرے برادر دینی کودیں گے (یعنی جو عالم ذر میں باہم بھائی رہے ہوں گے)“(۱)
علامہ حِلّی زکوة نہ دینے والے کی پھانسی کے بارے میں کہتے ہیں: مسلمان ہر زمانہ میں زکوة کے وجوب پر متفق اور زکوة کو اسلام کے پنجگانہ ارکان میں سے ایک جانتے ہیں۔ لہٰذاجو اس کے وجوب کو قبول نہ کرے جبکہ فطری مسلمان ہو اور مسلمانوں کے درمیان نشو ونما پائی ہو، تو اسے بغیر توبہ کے پھانسی دیدیں گے اور اگر مسلمان ملی ہوگا تواسے تین بار مرتد ہونے کے بعد، توبہ کی مہلت دیں گے اس کے بعد پھانسی دیدیں گے۔
یہ احکام اس صورت میں ہیں جب آگاہ و باشعور انسان وجوب کے بارے میں علم رکھتا ہو لیکن اگر وجوب سے ناواقف ہو تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگے گا“(۲ )
مجلسی اول، اس روایت کی شرح میں بعض وجوہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : شاید مراد یہ ہو کہ حضرت ان دو مورد میں اپنے علم کے مطابق حکم اور قضاوت کریں گے اور شاہد کی ضرورت نہیں ہوگی جیسا کہ یہی روش حضرت کے دیگر فیصلوں میں بھی ہوگی ان دو مورد سے اختصاص دینے کا راز اہمیت کے لحاظ سے ہے ۔(۳)
-------
(۱)صدوق ،خصال، باب ۳،ص۱۳۳ ؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۹۵
(۲)تذکرة الفقہاء، ج۵،ص۷کتا ب زکات ؛ملاحظہ ہو:مراٴ ة العقول ،ج۱۶،ص۱۴
(۳)روضة المتقین، ج۳،ص۱۸

۲۔قانون ارث
امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں : خدا وند عالم نے، جسم سے دس ہزارسال قبل ارواح کو خلق فرمایا۔ان میں سے جو ایک دوسرے سے آسمان پر آشنا و متعارف رہے ہیں وہ زمین پر بھی آشنارہیں گے اور جو ایک دوسرے سے اجبنی رہا ہے، زمین پر بھی ایسا ہی ہوگا جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو برادر دینی کو میراث تو دیں گے لیکن نسبی برادر کو محروم کر دیں گے یہی معنی ہیں خداوند عالم کے قول کے سورہ مومنون میں : <فَاِذَاْ نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلاَ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِیذٍ وَلَاْ یَتَسَائَلُوْنَ>(۱)جب صور پھونکاجائے گا تو اس وقت لوگوں کے درمیان کوئی نسب نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی علت دریافت کریں گے۔(۲)
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” خدا وندعالم نے جسم کی خلقت سے دس ہزار سال قبل ،ارواح کے درمیان بھائی چارگی قائم کی لہٰذا جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو برادران دینی جن کے درمیان برادری قائم ہے ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور نسبی بھائی جو ایک ماں باپ سے ہوں گے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے“(۳)

۳۔جھوٹوں کا قتل
امام جعفرصاد ق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”جب حضرت قائم ظہور کریں گے تو سب سے پہلے جھوٹے شیعوں کا تعاقب کریں گے اور انھیں قتل کر ڈالیں گے۔“(۴) احتما ل ہے کہ شاید
-------
(۱)سورہٴ مومنون آیت ۱۰۱
(۲)دلائل الامامہ، ص۲۶۰؛تفسیر برہان ،ج۳،ص۱۲۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۴۰۲
(۳)الفقیہ، ج۴،ص۲۵۴؛صدوق ،عقاید، ص۷۶؛حصینی، ہدایہ، ص۶۴،۸۷؛مختصر البصائر، ص۱۵۹؛روضہ المتقین، ج۱۱،ص۴۱۵؛بحار الانوار، ج۶،ص۲۴۹وج۱۰۱،ص۳۶۷
(۴)کشی، رجال، ص۲۹۹؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۶۱
اس سے مراد منافقین اور مہدویت کے مدعی اور بدعت گذار افراد ہوں جو دین سے لوگوں کے منحرف ہونے کا سبب بنے ہیں ۔

۴۔حکم جزیہ کا خاتمہ
حضرت امیر الموٴ منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”خدا وند عالم دنیا کا اس وقت تک خاتمہ نہیں کرے گا، جب تک حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام نہ کریں اور ہمارے دشمنوں کو نیست و نابود اور جزیہ قبول نہ کریں اور صلیب و بتوں کونہ توڑدیں نیز جنگ کا زمانہ ختم ہوگا اور لوگوں کو مال ودولت لینے کے لئے آواز دیں گے اور ان کے درمیان اموال کو برابر سے تقسیم کریں گے اور لوگوں سے عادلانہ رفتار رکھیں گے“(۱)
رسول خدا نے صلیبوں کے توڑنے اورسوروں کے قتل کرنے کے بارے میں (کہ اس کا مطلب جزیہ کا حکم اور مسیحیت کا دور ختم ہونا ہے) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی ایک منصف فرمانروا کی حیثیت سے ظہور کریں گے صلیبوں کو توڑ اور سوروں کو قتل کر ڈالیں گے نیز اپنے کار گذاروں کو حکم دیں گے،مال ودولت لئے شہروں کا چکر لگائیں تاکہ نیاز مند اسے لے لیں؛ لیکن کوئی نیاز منداور محتاج نہیں ملے گا“ (۲)شاید یہ حدیث مسیحیت اور اہل کتاب کے آخری دور کی طرف اشارہ ہو۔

۵۔ امام حسین (علیہ السلام) کے باقی ماندہ قاتلوں سے انتقام
ہروی کہتے ہیں : میں نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے عرض کیا: یابن رسول اللہ!
-------
(۱)اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۹۶
(۲)عقدالدرر، ص۱۶۶؛القول المختصر ،ص۱۴
امام جعفر صادق(علیہ السلام) کی اس بات کا آپ کی نظر میں کیا مطلب ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ”جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلین کے باقی ماندہ افراد اپنے اباوٴ اجداد کے گناہ کی سزا پائیں گے “کیا ہے؟حضرت امام رضا(علیہ السلام) نے کہا:” یہ بات ٹھیک ہے۔پھر میں نے ان سے کہا کہ اس آیت< وَلاَ تَزِر ُوَاْزِرَة َوِزْر َاُخْرَیٰ> ( ۱) ”کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا “کے کیا معنی ہیں ؟
توآپ نے کہا: جو خدا نے کہا ہے وہ درست ہے لیکن امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلین کے باقی ماندہ افراد اپنے آباوٴ اجداد کے رویہ سے خوشحال ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں اور جوکوئی کسی چیز سے خوش ہو تو وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے انجام دیا ہو اگر کوئی شخص مشرق میں قتل کیا جائے اور دوسرا مغرب میں رہ کر اس قتل پر اظہار خوشی کرے خدا وند عالم کے نزدیک قاتل کے گناہ میں شریک ہے۔
اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کے باقی ماندہ افراد کو نیست و نابود کریں گے؛ اس لئے کہ وہ اپنے آباوٴ اجداد کے کردار پر اظہار خوشی کرتے ہیں“
میں نے کہا : آپ کے قائم سب سے پہلے کس گروہ سے شروع کریں گے ؟ آپ نے کہا: ”بنی شیبہ سے ان کے ہاتھوں کو قطع کریں گے اس لئے کہ وہ مکہ معظمہ میں خانہٴ خدا کے چور ہیں “( ۲)

۶۔رہن و وثیقہ کا حکم
علی کہتے ہیں کہ میرے والد ،سالم نے امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے حدیث ”جو کوئی
--------
(۱)سورہٴ کہف آیت ۹
(۲)علل الشرائع، ج۱،ص۲۱۹؛عیون اخبار الرضا، ج۱،ص۲۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۳؛اثبات الہداة، ج۳، ص۴۵۵
رہن اور وثیقہ حوالہ کرنے پر برادر مومن سے زیادہ مطمئن ہو میں اس سے بیزار ہوں “کے بارے میں میںنے سوال کیا ۔
توامام جعفر صادق(علیہ السلام) نے کہا:” یہ مطلب قائم اہل بیت (علیہم السلام) کے زمانے میں ہے “(۱)

۷۔ تجارت کا فا ئد ہ
سالم کہتا ہے : میں نے امام جعفرصاد ق(علیہ السلام) سے کہا : ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ مومن کابرادر مومن سے سود لینا حرام اور رباہے؟حضرت نے کہا: ”یہ مطلب ہمارے اہل بیت( علیہم السلام) قائم کے ظہور کے وقت ہوگا؛ لیکن آج جایز ہے کہ کوئی شخص کسی مومن سے کچھ فروخت کرے اور اس سے فائدہ حاصل کرے تو جائز ہے۔(۲)
مجلسی اول اس روایت کی سند کو قوی جاننے کے بعد فرماتے ہیں : اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو روایات کسی مومن سے فائدہ لینے کو مکر وہ سمجھتی ہیں اور اسے ربا کہتی ہیں ،مبالغہ نہیں ہے ممکن ہے کہ فی الحال مکروہ ہو، لیکن حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں حرام ہو جائے،(۳) لیکن مجلسی دوم اس روایت کو مجہول قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں : شاید ان دو مورد میں حرمت ،حضرت حجت کے قیام کے زمانے سے مقید ہو۔(۴)
--------
(۱)من لایحضرہ الفقیہ، ج۳،ص۲۰۰؛التہذیب، ج۷، ص۱۷۹؛وسائل الشیعہ، ج۱۳،ص۱۲۳؛ اثبات الہداة،ج ۳ ، ص۴۵۵؛ملاذ الاخیار، ج۱۱، ص۳۱۵
(۲)من لایحضرہ الفقیہ، ج۳،ص۲۰۰؛التہذیب ،ج۷، ص۱۷۹؛وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۱۲۳؛ اثبات الہداة ، ج ۳ ، ص۴۵۵؛ملاذ الاخیار، ج۱۱ ،ص۳۱۵
(۳)روضہ المتقین، ج۷، ص۳۷۵
(۴)ملاذ الاخیار ،ج۱۱، ص۳۱۵
۸۔برادران دینی کا ایک دوسرے کی مدد کرنا
اسحاق کہتے ہیں : میں امام جعفرصاد ق (علیہ السلام)کی خدمت میں تھا کہ حضرت نے برادر مومن کی مدد و تائید کی بات چھیڑدی اوراس وقت کہا-”جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)ظہور کریں گے تو برادران مومن کی مدد اس وقت واجب ہو جائے گی اور چاہئے کہ ان کی مدد کریں“(۱)

۹۔قطایع کا حکم (غیر منقول اموال کا مالک ہونا)
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :”قطایع حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے قیام کے وقت نیست و نابو د ہو جائیں گے ؛اس طرح سے کہ پھر کوئی قطایع کا وجود نہیں ہوگا“(۲)
قطایع ۔یعنی بہت بڑا سرمایہ ،جیسے دیہات میں بے شمار زمینیں اور قلعے ہیں جسے باد شاہوں اور طاقتور افرا د نے اپنے نام درج کرا لیا ہے ساری کی ساری امام زمانے(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے وقت ان کی ہو جائیں گی۔

۱۰۔دولتوں کا حکم
معاذ بن کثیر کہتا ہے کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام)نے فرمایا:” ہمارے خوشحال شیعہ آزاد ہیں کہ جو کچھ حاصل کریں راہ خیر میں خرچ کردیں، لیکن جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو ہر خزانہ دار پر اسی کا ذخیرہ حرام ہو جائے گا مگر یہ کہ اسے حضرت کی خدمت میںلائے تاکہ اس
-------
(۱)صدوق، مصدقہ لاخوان، ص۲۰؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۹۵
(۲)قرب الاسناد، ص۵۴؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰۹؛و ج۹۷،ص۵۸؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۲۳، ۵۸۴ بشارة الاسلام، ص۲۳۴
کے ذریعہ دشمن سے جنگ میں مدد حاصل کریں یہی خدا وند عالم فرماتا ہے کہ <وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھْبَ وَالْفِضَّةَ وَلَاْ یُنْفِقُوْنَھَاْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَاْبٍ اَلِیْمٍ>(۱)
”جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں لیکن اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی بشارت دیدو۔“(۲)

ب)اجتماعی اصلاح،مسجد کی عمارت کی تجدید
۱۔مسجد کوفہ کی تخریب اور اس کے قبلہ کا درست کرنا
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیر الموٴ منین (علیہ السلام) کوفہ میں داخل ہوتے وقت جب کہ اس وقت ٹھیکریوں اور مٹی سے بنا ہوا تھا فرمایا :” اس شخص پروای ہو جس نے تجھے ویران و کھنڈر کردیا اس شخص پر وای ہو جس نے تیری بربادی کی آسانی پیدا کی ہے، اس پر وای ہو جس نے نرم و پختہ مٹی سے بنایا اور حضرت نوح(علیہ السلام) کے قبلہ کا رخ موڑ دیا۔ پھر بات جاری رکھتے ہوئے اس شخص کومبارک ہو جوحضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانے میں تیری ویرانی کے گواہ ہوں، وہ لوگ امت کے نیک لوگ ہیں جو ہماری عترت کے نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے“(۳)
اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں :” بے شک جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تومسجد کوفہ کو خراب اور اس کے قبلہ کو درست کریں گے “(۴)
--------
(۱)سورہٴ توبہ آیت ۳۶
(۲)کافی،ج۴،ص۶۱؛التہذیب،ج۴،ص۱۴۳؛عیاشی ،تفسیر، ج۲،ص۸۷؛المحجہ، ص۸۹؛ تفسیر صافی، ج۲، ص۴۱ ۳ ؛ تفسیر برہان، ج۲،ص۱۲۱؛نورالثقلین ،ج۲،ص۲۱۳؛بحار الانوار، ج ۳ ۷ ، ص۱۴۳؛مراٴ ة العقول، ج۱۶،ص۱۹۳
(۳)طوسی ،غیبة، ص۲۸۳؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۱۶؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۲
(۴)نعمانی، غیبة، ص۳۱۷؛بحار الانوار، ج ۵۲،ص۳۶۴؛مستدرک الوسائل ،ج۳،ص۳۶۹وج ۱۲،ص۲۹۴
۲۔راستے میں واقع مساجد کی تخریب
ابو بصیر کہتے ہیں : امام محمد باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے، تو کوفے میں چار مسجدکو ویرا ن کر دیں گے نیز کسی بلند پایہ مسجد کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کی اونچائی و کنگورہ کو گرادیں گے اور بغیر بلندی سادہ حالت میں چھوڑدیں گے نیز جو مسجد راستہ میں واقع ہوگی، اُسے گرادیں گے“(۱)
شاید اس سے مراد، وہ چار مسجدیں ہیں جسے لشکر یزید کے سربراہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کے قتل کے بعد شکرانہ کے عنوان سے کوفہ میں بنائی تھیں اور بعدمیں ”مساجد ملعونہ“کے نام سے مشہور ہوئیں اگر چہ آج یہ مساجد موجود نہیں ہیں لیکن ممکن ہے کہ بعد میں ایک گروہ اہل بیت (علیہم السلام)کی دشمنی میں دوبارہ بناڈالے۔ (۲)
امام محمد باقر(علیہ السلام) ان مساجد کے بارے میں فرماتے ہیں :”کوفہ میں قتل حسین (علیہ السلام) پر خوشی منانے کے عنوان سے چار مسجد بنائی گئی یعنی مسجد اشعث، مسجد جریر،مسجد سماک،مسجد شبث بن ربعی“(۳)

۳۔مناروں کی ویرانی
ابو ہاشم جعفری کہتا ہے : امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی خدمت میں تھا توآپ نے فرمایا: جب قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے ،تومنارے اور محراب(۴) کو مساجد سے ویران
---------
(۱)من لایحضرہ الفقیہ ،ج۱،ص۵۳بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۳۳؛اثبات الہداة،ج۳، ص۵۱۷،۵۵۶ الشیعہ والرجعہ ،ج۲،ص۴۰۰؛ملاحظہ ہو:من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۲۳۲؛ ارشاد ، ص۳۶۵؛ روضہ الواعظین، ج۲،ص۲۶۴
(۲)مہدی موعود، ص۹۴۱؛الغارات ،ج۲،ص۳۲۴
(۳)بحار الانوار ،ج۴۵،ص۱۸۹
(۴)مسجد میں خلیفہ یا امام جماعت کے لئے ایک جگہ بنائی تاکہ نماز کی حالت میں وہاں کھڑے ہوں اور دشمن کی دسترس سے محفوظ رہیں
کریں گے میں نے خود سے کہا: حضرت ایسا کیوں کریں گے؟امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے میری طرف رخ کر کے کہا:”اس لئے کہ یہ ایسی بدعت ، نئی تبدیلی ہے جسے رسول خدا اور کسی امام نے ایسا نہیں کیا ہے“(۱)
ایک روایت کے مطابق مرحوم صدوق ۺ کہتے ہیں : کہ حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) نے ایک ایسی مسجد کے پاس سے جس کا منارہ بلند تھا گذرتے وقت کہا: اسے ویران کردو۔(۲)
مجلسی اول کہتے ہیں : کہ ان روایات سے بلند منارے کی مسجد بنانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے؛ اس لئے کہ مسلمانوں کے گھروں پر بلندی و تسلط رکھنا حرام ہے، لیکن اکثر فقہا ء نے اس روایت کو کراہت پر حمل کیا ہے(۳) (یعنی ایسا کرنا مکرو ہ ہے)
مسعودی و طبری کی نقل کے مطابق آپ منبروں کے ویران کرنے کاحکم دیں گے۔(۴)

۴۔مساجد کی چھتوں اور منبروں کی تخریب
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”سب سے پہلے جس چیز کا حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) آغاز کریں گے وہ یہ ہے کہ مساجد کی چھتوں کو توڑ دیں گے۔ اور عریش موسیٰ(۵)کی طرح اس پر سائبان بنائیں گے(۶) (جس سے گرمی و سردی میں بچاوٴ ہو سکے “
--------
(۱)طوسی، غیبة، ص۱۲۳؛ابن شہر آشوب، مناقب ،ج۴،ص۴۳۷؛اعلام الوری، ص۳۵۵؛کشف الغمہ، ج ۳، ص۸ ۲۰ ؛ اثبات الہداة، ج۳،ص۴۱۲؛بحار الانوار،ج۵۰، ص۲۱۵وج ۵۲، ص۲ ۲۳؛مستدرک الوسائل، ج۳،ص ۹ ۷ ۳ ، ۴ ۸ ۳
(۲)من لایحضرہ الفقیہ، ج۲،ص۱۵۵
(۳)روضہ المتقین ،ج۲،ص۱۰۹
(۴)اثبات الوصیہ ،ص۲۱۵؛اعلام الوری، ص۳۵۵
(۵)عریش ایک سائبان ہے جسے اپنے سردی و گرمی اور دھوپ سے سے حفاظت کے لئے بناتے ہیں اور طریحی کی نقل کے مطابق اسے کھجور کی پتیوں یا چھال سے بناتے ہیں اور فصل کھجور کے آخر تک اس میں زندگی گذارتے ہیں اس کا خراب کرنا شاید اس دلیل سے ہے کہ ظہور امام (عج) سے پہلے مساجد سادہ حالت میں ہوجائیں گی اور آرایش کھو بیٹھیں گی منابر کی ویرانی اس دلیل سے ہے کہ یہ لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کے ذمہ دار نہیں رہ جائیں گے بلکہ خائن و ظالم حکام کی تقویت اور مملکت اسلامیہ میں دشمنوں کے نفوذ کی توجیہ بیان ہوگی
(۶)من لایحضرہ الفقیہ، ج۱ ،ص ۱۵۳؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۲۵؛وسائل الشیعہ، ج۳،ص۴۸۸؛روضة المتقین، ج۲،ص۱۰۱
اس روایت کو استحباب پر حمل کیا گیا ہے؛ اس لئے کہ آسمان و نماز گذار کے درمیان کسی مانع اور رکاوٹ کا نہ ہونا مستحب ہے نیز مانع کا نہ ہونانماز و دعا کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔

۵۔مسجد الحرام و مسجد النبی کا اصلی حالت پر لوٹانا
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :”حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) مسجد الحرام کی موجو دہ عمارت توڑ کر پہلے کی طرح اسے پرانی حالت میںتبدیل کردیں گے، نیز مسجد رسول خد ا کو بھی توڑ کر اس کی اصلی حالت پر لوٹادیں گے اور کعبہ کو اس کی اصلی جگہ پرتعمیر کریں گے“(۱)
اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں : جب حضرت قائم قیام کریں گے تو خانہ کعبہ کو اسکی پہلی صورت میں لوٹا دیں گے(۲) نیز مسجد رسول خدا اور مسجد کو فہ میں بھی تبدیلی لائیں گے۔

ج) قضاوت (فیصلہ )
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :خدا وند عالم حضرت مہدی(عجل اللہ فرجہ) کے ظہور کے بعد ایک ہوا کو بھیجے گا جو ہر زمین پر آوازدے گی کہ یہ مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ہیں جو داوٴد و سلیمان کی روش پر فیصلہ کریں گے اور اپنے فیصلہ پر کوئی شاہدو گواہ کے طالب نہیں ہوں گے“(۳)
-------
(۱)ارشاد ،ص۳۶۴؛طوسی، غیبة، ص۲۹۷؛نعمانی ،غیبة، ص۱۷۱اعلام الوری، ص۴۳۱؛ کشف الغمہ، ج۳، ص۵۵ ۲ اثبات الہداة، ج۳،ص۵۱۶؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۲
(۲)اس کی حدود کو صدوق و مجلسی بیان کرتے ہیں ؛ملاحظہ ہو:روضةالمتقین، ج۲، ص۹۴؛ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۱، ص۹ ۱۴
(۳)کافی، ج۱، ص۳۹۷؛کمال الدین، ج۲،ص۶۷۱؛مراٴة العقول، ج۴،ص۳۰۰؛اس حدیث کو مجلسی موثق جانتے ہیں ؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۲۰،۳۳۰،۳۳۶،۳۳۹
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے ایسے احکام اور فیصلے صادرہوں گے کہ بعض آپ کے چاہنے والے اور ہمرکاب تلوا ر چلا نے والے بھی معترض ہوں گے وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی قضاوت ہے لہٰذا حضرت اعتراض کرنے والوں کی گردن ماردیں گے پھر دوسرے انداز میں فیصلہ کریں گے جو حضرت داوٴد کا انداز تھا؛ پھر حضرت کے چاہنے والوں کا دوسرا گروہ اس پر معترض ہوگا تو حضرت اس کی بھی گردن مار دیں گے۔
تیسری دفعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام)کی روش پر فیصلہ کریں گے تو پھر حضرت کے چاہنے والوں کا گروہ معترض ہوگا حضرت اس کی بھی گردن ماردیں گے اور انھیں پھانسی دیدیں گے اس کے بعد حضرت رسول خدا کی روش سے فیصلہ کریں گے توپھر کوئی اعتراض نہیں کرے گا“(۱)
بڑی بڑی نامور کمیٹیاں جو محرومین اور حقوق بشر کا دم بھرتی ہیں وہ ایسی رفتار رکھیں گی کہ بشریت سے دشمنی کے سوا کچھ اور ظاہر نہیں ہوگا۔
حکومت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا انجام دنیا ،کا وارث و مالک ہونا ہے جس میں دشمن اپنی پوری طاقت سے انسانیت کے ساتھ مبارزہ کرے گااور انسانوں کی خاصی تعداد کو قتل کر چکا ہو گا اور جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں دوسری حکومتوں سے نا امید ہو کر ایک ایسی حکومت سے متمسک ہوں گے جو اپنا وعدہ پورے کرے گی۔ یہ وہی مہدی آل محمد کی حکومت ہے۔
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” ہماری حکومت و سلطنت آخری حکومت ہوگی کوئی خاندان ،پارٹی ،گروہ حکومت کا مالک نہیں رہ جائے گا مگر یہ کہ ہم سے پہلے بروی کار آکر وہ
----------
(۱)اثبات الہداة، ج۳،ص۵۸۵؛بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۸۹
بھی اس لئے کہ اگر ہماری حکومت کی روش و سیاست دیکھیں تو نہ کہیں کہ اگر ہم بھی امور کی باگ و ڈور تھامتے تو ایسی رفتار کرتے یہی خدا وند عالم کے قول کے معنی ہیں کہ فرمایا: <وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْن> ( ۱) ”انجام متقین کے لئے ہے“(۲)

د)حکومت عدل
عدالت ،ایک ایسا لفظ ہے جس سے سبھی آشنا ومتعارف ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ عدالت ایک ایسی چیز ہے کہ سب سے ظاہر ہو یہ نیک اور اچھی چیز ہے ذمہ داروں اور حکام سے اس کا ظہور اور بھی اچھی چیز ہے لیکن افسوس کا مقام ہے اکثر زمانوں میں، عدالت کا صرف نام و نشان باقی رہا ہے اور بشریت نے تھوڑے زمانے میں وہ بھی اللہ والوں کی حکومت میں عدالت دیکھی ہے۔
استعمار نے اپنے فائدہ اور اپنی حاکمیت کے نفوذ کی خاطر مختلف شکلوں میں اس مقدس لفظ سے سوء استفادہ کیا ایسے دلکش نعرے سے کچھ گروہ کو اپنے ارد گرد جمع کرتے تو ہیں، لیکن زیادہ دن نہیں گذرتا کہ رسوا ہو جاتے ہیں ،اور اپنی حکومت کے دوام کے لئے طاقت اور نا انصافی کا استعما ل کرنے لگتے ہیں ۔

مرحوم طبرسی کی نظر
مرحوم طبرسی ۺکے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ذریعہ سنت کے زندہ کرنے کے بارے میں اقوال ہیں جسے ہم ذکر کریں گے :
اگر سوال کیا جائے کہ تمام مسلمان معتقد ہیں کہ حضرت ختمی مرتبت کے بعد کوئی
---------
(۱)سورہٴ اعراف آیت ۱۲۷
(۲)ارشاد ،ص۳۴۴؛روضة الواعظین، ص۲۶۵؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۳۳۲
پیغمبر نہیں آئے گا، لیکن تم شیعہ لوگ عقیدہ رکھتے ہو کہ جب حضرت قائم قیام کریں گے، تو اہل کتاب سے جزیہ قبول نہیں کریں گے جو بیس سال سے زیادہ ہو ، اور احکام دین کو نہ جانتا ہوگا اسے قتل کر دیں گے،اور مساجد، دینی زیارت گاہوں کو ویران کرادیں گے اور داوٴد کے طریقہ پر(کہ وہ حکم صادر کرنے میں گواہ نہیں چاہتے تھے )حکم کریں گے اس طرح کی چیزیں تمہاری روایات میں وارد ہوئی ہیں یہ عقیدہ دیانت کے نسخ ہونے اور دینی احکام کے ابطال کا باعث ہے اور حضرت خاتم کے بعد ایک پیغمبر کا تم لوگ اثبات کرتے ہو اگر چہ اس کانام تم لوگ پیغمبر کا نام نہ دو ۔تمہارا جواب کیا ہے؟
ہم کہیں گے: جو کچھ سوال کیا گیا ہے ۔ یعنی یہ کہ قائم جزیہ قبول نہیں کریں گے بیس سالہ شخص جو احکام دینی نہ جانتا ہو اسے قتل کریں گے ہم اس سے باخبر نہیں ہیں اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اس سلسلے میں خصوصی روایات ہیں تو قطعی طور پر اسے قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ ممکن ہے کہ بعض مساجد، زیارت گاہوں کی تخریب سے مراد وہ مساجد اور زیارت گاہیں ہو ں جو تقویٰ و دستور خداوندی کے خلاف بنائی گئی ہوں۔
تو یقینا یہ مشروع و جایز کام ہوگا نیز رسول خدا نے بھی ایسا کام کیا ہے ۔ یہ جو کہا گیا ہے قائم، حضرت داوٴد(علیہ السلام) کی طرح بغیر شاہد کے فیصلہ کریں گے تویہ بھی ہمارے نزدیک قطعی و یقینی نہیں ہے اگر صحیح بھی ہوتو اس کی تاویل اس طرح ہو گی کہ جن موارد میں قضیوں کی حقیقت اور دعوے کی صداقت کا خود علم رکھتے ہیں اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے اور شاہد و دلیل کے طالب نہیں ہوں گے اس لئے کہ اگر امام یا قاضی کسی مطلب پر یقین حاصل کر لے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے علم کے مطابق عمل کرے اور یہ نکتہ دیانت کے منسوخ ہونے کا باعث نہیں ہے ۔
اسی طرح جو یہ بات کہی ہے کہ قائم جزیہ نہیں لیں گے اور گواہ و شاہد کی بات نہیں سنیں گے، اگر یہ درست ہوتو بھی، دیانت کے ختم ہونے کا سبب نہیں ہے اس لئے کہ نسخ اسے کہتے ہیں کہ اس کی دلیل منسوخ شدہ کے بعد ہوا ور ایک ساتھ بھی نہ ہو اگر ہر دودلیل ایک ساتھ ہوں تو ایک کودوسرے کا ناسخ نہیں کہہ سکتے اگر چہ معنی کے اعتبار سے مخالف ہو مثلاً اگر فرض کریں گے شنبہ کے دن فلاں وقت گھر میں سر کاٹو اور اس کے بعد آزاد ہو، تو ایسی بات کو نسخ نہیں کہتے ؛ اس لئے کہ دلیل رافع ،دلیل موجب کے ہمراہ ہے ۔
چونکہ یہ معنی روشن ہو چکے ہیں کہ رسول خدا نے ہمیں بتا یا ہے کہ قائم ہمارے فرزندں میں سے ہیں اس کے حکم کی پیروی کرو اور جو حکم دیں قبول کرو ہم پر واجب ہے کہ ان کی پیروی کریں قائم جو ہمیں حکم دیں اس پر عمل کریں لہٰذا اگر ہم نے ان کے حکم کو قبول کیا ۔اگر چہ بعض گذشتہ احکام سے فرق ہوگا دین اسلام کے احکام کو منسوخ نہیں جانتے ؛ اس لئے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نسخ احکام ایسے موضوع میں جس کی دلیل وارد ہوثابت نہیں ہوتا۔(۱)
--------
(۱)بحار الانوار،ج ۵۲، ص۳۸۳؛اہل سنت سے اسی مضمون کی روایات نقل ہوئی ہیں