حکومت مهدي پر طايرانه نظر
  چھٹی فصل :

دشمنوں سے امام کا سلوک
صدیوں انتظار اوررنج و الم بر داشت کرنے کے بعد ظلم و ستم اور تاریکی کے خاتمہ کا وقت آچکا ہے، خورشید سعادت کا پر تو ظاہر ہوگا اور ایک با عظمت ہستی خداوندعالم کی مدد سے، ظلم و ستم کی بنیاد ڈھانے کے لئے ظہور کرے گی حضرت وسیع پیمانے پر اصلاح اور معنوی و مادی بنیادوں کی تبدیلی کو ختم کریں گے، اور اسلامی سماج کو ایسے راستے پر گامزن کردیں گے جو خوشنودیٴ الٰہی کا خواہا ں ہوگا۔
اس دوران اگر اشخاص ،و احزاب اور پارٹیاں مشکل پیدا کرنا چاہیں کہ اس عظیم قیام میں رکاوٹ پڑجائے نیز خلل اندازی کرکے تحریک کو ضعیف کرنا چاہیں گی تو بشریت کے سب سے بڑے اور دین الٰہی کے زبر دست دشمن ہوں گے، ان کی جزا حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دست زبردست سے فنا ونابودی ہی ہوگی۔
انقلاب امام میں رخنہ اندازوہ لوگ ہوں گے، جن کے ہاتھ انسانیت کے خون سے آلودہ ہوں گے، یا لا ابالی و بے پرواہ ہوں گے، جنھوں نے جرائم پیشہ افراد کے جرم سے خاموشی اختیار کی ہوگی، لیکن حضرت کے پر چم تلے آنے سے سر پیچی کریں گے،یا وہ کج فکرو نافہم ہوں گے، جو اپنی فکروں کو حضرت کی فکر پر ترجیح دیں گے، فطری ہے کہ ایسے لوگ قطعی طور پر سر کوب ہوں تاکہ ہمیشہ کے لئے انسانی سماج ان کے شر سے محفوظ ہو جائے، اس اعتبار سے حضرت کی روش ان لوگوں کے ساتھ نظر اندازی کے علاوہ ہے ۔
اس فصل میں دو بنیادی مطلب کو بیان کریں گے جو روایات سے مستفادہیں ۔

الف) دشمنوں کے مقابل امام کی استقامت
جو کچھ اس حصہ میں قابل غور ہے یہ کہ حضرت دشمنوں سے مقابلے کی صورت میں کسی طرح کی مجاز گوئی سے کام نہیں لیں گے، بلکہ ان میں سے بعض کو جنگ میں نیست ونابود کردیں گے، حتی کہ فراری و زخمیوں کا بھی تعاقب کریں گے، بعض گروہ کو پھانسی اور ان کے گھروں کو ویران کر دیں گے، اور بعض گروہ کو جلا وطن اور بعض کے ہاتھ کاٹ دیں گے۔

۱۔جنگ و کشتار
زرارہ نے حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے سوال کیا کہ کیا حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی وہی رفتار ہوگی جو حضرت رسول خدا کی تھی؟ امام (علیہ السلام) نے کہا: ہرگز وہ رسول خدا کے طریقوں کو (دشمنوں سے مقابلے میں) اختیار نہیں کریں گے، رسول خدا نے نرمی و ملائمت سے رفتار کی تھی، تاکہ ان کادل جیت لیں ،اور لوگ آنحضرت سے مانو س ہو جائیں، لیکن حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی سیاست قتل ہوگی ،اور جو دستور ہے اسی کے مطابق رفتار رکھیں گے۔
-------
نیز کسی کی توبہ قبول نہیں کریں گے، لہٰذا وائے ہو اس پر جو ان کی مخالفت کرے“(۱)
حسن بن ہارون کہتے ہیں :امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے حضور میں تھا کہ معَلی بن خنیس نے حضرت سے سوال کیا :کیا حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کے وقت حضرت
(۱)نعمانی، غیبة، ص۲۳۱؛عقد الدرر، ص۲۲۶؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۳۹؛حلیة الابرار، ج۵،ص۳۲۲؛لیکن اسی کے مقابل اور بھی روایات ہیں جو اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ آپ کی روش رسول اکرم کے مانند ہے نعمانی،ص۲۳۰؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۵۳
امیرالموٴ منین (علیہ السلام)کی روش کے خلاف رفتار رکھیں گے، جب دشمنوں سے مقابلہ ہوگا؟ امام نے کہا: ہاں؛حضرت علی(علیہ السلام) نے نرمی اور ملایمت کا رویہ اختیار کیا چونکہ جانتے تھے ان کے بعد دشمن چاہنے والوں اور شیعوں پر مسلط ہو جائیں گے، لیکن حضرت کا رویہ ان پرتسلط و غلبہ اور انھیں اسیر کرنا ہے، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے بعد کوئی شیعوں پر قابو نہیں پا سکے گا۔(۱)
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں :ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے وقت قتل و غارت گری اور عرق ریزی کے(۲) علاوہ کچھ نہیں ہوگا، نیز جنگ کی کثرت اور ہمہ وقت گھوڑوں پر سوار ہونے کی وجہ سے زیادہ جنگ کی نوبت نہیں آئے گی۔(۳)
مفضل کہتے ہیں : امام جعفر صادق(علیہ السلام)نے حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا درمیان گفتگو ذکر کیا تو میں نے عرض کیا:مجھے امید ہے کہ حضرت کے پروگرام عملی ہواور حکومت آسانی سے بر قرار ہوگی، آپ نے کہا: ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ بہت ہی زیادہ سختیوں کا سامناہو۔(۴)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : علی (علیہ السلام) نے کہا: میرے لئے بھاگنے والوں کو قتل کرنا اور زخمیوں کو ما رڈالناجائز تھا، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا ؛ اس لئے کہ اگر شیعہ قیام کریں تو زخمیوں کو قتل نہ کریں، لیکن حضرت قائم کے لئے جائز و روا ہے کہ فراریوں کو قتل اور زخمیوں کو مار ڈالیں ۔ (۵)
-------
(۱)برقی ،محاسن، ص۳۲۰؛کافی، ج۵،ص۳۳؛علل الشرائع، ص۱۵۰؛التہذیب ،ج۶، ص۱۵۵؛وسائل الشیعہ،ج۱۱، ص۵۷؛مستدرک الوسائل، ج۱۱،ص۵۸؛جامع الحادیث الشیعہ ،ج۱۳،ص۱۰۱
(۲)روایت میں”والعرق “سے مراد، رگ ،اور گردن مارنا ہے
(۳)نعمانی ،غیبة، ص۲۸۵؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۴۳
(۴)نعمانی ،غیبة، ص۲۸۴؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۴۳
(۵)نعمانی ،غیبة، ص۲۳۱؛ملاحظہ ہو:التہذیب، ج۶ ،ص۱۵۴؛وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص۷۵؛ بحار الانوار، ج ۵۲ ، ص۵۳ ۳ ؛ مستدرک الوسائل، ج۱۱،ص۵۴
امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ حضرت کا پروگرام کیا ہے اور وہ کیا کریں گے تو اکثر لوگ حضرت کو نہ دیکھنے کی آرزو کریں گے، اس لئے کہ حضرت بہت زیادہ قتل کریں گے، اور قطعی طور پر پہلی جنگ قبیلہٴ قریش سے ہوگی، پھر قریش کے بعد ہاتھ میں صرف تلوار ہوگی ،نیزانھیں بھی صرف تلوار ہی دیں گے، پھرحضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے کام کی انتہا اس وقت ہوگی جب لوگ کہنے لگیں کہ یہ آل محمد نہیں ہیں،اگر رسول خدا کے اہل بیت (علیہم السلام) میں ہوتے تو رحم کرتے ۔(۱)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) نئے پروگرام و نئی سنت اور جدید قضاوت کے ساتھ قیام کریں گے، عربوں پر بہت سخت زمانہ آئے گا، لہٰذا ان کے لئے شایستہ اور شایان شان یہی ہے کہ دشمنوں کو قتل کردیں۔(۲ )

۲۔پھانسی اور جلا وطنی
عبد اللہ مغیرہ کہتے ہیں : امام جعفر صادق(علیہ السلام)نے فرمایا: جب حضرت قائم آل محمد ظہور کریں گے تو پانچ سو قریش کو کھڑے کھڑے اسی طرح دوسرے پانچ سو کو بھی پھانسی دیں گے ۔
اور اس کام کی ۶/ بار تکرار ہوگی، عبداللہ پوچھتے ہیں : آیا ان کی تعداد اتنی ہو جائے گی ؟
حضرت نے کہا: ”ہاں؛وہ خوداور ان کے چاہنے والے“(۳)
-------
(۱)نعمانی ،غیبة، ص۲۳۱؛عقد الدرر ،ص۲۲۷؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۳۹؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۵۴
(۲)بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۴۹
(۳)مفید ،ارشاد، ص۳۶۴؛روضة الواعظین ،ج۲،ص۲۶۵؛کشف الغمہ ،ج۳،ص۲۵۵؛صراط المستقیم ،ج۲ ، ص۲۵۳؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۲۷؛بحا رالانوار ،ج۲۵،ص۳۳۸،۳۴۹
امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :جب حضرت قائم قیام کریں گے تو ایک ایک ناصبی پر ایمان پیش کریں گے، اگر حقیقت میں انھوں نے قبول کرلیا تو انھیں آزاد کر دیں گے،ورنہ گردن مار دیں گے، یا ان سے جزیہ (ٹیکس) لیں گے، جیسا کہ آج اہل ذِمّہ سے لیتے ہیں ،اور انھیں دیہاتوں اور آبادیوں سے دور جلاوطن کردیں گے۔(۱)
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں:” جب ہمارے قائم ظہور کریں گے تو ہمارے دشمنوں کو چہروں سے تشخیص دیں گے اور ان کا سر اور پاوٴں پکڑ کر تلوار سے ماردیں گے یعنی انھیں نیست و نابود کر دیں گے“(۲)

۳۔ہاتھوں کا قطع کرنا
ہروی کہتا ہے : میں نے امام رضا(علیہ السلام) سے پوچھا: حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) سب سے پہلے کون ساکام کریں گے ؟ حضرت نے کہا: ابتدامیں بنی شیبہ کے سراغ میں جائیں گے ، اور ان کے ہاتھوں کو قطع کریں گے اس لئے کہ وہ لوگ خانہٴ خدا کے چورہیں۔(۳)
امام جعفر صادق (علیہ السلام )فرماتے ہیں:جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو بنی شیبہ کو گرفتار کر کے ان کے ہاتھوں کو قطع کریں گے، اور انھیںلوگوں کے درمیان تشہیر کرتے ہوئے آواز دیں گے کہ یہ لو گ خانہٴ خدا کے چور ہیں۔(۴)
نیز فرماتے ہیں : سب سے پہلے دو بدو مقابلہ بنی شیبہ سے ہے، ان کے ہاتھوں کو قطع کر
-------
(۱)کافی ،ج۸، ص۲۲۷؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۵۰؛مراٴة العقول، ج۲۶،ص۱۶۰؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۵
(۲)احقا ق الحق، ج۱۳،ص۳۵۷؛المحجہ، ص۴۲۹
(۳)عیون اخبارالرضا، ج۱،ص۲۷۳؛علل الشرائع ،ج۱،ص۲۱۹؛بحا رالانوار، ج۵۲،ص۳۱۳
(۴)علل الشرائع ،ج۲، ص۹۶؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۷
کے کعبہ پر لٹکادیں گے، اور حضرت کی طرف سے اعلان ہوگا کہ یہ لوگ خانہ ٴخدا کے چور ہیں۔ (۱)
شیبہ ،فتح مکہ میں مسلمان ہوا تو رسول خدا نے اسے خانہٴ کعبہ کی کنجی سپرد کر دی،اور بنی شیبہ گروہ ایک مدت تک خانہٴ کعبہ کے کلیدبرد ارا وراس کا محافظ رہاہے (۲)
مرحوم مامقانی کہتے ہیں : بنی شیبہ خانہٴ خدا کے چور ہیں انشاء اللہ ان کا ہاتھ اس جرم میں قطع ہوگا اور دیوار کعبہ پر لٹکایا جائے گا ۔(۳)

ب)مختلف گروہ سے مقابلہ
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) جب قیام کریں گے، تو مختلف پارٹیوں اور گروہ سے سامنا ہوگاان میں سے بعض خاص قوم وقبیلہ سے ہوں گے، اور بعض گروہ اسلام کے علاوہ دین کے پیرو ہوں گے، اور بعض گروہ اگر چہ ظاہراً مسلمان ہوں گے ،لیکن ان کی چال منافقانہ ہوگی، وہ مقدس نما اورکج فہم ہوں گے جو حضرت کی مخالفت کریں گے، یا باطل فرقے کی پیروی کرتے ہوں گے، حضرت امام(علیہ السلام) ہر ایک سے ایک خاص جنگ کریں گے، ہم روایات نقل کر کے اسے بیان کریں گے۔

۱۔ قوم ِعرب
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے، تو ان کے اور عرب و قریش کے درمیان صرف اور صرف تلوار حاکم ہوگی“(۴)
-------
(۱)نعمانی، غیبة، ص۱۶۵؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۵۱،۳۶۱
(۲)اسد الغابہ، ج۳،ص۷،۳۷۲
(۳)تنقیح المقال، ج۲،ص۲۴۶
(۴)نعمانی ،غیبة، ص۱۲۲؛بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۳۵۵
پھر حضرت نے اپنے ہاتھ سے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارے اور عربوں کے درمیان سوائے سر کاٹنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔(۱)شاید اس سے مراد اُن کے خود سر اور سرکش حاکم ہوں یا اس سے مراد دیگر مذاہب کے پیر وہوں۔
امام جعفرصادق(علیہ السلام) قریش سے جنگ کے بارے میں فرماتے ہیں:جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو قریش کو نشانہ بنائیں گے انھیں تلوارہی سے رام کریں گے اور تلوار ہی دیں گے۔(۲)
شاید اس سے مراد ”کہ قریش کو تلوار ہی ٹھکانے لگائے گی“یہ ہو کہ قریش حضرت کا حکم نہیں مانیں گے، اور خلل اندازی ومشکل پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور ڈائریکٹ اور بالواسطہ حضرت سے بر سر پیکار ہوں گے، حضرت بھی اسلحے کے علاوہ کوئی تدبیر نہیں کریں گے۔

۲۔اہل کتاب آیہ شریفہٴ<وَلَہ اَسْلَمَ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ طَوْعاً وَکُرْھاً >؛(۳)
جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اپنے اختیار سے یا مجبور اً خدا کی مطیع ہوگی کی تفسیر پوچھی ۔
توامام نے فرمایا: یہ آیت حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب آپ یہود و نصاریٰ ،صابئیان مادہ پرستوں ،اسلام سے بر گشتہ افراد اور کافروں کے خلاف مشرق و مغرب میں قیام کریں گے اور ان پر اسلام پیش کریں گے، جو بھی اپنی مرضی سے قبول کرے گا تو اسے حکم دیں گے کہ نماز پڑھو، زکوة دو، اور تمام وہ چیز جو ایک مسلمان انجام دیتا ہے انجام دو ،اور جو مسلمان نہیں ہوگا ،اس کی گردن مار دیں گے، تاکہ مشرق ومغرب میں کوئی کافر باقی نہ بچے“
------
(۱)نعمانی، غیبة ،ص۱۲۲؛بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۳۵۵
(۲)نعمانی، غیبة ،ص۱۶۵؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۳۵۵
(۳)سورہ ٴآل عمران، آیت ۸۴
عبد اللہ بن بکیر فرماتے ہیں : روئے زمین پر تو بہت سارے لوگ ہیں ،حضرت کیسے سب کو مسلمان کردیں گے یا نہیں تو گردن مار دیں گے؟
امام مو سیٰ کاظم(علیہ السلام) نے فرمایا :جب خدا ارادہ کرے تو معمولی چیز زیادہ اور زیادہ معمولی ہو جاتی ہے،(۱) شہر بن حوشب کہتا ہے : حجاج نے مجھ سے کہا: اے شہر! قرآن میں ایک آیت ہے، جس نے مجھے پر یشان کر دیا ہے، اور اس کے معنی نہیں سمجھ پا رہا ہوں، میں نے کہا:کون سی آیت؟ اس نے کہا جہاں پر خدا وند عالم فرماتا ہے:<وَاِنْ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلاَّ لِیُوِمِنَنَّ بِہیں قَبْلَ مَوْتِہیں>(۲)
” کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہے جو مرنے سے قبل ایمان نہ لائے“ بارہا اتفاق ہوا ہے کہ نصرانی یا یہودی شخص کو میرے پاس لائے گردن مارتا ہوں تو اس وقت ان کے لبوںسے میں خیرہ ہوتا ہوں، لیکن حرکت نہیں کرتے مگر یہ کہ ان کی جان نکل جائے ۔
شہر بن حوشب کہتا ہے : میں نے ان سے کہا : آیت کے معنی یہ نہیں ہیں جو تم خیال کرتے ہو ، بلکہ مراد یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہوں گے اور حضرت کی اقتداء کریں گے تو اس وقت کوئی یہودی اور نصرانی باقی نہیں بچے گا، مگر یہ کہ مرنے سے پہلے اس پر ایمان لے آئے ۔
حجاج نے پوچھا - :یہ تفسیرکہاں سے یاد کی ؟ اور کس نے تمہیں یاد کرایا ہے ؟ میں نے کہا:یہ تفسیر امام محمد باقر(علیہ السلام)نے بتلائی ہے ،حجاج نے کہا: پھر تم نے ایک صاف وشفاف چشمہ سے حاصل کی ہے۔(۳)
-------
(۱)عیاشی ،تفسیر ،ج۱،ص۱۸۳؛نورالثقلین ،ج۱،ص۳۶۲؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۴۹؛تفسیر صافی، ج۱،ص۲۶۷ ؛ بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۴۰
(۲)سورہٴ نساء، آیت ۱۵۹
(۳)ابن اثیر کہتاہے : اُس زمانے میں کوئی اہل ذمہ نہیں رہ جائے گا جو جزیہ دے گا، اس سے مراد یہ ہے کہ اہل ذمہ یا مسلمان ہو جائیں گے یا قتل البتہ اس معنی کے بر خلاف روایات بھی ہیں ؛
رسول خدا فرماتے ہیں : ”قیامت برپا نہیں ہوگی مگر یہ کہ یہودیوں سے جنگ کرو اس گھڑی شکست خوردہ یہودی فرار کریں گے، اور پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے، لیکن پتھر فریاد کرے، گا اے مسلمانو !اے خدا کے بندو!یہودی میری پشت کے پیچھے چھپاہے۔ (۱)
رسول خدا فرماتے ہیں : یہودی دجال کے ہمراہ ہیں وہ فرار کرکے پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے، لیکن درخت و پتھر چّلا کر کہیں گے :اے روح اللہ!یہ یہودی ہے حضرت انھیں قتل کریں گے اور کسی کو بھی باقی نہیںچھوڑیں گے ۔(۲)
البتہ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت کی اہل کتاب سے جنگ ہمیشہ یکسان نہیں ہے، بلکہ بعض مورد میں ان سے جزیہ لے کر انھیں ان کے دین پر باقی رہنے دیں گے، اور کچھ گروہ سے بحث و مناظرہ کر کے ان کو اس طریقے سے اسلام کی دعوت دیں گے ممکن ہے، کہ یہ کہیں کہ ان سے ابتداء میں بحث و مناظرہ کریں گے، اور جو حق سے چشم پوشی کرے، گا اس سے جنگ کریں گے ۔
ابو بصیر کہتے ہیں :میں نے امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے عرض کیا : کیا حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)مسجد سہلہ میں رہیں گے؟ حضرت نے کہا: ”ہاں “پھر سوال کیا ان کی نظر میں اہل ذمہ کیسے ہوں گے ؟ کہا: ان سے صلح آمیز طریقہ رکھیں گے ،جس طرح رسول خدا نے رفتار رکھی ہے اور ذلت آمیز انداز میں جزیہ ادا کرائیں گے ۔(۳)
ابن اثیر کہتا ہے : اس وقت جزیہ دینے والا کوئی اہل ذمہ نہیں ہوگا۔(۴)
-------
(۱)احمد، مسند ،ج۲،ص۳۹۸،۵۲۰
(۲)احمد، مسند، ج۳،ص۳۶۷؛حاکم ،مستدرک، ج۴،ص۵۰۳؛ملاحظہ ہو:ابن حماد، فتن ،ص۱۵۹؛ابن ماجہ، سنن، ج۲،ص۱۳۵۹
(۳)بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۶
(۴)نہایہ، ج۵،ص۱۹۷
ابن شوذب کہتا ہے : اس لئے حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو مہدی کہتے ہیں کہ شام کے کسی پہاڑ کی طرف مبعوث ہوں گے، اور وہاں سے توریت کو نکالیں گے، اور اس کے ذریعہ یہودیوں سے مناظرہ کریں گے، نیز انھیں میں بعض گروہ حضرت پر ایمان آئیں گے۔(۱)

۳۔باطل و منحرف فرقے
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : گروہ مرجہٴ پر وائے ہو ! کل جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو پھر وہ کس شخص کے پاس پناہ لیں گے؟ راوی نے کہا:کہتے ہیں کہ اس وقت ہم اور تم دونوں ہی عدالت کے سامنے یکساں ہوں گے ؟ آپ نے کہا: ان میں سے ہر ایک توبہ کرے توخدا معاف کرے گا، اور اگر اپنے اندر نفاق و دو روئی رکھتا ہو تو خدا وند عالم سوائے اس کے کسی کو جلا وطن نہیں کرے گا،اور اگر ذرہ برابر بھی نفاق کو ظاہر کرے گا تو خداوند عالم اس کا خون مباح کر دے گا، اس کے بعد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، جس طرح قصاب گوسفند وں کی گردن مارتا ہے، انھیں بھی ہلاک کردے گا، پھر اپنے ہاتھ سے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا۔
راوی کہتا ہے : جب حضرت ظہور کریں گے تو تمام امورحضرت کے نفع میں ہو ں گے اور وہ خون نہیں بہائیں گے ،امام (علیہ السلام) نے کہا:نہیں ؛ خدا کی قسم (ایسا نہیں ہوگا) جب تک ہم لوگ ان کا خون نہ بہالیں اور پسینے نہ پونچھ لیں ،پھراپنے ہاتھ سے اپنی پیشانی کی طرف اشارہ کیا۔(۲)
-------
(۱)عقدالدرر، ص۴۰
(۲)نعمانی، غیبة، ص۲۸۳؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۳۵۷
حضرت امیر الموٴ منین(علیہ السلام) نے خوارج کی شکست کے بعدان کی لاشوں کے درمیان سے گذرتے وقت کہا:”تمہیں اس نے قتل کرایا ہے جس نے تمہیں دھوکہ دیا ہے“اس پر سوال کیا گیا:وہ کون ہے؟امام نے جواب دیا:”شیطان اور غلیظ طبیعت لوگ“پھر اصحاب نے کہا: خدا وند عالم نے، قیامت تک کے لئے انھیں ریشہ کن کر دیا ہے۔
حضرت نے کہا: نہیں؛ اس خدا کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے وہ لوگ مردوں کی صلب اور عورتوں کے رحم سے ہوں گے، اور پئے در پئے خروج کریں گے،یہاں تک کہ اشمط نامی شخص کی سر براہی میں دریائے دجلہ و فرات کے درمیان خروج کریں گے، اس وقت میرے اہل بیت( علیہم السلام) سے ایک شخص ان سے جنگ کے لئے روانہ ہوگا،اور انھیں ہلاک کردے گا، اس کے بعد خوارج کا قیامت تک کوئی قیام نہیں ہوگا “(۱)
نیز آنحضرت بشریہ فرقہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے ،تو کوفہ کی سمت روانہ ہوں گے وہاں دس ہزار کی تعداد جنھیں تبریہ(۲) کہتے ہیں کاندھوں پر اسلحے لئے ہوئے حضرت کے لئے رکاوٹ بنیں گے، اور کہیں گے جہاں سے آئے ہو وہیں لوٹ جاوٴ ؛ہمیں فرزند فاطمہ(س) کی کوئی ضرورت نہیں ہے، پھر حضرت تلوار کھینچیں گے اور سب کو تہہ تیغ کردیں گے“(۳)
-------
(۱)مروج الذہب ،ج۲،ص۲۱۸
(۲)زیدیہ فرقہ کا ایک فرقہ تبریہ ہے جو کثیرا لنوی کاباشندہ ہے ان کا عقیدہ سلیمانیہ فرقہ کی طرح ہے جو زیدیہ ہی کی ایک شاخ ہے عثمان کے اسلام و کفر کے بارے میں خاموش و مردد ہیں، اعتقادی مسائل میں معتزلہ کے ہم خیال ہیں، لیکن فقہی فروعات میں زیادہ تر ابو حنفیہ کے پیرو ہیں، ان کا بعض گروہ امام شافعی کا تابع ہے، یا مذہب شیعہ کا بھجة الآمال، ج۱،ص۹۵؛ملل ونحل ،ج ۱ ، ص ۱ ۶ ۱
(۳)ارشاد، ص۳۶۴؛کشف الغمہ، ج۳،ص۲۵۵؛صراط المستقیم ،ج۲،ص۳۵۴؛روضة الواعظین، ج۲، ص۲۶۵؛ اعلام الوری، ص۴۳۱؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۲۸

۴۔مقدس نما لوگ
امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت مہدی کوفہ کی سمت روانہ ہوں گے، تو وہاں تبریہ فرقے کے سولہ ہزار افراد اسلحوں سے لیس حضرت کی راہ میں حائل ہوں گے؛ وہ لوگ قرآن کے قاری اورعلماء دین ہوں گے، جن کی پیشانی پر عبادت کی کثرت سے گھٹا پڑا ہوگا، اور شب بیداری کی وجہ سے چہرے زرد ہوں گے، مگر نفاق سے ڈھکے ہوں گے ،وہ سب ایک آواز ہو کر کہیں گے: اے فرزند فاطمہ(س) جدھر سے آئے ہو، اُدھر ہی لوٹ جاوٴ، اس لئے کہ تمہاری ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) شہر نجف کی پشت سے دو شنبہ کی ظہر سے شام تک ان پر تلوار چلائیں گے، اور سب کو موت کے گھاٹ اتاردیں گے، اس جنگ میں حضرت کا ایک سپاہی بھی زخمی نہیں ہوگا۔(۱)
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں : امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت کو ظہور کے وقت جن مشکلوں کا سامنا ہوگا رسول خدا کی مشکلات کے بقدرہوگا یا اس سے زیادہ“(۲)
فضیل کہتے ہیں: امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے فرمایا: جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو جن مشکلات کا سامنا زمانہ ٴ جاہلیت میں رسول خدا کو ہوا ہے اس سے زیادہ جاہلوں سے انھیں تکلیف و اذیت پہنچے گی۔
میں نے سوال کیا: کیسے او ر کس طرح؟ آپ نے کہا : رسول خدا ایسے زمانہ میں
------
(۱)دلائل الامامہ، ص۲۴۱؛طوسی، غیبة، ص۲۸۳؛اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۱۶؛بحا رالانوار، ج۲،ص۵۹۸
(۲)نعمانی، غیبة ،ص۲۹۷؛حلیةالابرار ،ج۵،ص۳۲۸؛بحارا لانوار ،ج۵۲، ص۳۶۲؛بشارة الاسلام، ص۲۲۲
مبعوث ہوئے تھے جب لوگ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں ، لکڑ یو ں اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے، لیکن حضرت قائم ایسے زمانہ میں ظہور کریں گے جب لوگ آپ کے خلاف قرآن سے احتجاج کریں گے، اور آیات کی آپ کے بر خلاف تاویل کریں گے ۔(۱)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں : حضرت قائم اس درجہ انسانوں کا قتل کریں گے، پنڈلیاں خو ن میں ڈوب جائیں گی ایک شخص آپ کے آبا ء کی اولاد میں سے ان پر اعتراض کرے گا کہ لوگوں کو اپنے سے دور کرر ہے ہو؛ جس طرح گوسفندوں کو دور کرتے ہیں ! کیا یہ رسول کے دستور کے مطابق رفتار ہے؟
حضرت کے ناصروں میں سے ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھے گا، اور کہے گا: خاموش ہوتے ہو یا گردن ماردوں، حضرت کے ہمراہ رسول خدا سے کئے عہدو پیمان کانوشتہ لوگوں کو دیکھائیں گے ۔(۲)

۵۔ ناصبی (دشمنان اہلیبت علیہم السلام)
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو تمام ناصبی اور دشمن اہل بیت (علیہم السلام) پر اسلام پیش کریں گے،اوراقرار کر لیا تو ٹھیک ورنہ قتل کردئے جائیں گے، یا انھیں جزیہ لینے پر مجبور کیا جائے گا، جس طرح آج اہل ذمہ جزیہ دیتے ہیں۔(۳)
--------
(۱)اسی جگہ
(۲)اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۸۵؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۳۸۷
(۳)تفسیر فرات، ص۱۰۰؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۲
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب حضرت ظہور کریں گے تو ہر ایک ناصبی پر ایمان پیش کریں گے؛ اگر قبول کر لیا تو آزاد کر دیں گے، ورنہ گردن مار دیں گے، یا ان سے جزیہ لیں گے، جس طرح اہل ذمّہ سے لیا جاتا ہے، اور انھیں شہر سے دور دیہاتوں میں جلا وطن کر دیں گے ۔ ( ۱)
مرحوم مجلسی ۺ کہتے ہیں : شاید یہ حکم آغاز قیام سے متعلق ہو، اس لئے کہ ظاہری طور پر روایات کہتی ہیں کہ ان سے صرف ایمان قبول کرایا جائے گا،اگر ایمان قبول نہیں کیا تو قتل کر دیئے جائیں گے۔ (۲)
ابو بصیر کہتے ہیں:امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے میں نے عرض کیا:حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا ناصبیوں اور آپ کے دشمنوں سے کیسا سلوک ہوگا تو آپ نے کہا: اے ابو محمد ! ہماری حکومت میں مخالفین کا کچھ حصہ نہیں ہے، خدا وند عالم ہمارے لئے ان کا خون حلال کر دے گا، لیکن آج ہم لوگوں پر ان کا خون حرام ہے، لہٰذا تمہیں کوئی دھوکہ نہ دینے پائے ،اور یہ جان لوجس وقت ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو حضرت(مہدی) خداورسول نیز ہمارے لئے انتقا م لیں گے۔(۳)

۶۔منافقین
آیہٴ<لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا اْلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَاْباً اَلِیْماً>(۴)
”اگر تم کفر و ایمان کے عناصر کو ایک دوسرے سے جدا کرتے توہم صرف کافروں کو درد ناک عذاب دیتے “کی تفسیر میں امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : خداوند عالم نے
-------
(۱)مراٴة العقول، ج۲۶،ص۱۶۰
(۲)بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۶
(۳)سورہٴ فتح، آیت ۲۵
(۴)کمال الدین ،ج۲،ص۴۵۱؛المحجہ ،ص۲۰۶؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۳۵۷
منافقین اورکافرین کی صلب میں مومنین کی امانتیں قرار دی ہیں، حضرت قائم اس وقت ظہور کریں گے جب کافروں اور منافقوں کی صلب سے مومن ظاہر ہو جائیں یعنی مومنین ان سے پیدا ہو جائیں اس کے بعد خدا ان کافروں اور منافقوں کو قتل کر ے گا۔(۱)
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب حضرت قائم قیام کریں گے تو انھیں تم سے مدد مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی،اور تم بہت سارے منافقین سے متعلق حدودالٰہی کاا جرا کریں گے۔ “(۲)
امام حسین (علیہ السلا م) اپنے بیٹے امام سجاد(علیہ السلام) سے فرماتے ہیں : خدا کی قسم میرا خون !اس وقت تک کھولتا رہے گاجب تک کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) مبعوث نہیں ہوتے، اور میرے خون کا فاسق ،کافراور منافقین سے انتقام نہیں لیتے اور ۷۰/ ہزارکو قتل نہیں کرتے ۔(۳)
امام محمدباقر (علیہ السلام)فرماتے ہیں : جب حضرت قائم قیام کریں گے تو وہ کوفہ آئیں گے، اور وہاں تمام منافقین کو (جو حضرت کی امامت کے معتقد نہیں ہیں ) قتل کریں گے، نیز ان کے محلوں کوویران، اور ان کے سپاہیوں سے جنگ کریں گے، اور انھیں اس درجہ قتل کریں گے کہ خدا وند عالم راضی اور خوشنود ہوجائے گا۔(۴)
-------
(۱)التہذیب ،ج۶،ص۱۷۲؛وسائل الشیعہ، ج۱۱،ص۳۸۲؛ملاذ الاخیار، ج۹،ص۴۵۵
(۲)ابن شہر اشوب، مناقب ،ج۴،ص۸۵؛بحار الانوار، ج۴۵،ص۲۹۹
(۳)اثبات الہداة، ج۳،ص۵۲۸؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۸
(۴)سورہٴ حجر، آیت ۳۸

۷۔شیطان
وہب بن جمیع کہتے ہیں :حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے میں نے سوال کیا : جو خداوند عالم نے شیطان سے کہا: <فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَریْن َ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ>: ہاں (شیطان)روز معین اور وقت معلوم تک کے لئے مہلت دی گئی ہے یہ وقت معلوم کس زمانہ میں آئے گا؟ آپ نے کہا : تمہیں کیا گمان ہے کہ یہ دن قیامت کا دن ہے؟خدا وندعالم نے شیطان کو ہمارے قائم کے قیام کے دن تک مہلت دی ہے، جب خدا انھیں مبعوث کر کے قیام کی اجازت دے گا توحضرت مسجد کوفہ کی طرف روانہ ہوں گے ، اس وقت شیطان اپنے گھٹنوں کے بل چلتا ہوا وہاں آئے گا، اور کہے گا:مجھ پر آج کے دن وائے ہو!حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اس کی پیشانی پکڑ کر اس کی گردن مار دیں گے،لہٰذا یہی وقت وقت ِمعلوم ہوگا،جب شیطان کی مہلت کا زمانہ تمام ہوجائے گا۔(۱)
خلاصہ حضرت کی جنگ خوارج ،نوصب،بنی امیہ،بنی عباس،کعبہ کے لٹیروں ،مرجہٴ گروہ،ظالموں ،سفیانی ،دجال،یہود وغیرہ سے ہے مختصر آپ لوگوں سے جنگ کریں گے جو محاذ آرائی اور مخالفت کریں گے نیز جو لوگ حکومت الٰہی کی تشکیل میں رکاوٹ بنیں گے لیکن جو عام کا خیال ہے کہ آنحضرت بے حدو حساب خونریزی کریں گے نعوذ باللہ سفاکی کا مظاہرہ کریں گے یہ صرف دشمنوں کے پروپیگنڈے ہیں کیسے؟یقین کر لیا جائے کہ ایسا کریں گے جب کہ رسول خدا فرماتے ہیں :وہ تمام انسانوں میں سب سے مجھ سے مشابہ ہیں۔
(۴۸)عیاشی، تفسیر ،ج۲،ص۲۴۳؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۵۱؛تفسیر صافی، ج۱،ص۹۰۶؛ تفسیر برہان، ج۲، ص۴۳ ۳ ؛ بحار الانوار، ج۶۰،ص۲۵۴میں نے(موٴلف)حضرت استاد آیة اللہ العظمیٰ وحید خراسانی صاحب سے بھی سنا ہےعلامہ محمد حسین طباطبائی ۺنے اسی مضمون کی دوسری روایت تفسیر قمی سے نقل کی ہے، اور اس کے ذیل میں کہتے ہیں :اکثر آیات ،قیامت کی تفسیر میں اہل بیت سے مروی روایات کبھی آیات کو حضرت مہدی(عج) کے ظہور اور کبھی رجعت تو کبھی قیامت سے تفسیر کرتی ہیں ،شاید اس عتبار سے ہو یہ تین دن حقائق کے ظاہر ہونے کے اعتبار سے مشترک ہوں، اگر چہ شدت و ضعف کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متضاد ہیں ۔ المیز ان فی تفسیر القرآن ،ج۱۲ص۱۸۴؛الرجعة فی احادیث الفرقین