پانچویں فصل :
غیبی امداد
اگر چہ ساری روایات میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے بعداکثر جنگوں کی نسبت میدان رزم سے دی گئی ہے کہ جو پوری دنیا سے چل کر حضرت سے ملحق ہو جائیں گے، لیکن ساری کائنات پر تکنالوجی کی ترقی اور صنعتوں کی پیشرفت اور علمی ارتقاء کے باوجود ظہورسے قبل کامیابی حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے؛ مگر ایک ایسے رہبر کے ذریعہ جس کی مدد و تائید خدا کی طرف سے ہو،انجام پذیر ہو۔
کبھی غیبی امداد اس قدرت میں ہے جو خدا وند عالم نے حضرت کو دی ہے نیز حضرت کرامتیں ظاہر کر کے راستے کی مشکلیں دور کریں گے، یا اتنا رعب و خوف ہوگا جس سے دشمن سپر انداختہ ہو جائے گا، یا خدا وند عالم ملائکہ کو حضرت کی مدد کے لئے بھیجے گا، بعض روایات میں فرشتہ صفت افواج کا بیان ہے کہ وہ لوگ حضرت کے ظہور کے منتظر اور مدد کے لئے آمادہ ہیں، تابوت اور اس میں موجود اشیاء نصرت و مدد کے ایک دوسرے وسیلے کے عنوان سے مذکور ہیں ۔
اس فصل میں اس طرح کی بعض روایات ذکر کریں گے۔
الف) رعب ،خوف اورامام کے اسلحے
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ہمارے قائم کی مدد رعب ، دبدبہ اور خوف کے ذریعہ ہوگی “(۱)
------
(۱)مستدرک الوسائل ،ج۱۲،ص۳۳۵و ج ۱۴،ص۳۵۴
( ان کا رعب دشمنوں کے دلوں میں اتنا ہوگا کہ ڈر سے ہتھیار ڈال دیں گے)
نیز حضرت فرماتے ہیں : ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی تین طرح کے لشکر سے مدد کی جائے گی : فرشتے ،مومنین اور رعب و ہیبت دشمنوں کے دل میں خوف پیدا ہوگا۔(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں : خوف و وحشت امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی قدرت میں شمار ہوں گے اور وہ آپ کے سپاہیوں کے آگے آگے نیز پیچھے کے لحاظ سے بھی یک ماہ کے فاصلہ سے ظاہر ہوگا ۔(۲)
اسی طرح حضرت فرماتے ہیں : خوف و رعب حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے پرچم کے آگے ایک ماہ کے فاصلہ سے نیز پشت سے بھی ایک ماہ کے فاصلہ سے ظاہر ہوگا، اسی طرح داہنے اور بائیں طرف سے بھی ۔(۳)
ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جب حضرت مہدی کسی جگہ کا ارادہ کریں گے تو دشمن پہلے ہی خوف و دہشت میں مبتلاء ہو جائے گا، اور حضرت کے سپاہیوں کے روبرو ہونے اور مقاومت کی صلاحیت کھو بیٹھے گا یہی صورت ہوگی جب حضرت کے لشکر والے کہیں جائیں گے تو کسی میں یورش کرنے کی جراٴت نہ ہوگی؛ اس لئے کہ دشمن حضرت کے لشکر سے خوفزدہ ہوگا یہ تفسیر و توضیح پہلے بیان کی جانے والی روایت سے ظاہر طور پر تضاد رکھتی ہے۔
ب) فرشتے اور جنات
حضرت امیر الموٴ منین علیہ السلام فرماتے ہیں :خداوند عالم حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فرشتوں اور جنات نیز مخلص شیعوں کے ذریعہ مدد کرے گا ۔ (۴)
------
(۱)بحارالانوار، ج۵۲،ص ۳۵۶
(۲)وہی، ص۳۴۳
(۳)نعمانی، غیبة، ص۳۰۸؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۱
(۴)حصینی،الھدایہ،ص۳۱،ارشاد القلوب،ص۲۸۶
ابان بن تغلب کہتے ہیں:امام جعفر صادق(علیہ السلام)نے فرمایا: گویاابھی میںحضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو شہر نجف کی پشت پر دیکھ رہا ہوں جب وہ دنیا کے اس نقطہ پر پہنچ جائیں گے توآپ سیاہ گھوڑے پر جس کے بدن پر سفید چتی ہوگی اور پیشانی پر ایک سفید نشان ہوگا سوار ہوں گے ،دنیا کے شہروں کو فتح کریں گے، دنیا کا ہر شہر قبول کرے گا، نیز حضرت مہدی انھیں شہروں میں ان کے درمیان ہوں گے، جب کہ وہ رسول خدا کا پر چم لہرا رہے ہوں گے ،۳۱۳/ افراد فرشتے اس پرچم کے نیچے ہوں گے، جو برسوں سے ظہور کے منتظر تھے ،اور جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں گے، یہ وہی فرشتے ہیں جو حضرت نوح(علیہ السلام)کے ساتھ کشتی میں،ابراہیم(علیہ السلام) کے ساتھ آگ میں، عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ آسمان کی جانب پرواز کرنے میں ساتھ تھے ۔
اسی طرح چار ہزار فرشتے حضرت کی مدد کو آئیں گے، وہی فرشتے جو سر زمین کربلا پر امام حسین (علیہ السلام) کے ہمرکاب جنگ کے لئے آئے تھے، لیکن اس کی انھیں اجازت نہیں ملی، اور آسمان کی طرف چلے گئے، اور جب اذن جہاد کے ساتھ لوٹے، تو امام حسین (علیہ السلام) شہید ہو چکے تھے اور اس عظیم فیض کے کھو دینے پر مسلسل غمگین و محزون ہیں، اور قیامت تک امام حسین (علیہ السلام)کی ضریح کا طواف اور گریہ کرتے رہیں گے ۔(۱)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں: گویا ابھی میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے یاوروں کو دیکھ رہا ہوں کہ جبرئیل فرشتہ حضرت مہدی کے داہنے جانب میکائیل بائیں جانب اور خوف و ہراس سپاہیوں کے آگے آگے ایک ماہ کے فاصلہ سے معلوم ہو رہا ہے، خدا وند عالم ان کی پانچ ہزار فرشتوں سے مدد کرے گا۔(۲)
------
(۱)کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۲؛نعمانی ،غیبة، ص۳۰۹؛کامل الزیارات ،ص۱۲۰؛العدد القویہ ،ص۷۴؛مستدرک الوسائل ، ج۱۰،ص۲۴۵
(۲)بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۴۳؛نورا لثقلین ،ج۱،ص۳۸۸؛القول المختصر ،ص۲۱
نیز آنحضرت فرماتے ہیں : جن فرشتوں نے رسول خدا کی جنگ بدر میں مدد کی تھی، ابھی تک آسمان پر نہیں گئے، بلکہ حضرت صاحب الامر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی مدد کے لئے زمین پر موجود ہیں ،اور ان کی تعداد پانچ ہزار ہے۔(۱)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لئے ۹۳۱۳ فرشتے آسمان سے آئے ہیں، یہ وہی فرشتے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ تھے جب خداوند عالم نے انھیں آسمان پر بلایاتھا“(۲)
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)تین ہزار فرشتوں کے ذریعہ مورد تائید واقع ہوں گے، وہ لوگ دشمنوں کے چہرے خراب اور کمر توڑ ڈالیں گے۔(۳)
آیہ شریفہٴ<اَتَیٰ اَمْرُ اللّٰہِ فَلَاْ تَسْتَعْجِلُوْہ>(۴)امر الٰہی آپہنچا ہے لہٰذا اس کے بارے میں جلدی نہ کرو، کی تفسیر میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: یہ امر الٰہی ہمارا امر ہے، یعنی خدا وند عالم نے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے لئے حکم دیا ہے کہ جلد بازی نہ کرو؛اس لئے کہ خدا وند عالم تین طرح کے لشکر فرشتوں ،مومنین اوررعب ودبدبہ کے ذریعہ ان کی پشت پناہی کرے گا ،اورہم اپنا حق پائیں گے۔(۵)
-------
(۱)اثبا ت الہداة، ج۳،ص۵۴۹؛نور الثقلین ،ج۱۲،ص۳۸۸؛مستدرک الوسائل، ج۲،ص۴۴۸
(۲)بحار الانوار، ج۱۴،ص۳۳۹ملاحظہ ہو:نعمانی غیبة،ص۳۱۱
(۳)ابن حماد، فتن، ص۱۰۱؛شافعی، بیان، ص۵۱۵؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۷۳؛الصواعق المحرقہ، ص۱۶۷؛کنزل العمال ، ج۴،ص۵۸۹؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۳؛احاق الحق ،ج۱۹،ص۶۵۲
(۴)سورہٴ نحل، آیت ۱
(۵)تاویل الآیات الظاہرہ، ج۱،ص۲۵۲؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۶۲؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۵۶
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو خد اوند عالم فرشتوں کو حکم دے گا کہ مومنین کی مجالس میں شرکت کریں، اور ان پر سلام کریں اور اگر کسی مومن کو حضرت سے کوئی کام ہو گا تو حضرت فرشتوں کو حکم دیں گے کہ انھیں دوش پر اٹھا کر میرے پاس لے آوٴ، اور جب ضرورت بر طرف ہو جائے گی تو پھر اسے پہلی جگہ لوٹا دیں گے ۔
بعض مومنین بادل کے اوپر چلیں گے، اور بعض فرشتوں کے ہمراہ آسمان پر پرواز کریں گے،اور بعض گروہ فرشتوں پر بھی سبقت لے جائیں گے نیز بعض مومنین کو فرشتے قاضی بنائیں گے، اس لئے کہ مومن کی خدا وندعالم کے نزدیک فرشتہ سے بھی زیادہ اہمیت اور قیمت ہے، اتنی کہ بعض مومنین کو سو ہزار فرشتے پر قاضی بنائے گا“(۱)
شاید مومنین کی فرشتوں کے درمیان قضاوت کرنا علمی مسائل میں رفع اختلاف کے عنوان سے ہو ااورس طرح کے اختلافات فرشتوں کی عصمت کے منافی نہیں ہیں ۔
ج)زمین کے فرشتے
محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے علمی میراث اور اندازہ کے بارے میں سوا ل کیا َ؟ تو حضرت نے جواب دیا:خدا وند عالم کے دو شہرہیں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں، ان دو شہروں میں ایسا گروہ رہتا ہے جو نہ ابلیس کو پہچانتا ہے، اور نہ ہی اس کی خلقت کے بارے میں کچھ جانتا ہے، اور جب کچھ دن کے بعد ایک بار ان کی زیارت کرتا ہوں تو مبتلا بہ مسائل اور دعا کی کیفیت کے بارے میں سوا ل کرتے ہیں، اور ہم انھیں سکھاتے ہیں، اسی طرح وہ لوگ حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے وقت کے بارے میں سوال کرتے ہیں،اوروہ لوگ خداوند عالم کی عبادت و پر ستش میں بہت زیادہ ہی کوشاں رہتے ہیں ۔
-------
(۱)دلائل الامامہ، ص۲۴۱؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۷۳
اس شہر میں دروازے ہیں جس کا ہر پلہ سو فرسخ فاصلہ پر ہے، وہ لوگ عبادت ، خدا کی تمجید اور دعاکی بہت کوشش کرتے ہیں، اگر تم لوگ انھیں دیکھوگے تو اپنے کر دار و رفتار کو معمولی شمار کروگے، نیز جب ان میں بعض نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک ماہ تک سجدہ کی حالت میں رہتے ہیں، ان کی غذا اللہ کی ستائش ،لباس پتے اوران کے رخسار نور کے سبب درخشاں ہیں، اگر ہم میں سے کسی امام کے روبروہوتے ہیں تو انھیں چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر ان کے قدموں کی خاک اٹھا کر تبرک حاصل کرتے ہیں، نماز کے وقت ایسی آہ و زاری کرتے ہیںجو طوفان کی صدا سے زیادہ سہمانے والی ہوتی ہے، ان میں سے بعض گروہ جس دن سے حضرت کے ظہور کے منتظر ہیں کبھی اسلحے زمین میں نہیں رکھا ہے اور ان کی حالت ایسی ہی تھی، وہ ہمیشہ خدا وند عالم سے درخواست کرتے ہیں کہ صاحب الامر(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو ظاہر کر دے۔
ان میں ہر ایک، ہزار سال زندہ رہتا ہے، ان کے رخسار سے خدا وندعالم کی بندگی اورتقرب و عاجزی کے آثار نمایا ں ہیں، اور جب ہم ان کے پاس نہیں جاتے ہیں تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان سے راضی نہیں ہیں، اور جس وقت ہم ان کے دیدار کو جاتے ہیں تو وہ دیکھتے رہتے ہیں اور اسی وقت سے ہمارے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں، اور کبھی تھکتے نہیں ۔
جیسا میں نے انھیں سکھایا ہے اسی طرح قرآن پڑھتے ہیں، لیکن کچھ قرائتیں جو ہم نے سکھائی ہیں،اگر لوگوں کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ قبول نہیں کریں گے،اور جو قرآنی مطالب کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور ہم جواب دیتے ہیں، تو اپنے سینہ و فکر کو کھول دیتے ہیں ،نیز وہ ہمارے لئے خدا وند عالم سے طول عمر کی دعاکرتے ہیں، تاکہ ہمیں اپنے ہاتھوں نہ گنوائیں، و ہ جانتے ہیں کہ جو ہم سے سیکھتے ہیں خدا وندعالم کا احسان سمجھتے ہیں ۔
جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو وہ لوگ حضرت کے ہمراہ ہوں گے ، اور امام کے دیگر سپاہیوں پر سبقت حاصل کریں گے، اور خدا وند عالم سے دعاکریں گے کہ وہ اپنے دین کی ان لوگوں کے ذریعہ مدد کرے، ان کا گروہ جوان اور بزرگ دونوں پر مشتمل ہے، اگر کوئی ایک جوان کسی بزرگ کو دیکھتا ہے تو ان کے احترام میں غلام کی طرح بیٹھ جاتا ہے، اور بغیر اجازت اپنی جگہ سے نہیں اٹھتا،نیز جس راہ کو وہ لوگ خود بہتر سمجھتے ہیں اسی راہ سے امام کے خیالات کو جان لیتے ہیں ،اور امام اگر کوئی حکم دیتے ہیں تو اس پر آخر تک باقی رہتے ہیں ،مگر یہ کہ خود حضرت انھیں کوئی دوسرا کام سپرد کردیں۔
اگرمشرق ومغرب والو ں سے جنگ کے لئے جائیں گے، تو انھیں منٹوں میں نیست و نابود کر دیں گے، اور ان پر اسلحوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا، آھنی اسلحے اور تلواریں ان کے پاس ہیں، لیکن آلیاژ(یعنی ہم بستہ) لوہے کے علاوہ ہے، اگر کسی پہاڑ پر تلوار مار دیں تو دوٹکڑے ہو جائے گا،اور اسے اس جگہ سے اکھاڑ پھینکیں گے،امام(عجل اللہ تعالی فرجہ) ان سپاہیوں کو ، ھند،دیلم،کرد،روم، بربر، فارس،جابرسا،جابلقا اور مشرق ومغرب کے دوشہر کی سمت جنگ کے لئے روانہ کریں گے۔
کسی بھی ادیان کے ماننے والوںسے تعارض نہیں کریں گے، مگر یہ کہ پہلے انھیں اسلام اوریکتا پرستی ،پیغمبر کی نبوت اور ہماری ولایت کی دعوت دے دیں، لہٰذا جو قبول کرے گا اسے چھوڑدیں گے، اور جو انکار کرے گا اسے قتل کر ڈالیں گے، اسی طرح سے ہوگا کہ مشرق و مغرب میں صرف مومن رہ جائیں گے۔ (۱)
ان سپاہیوں کا سرسری جایزہ لینے سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ شاید وہ لوگ وہی فرشتے ہیں جو زمین پر کسی جگہ رہ کر حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کا انتظار کر رہے ہیں ۔
د)تابوت موسیٰ (علیہ السلام)
”غایة المرام“ میں رسول خدا سے اس طرح منقول ہے: حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)
-------
(۱)بصائر الدرجات ،ص۱۴۴؛اثبات الہداة ،ج۳ ،ص ۵۲۳؛تبصرہ الولی ،ص۹۷؛بحار الانوار، ج۲۷،ص۴۱و ج۵۴ ، ص۳۳۴
کےظہور کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے زمین پر آئیں گے تو ا نطاکیہ سے کتابیں اکٹھا کریں گے ،خدا وند عالم (ارم ذات العماد)(۱)کے رخ سے پردہ اٹھا دے گا اور جو محل حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی موت سے پہلے بنوایا تھا اسے ظاہر کردیں گے، حضرت ، محل میں موجود ہ چیزوں کو جمع کرکے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیں گے، اور وہ تابوت جسے خدا وند عالم نے ”ارمیا“کو حکم دیا تھا کہ طبرستان کے دریا میں ڈال دو اسے نکال لیں گے،جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) وہارون کے خاندان کی یاد گار ہے اسی تابوت میں ہے، نیز الواح ،موسیٰ(علیہ السلام) عصا، ہارون کی قبا ،نیز دس کیلو وہ غذا جو بنی اسرائیل کے لئے نازل ہوئی تھی اور مرغ بریاں جو اپنے آیندہ کے لئے ذخیرہ کر تے تھے اسی تابوت میں ہے، پھر اس وقت تابوت کی مدد سے شہروں کو فتح کریں گے، اسی طرح کہ اس سے پہلے بھی ایسا کیا ہے۔(۲)
”ینابیع المودة“ معمولی تبدیلی کے ساتھ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے اس بات کی نسبت دیتی ہے کہ حضرت مہدی انطاکیہ کے غار سے کتابیں نکالیں گے،اور حضرت داوٴد (علیہ السلام) کی زبور، طبرستان کے چھوٹے دریا سے باہر نکالیں گے، اس کتاب میں خاندان موسیٰ و ہارون( علیہما السلام) کی یاد گار ہے، فرشتے اسے کاندھے پر اٹھائے ہیں، الواح اور موسیٰ (علیہ السلام) کاعصا اسی میں ہے ۔(۳)
-------
(۱)اس آیہ شریفہ <اِرَم ذاتِ العِماد التی لَمْ یُخلَق مثلھا فی البِلاد>اے رسول کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے شہر ارم کے باشندے جو صاحب اقتدار تھے انھیں کیسا مزہ چکھایا ؟جب کہ ویسا شہر مضبوطی و عظمت کے اعتبار سے دنیا میں نہیں تھا )کی طرف اشارہ ہے سورہ فجر آیت ۸اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ایسا باعظمت و پر رونق شہر دوبارہ حضرت عیسیٰ کے لئے آشکار ہوگا، اور یہ پوشیدہ شہر ظاہر ہو جائے گا
(۲)غایة المرام، ص۶۹۷؛حلیة الابرار، ج۲،ص۶۲۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص ۱۳۶؛ملاحظہ ہو:ابن طاوٴس ،ملاحم ، ص۱۶۶؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۸۹،۵۴۱
(۳)ینا بیع المودة، ص۴۰۱؛ابن حماد، فتن ،ص۱۹۸؛متقی ہندی، برہان ، ص۱۵۷؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۶۷
|